Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 18

سورة النمل

حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوۡا عَلٰی وَادِ النَّمۡلِ ۙ قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۸﴾

Until, when they came upon the valley of the ants, an ant said, "O ants, enter your dwellings that you not be crushed by Solomon and his soldiers while they perceive not."

جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیو نٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمان اور اسکا لشکر تمہیں روند ڈالے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِي النَّمْلِ ... Till, when they came to the valley of the ants, meaning, when Suleiman, the soldiers and the army with him crossed the valley of the ants, ... قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لاَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَا يَشْعُرُونَ one of the ants said: "O ants! Enter your dwellings, lest Suleiman and his armies should crush you, while they perceive not." Suleiman, peace be upon him, understood what the ant said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔ گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بیخبر ی میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مذید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] علمائے حیوانات کی جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جس طرح انسان اپنے اجتماعی اور سیاسی نظام کے لئے چند مخصوص ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔ چیونٹی جیسے حقیر ترین جانور کی بستیوں میں بھی اسی سے ملتا جلتا نظام پایا جاتا ہے۔ آدمیوں کی طرح چیونٹیوں کے بھی خاندان اور قبائل ہوتے ہیں ان میں باہمی تعاون اور تقسیم کار کا اصول اور نظام حکومت کے ادارت پائے جاتے ہیں ان کی بھی زبان ہے جس کو سب چیونٹیاں سمجھتی ہیں۔ [٢٠] حضرت سلیمان اپنے لاؤ لشکر سمیت کسی مہم پر جارہے تھے کہ چیونٹیوں کی ایک بستی پر ان کا گزر ہوا تو آپ نے ایک چیونٹی کو دوسری چیونٹی سے یوں خطاب کرتے ہو سنا۔ وہ شاید ان چیونٹیوں کی سردار چیونٹی تھی جو دوسری چیونٹیوں کو خبر اور یہ ہدایت دے رہی تھی کہ دیکھو سلیمان اور اس کا لاؤ لشکر تمہارے سروں پر پہنچ رہا ہے۔ لہذا جلد از جلد اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ تم ان کے پاؤں کے نیچے پس جاؤ۔ اور انھیں یہ خبر بھی نہ ہو کہ تمہاری جانوں پر کیسا حادثہ گزر گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حَتّىٰٓ اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَاد النَّمْلِ ۔۔ : اس آیت سے بہت سے مسائل معلوم ہوتے ہیں : 1 چیونٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کا شعور بخشا ہے، چناچہ وہ بستیوں کی صورت میں رہتی ہیں۔ ان کی باقاعدہ ایک ملکہ ہوتی ہے، جس کے احکام کے تحت وہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی بستیوں کے اندر حیرت انگیز ترتیب کے ساتھ مکانات، ان کی دہلیزیں، چھتیں، راستے، غرض سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ آنے والے وقت کے لیے غذا جمع کرتی ہیں اور اسے ایسے طریقے سے محفوظ کرتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، چناچہ وہ غلے کے ہر دانے کو کاٹ کر دو حصوں میں کردیتی ہیں، تاکہ وہ نمی سے اگ نہ جائے۔ ان میں پہرے دار، لڑاکا دستے، خوراک جمع کرنے والے اور صفائی کرنے والے، غرض ہر طرح کے مجموعے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ وادی جس پر سے سلیمان (علیہ السلام) گزرنے والے تھے ایسی ہی وادی تھی جس میں چیونٹیوں کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا محل وقوع بیان نہیں فرمایا، نہ ہدایت کے مقصد کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ مفسرین میں سے کوئی وہ وادی شام میں بیان کرتا ہے، کوئی طائف میں۔ اصل مقام کوئی بھی نہیں جانتا۔ 2 سلیمان (علیہ السلام) کے اس وادی کے قریب آنے پر ایک چیونٹی نے کہا : ” اے چیونٹیو ! اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس بظاہر حقیر سی مخلوق کا ایک فرد اپنی ساری قوم کے لیے فکر مند ہے اور انھیں بچنے کی تدبیر سے آگاہ کر رہا ہے۔ یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ جب کسی قوم کے افراد صرف اپنی فکر میں پڑجائیں تو اس قوم کو ذلت اور بربادی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی، جیسا کہ اس وقت امت مسلمہ کے اکثر افراد کا حال ہوچکا ہے۔ 3 سلیمان (علیہ السلام) کا عالم الغیب نہ ہونا چیونٹیوں کو بھی معلوم تھا، چناچہ اس چیونٹی نے کہا، کہیں سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں، جب کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں۔ 4 اس میں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکروں کی تعریف بھی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے کبھی زیادتی نہیں کرتے، لاعلمی میں کوئی ان کی یلغار میں کچلا جائے تو الگ بات ہے۔ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی یہی شان تھی، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَـــطَــــُٔوْهُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ ) [ الفتح : ٢٥ ] ” اور اگر کچھ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں، جنھیں تم نہیں جانتے تھے (اگر یہ نہ ہوتا) کہ تم انھیں روند ڈالو گے تو تم پر لا علمی میں ان کی وجہ سے عیب لگ جائے گا (تو ان پر حملہ کردیا جاتا) ۔ “ 5 اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام راستے پر چلنے والوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ چیونٹیوں وغیرہ کو بچائیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنا بچاؤ خود کریں۔ 6 یہ بھی معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی بولی بھی سمجھتے تھے، یہ ان کا معجزہ تھا۔ 7 چیونٹی کی آواز آدمی کو سنائی نہیں دیتی، سلیمان (علیہ السلام) نے سن لی، یہ چیونٹی کی بولی سمجھنے کے علاوہ مزید معجزہ ہے۔ 8 معجزات کے بعض منکروں نے لکھا ہے کہ ” وادی النمل “ بنو نمل قبیلے کا مسکن تھی اور یہ نملہ چیونٹی نہیں تھی بلکہ اس قبیلے کا ایک آدمی تھا۔ مگر یہ قرآن کی بدترین تحریف ہے، کیونکہ چیونٹی کے قول ” وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ “ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عام چیونٹیاں تھیں جو زمین پر رینگتی پھرتی ہیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی لشکر انسانوں سے بھری ہوئی وادی کو کچلتا ہوا گزر جائے اور اسے پتا ہی نہ چلے۔ علاوہ ازیں اس صورت میں آیت کا اس علم سے کوئی تعلق نہیں رہتا جس کے عطا ہونے پر سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے شکر نعمت کی توفیق مانگ رہے ہیں۔ نہ تاریخ میں بنو نمل نامی قبیلے کا کوئی وجود پایا جاتا ہے، نہ عربی زبان میں۔ بنو کلب قبیلے کے آدمی کو کلب یا بنو اسد قبیلے کے آدمی کو اسد کہا جاتا ہے کہ بنو نمل قبیلے کے آدمی کو نملہ کہا جائے ! ! معجزات کے منکروں کی مشکل یہ ہے کہ وہ قرآن کا صاف انکار کرنے کی جرأت نہیں رکھتے، اس لیے اس کے معانی میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ۝ ٠ ۙ قَالَتْ نَمْــلَۃٌ يّٰٓاَيُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ۝ ٠ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ۝ ٠ ۙ وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ١٨ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے وادي قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء/ 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] أي : بقَدْرِ مياهها . ( و د ی ) الوادی ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ نمل قال تعالی: قالَتْ نَمْلَةٌ يا أَيُّهَا النَّمْلُ [ النمل/ 18] وطَعَامٌ مَنْمُولٌ: فيه النَّمْلُ ، والنَّمْلَةُ : قُرْحَةٌ تَخْرُجُ بالجَنْبِ تشبيهاً بالنَّمْلِ في الهَيْئَةِ ، وشَقٌّ في الحافِر، ومنه : فَرَسٌ نَمِلُ القَوَائِمِ : خَفِيفُهَا . ويُستعارُ النَّمْلُ للنَّمِيمَةِ تَصَوُّراً لدَبِيبِهِ ، فيقال : هو نَمِلٌ ، وذُو نَمْلَةٍ ، ونَمَّالٌ. أي : نَمَّامٌ ، وتَنَمَّلَ القَوْمُ : تَفَرَّقُوا للجَمْعِ تَفَرُّقَ النَّمْلِ ، ولذلک يقال : هُوَ أَجْمَعُ مِنْ نَمْلَةٍ «3» ، والأُنْمُلَةُ : طَرَفُ الأَصَابِعِ ، وجمْعُه : أَنَامِلُ. ( ن م ل ) نملۃ ۔ چیوٹنی ( ج ۔ نمل قرآن پاک میں ہے : قالَتْ نَمْلَةٌ يا أَيُّهَا النَّمْلُ [ النمل/ 18] تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو۔ طعام منمول ۔ طعام جس میں چیونٹیاں پڑگئی ہوں ۔ نملۃ (1) ایک قسم کا پھوڑا ۔ جو پہلو میں نکلتا ہے ۔ اور اس کی شکل چیوٹنی جیسی ہوتی ہے (2) جانور کے کھڑکا شگاف ۔ اور اسی سے فرس نمل القوائم کا محاورہ ہے یعنی سبک پاؤں والا گھوڑا جو ایک جگہ پر سکون سے کھڑا نہ ہوا اور مجازا النمل بمعنی نمیمۃ بھی آتا ہے ۔ اور یہ معنی چیونٹی کی چال سے ماخوذ ہ ۔ اور ھو نمل وذونملۃ و نمال کے معنی چیونٹی معنی چغل خور کے ہیں ۔ تنمل القوم ۔ مال جمع کرنے کے لئے جیونٹیوں کی طرح پھیل گئے ۔ اسی سے ھوا جمع من نملۃ کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ چیونٹی سے بھی زیادہ ذخیرہ اندوز ہے ۔ الانملۃ ۔ انگلیوں کے اطراف ۔ ج۔ انامل دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ حطم الحَطْمُ : کسر الشیء مثل الهشم ونحوه، ثمّ استعمل لكلّ کسر متناه، قال اللہ تعالی: لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وحَطَمْتُهُ فانحطم حَطْماً ، وسائقٌ حُطَمٌ: يحطم الإبل لفرط سوقه، وسمیت الجحیم حُطَمَة، قال اللہ تعالیٰ في الحطمة : وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة/ 5] ، وقیل للأكول : حطمة، تشبيها بالجحیم، تصوّرا لقول الشاعر : كأنّما في جو فه تنّور ودرع حُطَمِيَّة : منسوبة إلى ناسجها أومستعملها، وحطیم وزمزم : مکانان، والحُطَام : ما يتكسّر من الیبس، قال عزّ وجل : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر/ 21] . ( ح ط م ) الحطم کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں جیسا ک الھشیم وغیرہ الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ پھر کسی چیز کو ریزہ زیزہ کردینے اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسا نہ ہوگہ سلیمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔ کہاجاتا ہے حطمتہ فانحطم میں نے اسے توڑا چناچہ وہ چیز ٹوٹ گئی ) سائق حطم بےرحم چر واہا ۔ جو اونٹوں کو سخت ہنگا کر ان پر ظلم کرے ۔ اور دوزخ کو حطمۃ کہا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة/ 5] حطیمہ میں ۔۔۔ اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بہت زیادہ کھانے والے کو بھی حطمۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے پیٹ کو تنور کے ساتھ ، تشبیہ دی ہے ۔ ع ؎ گو یا اس کے پیٹ میں تنور ہے ۔ درع حطمیۃ زرہ بننے والے یا ستعمال کرنے والے کی طرف منسوب ہے اور حطیم وزمزم ( حرم میں ) دو جگہوں کے نام ہیں ۔ الحطام جو خشک ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر/ 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو ( کہ زرد ہوگئ ہے ) پھر اسے چورا چورا کردیتا ہے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) چناچہ ایک مرتبہ سرزمین شام میں ایک چیونٹیوں کے میدان پر سے گزر ہوا تو عرجاء یا منذرہ نامی ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا اے چیونٹیو اپنے سوراخوں میں جا گھسو کہیں تمہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں نہ کچل ڈالیں یا یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر نے چیونٹی کی یہ بات نہیں سمجھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (حَتّٰٓی اِذَآ اَتَوْا عَلٰی وَاد النَّمْلِلا) ” حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے سے گزرے جہاں چیونٹیاں کثرت سے پائی جاتی تھیں۔ (لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗلا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ” انہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ ان کے قدموں اور گھوڑوں کے سموں تلے کتنی ننھی جانیں مسلی جا رہی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 This verse also has been greatly misconstrued by some commentators of the present day. They say that wad-in naml does not mean "valley of the ants", but it is the name of a valley that was in Syria, and namlah does not mean an ant but it is the name of a tribe. Thus, according to them, the verse means this: "When the Prophet Solomon reached the valley of the ants, a Namilite said, 'O people of the Naml tribe ......" But this also is an interpretation which is not supported by the words of the Qur'an. Even if we took wad-in-naml to be the name of a valley and supposed that it was inhabited by the tribe of Bani an-Naml, it would be against the Arabic idiom and usage to speak of a member of the tribe as namlah. Although there are many Arab tribes which have been named after the animals, e.g. Kalb (dog), Asad (lion), etc"., yet no Arab would ever say in respect of a member of the Kalb or the Asad tribe: "A dog said, or a lion said, etc. Therefore, it would be against the Arabic idiom to say in respect of a member of the Naml tribe: "A namlah (ant) said this." Then a member of the Naml tribe's warning the people of his tribe, saying, "O Namilites, get into your houses lest Solomon's hosts should trample you down without even knowing it," becomes meaningless, It has never happened that an army of men should have trampled down a group of men without knowing it. If the army has come with the intention of an attack, it would be useless for the other side to get into their houses, for in that case the invaders would follow them into their houses, and trample them more ruthlessly. And if the army is only on the routine march, it is just enough to clear off the way for it. Human beings may be harmed by the marching columns, but it can never happen that the soldiers on the march would trample down other men without knowing it. Therefore, if Bani an-Naml were a tribe of human beings, and one of its members were to warn his people, then in case of an attack, he would have said, "O Namilites, flee your houses and take refuge in the mountains lest Solomon's armies should destroy you. " And in case there was no danger of an attack, he would have said, "O Namilites, clear off the way lest one of you should be harmed by the marching columns of Solomon's armies." This error in the interpretation is on account of the Arabic idiom and the subject-matter. As for the name of the valley and the tribe of Bani an-Naml inhabiting it, it is a mere