Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 35

سورة الشعراء

یُّرِیۡدُ اَنۡ یُّخۡرِجَکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ بِسِحۡرِہٖ ٭ۖ فَمَا ذَا تَاۡمُرُوۡنَ ﴿۳۵﴾

He wants to drive you out of your land by his magic, so what do you advise?"

یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے ہی نکال دے ، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِ ... He wants to drive you out of your land by his sorcery... meaning, `he wants to capture the people's hearts and win them over by doing this, so that they will support him, and help him and follow him, and he will defeat you in your own land and take the land from you. ... فَمَاذَا تَأْمُرُونَ what is it then that you command!" i.e., So advise me, what should I do with him!' قَالُوا أَرْجِهِ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَايِنِ حَاشِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

351پھر اپنی قوم کو مذید بھڑکانے کے لئے کہا کہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اب بتلاؤ ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] فرعون اگرچہ خود بھی ان نشانیوں سے متاثر ہوچکا تھا تاہم اس نے درباریوں کے ذہن سے یہ اثر زائل کرنے کے لئے یوں کہا دیا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر معلوم ہوتا ہے۔ اور چاہتا یہ ہے کہ تمہیں اس طرح مرعوب اور دہشت زدہ کرکے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے اور خود اس ملک پر قبضہ جما لے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرعون کی ان دونوں باتوں میں کھلا تضاد ہے پہلی بات تو اس نے درباریوں اور عام لوگوں کو الو بنانے کے لئے کہی تھی کیونکہ جادوگر تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ملک مصر میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مگر کسی جادوگر میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جادو کے زور سے کوئی ملک تو بڑی چیز ہے کوئی چھوٹی سی بستی ہی فتح کرکے دکھلا دے۔ وہ خود ایک مانگت اور سوالی قسم کا انسان ہوتا ہے۔ جو شعبدے دکھلانے کے بعد لوگوں سے اس محنت کی اجرت کا مطالبہ کرتا ہے۔ بھلا کسی جادوگر کی یہ ہمت ہوسکتی ہے کہ وہ فرعون جیسے جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات چیت کرے۔ اور دوسری بات فی الواقعہ حقیقت کے قریب تھی۔ جو فرعون کے منہ سے بےساختہ نکل گئی تھی۔ اسے فی الواقعہ یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ شخص واقعی اللہ رب العالمین کا رسول ہے۔ اور اگر میں نے اس کی دعوت کو جھٹلا دیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ موسیٰ غالب آئے گا اور میں مغلوب ہوجاؤں گا مگر یہ بات وہ اپنے درباریوں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ [٢٨] تاموون کا ترجمہ یہاں عموماً && کیا حکم دیتے ہو یا کیا حکم کرتے ہو ؟ && کیا جاتا ہے جو میرے خیال میں درست نہیں۔ بھلا فرعون جیسا خود سر اور اپنے آپ کو رب کہلانے والا فرمانروا بھلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اپنے درباریوں سے ایسا کہہ سکتا تھا امر کا لفظ مشورہ دینے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ امرتژ عن امری کا معنی ہوگا۔ میں نے اپنے کام کے متعلق اس سے مشورہ کیا) منتہی الادب نیز مفردات امام راغب ( چناچہ اسی بدحواسی کے عالم میں فرعون نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ اس صورت حال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ &&

