Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 71

سورة الشعراء

قَالُوۡا نَعۡبُدُ اَصۡنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰکِفِیۡنَ ﴿۷۱﴾

They said, "We worship idols and remain to them devoted."

انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "We worship idols, and to them we are ever devoted." meaning: we are devoted to worshipping them and praying to them. قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

711یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] لوگوں نے جواب میں کہا کہ تم نے ان سے متعلق نہایت حقارت کے لہمہ میں یہ سوال کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ انتہائی قابل احترام چیزیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عجز و نیاز سے سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ پہلے یہ بتلایا جاچکا ہے کہ حضرت ابراہیم کی قوم حقیقتاً ستارہ پرست تھی۔ اور وہ سیاروں کے ... انسانی زندگی پر اثرات کے شدت سے قائل تھے۔ انہوں نے ہر سیارہ کی روح کی ایک تصویر اپنے ذہن میں طے کر رکھی تھی پھر اسی تصویر کے مطابق ان کے مجسمے یا بت بنائے جاتے تھے۔ مثلاً کوئی سورج دیوتا کا مجسمہ تھا تو کوئی چاند دیوی کا۔ اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جس سیارہ کا وہ مجسمہ ہو اس سیارہ کی روح کا اس سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ اور اگر ان بتوں کی پوجا پاٹ کریں گے تو سیاروں کے غضب اور ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں گے۔ اور یہ سب کچھ ان کا وہم و قیاس ہی تھا۔ جس کے لئے کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِيْنَ :” اَصْنَامًا “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ دن بھر کام کرنے کو ” ظَلَّ یَظَلُّ “ اور رات بھر کام کرنے کو ” بَاتَ یَبِیْتُ “ کہتے ہیں۔ ” ظَلَّ یَظَلُّ “ کسی وقت کسی کام میں مصروف ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ” عٰكِفِيْنَ “ اعتکاف کہتے ہیں کسی جگہ...  جم کر بیٹھے رہنا یعنی مجاوری۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی تھا کہ ” اَصْنَامًا “ (بتوں کی) مگر انھوں نے فخر کے لیے کہا کہ ہم عظیم بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ” لَھَا “ کو ” عٰكِفِيْنَ “ سے پہلے لانے سے تخصیص پیدا ہو رہی ہے، یعنی ہم انھی کے مجاور بنے رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی قبر پرست کو سمجھانے کے لیے کہا جائے کہ تم کس چیز کی پوجا کر رہے ہو ؟ (یعنی جس کا کوئی فائدہ نہیں) تو وہ آگے سے فخر کے ساتھ کہے کہ ہم تو فلاں دربار ہی کے مجاور ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰكِفِيْنَ۝ ٧١ صنم الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام/ 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء/ 57] ، قال بعض الحکم... اء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك . ( ص ن م ) الصنم کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام/ 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء/ 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق ر اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ عكف العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] ، أي : محبوسا ممنوعا . ( ع ک ف ) العکوف کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) انھوں نے کہا ہم ان بتوں کی جو کہ معبود ہیں عبادت کیا کرتے ہیں اور ہم ان کی عبادت پر جمے بیٹھے رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 Though everybody knew that they worshipped idols, their answer implied that they were firm in faith and their hearts were satisfied with it, as if to say, "We also know that these are idols of stone and wood, which we worship, but our faith demands that we should serve and worship them devotedly."