Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 13

سورة النمل

فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ اٰیٰتُنَا مُبۡصِرَۃً قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۱۳﴾

But when there came to them Our visible signs, they said, "This is obvious magic."

پس جب ان کے پاس آنکھیں کھول دینے والے ہمارے معجزے پہنچے تو وہ کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا جَاءتْهُمْ ايَاتُنَا مُبْصِرَةً ... But when Our Ayat came to them, clear to see, i.e., clear and obvious, ... قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ they said: "This is a manifest magic". They wanted to oppose it with their own magic, but they were defeated and were returned disgraced.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131مُبْصِرَۃً ، واضح اور روشن یا اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَتْهُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَةً ۔۔ :” مُبْصِرَةً “ دکھانے والی، آنکھیں کھول دینے والی، واضح، روشن۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر آیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان کے مطابق ان پر کوئی عام عذاب آتا تو فرعون اور اس کے درباری موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے تھے کہ اپنے رب سے دعا کرکے یہ عذاب ٹلوا دو ، تو تم جو کہتے ہو ہم مان لیں گے۔ مگر جب وہ عذاب ٹل جاتا تو وہ اپنے وعدے سے مکر جاتے۔ ظاہر ہے سارے ملک پر قحط، طوفان، ٹڈی دل اور دوسرے الٰہی لشکروں کا امڈ آنا جادو کا کرشمہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا۔ آنکھیں کھول دینے والی اتنی نشانیاں آنے پر بھی انھوں نے انھیں کھلا جادو کہہ دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَتْہُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٣ۚ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ( بصر) مبصرۃ بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم، الباصرۃ کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) غرض کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس ہمارے دیے ہوئے معجزات لے کر پہنچے جو نہایت واضح تھے اور یکے بعد دیگرے وہ دکھائے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو ہمارے پاس لے کر آئے ہیں یہ کھلا جادو ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (فَلَمَّا جَآءَ تْہُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَۃً ) ” یعنی وہ کھلی کھلی نشانیاں جو ان کی آنکھیں کھولنے اور حقیقت کا مشاہدہ کرانے کے لیے کافی تھیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:13) مبصرۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث بحالت نصب، دوسری چیزوں کو واضح اور روشن کرنے والی۔ بصیرت افروز۔ آیات کا حال ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے پاس جانا۔ فرعون اور اس کے حواریوں کا ردِّ عمل۔ سورۃ طٰہٰ میں یہ وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو عظیم معجزات دے کر فرعون کی طرف بھیجا تو انھیں دو نصیحتیں فرمائیں۔ اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی ان معجزات کے ساتھ جاؤ۔ لیکن دو باتوں کا خیال رکھنا میرے ذکر سے غافل نہ ہونا اور جب فرعون سے گفتگو کرو تو اس میں سختی کی بجائے نرمی ہونی چاہے۔ (طٰہٰ : ٤٢ تا ٤٤) جب موسیٰ (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے وزیروں، مشیروں کے پاس پہنچے تو انھوں نے دلائل سننے اور عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ حالانکہ ان کے دل مان چکے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے زیادتی اور تکبّر کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں انھیں سمندر میں ڈوبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ فساد کرنے والوں کا کس قدر بدترین انجام ہوا۔ ایمان کے لیے تین شرائط ہیں ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو تو وہ ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ تصدیق بالقلب، اقرار باللّسان اور عمل بالجوارح۔ مسائل ١۔ عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا۔ ٢۔ فرعون ور اس کے ساتھی اپنے دلوں میں موسیٰ (علیہ السلام) کی سچائی تسلیم کرچکے تھے۔ تسلیم کرلینے کے باوجود انھوں نے تکبر اور ظلم کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہوئے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما جآء تھم ……المفسدین (٤١) یہ بیشمار نشانیاں ، حق کو باطل سے واضح کرنے والی نشانیاں ، ایسی نشانیاں کہ جس کو اللہ نے دو آنکھیں دی ہیں وہ انہیں دیکھ سکتا ہے۔ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نشانیاں مبصر ہیں یعنی وہ دیکھنے والی ہیں۔ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو راہ ہدایت کی طرف لانے والی ہیں۔ لیکن وہ لوگ ایسے ہٹ دھرم تھے کہ ان کو بھی انہوں نے کہا کہ سحر مبین ہے ، کھلا جادو ہے۔ یہ نہیں کہ وہ دل سے کہتے تھے یا وہ فی الواقعہ ایسا سمجھتے تھے یہ تو انہوں نے محض ظلم اور علوم کی وجہ سے کہا۔ ان کے دل و دماغ تو اس پر مطمئن تھے کہ یہ حق ہے۔ بالکل ان کو کوئی شبہ نہ تھا۔ واستبف تھا انفسھم (٨٢ : ٣١) ” حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ “ محض ہٹ دھرمی اور مکا برہ کی وجہ سے کیونکہ یہ ایمان لانا نہیں چاہتے تھے اور نہ کوئی دلیل وہ طلب کرنا چاہتے تھے۔ یہ اپنے آپ کو سچائی سے برتر سجھتے تھے اور اپنے نفوس پر ظلم کر رہے تھے کیونکہ قبول حق میں خود ان کی بھلائی تھی۔ بعینہ یہی حال اکابرین قریش کا بھی تھا۔ یہ قرآن کریم کو سنتے تھے ، ان کو اچھی طرح یقین تھا کہ یہ حق ہے لیکن محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کرتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا انکار کرتے تھے یہ دعوت صرف اللہ وحدہ کی طرف تھی۔ وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ہر حال میں اپنے دین اور عقائد پر قائم رہنا چاہتے تھے کیونکہ اس دین میں ایسے اصول تھے جن کی وجہ سے ان کو مسند حاصل تھی۔ کچھ مفادات حاصل تھے اور یہ مسندیں اور مفادات ان عقائد باطلہ پر مبنی تھ۔ دعوت اسلامی سے ان کے لئے خطرہ ہی یہ تھا۔ اس کی کامیابی سے ان کے یہ مفادات ختم ہوجائیں گے اور ان کا مقام و مرتبہ جاتا رہے گا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے قدموں کے نیچے سے زمین نکلی جا رہی ہے اور ان کے عقائد اور شعور کے اندر ایک زلزلہ برپا ہے اور قرآن کو ” حق مبین “ تھا اور اس کی کارگر ضربات ہر وقت ان پر لگتی رہتی ہیں۔ سچائی کا انکار ہمیشہ اس لئے نہیں ہوتا کہ لوگ اسے جانتے نہیں ہیں ، بلکہ سچائی کا انکار اس لئے ہوتا ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ان کے نفوس اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر ان منکرین کو اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے حالات اپنے مفادات اور اپنی مصلحتوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ حق کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ سچائی واضح اور بین ہوتی ہے۔ فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین (٨٢ : ٣١) ” اب دیکھو کہ مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔ “ فرعون اور اس کی قوم کا انجام کیا ہوا۔ قرآن نے دوسری جگہ اس کی پوری تفصیلات دی ہیں۔ یہاں صرف اشارہ کردیا۔ شاید کہ انکار کرنے والوں میں سے کچھ عقلمند مان جائیں۔ قبل اس کے کہ ان کا وہ انجام ہو جو فرعون کا ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) غرض ! جب ان کے پاس ہمارے نہایت روشن اور واضح الدلالۃ معجزے اور نشانیاں پہونچیں تو یہ کہنے لگے یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یعنی دونوں یہ نشان پہلی ملاقات میں پیش کئے پھر دقتاً فوقتاً بعض نشانیاں دکھاتے رہے لیکن وہ سب معجزات کو کھلا ہوا جادو کہنے لگے اور سحر بتاتے رہے۔