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہٖ ۝ ٠ۤۖ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ۝ ٣٥ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہٖق فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ) ” لغوی اعتبار سے ” امر “ کے معنی حکم کے بھی ہیں اور مشورہ کے بھی ‘ مگر یہاں یہ لفظ مشورہ کے معنی دے رہا ہے۔ فرعون کے اس فقرے سے اس کی تشویش صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ گویا صورت حال اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پیچیدہ اور گھمبیر تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 The impact of the two miracles can be judged from the fact that a moment before this Pharaoh was calling Moses a mad man, because he had claimed to be a Prophet and had had the boldness to openly demand release of the Israelites. He was also threatening Moses that if he took somebody else as Lord instead of him, he would cast him into the prison for life. But, after he had seen the Signs, he became so terror-stricKen that he felt his kingdom to be at stake, and in his contusion he did not realize that he was talking meaninglessly to his servants in the court. Two men from the oppressed community of the Israelites were standing before the most powerful ruler of the time: they had no military force with them, they belonged to a weak and lifeless community, and there was no sign of any rebellion in any corner of the country, nor did they have the support of any foreign power, yet as soon as the miracles of the snake of the staff and the shining hand were shown, the tyrant desperately cried out: "These two men want to seize power and deprive the ruling class of their sovereign rights!" His apprehension that Moses would do so by force of his magic again reflected a confused state of mind, for nowhere in the world has a political revolution been ever brought about, nor a country taken, nor a war won merely by force of tragic. There were many magicians in Egypt, who could perform masterly tricks of tragic, but Pharaoh knew it well that they were nonentities because they performed magic only for the sake of rewards. 30 30. This sentence further shows Pharaoh's perplexed state of mind. A moment before he was the deity of his courtiers and, now, struck by awe, the deity is asking his servants as to what he should do to meet the dangerous situation.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :29 دونوں معجزوں کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ یا تو ایک لمحہ پہلے وہ اپنی رعیت کے ایک فرد کو برسر دربار رسالت کی باتیں اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتے دیکھ کر پاگل قرار دے رہا تھا ( کیونکہ اس کے نزدیک ایک غلام قوم کے فرد کا اس جیسے با جبروت بادشاہ کے حضور ایسی جسارت کرنا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہ ہو سکتا تھا ) اور اسے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود مانا تو جیل میں سڑا سڑا کر مار دوں گا ، یا اب ان نشانیوں کو دیکھتے ہی اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اسے اپنی بادشاہی اور اپنا ملک چھننے کا خطرہ لاحق ہو گیا اور بد حواسی میں اسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھرے دربار میں اپنے نوکروں کے سامنے کیسی بے تکی باتیں کر رہا ہوں ۔ بنی اسرائیل جیسی دبی ہوئی قوم کے دو افراد وقت کے سب سے بڑے طاقتور بادشاہ کے سامنے کھڑے تھے ۔ کوئی لاؤ لشکر ان کے ساتھ نہ تھا ۔ کوئی جان ان کی قوم میں نہ تھی ۔ کسی بغاوت کا نام و نشان تک ملک کے کسی گوشے میں نہ تھا ۔ ملک سے باہر کسی دوسری حکومت کی طاقت بھی ان کی پشت پر نہ تھی ۔ اس حالت میں صرف ایک لاٹھی کا اژدہا بنتے دیکھ کر اور ایک ہاتھ کو چمکتے دیکھ کر یکایک اس کا چیخ اٹھنا کہ یہ دو بے سرو سامان آدمی میری سلطنت کا تختہ الٹ دیں گے اور پورے حکمران طبقے کو اقتدار سے بے دخل کر دیں گے ، آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا یہ کہنا کہ یہ شخص جادو کے زور سے ایسا کر ڈالے گا ، مزید بد حواسی کی دلیل ہے ۔ جادو کے زور سے دنیا میں کبھی کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا ، کوئی ملک فتح نہیں ہوا ، کوئی جنگ نہیں جیتی گئی ۔ جادوگر تو اس کے اپنی ملک میں موجود تھے اور بڑے بڑے کرشمے دکھا سکتے تھے ۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ تماشا کر کے انعام لینے سے بڑھ کر ان کی کوئی اوقات نہیں ہے ۔ سلطنت تو کجا ، وہ بیچارے تو سلطنت کے کسی پولیس کانسٹیبل کو بھی چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکتے تھے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :30 یہ فقرہ فرعون کی مزید بدحواسی کو ظاہر کرتا ہے ۔ کہاں تو وہ الٰہ بنا ہوا تھا اور یہ سب اس کے بندے تھے ۔ کہاں اب الٰہ صاحب مارے خوف کے بندوں سے پوچھ رہے ہیں کہ تمہارا حکم کیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری عقل تو اب کچھ کام نہیں کرتی ، تم بتاؤ کہ اس خطرے کا مقابلہ میں کیسے کروں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ ابھی خدائی کے دعوے تھے اور ابھی اپنے وزیروں اور درباریوں سے پوچھنے پر اتر آیا کہ بتائو کیا کیا جائے ؟ اس آئی بلا کو کیونکر ٹالا جائے ؟ اس نے اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر یہ رویہ اختیار کیا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگروں کے ساتھ مقابلہ کا چیلنج دیا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سیرت اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ جب بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو سب سے پہلے انھیں پاگل اور جادو گر کہا گیا تھا۔ یہی الزام موسیٰ (علیہ السلام) پر لگے کہ یہ بہت بڑا جادوگر ہے۔ حالانکہ فرعون جانتا تھا کہ جادوگر اس سیرت کے حامل لوگ نہیں ہوتے۔ جس سیرت سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سرفراز فرمایا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر فرعون نے سیاسی حربہ استعمال کرتے ہوئے اپنے وزیروں، مشیروں کو کہا کہ یہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ بتاؤ تمہارا کیا فیصلہ ہے ؟ وزیرں، مشیروں نے بیک زباں ہو کر کہا کہ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجیے اور آپ اہل کاروں کو بھیجیں کہ وہ ملک بھر سے آپ کے پاس بڑے بڑے جادوگروں کو حاضر کریں ہاں مقابلے کے لیے ایک خاص دن متعین ہونا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد پوری ہوئی۔ اس لیے فوراً مان گئے اور فرمایا کہ یہ دن عام نہیں بلکہ قومی تہوار کا دن ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی فرعون نے کہا کہ ہم میں سے کسی کو وعدہ خلافی نہیں کرنا چاہیے۔ (طٰہٰ : ٥٨، ٥٩) موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی دعوت پیش کرنے کرلیے عظیم موقعہ ہاتھ آرہا تھا، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) تو اتنا بڑا اجتماع منعقد نہیں کرسکتے تھے۔ جب لوگ متعین دن میں صبح کے وقت ایک کھلے میدان میں جمع ہوگئے تو فرعون نے اس بات کی تسلّی کی۔ کیا مطلوبہ تعداد میں لوگ جمع ہوگئے ہیں ؟ اعلیٰ حکام نے رپورٹ پیش کی کہ ہاں، لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوچکے ہیں۔ اس اطمینان کے بعد فرعون اپنے وزیروں، مشیروں کے ساتھ یہ کہہ کر اجتماع کی طرف نکلا کہ آؤ اگر جادوگر غالب آتے ہیں تو ہم ان کی اتباع کریں۔ جب جادوگر اکٹھے ہوئے تو انھوں نے فرعون سے مطالبہ کیا اگر ہم غالب آجائیں تو ہمارا کیا معاوضہ ہوگا ؟ فرعون نے انھیں اطمینان دلایا کہ نقد انعام کے ساتھ میں تمہیں اپنا مقرب بناؤں گا۔ یہاں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے قریب عام طور پر مفاد پرست اور محض سرکاری درباری لوگ ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد مالی مفاد اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصب حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ اس وقت تک ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے جب تک انھیں منصب اور مراعات ملنے کا یقین نہ ہوجائے۔ یہی جادوگروں کا مطلوب اور مقصود تھا۔ جہاں تک فرعون کے اس جملے کا تعلق ہے کہ اگر جادوگر غالب آئے تو ہم ان کی اتباع کریں گے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اس نے بھری مجلس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم غالب آگئے تو ہم آپ کی اتّباع کریں گے لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) غالب آئے تو فرعون اور اس کے ساتھی اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) اس کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے باہرنکال دے۔ سو اب تم لوگ اس بارے میں مجھ کو کیا مشورہ دیتے ہو یعنی اس ملک سے ہم کو نکال کر خود قابض ہوناچاہتا ہے لہٰذا اس پر غالب آنے کے لئے کوئی مشورہ دو کہ ہم کو کیا کرنا چاہئے۔