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :52 یہ جواب بھی محض یہ خبر دینے کے لیے نہ تھا کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں ، کیونکہ سائل و مسئول دونوں کے سامنے یہ امر واقعہ عیاں تھا ۔ اس جواب کی اصل روح اپنے عقیدے پر ان کا ثبات اور اطمینان تھا ۔ گویا دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہاں ، ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی او... ر پتھر کے بت ہیں جن کی ہم پوجا کر رہے ہیں ، مگر ہمارا دین و ایمان یہی ہے کہ ہم ان کی پرستش اور خدمت میں لگے رہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:71) فنظل میں الفاء عطف کا ہے نظل ، ظل یظل سے مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے افعال ناقصہ میں سے ہے ظل اگرچہ دن کے فعل کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ بات کا استعمال فعل شب کے لئے ہوتا ہے لیکن توسیع استعمال سے بمعنی صار مستعمل ہے لہٰذا فنظل لہا عکفین کا ترجمہ ہم دن کو ان بتوں کی پوجا میں لگے رہتے ہیں کی بجائ... ے ” ہم ان بتوں کی پوجا پر جمے رہتے ہیں یا قائم رہتے ہیں۔ زیادہ صحیح ہے۔ عکفین اسم فاعل جمع مذکر۔ عاکف کی جمع۔ معتکف اعتکاف کرنے والے۔ اردگرد جمع ہونے والے۔ مجاور۔ جم کر بیٹھنے والے عکوف مصدر۔ جس کے معنی ہیں تعظیم کے طور پر کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا اور اس کو لازم پکڑ لینا۔ عکوف فی المسجد کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھنا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا نعبد اصناماً فنظل لھا عکفین (٧١) یہ لوگ اپنے بتوں کو اللہ کہتے تھے لیکن قرآن کریم نے ان کی زبانی ان کے لئے اصنام کا لفظ بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ یہ بت پتھروں سے گھڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ان بتوں کی عبادت اور تعظیم میں لگے ہوئے ہیں اور ی... ہ ان کے عقائد کی ایک عام کمزوری تھی لیکن جب عقائد نور خیالات بگڑ جاتے ہیں ، تو پھر جن لوگوں نے ان بگڑے ہوئے عقائد کو سینے سے لگا لیا ہوتا ہے وہ سمجھ نہیں سکتے کہ ان کا یہ رویہ ان کو کس قدر ذلتوں اور کس قر پستیوں تک گرا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے غافل دلوں کو جگاتے ہیں ، ان کی عقل سے اپیل کرتے ہیں کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ کس حد تک تم گر گئے ہو اور کیا کیا حماقتوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہو۔ بغیر سوچنے اور سمجھنے کے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ مشرکین نے کہا ہم ٹھاکروں کی عبادت کرتے اور ہر وقت انہی کی پرستش میں لگے رہتے ہیں۔ ” قال ھل یسمعونکم “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اب دوسرا سوال کیا کہ کیا یہ تمہارے معبود تمہاری پکار کو سنتے ہیں، پکارنے کی صورت میں تمہیں نفع پہنچاتے اور نہ پکارنے کی صورت میں تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں ؟ ” قالوا ... بل وجدنا الخ “ یہ مشرکین کا جواب ہے۔ ” بل ‘ ما قبل سے اضرا ہے یعنی وہ نہ سنتے ہیں اور نہ نفع و ضرر ان کے اختیار میں ہے ہم تو محض اپنے باپ دادا کی دیکھا دیکھی ان کی پرستش کرتے ہیں ان کے پاس ان معبودوں کے سمیع اور نافع و ضار ہونے کی چونکہ کوئی دلیل نہ تھی اس لیے مجبوراً انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ باپ دادا کے عمل کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اضربوا عن ان یکون لھم سمع او نفع او ضرا اعترافا بما لا سبیل لھم الی انکارہ واضطروا الی اظھار ان لا سند لھم سوی التقلید فکانہم قالوا لا یسمعون ولا ینفعونا ولا یضرون وانما وجدنا اباڑنا یفعلون مثل فعلنا ویعبدونھم مثل عبادتنا فاقتدینا بھم (روح ج 19 ص 94) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

71۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے ہی اور ہم انہی مورتیوں کے مجاور بنے ہوئے ہیں اور سارے دن انہی کے پاس جمے بیٹھے رہتے ہیں یعنی یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیاں ہیں جن کی ہم پوجا کیا کرتے ہیں اور انہی کے سامنے آسن جمائے بیٹھے رہتے ہیں اور دن بھر ان سے ہی لگے بیٹھے رہتے ہیں۔