Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 11

سورة النمل

اِلَّا مَنۡ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسۡنًۢا بَعۡدَ سُوۡٓءٍ فَاِنِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۱﴾

Otherwise, he who wrongs, then substitutes good after evil - indeed, I am Forgiving and Merciful.

لیکن جو لوگ ظلم کریں پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والا مہربان ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Except him who has done wrong and afterwards has changed evil for good; then surely, I am Oft-Forgiving, Most Merciful. This is an exception of the exclusionary type. This is good news for mankind, for whoever does an evil deed then gives it up and repents and turns to Allah, Allah will accept his repentance, as He says: وَإِنِّى لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَامَنَ وَعَمِلَ صَـلِحَاً ثُمَّ اهْتَدَى And verily, I am indeed forgiving to him who repents, believes and does righteous good deeds, and then Ahtada. (20:82) وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ And whoever does evil or wrongs himself... (4:110). And there are many other Ayat which say the same.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرما لے 112یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] ہاں میرے حضور ڈرنے کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ کسی شخص نے فی الواقعہ ظلم کیا ہو۔ اور ظالموں کو واقعی ڈرناہی چاہئے لیکن جو شخص ظلم کے بعد توبہ کرلے برے کاموں کے بعد نیکی کی راہ اختیار کرلے اور اپنا طرز عمل ہی بدل لے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں۔ غالباً اس آیت میں حضرت موسیٰ کے اس دور کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ جب آپ سے ایک قبطی نادانستہ طور پر مارا گیا تھا۔ پھر آپ وہاں سے مفرور ہو کر مدین میں حضرت شعیب کے پاس آگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فانی غفور رحیم کہہ کر اس قصور کی معافی کی بھی بشارت سنا دی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا ۔۔ : یعنی میرے حضور ڈرنے کی صرف ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ کسی شخص نے فی الواقع ظلم کیا ہو، اور ظالموں کو ڈرنا ہی چاہیے، لیکن جو شخص ظلم کے بعد توبہ کرلے، برے کاموں کے بعد نیکی کی راہ اختیار کرلے اور اپنا طرز عمل بدل لے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں۔ اس کے بعد ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ غالباً اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کے غلطی سے قبطی کو قتل کرنے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے، جسے انھوں نے خود ظلم کہا تھا : (رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ ) [ القصص : ١٦ ] ” اے میرے رب ! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا تھا، فرمایا : ( فَغَفَرَلَهٗ ) [ القصص : ١٦ ] ” تو اس نے اسے بخش دیا۔ “ اب پھر اس مغفرت کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ جب میں تمہیں معاف کرچکا تو تمہیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١١﴾ Except him who did wrong, then after (doing) evil replaced (it) with good, then I am Most-Forgiving, Very-Merciful. 27:11 The miracle of the staff of Sayyidna Musa (علیہ السلام) was mentioned in the verse prior to this, where it was also stated that when the staff turned into serpent, Sayyidna Musa (علیہ السلام) himself started running out of fear. The other miracle of illuminative hand of Sayyidna Musa (علیہ السلام) is related in the verse next to above referred verse. Then why this exception is mentioned in between two verses relating to miracles, and whether this exception is snapped from the subject (munqati`) or is it adjoining (muttasil)? The commentators have different view points on this subject. Some have declared it as snapped from the subject. In that case the verse will read as that in the previous verse it was stated that messengers do not get frightened, then it was also mentioned, by the way, as to who are the ones who should get frightened. They are those who have committed any sin, but later repented and sought Allah&s pardon and performed good deeds. Although Allah Ta’ ala would pardon their sins, but even then there would be possibility of traces of sins being left over. It is for this reason that they always remain fearful of Allah. But If the exception is regarded adjoining with the subject, then the meaning of the verse would be that Allah&s messengers do not get frightened except those who have committed some trifle or minor mistake and have repented on that. In that situation such trifle sins are forgiven. But the actual position is that even if there were some minor slips by the messengers, they were not regarded as sins - neither small nor big. Although they looked like sins but factually they were errors of ijtihad. According to this interpretation, this exception is an allusion toward the incident of the Egyptian who was killed by Sayyidna Musa (علیہ السلام) by error of judgment. Although this error was pardoned by Allah Ta’ ala, yet its effect remained with Musa I leaving some fear of the incident. Had this incident not have occurred, there would not have been any fear of the sort.

اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، اس سے پہلی آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ عصا کا ذکر ہے جس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عصا جب سانپ بن گیا تو موسیٰ خود بھی اس سے ڈر کر بھاگنے لگے۔ آگے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے دوسرے معجزہ ید بیضا کا بیان ہے درمیان میں اس استثناء کا ذکر کس لئے کیا گیا اور یہ استثناء منقطع ہے یا متصل اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں بعض حضرات نے استثناء کو منقطع قرار دیا ہے تو مضمون آیت کا یہ ہوگا کہ پہلی آیت میں انبیاء (علیہم السلام) پر خوف نہ ہونے کا ذکر تھا بسبیل تذکرہ ان لوگوں کا بھی ذکر کردیا جن پر خوف طاری ہونا چاہئے یعنی وہ لوگ جن سے کوئی خطا سر زد ہوئی پھر توبہ کر کے نیک عمل اختیار کر لئے ایسے حضرات کی اگرچہ اللہ تعالیٰ خطا معاف کردیتے ہیں مگر معافی کے بعد بھی گناہ کے بعض آثار باقی رہنے کا احتمال ہے اس سے یہ حضرات ہمیشہ خائف رہتے ہیں اور اس استثناء کو متصل قرار دیں تو معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے بجز ان کے جن سے کوئی خطا یعنی گناہ صغیرہ سر زد ہوگیا ہو پھر اس سے بھی توبہ کرلی ہو، تو اس توبہ سے یہ صغیرہ گناہ معاف ہوجاتا ہے اور صحیح تر یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے جو لغزشیں ہوئی ہیں وہ درحقیقت گناہ ہی نہ تھے نہ صغیرہ نہ کبیرہ، البتہ صورت گناہ کی تھی اور درحقیقت وہ اجتہادی خطائیں ہوئی ہیں۔ اس مضمون میں اشارہ اس طرف پایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے جو ایک لغزش قبطی کے قتل کی ہوگئی وہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردی مگر اس کا یہ اثر اب بھی رہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہوگیا اگر یہ لغزش نہ ہوتی تو یہ وقتی خوف بھی نہ ہوتا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١١ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) ہاں مگر جس سے کوئی خطا ہوجائے اور پھر وہ اس خطا سے توبہ کرے تو اس کو بھی ڈرنا نہیں چاہیے کیونکہ میں تائب کی مغفرت کرنے والا اور جو توبہ کی حالت میں مرے اس پر رحم کرنے والا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ) ” اس استثناء کو بعض مفسرین نے متصل مانا ہے اور بعض نے منقطع۔ متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جس رسول سے کوئی قصور سرزد ہوا ہو اس پر خوف طاری ہوسکتا ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اس وقت خوف کا طاری ہوجانا اس خطا کے سبب تھا جو قتل (اگرچہ وہ قتل عمد نہیں تھا ‘ قتل خطا تھا) کی صورت میں ان سے سرزد ہوئی تھی۔ لیکن اس کے برعکس کچھ مفسرین کے نزدیک یہ استثناء منقطع ہے ‘ یعنی یہ الگ جملہ ہے اور اس کا پچھلے جملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 This exception can be contiguous as well as remote. In the first case it will imply that there can be a genuine cause of fear if the Messenger has committed an offence; in the second case it will mean: "None should have any cause of fear in My Presence, unless, of course, someone has committed an offence." 15 That is, "If even an offender repents and reforms himself and does good instead of evil, I will pardon him. ° This implied both a warning and a good news. The Prophet Moses had killed a Copt inadvertently and fled from Egypt. This was an offence to which a subtle reference was made. When this offence was committed un-intentionally by the Prophet Moses, he had immediately offered repentance to Allah, saying, "O my Lord ! I have sinned against myself, so forgive me." So, "Allah forgave him" there and then. (Al-Qasas: 16). Here the good news of the same forgiveness has been given him, as if to say, "O Moses, there could be a genuine cause for you to feel afraid in My Presence, because you had committed an offence, but when you have changed the evil into good, I have nothing but forgiveness and mercy for you. I have not called you here at this time to punish you, but I am going to send you on a great mission with wonderful miracles."

سورة النمل حاشیہ نمبر :14 یہ استثناء متصل بھی ہوسکتا ہے اور منقطع بھی ، متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ خوف کی معقول وجہ اگر ہوسکتی ہے تو یہ کہ رسول سے کوئی قصور سرزد ہوا ہو ، اور منقطع ہونے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کہ میرے حضور تو کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک کہ آدمی قصور وار نہ ہو ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :15 یعنی قصور کرنے والا بھی اگر توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلے اور برے عمل کے بجائے نیک عمل کرنے لگے تو میرے ہاں اس کے لیے عفو و درگزر کا دروازہ کھلا ہے ، اس موقع پر یہ بات ارشاد فرمانے سے مقصود ایک تنبیہ بھی تھی اور بشارت بھی ۔ حضرت موسی علیہ السلام نادانستگی میں ایک قبطی کو قتل کر کے مصر سے نکلے تھے ، یہ ایک قصور تھا جس کی طرف لطیف اشارہ فرمادیا گیا ، پھر جس وقت یہ قصور اچانک بلا ارادہ ان سے سرزد ہوا تھا اس کے بعد فورا ہی انہوں نے اللہ تعالی سے معافی مانگ لی تھی کہ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ ( اے پروردگار میں اپنے نفس پر ظلم کر گزرا مجھے معاف فرمادے ) اور اللہ تعالی نے اسی وقت انہیں معاف بھی فرما دیا تھا ، فَغَفَرَ لَهٗ ( القصص ، آیت16 ) اب یہاں اسی معافی کی بشارت انہیں دی گئی ہے ، گویا مطلب اس تقریر کا یہ ہوا کہ اے موسی میرے حضور تمہارے لیے ڈرنے کی ایک وجہ تو ضرور ہوسکتی تھی ، کینکہ تم سے ایک قصور سرزد ہوگیا تھا ، لیکن جب تم اس برائی کو بھلائی سے بدل چکے ہو تو میرے پاس تمہارے لیے اب مغفرت اور رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے ، کوئی سزا دینے کے لیے اس وقت میں نے تمہیں نہیں بلایا ہے بلکہ بڑے بڑے معجزات دے کر میں تمہیں ایک کار عظیم پر بھیجنے والا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور پیغمبروں کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہوتا، البتہ کسی سے کوئی قصور ہوگیا ہو، تو اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس پر ناراض نہ ہوں، لیکن جب ایسا کوئی شخص توبہ اور استغفار کے بعد اپنے حالات کی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:11) الا۔ یہاں استثناء منقطع ہے کیونکہ یہاں مستثنے منہ سے نہیں ہے یہاں الا بمعنی لیکن ہے یعنی میرے رسول میرے حضور ڈرا نہیں کرتے۔ لیکن ان کو چھوڑ کر جو بھی ظلم کرے گا اسے ڈر ہے من تاب وبدل حسنا بعد سوء فانی غفور رحیم۔ اور وہ ظلم کرنے والا بھی اگر توبہ کرلے اور برائی کرنے کے بعد نیکی کرنے لگے (تو اسے بھی کوئی ڈر نہیں) کیونکہ میں غفور اور رحیم ہوں۔ یا یہاں الا بمعنی ولا ہے۔ ای لا یخاف لدی المرسلون ولا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوء فانی غفور رحیم۔ (میرے) رسول میرے حضور ڈرا نہیں کرتے اور نہ (اسے کوئی ڈر ہے) جس نے ظلم کیا۔ لیکن اس کے بعد بدی کو نیکی سے بدل دیا تو بیشک میں غفور رحیم ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یہ استثنا منقطع ہے اور لفظ ” الا “ بمعنی لئکن یعنی برائے استدراک ہے اور اگر مستثنیٰ متصل مذکور سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ” ہاں ! اس پیغمبر کو ڈر ہوسکتا ہے جس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو۔ مگر ہمارا قاعدہ ہے کہ جب کوئی توبہ کر کے اپنے رویہ کی اصلاح کرلیتا ہے تو ہم اسے معاف کردیتے ہیں اس کے بعد ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” مسیٰ (علیہ السلام) سے چوک کر ایک کافر کا خون ہوگیا تھا اس کا ڈر تھا ان کے دل میں، ان کو وہ معاف کردیا۔ (موضح) انبیا اپنے علو مرتبت کے پیش نظر معمولی سی لغزش یا خطا کو بھی ظلم خیال کرتے تھے۔ ان کو ایسی غلطی معاف کردی جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جس سے کوئی لغزش سرزد ہوجاوے اور وہ اس لغزش کو یاد کر کے ڈرے تو مضائقہ نہیں۔ 4۔ یہ اس لئے فرما دیا کہ اس انقلاب عصا سے مطمئن ہوجانے کے بعد کبھی اپنا قصہ قتل قبطی کا یاد کر کے پریشان نہ ہوں اس لئے اس سے بھی مطمئن فرمادیا تاکہ توحش جاتا رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا من ……رحیم (١١) ہمارے ہاں تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو ظالم ہیں الا یہ کہ ظلم کے بعد وہ نیک ہوجائیں تو بھی معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے ظلم ترک کر کے عدل اپنا لای ہے۔ شرک کو چھوڑ کر توحید کا عقیدہ اپنا لیا ہوتا ہے۔ شر کو چھوڑ کر خیر کی راہ لے لی ہے۔ میری رحمت وسیع ہے اور میری مغفرت بہت بڑی ہے۔ اب حضرت مسویٰ کو اطمینان اور قرار نصیب ہوگیا۔ اب اللہ آپ کو دوسرا معجزہ عطا فرماتا ہے لیکن ابھی تک ان کو رسالت کی مہم نہیں بتائی گئی کہ جانا کہاں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (اِِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) یہ استثناء منقطع ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کے علاوہ جو لوگ کوئی گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرلیں پھر اس کے بعد اس برائی کو نیکی سے بدل لیں یعنی اس کے بعد توبہ کرلیں تو ان کی توبہ قبول ہوگی۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس بھیجنا تھا اور وہ بڑا سر کش تھا اس لیے معجزات کی ضرورت تھی دو بڑے معجزات تو وہی ہیں جو جو وادی مقدس میں دے دئیے گئے جہاں آگ لینے کے لیے گئے تھے اور باقی معجزات کا وقتاً فوقتاً ظہور ہوتا رہا یہاں جو دو معجزات دیئے گئے ان میں سے ایک لاٹھی کا سانپ بن جانا تھا اور دوسرا یدبیضاء تھا، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ اے موسیٰ تم اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں داخل کر دو اور پھر اسے نکالو جب نکالو گے تو دیکھو گے کہ وہ خوب سفید ہے کہ یہ سفیدی کسی عیب والی نہیں ہوگی جو مرض وغیرہ کی وجہ سے ہوجاتی ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص نشانی ہے جو بطور معجزہ عطا کی گئی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) مگر ہاں جس سے کوئی کوتاہی ہوجائے پھر وہ برائی کے بعد بھلائی سے اس کی تلافی کردے تو میں بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہوں برائی کے بعد بھلائی یعنی توبہ کرلے یہ اس لئے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت ملنے پر قبطی کے قتل کا واقعہ یاد آجانے سے وحشت نہ ہو اس لئے اطمینان دلایا کہ وہ مغفرت کی درخواست کرنے پر معاف کردیا گیا اس کو یاد کرکے پریشان نہ ہونا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) سے چوک کر ایک کافر کا خون ہوگیا تھا اس کا ڈر تھا ان کے دل میں ان کو معاف کردیا 12