Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 215

سورة الشعراء

وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۱۵﴾ۚ

And lower your wing to those who follow you of the believers.

اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کر تیری تابعداری کرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, invoke not with Allah another god lest you should be among those who receive punishment. And warn your tribe of near kindred. And be kind and humble to the believers who follow you. Here Allah commands (His Prophet) to worship Him alone, with no partner or associate, and tells him that whoever associates others in worship with Him, He will punish them. Then Allah commands His Messenger to warn his tribe of near kindred, i.e., those who were most closely related to him, and to tell them that nothing couldt nothing could save any of them except for faith in Allah. Allah also commanded him to be kind and gentle with the believing servants of Allah who followed him, and to disown those who disobeyed him, no matter who they were. Allah said: فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ ۔۔ : ڈرانے کی ضرورت اس کے لیے ہے جو اعراض کرے، جو پیروی اختیار کرے اس کے لیے اس کے برعکس حکم دیا، فرمایا مومنوں میں سے جو آپ کے پیچھے چلیں، اپنے ہوں یا پرائے، ان کے لیے اپنا (شفقت کا) بازو جھکا دیں، جس طرح مرغی کسی خطرے کو محسوس کرکے اپنے بچوں کو اپنے پروں میں لے لیتی ہے اسی طرح آپ بھی اے پیغمبر ! ان کو اپنی رحمت و عنایت کے بازؤوں کے نیچے چھپائے رکھیں۔ نرمی کا یہ حکم ان پیچھے چلنے والوں کے لیے ہے جو مومن ہیں۔ معلوم ہوا جو لوگ قرابت کی وجہ سے آپ کا ساتھ دیتے تھے، جیسے ابوطالب، بنو ہاشم اور بنو مطلب، یا حق کو پہچاننے کی وجہ سے ساتھ دیتے تھے مگر ایمان نہیں لاتے تھے، ان کے ساتھ مومنوں والی نرمی اور شفقت کا حکم نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٢١٥ۚ خفض الخَفْض : ضدّ الرّفع، والخَفْض الدّعة والسّير اللّيّن وقوله عزّ وجلّ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] ، فهو حثّ علی تليين الجانب والانقیاد، كأنّه ضدّ قوله : أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل/ 31] ، وفي صفة القیامة : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] ، أي : تضع قوما وترفع آخرین، فخافضة إشارة إلى قوله : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] . ( خ ف ض ) الخفض ۔ یہ رفع کی ضد ہے اور خفض کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت بھی آتے ہیں اور آیت کریمہ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ میں ماں باپ کے ساتھ نرم بر تاؤ اور ان کا مطیع اور فرمانبردار ہوکر رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ گویا یہ ( کہ مجھ سے سر کشی نہ کرنا ) کی ضد ہے اور قیامت کے متعلق فرمایا : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] کسی کو پست کر ہی اور کسی کو بلند ۔ کیونکہ وہ بعض کو پست اور بعض کو بلند کردے گی پس خافضتہ میں آیت کریمہ : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ جنح الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه/ 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین : ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، ( ج ن ح ) الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٥ (وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا ریا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤمنین کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں اور ہمیشہ ان کی دلجوئی فرمائیں۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ سورة