Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 227

سورة الشعراء

اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا ؕ وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۲۲۷﴾٪  15

Except those [poets] who believe and do righteous deeds and remember Allah often and defend [the Muslims] after they were wronged. And those who have wronged are going to know to what [kind of] return they will be returned.

سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالٰی کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِلاَّ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ... Except those who believe and do righteous deeds, Muhammad bin Ishaq narrated from Yazid bin Abdullah bin Qusayt, that Abu Al-Hasan Salim Al-Barrad, the freed servant of Tamim Ad-Dari said: "When the Ayah -- وَالشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (As for the poets, the erring ones follow them) was revealed, Hasan bin Thabit, Abdullah bin Rawahah and Ka`b bin Malik came to the Messenger of Allah, weeping, and said: "Allah knew when He revealed this Ayah that we are poets." The Prophet recited to them the Ayah, إِلاَّ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (Except those who believe and do righteous deeds), and said: أَنْتُم (This means) you. ... وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا ... and remember Allah much. He said: أَنْتُم (This means) you. ... وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ... and vindicate themselves after they have been wronged. He said: أَنْتُم (This means) you. This was recorded by Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir from the narration of Ibn Ishaq. But this Surah was revealed in Makkah, so how could the reason for its revelation be the poets of the Ansar? This is something worth thinking about. The reports that have been narrated about this are all Mursal and cannot be relied on. And Allah knows best. But this exception could include the poets of the Ansar and others. It even includes those poets of the Jahiliyyah who indulged in condemning Islam and its followers, then repented and turned to Allah, and gave up what they used to do and started to do righteous deeds and remember Allah much, to make up for the bad things that they had previously said, for good deeds wipe out bad deeds. So they praised Islam and its followers in order to make up for their insults, as (the poet) Abdullah bin Az-Zab`ari said when he became Muslim: "O Messenger of Allah, indeed my tongue will try to make up for things it said when I was bad -- When I went along with the Shaytan during the years of misguidance, and whoever inclines towards his way is in a state of loss." Similarly, Abu Sufyan bin Al-Harith bin Abd Al-Muttalib was one of the most hostile people towards the Prophet, even though he was his cousin, and he was the one who used to mock him the most. But when he became Muslim, there was no one more beloved to him than the Messenger of Allah. He began to praise the Messenger of Allah where he had mocked him, and take him as a close friend where he had regarded him as an enemy. ... وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ... and vindicate themselves after they have been wronged. Ibn Abbas said, "They responded in kind to the disbelievers who used to ridicule the believers in verse." This was also the view of Mujahid, Qatadah and several others. It was also recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said to Hasan: اهْجُهُم Ridicule them in verse. Or he said: هاجِهِمْ وَجِبْرِيلُ مَعَك Ridicule them in verse, and Jibril is with you. Imam Ahmad recorded that Ka`b bin Malik said to the Prophet, "Allah has revealed what He revealed about the poets. The Messenger of Allah said: إِنَّ الْمُوْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَأَنَّ مَا تَرْمُونَهُمْ بِهِ نَضْحُ النَّـبْل The believer wages Jihad with his sword and with his tongue, By the One in Whose Hand is my soul, it is as if you are attacking them with arrows. ... وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ And those who do wrong will come to know by what overturning they will be overturned. This is like the Ayah, يَوْمَ لاَ يَنفَعُ الظَّـلِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ The Day when their excuses will be of no profit to wrongdoers. (40: 52) According to the Sahih, the Messenger of Allah said: إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَة Beware of wrongdoing, for wrongdoing will be darkness on the Day of Resurrection. Qatadah bin Di`amah said concerning the Ayah -- وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ (And those who do wrong will come to know by what overturning they will be overturned), this refers to the poets and others. This is the end of the Tafsir Surah Ash-Shu`ara'. Praise be to Allah, Lord of the worlds.