Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 25

سورة الشعراء

قَالَ لِمَنۡ حَوۡلَہٗۤ اَلَا تَسۡتَمِعُوۡنَ ﴿۲۵﴾

[Pharaoh] said to those around him, "Do you not hear?"

فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ ... (Fir`awn) said to those around: i.e., Fir`awn turned to the chiefs and leaders of his state around him, and said to them -- mockingly expressing his disbelief in Musa: ... أَلاَ تَسْتَمِعُونَ "Do you not hear!" meaning, `are you not amazed by what this man is claiming -- that you have another god other than me!' Musa said to them: قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ابَايِكُمُ الاْاَوَّلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251یعنی کیا تم اس کی بات پر تعجب نہیں کرتے کہ میرے سوا بھی کوئی اور معبود ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] فرعون اب اپنے درباریوں اور امیروں، وزیروں سے متوجہ ہو کر کہنے لگا : سن رہو ہو جو یہ شخص کہہ رہا ہے۔ یہ کہہ رہا ہے کہ تمام بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہا کرکے میرے ہمراہ کردو۔ تاکہ یہ ہمارے مقابلہ پر اتر آئے۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتا ہے کہ میں رب العالمین کا فرستادہ ہوں && فرعون کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی خدائی اور فرعونیت کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) سے کچھ خطرہ محسوس کرنے لگا تھا اور اپنے درباریوں کو ان کے خلاف بھڑکانا چاہتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ : ظاہر ہے فرعون رب اعلیٰ ہونے کا لاکھ دعویٰ کرے، آسمان و زمین کے ایک ذرّے کا خالق و پروردگار نہیں تھا اور اپنی اوقات کو خوب جانتا تھا، جب وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کا جواب نہ دے سکا تو بات کو خلط ملط کرنے، اپنے درباریوں کو ابھارنے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی دلیل کو بےوزن بنانے کے لیے کہنے لگا، کیا تم غور سے سنتے نہیں، یہ شخص کیسی عجیب بات کر رہا ہے ؟ کیا ایسی بات کبھی تمہارے سننے میں آئی بھی ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ۝ ٢٥ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ اسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» . استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) فرعون نے اپنے حواریوں نے سے کہا موسیٰ جو کچھ کہہ رہے ہیں تم سنتے ہو اور فرعون کے حواریوں کی تعداد دو سو پچاس تھی یہ فرعون کے خصوصی آدمی تھے جو دیباج کے جبے پہنے ہوئے تھے جن پر سونے کا کام تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ ) ” اس فقرے کے صحیح مفہوم اور موقع و محل کو سمجھنے کے لیے فرعون کے دربار کا تصور ذہن میں لانا ضروری ہے۔ تصور کیجیے ! دربار سجا ہے ‘ تمام اعیان سلطنت اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہیں۔ اس بھرے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) براہ راست فرعون سے مخاطب ہیں اور اس گفتگو کو تمام درباری روبرو سن رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ترکی بہ ترکی گفتگو اور بےباک لہجے کے سامنے فرعون کھسیانا ہوچکا ہے۔ اپنی اس خفت کو چھپانے کے لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دینے کے بجائے پلٹ کر اپنے درباریوں کی طرف دیکھتا ہے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ لوگوں نے سنا ‘ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ بہر حال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے اس انداز کو خاطر میں لائے بغیر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:25) حولہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کے گرد۔ اس کے آس پاس الحول (باب نصر) کے اصل معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونے کے ہیں ۔ حال الشیء یحول حوول کسی شے کا متغیر ہوجانا اور انفصال کے اعتبار سے حال بینی و بینک یعنی میرے اور تیرے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی۔ تغیر کے معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے لا یبغون عنھا حولا (18:108) اور وہاں سے مکان بدلنا نہ چاہیں گے۔ یہاں حولا کے معنی تھول یعنی پھرنے کے ہیں۔ حول الشیء میں حول سے مراد کسی شے کی وہ جانب جس کی طرف اسے پھیرنا ممکن ہو قرآن مجید میں ہے الذین یحملون العرش ومن حولہ (40:5) جو فرشتے کہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے) اس کے گردا گرد ہیں۔ الا تستمعون ۔ ہمزہ استفہامہ لاتستمعون مضارع منفی جمع مذکر حاضر تم نہیں سن رہے ۔ تم نہیں سنتے ۔ الا تستمعون ۔ کیا تم سن نہیں رہے۔ کیا تم لوگ کچھ سنتے ہو یعنی میں تو رب العالمین کی حقیقت بوچھ رہا ہوں اور یہ اس کے افعال کا ذکر رہا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال لمن حولہ الا تستمعون (٣٥) ’ ۔ “ کیا تم اس شخص کی عجیب باتیں نہیں سنتے ؟ یہ باتیں تو ہمارے سامنے کسی نے نہیں کیں اور نہ ہم نے کبھی سنی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بغیر توقف کے ایک دوسرا دار کیا۔ اور رب العالمین کا مزید تعارف کرایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کو بےاثر کرنے کے لیے فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا کیا سنتے نہیں ہوموسی کیا کہہ رہا ہے بھلا میرے سوا بھی کوئی رب ہے۔ ای الا تصغون الی ھذہ المقالہ اغراء بہ و تعجبا اذ کانت عقیدتھم ان فرعون ربھم و معبودھم (بحر ج 7 ص 13) ۔ ” قال ربکم و رب اباء کم الاولین “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت سنجیدگی اور متانت سے پھر فرمایا۔ ہاں ہاں دور کیوں جاتے ہو جس نے تمہیں اور تمہارے باپ دادا کو پیدا فرمایا اور جو سب کی پرورش کرتا ہے وہی سارے جہان کا رب اور کارساز ہے۔ ” قال ان رسولکم الخ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس قدر سنجیدہ ہورہے تھے فرعون اسی قدر غیر سنجیدہ ہو رہا تھا۔ وہ خائف تھا کہ کہیں ان کی معقول باتوں سے اس کے درباری متاثر نہ ہوجائیں۔ اب کی بار تو وہ اوچھا پن پر اتر آیا اور درباریوں سے بطور استہزاء کہنے لگا یہ تمہارا رسول تو (عیاذا باللہ) دیوانہ ہے بھلا بتاؤ میرے سوا بھی کوئی رب اور معبود ہے۔ لمجنون حیث یزعم ان فی الوجود الھا غیری و کان فرعون ینکر الھیۃ غیرہ (مدارک ج 3 ص 139) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) اس پر فرعون نے اپنے گروپیش کے لوگوں سے کہا کیا تم کچھ سنتے ہو اپنے حاشیہ نشینوں کو توجہ دلانے لگا کہ کچھ سن بھی رہے ہو سوال کچھ اور جواب کچھ