Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 32

سورة النمل

قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ۚ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ ﴿۳۲﴾

She said, "O eminent ones, advise me in my affair. I would not decide a matter until you witness [for] me."

اس نے کہا اے میرے سردارو! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کیا کرتی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Bilqis consults with Her Chiefs Allah tells: قَالَتْ ... She said: When she read Suleiman's letter to them and consulted with them about this news, then she said: ... يَا أَيُّهَا المَلَاُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ "O chiefs! Advise me in (this) case of mine. I decide no case till you are present with me." meaning, `until you come together and offer me your advice.'

بلقیس کو خط ملا بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط انہیں سنا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو جب تک تم سے میں مشورہ نہ کرلوں ، تم موجود نہ ہو تو میں چونکہ کسی امر کا فیصلہ تنہا نہیں کرتی اس بارے میں بھی تم سے مشورہ طلب کرتی ہوں بتاؤ کیا رائے ہے؟ سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت کچھ ہے اور ہماری طاقت مسلم ہے ۔ اس طرف سے تو اطمینان ہے آگے جو آپ کا حکم ہو ۔ ہم تابعدراری کے لئے موجود ہیں ۔ اسمیں ایک حد تک سرداران لشکر نے لڑائی کی طرف اور مقابلے کی طرف رغبت دی تھی لیکن بلقیس چونکہ سمجھدار عاقبت اندیش تھی اور ہدہد کے ہاتھوں خط کے ملنے کا ایک کھلا معجزہ دیکھ چکی تھی یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ حضرت سلیمان کی طاقت کے مقابلے میں ، میں میرا لاؤ لشکر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو علاوہ ملک کی بربادی کے میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی اس لئے اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کو فتح کرتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اجاڑ دیتے ہیں ۔ وہاں کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔ سرداران لشکر اور حکمران شہر خصوصی طور پر انکی نگاہوں میں پڑھ جاتے ہیں ۔ جناب فاری نے اسکی تصدیق فرمائی کہ فی الواقع یہ صحیح ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اس کی بعد اسنے جو ترکیب سوچی کہ ایک چال چلے اور حضرت سلیمان سے موافقت کر لے صلح کر لے وہ اس نے انکے سامنے پیش کی کہا کہ اس وقت تو میں ایک گراں بہا تحفہ انہیں بھیجتی ہوں دیکھتی ہوں اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرمالیں اور ہم آئندہ بھی انہیں یہ رقم بطور جزیے کے بھیجتے رہیں اور انہیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ اسلام کی قبولیت میں اسی طرح اس نے ہدیے بھیجنے میں نہاپت دانائی سے کام لیا ۔ وہ جانتی تھی کہ روپیہ پیسہ وہ چیز ہے فولاد کو بھی نرم کردیتا ہے ۔ نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ ؟ اگر قبول کر لیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیا تو انکی نبوت میں کوئی شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مضر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ۔۔ : اس سے پہلے ملکہ سبا کی بات چل رہی ہے، ” يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ ۔۔ “ بھی اسی کا کلام ہے۔ بظاہر درمیان میں ” قَالَتْ “ لانے کی ضرورت نہ تھی۔ بقاعی فرماتے ہیں : ” کلام کے درمیان وقفہ ہے کہ ملکہ سبا سلیمان (علیہ السلام) کا خط سنا کر منتظر تھی کہ قوم کے سردار اس پر اپنا رد عمل ظاہر کریں گے، مگر جب وہ خط سن کر خاموش اور مبہوت رہ گئے، تو اس نے کہا : ” اے سردارو ! میرے اس معاملے میں مجھے حل بتاؤ۔ “ 3 اس سے ملکہ کی دانش مندی اور سمجھ داری ظاہر ہے کہ وہ ہر کام اپنے سرداروں کے مشورے سے کرتی تھی اور یہ بھی کہ سبا کا نظام بادشاہی ہونے کے باوجود استبدادی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ طرز حکومت کوئی بھی ہو، بادشاہت ہو یا خلافت، یا جمہوریت، مشورے کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ بادشاہت کو مطلق العنانی اور جمہوریت کو مشورہ قرار دیتے ہیں، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ ایک بادشاہ ہر کام مشورے سے کرنے والا ہوسکتا ہے، عادل بادشاہ ایسے ہی ہوتے ہیں اور ایک جمہوری سربراہ بدترین مطلق العنان آمر ہوسکتا ہے، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو ان کی خواہشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے داغ دار بنا کر اپنی مرضی کے تابع رکھنے پر مجبور رکھنے والا ہو۔ اس وقت تقریباً دنیا کے تمام جمہوری سربراہوں کا یہی حال ہے، بلکہ جمہوریت جس میں عوام کے لفظ کی گردان ذکر الٰہی کی طرح کی جاتی ہے، صرف عوام کو ایک دفعہ رائے کا حق دیتی ہے، پھر وہ چار پانچ سال تک بےبسی سے اپنے چنے ہوئے نمائندوں کی مطلق العنانی کے زخم کھاتے رہتے ہیں۔ اسلام میں مطلق العنان بادشاہت یا جمہوریت دونوں کا وجود نہیں۔ یہاں خلیفہ ہو یا بادشاہ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو، جو قرآن و حدیث میں ہیں، کوئی چاہے یا نہ چاہے، ہر حال میں نافذ کرنے کا پابند ہے۔ اس کے بعد دوسرے معاملات میں وہ مشورہ کرنے کا پابند ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ) [ الشورٰی : ٣٨ ] ” اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ) [ آل عمران : ١٥٩ ] ” اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ مگر اس کے لیے نہ ہر ایک سے مشورہ ضروری ہے نہ وہ اکثریت کی رائے کا پابند ہے، بلکہ وہ ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لے گا جو اس کے اہل ہیں اور چونکہ فیصلے کے نفع نقصان کا ذمہ دار وہ ہے، اس لیے آخری فیصلہ اسی کا ہوگا، جو بعض اوقات اقلیت کی رائے کے مطابق بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا : ( لَوْ أَنَّکُمَا تَتَّفِقَانِ عَلٰی أَمْرٍ وَاحِدٍ مَا عَصَیْتُکُمَا فِيْ مَشْوَرَۃٍ أَبَدًا ) [ فتح الباري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و أمرھم شورٰی ۔۔ ) : ١٣؍٣٤١ ] ” اگر تم کسی بات پر متفق ہوجاؤ تو میں اس معاملے میں کبھی تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔ “ مشورے کی ایک مثال ملکہ سبا کے سرداروں کی مجلس ہے کہ انھوں نے مشورہ دے کر کہا : ( وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ ) [ النمل : ٣٣ ]” اور معاملہ تیرے سپرد ہے، سو دیکھ تو کیا حکم دیتی ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Consultation in important matters is a Sunnah. It provides the benefit of having views of others, and gives them a sense of participation قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِ‌ي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرً‌ا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ She said, |"0 chieftains, advise me in the matter I have (before me). I am not the one who decides a matter absolutely unless you are present with me.|" - 32 The word اَفتُونِی is derived from Fatwa فَتوٰی ، which means answering some specific issue. Here it means to give counsel or to express one&s views. When Queen Bilqis received the letter of Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) she called the members of her government and asked their view as to what she should do. Before asking their view on the matter, she encouraged and pleased them by declaring that she did not take decisions without consulting them. Because of her remarks, the ministers and the generals expressed their readiness to sacrifice everything they had in order to follow her command. نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ‌ إِلَيْكِ (|"We are powerful and tough fighters, and the decision lies with you - 33). Sayyidna Qatadah (رض) has related that according to his information there were 313 members in her consultative committee, and each one of them represented and enjoyed the support of ten thousand persons. (Qurtubi) This statement brings to light that having consultation with supporters is an old practice. Islam has attached great importance to consultation and has made this mandatory for the government functionaries. So much so that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، who was the recipient of revelations from Allah Ta’ ala and also used to get direct guidance from Him (thus did not have any need for consultation or advice), was also commanded to follow this practice, in order to set up a tradition for his followers. The Holy Qur’ an directs the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ (3:159) that is, he should consult them in the matters. There