hypothesis for which there exists no scientific proof. Those who hold that wad-in -naml was the name of a valley have themselves pointed out that it had been so named because of the abundance of ants in it. Qatadah and Muqatil say, "It is a valley in the land of Syria where ants are found in abundance. But in no book of history and geography and in no archaeological research it is mentioned that it was inhabited by a tribe called Bani an-Naml. Thus, it is merely a concoction that has been invented to support one's own interpretation . This story is also found in the Israelite traditions but its latter portion falls against the Qur'an as well as against the regal dignity of the Prophet Solomon. According to it, when the Prophet Solomon was passing through a valley which abounded in ants, he heard an ant calling out to the other ants to say, "Get into your holes, otherwise you will be trampled down by Solomon's hosts." At this, Prophet Solomon displayed great vanity before the ant to which the ant rejoined, " What are you?-the product of a mere sperm-drop ! " Hearing this the Prophet Solomon felt greatly ashamed. (Jewish Encyclopedia, Vol. X1, p. 440). This shows how the Qur'an corrects the wrong traditions of the Israelites, and cleanses the filthy spots with which they had themselves branded the characters of their Prophets. It is these traditions about which the Western orientalists shamelessly claim that the Qur'an has plagiarized them for its narratives. Rationally also it is not at all inconceivable that an ant should warn members of its' own species of an impending danger and tell them to get into their holes. As for the question as to how the Prophet Solomon heard it, the answer is: It is not all difficult to understand the crude speech of an ant for a person whose senses can comprehend and receive a subtle message like the Word of Revelation

سورة النمل حاشیہ نمبر : 24 اس آیت کو بھی آج کل کے بعض مفسرین نے تاویل کے اوپر چڑھایا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ وادی النمل سے مراد چیونٹیوں کی وادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وادی کا نام ہے جو شام کے علاقے میں تھی اور نملۃ کے معنی ایک چیونٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے ، اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان وادی النمل میں پہنچے تو ایک نمل نے کہا کہ اسے قبیلہ نمل کے لوگو لیکن یہ بھی ایسی تاویل ہے کہ جس کا ساتھ قرآن کے الفاظ نہیں دیتے ، اگر بالفرض وادی النمل کو اس وادی کا نام مان لیا جائے ، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہاں بنی النمل نام کا کوئی قبیلہ رہتا تھا ، تب بھی یہ بات عربی زبان کے استعمالات کے بالکل خلاف ہے کہ قبیلہ نمل کے ایک فرد کو نملہ کہا جائے گا ، اگرچہ جانوروں کے نام پر عرب کے بہت سے قبائل کے نام ہیں ، مثلا کلب ، اسد وغیرہ ، لیکن کوئی عرب قبیلہ کلب کے کسی فرد کے متعلق قال کلب ( ایک کتے نے یہ کہا ) یا قبیلہ اسد کے کسی شخص کے متعلق قال اسد ( ایک شیر نے کہا ) ہرگز نہیں بولے گا ، اس لیے بنی النمل کے ایک فرد کے متعلق یہ کہنا کہ قالت نملۃ ( ایک چیونٹی یہ بولی ) قطعا عربی محاورہ استعمال کے خلاف ہے ، پھر قبیلہ نمل کے ایک فرد کا بنی النمل کو پکار کر یہ کہنا کہ اے نملیو ، اپنے گھروں میں گھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی ہو ، بالکل بے معنی ہے ، انسانوں کے کسی گروہ کو انسانوں کا کوئی لشکر بے خبری میں نہیں کچلا کرتا ۔ اگر وہ ان پر حملے کی نیت سے آیا ہو تو ان کا اپنے گھروں میں گھس جانا لا حاصل ہے ، حملہ آور ان کے گھروں میں گھس کر انہیں اور زیادہ اچھی طرح کچلیں گے ، اور اگر وہ محض کوچ کرتا ہوا گزر رہا ہو تو اس کے لیے بس راستہ صاف چھوڑ دینا کافی ہے ، کوچ کرنے والوں کی لپیٹ میں آکر انسانوں کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے ، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ چلتے ہوئے انسان بے خبری میں انسانوں کو کچل ڈالیں ، لہذا اگر بنی النمل کوئی انسانی قبیلہ ہوتا اور اس کا کوئی فرد اپنے قبیلے کے لوگوں کو خبردار کرنا چاہتا ہو تو حملے کے خطرے کی صورت میں وہ کہتا کہ اے نملیو ، بھاگ چلو اور پہاڑوں میں پنا لو تاکہ سلیمان کے لشکر تمہیں تباہ نہ کریں ۔ اور حملے کا خطرہ نہ ہونے کی صورت میں وہ کہتا کہ اے نملیو ، راستہ سے ہٹ جاؤ تاکہ تم میں سے کوئی شخص سلیمان کے لشکروں کی جھپٹ میں نہ آجائے ۔ یہ تو وہ غلطی ہے جو اس تاویل میں عربی زبان اور مضمون عبارت کے اعتبار سے ہے ، رہی یہ بات کہ وادی النمل دراصل اس وادی کا نام تھا اور وہاں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ رہتا تھا ، یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے لیے کوئی علمی ثبوت موجود نہیں ہے ، جن لوگوں نے اسے وادی کا نام قرار دیا ہے انہوں نے خود یہ تصریح کی ہے کہ اسے چیونٹیوں کی کثرت کے باعث یہ نام دیا گیا تھا ۔ قتادہ اور مقاتل کہتے ہیں کہ واد بارض الشام کثیر النمل وہ ایک وادی ہے سرزمین شام میں جہاں چیونٹیاں بہت ہیں ۔ لیکن تاریخ و جغرافیہ کی کسی کتاب میں اور آثار قدیمہ کی کسی تحقیقات میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس وادی میں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ بھی رہتا تھا ۔ یہ صرف ایک من گھڑت ہے جو اپنی تاویل کی گاڑی چلانے کے لیے وضع کرلی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے ، مگر اس کا آخری حصہ قرآن کے خلاف ہے اور حضرت سلیمان کی شان کے خلاف بھی ہے ، اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان جب ایک وادی سے گزر رہے تھے جس میں چیونٹیاں بہت تھیں تو انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی پکار کر دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ ورنہ سلیمان کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں گے ۔ اس پر حضرت سلیمان نے اس چیونٹی کے سامنے بڑے تکبر کا اظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا کہ تمہاری حقیقت کیا ہے ، ایک حقیر سے تو تم پیدا ہوئے ہو ، یہ سن کر حضرت سلیمان شرمندہ ہوگئے ( جیوش انسائیکلو پیڈیا ، ج 11 ، ص 440 ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کس طرح بنی اسرائیل کی غلط روایات کی تصحیح کرتا ہے اور ان گندگیوں کو صاف کرتا ہے جو انہوں نے خود اپنے پیغمبروں کی سیرتوں پر ڈال دی تھی ، ان روایات کے متعلق مغربی مستشرقین بے شرمی کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن نے سب کچھ ان سے سرقہ کرلیا ہے ۔ عقلی حیثیت سے یہ بات کچھ بھی بعید نہیں ہے کہ ایک چیونٹی اپنی جنس کے افراد کو کسی آتے ہوئے خطرے سے خبردار کرے اور بلوں میں گھس جانے کے لیے کہے ۔ رہی یہ بات کہ حضرت سلیمن نے اس کی بات کیسے سن لی ، تو جس شخص کے حواس کلام وحی جیسی لطیف چیز کا ادراک کرسکتے ہوں ، اس کے لیے چیونٹی کے کلام جیسی کثیف ( Crude ) چیز کا ادراک کرلینا کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:18) لا یحطمنکم مضارع منفی تاکید بانون ثقیلہ واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ حطم مصدر (باب ضرب) وہ تمہیں روند نہ ڈالے۔ وہ تمہارا چورا نہ کر دے۔ الحطم کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں پھر کسی چیز کو ریزہ ریزہ کردینے اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن مجید میں ہے ثم یجعلہ حطاما (39:21) پھر اسے چورا چورا کردیتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ جہاں چیونٹیوں کی بڑی کثرت تھی۔ اس وادی کی جگہ بعض نے طائف اور اکثرے شام بتائی ہے۔ (شوکانی) 3 ۔ اور چیونٹیوں کا گفتگو کرنا عقلاً مستبعد نہیں ہے۔ (کبیر) بلکہ قرآن نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ اگر ان کی یہ تسبیح زبان قال کی بجائے زبان حال پر محمول ہو تو اسے تو ہم سمجھتے ہیں لیکن حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا اس چیونٹی کی گفتگو کو سمجھ لینا اس خاص علم کی بنا پر تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا تھا اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اسے بطور نعمت الٰہی کے بیان کر رہے ہیں مگر ہمارے زمانہ کے بعض ” ماڈرن “ مفسرین جنہیں قرآن میں معجزات کے ذکر سے شرم آتی ہے اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہاں ” نمل “ سے مراد چیونٹیاں نہیں بلکہ انسانوں کا ایک قبیلہ مراد ہے جس کا نام ” بنو نمل “ تھا اور جو چیونٹیوں کی طرح بکثرت اس وادی میں پھیلا ہوا تھا۔ جب حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا لشکر اس وادی میں پہنچا تو اس کے ایک فرد نے اپنے قبیلہ کے دوسرے لوگوں سے کہا : ” اے قبیلہ نمل کے لوگو۔ “ لیکن یہ تاوی دراصل قرآن کی تحریف ہے کیونکہ اس صورت میں آیت کا تعلق نہ اس ” علم “ سے رہتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں بڑی اہمیت سے کیا گیا ہے اور نہ تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ شام یا طائف میں اس نام کا کوئی انسانی قبیلہ آباد تھا۔ محض من مانی تاویل کرنے کے لئے یہ بےبنیاد بات گھڑی گئی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ نملہ کے اس کلام کے وقت یا تو آپ کا لشکر زمین پر چلتا ہوگا، اور اگر ہوا پر سفر تھا، تو وہاں اترنے کا ارادہ ہوگا، اور نملہ کو بالہام الہی سلیمان (علیہ السلام) کی اور ان کے لشکر کی اور اس کے ارادہ کی معرفت ہوگئی ہوگی، اور قدرت کے سامنے سب آسان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) صرف جن وانس اور پرندوں کی بولیاں نہیں جانتے تھے بلکہ وہ حشرات الارض کی بولیاں بھی سمجھتے تھے اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ قرآن مجید نے یہ نہیں بتلایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے لشکروں کے ساتھ کس طرف اور کس قوم کے خلاف پیش قدمی کر رہے تھے۔ صرف یہ بات بتلائی گئی ہے کہ جب وہ اپنے لشکروں کے ساتھ ایک ایسی وادی سے گزرنے والے تھے جہاں چیونٹیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ چیونٹیوں کی سردار کو سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکروں کی آمد کا علم ہوا تو اس نے چیونٹیوں کو آواز پر آواز دی کہ اے چیونٹیو ! اپنی اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے لشکر غیر شعوری طور پر تمہیں کچل نہ دیں۔ یہ آواز حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سنی تو مسکرائے اور اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ بعض مفسرین نے غیر مستند روایات کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی آواز تین میل دور سے سن لی تھی۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ ۔ بہر حال یہ ظاہر ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کے پڑاؤ پر پہنچنے سے پہلے یہ آواز سنی تھی جس پر وہ خوشی اور شکرانے کے طور پر مسکرائے تھے۔ چیونٹیوں کے بارے میں معلومات : اللہ تعالیٰ نے چینٹوں کو بھی انسان کی طرح عقل دی ہے جو چیزوں کا ادراک کرلیتی ہے۔ انسانوں کی طرح مختلف قبائل اور خاندانوں میں بٹی ہوتی ہیں۔ ہر کام کے لیے الگ الگ چیونٹیاں متعین ہوتی ہیں۔ مثلاً خوراک کی بہم رسانی کے لیے الگ ہوتی ہیں۔ اپنے پڑاؤ کی نگہبانی اور دفاع کے لیے الگ ہوتی ہیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کا علیٰحدہ لشکر ہوتا ہے جو مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان کی نگرانی کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ جرنیل متعین ہوتے ہیں۔ نیز جب وہ گندم وغیرہ کے دانے اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرتی ہیں تو ان کو کاٹ کر دو ٹکڑے کردیتی ہیں تاکہ انہیں نمی پہنچے تو وہ اگ نہ پڑیں۔ لیکن جب وہ مسور اور دھنیا کا ذخیرہ کرتی ہیں تو ان کے چار چار ٹکڑے کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کا نصف حصہ بھی اگ پڑتا ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں چیونٹی کی بارش کے لیے دعا : (عَنْ اَبِی الصِّدِیْقِ النَّاجِی اَنَّ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ خَرَجَ بالنَّاسِ یَسْتَسْقِیْ فَمَرِ عَلٰی نَمْلَۃِ مُسْتَلْقِیَۃٍ عَلیَ قَفَاہَا رَافِعَۃٌ قَوَاءِمَہَا اِلَی السَّمَآءَ وَہِیْ تَقُوْلُ ، اَللّٰہُمَّ اِنَّا خَلَقً مِنْ خَلْقِکَ لَیْسَ لَنَاغِنًی رَزِقِکْ ، فَاَمَا اَنْ تَسْقِیْنَا وَاِمْا اَنْ تَہْلِکُنْا، فَقَالَ سُلَیْمَان للنَّاسِ اِرْجِعْوا فَقَدْ سَقِیْتُمْ بِدَعْوَۃِ غَیْرِکُمْ ) [ مصنف ابن ابی شیبہ : ج، ٧، ص ٧٧] ” حضرت ابی صدیق ناجی بیان کرتے ہیں بیشک سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) ایک دن لوگوں کے ساتھ بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکلے تو ان کا گذر ایک چیونٹی کے پاس سے ہوا جو اپنی گدی کے بل لیٹی ہوئی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے یہ دعا کر رہی تھی (اے اللہ ہم بھی تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور ہم تیرے رزق سے مستغنی نہیں ہیں۔ اے مالک ہم پر بارش برسا وگرنہ ہم ہلاک ہوجائیں گی۔ ) سلیمان (علیہ السلام) نے لوگوں کو کہا واپس پلٹ چلو ایک اور مخلوق کی دعا سے بارش ہوجائے گی۔ “ مسائل ١۔ چیونٹیوں کی سردار نے قبل از وقت خطرے سے اپنی قوم کو آگاہ کیا۔ ٢۔ قوم کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو خطرات سے بچانے کی کوشش کرے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حتی ……عبادک الصلحین (٩١) یہ لشکر جب نکلا ، جس میں انسان ، جن او طیور شامل تھے۔ نہایت تنظیم اور ترتیب کے ساتھ اس کا اول اس کے آخری حصہ سے مربوط تھا۔ اس کی صفیں منظم تھیں اور اس کی حرکت بھی منظم تھی۔ یہ لشکر ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بڑی تعداد میں تھیں۔ اس کثرت سے کہ اس ودی کا نام ہی وادی نمل تھا۔ تو ایک ایسی چیونٹی نے جو ان کی سربراہ تھی ، چیونٹیوں سے کہا۔ ادخلوا مسکنکم (٨٢ : ٨١) ” اپنے گھروں میں داخل ہو جائو۔ “ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ چیونٹیوں بھی شہد کی مکھیوں کی طرح بہت منظم ہوتی ہیں۔ ان کے اندر ڈیوٹیاں تقسیم ہوتی ہیں اور یہ ایک عجیب نظام کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ایسے نظام کے ساتھ کہ خود انسانوں کے لئے اس قدر منظم زندگی بسر کرنا مشکل ہے۔ ان کو بڑی ترقی یافتہ عقل اور بلند قوت مدر کہ دی گئی ہے تو اس چیونٹی نے اپنی زبان میں کہا۔ لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ وھم لایشعرون (٨٢ : ٨١) ” کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو “ ۔ حضرت سلیمان نے چیونٹی کی بات کو سمجھ لیا۔ ان کا دل بہت خوش ہوا کہ چیونٹی کیا احکام دے رہی ہے۔ انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ ایک چیونٹی حضرت سلیمان کی شان کو جانتی ہے۔ خطرہ محسوس کرتی ہے ، جبکہ ان کے دل میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کو اذیت دیں جس طرح ایک چھوٹا بڑے کی اذیت سے ڈرتا ہے۔ حضرت سلیمان کو خوشی اس پر ہوئی کہ اس قدر چھوٹی مخلوق بھی ان کے بارے میں ادراک رکھتی ہے اور پھر تعجب بھی ہوا کہ ایک چیونٹی کی اطاعت اس کے ماتحت سمجھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ان کو اللہ کی مخلوقات اور عجائبات پر بڑا ، تعجب ہوا۔ جب حضرت سلیمان کو یہ سب باتیں معلوم ہوئیں تو فتبسم ضاحکا من قولھا (٨٢ : ٩١) ” سلمان اس کی بات پر مسکراتے ہئوے ہنس پڑا۔ “ لیکن اس مشاہدے نے ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کے دل کو رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا۔ جس نے اسے یہ خارق عادت علم سے نوازا۔ یوں انسانوں اور دوسری مخلوقات کے درمیان راز کے جو پردے حائل تھے وہ ہٹا دیئے گئے۔ چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نہایت عاجزی کے ساتھ رب کی طرف متوجہ ہوئے۔ وقال رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی و علی والدی (٨٢ : ٩١) اور کہا اے میرے رب ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اسا حسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے۔ “ اے رب یہ براہ راست ایک خدا رسیدہ شخص کی دعا ہے۔ اوزعنی یعنی مجھے جمع رکھ میرے شعور اور میرے اعضا جمع رکھ ، میرے دل اور میری زبان کو قابو میں رکھ۔ میرے خیالات اور خلجانات کو منضبط کر دے اور میرے کلمات اور میری عبادات کو مجتمع کر دے۔ میرے اعمال اور میری سرگرمیوں کو منضبط کر دے۔ میری تمام طاقتوں کو مجتع منضبط کر دے۔ میرے وجوہ کو اول سے آخر تک ایک کر دے۔ یہ سب مفہومات ” اوزعنی “ میں شامل ہیں۔ تاکہ میں پورے کا پورا مجسمہ شکر بن جائوں۔ ان انعامات کے عوض جو مجھ پر اور میرے والدین پر کئے گئے ۔ اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قلب پر ان انعامات کا اثر تھا۔ ان پر جو اثر تھا اس کی نوعیت بھی اس سے ظاہر ہوتی ہے اور ان کا وجود اور ان کا وجدان اللہ کے فضل و کرم کی اس بارش سے سرشار تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر اور ان کے والدین پر اللہ کا دست شفقت ہر وقت نعمت ، رحمت اور فضل و کرم کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ ” اے میرے رب ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ “ وان اعمل صالحا ترضہ (٨٢ : ٩١) ” اور میں ایسا عمل کرتا رہوں جو تجھے پسند آئے۔ “ عمل صالح بھی دراصل اللہ کا فضل وکرم ہوتا ہے اور یہ اس شخص پر ہوتا ہے۔ جو اللہ کا شکر گزار ہو اور سلیمان (علیہ السلام) ایسے شکر گزار ہیں کہ اس معاملے میں وہ اللہ کی استعانت طلب کرتے ہیں کہ شکر بھی اللہ کی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور توفیق عمل بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اس نکتے کا اچھا شعور تھا۔ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین (٨٢ : ٩١) ” اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔ “ حضرت جانتے ہیں کہ اللہ کے بندوں میں داخل ہوجانا اور ان کے ساتھ ہو لینا بھی اللہ کی رحمت ہے۔ اس سے بھی انسان کی مدد ہوتی ہے۔ اور انسان کو اچھے کام کی توفیق ہوجاتی ہے۔ پھر وہ صالحین کے ساتھ چلتا ہے ، اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں ہو جن پر تیرا رحم ہوتا ہے ، جو تیری راہ کے سالک ہیں اور اس گروہ میں ہیں۔ حضرت سلیمان اللہ کے سامنے عاجزی کرتے ہیں حالانکہ وہ نبی ہیں انس ، جن اور طیور ان کے لئے مسخر ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا محتاج تصور کرتے ہیں ، وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان سے عمل صالح کی شکر نعمت میں کتواہی نہ ہوجائے۔ غرض تیز احساس ، ایسا ہی شعور ، اللہ کا خوف و خشیت ، اللہ کی رضا اور رحمت کی طلبگاری کے پختہ شعور کے لمحات ہی ہوتے جن میں اللہ کی نعمتیں اپنے خاص بندوں پر کھلی نازل ہوتی ہیں ، جس طرح حضرت سلیمان پر نازل ہوئیں۔ اب یہاں ہمارے سامنے ایک نہیں ، دو معجزات ہیں۔ ایک معجزہ یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم ہوگیا ہے اور دوسرا یہ کہ چیونٹی کو یہ علم ہوگیا ہے کہ یہ لشکر سلیمان (علیہ السلام) کا ہے۔ پہلا معجزہ تو یوں ہے کہ حضرت سلیمان کو اللہ نے تعلیم دی۔ وہ نبی تھے ، انسان تھے اور انسان کے بارے میں ایک انسان سہولت سمجھ سکتا ہے کہ اسے چیونٹی کے احکامات کا علم ہوگیا۔ لیکن دوسرا معجزہ جو چیونٹی کے قول میں ہے تو اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ چیونٹیوں کو معلوم ہوگیا کہ انسان ایک بڑی مخلوق ہے اور یہ ان کو روند ڈالیں گے۔ ہر زندہ مخلوق کے اندر زندہ بچانے کا داعیہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چیونٹیوں میں بھی یہ شعور ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ایک چیونٹی کو یہ علم کیسے ہوگیا کہ بڑی مخلوق کا یہ لائو و لشکر سلیمان (علیہ السلام) کا ہے۔ یہ بہرحال ایک معجزہ ہے اور اسے معجزہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ نے اسے معجزانہ طور پر یہ بات سکھا دی تھی۔ اب آیئے سلیمان (علیہ السلام) اور ہد ہد کے واقعہ اور ملکہ سبا کے ساتھ معاملات کی طرف۔ اس قصے میں چھ اہم مناظر ہیں۔ ان مناظر کے درمیان خلا ہے۔ غیر ضروری واقعات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ درمیانی واقعات و مناظر دیکھنے کے بعد خود ذہن میں آجاتے ہیں۔ اس طرح قصے بیان کرنے میں ایک اعلیٰ فنی مظاہرہ ہوتا ہے اور ان مناظر کے درمیان بعض سبق آموز تبصرے بھی ہوتے ہیں جن میں انسانی شعور کو اس مقصد اور ہدف کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے۔ جس کے لئے یہ قصہ لایا گیا ہے۔ اس طرح قصہ لانے کا حقیقی مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یوں قصے کا فنی اسلوب اظہار کی خوبصورتی اور اخلاقی سبق اور دینی تعلیم دونوں مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں بات شروع کرتے وقت ہی انس ، جن اور طیور کا ذکر ہوگیا تھا۔ جس میں سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ کی نعمتوں میں سے نعمت علم کا اشارہ بھی تھا۔ لہٰذا اس قصے میں انسانوں ، جنوں اور طیور کا اہم رول ہر جگہ موجود ہے اور ان کے سب کردار کا تعلق پھر علم کے ساتھ ہے اور اس سورت کے مقدمہ میں بھی ان اہم کرداروں کی طرف اشارہ تھا اور یہ قرآنی قصوں کی اہم خصوصیت ہے۔ پھر اس قصے میں جو کردار ہیں ان کی شخصیت ان کی ممتاز صفات اور خصوصیات بھی قصے میں موجود ہیں۔ حضرت سلیمان کی شخصیت ، ملکہ سبا کی شخصیت ، ہد ہد کی شخصیت ، ملکہ سبا کی حاشیہ نشینوں کی شخصیات اور ان شخصیات اور کرداروں کی نفسیات ، سوچ اور میلانات سب کے سب قصے میں موجود ہیں۔ …… پہلا منظر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لشکر کشی کا ہے یا یہ سامان حرب کی سالانہ پریڈ ہے۔ یہ لشکر نکلتا ہے جس میں جن ، انس اور طیور ہیں اور یہ وادی نملہ سے گزرتا ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) چیونٹی کی گفتگو سنتے ہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللھم زدفزد

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ “ حتی ” ابتدائیہ ہے جو ابتداء کلام میں آتا ہے لیکن اس میں غایت کا مفہوم بھی ہے۔ “ یوزعون ” سے جس روانگی اور کوچ کی طرف اشارہ ہے یہ اس کی غایت ہے کانہ قیل فساروا حتی اذا اتوا الخ (روح) یا یہ “ اتینا داود و سلیمان علما ” کی غایت ہے یعنی القصہ ان کے علم کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو چیونٹی کی بات بھی سنادی۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ 19:۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کے ساتھ آنے کا علم اللہ تعالیٰ نے بطور الہام چیونٹی کے دل میں ڈالدیا تو اس نے دوسری چوٹیوں سے کہا تم فورًا اپنے سوراخون میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں روند ڈالیں کیونکہ ان کو تمہارے یہاں موجود ہونے کا علم نہیں۔ الظاھر ان علم النملۃ بان الاتی ھو سلیمان (علیہ السلام) و جنودہ کان عن الہام منہ عز و جل الخ (روح ج 19 ص 176) اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ چیونٹی بھی جانتی تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب مومنین جن و انس غیب داں نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایک چیونٹی کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ اصحاب پیغمبر جان بوجھ کر ایک چیونٹی کو بھی نہیں روند سکتے۔ البتہ لا علمی سے اگر ایسا ہوجائے تو یہ ایک جدا بات ہے۔ جو لوگ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں انہیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ولیت من طعن فی اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و (رض) تاسی بھا فکف عن ذالک واحسن الادب (روح ج 19 ص 178) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) یہاں تک کہ جب سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر چیونٹیوں کے ایک میدان پر پہونچے تو ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا اے چیونٹیو ! تم اپنے سوراخوں اور مکانوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور پیس ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو یعنی راستے میں کوئی چیونٹیوں کی بستی اور وادی پڑتی ہوگی تو سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو آتا دیکھ کر چیونٹیوں کے سردار نے یہ کہا ہوگا چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ مخلوق باوجود اپنی کثرت کے نہایت منظم ہے اور اس مخلوق میں ڈسپلن اور نظم بہت ہے باقاعدہ ان کی فوج ہوتی ہے جاسوس ہوتے ہیں خطرے کے وقت سراغ رساں سپاہی باہر نکلتا ہے اور حالات سے اندر والوں کو مطع کردیتا ہے اس موقع پر اطلاع دہندہ نے بڑی احتیاط سے کام لیا وھم لا یشعرون کہہ کر اس امر کو ظاہر کردیا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کا لشکر ظالم نہیں ہے کہ جان بوجھ کر کسی کو تکلیف پہونچائیں البتہ بیخبر ی میں ایسا ہوسکتا ہے کہ تم لشکر کی روندن میں آکر پس جائو اور گزرنے والوں کو خبر بھی نہ ہو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ بات سن لی اور چیونٹی کی فراست اور کلام میں احتیاط پر ان کو ہنسی آگئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چیونٹی کی آواز کوئی نہیں سنتا ان کو معلوم ہوگئی 12