الشعراء اور سورة الحجر کا زمانۂ نزول ایک ہی ہے اور اسی لحاظ سے ان دونوں سورتوں میں گہری مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ چناچہ اس آیت سے ملتے جلتے الفاظ سورة الحجر کے آخر میں بھی آئے ہیں : (وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) ” اور اہل ایمان کے لیے اپنے بازو جھکا کر رکھیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٢١٥ تا ٢٢٤) اوپر رشتہ داروں کو ڈرسنانے کا حکم تھا اب فرمایا بازو جھکادے ان کے لیے جو تیرے ساتھ ہوں ایماندار مطلب یہ ہے کہ ایمان والے خواہ اپنے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ان کے ساتھ تو شفقت سے رہ اور جو تیری نافرمانی کرے وہ کوئی کیوں نہ ہو اس سے جدارہ اور کہہ کہ میں بیزار ہوں تمہاری حرکتوں سے اور بھروسہ کر اس زبر دست رحم والے پر جو تجھ کو دیکھتا ہے جب تو تہجد کو اٹھتا ہے اور پھرتا ہے سجدہ کرنے والوں میں ان کی خبر کو کہ غافل ہیں یا یاد الٰہی میں مشغول ہیں بیشک وہ پروردگار ہر ایک بات کو سنتا جانتا ہے مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے جب تم صحابہ (رض) کے ساتھ فرض نماز پڑھتے ہو تو اس نماز کا رکوع سجود اور تمہارا تہجد کے وقت کا اٹھنا اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے اور اے رسول اللہ کے جب اللہ تعالیٰ تمہارے ذرا ذرا حال سے خبردار اور واقف ہے تو ہر حال میں تم کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں انس (رض) کہتے ہیں کہ دس برس تک میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہا لیکن کبھی آپ دنیا کی باتوں میں مصروف نہ ہوئے مسلمانوں سے شفقت کے ساتھ پیش آنے کا حکم جو ان آیتوں میں ہے اس کی تعمیل کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے بحاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے جو روایت ٢ ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ تصویروں کا پردہ دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا تھا ان آیتوں میں خلاف شرع بات پر بیزاری کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے صحیح بخاری میں جابر بن عبداللہ کی روایت ٣ ؎ سے جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوتے میں ایک شخص نے ننگی تلوار کھینچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ آپ کو میرے حملہ سے اب کون بچائے گا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اللہ بچائے گا اللہ پر بھروسہ کرنے کا جو حکم ان آیتوں میں ہے یہ حدیث اس کی تعمیل کی تفسیر ہے پھر فرمایا کہ بتاؤں تم کو کس پر شیطان اترتے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں جو کاہن کہلاتے ہیں وہ لوگ کسی شیطان سے نذرو نیاز سے پیش آن کر اس کو اپنا دوست بتاتے ہیں اس لیے وہ شیطان ان کی خاطر سے ملائکہ کی گفتگو سننے کی آسمان پر جاتا ہے تو وہ فرشتے اس کو انگارے مارتے ہیں اس پر بھی ایک دو بات اس کے کان میں پڑگئی تو اس نے اپنے دوست سے آ کر کہہ دی اس نے لوگوں سے کہہ دی لوگ اس کے قائل ہوگئے پھر ایک دو بات جو ملائکہ سے سنی تھی چار پانچ باتیں اپنی طرف سے ان میں اور جو زمین پر آخر کو وہ جھوٹ پڑیں یا سچ ہوئیں شیطان نیکوں سے ناخوش ہے کیوں کہ وہ اس کو برا جانتے ہیں ہاں جھوٹے آدمیوں سے شیطان خوش ہے کہ وہ اس کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں اور جھوٹے شاعروں کی بات پر وہی لوگ عمل کرتے ہیں جو بہکے ہوئے گمراہ ہیں صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے کہ کچھ آدمیوں نے پیغمبر صلعم سے کاہن لوگوں کا حال دریافت کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان باتوں کا کچھ اعتبار نہیں لوگوں نے عرض کیا وہ جو کچھ کہتے ہیں تو کبھی سچ بھی ہوتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ایک بات سچی ہوتی ہے جس کو وہ آسمان پر کی باتوں سے لے لیا ہے لیکن پھر جنات اور کاہن لوگ اس