Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 198

سورة الشعراء

وَ لَوۡ نَزَّلۡنٰہُ عَلٰی بَعۡضِ الۡاَعۡجَمِیۡنَ ﴿۱۹۸﴾ۙ

And even if We had revealed it to one among the foreigners

اور اگر ہم اسےکسی عجمی شخص پر نازل فرماتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَقَرَأَهُ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ ۔۔ : ” ْاَعْجَمِيْنَ “ ” أَعْجَمُ “ کی جمع ہے، گونگا یا جو سرے سے عربی نہ جانتا ہو، انسان ہو یا جانور۔ ” أَعْجَمِيٌّ“ کا بھی یہی معنی ہے، اس میں یائے نسبت تاکید کے لیے زیادہ کی گئی ہے۔ ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھوں نے طے کر رکھا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں گے ہی نہیں، اس لیے آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غم زدہ نہ ہوں۔ اگر اب یہ لوگ ایک عربی رسول پر نازل ہونے کی وجہ سے اس قرآن پر ایمان نہیں لا رہے، حالانکہ یہ عظیم ترین معجزہ ہے، جس کی ایک سورت کی مثال بھی وہ نہیں لاسکے، یہ کہہ کر کہ اس نے خود اسے تصنیف کرلیا ہے، تو اگر ہم اس فصیح و بلیغ ترین عربی کلام کو کسی عجمی پر نازل کرتے، جو عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہ جانتا ہوتا اور وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا، جس سے وہ اس کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کر ہی نہ سکتے، پھر بھی یہ لوگ اپنے شدید عناد کی وجہ سے ایمان نہ لاتے، بلکہ اسے جادو کہہ کر یا کوئی اور بہانہ بنا کر جھٹلا دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ) [ یونس : ٩٦، ٩٧ ] ” بیشک وہ لوگ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی، وہ ایمان نہیں لائیں گے، خواہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ “ مزید دیکھیے سورة حجر (١٤، ١٥) اور انعام (١١١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ نَزَّلْنٰہُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ۝ ١٩٨ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ عجم العُجْمَةُ : خلافُ الإبانة، والإِعْجَامُ : الإبهام، واسْتَعْجَمْتُ الدّارَ : إذا بان أهلها ولم يبق فيها عریب، أي : من يبين جوابا، ولذلک قال بعض العرب : خرجت عن بلاد تنطق، كناية عن عمارتها وکون السّكان فيها . والعَجَمُ : خلاف العَرَبِ ، والعَجَمِيُّ منسوبٌ إليهم، والأَعْجَمُ : من في لسانه عُجْمَةٌ ، عربيّا کان، أو غير عربيّ ، اعتبارا بقلّة فهمهم عن العجم . ومنه قيل للبهيمة : عَجْمَاءُ والأَعْجَمِيُّ منسوبٌ إليه . قال : وَلَوْ نَزَّلْناهُ عَلى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ [ الشعراء/ 198] ، علی حذف الیاءات . قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقالُوا لَوْلا فُصِّلَتْ آياتُهُءَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌ [ فصلت/ 44] ، يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ [ النحل/ 103] ، وسمّيت البهيمة عَجْمَاءَ من حيث إنها لا تبین عن نفسها بالعبارة إبانة النّاطق . وقیل : «صلاة النهار عَجْمَاءُ» «2» ، أي : لا يجهر فيها بالقراءة، «وجُرْحُ العَجْمَاءِ جُبَارٌ» «3» ، وأَعْجَمْتُ الکلامَ ضدّ أَعْرَبْتُ ، وأَعْجَمْتُ الکتابةَ : أزلت عُجْمَتَهَا، نحو : أشكيته : إذا أزلت شكايته . وحروف المُعْجَمُ ، روي عن الخلیل «4» أنها هي الحروف المقطّعة لأنها أَعْجَمِيَّةٌ. قال بعضهم : معنی قوله : أَعْجَمِيَّةٌ أنّ الحروف المتجرّدة لا تدلّ علی ما تدلّ عليه الحروف الموصولة «1» . وباب مُعْجَمٌ: مُبْهَمٌ ، والعَجَمُ : النّوى، الواحدة : عَجَمَةٌ ، إمّا لاستتارها في ثَنْيِ ما فيه، وإمّا بما أخفي من أجزائه بضغط المضغ، أو لأنّه أدخل في الفم في حال ما عضّ عليه فأخفي، والعَجْمُ : العَضُّ عليه، وفلانٌ صُلْبُ المَعْجَمِ ، أي : شدیدٌ عند المختبر . ( ع ج م ) العجمۃ کے معنی ابہام اور خفا کے