Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 16

سورة النمل

وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۶﴾

And Solomon inherited David. He said, "O people, we have been taught the language of birds, and we have been given from all things. Indeed, this is evident bounty."

اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ... And Suleiman inherited from Dawud. means, in kingship and Prophethood. What is meant here is not wealth, because if that were the case, Suleiman would not have been singled out from among the sons of Dawud, as Dawud had one hundred wives. Rather what is meant is the inheritance of kingship and Prophethood, for the wealth of the Prophets cannot be inherited, as the Messenger of Allah said: نَحْنُ مَعَاشِرَ الاَْنْبِيَاءِ لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ فَهُوَ صَدَقَة We Prophets cannot be inherited from; whatever we leave behind is charity. ... وَقَالَ ... And (Suleiman) said: ... يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ... O mankind! We have been taught the language of birds, and we have been given from everything. Here Suleiman was speaking of the blessings that Allah bestowed upon him, by giving him complete authority and power, whereby mankind, the Jinn and the birds were subjugated to him. He also knew the language of the birds and animals, which is something that had never been given to any other human being -- as far as we know from what Allah and His Messenger told us. Allah enabled Suleiman to understand what the birds said to one another as they flew through the air, and what the different kinds of animals said. Suleiman said: عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ (We have been taught the language of birds, and we have been given from everything). i.e., all things that a king needs. ... إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ This, verily, is an evident grace. means, `this is clearly the blessings of Allah upon us.' وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالاِْنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان (علیہ السلام) قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد) 162بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر) 163جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] یہاں وراثت سے مراد حضرت داؤد کے ذاتی مال و دولت کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور جہاں بانی کی وراثت مراد ہے۔ [١٧] اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام انسان ایک ہی جیسی شکل رکھتے ہیں۔ ہر شخص کی ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دوبازو اور دو پاؤں ہوتے ہیں لیکن اس قدر یکسانیت کے باوجود ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہوتی ہے پھر ایک شخص کے اگر چھ لڑکے ہیں تو دوسرے لوگ یہ توبتلا سکتے ہیں ان سب میں یک گونہ مشابہت پائی جاتی ہے مگر ان میں نمبر صرف والدین اور قریبی رشتہ دار ہی یا دوست احباب ہی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ اختلاف صرف شکل و صورت تک محدود نہیں۔ ہر انسان کی بولنے کی آواز کھانسنے کی آواز حتیٰ کہ پاؤں کی چاپ اور۔۔ مسائل میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ قریبی لوگ کسی کے بولنے، کھانسنے یا چال ڈھال سے ہی یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے۔ بالکل ایسی ہی سلسلہ جانوروں اور پرندوں میں بھی ملتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی بھی ایک بولی ہے۔ جسے انسان سمجھ نہیں سمجھتے مگر وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک پرندہ جب اپنے جوڑہ کو بلاتا یا دانہ دینے کے لئے اپنے بچوں کو بلاتا یا انھیں کسی خطرہ سے آگاہ کرتا ہے تو ان تمام صورتوں میں اس کی بولی اور لب و لہجہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اور اس فرق کو اس کے مخاطب پوری طرح سمجھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور جب یہ پرندے مل کر عموماً صبح کے وقت چہچہاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم ان مختلف حالات میں ان کی بولی میں تمیز نہیں کرسکتے، لیکن وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک ٹیلیگراف ماسٹر جب تار کے ذریعہ کوئی پیغام بھیجتا ہے تو آپ خواہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھے رہیں۔ کھٹ کھٹ اور ٹک ٹک کی بےمعنی آوازوں کے سوائے آپ کے کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ لیکن اس فن کو جاننے والا شخص فوراً بتلادے گا کہ یہ پیغام فلاں جگہ پر فلاں آدمی کے نام ہے اور اس پیغام کا مضمون یہ ہے۔ پھر یہ بات صرف انسانوں، جانوروں اور پرندوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حشرات الارض، نباتات اور جمادات تک میں احساسات کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور یہ سب اشیاء اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں مگر اسے ہم سمجھ نہیں سکتے (١٧: ٤٤) اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پرندوں کی بولی بول سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ پرندے وغیرہ آپس میں ایک دوسرے سے جو باتیں کرتے ہیں انھیں آپ سمجھ جاتے تھے۔ پھر آپ جو کچھ کہنا چاہتے پرندے بھی اسے سمجھ جاتے تھے۔ اور دوسری نعمت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورت کی تمام چیزیں ہمیں مہیا فرما دی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ ۔۔ : اس سے مراد مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت و سلطنت اور علم و عمل کی وراثت ہے۔ اگر مال و جائداد کی وراثت ہوتی تو وارث کے طور پر صرف سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر نہ ہوتا بلکہ اس میں داؤد (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے بھی شریک ہوتے۔ علاوہ ازیں اگر ان کے ذاتی اموال کی وراثت ہی مراد ہو تو سلیمان (علیہ السلام) کا ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کہہ کر سب لوگوں کو بتانا بےمعنی ہوجاتا ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اموال و جائداد کا کوئی وارث نہیں ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ ) [ بخاري، الفرائض، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نورث۔۔ : ٦٧٢٧، عن عائشۃ ] ” ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے۔ “ اور ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ وَ إِنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلَا دِرْھَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ) [ أبوداوٗد، العلم، باب في فضل العلم : ٣٦٤١، قال الألباني صحیح ] ” یقیناً علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے ورثے میں دینار و درہم نہیں چھوڑے، انھوں نے صرف علم کا ورثہ چھوڑا ہے، تو جو اسے حاصل کرلے اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کرلیا۔ “ مزید دیکھیے سورة مریم (٥، ٦) ۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ : یعنی ہمیں پرندوں کی بولی سمجھنا سکھایا گیا ہے، بلکہ بولنا بھی، جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا ہُد ہُد سے مکالمہ آگے آ رہا ہے، پھر انھیں صرف پرندوں ہی نہیں بلکہ تمام حیوانات کی بولی سکھائی گئی تھی، جیسا کہ چیونٹی کی بات سننے کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ پرندوں کا ذکر اختصار کے لیے ہے، کیونکہ پرندے تمام جانداروں سے زیادہ انسان سے دور رہنے اور بدکنے والے ہیں۔ جب داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) ان کی بولی جانتے تھے تو دوسرے جانوروں کی بولی کا علم تو انھیں بالاولیٰ تھا، جو انسان کے قریب رہتے ہیں۔ تمام جانوروں میں سے پرندوں کا ذکر خاص طور پر اس لیے بھی ہے کہ وہ ان کی فوج کا باقاعدہ حصہ تھے۔ پرندوں کی بولی کے علم سے مراد اندازوں پر مبنی علم نہیں، جو علم الحیوانات کے ماہرین ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ مراد واضح طور پر ان کی باتوں کو سمجھنا ہے، جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ خاص معجزہ تھا۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ :” كُلِّ شَيْءٍ “ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس میں علم و نبوت، مال و حکمت حتیٰ کہ جنوں، انسانوں، پرندوں، حیوانات اور ہوا وغیرہ کی تسخیر سبھی چیزیں شامل ہیں۔ (شوکانی) یہاں ” كُلِّ “ کا لفظ کثیر کے معنی میں ہے، جیسا کہ ہُد ہُد نے ملکہ سبا کے متعلق کہا تھا : (وَاُوْتِیَت مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٢٣ ]” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ اسے ہر چیز میں سے حصہ تو نہیں ملا تھا، اور جیسا کہ قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق فرمایا : ( تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا ) [ الأحقاف : ٢٥ ] ” وہ (آندھی) ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ “ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ : فضل کا معنی برتری ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں عطا کرنے کے لیے بیشمار انسانوں میں سے ہمیں منتخب فرمایا، یقیناً یہ واضح برتری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ یہ بتانے سے سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد فخر کا نہیں بلکہ شکر کا اظہار تھا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو یہ بات بتانا ان کی ذمہ داری تھی، تاکہ لوگ ان کی قدر پہچانیں اور ان کی اطاعت کریں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورة بني إسرائیل : ٣١٤٨، قال الألباني صحیح ] ” میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

There is no heritage of wealth among the prophets وَوَرِ‌ثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ (And Sulaiman inherited Dawud - 27:16). The inheritance mentioned in this verse is not the inheritance of wealth and property, because the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has clearly declared that the prophets do neither inherit the property of anyone nor does their property is inherited by anyone. Tirmidhi and Abu Dawud have reported from Sayyidna Abu darda& (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said, ` Ulama& (men of knowledge) are the inheritors of prophets, but the prophets did not leave dirhams or dinars (wealth) as their inheritance; instead, they have left knowledge as their heritage. Al-Kulaini, the famous Shiite scholar, has reported from Sayyidna Ja&far As-sadiq that he said, |"Sayyidna Sulaiman علیہ السلام was the inheritor of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) ، and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was the inheritor of Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) . (Ruh from al-Kulaini). This statement makes the issue very clear that the inheritance is used here in the sense of heritage of knowledge (because nobody can claim that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) inherited the property of Sulaiman (علیہ السلام) . Rationally speaking also, here inheritance cannot mean wealth, because when Sayyidna Dawud (علیہ السلام) died he had 19 sons, hence if inheritance of wealth was meant to be distributed, then all these sons would have been entitled for the inheritance, and it cannot be exclusive to Sayyidna Sulaiman علیہ السلام alone. It is, therefore, quite clear that the inheritance meant here is the one in which the brothers were not included and only Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) was the inheritor. This could only be the inheritance of knowledge and prophethood. Along with that inheritance, Allah Ta’ ala also graced him with the empire of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) and furthermore control over the Jinns, birds, animals and the wind. In the light of these proofs, the narration of Tabrasi is proved to be wrong in which he has regarded inheritance as that of wealth on authority of some Imams of Ah1-ul-Bait. (Ruh) The period between the death of Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) and the birth of the last of the prophets the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was seventeen hundred years, while Jews calculate this period as fourteen hundred years. The life span of Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) was a little over fifty years. (Qurtubi) It is permissible to use plural form for one&s own self, provided it is not out of arrogance عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ‌ وَأُوتِينَا (27:16). Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) has used plural form for himself as a regal idiom, although he was alone. It was to impress his subjects, so that they do not indulge in indolence in the obedience of Allah Ta’ ala and in following him. Similarly, there is no harm if the rulers and officials also use plural form for themselves while they are in the company of their subjects, provided it is for the esteem of the office they are holding and not out of arrogance. Birds and animals also have sense and intelligence There is sense and intelligence to some degree in all animals and birds. However, it is not developed to such an extent that they were made to follow any injunctions of the Shari&ah. But the humans and jinns are bestowed with such perfected sense and intelligence that they are made the addressee and followers of the injunctions of Allah Ta’ ala. Imam Shafi` i (رح) has said that dove is the cleverest of all the birds, and Ibn ` Atiyyah has said that ant is very intelligent animal; its smelling power is very strong . If it gets hold of a grain it breaks it into two, so that it does not germinate, and thus it stock its food for the winters. (Qurtubi) Special Note The expression |"speech of birds|" is used in the verse because of the incident of the hoopoe which is a bird, otherwise Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) was taught languages of all the beasts, birds and the insects, as mentioned in the next verse about understanding the language of the ant. Imam Qurtubi has mentioned in his Tafsir different incidents in which Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) told the people how different birds chirped and what did they mean. The chirping of each bird was a word of advice. وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ (and we have been given of everything -16). The word كُلِّ (every) applies to everything of a kind, but sometimes its application is not universal but pertains to a specific purpose. Here also it is used in that sense and |"everything|" refers to those things only which are needed by the government or an empire. Otherwise it is obvious that they did not have aeroplanes, motor cars or railways in those days. رَ‌بِّ أَوْزِعْنِي (My Lord, enable me - 27:19). It is derived from ) وَزع (waz& ), which lexically means to stop or restrain. Here it means ` enable me with Divine help so that I should have the trait of gratitude with me all the time and do not part with it ever&, which will result in restraint. In the earlier verse فَهُمْ يُوزَعُونَ (27:17) (translated as |"kept under control|" it was also used in the same sense, that in order to save them from confusion because of their large number the armies were restrained.

انبیاء میں مال کی وراثت نہیں ہوتی : وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ ، وَرِثَ سے وراثت علم اور نبوت مراد ہے وراثت مال نہیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (نحن معاشر الانبیآء لا نرث ولا نورث) یعنی انبیاء نہ وارث ہوتے ہیں اور نہ مورث، حضرت ابوالدرداء سے ترمذی اور ابو داؤد میں روایت ہے۔ العلماء ورثۃ الانبیاء و ان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما ولکن ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر۔ یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں، لیکن انبیاء میں وراثت علم اور نبوت کی ہوتی ہے مال کی نہیں ہوتی۔ حضرت ابوعبداللہ (جعفر صادق) کی روایت اس مسئلہ کو اور زیادہ واضح کردیتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وارث ہوئے (روح عن الکلینی) عقلی طور پر بھی یہاں وراثت مال مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں انیس بیٹوں کا ذکر آتا ہے اگر وراثت مال مراد ہو تو یہ بیٹے سب کے سب وارث ٹھہریں گے پھر وراثت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تخصیص کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وراثت وہ مراد ہے جس میں بھائی شریک نہ تھے بلکہ صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) وارث بنے اور وہ صرف علم اور نبوت کی وراثت ہی ہو سکتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ملک و سلطنت بھی حضرت سلیمان کو عطا فرما دیا اور اس میں مزید اضافہ اس کا کردیا کہ آپ کی حکمت جنات اور دحوش و طیور تک عام کردی، ہوا کو آپ کے لئے مسخر کردیا۔ ان دلائل کے بعد طبرسی کی وہ روایت غلط ہوجائے گی جس میں انہوں نے بعض ائمہ اہل بیت کے حوالے سے مال کی وراثت مراد لی ہے۔ (روح) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا فاصلہ ہے اور یہود یہ فاصلہ ایک ہزار چار سو سال کا بتلاتے ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کی عمر پچاس سال سے کچھ اوپر ہوئی ہے۔ (قرطبی) اپنے لئے جمع کا صیغہ بولنا جائز ہے بشرطیکہ تکبراً نہ ہو : عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا الخ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے باوجود خود اکیلے ہونے کے اپنے لئے جمع کا صیغہ شاہانہ محاورہ کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ رعایا پر رعب پڑے اور رعایا اطاعت خداوندی اور اطاعت سلیمان (علیہ السلام) میں سستی نہ کریں۔ اسی طرح امراء، حکام اور افسران کو اپنی رعایا کی موجودگی میں اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں جبکہ وہ سیاست اور اظہار نعمت کی غرض سے ہو تکبر و تعلی کے لئے نہ ہو۔ پرندوں اور چوپاؤں میں بھی عقل و شعور ہے : اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ پرندے، چرندے اور تمام حیوانات میں بھی عقل و شعور کسی درجہ میں موجود ہے۔ البتہ ان کی عقول اس درجہ کی نہیں کہ ان کو احکام شرع کا مکلف بنایا جاتا اور انسان اور جنات کو عقل و شعور کا وہ کامل درجہ عطا ہوا ہے جس کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کے مخاطب ہو سکیں اور ان پر عمل کرسکیں۔ امام شافعی نے فرمایا کہ کبوتر سب پرندوں میں زیادہ عقلمند ہے ابن عطیہ نے فرمایا کہ چیونٹی ذہین عقلمند جانور ہے اس کی قوت شامہ بڑی تیز ہے جو کوئی دانہ اس کے قبضہ میں آتا ہے اس کے دو ٹکڑے کردیتی ہے تاکہ اگے نہیں اور سردی کے زمانے کے لئے اپنی غذا کا ذخیرہ جمع کرتی ہے۔ (قرطبی) فائدہ : آیت میں منطق الطیر یعنی پرندوں کی بولی کی تخصیص ہدہد کے واقعہ کی وجہ سے ہے جو پرندہ ہے ورنہ حضرت سلیمان کو پرندے چرندے اور تمام حشرات الارض کی بولیاں سکھائی گئی تھیں جیسا کہ اگلی آیت میں چیونٹی کی بولی سمجھنے کا ذکر موجود ہے۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس مقام پر مختلف پرندوں کی بولیاں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اس پر یہ فرمانا کہ یہ پرندہ یہ بات کہہ رہا ہے تفصیل سے نقل کیا ہے اور تقریباً ہر پرندہ کی بولی کوئی نصیحت کا جملہ ہے۔ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۔ لفظ کل اصل لغت کے اعتبار سے تمام افراد جنس کو عام ہوتا ہے مگر بسا اوقات عموم کلی مراد نہیں ہوتا بلکہ کسی خاص مقصد کی حد تک عموم مراد ہوتا ہے جیسا یہاں مراد ان اشیاء کا عموم ہے جن کی سلطنت و حکومت میں ضرورت ہوتی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ہوائی جہاز، موٹر، ریل وغیرہ ان کے پاس نہ تھے۔ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ وزع سے مشتق ہے جس کے لفظی معنے روکنے کے ہیں۔ مطلب اس جگہ یہ ہے کہ مجھے اس کی توفیق دیدیجئے کہ میں شکر نعمت کو ہر وقت ساتھ رکھوں اس سے کسی وقت جدا نہ ہوں جس کا حاصل مداومت اور پابندی ہے۔ اس سے پہلی آیت میں فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ اسی معنی میں آیا ہے کہ لشکر کو کثرت کی وجہ سے انتشار سے بچانے کے لئے روکا جاتا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ۝ ٠ۭ اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْفَضْلُ الْمُبِيْنُ۝ ١٦ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ نطق [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع . نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر : 445- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ] «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا : هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل : حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر : 446- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه . ( ن ط ق ) عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) ان سب میں داؤد (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کی سلطنت کے جانشین سلیمان (علیہ السلام) ہوئے اور سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اے لوگو ہمیں کو پرندوں کی بولی سمجھنے کی تعلیم دی گئی اور سامان سلطنت کے متعلق ہر قسم کی ضروری چیزوں کا علم دیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے اوپر بہت بڑا انعام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 Succession here dces not mean inheritance of wealth and properties, but the succession to the Prophet David in the Prophethood and vicegerency. For the wealth and possessions, if at aII transferred, could not be transferred to the Prophet Solomon only, because Prophet David had other children also. Therefore, this verse cannot be cited to refute the Hadith reported from the Holy Prophet, saying, "The inheritance left by us, the Prophets, is not divided as such. whatever we leave behind is charity." (Bukhari) And: "There is no heir to a Prophet. Whatever he leaves behind, is divided among the needy and the indigent of the Muslims." (Musnad Ahmad. Traditions from Abu Bakr, Ahadith No. 60 and 78). The Prophet Solomon was the youngest son of the Prophet David. His Hebrew name Solomon is a synonym of Salim (right-minded, affable). He succeeded the Prophet David in 965 B.C. and ruled his kingdom for forty years, till 926B.C. For other details of his life and works, see E. N.'s 74-75 of AIAnbiyaa in The Meaning of the Qur'an, Vol. VII). Our commentators have greatly exaggerated' the vastness of his kingdom, and have held that he ruled over a large part of the world. The fact, however. is that his kingdom comprised only the present Palestine and Transjordan and a part of Syria. (See Map: Kingdom of the Prophets David and Solomon, The Meaning of the Qur'an, Vol. II, Bani Israel E. N. 7). 21 There is no mention in the Bible that the Prophet Solomon had been taught speech of the birds and animals, though the Israelite traditions contain a reference to it. (Jewish Encyclopedia, Vol. Xl.p. 598) 22 That is, "Allah has bestowed on us all sorts of things." This, however, should not be understood literally; it only means the abundance of the wealth and the means of life granted by Allah. This was not said proudly by Prophet Solomon but only to express his gratitude to Allah for His grace and bounty and favours.

