29 The impact of the two miracles can be judged from the fact that a moment before this Pharaoh was calling Moses a mad man, because he had claimed to be a Prophet and had had the boldness to openly demand release of the Israelites. He was also threatening Moses that if he took somebody else as Lord instead of him, he would cast him into the prison for life. But, after he had seen the Signs, he became so terror-stricKen that he felt his kingdom to be at stake, and in his contusion he did not realize that he was talking meaninglessly to his servants in the court. Two men from the oppressed community of the Israelites were standing before the most powerful ruler of the time: they had no military force with them, they belonged to a weak and lifeless community, and there was no sign of any rebellion in any corner of the country, nor did they have the support of any foreign power, yet as soon as the miracles of the snake of the staff and the shining hand were shown, the tyrant desperately cried out: "These two men want to seize power and deprive the ruling class of their sovereign rights!" His apprehension that Moses would do so by force of his magic again reflected a confused state of mind, for nowhere in the world has a political revolution been ever brought about, nor a country taken, nor a war won merely by force of tragic. There were many magicians in Egypt, who could perform masterly tricks of tragic, but Pharaoh knew it well that they were nonentities because they performed magic only for the sake of rewards.
30 30. This sentence further shows Pharaoh's perplexed state of mind. A moment before he was the deity of his courtiers and, now, struck by awe, the deity is asking his servants as to what he should do to meet the dangerous situation.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :29
دونوں معجزوں کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ یا تو ایک لمحہ پہلے وہ اپنی رعیت کے ایک فرد کو برسر دربار رسالت کی باتیں اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتے دیکھ کر پاگل قرار دے رہا تھا ( کیونکہ اس کے نزدیک ایک غلام قوم کے فرد کا اس جیسے با جبروت بادشاہ کے حضور ایسی جسارت کرنا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہ ہو سکتا تھا ) اور اسے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود مانا تو جیل میں سڑا سڑا کر مار دوں گا ، یا اب ان نشانیوں کو دیکھتے ہی اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اسے اپنی بادشاہی اور اپنا ملک چھننے کا خطرہ لاحق ہو گیا اور بد حواسی میں اسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھرے دربار میں اپنے نوکروں کے سامنے کیسی بے تکی باتیں کر رہا ہوں ۔ بنی اسرائیل جیسی دبی ہوئی قوم کے دو افراد وقت کے سب سے بڑے طاقتور بادشاہ کے سامنے کھڑے تھے ۔ کوئی لاؤ لشکر ان کے ساتھ نہ تھا ۔ کوئی جان ان کی قوم میں نہ تھی ۔ کسی بغاوت کا نام و نشان تک ملک کے کسی گوشے میں نہ تھا ۔ ملک سے باہر کسی دوسری حکومت کی طاقت بھی ان کی پشت پر نہ تھی ۔ اس حالت میں صرف ایک لاٹھی کا اژدہا بنتے دیکھ کر اور ایک ہاتھ کو چمکتے دیکھ کر یکایک اس کا چیخ اٹھنا کہ یہ دو بے سرو سامان آدمی میری سلطنت کا تختہ الٹ دیں گے اور پورے حکمران طبقے کو اقتدار سے بے دخل کر دیں گے ، آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا یہ کہنا کہ یہ شخص جادو کے زور سے ایسا کر ڈالے گا ، مزید بد حواسی کی دلیل ہے ۔ جادو کے زور سے دنیا میں کبھی کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا ، کوئی ملک فتح نہیں ہوا ، کوئی جنگ نہیں جیتی گئی ۔ جادوگر تو اس کے اپنی ملک میں موجود تھے اور بڑے بڑے کرشمے دکھا سکتے تھے ۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ تماشا کر کے انعام لینے سے بڑھ کر ان کی کوئی اوقات نہیں ہے ۔ سلطنت تو کجا ، وہ بیچارے تو سلطنت کے کسی پولیس کانسٹیبل کو بھی چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکتے تھے ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :30
یہ فقرہ فرعون کی مزید بدحواسی کو ظاہر کرتا ہے ۔ کہاں تو وہ الٰہ بنا ہوا تھا اور یہ سب اس کے بندے تھے ۔ کہاں اب الٰہ صاحب مارے خوف کے بندوں سے پوچھ رہے ہیں کہ تمہارا حکم کیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری عقل تو اب کچھ کام نہیں کرتی ، تم بتاؤ کہ اس خطرے کا مقابلہ میں کیسے کروں ۔