میں سو جھوٹ ملادیتے ہیں یلقون السمع و اکثر ھم کا ذبون کا یہی مطلب ہے کہ وہ شیطان آسمان پر کی جرائی ہوئی اور اچکی ہوئی جس بات کو کاہنوں سے کہتا ہے فقط وہ بات تو سچی نکلتی ہے اور باقی سب جھوٹ علی ابن ابی طلحہ (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے آیت والشعراء یتبعھم الغاؤن کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ شعراء سے وہ کافر شاعر مراد ہیں جو جھوٹی تعریف اور مذمت میں دفتر کے دفتر سیاہ کرتے ہیں اور قبیلے کے مشرک ان جھوٹی باتوں کا اور مسلمانوں کو ہجو کا چرچا آپس میں پھیلاتے ہیں جس طرح کا ہنوں کو شیاطین جھوٹی باتوں میں مدد دیتے ہیں اسی طرح مشرک شاعروں کو بھی اسلام کی ہجو اور بتوں کی پھیلاتے ہیں جس طرح کا ہنوں کو شیاطین جھوٹی باتوں میں مد دیتے ہیں اسی طرح مشرک شاعروں کو بھی اسلام کی ہجو اور بتوں کی تعریف میں طرح طرح کے مضمون وسوسہ کے طور پر سوجھاتے تھے اس لیے شیاطینوں کے ذکر کے ساتھ کاہنوں اور شاعروں دونوں کا ذکر فرمایا جو اسلام سے پہلے مشرکوں کو آئندہ کی جھوٹی سچی خبریں بتلایا کرتے تھے ان کو کاہن کہتے تھے قتادہ (رض) نے افاک اثیم کی تفسیر کاہن بیان کی ہے مشرکین مکہ قرآن کی غیب کی باتوں کو کاہنوں کی سی خبریں اور قرآن کی فصاحت کو شاعر انہ فصاحت جانتے تھے اس لیے شروع رکوع میں قرآن شریف کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں کاہنوں اور شاعروں کا ذکر فرمایا کہ مشرکین مکہ کو قرآن شریف کی حالت اور کاہنوں شاعروں کی باتوں کی حالت اچھی طرح معلوم ہوجائے۔ (٢ ؎ مشکوٰۃ باب التصاویر ص ٣٨٥۔ ) ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٣ باب التوکل والصبر فصل تیسری۔ ) (١ ؎ مشکوۃ ص ٣٩٢ باب الکہانتہ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:215) اخفض۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر خفض مصدر باب ضرب ہے جس کے معنی پست ہونے نرم روی اختیار کرنے اور جھکنے کے ہیں۔ یہ رفع کی ضد ہے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے واخفض لہما جناح الذل (17:24) اور عجزو نیاز سے ان کے آگے (ماں باپ کے آگے) جھکے رہو۔ واخفض جناحک۔ اور اپنے پروں کو نیچے کیا کیجئے۔ یعنی مشفقانہ اور فروتنی سے پیش آئیے۔ من المؤمنین میں من تبعیضیہ ہے۔ یہاں دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ انذر عشیرتک الاقربین کے نیچے میں تمہارے رشتہ داروں میں سے جو لوگ ایمان لاکر تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا رویہ اختیار کریں اور جو تمہاری بات نہ مانیں (آیت 216) ان سے اعلان برأت کردو۔ دوسرے یہ کہ قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے لیکن انہوں نے عملا آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی بلکہ وہ بدستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں مل جل کر اسی طرح کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جیسی دوسرے کفار کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان اہل ایمان سے الگ قرار دیا۔ جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت تسلیم کرنے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کرلیا تھا ۔ تواضح برتنے کا حکم صرف اسی مؤخر الذکر گروہ کے لئے تھا۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ان کے متعلقحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بےتعلقی کا اظہار کر دو اور صاف صاف کہہ دو کہ اپنے اعمال کا نتیجہ تم خود بھگتو گے۔ (تفہیم القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(215) اور مسلمانوں میں جو لوگ آپ کے پیرو ہیں اور آپ کی راہ پر چلتے ہیں ان کے سامنے اپنے بازو پست رکھیے یعنی فروتنی اور تواضع کے ساتھ پیش آئیے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی شفقت میں رکھ ایمان والوں کو اپنے ہوں یا پرائے 12 غرض ! عام مسلمانوں کے ساتھ مشفقانہ برتائو کا حکم ہے۔