سورة النمل حاشیہ نمبر :20 وراثت سے مراد یہاں مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت داؤد کی جانشینی ہے ، مال و جائداد کی میراث اگر بالفرض منتقل ہوئی بھی ہو تو وہ تنہا حضرت سلیمان ہی کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ حضرت داؤد کی دوسری اولاد بھی موجود تھی ، اس لیے اس آیت کو اس حدیث کی تردید میں پیش نہیں کیا جاسکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لا نورث ما ترکنا صدقۃ ، ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی ، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے ۔ ( بخاری ، کتاب فرض الخمس ) اور ان النبی لا یورث انما میراثہ فی فقراء المسلمین والمساکین نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا ، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے وہ مسلمانوں کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جاتاہے ( مسند احمد ، مرویات ابوبکر صدیق ، حدیث نمبر 60 و 78 ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ، ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو سلیم کا ہم معنی ہے ۔ 965 قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہونے اور 926 ق م تک تقریبا چالیس سال فرمانروا رہے ۔ ان کے حالات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن جلد دو ، الحجر ، حاشیہ 7 ، جلد سوم ، الانبیاء حواشی 75 ، 74 ، ان کے حدود سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سے کام لیا ہے ، وہ انہیں دنیا کے بہت بڑے حصے کا حکمراں بتاتے ہیں ، حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین و شرق اردن پر مشتمل تھی اور شام کا ایک حصۃ بھی اس میں شامل تھا ، ( ملاحظہ ہو نقشہ ملک سلیمان ، تفہیم القرآن جلدو دوم ص 598 ) سورة النمل حاشیہ نمبر :21 بائیبل اس ذکر سے خالی ہے کہ حضرت سلیمان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کا علم دیا گیا تھا ، لیکن بنی اسرائیل کی روایات سے اس کی صراحت موجود ہے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا ، جلد 11 ، ص439 ) سورة النمل حاشیہ نمبر : 22 یعنی اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے ، اس بات کو لفظی معنوں میں لینا درست نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد اللہ کے بخشے ہوئے مال و دولت اور سازو سامان کی کثرت ہے ، یہ بات حضرت سلمان نے فخریہ نہیں فرمائی تھی بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی عطا و بخشش کا شکریہ ادا کرنا مقصود تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یاد رہے کہ ایک صحیح حدیث کے مطابق انبیا علیہم السلام کا ترکہ اُن کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا، اس لئے یہاں وراثت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ نبوّت اور سلطنت میں وہ اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے جانشین ہوئے۔ 8: حضرت سلیمان علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے پرندوں کی بولیاں سکھادی تھیں، جس کی وجہ سے ان کو پتہ چل جاتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، بلکہ آگے چیونٹی کا جو واقعہ آرہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں پرندوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی بولی بھی سکھائی گئی تھی۔ بعض معاصرین نے نہ جانے اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا دشواری محسوس کی ہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے اِن آیتوں میں دوراز کار تأویلات کا دروازہ کھول دیا ہے، حالانکہ یہ کٔھلی ہوئی بات ہے کہ جانوروں کی ایک بولی ہوتی ہے، ہم چاہیں اسے نہ سمجھیں، لیکن جس پروردگار نے انہیں پیدا کیا ہے، اور بولنے پر قدرت عطا فرمائی ہے، ظاہر ہے کہ وہ اُن کی بولی کو بھی جانتا اور سمجھتا ہے، لہٰذا اگر وہ بولی اپنے کسی پیغمبر کو سکھادے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:16) منطق الطیر۔ مضاف مضاف الیہ مل کر علمنا کا مفعول ثانی ہے نا ضمیر جمع متکلم مفعول اول کی ہے۔ پرندوں کی بولی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ اس سے مراد مال و جائیداد کی وراثت نہیں بلکہ علم و فضل اور نبوت کی وراثت ہے۔ اگر مال و جائیداد کی وراثت ہوتی تو وارث کے طور پر صرف حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا ذکر نہ ہوتا کیونکہ اس میں تو حضرت دائود ( علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے بھی شریک ہوتے۔ نیز اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو حضرت سلیمان کے قول :” یا ایھا الناس الخ “ کا ذکر بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ (کبیر) اور یوں بھی انبیا (علیہم السلام) کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد واضح ہے کہ ان کے مال اور ان کی جائیداد بطور ورثہ تقسیم نہیں ہوتی : ” نحن معاشر الانبیا لا نورث ما ترکناہ صدقۃ “۔ پس آیت میں وراثت کا لفظ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا :” العلماء ورثۃ الانبیاء کہ علما انبیا کے وارث ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے یہی تفسیر کی ہے۔ (قرطبی، شوکانی) 10 ۔ ” یعنی اس کا سمجھنا سکھایا گیا “ صرف پرندوں کی نہیں بلکہ تمام حیوانات کی۔ پرند کا ذکر محض اس لئے ہے کہ وہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے لشکر میں شریک تھے اور ان کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ (شوکانی) پرندوں کی بولی کی کیا حقیقت ہے اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس کے متعلق کس قسم کا علم دیا گیا تھا ؟ گو اس کی تفصیل مذکور نہیں مگر اتنی بات یقینی ہے کہ ان کا یہ علم تخمینی طریقہ کا نہ تھا جو اس عصر کے ماہرین علم الحیوانات نے ایجاد کیا ہے بلکہ اس میں اعجازی شان نمایاں تھی اور خاص عطائے الٰہی تھی جس سے ان کو نوازا گیا تھا۔ 11 ۔ جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس میں علم و نبوت، حکمت اور مال حتیٰ کہ جنوں، انسانوں، پرندوں، حیوانات اور ہوا وغیرہ کی تسخیر سبھی چیزیں شامل ہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وورث ……المبین (٦١) حضرت دائود کو نبوت اور علم کے ساتھ ساتھ حکومت بھی دی گئی تھی لیکن ان دونوں پر اللہ کے فضل و کرم کے بیان میں ان کے اقتدار کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف علم و حکمت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ علم و حکمت کے مقابلے میں اقتدار ایک حقیر چیز ہے۔ وورث سلیمان دائود (٨٢ : ٦١) ” او سلیمان نے دائود کی وراثت پانی۔ “ یہاں وراثت سے مراد بھی علم کی وراثت ہے کیونکہ علم و حکمت ہی اس قابل ہے کہ اس میں کوئی پیغمبر دوسرے کا وارث بنے اور اس بات کی تاکید اس سے بیھہوتی ہے کہ حضرت سلیمان لوگوں میں یہ اعلان کرتے ہیں۔ وقال یایھا الناس ……من کل شیء (٨٢ : ٦١) ” اے لوگو ، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ “ تو علم کا ذکر کردیا گیا اور باقی نعمتوں کا ذکر اس کے ضمن میں کردیا گیا۔ گویا دائود نے یہ چیزیں نہیں دی ہیں بلکہ دینے والا اللہ ہے جہاں سے علم آیا۔ وقال ……کل شیء (٨٢ : ٦١) ” لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ “ ان باتوں کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) لوگوں میں اعلان کرتے ہیں۔ یہ اعلان وہ بطور تحدیث نعمت کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں اپنے مقام فضیلت کے لئے کرتے ہیں ، بطور فخر و مباہات نہیں کرتے۔ یہ کہ آپ لوگوں پر رعب جماتے تھے اور ایسی باتوں کا ذکر کرتے تھے جو ان میں نہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ذکرہوا۔ ان ھذا لھو الفضل المبین (٨٢ : ٦١) ” بیشک یہ اللہ کا نمایاں فضل ہے۔ “ یعنی اللہ کا فضل ہے اپنے بندے پر کیونکہ پرندوں کی بولیوں کی تعلیم پر صرف اللہ ہی قادر ہے اور اس طرح حضرت دائود سلیمان کو علی العلوم تمام انعامات دیئے گئے تھے۔ یہ بھی اللہ ہی دے سکتا ہے۔ پرندوں ، حیوانات اور حشرارت الارض کو اللہ نے ایک دور سے کو سمجھانے کے لئے وسائل دیئے تھے اور یہ ان کی زبان اور منطق ہے ۔ اللہ ان تمام جہانوں کے خالق ہیں۔ فرماتے ہیں۔ وما من دآبۃ فی الارض ولا طئر یطریر بجناحیہ الا امم امثالکم (الانعام : ٨٣) ” زمین پر چلنے الے جتنے جانور ہیں اور اڑنے والے پرندے جو اپنے دوپروں کے ساتھ اڑتے ہیں وہ تمہیں طرح امتیں ہیں۔ “ یہ چزیں امت تب ہو سکتی ہیں جب ان کے درمیان اجتماعی روابط ہوں۔ جن کے مطابق وہ رہتے ہوں اور ایسے وسائل اور ذرائع ہوں ، جن کے ذریعے وہ ایک دور سے کو سمجھتے ہیں۔ بیشمار حشرات حیوانات اور پرندوں کے اندر یہ چیزیں نظر آتی ہے۔ حشرارت الارض کی اقسام کے ماہرین نے اپنے اندازوں اور مشاہدوں کے ذریعے ان انواع کے ذرائع تفاہم کی بعض علامات دریافت بھی کی ہیں جو اگر چہ ظنی ہیں۔ رہا وہ علم جو حضرت سیمان (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا وہ ان کے ساتھ خاص تھا اور وہ معجزانہ انداز میں ان کو دیا گیا تھا وہ عام انسانوں کا عام مشاہدہ نہ تھا۔ نہ وہ ایسا علم تھا جس طرح ہمارے دور میں مشاہدہ اور تتبع سے بعض لوگوں نے بعض انواع کے بارے میں معلوم کی ہیں۔ یہ انسانی علوم ظن وتخمین ہیں۔ ان کی نوعیت اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم کی نوعیت مختلف ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بطور تاکید مزید اس بات کی وضاحت کر دوں کیونکہ بعض جدید مفسرین کو سائنس کی علمی کامیابیوں نے اس قدر متاثر کردیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر جدید علمی انکشافات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان مفسرین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم منطق الطیر کی ایسی ہی تشریح کی ہے کہ یہ ایسا ہی علم تھا جیسا کہ دور جدید کے بعض ماہرین نے حشرارت الارض اور حیوانات کی بعض انواع و اجناس کے بارے میں معلوم کیا ہے۔ ایسی کوششیں دراصل قرآنی معجزات کو اپنی حقیقی ماہیت سے نکال دیتی ہیں۔ یہ دراصل ایک شکست خوردہ انداز فکر ہے اور جدید سائنس کے سامنے غیر ضروری طور پر بچھ جاتا ہے۔ حالانکہ سائنس کی انکشافات بہت ہی حقیر و قلیل ہیں جبکہ اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو حیوانات ، حشرارت اور طیور و حوش کے وہ تمام طریقہ اظہار اور مکالمہ سمجھا دے اور معجزانہ انداز میں سمجھا دے۔ بغیر سائنس ریسرچ اور جہد کے اللہ کے لئے یہ اس طرح آسان ہے کہ اس نے انسانوں اور حیوانوں کے درمیان جو پردہ حائل کردیا ہے بس صرف اسے ہٹانا ہے وہ تو تمام انواع کا خالق ہے۔ پھر یہ بات اس عظیم معجزے کا ایک پہلو تھا جو سلیمان (علیہ السلام) کا دیا گیا تھا۔ اس کے دوسرا مصدر یہ تھا کہ حضرت کے لئے جنوں اور پرندوں کی ایک بڑی تعداد کو مسخر کردیا گیا تھا تاکہ وہ آپ کی حکومت کے ماتحت ہوں اور آپ کے لئے پوری طرح مطیع فرمان ہوں ، جس طرح انسانوں کی جو افواج آپ نے بھرتی کر رکھی تھیں اور پرندوں میں سے جو گروہ آپ کے زیر نگیں کردیا گیا تھا اسے اللہ نے ایک خاص قوت مدد کہ دی تھی اور وہ قوت ان جیسے عام پرندوں میں نہ تھی۔ یہ بات ہد ہد کے قصے سے معلوم ہوتی ہے جس نے ملکہ سبا کی مملکت کے حالات معلوم کئے اور اس نے ان کے حالات کو اس طرح سمجھا جس طرح کہ اعلیٰ درجے کا عقلمند اور متقی شخص سمجھ سکتا ہے اور یہ بھی اس معجزے کا ایک حصہ تھا جو حضرت سلیمان کو دیا گیا تھا۔ اللہ کی یہ سنت ہے کہ اللہ کی مخلوق میں جو حیوانات پائے جاتے ہیں ان کے درمیان عقلمندی کی سطح اونچی اور نیچی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی حیوان کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا ہے کہ اس کی قوت مدر کہ انسان سے بڑھ جائے یا اس کے برابر ہوجائے۔ یہ حیوانات اور طیور کی خلقت میں سنت الہیہ نہیں ہے۔ اور نہ یہ سنت اس پوری کائنات کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور سنت الہیہ کے تابع ہے۔ یہ سنت اول روز سے ایسی ہی چل رہی ہے۔ آج ہمارے ہاں جو ہد ہد پایا جاتا ہے ، ہزار باملین سال پہلے بھی ہد ہد اسی نہج پر پیدا ہو رہا تھا۔ جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ہر حیوان کی اندر ایسے جینز پیدا کئے ہیں کہ آج کا ہد ہد ہزار ہا ملین سال پہلے پیدا کئے جانے والے ہد ہد کی پوری کاپی ہے۔ اس کے اندر جو اور جس قدر تبدیلی بھی ہو وہ اپنی نوعیت کے دائرے سے نہیں نکل سکتا۔ یہ بھی سنت الہیہ کا ایک پہلو ہے اور اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ لیکن ان دونوں حقائق کے باوجود یہ نوامیس فطرت اور یہ سنت الہیہ اس بات سے مانع نہیں ہیں کہ اللہ اپنی قدرت کے اصولوں کے اندر استنائی صورت پیدا کر دے۔ بعض اوقات یہ استثنائی حالت بھی دراصل ناموس عام اور سنت جاریہ ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے لیکن ہم اس مخصوص پہلو سے خبردار نہیں ہوتے۔ اس جزئی ناموس اور استثنائی حالت کا علم دراصل صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بظاہر چلتے ہوئے اصول کو روک دیتا ہے۔ اس طرح سنت الہیہ میں بظاہر جو تبدیلی ہوتی ہے وہ بھی ایک برتر سنت ہوتی ہے۔ یہی تھی کہ کہانی ہد ہد اور سلیمان کی اور اللہ نے ان قوتوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا۔ اب ہم اس نکتے سے سلیمان (علیہ السلام) کے قصے کی طرف آتے ہیں کہ حضرت دائود کی وراثت پا کر انہوں نے اللہ کی طرف سے کیا کیا انعامات پائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ یہاں وراثت سے علمی وراثت مراد ہے وراثت مال مراد نہیں یا وراثت قائم مقام ہونے سے کنایہ ہے اس صورت میں علم، نبوت اور ملک سب اس میں داخل ہوں گے۔ ای نبوتہ وعلمہ و ملکہ دون سائر اولادہ و کان لداود (علیہ السلام) تسعۃ عشر ابنا (معالم و خازن ج 5 ص 112) ای قام مقامہ فی النبوۃ والملک و صار نبیا ملکا بعد موت ابیہ داود (علیہا السلام) فوراثتہ ایاہ مجاز عن قیامہ مقامہ فیما ذکر بعد موتہ (روح ج 19 ص 170) ۔ 16:۔ تحدیث بالنعمۃ کے طور پر لوگوں کو خطاب کر کے انعامات خداوندی کا ذکر کیا۔ یعنی اللہ کا شکر ہے جو مجھے حسب ضرورت پرندوں کی باتوں سے آگاہ فرما دیتا ہے اور اس کے علاوہ بھی اس کے انعامات بےحساب ہیں یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے “ علمنا منطق الطیر ” کا مفہوم یہی ہے کہ حسب مواقع اللہ تعالیٰ مجھے پرندوں کی باتوں سے آگاہ فرما دیتا ہے یعنی بطور معجزہ کانت الطیر تکلمہ معجزۃ لہ کقصۃ الھدھد (بحر ج 7 ص 59) ۔ “ من کل شیء ” میں کل استغراق اضافی کے لیے ہے یعنی تمام ضرورت کی اشیاء جیسا کہ “ و اوتیت من کل شیء ” میں ہے۔ عن ابن عباس (رض) ھو ما یھمہ (علیہ السلام) من امر الدنیا والاخرۃ و قد یقال انہ ما یحتاجہ الملک من الات الحرب وغیرھا (روح ج 19 ص 172) ۔ یا یہ کثرت سے کنایہ ہے اور استغراق حقیقی مراد نہیں۔ المراد بہ کثرۃ ما اوتی کما تقول فلان یعلم کل شیء و مثلہ واوتیت من کل شیء (مدارک ج 3 ص 156) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور سلیمان (علیہ السلام) اور دائود (علیہ السلام) کا جانشین اور وارث ہوا اور اس نے کہا کہ اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولی سمجھنے کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم کو ہر قسم کی ضروری چیزیں عطا کی گئی ہیں واقعی یہ حکومت اور علم کا عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک کھلا ہوا فضل ہے یعنی حضرت دائود (علیہ السلام) کی وفات کے بعد حضرت دائود (علیہ السلام) کی وفات کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) ان کے قائم مقام ہوئے اور ان کے جانشین وارث مقرر ہوئے اور ان کو جانوروں کی بولیاں سمجھنے کا علم دیا گیا تو انہوں نے لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کیا کہ ہم کو پرندوں کی بولی کو سمجھنے کا علم دیا گیا ہے اور حکومت کے چلانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے مثلا لشکر، اسلحہ و دیگر ضروری سامان بھی عطا ہوا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا اور کھلا ہوا فضل ہے جو اس نے عطا فرمایا ہے دوسرے سلاطین کو یہ بات کہاں میسر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وارث ہوا یعنی نبی ہوا اور بادشاہ ہوا با پ کی جگہ اور بیٹھے تھے وے اس مقام پر نہ ہوئے اور ہرچیز میں سے دیا یعنی جو چیزیں دنیا میں درکار ہیں 12