Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 31

سورة الشعراء

قَالَ فَاۡتِ بِہٖۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۳۱﴾

[Pharaoh] said, "Then bring it, if you should be of the truthful."

فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] فرعون کی پہلی بحث تو اس امر میں تھی کہ رب تو میں خود ہوں یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے بار بار کے تکرار سے اسے یہ بات ذہین نشین کرا دی کہ رب العالمین ہی وہ بالاتر ہستی ہے جو پوری کائنات کی خالق، مالک اور پرورش کنندہ ہے۔ حتیٰ کہ خود تمہارا بھی وہی پروردگار ہے۔ لہذا اسے ہی یہ حق سزاوار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ہر حکم کو بجا لایا جائے۔ اب بحث اس بات میں رہ گئی تھی کہ آیا موسیٰ (علیہ السلام) اس بالاتر ہستی کے رسول ہیں بھی یا نہیں ؟ اس بحث کا آغاز بھی خود موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اور کہا کہ اس ہستی نے مجھے اپنے دعویٰ رسالت کی تائید میں کچھ نشانیاں بھی دی ہیں اور میں وہ نشانیاں پیش کرسکتا ہوں۔ جس کے جواب میں فرعون نے کہا ہاں اگر تم اپنے دعویٰ کی صداقت میں کوئی نشانی پیش کرسکتے ہو تو کرو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَاْتِ بِهٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ : فرعون کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس نے کہا، اگر سچے ہو تو پیش کرو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَاْتِ بِہٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ٣١ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١۔ ٣٢) فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اچھا تو دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوائے رسالت میں سچے ہو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈال دی تو وہ اچانک ایک پیلے رنگ کا نمایاں اژدہا بن گیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 This reply of Pharaoh shows that he was not in any way different from the common polytheists of the ancient and modern times. Like all other polytheists he believed in Allah's being the highest Deity in the supernatural sense. Who wielded greater power and authority than all other gods and goddesses. That is why Prophet Moses said to him, "If you do not believe that I have been appointed by AIlah, I can present such clear Signs as will prove that I have really been sent by Him", and that is why Pharaoh said, " I f you are true in your claim, come out with your Sign", otherwise if he had any doubt about the existence of Allah or His being Master of the universe, he would not have asked for the Sign .