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2271اس سے ان شاعروں کو مستشنٰی فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایماندار، عمل صلح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط اور تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سے عاری ہوں۔ 2272یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعرا کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت کافروں کی شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو فرماتے کہ ' ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل (علیہ السلام) بھی تمہارے ساتھ ہیں (صحیح بخاری) 2273یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں ؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لئے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ' تم ظلم سے بچو ! اس لئے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٧] یعنی جن شعراء کی عام مذمت بیان کی گئی۔ ان میں سے مندرجہ ذیل چار خصائل والے شعراء مستثنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایمان لائے ہوں۔ دوسرے انہوں نے نیک اعمال کو اپنا طرز زندگی بنا لیا ہو۔ تیسرے اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہتے ہوں۔ کسی وقت بھی ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ چوتھے یہ کہ جو کچھ کہیں ظالموں کے مقابلہ میں حق کی حمایت کے شعر کہیں۔ کسی کی ہجو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت نہ کریں۔ مثلاً اشعار کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں۔ نیکی کی ترغیب دیں۔ کفر کی اور گناہوں کی مذمت بیان کریں یا اگر کافر مسلمانوں یا اسلام یا پیغمبر اسلام کی ہجو بیان کریں۔ تو ہجو کا اسی طرح جواب دے کر اس ظالم کا بدلہ لے لیں۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ قریش نے مسلمانوں کی ہجو کی تو آپ نے مسلمانوں سے کہا کہ ان کی ہجو کا جواب دو ۔ کیونکہ ہجو قریش کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ سے ہجو کرنے کو کہا۔ لیکن ان کی ہجو آپ کو پسند نہ آئی۔ پھر آپ نے کعب بن مالک سے کہا پھر حسان بن ثابت سے ہجو کرنے کا کہا اور ساتھ ہی یہ بتلا دیا کہ ذرا دھیان رکھنا میں بھی قریش ہی ہوں۔ حضرت حسان کہنے لگے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کے بھیجا۔ میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے حسان کے حق میں دعا کی یا اللہ اس کی روح القدس سے مدد کر۔ نیز فرمایا حسان ! جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کے طرف سے جواب دیتا رہے گا روح القدس تیری مدد کرتا رہے گا۔ نیز فرمایا : حسان نے قریش کی ہجو کرکے مومنوں کے دلوں کو تسکین دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کردیا && ) مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت ( اس کے بعد حضرت حسان بن ثابت کا طویل قصیدہ مسلم شریف میں مذکور ہے۔] ١٣٨] یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور شاعر یا ساحر اور مجنون قرار دیتے تھے تاکہ دعوت دین اسلام میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے حق کو نیچا دکھلا سکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔ : شعراء کی مذمت کے بعد ان میں سے ایسے لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا جن میں چار اوصاف پائے جائیں، پہلا وصف یہ کہ وہ مومن ہوں۔ دوسرا یہ کہ وہ صالح اعمال کے حامل ہوں، فاسق و فاجر اور بدکار نہ ہوں۔ تیسرا یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہوں، اپنی عام زندگی میں بھی اور اپنے اشعار میں بھی۔ ایسا نہ ہو کہ زبانی تسبیح و تہلیل اور اذکار پر تو بہت زور ہو مگر اشعار میں اللہ کی یاد کے بجائے عشق و ہوس اور فضول باتوں کا تذکرہ ہو۔ چوتھا وصف یہ کہ وہ اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں اور کفار و مشرکین اسلام، مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو بد زبانی کریں ان کا دندان شکن جواب دیں۔ ایسے موقع پر وہ زبان سے وہ کام لیتے ہیں جو میدان جنگ میں مجاہد تیر و تلوار سے لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چناچہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اُھْجُوْا قُرَیْشًا فَإِنَّہُ أَشَدُّ عَلَیْھَا مِنْ رَشْقٍ بالنَّبْلِ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسان بن ثابت (رض) : ٢٤٩٠ ] ” قریش کی ہجو کرو، کیونکہ وہ ان پر تیروں کے چھیدنے سے بھی سخت ہے۔ “ اور اس حدیث کے آخر میں ہے، عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا، آپ حسان (رض) سے کہہ رہے تھے : ( إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ ) ” روح القدس تیری مدد کرتا رہتا ہے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کرتا رہے۔ “ اور فرماتی ہیں کہ میں نے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھَجَاھُمْ حَسَّانُ فَشَفٰی وَ اشْتَفٰی ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسان بن ثابت (رض) : ٢٤٩٠ ] ” حسان نے ان کی ہجو کی اور شفا دی اور شفا پائی۔ “ کعب بن مالک (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ کی شعر کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاھِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہِ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَکَأَنَّمَا تَنْضَحُوْنَھُمْ بالنَّبْلِ ) [ صحیح ابن حبان : ٤٧٠٧، قال المحقق إسنادہ علی شرط الشیخین ] ” مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! گویا تم انھیں تیروں کے ساتھ چھیدتے ہو۔ “ آیت سے ظاہر ہے کہ شعر کی دو حالتیں ہیں، ایک وہ جس کی مذمت آئی ہے، دوسری وہ جس کی اجازت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً ) [ ابن ماجہ، الأدب، باب الشعر : ٣٧٥٥، و قال الألباني صحیح ] ” بعض شعر حکمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ “ عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( الشِّعْرُ بِمَنْزِلَۃِ الْکَلَامِ حَسَنُہُ کَحَسَنِ الْکَلَامِ وَ قَبِیْحُہُ کَقَبِیْحِ الْکَلَامِ ) [ السنن الدار قطني : ٥؍٢٧٤، ح : ٤٣٠٨ ]” شعر کلام کی طرح ہے، سو اس میں سے جو اچھا ہے وہ اچھے کلام کی طرح ہے اور جو اس میں سے برا ہے وہ برے کلام کی طرح ہے۔ “ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا ۔۔ : ظلم کرنے والوں سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جنھوں نے ایمان قبول نہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور ضد اور ہٹ دھرمی سے اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر، کاہن اور شاعر کہہ کر جھٹلاتے رہے۔ فرمایا، یہ لوگ جلد ہی جان لیں گے کہ ان کا کیا انجام ہونے والا ہے آخرت میں اور دنیا میں بھی۔ ان الفاظ میں کفار کے لیے بہت سخت وعید ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُوْرِ کُلِّھَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَ عَذَابِ الْآخِرَۃِ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللہَ كَثِيْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا۝ ٠ ۭ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝ ٢٢٧ۧ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢٧) سوائے ان حضرات کے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کیے اور انہوں نے اپنے اشعار میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا اور انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی اپنے اشعار میں کفار کی تردید کرکے مدد کی بعد اس کے کہ کفار نے ان کی برائی کی تھی تو انہوں نے بھی کفار کی برائی کر کے ان سے بدلہ لیا جیسا کہ حضرت حسان بن ثابت (رض) گزرے ہیں اور عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کی ہے معلوم ہوجائے گا کہ آخرت میں کیسی مصیبت کی جگہ ان کو جانا ہے یعنی اگر ایمان نہ لائے تو جہنم میں جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٧ (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا) ” یہ البتہ استثنائی حکم ہے۔ کوئی شاعر اگر حقیقی مؤمن ہو اور اعمال صالحہ پر کاربند ہونے کے ساتھ ساتھ کثرت ذکر اللہ پر بھی مداومت کرے تو وہ یقیناً مذکورہ بالا مذمت سے مستثنیٰ ہوگا اور اس کا کلام بھی خیر اور بھلائی کا باعث بنے گا۔ اس سلسلے میں حضرت حسانّ بن ثابت (رض) کی مثال دی جاسکتی ہے جو دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر تھے۔ عرب میں اس وقت شاعری کا بہت رواج تھا اور مشرکین کے شعراء ہجویہ اشعار کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ چناچہ اس میدان میں ان کے جواب کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ فریضہ حضرت حسانّ بن ثابت (رض) نے انجام دیا۔ اس لحاظ سے آپ (رض) سب سے پہلے نعت گو شاعر بھی ہیں۔ البتہ شعراء کے بارے میں قرآن کا یہ تبصرہ اس قدر جامع اور مبنی بر حقیقت ہے کہ استثنائی صورتوں میں بھی کہیں نہ کہیں ‘ کوئی نہ کوئی کسر رہ ہی جاتی ہے۔ چناچہ حضرت حسانّ بن ثابت (رض) کو اگرچہ دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور بطور صحابی بھی ان کا درجہ بہت بلند ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ (رض) مرد میدان نہیں تھے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس مکان پر بطور پہرے دارمتعین فرمایا تھا جہاں پر مسلمان خواتین کو رکھا گیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی حضرت صفیہ (رض) نے ایک یہودی کو مشکوک انداز میں اس مکان کے آس پاس پھرتے دیکھا تو انہوں نے حضرت حسان (رض) سے کہا کہ آپ جا کر اس شخص کو قتل کردیں۔ یہ سن کر حضرت حسان (رض) نے صاف معذرت کردی کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس پر حضرت صفیہ (رض) ایک لکڑی ہاتھ میں لے کر گئیں اور اس لکڑی سے یہودی کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کردیا۔ واپس آکر انہوں نے حضرت حسان (رض) ّ سے کہا کہ اب آپ جا کر اس یہودی کے ہتھیار وغیرہ اتار کرلے آئیں۔ اس پر انہوں (رض) نے جواب دیا کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ (وَّانْتَصَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ط) ” یہ ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ضرورت پیش آنے پر ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے اپنی زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ جیسے حضرت حسان بن ثابت (رض) کفار کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کہے گئے ہجویہ اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مدافعت کرتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (رض) کے بارے میں فرمایا تھا کہ حسانّ کے اشعار کفار کے خلاف مسلمانوں کے تیروں سے بھی زیادہ مؤثر ہیں۔ بہر حال ہرچیز کی اپنی جگہ پر اہمیت مسلم ہے۔ (وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ) ” ان کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں اردو میں کہا جاتا ہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یعنی ابھی ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ‘ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب قرآن کا بیان کردہ بھیانک انجام ان لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوگا۔ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

