Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 32

سورة الشعراء

فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۳۲﴾ۚ ۖ

So [Moses] threw his staff, and suddenly it was a serpent manifest.

آپ نے ( اسی وقت ) اپنی لاٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا ( زبردست ) اژدہا بن گئی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He (Fir`awn) said: "Bring it forth then, if you are of the truthful!" So he (Musa) threw his stick, and behold, it was a serpent, manifest. meaning, it was very clear and obvious, with a huge body and a big mouth, terrifying in appearance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

321بعض جگہ ثعبان کو حیۃ اور بعض جگہ جان کہا گیا ہے ثعبان وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں او حیۃ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ واللہ اعلم

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] فرعون نے جب موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی رسالت کے ثبوت میں نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے دربار میں ہی اپنا عصا زمین پر پھینک دیا وہ دیکھتے دیکھتے بہت بڑا سانپ یا اژدہا بن کر فرعون کی طرف بڑھا۔ جس سے فرعون سخت دہشت زدہ ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ اسے سنبھالو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اسے ہاتھ میں لینا ہی تھا کہ وہ پھر سے عطا بن گیا۔ عصا سے بننے والے سانپ کے لئے قرآ کریم میں تین لغت استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مقام پر اسے حیہ فرمایا اور حیہ کا لفظ سائب کے لئے رسم جنس ہے جو ہر قسم کے سانپ کے لئے نیز نر و مادہ کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے مقام پر جان کا لفظ آیا ہے جس کا معنی پتلا، سبک رفتار اور پھرتیلا سانپ ہے اور یہاں ثعبان کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ بڑے سانپ یا اژدہا کے لئے آتا ہے۔ اب ان کی تطبیق یا تو اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا پھینکا تو وہ پہلے پتلا اور پھرتیلا سا سانپ بنا ہو۔ بعد میں دیکھتے ہی دیکھتے اژدہا بن گیا ہو اور یا اس طرح کہ عصا نے شکل تو اژدہا کی اختیار کرلی ہو مگر اس میں پھرتی پتلے سانپ جیسی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٠٧، ١٠٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَلْقٰى عَصَاہُ فَاِذَا ہِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۝ ٣ ٢ۚۖ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ ثعب قال عزّ وجل : فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف/ 107] ، يجوز أن يكون سمّي بذلک من قوله : ثَعَبْتُ الماء فَانْثَعَبَ ، أي : فجّرته وأسلته فسال، ومنه : ثَعَبَ المطر، والثُّعْبَة : ضرب من الوزغ وجمعها : ثُعَبٌ ، كأنّه شبّه بالثعبان في هيئته، فاختصر لفظه من لفظه لکونه مختصرا منه في الهيئة . ث ع ب ) ثعب ( ف) ثعبا ۔ الماء کے معنی ہیں اس نے پانی پہا یا فانثعب اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہیں چناچہ وہ بہ نکلا۔ اسی سے ثعب المطر ہے ( جس کے معنی بارش کا بہتا ہوا پانی یا برساتی نالہ کے ہیں ) اور ہوسکتا ہے کہ آیت کریمہ :۔ فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف/ 107] تو وہ امی وقت صریح اژدہا بن گئی ۔ میں ثعبان ( اژدھا ) بھی ثعبت الماء کے محاورہ سے ماخوذ ہو سانپ بھی چونکہ زمین پر اس طرح چلتا ہے ۔ جیسے پانی بہ رہا ہے ہوتا ہے اسلئے اسے ثعبان کہا گیا ہو ۔ نعبۃ خبیث قسم کا گرکٹ ج ثعب یہ بھی چونکہ شکل و صورت میں سانپ کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے اسے ثعبۃ کہا جاتا ہے اور جسم میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لفظ میں اختصار کرلیا گیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ ) ” واضح رہے کہ سورة طٰہٰ کی آیت ٢٠ میں عصا کی تبدیلۂ یئت کے لیے ” حَیَّۃٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس کے معنی عام سانپ کے ہیں اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وادئ طویٰ میں پہلی بار اس کا تجربہ کرایا گیا تھا۔ جبکہ فرعون کے دربار میں وہ ” ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ“ یعنی واضح طور پر ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 Thub an means a serpent. At other places, the Qur'an has used hayyatun (snake) and jaann (a small snake) to describe the snake of the staff. The interpretation given by Imam Razi is that the snake of the staff looked like a serpent from its big size and has been called jaann on account of its swift movement which is characteristic of small snakes.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :27 قرآن مجید میں کسی جگہ اس کے لیے حَیَّۃٌ ( سانپ ) اور کسی جگہ جَآن ( جو بالعموم چھوٹے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور یہاں اسے ثُعْبَانٌ ( اژدہا ) کہا جا رہا ہے ۔ اس کی توجیہ امام رازی اس طرح کرتے ہیں کہ : حَیَّۃٌ عربی زبان میں سانپ کی جنس کے لیے مشترک نام ہے ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔ اور ثُعْبَانٌ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ جسامت کے اعتبار سے وہ اژدھے کی طرح تھا ۔ اور جَانّ کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا کہ اس کی پھرتی اور تیزی چھوٹے سانپ جیسی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:32) نزع ماضی واحد مذکر غائب۔ نزع مصدر (باب فتح) اس نے باہر نکالا۔ بیضاء بیاض سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ سفید۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی ایسا اژدھا جس کا اژدھا ہونا بالکل واضح اور عیاں تھا نہ کہ کسی شعبدہ بازی کا دھوکا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فالقی عصاہ ……للنظرین (٣٢) انداز بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصا فی الحقیقت سانپ بن گیا تھا۔ زندہ ہوگیا اور زمین پر رینگنے لگا اور جب انہوں نے اپنا ہاتھ بغل سے نکالا تو وہ فی الواقعہ سفید تھا اور یہ مفہوم (فاذا ھی ) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ محض نظر بندی یا تخیل نہ تھا جس طرح جادو گر کرتے ہیں اور چیزیں اپنی حقیقت پر ہی رہتی ہیں۔ محض لوگوں کے جو اس کے اندر خلل آجاتا ہے۔ اشیاء کی حقیقت نہیں بدلتی۔ زندگی کا عظیم معجزہ ، جو اس کرہ ارض پر رواں ہے اور یہ معجزہ وقت ہوتا رہتا ہے۔ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ وہ اس کے ساتھ مانوس ہوگ ئے ہیں اور یہ معجزہ بار بار اس زمین پر دہرایا جاتا ہے یا لوگ زندگی کے ذریعہ رونما ہونے والی اس تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کرتے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے یہ دونوں معجزے رکھے تو یہ ایک ایسا امر تھا کہ پہلی نظر میں اس نے لوگوں کو ہلاک کر رکھ دیا۔ فرعون نے اب محسوس کیا کہ یہ معجزہ تو بہرحال بہت بڑا ہے اور اپنے اندر بڑی قوت رکھتا ہے۔ چناچہ اس نے فوراً اس معجزے کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اپنے دل میں تو وہ خود جانتا تھا کہ اس کا موقف غلط ہے۔ یہ بھی ممکن تھا اس کے حاشیہ نشین چاپلوسی کرتے ہوئے حقیقی صورتحال نہ بتائیں۔ اس لئے یہ شخص حضرت موسیٰ اور قوم موسیٰ کی طرف سے سامنے آنے والے خطرے کو خود حاشیہ نشینوں کے سامنے رکھتا ہے تاکہ وہ ان معجزات کے اثرات کو کم کرسکے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ اسی وقت ایک صاف و نمایاں اژدہا بن گیا۔