Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 33

سورة الشعراء

وَّ نَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ہِیَ بَیۡضَآءُ لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿۳۳﴾٪  6

And he drew out his hand; thereupon it was white for the observers.

اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اسی وقت دیکھنے والے کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنَزَعَ يَدَهُ ... And he (Musa) drew out his hand, meaning, from his sleeve, ... فَإِذَا هِيَ بَيْضَاء لِلنَّاظِرِينَ and behold, it was white to all beholders! It was shining like a piece of the moon.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331یعنی گریبان سے ہاتھ نکالا تو چاند کے ٹکڑے کی طرح چمکتا تھا ؛ یہ دوسرا معجزہ موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یہ پہلا معجزہ ہی فرعون کی یقین دہانی کے لئے کافی تھا۔ ابھی فرعونیوں پر اس معجزہ کے اثرات باقی تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری نشانی کا آغاز کیا اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں بغل میں دبایا۔ پھر جب اسے نکالا تو اس سے روشنی کی شعاعیں نکل کر فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگیں۔ فرعون اور سب درباری محو حیرت بنے ہوئے ان نشانیوں کا اثر قبول کر رہے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّنَزَعَ يَدَہٗ فَاِذَا ہِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ۝ ٣٣ۧ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ بيض البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 106- 107] . والأَبْيَض : عرق سمّي به لکونه أبيض، ولمّا کان البیاض أفضل لون عندهم كما قيل : البیاض أفضل، والسواد أهول، والحمرة أجمل، والصفرة أشكل، عبّر به عن الفضل والکرم بالبیاض، حتی قيل لمن لم يتدنس بمعاب : هو أبيض اللون . وقوله تعالی: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ [ آل عمران/ 106] ، فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسودادها عن الغم، وعلی ذلک وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل/ 58] ، وعلی نحو الابیضاض قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] ، وقوله : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس/ 38- 39] . وقیل : أمّك بيضاء من قضاعة«1» وعلی ذلک قوله تعالی: بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات/ 46] ، وسمّي البَيْض لبیاضه، الواحدة : بَيْضَة، وكنّي عن المرأة بالبیضة تشبيها بها في اللون، وکونها مصونة تحت الجناح . وبیضة البلد يقال في المدح والذم، أمّا المدح فلمن کان مصونا من بين أهل البلد ورئيسا فيهم، وعلی ذلک قول الشاعر : کانت قریش بيضة فتفلّقت ... فالمحّ خالصه لعبد مناف وأمّا الذم فلمن کان ذلیلا معرّضا لمن يتناوله كبيضة متروکة بالبلد، أي : العراء والمفازة . وبَيْضَتَا الرجل سمّيتا بذلک تشبيها بها في الهيئة والبیاض، يقال : بَاضَتِ الدجاجة، وباض کذا، أي : تمكّن . قال الشاعر : بداء من ذوات الضغن يأوي ... صدورهم فعشش ثمّ باض وبَاضَ الحَرُّ : تمكّن، وبَاضَتْ يد المرأة : إذا ورمت ورما علی هيئة البیض، ويقال : دجاجة بَيُوض، ودجاج بُيُض ( ب ی ض ) البیاض سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے ۔ اور ابیض ایک رگ کا نام بھی ہے جو سفید رنگ ہونے کی وجہ سے ابیض کہلاتی ہے ۔۔ اہل عرب کے ہاں چونکہ سفید رنگ تمام رنگوں میں بہتر خیال کیا جاتا ہے جیسے کہا گیا ہے البیاض افضل والسواد اھول والحمرۃ اجمل والصفرۃ اشکل اس لئے بیاض بول کر فضل وکرم مراد لیا جاتا ہے اور جو شخص ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اسے ابیض الوجہ کہا جاتا ہے اس بنا پر آیت مذکورہ میں ابیاض الوجوہ سے مسرت اور اسود الوجوہ سے تم مراد ہوگا جیسے دوسری جگہ فرمایا ؛۔ وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل/ 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے ۔ اور جیسے ابیاض الوجوہ خوشی سے کنایہ ہوتا ہے اسی طرح آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] اس روز بہت سے منہ رونق وار ہوں گے اور آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس/ 38- 39] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہونگے خوش اور مسرور نظر آئیں گے ۔ میں بھی نضرۃ اور اسفار سے مراد مسرت ہی ہوگی ۔ شاعر نے کہا ہے ( منسرح ) (72) امت بیضاء من قضاعۃ یعنی تم عفیف اور سخٰ سردار ہو ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛۔ بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات/ 46] جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر ) لذت ہوگئی ۔ البیض یہ بیضۃ کی جمع ہے اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ اسے بیضۃ کہا جاتا ہے ۔ انڈا سفید اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لئے تشبیہ کے طور بیضۃ بول کر خوبصورت عورت مراد لی جاتی ہے۔ بیضۃ البلد یہ لفظ تعریف اور مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب کلمہ تعریفی ہو تو اس سے رئیس شہر مراد ہوتا ہے ۔ اسی بناپر شاعر نے کہا ہے :۔ ( کامل ) (73) کانت قریش بیضۃ فتفلقت فالمخ خالصہ لعبدمناف قریش ایک انڈے کی مثل تھے ۔ جو ٹوٹا تو عبد مناف کے حصہ میں خالص مخ آئی ۔ اور جب مذمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے ذلیل آدمی مراد لیا جاتا ہے جسے جنگل میں پڑے ہوئے انڈے کی طرح ہر ایک توڑ سکتا ہے اور شکل ورنگ میں مشابہت کی وجہ سے خصیتین کو بیضا الرجل کہا جاتا ہے ۔ باضت الدجاجۃ مرغی کا انڈے دینا ۔ باض کذا کسی جگہ پر متمکن ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے (74) بدامن ذوات الضغن یآوی صدورھم فعش ثم باضا باض الحر گرمی سخت ہونا ۔ باضت یدا لمرءۃ عورت کے ہاتھ پر انڈے کی طرح درم ہونا ۔ دجاجۃ بیوض انڈے دینے والی مرغی ج بیض ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) فرعون کہنے لگا یہ تو ایک واضح نشانی ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسری نشانی ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ گریبان میں دے کر نکالا تو وہ سورج کی روشنی کی طرح دفعتا چمکتا ہوا ہوگیا کہ اس کی چمک اور روشنی سے دیکھنے والے حیران رہ گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 Some commentators under the influence of the Israelite traditions have translated baida' as white and have taken it to mean that the healthy hand when drawn out of the armpit became white as if struck by leprosy. But commentators like Ibn Jarir, Ibn Kathir, Zamakhshari, Razi, Abul Sa'ud `Imadi, Alusi and others are agreed that baida' here means shining and bright. As soon as Prophet Moses took out his hand from the armpit, it made the whole place bright as if by the sun. For further explanation, see E.N. 13 of Ta Ha.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :28 بعض مفسرین نے یہودی روایات سے متاثر ہو کر بَیْضَاء کے معنی سفید کیے ہیں اور اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ بغل سے نکالتے ہی بھلا چنگا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید ہو گیا ۔ لیکن ابن جریر ، ابن کثیر ، زَمَخْشَری ، رازی ، ابو السعود عمادی ، آلوسی اور دوسرے بڑے بڑے مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہاں بَیْضَآءُ بمعنی روشن اور چمکدار ہے ۔ جونہی کہ حضرت موسیٰ نے بغل سے ہاتھ نکالا یکایک سارا ماحول جگمگا اٹھا اور یوں محسوس ہوا جیسے سورج نکل آیا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، طٰہٰ حاشیہ 13 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یعنی چمک دار ہوگیا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی سورج کی طرح جگمگا رہا تھا جس پر آنکھ نہ ٹھہرتی تھی۔ (ابن کثیر) دوسرے مقام پر بیضا من غیر سوء فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید نہ تھا بلکہ کسی بیماری کے بغیر اس طرح چمک رہا تھا جیسے سورج۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ باہر نکالا تو وہ ہاتھ اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے بہت چمکتا ہوا اور روشن ہوگیا یعنی ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ بہت روشن اور چمکدار ہوکرنکلا۔