Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 0

سورة النمل

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النَّمْل نام : دوسرے رکوع کی چوتھی آیت میں وَادِ النَّملِ کا ذکر آیاہے ۔ سورةکا نام اسی سے ماخوذ ہے ۔ یعنی وہ سورة جس میں النمل کا ذکر آیا ہے ۔ یا جس میں النمل کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ زمانہ نزول : مضمون اور انداز بیان مکہ کے دور متوسط کی سورتوں سے پوری مشابہت رکھتا ہے ۔ اور اس کی تائید روایات سے بھی ہوتی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ ”پہلے سورہ شعراء نازل ہوئی ، پھر النمل ، پھر القصص ۔ “ موضوع اور مباحث : یہ سورة دو خطبوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا خطبہ آغاز سورة سے چوتھے رکوع کے خاتمے تک ہے ۔ اور دوسرا خطبہ پانچویں رکوع کی ابتدا سے سورة کے اختتام تک ۔ پہلے خطبے میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کی رہنمائی سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اور اس کی بشارتوں کے مستحق بھی صرف وہی لوگ ہیں جو ان حقیقتوں کو تسلیم کریں جنہیں یہ کتاب اس کائنات کی بنیادی حقیقتوں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے ۔ اور پھر مان لینے کے بعد اپنی عملی زندگی میں بھی اطاعت و اتباع کا رویہ اختیار کریں ۔ لیکن اس راہ پر آنے اور چلنے میں جو چیز سب سے بڑھ کر مانع ہوتی ہے وہ انکار آخرت ہے ۔ کیونکہ یہ آدمی کو غیر ذمہ دار بندہ نفس اور فریفتہ حیات دنیا بنا دیتا ہے ۔ جس کے بعد آدمی کا خدا کے آگے جھکنا اور اپنے نفس کے خواہشات پر اخلاقی پابندیاں برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ اس تمہید کے بعد تین قسم کی سیرتوں کے نمونے پیش کیے گئے ہیں ۔ ایک نمونہ فرعون اور سرداران قوم ثمود اور سرکشان قوم لوط کا ہے جن کی سیرت فکر آخرت سے بے نیازی اور نتیجۃً نفس کی بندگی سے تعمیر ہوئی تھی ۔ یہ لوگ کسی نشانی کو دیکھ کر بھی ایمان لانے کو تیار نہ ہوئے ۔ یہ الٹے ان لوگوں کے دشمن ہو گئے جنہوں نے ان کو خیر و صلاح کی طرف بلایا ۔ انہوں نے اپنی ان بدکاریوں پر بھی پورا اصرار کیا جن کا گھناؤنا پن کسی صاحب عقل سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔ انہیں عذاب الٰہی میں گرفتار ہونے سے ایک لمحہ پہلے تک بھی ہوش نہ آیا ۔ دوسرا نمونہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے جن کو خدانے دولت ، حکومت ، اور شوکت و حشمت سے اس پیمانے پر نوازا تھا کہ کفار مکہ کے سردار اس کا خواب بھی نہ دیکھ سکتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے جوابدہ سمجھتے تھے ، اور انہیں احساس تھا کہ انہیں جو کچھ بھی حاصل ہے خدا کی عطا سے حاصل ہے ، اس لئے ان کا سر ہر وقت منعم حقیقی کے آگے جھکا رہتا تھا اور کبر نفس کا کوئی شائبہ تک ان کی سیرت و کردار میں نہ پایا جاتا تھا ۔ تیسرا نمونہ ملکہ سبا کا ہے جو تاریخ عرب کی نہایت مشہور دولت مند قوم پر حکمران تھی ۔ اس کے پاس وہ تمام اسباب جمع تھے جو کسی انسان کو غرور نفس میں مبتلا کر سکتے ہیں جن چیزوں کے بل پر کوئی انسان گھمنڈ کر سکتا ہے وہ سرداران قریش کی بہ نسبت لاکھوں درجہ زیادہ اسے حاصل تھیں ۔ پھر وہ ایک مشرک قوم سے تعلق رکھتی تھی ۔ تقلید آبائی کی بنا پر بھی ، اور اپنی قوم میں اپنی سرداری برقرار رکھنے کی خاطر بھی ، اس کے لئے دین شرک کو چھوڑ کر دین توحید اختیار کرنا اس سے بہت زیادہ مشکل تھا جتنا کسی عام مشرک کے لئے ہو سکتا ہے لیکن جب اس پر حق واضح ہوگیا تو کوئی چیز اسے قبول حق سے نہ روک سکی ، کیونکہ اس کی گمراہی محض ایک مشرک ماحول میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے تھی ۔ نفس کی بندگی اور خواہشات کی غلامی کا مرض اس پر مسلط نہ تھا ۔ خدا کے حضور جواب دہی کے احساس سے اس کا ضمیر فارغ نہیں تھا ۔ دوسرے خطبے میں سب سے پہلے کائنات کے چند نمایاں ترین مشہور حقائق کی طرف اشارہ کر کے کفار مکہ سے پے در پے سوال کیا گیا ہے کہ بتاؤ ، یہ حقائق اس شرک کی شہادت دے رہے ہیں جس میں تم مبتلا ہو ، یا اس توحید پر گواہ ہیں جس کی دعوت اس قرآن میں تمہیں دی جارہی ہے ؟ اس کے بعد کفار کے اصل مرض پر انگلی رکھ دی گئی ہے کہ جس چیز نے ان کو اندھا بنا رکھا ہے ، جس کی وجہ سے وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتے اور سب کچھ سن کر بھی کچھ نہیں سنتے وہ دراصل آخرت کا انکار ہے ۔ اسی چیز نے ان کے لئے زندگی کے کسی مسئلے میں بھی کوئی سنجیدگی باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ کیونکہ جب ان کے نزدیک آخر کار سب کچھ مٹی ہو جانا ہے ، اور حیات دنیا کی اس ساری تگ و دو کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے ، تو آدمی کے لئے پھر حق اور باطل سب یکساں ہیں ۔ اس کے لئے اس سوال میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی کہ اس کا نظام حیات راستی پر قائم ہے یا ناراستی پر ۔ لیکن اس بحث سے مقصود یاس نہیں ہے کہ جب یہ لوگ غفلت میں مگن ہیں تو انہیں دعوت دینا بےکار ہے ۔ بلکہ دراصل اس سے مقصود سونے والوں کو جھنجوڑ کر جگانا ہے ۔ اس لئے چھٹے اور ساتویں رکوع میں پے در پے وہ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جو لوگوں میں آخرت کا احساس بیدار کریں اس سے غفلت برتنے کے نتائج پر متنبہ کریں ، اور انہیں اس کی آمد کا اس طرح یقین دلائیں جس طرح ایک آدمی اپنی آنکھوں دیکھی بات کا اس شخص کو یقین دلاتا ہے جس نے اسے نہیں دیکھا ہے ۔ خاتمہ کلام میں قرآن کی اصل دعوت ، یعنی خدائے واحد کی بندگی کی دعوت نہایت مختصر ، مگر انتہائی مؤثر انداز میں پیش کر کے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اسے قبول کرنا تمہارے اپنے لئے نافع اور اسے رد کرنا تمہارے اپنے لئے ہی نقصان دہ ہے ۔ اسے ماننے کے لئے اگر خدا کی وہ نشانیاں دیکھنے کا انتظار کرو گے جن کے سامنے آجانے کے بعد مانے بغیر چارہ نہ رہے گا ۔ تو یاد رکھو کہ وہ فیصلے کا وقت ہوگا ۔ اس وقت ماننے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ نمل تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت پچھلی سورت یعنی سورۃ شعراء کے فورا بعد نازل ہوئی تھی۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور کفر کے برے نتائج کا بیان ہے۔ حضرت موسی، اور حضرت صالح علیہما السلام کے واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی قوموں نے اس بنا پر ان کی بات نہیں مانی کہ انہیں اپنی دولت اور اپنے سماجی رتبے پر گھمنڈ تھا۔ اسی طرح کفار مکہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کررہے تھے۔ دوسری طرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی دولت اور بے نظیر بادشاہت سے نوازا تھا، لیکن یہ دولت اور بادشاہت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہوئی۔ اسی طرح سبا کی ملکہ بلقیس بھی بہت دولت مند تھی، لیکن حق واضح ہونے کے بعد اس نے اس کو فورا قبول کرلیا۔ اس سیاق میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور سبا کی ملکہ کا واقعہ اس سورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کے بعد کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کو بڑے موثر انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔ نمل کے معنی عربی میں چیونٹی کے ہوتے ہیں، اور چونکہ اس سورت کی آیت نمبر ١٨ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے گزرے تھے، اس لیے اس کا نام سورۃ نمل رکھا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi