Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 12

سورة النمل

وَ اَدۡخِلۡ یَدَکَ فِیۡ جَیۡبِکَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَآءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ ۟ فِیۡ تِسۡعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ قَوۡمِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ ﴿۱۲﴾

And put your hand into the opening of your garment [at the breast]; it will come out white without disease. [These are] among the nine signs [you will take] to Pharaoh and his people. Indeed, they have been a people defiantly disobedient."

اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے تو نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا یقیناً وہ بدکاروں کا گروہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاء مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ... And put your hand into the opening of your garment, it will come forth white without hurt. This is another sign, further brilliant proof of the ability of Allah to do whatever He wills. It is also confirmation of the truth of the one to whom the miracle was given. Allah commanded him to put his hand into the opening of his garment, and when he put his hand in and took it out again, it came out white and shining as if it were a piece of the moon or a flash of dazzling lightning. ... فِي تِسْعِ ايَاتٍ ... among the nine signs, means, `these are two of the nine signs which you will be supported with and which will serve as proof for you. ' ... إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ to Fir`awn and his people. Verily, they are a people who are rebellious. These were the nine signs of which Allah said: وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ ءَايَـتٍ بَيِّنَاتٍ And indeed We gave Musa nine clear signs. (17:101) -- as we have stated there.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انھیں دیا گیا۔ 122فِیْ تسْعِ آیَات یعنی یہ دو معجزے ان9نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انھیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان9نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا) 17 ۔ الاسراء :101) کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] پھر اسی مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو یدبیضا کا دوسرا معجزہ عطا کیا گیا۔ جس کی تفصیل پہلے مقامات پر گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ یہ دو بڑے بڑے واضح معجزے منجملہ ان نو معجزات کے تھے جن کا ذکر پہلے سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ١٠١ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے گویا ابتداً یہی دو بڑے معجزے عطا کرکے حصرت موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا کیونکہ فرعونیوں نے اپنے ملک میں فساد عظیم برپا کر رکھا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ : موجودہ تورات کی دوسری کتاب خروج، باب (٤) کی آیت (٦) میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کو مبروص لکھا ہے۔ قرآن مجید چونکہ کتب سابقہ پر مہیمن (نگہبان) بن کر آیا ہے، جہاں ان میں کوئی غلطی ہو اس کی اصلاح کرتا ہے، اس لیے اس جگہ فرمایا : (مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ ) یعنی مبروص نہ تھا۔ (ثنائی) فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ ۔۔ : یعنی یہ دو معجزے ان نو (٩) نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ ان نو نشانیوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٠١) بعض نے کہا ہے کہ یہ دو نشانیاں (عصا اور ید بیضا) ان نو (٩) نشانیوں کے علاوہ تھیں، اس صورت میں ” فِی “ بمعنی ” مَعَ “ ہوگا اور ترجمہ ہوگا ” نو نشانیوں سمیت۔ “ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ۝ ٠ۣ فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۝ ١٢ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ جيب قال اللہ تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَ [ النور/ 31] ، جمع جَيْب . ( ج ی ب ) الجیب کے معنی گریباں کے ہیں ( مجازا سینہ ) اسکی جمع الجبوب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَ [ النور/ 31] ان کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھا کریں ۔ بيض البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 106- 107] . والأَبْيَض : عرق سمّي به لکونه أبيض، ولمّا کان البیاض أفضل لون عندهم كما قيل : البیاض أفضل، والسواد أهول، والحمرة أجمل، والصفرة أشكل، عبّر به عن الفضل والکرم بالبیاض، حتی قيل لمن لم يتدنس بمعاب : هو أبيض اللون . وقوله تعالی: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ [ آل عمران/ 106] ، فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسودادها عن الغم، وعلی ذلک وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل/ 58] ، وعلی نحو الابیضاض قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] ، وقوله : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس/ 38- 39] . وقیل : أمّك بيضاء من قضاعة«1» وعلی ذلک قوله تعالی: بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات/ 46] ، وسمّي البَيْض لبیاضه، الواحدة : بَيْضَة، وكنّي عن المرأة بالبیضة تشبيها بها في اللون، وکونها مصونة تحت الجناح . وبیضة البلد يقال في المدح والذم، أمّا المدح فلمن کان مصونا من بين أهل البلد ورئيسا فيهم، وعلی ذلک قول الشاعر : کانت قریش بيضة فتفلّقت ... فالمحّ خالصه لعبد مناف وأمّا الذم فلمن کان ذلیلا معرّضا لمن يتناوله كبيضة متروکة بالبلد، أي : العراء والمفازة . وبَيْضَتَا الرجل سمّيتا بذلک تشبيها بها في الهيئة والبیاض، يقال : بَاضَتِ الدجاجة، وباض کذا، أي : تمكّن . قال الشاعر : بداء من ذوات الضغن يأوي ... صدورهم فعشش ثمّ باض وبَاضَ الحَرُّ : تمكّن، وبَاضَتْ يد المرأة : إذا ورمت ورما علی هيئة البیض، ويقال : دجاجة بَيُوض، ودجاج بُيُض ( ب ی ض ) البیاض سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے ۔ اور ابیض ایک رگ کا نام بھی ہے جو سفید رنگ ہونے کی وجہ سے ابیض کہلاتی ہے ۔۔ اہل عرب کے ہاں چونکہ سفید رنگ تمام رنگوں میں بہتر خیال کیا جاتا ہے جیسے کہا گیا ہے البیاض افضل والسواد اھول والحمرۃ اجمل والصفرۃ اشکل اس لئے بیاض بول کر فضل وکرم مراد لیا جاتا ہے اور جو شخص ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اسے ابیض الوجہ کہا جاتا ہے اس بنا پر آیت مذکورہ میں ابیاض الوجوہ سے مسرت اور اسود الوجوہ سے تم مراد ہوگا جیسے دوسری جگہ فرمایا ؛۔ وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل/ 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے ۔ اور جیسے ابیاض الوجوہ خوشی سے کنایہ ہوتا ہے اسی طرح آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] اس روز بہت سے منہ رونق وار ہوں گے اور آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس/ 38- 39] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہونگے خوش اور مسرور نظر آئیں گے ۔ میں بھی نضرۃ اور اسفار سے مراد مسرت ہی ہوگی ۔ شاعر نے کہا ہے ( منسرح ) (72) امت بیضاء من قضاعۃ یعنی تم عفیف اور سخٰ سردار ہو ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛۔ بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات/ 46] جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر ) لذت ہوگئی ۔ البیض یہ بیضۃ کی جمع ہے اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ اسے بیضۃ کہا جاتا ہے ۔ انڈا سفید اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لئے تشبیہ کے طور بیضۃ بول کر خوبصورت عورت مراد لی جاتی ہے۔ بیضۃ البلد یہ لفظ تعریف اور مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب کلمہ تعریفی ہو تو اس سے رئیس شہر مراد ہوتا ہے ۔ اسی بناپر شاعر نے کہا ہے :۔ ( کامل ) (73) کانت قریش بیضۃ فتفلقت فالمخ خالصہ لعبدمناف قریش ایک انڈے کی مثل تھے ۔ جو ٹوٹا تو عبد مناف کے حصہ میں خالص مخ آئی ۔ اور جب مذمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے ذلیل آدمی مراد لیا جاتا ہے جسے جنگل میں پڑے ہوئے انڈے کی طرح ہر ایک توڑ سکتا ہے اور شکل ورنگ میں مشابہت کی وجہ سے خصیتین کو بیضا الرجل کہا جاتا ہے ۔ باضت الدجاجۃ مرغی کا انڈے دینا ۔ باض کذا کسی جگہ پر متمکن ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے (74) بدامن ذوات الضغن یآوی صدورھم فعش ثم باضا باض الحر گرمی سخت ہونا ۔ باضت یدا لمرءۃ عورت کے ہاتھ پر انڈے کی طرح درم ہونا ۔ دجاجۃ بیوض انڈے دینے والی مرغی ج بیض ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور تم اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں لے جاؤ اور پھر نکالو تو وہ بلاکسی عیب یعنی برص کے روشن ہو کر نکلے گا اور دونوں معجزے ان نو معجزوں میں سے ہیں جن کو دے کر تمہیں فرعون اور اس کی قبطی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے کیوں کہ وہ حد سے بڑھے ہوئے لوگ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍقف) ” یعنی یہ سفیدی برص یا کسی اور بیماری کے باعث نہیں ہوگی۔ (فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ ط) ” یعنی فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجتے ہوئے ابھی آپ ( علیہ السلام) کو صرف یہ دو نشانیاں دی جا رہی ہیں ‘ جبکہُ کل نو (٩) نشانیاں دی جانی مقصود ہیں۔ باقی نشانیاں بعد میں موقع محل اور ضرورت کے مطابق دی جائیں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 According to Surah Bani Isra'il:101, the Prophet Moses had been granted nine clearly visible Signs, which according to the details given in AI-A`raf were the following: (1) The staff's turning into a serpent, 12) the shining hand when it was drawn out of the armpit, (3) public triumph over the magicians, (4) occurrence of a widespread famine in the land as foretold by the Prophet Moses, t5) the storm, (6) the locusts, (7) the incidence of weevils in the grain stores and of lice among human beings and animals, (8) the frogs, and (9) the rain of blood. (Far explanation, see E.N. 43 of Az Zukhruf)..

سورة النمل حاشیہ نمبر :16 سورہ بنی اسرائیل مٰں فرمایا گیا ہے کہ موسی کو ہم نے صریح طور پر نظر آنے والی نو نشانیاں ( تِسْعَ اٰيٰتٍ بَیِّنٰتٍ ) عطا فرمائی تھیں ۔ اور سورہ اعراف میں ان کی تفصیل یہ بیان کی گءی ہے ۔ ( ۱ ) لاٹھی جو اژدھا بن جاتی تھی ( ۲ ) ہاتھ جو بغل سے سورج کی طرح چمکتا ہوا نکلتا تھا ( ۳ ) جادوگروں کو برسر عام شکست دینا ( ٤ ) حضرت موسی کے پیشگی اعلان کے ماطبق سارے ملک میں قحط ( ۵ ) طوفان ( ٦ ) ٹڈی دل ( ۷ ) تمام غلے کے ذخیروں میں سرسریاں اور انسان و حیوان سب میں جوئیں ( ۸ ) مینڈکوں کا طوفان ( ۹ ) اور خون ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الزخرف ، حاشیہ 43 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: ان نشانیوں کا بیان سورۂ اعراف : 130 تا 133 میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:12) جیبک مضاف مضاف الیہ تیرا گریبان۔ تخرج۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) واحد مؤنث غائب۔ ضمیر فاعل یدک کی طرف راجع ہے۔ بیضائ۔ سفید۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے واحد مؤنث ابیض واحد مذکر بیض جمع کا صیغہ ہر دو مذکر مؤنث کے لئے آتا ہے۔ من غیر سوئ۔ بلا کسی عیب کے بلا کسی مرض (ازقسم برص) کے۔ ملاحظہ ہو 26:156 ۔ فی تسع ایت ای ھما داخلتان فی جملۃ تسع ایات۔ یہ دو معجزات بھی جملہ نو معجزات میں شامل ہیں۔ اس سے قبل اذھبمحذوف ہے ای اذھب فی تسع ایت الی فرعون ان نو معجزات (جن میں یہ دو بھی شامل ہیں) کو لے کر فرعون کے پاس جاؤ

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ ان نو نشانیوں کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔ (دیکھئے سورة اسرا : 101) بعض نے کہا ہے کہ یہ دو نشانیاں (عصا اور یدبیضا) ان نو نشانیوں کے علاوہ تھیں اس صورت میں حرف ” فی “ بمعنی ” مع “ ہوگا۔ (کذا فی فی القرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وادخل یدک ……سوآء یہ عمل بھی ایسا ہی ہوا حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالا اور جب نکالا تو وہ بغیر بیماری کے چمک رہا تھا۔ یہ کوئی مرض نہ تھی بلکہ معجزہ تھا اور اللہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ اس قسم کی نونشانیاں او معجزات تمہیں دیئے جائیں گے جن میں سے دو کا مشاہدہ اور مظاہرہ تم نے دیکھ لیا ۔ اب حضرت موسیٰ کے سامنے اس مہم کا انکشاف کیا جاتا ہے جو انہوں نے سر کرنی ہے اور جس کے لئے ان کو یوں تیار کیا گیا۔ فی تسع ……فسقین (٤١) ” یہ (دو نشانیاں) نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لئے) وہ بڑے بدکردار لوگ ہیں۔ “ یہاں باقی نشانیاں نہیں گنوائی گئیں جبکہ سورة اعراف میں تفصیلات دی گئی ہیں جو یہ ہیں ، خشک سالی ، پیداوار کی کمی طوفان ، ٹٹڈی دل کا حملہ ، جوئیں اور مینڈک اور خون کیوں کہ سورة اعراف میں موضوع سخن یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام بڑی قوی نشانیاں دی گئی تھیں لیکن پھر بھی فرعون نے انکار کیا۔ بہرحال ان نشانیوں کی وضاحت کافی اور شافی ہونے کے باوجود قوم نے انکار کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فِیْ تِسْعِ اٰیَاتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِہٖ ) (یہ وہ نشانیاں ہیں جو منجملہ ان نو نشانیوں میں سے ہیں جنہیں لے کر تم کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف چلے جانا ہے) (اِِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ ) (بلاشبہ وہ لوگ نافرمان ہیں) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لے گئے معجزات دکھائے فرعون اور اس کی قوم نے الٹا اثر لیا۔ معجزات سے انہیں بصیرت حاصل ہوئی اور یہ یقین ہوگیا کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں لیکن انہوں نے معجزوں کو جادو بتادیا پھر جادو گروں سے مقابلہ میں جادو گر ہار گئے اور مسلمان ہوگئے لیکن فرعون اور اس کی قوم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ان پر ایمان لانے میں اپنی توہین سمجھی تکبر کیا جو انہیں لے ڈوبا اور دلوں میں یقین ہوتے ہوئے انکار کر بیٹھے بالآخر ہلاک کردیئے گئے اور ڈبو دیئے گئے اسی کو فرمایا (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ) (سو دیکھ لو فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ یہ دوسرا معجزہ ہے۔ “ من غیر سوء ” یعنی یہ ہاتھ کا سفید نمودار ہونا برص وغیرہ کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک معجزہ ہے۔ من غیر سوء من غیر برص (معالم و خازن ج 5 ص 112) ۔ “ فی تسع ایت الخ ” یہ فعل مقدر کے متعقل ہے ای ارسلنا یعنی ہم نے ان کو نو معجزے دے کر بھیجا۔ دو یہاں مذکور ہیں اور سات ان کے علاوہ ہیں۔ “ فلما جاء تھہم الخ ”: “ مبصرۃ ”، “ اٰیتنا ” سے حال ہے۔ یہ فرعون اور قوم فرعون کے فسق و فجور اور ان کی ضد وعناد کی حد تھی جب انہوں نے واضح اور روشن معجزات کو دیکھ لیا تو ماننے کے بجائے صاف کہہ دیا یہ سب جادو کے کرتب اور کرشمے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اور تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر داخل کردے تو وہ بغیر کسی عیب کے خوب سفید چمکتا ہوا نکل آئے گا یہ دونوں معجزے ان نو معجزوں میں سے ہیں جو تجھ کو دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے کیونکہ وہ بڑے حد سے نکل جانے والے لوگ ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سورة اعراف میں سات نشانیاں ہوچکیں 12 فائدہٖ وہ نشانیاں یہ ہیں 1 قحط اور 2 میووں کا نقصان اور 3 طوفان اور ٹڈی اور 4 چچڑی اور 5 مینڈک اور 7 لہو اور 8 ہاتھ سفید چٹا اور 9 عصا یہ دونوں یہاں موجود ہیں اور سات سورة اعراف کے چودھویں رکوع میں ہیں 12