ہیں اور یہ الا بانۃ کی ضد ہے جس کے معنی واضح اور بیان کردینا کے ہیں اور اعجاز کے معنی ہیں مبہم کرنا استعجت الدار گھر سونا ہوگیا اور اس میں جواب دینے والا کوئی نہ رہا سی بنا پر کسی عربی نے آباد شہروں سے کنایہ کرتے ہوئے کہا خرجت عن بلاد تنطق میں شہروں سے نکلا جو آباد تھے العجم غیر عرب کو کہتے ہیں اور العجمی اس کی طرف منسوب ہے الاعجم وہ آدمی جس کی زبان فصیح نہ ہو خواہ عربی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ عرب لوگ عجمی کی گفتگو بہت کم سمجھتے تھے اور الا عجمی اسکی طرف منسوب ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَوْ نَزَّلْناهُ عَلى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ [ الشعراء/ 198] اور اگر ہم اس کو غیر اہل ابان پر اتارتے ۔ میں تخفیف کے لئے یا نسبت کو حزف کردیا گیا ہے ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقالُوا لَوْلا فُصِّلَتْ آياتُهُءَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌ [ فصلت/ 44] اور اگر ہم اس قرآن کو غیر ( زبان ) عربی نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں ( ہماری زبان میں ) کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں کیا ( خوب کہ قرآن تو عجمی اور مخاطب عربی ۔ يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ [ النحل/ 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں اسکی زبان تو عجمی ہے سی سے بھیمۃ ( چوپایہ ) کو عجماء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ناطق کی طرح الفاظ کے ذریعہ اپنے پانی لاضمیر اور ادا نہیں کرسکتا ۔ حدیث میں ہے جر ح العجماء جبار ( چوپایہ اگر کسی کو زخمی کردے تو مالک پر اس کی دیت نہیں ہے اور دن کی نماز کو عجماء کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں قرات بالجہر نہیں ہوتی اعجمت الکلام میں نے بات مبہم رکھی یہ اعربت کی ضد ہے کبھی اعجمت الکلام کے معنی کلام سے ابہام کو دور کرنا بھی آجاتے ہیں جیسا کہ اشکیہہ ( شکایت زائل کرنا ) خلیل سے مروی ہے کہ حروف مقطعہ کو حروف معجمہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اعجمی یعنی گونگے ہوتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ خلیل کا مقصد یہ ہے کہ یہ حروف مفرد ہونے کی صورت میں ان معانی پر دلالت نہیں کرتے جن پر کہ مرکب ہونے کی حالت میں دلالت کرتے ہیں باب معجمہ بندہ دروازہ العجم کھجور کی گٹھلی مفرد عجمۃ اور گٹھلی کو عجمۃ یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گودا کے اندر مخفی ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس کا چبانا مشکل ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ کھاتے وقت اسے بھی منہ میں ڈال لیا جاتا ہے ۔ اور وہ منہ میں مخفی ہوجاتی ہے اور العجم کے معنی چبانے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ فلان صلب العجم یعنی وہ آزمائش میں سخت ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٨۔ ١٩٩) اور اگر بالفرض ہم اس قرآن کریم کو کسی عجمی پر نازل کردیتے جسے عربی زبان سے واقفیت ہی نہیں اور وہ اس قرآن کریم کو ان کے سامنے پڑھ کر سنا دیتا تب بھی یہ لوگ اس کو نہ مانتے۔ کیونکہ جب ایسے شخص پر ایمان نہیں لائے جو ان کی زبان جانتا ہے تو پھر ایسے آدمی کی بات کیسے مانتے جو ان کی زبان سے واقف نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:198) الفائدہ : آیۃ 198199 کو سمجھنے کے لئے یہ امر زیر نظر رہے کہ کفار کا القرآن کو منزل من اللہ تسلیم نہ کرنے ہر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ حضور خود عربی ہیں اور فصیح و بلیغ بھی ہیں اس لئے ان کے لئے ایسا کلام خود بنا لینا کوئی مشکل نہیں یہ ہر دو آیات اس کا رد ہیں۔ علی بعض الاعجمین۔ کسی عجمی (غیر عربی) پر۔ بعض نے عجمی اور اعجمی میں بہ فرق کیا ہے کہ عجمی غیر عربی کو کہتے ہیں اور عجمی غیر فصیح کو خواہ وہ عربی ہی ہو۔ یعنی اگر ہم یہ قرآن پر اتارتے اور وہ ان کو پڑھ کر سناتا تو بھی یہ ایمان نہ لاتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید من جانب اللہ ہونے کے مزید دلائل۔ اہل مکہ ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کے بارے میں ایک سے ایک بڑھ کر بہکی ہوئی بات کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر اعتراض کرتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی عربی سے سیکھ کر پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں پڑھ کر ہمیں سنائے دیتا ہے۔ (النحل : ١٠٣) دوسرے موقع پر خود مطالبہ کرتے یہ قرآن کسی عجمی پر نازل ہونا چاہیے تھا۔ یہ مطالبہ بذات خود ان کی حماقت کی دلیل تھا کیونکہ قرآن مجید عجمی زبان میں ہوتا تو اس کے سمجھنے میں انھیں کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا بالخصوص نزول قرآن کے وقت چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی عرب اَن پڑھ تھے۔ یہاں ان کی بات کا یہ جواب دیا گیا اگر کسی عجمی پر قرآن نازل کیا جاتا اور وہ انھیں قرآن پڑھ کر سناتا تو پھر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ دراصل قرآن مجید کا انکار کرنے والے مجرم ہیں یہ قرآن مجید پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک اذّیت ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ قرآن مجید کے لیے ” سَلَکْنٰہُ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ قرآن مجید اپنی تاثیر کے اعتبار سے مجرموں کے دل میں گھر کرچکا تھا۔ جس وجہ سے وہ علیحدگی میں اس کی تصدیق کرتے لیکن لوگوں کے سامنے اس کا انکار کرتے تھے۔ یعنی کلام پاک کی صداقت تمہارے رگ وپے میں سرایت کرگئی ہے۔ تمہارے دل مان چکے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض اہل علم نے اس کا یہ بھی مفہوم لیا ہے کہ قرآن کی مخالفت کفار کے دل میں رچ بس گئی ہے۔ (وَحَدّثَنِی مُحَمّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ الزّہْرِیّ أَنّہُ حُدّثَ أَنّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ ، وَأَبَا جَہْلِ بْنَ ہِشَامٍ ، وَالْأَخْنَسَ بْنَ شَرِیقِ بْنِ عَمْرِو بْنِ وَہْبٍ الثّقَفِیّ ، حَلِیفَ بَنِی زُہْرَۃَ خَرَجُوا لَیْلَۃً لِیَسْتَمِعُوا مِنْ رَسُول اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ وَہُوَ یُصَلّی مِنْ اللّیْلِ فِی بَیْتِہِ فَأَخَذَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَجْلِسًا یَسْتَمِعُ فیہِ وَکُلّ لَا یَعْلَمُ بِمَکَانِ صَاحِبِہِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوافَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَتَلَاوَمُوا، وَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ لَا تَعُودُوا، فَلَوْ رَآکُمْ بَعْضُ سُفَہَاءِکُمْ لَأَوْقَعْتُمْ فِی نَفْسِہِ شَیْءًا، ثُمّ انْصَرَفُوا حَتّی إذَا کَانَتْ اللّیْلَۃُ الثّانِیَۃُ عَادَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ إلَی مَجْلِسِہِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوا، فَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ مِثْلَ مَا قَالُوا أَوّلَ مَرّۃٍ ثُمّ انْصَرَفُوا حَتّی إذَا کَانَتْ اللّیْلَۃُ الثّالِثَۃُ أَخَذَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَجْلِسَہُ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوا، فَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ لَا نَبْرَحُ حَتّی نَتَعَاہَدَ أَلَا نَعُودَ فَتَعَاہَدُوا عَلَی ذَلِکَ ثُمّ تَفَرّقُوا) [ سیرت ابن ہشام : قِصّۃُ اسْتِمَاعِ قُرَیْشٍ إلَی قِرَاءَ ۃِ النّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” محمد بن مسلم شہاب زہری بیان کرتے ہیں ان تک یہ بات پہنچی ہے کہ ابو سفیان بن حرب، ابو جہل بن ہشام، اخنس بن شریق بن عمر بن وہب الثقفی، حلیف بن زہرہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سننے کے لیے نکلے اور آپ رات کو اپنے گھر میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک چھپ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سننے لگا ان میں کوئی دوسرے کو نہیں جانتا تھا۔ وہ رات بھر قرآن سنتے رہے جب وہ واپس ہوئے تو ان کی آپس میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور عہد کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے بیوقوفوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ان کے دل میں خرابی واقع ہوگی۔ پھر وہ وہاں سے چل دیے جب دوسری رات ہوئی تو کل کی طرح ہر بندہ اپنی اپنی جگہ پر قرآن سننے کے لیے موجود تھا جب فجر طلوع ہوئی تو جاتے ہوئے راستے میں ان کی پھر ملاقات ہوگئی تو انہوں نے آج بھی ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے وہی باتیں کہیں جو پہلے دن کہہ چکے تھے پھر وہاں سے چل دیے جب تیسری رات ہوئی تو ان میں سے ہر ایک قرآن سننے کے لیے پھر اسی جگہ آپہنچا جب فجر طلوع ہوئی تو سب نے اپنے گھر کی راہ لی راستے میں ان کی پھر ملاقات ہوگئی تو بعض نے بعض کو کہا ہم قرآن سننے سے باز نہیں آسکتے یہاں تک کہ ہم آپس میں معاہدہ کرلیں کہ ہم دوبارہ کبھی قرآن نہیں سنیں گے۔ تو انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا اور گھر کی راہ لی۔ مسائل ١۔ ہٹ دھرم آدمی کسی صورت حقائق کا اقرار نہیں کرتا۔ ٢۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والے لوگ اس پر بیہودہ قسم کے اعتراض اٹھایا کرتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید کے منکر اذیت ناک عذاب دیکھے بغیر قرآن کی تصدیق نہیں کرتے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولو نزلنہ علی ……مومنین (١٩٩) ان الفاظ میں اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک گونہ تسلی ہی کہ آپ کے کام میں اور ہمارے کلام میں کوئی کوتاہی نہیں ہے۔ درحقیقت یہ لوگ سخت عناد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ اس لئے یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ نہیں مانیں گے اور یہ فیصلہ ان کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے کہ یہ اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ مانیں گے۔ یہ قضا و قدر کا فصلہ بن چکا ہے۔ یہ اس روش سے پھر نہیں سکتے۔ بس اب عذاب کا انتظار کریں کہ یہ غفلت میں ہوں اور مارے جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ یہ مشرکین کے فرط عناد کا بیان ہے جو دلائل عقلیہ و نقلیہ کے باوجود نہیں مانتے۔ ان کی ضد وعناد کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم یہ فصیح وبلیغ عربی قرآن کسی عجمی پر نازل کردیتے جو عربی زبان سے بالکل نابلد ہوتا اور اس کے باوجود معجزانہ طور پر صحیح صحیح پڑھ کر ان کو سنا دیتا تو وہ پھر بھی نہ مانتے اور نہ ماننے کے لیے کئی بہانے تراش لیتے۔ المراد بیان فرط عنادھم و شندۃ شکیمتھم فی المکابرۃ (روح ج 19 ص 127) ۔ ” ولو نزلنہ علی بعض الاعاجم الذی لا یحسن العربیۃ فضلا ان یقدر علی نظم مثلہ فقراہ علیھم ھکذا معجزا الکفروا بہ کما کفروا و لتمحلوا لجحودھم عذرا و سموہ سحر (مدارک ج 3 ص 150) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم یہ قرآن کسی عجمی پر عجمی زبان میں نازل کردیتے تو غرور و استکبار کی وجہ سے اس پر ایمان نہ لاتے اور عذر کرتے کہ ہم اس کی زبان ہی نہیں سمجھتے وقیل المعنی ولو نزلناہ علی بعض الاعجمین بلغۃ العجم فقراہ علیھم ما کانوا بہ مومنین لعدم فھمہم واستنکافہم من اتباع العجم (ابو السعود ج 6 ص 558) ۔ لیکن علامہ ابو السعود اس معنی کو مناسب مقام نہیں سمجھتے چناچہ وہ معنی مذکور کے بعد فرماتے ہیں ولیس بذلک فانہ بمعزل من المناسبۃ لمقام بیان تمادیھم فی المکابرۃ والعناد۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(198) اور اگر ہم اس قرآن کریم کو کسی غیر عربی یعنی عجمی شخص پر نازل کرتے۔