145 Here those poets have made an exception from the general reproach, who possess the following four characteristics: (1) They should be believers in Allah, His Prophets, His Books and the Hereafter. (2) They should be pious in practical life and not sinners, nor free from moral restrictions to say whatever they like. (3) They should be remembering Allah much in their day to day lives as well as in their literary work. It should not be so that their personal lives reflect God-consciousness and piety, but their poetry is replete with themes of debauchery and lusts of the flesh, or that their poetry is full of serious themes of wisdom and God-consciousness, but their personal lives are devoid of any trace of the remembrance of Allah. As a matter of fact, both these states are equally despicable. A good poet is he who is Godconscious in his personal life and whose poetic talent and skills also are devoted to the advancement of the way of life followed by the God-conscious, God-fearing and God-worshipping people. (4) They should not satirize others for personal reasons, nor take vengeance on others on account of personal, racial and national prejudices, but when they are required to support the truth, they should use their literary powers like weapons of war against the unjust and treacherous people. It does not behove the believers to adopt a humble, supplicating attitude against injustice and oppression. Traditions show that when the unbelieving and mushrik poets raised a storm of false accusations against Islam and the Holy Prophet and spread the poison of hatred against the Muslims, the Holy Prophet urged and encouraged the poets of Islam to counter attack them. Once he said to Ka`b bin Malik, "Satirize them, for, I swear by God in Whose hand is my soul, your verse will be more effective and damaging for them than the arrow. " Likewise he said to Hassan bin Thabit, "Deal with them and Gabriel is with you". And, "Say and the Holy Spirit is with you." Once he said, "The believer fights with the sword as well as with the tongue. " 146 "The iniquitous people": The people who out of sheer obduracy calumniated the Holy Prophet of being a sorcerer, poet and a mad and enchanted man, in order to defeat lslam, and to confuse the other people and distract them from his message and invitation.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :145 یہاں شعراء کی اس عام مذمت سے جو اوپر بیان ہوئی ، ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : اول یہ کہ وہ مومن ہوں ، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں ، بد کار اور فاسق و فاجر نہ ہوں ، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں ۔ تیسرے یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں ، اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی ، اور اپنے کلام میں بھی ۔ یہ نہ ہو کہ شخصی زندگی تو زہد و تقویٰ سے آراستہ ہے مگر کلام سراسر رندی و ہوسناکی سے لبریز ۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ شعر میں تو بڑی حکمت و معرفت کی باتیں بگھاری جا رہی ہیں مگر ذاتی زندگی کو دیکھیے تو یاد خدا کے سارے آثار سے خالی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں یکساں مذموم ہیں ۔ ایک پسندیدہ شاعر وہی ہے جس کی نجی زندگی بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور شاعرانہ قابلیتیں بھی اس راہ میں وقف رہیں جو خدا سے غافل لوگوں کی نہیں بلکہ خدا شناس ، خدا دوست اور خدا پرست لوگوں کی راہ ہے ۔ چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں ، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں ، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے ۔ ہر وقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے ۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جوب دینے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا : اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لہوا شد علیہم من النبل ، ان کی ہجو کہو ، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا اھجھم وجبریل معک ، اور قل و روح القدس معک ، ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے ۔ کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے آپ کا ارشاد تھا کہ : ان المؤمن یجاھد بسیفہ و لسانہٖ ۔ مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :146 ظلم کرنے والوں سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر ہٹ دھرمی کی راہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شاعری اور کہانت اور ساحری اور جنون کی تہمتیں لگاتے پھرتے تھے تاکہ نا واقف لوگ آپ کی دعوت سے بد گمان ہوں اور آپ کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: یہ استثناء ذکر فرماکر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اگر شاعری میں یہ خرابیاں نہ ہوں اور ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شاعری کرے اور اپنے شاعرانہ تخیلات کو دین ومذہب کے خلاف استعمال نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ظلم کا بدلہ لینے کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں شاعری پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی تھی، کوئی شاعر کسی کے خلاف کوئی شاندار ہجویہ قصیدہ کہہ دیتا تو وہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتا تھا، چنانچہ بعض بد نہاد کافروں نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی اس قسم کے اشعار کہہ کر مشہور کردئے تھے، بعض صحابہ مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں نعتیہ قصیدے کہے اور ان میں کفار کے اعتراضات کا جواب دیا ؛ بلکہ ان کی اپنی حقیقت واضح فرمائی، اس آیت میں ان حضرات کی شاعری کی تائید کی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢٧۔ بخاری شریف ٥ ؎ میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے اور مسلم میں ٦ ؎ جابر (رض) سے روایتیں ہیں جن میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشا فرمایا بچو ظلم سے کس واسطے کہ ظلم قیامت کے روزاندہیریاں ہیں مطلب یہ ہے کہ ظلم کے باعث سے ظالم کے آگے اندھیرے پر اند ہیرا ہوگا اس آیت میں قتادہ (رح) کے قول کے موافق ظالموں سے مراد گمراہ شاعر ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا کہ وہ جرم شرک کے علاوہ اسلام ناحق سمجھ کر اسلام اور اہل اسلام کی ہجو کیا کرتے تھے اس واسطے ایسے لوگوں کو حق اللہ اور حق العباد دونوں طرح کے جرموں کی سزا قیامت کے دن ہوگی حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی روایتیں ای منقلب ینقلبون کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں اگر اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو قیامت کے دن ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ دوزخ کی سیاہ آگ کے اوپر تلے کے سات اندھیرے درجوں میں سے کون سی اندھیری در اندہیری کو ٹھری اور کیا کیا عذاب ان کے نصیب میں ہے معتبر سند سے ترمذی موطا امام مالک اور شعب الایمان بیہقی ٧ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ دوزخ کی آگ اندہیری رات کی جیسی کالی ہے معتبر سند سے تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی (رض) سے روایت ٨ ؎ ہے (٨ ؎ یعنی ان کا قول دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٢ ج ٢ تفسیر سورة الحجر۔ ) کہ دوزخ کے سات طبقے اوپر تلے ہیں سلف کا قول ہے کہ جن مشرک ظالموں کا ذکر آیت میں ہے ایسے لوگ دوزخ کے چھٹے طبقے میں جھونکے جاویں گے اس سے یہ مطلب سمجھ میں آسکتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگ دوزخ کی کالی آگ کی پانچ اندہیروں کے بعد چھٹے طبقہ کی اندہیری میں ہوں گے۔ (٥ ؎ مشکوٰۃ باب انطلم) (٦ ؎ الترغیب والترہیب ص ١٨٣ ج ٣ الترہیب من الظلم ) (٧ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٦٤ ج ٤ کتاب صفۃ الجنۃ والنار فصل فی ظلم تھا وسوادھا الخ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:227) انتصروا : انتصار (افتعال) سے ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے بدلہ لیا۔ انہوں نے انتقام لیا۔ ما ظلموا۔ میں ما مصدریہ ہے۔ من بعد ما ظلموا۔ اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا۔ ان پر ظلم کئے جانے کے بعد۔ ان پر زیادتی ہوجانے کے بعد۔ یعنی جب مومن ، صالح اور اللہ کا ذکر کرنے والوں کے ساتھ ظلم کی اجائے یعنی ان کے ساتھ زیادتی کی جائے (ہجو کرکے یا کسی اور طرح) تو بدلہ لینے کیلئے اشعار میں جواب دینے میں وہ مستثنیٰ ہیں۔ یہ استثناء اس آیت کے مصداق ہے ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ماعلیہم من سبیل (42:41) اور جو اپنے پر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے لے سو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ اس استثناء میں شعراء اسلام بھی آگئے۔ مثلاً حضرت حسن بن ثابت (رض) حضرت عبد اللہ بن رواحہ (رض) کرب بن مالک (رض) اور صحابہ کرام میں اکثر شعراء تھے۔ ان سب کی شاعری قوتیں اسلام کی خدمت میں اور عقائد حقہ کی تبلیغ میں صرف ہو رہی تھیں۔ ای۔ کس ۔ کسی۔ کیا۔ کونسی۔ استفہام کے لئے ہے۔ منقلب۔ اسم ظرف، مکان و زمان ۔ انقلاب (انفعال) مصدر۔ لوٹنے کی جگہ۔ لوٹنے کا وقت۔ انجام۔ نتیجہ۔ مصدر میمی بمعنی انقلاب بھی ہوسکتا ہے۔ لوٹنا ۔ قلب مادہ۔ ینقلبون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ انقلاب مصدر۔ وہ لوٹتے ہیں۔ وہ لوٹیں گے۔ ای منقلب ینقلبون۔ کس لوٹنے کی جگہ وہ لوٹتے ہیں ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی جن شعراء کی مذمت کی گئی ہے ان سے ایسے شعرا مستثنیٰ ہیں جو مومن ہوں، نیک کام کرنے والے ہوں اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے ہوں اور اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت حسان (رض) ثابت عبد اللہ (رض) بن رواحہ اور کعب (رض) بن مالک اور دیگر صحابہ (رض) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، چناچہ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان (رض) کے متعلق فرمایا : اللھم ایدہ بروح القدس۔ اے اللہ ! جبریل ( علیہ السلام) کے ذریعہ اس کی تائید فرما۔ بعض احادیث میں جو شعر کی مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہ شعر ہے جو لغویت، بےحیائی اور فحش کلامی پر مبنی ہو۔ ایک حدیث ہے :” شعر کی حیثیت کلام کی ہے اس کی اچھائی کلام کی اچھائی کی طرح ہے اور اس کی برائی کلام کی برائی کی طرح۔ (شوکانی۔ قرطبی) 2 ۔ یعنی ان کا انجام کیا ہونے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی شرع کے خلاف نہ ان کا قول ہے نہ فعل، یعنی ان کے اشعار میں بےہودہ مضامین نہیں ہیں۔ 4۔ مراد اس سے جہنم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اکثر شعراء اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں اگر ان کے کلام میں کوئی اچھی بات پائی جائے تو اس پر خود عمل پیرا نہیں ہوتے سوائے ان شاعروں کے جو صحیح العقیدہ اور صالح کردار ہوتے ہیں۔ شعراء اور ان کے متبعین کی گمراہی کا ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کو اس گروہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو صحیح العقیدہ اور نیک اعمال کرنے کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے والے ہیں۔ آیات کے سیاق وسباق کے حوالے سے ایمان والوں سے مراد یہاں سب سے پہلے صحیح العقیدہ اور صالح کردار شاعر ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے بےعمل اور بیہودہ شاعروں کا تذکرہ ہے اس لیے یہاں پہلے مخاطب نیک شعراء ہیں۔ نیک شاعر اور عقیدہ توحید پر پختہ اور صالح اعمال کرنے والے مسلمان۔ اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اگر ان پر ظلم کیا جائے تو وہ اتنا ہی بدلہ لیتے ہیں جتنا ان پر ظلم کیا گیا ہو۔ جہاں تک ظالموں کا تعلق ہے انھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ وہ کن بھول بھلیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں برے شعراء سے ان شعراء کرام کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : ١۔ مومن ہوں، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ ٢۔ عملی زندگی میں صالح ہوں، بدکار اور فاسق وفاجر نہ ہوں، اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر ہر جگہ جھک مارنے والے نہ ہوں۔ یعنی ان کا کلام بےدینی اور بےحیائی سے پاک ہو۔ ٣۔ ١ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں۔ ٤۔ ذاتی اغراض کے لیے کسی کی ہجو نہ کریں نہ ذاتی، نسلی اور قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو مجاہد تلوار، تیر سے لیتا ہے۔ اسی بنا پر کعب بن مالک (رض) سے آپ نے فرمایا : (قَالَ اہْجُوا قُرَیْشًا فَإِنَّہُ أَشَدُّ عَلَیْہَا مِنْ رَشْقٍ بالنَّبْلِ ) ” ان کی ہجو کہو کیونکہ اس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے حضرت حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا : (إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لاَ یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ ) ” ان کی خبر لو۔ “ شعر کہو روح القدس تیرے ساتھ ہے۔ “ (رواہ مسلم : باب فضائل حسان بن ثابت) ” ذکر ایسی عبادت ہے کہ جسے کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ نماز بذات خود بہت بڑا ذکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کثرت کے ساتھ یاد الٰہی میں مصروف رہنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الأذان ] (عَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ حینَ أَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَدْ أَنْزَلَ فِی الشِّعْرِ مَا قَدْ عَلِمْتَ وَکَیْفَ تَرَی فیہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاہِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہِ ) [ رواہ احمد : مسند کعب بن مالک ] ” حضرت کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے شعراء کے متعلق یہ آیت نازل کی تو کعب بن مالک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے شعروں کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ہے جس کا آپ کو علم ہے آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک مؤمن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ صحیح العقیدہ لوگ نیک اعمال کرنے کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ٢۔ مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ تفسیر بالقرآن ذکرِ الٰہی کا حکم اور فضیلت : ١۔ اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٢۔ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم۔ (البقرۃ : ١٥٢) ٣۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الانفال : ٤٥) ٤۔ اللہ کو گڑگڑا کر صبح وشام آہستہ یاد کرو۔ (الأعراف : ٢٠٥) ٥۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨) ٦۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف : ٣٦) ٧۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں ہیں۔ (المنافقون : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا الذین ……(٧٢١) ” بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ “ لہٰذا اہل ایمان ان لوگوں میں داخل نہیں ہیں۔ یہ لوگ ایمان لائے تو ان کے دل و دماغ اسلامی عقیدہ اور ایمان سے بھرگئے۔ ان کی زندگی ایک منہاج پر رواں دواں ہوگئی۔ انہوں نے اپنی عمی زندگی میں نیک عمل کرنا شروع کردیا اور ان کی قوتیں اعمال صالحہ اور خوبصورت بھلائی کی راہ پر صرف ہونے لگیں۔ وہ صرف ادہام و تخیلات کی دنیا سے باہر آگئے اور انہوں نے اپنے فن کو بھی اپنے نظریہ کے لئے استعمال کیا۔ یعنی کسی نے ان پر ظلم کیا تو انہوں نے بدلہ لے لیا۔ یعنی میں سچائی کو انہوں نے عملاً قبول کیا اس کی حمایت میں ان کا فن بھی میدان میں آگیا۔ ایسے ہی اہل فن میں ، معرکہ توحید شرک کے ابتدائی دور میں ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت حسان ابن ثابت ، کعب ابن مالک ، عبد اللہ ابن رواحہ (رض) شعراء انصار میں سے تھے اور عبد اللہ ابن الزیسری ابوسفیان ابن الحارث ابن عبدالمطلب تھے۔ یہ دونوں ایام جاہلیت میں حضور اکرم کی جو بھی کرتے تھے۔ جب مسلمان ہوئے اور خوب ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت میں بھی خوب کمالات دکھائے اور اسلام کی مدافعت کی۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان ابن ثابت کو حکم دیا ” ان کی ہجو کرو اور جبرئیل تمہارے ساتھ ہیں۔ “ عبدالرحمٰن ابن کعب نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے شعراء پر اشعار میں بھی نازل کیا ہے جو کچھ نازل کیا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ایک مومن اپنی تولار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے ، اس خدا کی قسم ، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جس چیز سے تم ان کو مارتے ہو وہ تیروں کی بارش ہے۔ “ (امام احمد) اسلامی شعر و فن کا تحقیق مختلف اسالیب میں ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ ایک صورت جو ابتدائے اسلام میں وجود میں آئی اور اس وقت اس کی ضرورت بھی تھی لیکن اسلام تصور حیات کے مطابق شعر و سخن کے اور دائرے بھی بیشمار ہیں جن کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی فن وہی ہوگا جو اسلام کے دفاع میں ہو۔ یا براہ راست اس میں دعوت اسلامی موجود ہو۔ یا جس میں اسلام کی تعریف ہو ، پیغمبر اسلام کی تعریف ہو یا اکابر اسلام کی تعریف و تمجید ہو۔ یا اللہ کی حمد و ثنا ؟ یہ ضروری نہیں ہے کہ شعر اگر ان موضوعات پر ہو تو اسلامی ہے اور اگر ان پر نہ ہو تو اسلامی نہیں ہے۔ گردش لیل و نہار پر ایک شاعرانہ نظر ، اور مناظر کائنات پر ایک ایسی نظر جس کے ذریعے ایک مسلم کا شعور اور اس کا تخیل قدرت الہیہ کا احساس کرتا ہو ، حقیقی اسلامی فن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک لمحہ جس میں انسان کے دل و دماغ پر اللہ کی حکمت روشن ہوجاتی ہے اور جس کے اندر انسان اس کائنات کے عجائبات کا احساس کرتا ہے۔ ایسے لمحات ہی میں اسلامی ادب کی تخلیق ہوتی ہے۔ اسلامی فن اور غیر اسلامی فن کے درمیان امتیاز اس سے ہوتا ہے کہ اسلام کا اپنا ایک تصور حیات ہے۔ اسلامی سوسائٹی کے اندر روابط کی ایک مخصوص شکل پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی فن اسلامی تصورات ، اسلامی روابط کے اور اسلامی اخلاق کی اساس پر تخلیق ہوتا ہے تو وہ اسلامی ہے اور اسے اسلام پسند کرتا ہے ورنہ نہیں ہے۔ اور سورت کا خاتمہ اس دھمکی اور مجمل تہدید پر ہوتا ہے۔ وسیعلم الذین طلموآ ای منقلب ینقلبون (٦٢ : ٨٢٢) ” اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ “ اس پوری سورت کا مضمون یہ رہا اور اس میں مشرکین کے عناد اور ہٹ دھرمی کی تصویر کشی کی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ وہ اللہ کی وعید کے مقابلے میں سرکشی کرتے رہے بلکہ الٹا عالم غرور میں عذاب کے جلدی نزول کا مطالبہ کرتے رہے۔ نیز اس سورت میں ایسے تمام لوگوں پر نازل ہونے والے عذابوں کی تصویر کشی بھی کی گئی اور مختلف رسولوں کے انجام دکھائے گئے۔ اس لئے سورت کے آخر میں مجملاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالف قوتوں کو بھی سمجھا دیا گیا کہ تم بھی ذرا اپنی خیر منائو کہ تمہارا انجام کیا ہونے والا ہے۔ گویا کفار مکہ ذہنی دنیا پر یہ آخری ضرب ہے اور ایسے الفاظ میں ہے کہ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست کے مطاق ہر شخص کا خیال اس کے معانی پہچان سکتا ہے۔ لہٰذا یہ مشرکین کے ایوان میں ایک زلزلہ ہے جو سورت کے آخر میں برپا کردیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مومنین صالحین کا استثناء فرمایا (اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّانتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا) (یعنی جو لوگ شاعروں کی مذکورہ بالا جماعت سے خارج ہیں) چونکہ ان میں ایمان ہے اعمال صالحہ میں لگے رہتے ہیں اور اللہ کے ذکر میں کثرت سے مشغول رہتے ہیں اس لیے اگر شعر بھی کہتے ہیں تو جھوٹی بےتکی بہکی بہکی باتوں سے بچ کر رہتے ہیں۔ ان کے اشعار بھی ایمان اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتے ہیں اللہ سے لو لگانے کی ترغیب دیتے ہیں اشعار میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہیں اور اعمال صالحہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مشرک اور کافر نے ان کی ہجو کردی یا دین کی کسی بات پر اعتراض کردیا جو ان پر ایک طرح کا ظلم ہے تو وہ بدلہ لینے کے طور پر کافروں کی ہجو کردیتے ہیں اور اس ہجو میں انہیں ثواب ملتا ہے کیونکہ یہ کام بھی اللہ کے لیے ہوتا ہے، حضرت حسان بن ثابت (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے دفاع کرتے ہو جبرائیل (علیہ السلام) برابر تمہاری تائید میں لگے رہتے ہیں، حضرت حسان نے مشرکین کی خوب ہجو کی (کیونکہ وہ لوگ ظالم تھے) حضرت حسان (رض) کے اشعار کی وجہ سے دلوں میں یہ آرزو نہ رہی کہ کاش کوئی شخص مشرکین کی بےہودگی کا جواب دیتا کیونکہ یہ ان پر تیروں سے بھی زیادہ سخت ہے (رواہ مسلم) جب حسان بن ثابت (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے اشعار کہتے تھے تو آپ ان کے لیے مسجد میں منبر بچھا دیتے تھے تاکہ اس پر کھڑے ہو کر اشعار پڑھیں (رواہ البخاری) معلوم ہوا کہ اگر شعر اچھا ہو تو اس کو پڑھنا جائز ہے بلکہ بعض مرتبہ ثواب ہے۔ مومن کے ہر کام میں نیک نیتی ہونی چاہیے حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اشعار کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ھو کلام فحسنہ حسن و قبیحہ قبیح (یعنی شعر بھی ایک کلام ہے اس میں جو اچھا ہے وہ اچھا ہے۔ جو برا ہے وہ برا ہے) جس شعر میں جھوٹ ہو گمراہی کی باتیں ہوں غیبتیں ہوں تہمتیں ہوں اور اس کی وجہ سے نمازوں میں غفلتیں ہوں اور وہ مشاعرے جن میں باتیں بھی جھوٹی ہوں اور نمازیں بھی قضا ہوں یہ سب حرام ہیں اگر کوئی شخص سچا اور اچھا شعر پڑھ لے تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ سورت کے ختم پر فرمایا (وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ) (کہ جن لوگوں نے ظلم کیا یہ عنقریب جان لیں گے کہ انہیں کیسی بری جگہ لوٹ کر جانا ہے) اس میں ان لوگوں کے لیے وعید ہے جو نبوت کے منکر رہے اور قرآن کی تکذیب کرتے رہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے رہے، یہ لوگ جب دوزخ میں داخل ہوں گے تو انہیں اپنا ٹھکانہ معلوم ہوجائے گا جہاں انہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ و ھذا آخر تفسیر سورة الشعراء والحمد للہ ذی الجبروت و الکبریا، و الصلوۃ علی سید الرسل و الانبیاء و علی آلہ وصحبہ البررۃ الاصفیاء الاتقیاء

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:۔ مومن اور نیک شعراء کو ماقبل سے مستثنی کردیا گیا۔ وہ شعراء جو مومن اور صالح ہیں اور اپنے اشعار میں اللہ کی توحید، اس کی حمد و ثنا، مدح پیغمبر (علیہ السلام) اور ترغیب و ترہیب کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کسی کی ہجو میں ابتداء نہیں کرتے ہاں اگر کوئی اسلام پر یا پیغمر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر حملہ کرے تو اس کا جواب دیتے ہیں۔ ای کان ذکر اللہ وتلاوۃ القران اغلب علیہم من الشعر واذا قالو شعرا قالوہ فی توحید اللہ تعالیٰ والثناء علیہ والحکمۃ والموعظۃ والزھد والادب و مدح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والصحابۃ و صلحاء الامۃ ونحو ذلک مما لیس فیہ ذنب (مدارک ج 3 ص 153) ۔ 80:۔ یہ تخویف دنیوی ہے ” الذین ظلموا “ سے مشرک مراد ہیں جو توحید کا انکار کرتے اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کے طعن کرتے تھے ای اشرکوا وھجوا رسول اللہ صلی اللہ علی ہو سلم وھو الطاھر المطہر من الھجاء (خازن و معالم ج 5 ص 110) ۔ اب مشرکین طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں اور ضد وعناد سے دعوی توحید کو نہیں مانتے لیکن عنقریب ہی جان لیں گے کہ ان کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ مشرکین کے لیے وعید شدید ہے ولما ذکروا انتصروا من بعد ما ظلموا توعد الظالمین ھذا التوعد العظیم الھائل الصادع للاکباد دابھم فی قولہ ای منقلب ینقلبون (بحر ج 7 ص 79) تہدید شدید و وعید اکید (روح ج 19 ص 153) (و اخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین) سورة الشعراء میں آیات توحید 1 ۔ ” اولم یروا الی الارض “ تا ” من کل زوج کریم “ جب سارے کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے تو برکات دہندہ بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔ 2 ۔ ” اذ قال لابیہ و قومہ “ تا ” وجدنا اباء نا کذلک یفعلون “ (رکوع 5) نفی شرک فی التصرف۔ 3 ۔ ” الذی خلقنی فھو یہدین “ تا ” والذی یمیتنی ثم یحیین “۔ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں اس لیے کارساز اور برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ 4 ۔ ” وقیل لھم اینما کنتم تعبدون “ تا ” وما اضلنا الا المجرمون “۔ مشرکین جن کو برکات دہندہ اور سفارشی سمجھتے ہیں قیامت کے دن وہ ان کو خدا کے عذاب سے نہیں چھڑا سکیں گے۔ معلوم ہوا کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی برکات دہندہ ہے اور کوئی نہیں۔ 5 ۔ ” وانہ لتنزیل رب العلمین “ تا ” علمؤا بنی اسرائیل “ (رکوع 11) ۔ دعوی ” تبارک “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، وہ پہلی کتابوں میں بھی مذکور ہے اور علماء اہل کتاب بھی اس کی صداقت کو جانتے ہیں۔ 6 ۔ ” فلا تدع مع اللہ الھا اخر فتکون من المعذبین “ جب ثابت ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی برکات دہندہ نہیں تو حاجات و بلیات میں اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔ سورة شعراء ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(227) مگر ہاں وہ شاعر مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور انہوں نے اپنے اشعار میں بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور انہوں نے اس ظلم کی بعد جو ان پر کیا جاچکا ہے اس ظلم کا انتقام اور بدلا لیا اور عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے یہ معلوم ہوجائے گا کہ کیسی جگہ پلٹ کرجانا ہے اور وہ کس کو وٹ الٹتے ہیں ان مخصوص شاعروں کو مستثنیٰ فرمایا جو اپنے اشعار میں اللہ تعالیٰ کی پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثناء اسلام کی تعریف مسلمانوں کی ہمت افزائی اور ان کی شجاعت اور جو منکر اسلام کی ہجو کریں ان کا جواب اور جن پر ظلم کیا گیا اور ان کو وطن سے اجاڑا گیا وہ ظلم کی پاداش میں ظالموں سے انتقام لیں اور اسی مناسبت سے آخر میں ظلم کا انجام بھی فرمایا کہ ان ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ یہ کیسی مصیبت اور ہولناک میں الٹ کرجاتے ہیں اور کس پہلو اور کروٹ پر ان کو پلٹا جاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مگر جو کوی شعر میں اللہ کی حمد کہے یا کفر کی مذمت یا گناہ کی برائی یا کافر اسلام کی ہجو کریں یہ اس کا جاب دیں تو ایسا شعر عیب نہیں 12 تم تفسیر سورة شعراء