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :26 حضرت موسیٰ کے سوال پر فرعون کا یہ جواب خود ظاہر کرتا ہے کہ اس کا حال قدیم و جدید زمانے کے عام مشرکین سے مختلف نہ تھا ۔ وہ دوسرے تمام مشرکین کی طرح فوق الفطری معنوں میں اللہ کے الٰہٰ الالٰہہ ہونے کو مانتا تھا اور ان ہی کی طرح یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ کائنات میں اس کی قدرت سب دیوتاؤں سے برتر ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ اگر تجھے میرے مامور من اللہ ہونے کا یقین نہیں ہے تو میں ایسی صریح نشانیاں پیش کروں جن سے ثابت ہو جائے کہ میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں ۔ اور اسی وجہ سے اس نے بھی جواب دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی یا اس کے مالک کائنات ہونے ہی میں اسے کلام ہوتا تو نشانی کا سوال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا ۔ نشانی کی بات تو اسی صورت میں درمیان آسکتی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا وجود اور اس کا قادر مطلق ہونا تو مسلم ہو ، اور بحث اس امر میں ہو کہ حضرت موسیٰ اس کے بھیجے ہوئے ہیں یا نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٣١‘ ٣٥) فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا وہ حق اور ناحق کی کھول دینے والی کیا چیز ہے اسے لا اگر تو سچ بولنے والوں میں سے ہے حضرت موسیٰ نے اپنے عصا کو ڈال دیا تو وہ ایک ناگ ہوگیا جس کے پاؤں اور بڑا سا منہ اور خوفناک صورت ‘ اور نکالا موسیٰ (علیہ السلام) نے ہاتھ اپنا گریبان میں سے تو ناگہاں وہ ایک سفید اس طرح چمکنے والا تھا جس طرح سورج کا ٹکڑا یہ دوسرا معجزہ دکھایا تو فرعون بدبحت نے اس کے جھٹلانے کی طرف جلدی کر کے کہا یہ تو ایسا جادوگر ہے جو اور جادوگروں سے زیادہ علم والا ہے یہ بات فرعون نے کہہ کر ان کو بہکا دیا اور یہ سوجھا دیا کہ موسیٰ کا یہ کام جادو کی قسم سے ہے معجزہ نہیں ہے پھر فرعون نے ان سرداروں کو موسیٰ ( علیہ السلام) کی مخالفت پر آمادہ کیا اور کہا کہ یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے اپنے جادو کے سبب سے نکال دے اب تم مجھ کو صلاح دو کہ اس کے ساتھ میں کیا معاملہ کروں۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم بیہقی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ابوہریرہ (رض) اور سلمان (رض) فارسی سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب فرعون کو اپنی بی بی آسیہ کا شریعت موسوی کی طرف مائل ہوجانے کا حال معلوم ہوگیا تو فرعون نے چار میخیں گاڑ کر آسیہ کے ہاتھ پاؤں ان میخوں میں باندھ دیے اور طرح طرح کی تکلیف دے کر آسیہ کو ہلاک کر ڈالا ان روایتوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ فرعون نے اپنی ظالمانہ عادت کے سبب سے اپنی بی بی کے ہلاک کرنے کے ارادہ میں اپنے دربار کے کسی سردار سے مشورہ نہیں لیا بلکہ اپنی رائے سے جو کچھ کرنا تھا وہ کر گزرا اسی طرح جادوگروں کو جو اس نے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی پر چڑھانے کا حکم سنایا اس میں بھی کسی سے مشورہ نہیں لیا لیکن حضرت موسیٰ کے عصا اور یدبیضا کے معجزہ کو دیکھ کر آگرچہ اس نے اپنے دربار کے سرداروں کو بہکایا کہ یہ جادو ہے مدد غیبی کی اس میں کوئی بات نہیں ہے مگر دل میں وہ سمجھ گیا کہ جادو کی چیزوں کا دل پر ایسا خوف نہیں ہوتا جیسا خوف اس لکڑی کے سانپ سے ہوا تعجب نہیں کہ جادو سے بڑھ کر اس میں کوئی بھید ہو اس لیے بغیر مشورہ دربار کے سرداروں کے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کسی بد سلوکی سے پیش آنے کی اس کی جرأت نہ ہوئی پہلے فرعون نے دربار کے موجود سرداروں سے مشورہ لیا اس لیے یہاں پہلے کی حالت کا ذکر ہے اور سورة اعراف میں دوسری حالت کا اس واسطے دونوں سورتوں کی آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال فات بہ ان کنت من الصدقین (٣١) ’ ۔ “ لائو اگر تمہارا دعویٰ سچا ہے۔ یا یہ کہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ تمہارے پاس کوئی معجزانہ دلیل ہے ، اس دعویٰ میں اگر تم سچے ہو ، یہ شخص ابھی تک موسیٰ (علیہ السلام) کی حقانیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کے اردگرد جو لوگ بیٹھے ہیں ، کہیں وہ متاثر نہ ہوجائیں۔ اب حضرت موسیٰ اپنے معجزات پیش فرماتے ہیں۔ فرعون کے ساتھ چیلنج اور جوابی چیلنج چونکہ انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ فرعون پر آخری وار کیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ فرعون نے کہا ہاں لاؤ وہ کونسی دلیل ہے۔ اگر اپنے اس قول میں سچے ہو تو وہ دلیل پیش کرو۔ فرعون کا مقصد یہ تھا کہ شاید اس کی پیش کردہ دلیل میں بھی کچھ اعتراض اور رد و قدح کی گنجائش مل جائے۔ ” فالقی عصاہ الخ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً اپنی لاتھی زمین پر ڈالدی جو زمین پر گرتے ہی ایک ہیبتناک اژدہا بن گئی جو ہر ایک کو صاف نظر آرہا تھا۔ ” و نزع یدہ الخ “ اس کے بعد اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر جو باہر نکالا تو وہ جگمگا رہا تھا جسے تمام حاضرین نے صاف صاف دیکھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) فرعون نے کہا اچھا اگر تو سچا ہے تو وہ صریح دلیل پیش کر۔