is a sense of participation for the companions in this command, and an advice for the coming generations that the government functionaries must always consult on important matters. Reaction of Queen Bilqis on the letter of Sulaiman After having consulted the functionaries of her government and gaining their confidence, she herself developed a strategy that she should initially test out the real intention of Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) and to find out whether he was actually a prophet and messenger of God, and whether he was really conveying the message of God or he was aspiring for a greater empire. The purpose behind this strategy was to find out that if he was a prophet in reality, then his command should be followed and no hostility be adopted against him. On the other hand if he was only a king and wished to expand his empire by subjugating her kingdom, then a different plan be worked out to face the challenge. To test out the real intention of Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) she adopted the tactic of sending to him precious gifts and presents. If he becomes satisfied after receiving the gifts, then it would indicate that he was only a king and had approached her with mundane motives. On the other hand, if he was actually a prophet then he would not agree on anything other than acceptance of Islam. Ibn Jarir has reported this explanation from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) Mujahid, Ibn Juraij, and Ibn Wahb رحمۃ اللہ علیہم with several chins of narrators.The same subject is elaborated in the following verse:

اہم امور میں مشورہ کرنا سنت ہے اس میں دوسروں کی رائے سے فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور لوگوں کی دلجوئی بھی ہوتی ہے : قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤ ُ ا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ ، افتونی، فتوی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی خاص مسئلہ کا جواب دینا۔ یہاں مشورہ دینا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا مراد ہے۔ ملکہ بلقیس کو جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط پہنچا تو اس نے اپنے ارکان حکومت کو جمع کر کے اس واقعہ کا اظہار کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اس نے ان کی رائے دریافت کرنے سے پہلے ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کے لئے یہ بھی کہا کہ میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ فوج اور وزراء نے اس کے جواب میں اپنی مستعدی کے ساتھ تعمیل حکم کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کردی (نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ ) حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ بلقیس کی مجلس شوریٰ کے ارکان تین سو تیرہ تھے اور ان میں سے ہر ایک آدمی دس ہزار آدمیوں کا امیر اور نمائندہ تھا۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ اہم امور میں مشورہ لینے کا دستور پرانا ہے۔ اسلام نے مشورہ کو خاص اہمیت دی اور عمال حکومت کو مشورہ کا پابند کیا۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو وحی الٰہی کے مورد تھے۔ اور آسمانی ہدایات آپ کو ملتی تھیں اس کی وجہ سے آپ کو کسی رائے مشورہ کی درحقیقت ضرورت نہ تھی۔ مگر امت کے لئے سنت قائم کرنے کے واسطے آپ کو بھی حکم دیا گیا (وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ) یعنی آپ اہم امور میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا کریں۔ اس میں صحابہ کرام کی دلجوئی اور عزت افزائی بھی ہے اور آئندہ آنے والے عمال حکومت کو اس کی تاکید بھی کہ مشورہ سے کام کیا کریں۔ مکتوب سلیمانی کے جواب میں ملکہ بلقیس کا ردعمل : ارباب حکومت کو مشورہ میں شریک کرکے ان کا تعاون حاصل کرلینے کے بعد ملکہ بلقیس نے خود ہی ایک رائے قائم کی جس کا حاصل یہ تھا کہ وہ حضرت سلیمان کا امحتان لے اور تحقیق کرے کہ وہ واقعی اللہ کے رسول اور نبی ہیں اور جو کچھ حکم دے رہے ہیں وہ اللہ کے احکام کی تعمیل ہے یا وہ ایک ملک گیری کے خواہشمند بادشاہ ہیں، اس امتحان سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر واقعی وہ نبی و رسول ہیں تو ان کے حکم کا اتباع کیا جائے اور مخالفت کی کوئی صورت اختیار نہ کی جائے اور اگر بادشاہ ہیں اور ملک گیری کی ہوس میں ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو پھر غور کیا جائے گا کہ ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اس امتحان کا طریقہ اس نے یہ تجویز کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس کچھ ہدیے تحفے بھیجے اگر وہ ہدیے تحفے لے کر راضی ہوگئے تو علامت اس کی ہوگی کہ وہ ایک بادشاہ ہی ہیں اور اگر وہ واقع میں نبی و رسول ہیں تو وہ اسلام و ایمان کے بغیر کسی چیز پر راضی نہ ہوں گے، یہ مضمون ابن جریر نے متعدد اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس، مجاہد، ابن جریج، ابن وہب سے نقل کیا ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ۝ ٠ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰى تَشْہَدُوْنِ۝ ٣٢ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، ( م ل ء ) الملاء ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ فَتْوَى والفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] ، أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل/ 32] . اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] تو ان سے پوچھو ۔۔۔ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ الن قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا مل/ 32] . میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 The words used in the Text are: hatta tash-hu-dun (unless you are present, or unless you bear witness). That is: "1 regard your presence necessary when 1 take a decision in important matters, and also that whatever decision I take you should be there to testify that it is right and correct." This shows that though the system of government among Saba' was kingship, it was not tyrannical; but the ruler of the time decided matters in consultation with the important people in the government.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 38 اصل الفاظ ہیں حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ جب تک تکہ تم حاضر نہ ہو ، یا تم گواہ نہ ہو ، یعنی اہم معاملات میں فیصلہ کرتے وقت تم لوگوں کی موجودگی مریے نزدیک ضروری ہے ، اور یہ بھی کہ جو فیصلہ میں کروں اس کے صحیح ہونے کی تم شہادت دو ، اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قوم سبا میں بادشاہی نظام تو تھا مگر وہ استبدادی نظام نہ تھا بلکہ فرماں روائے وقت معاملات کے فیصلے اعیان سلطنت کے مشورے سے کرتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٣٢ تا ٤٣) جس وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط بلقیس نے پڑھا تو اس کو یہ تردد ہوا کہ اب کیا کیا جاوے آیا جس طرح اس خط میں لکھا ہے وہی کیا جاوے کہ اپنی حکومت کو چھوڑ کر اور اپنے دین سے ہاتھ اٹھا کر حضرت سلیمان کا دین اور ان کی اطاعت قبول کی جائے یا حضرت سلیمان سے مقابلہ کیا جاوے اسی تردد کے رفع کی شکل نکالنے کے لیے اس نے اپنے مشیروں اور فوج کے افسروں سے صلاح کی تفسیر سدی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ صلاح مشورہ کے بعد بلقیس نے اپنی ریاست کے لوگوں سے یہ کہا کہ میں اس خط کے جواب میں حضرت سلیمان کے پاس کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اگر انہوں نے وہ تحفہ قبول کرلیا تو جان لینا کہ دنیا کے بادشاہوں میں سے وہ بھی ایک بادشاہ ہیں اس صورت میں ان کا مقابلہ کرنا کچھ بڑی بات نہیں ہے اور اگر انہوں نے وہ تحفہ نہ لیا تو جان لینا وہ اللہ کے نبی ہیں اس صورت میں ان سے مقابلہ ممکن نہیں ہے اب یہاں مفسرین نے اس تحفہ کی تفصیل بہت کچھ بیان کی ہے جو بلقیس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھیجا تھا اور اس تفصیل میں بہت اختلاف بھی کیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس تحفہ کی تفصیل کسی صحیح روایت میں نہیں ہے جو کچھ روایتیں اس تحفہ کی تفصیل میں ہیں بنی اسرائیلی روایتیں ہیں قابل اعتبار اس قدر بات ہے ایلچی سے تحفہ واپس کر کے یہ فرما دیا کہ اب ایسے لشکر سے تم لوگوں پر چڑھائی کی جاتی ہے جس لشکر کی ٹکر سنبھالنی تمہیں مشکل ہے بلقیس کے کلام میں وکذلک یفعلون اللہ تعالیٰ نے بلقیس کے کلام کی تصدیق کے طور پر بڑھایا ہے سیرۃ ابن اسحاق میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ جب ایلچی حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے پیغام کہلا بھیجا کہ میں اپنے چند سرداروں کو لے کر آپ کی خدمت میں آتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ آپ کا دین کیا ہے جس دین کو آپ اوروں کے لیے بھی پسند فرماتے ہیں اور اس پیغام کے بعد اپنی روانگی کا انتظام کیا اور اپنی بادشاہت کے تخت کو جس کا ذکر ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کیا تھا بڑے احتیاط کے ساتھ قافلوں کے اندر رکھوایا اور دس ہزار سردار اور بہت بڑی فوج لے کر خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملنے کو روانہ ہوئی ابن اسحاق کی روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ تخت بہت بیش قیمت تھا اور بڑے بڑے قیمتی جواہرات اور موتی اس میں جڑے ہوئے تھے اب اس تخت کو بلقیس کے پہنچے سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو اپنے پاس منگوالیا اور اس کے جواہرات کو جگہ بدل کر سفید کی جگہ سرخ کو اور سرخ کی جگہ سفید کو جڑوا دیا اور بلقیس کے آنے کے بعد سلمان ( علیہ السلام) نے اپنا معجزہ ظاہر کرنے کی غرض سے بلقیس سے پوچھا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے اور بلقیس نے اس معجزہ کو دیکھ کر فورا اسلام قبول کیا اس کا ذکر آگے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے فرمایا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:32) افتونی : افتوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم ۔ افتاء (افعال) مصدر۔ فتی مادہ۔ کسی مشکل مسئلہ کے جواب کو فیتا و فتوی کہا جاتا ہے۔ استفتاء (استفعال) کے معنی فتویٰ طلب کرنے اور افتاء کے معنی فتویٰ دینے کے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے یستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیہم (4:127) اے پیغمبر ! لوگ تم سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دو کہ خدا تم کو ان کے معاملہ میں فتوی دیتا ہے۔ افتونی فی امری میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ قاطعۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث۔ ما کنت کی خبر ہے قطع کے لفظی معنی کاٹنے کے ہیں۔ خواہ محسوس طور ہو یا عقلی طور پر ہو اول کی مثال والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما جزاء بما کسبا (5:38) چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو ان کی کرتوتوں کے عوض۔ دوسرے کی مثال آیت ہذا ہے۔ ہر رائے اور امر کو چھوڑ کر ایک رائے مقرر کرلینا اور ہر عمل کو چھوڑ کر صرف ایک ہی آخری حکم نافذ کرنا یہ قطع امر ہے۔ ما کنت قاطعۃ امرا میں کسی معاملہ کا آخری فیصلہ نہیں کرتی۔ حتی تشھدون۔ مضارع جمع مذکر حاضر جب تک تم شاہد نہ ہو۔ تم حاضر نہ ہو شھود حاضر ہونا۔ موجود ہونا۔ شھادۃ (گواہی دینا) مصدر۔ یہاں مطلب ہے کہ جب تک کہ تم شریک (مشورہ) نہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 32 تا 44 ۔ اسرار و معارف : مشورہ کی اہمیت : ملکہ بلقیس نے اپنے امراء کو جمع کرکے خط سنانے کے بعد رائے دریافت کی اور کہا کہ تمہیں علم ہے امور سلطنت ہمیشہ تمہارے مشورے سے طے کیے جاتے ہیں اس سے ثابت ہے کہ قبل اسلام بھی بعض حکمران مشورہ کی اہمیت سے واقف تھے اسلام نے مشورہ کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کہ خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدام سے مشورہ فرماتے تھے۔ امراء دربار نے جواب دیا کہ اگر بات مقابلہ کرنے کی ہے تو ہماری جنگی طاقت کسی سے کم نہیں اور ہم مانے ہوئے جنگجو بھی ہیں اور اگر مصلحت اس کے خلاف ہے تو بھی فیصلہ اور حکم تو آپ ہی صادر فرمائیں گی جو مناسب ہو ارشاد فرمائیں اس نے کہا کہ ابھی جنگ مناسب نہیں ہے پہلے تحقیق کرلینا ضروری ہے کہ جنگ میں فتح و شکست دونوں کا امکان ہوتا ہے اور شکست ملکوں اور شہروں پر تباہی لاتی ہے فاتح حکمران شہروں کو اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے با اثر افراد کو رسوا کردیتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فاتحین کا کردار اور مسلمان : یہاں حکمرانوں کو یہ حکت عملی تعلیم دی گئی ہے کہ ملکی مفاد میں جنگ لڑی جائے جب کوئی دوسرا راستہ باقی نہ ہو محض اپنی ہوس کی تکمیل کیلئے ملکوں اور قوموں کو جنگ میں نہ جھونکا جائے۔ نیز ملکہ سبا نے غیر مسلم فاتحین کے کردار کی صحیح تصویر پیش کردی ہے جبکہ اسلام نے جنگ ہی سے روک کر جہاد کا فلسفہ دیا جس میں مقابل کو رسوا کرنا مقصود نہیں بلکہ برائی سے روکنا مقصود ہے اور تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمان فاتحین نے کفار مفتوحین سے بھی انصاف ہے اور رواداری کا سلوک کیا جنہیں مغرب کے وحشی اب دہشت گرد کہتے ہیں۔ صحابہ کرام کی عظمت تو بہت بلند ہے فلسطین ہی پر مسلمانوں اور عیسایوں کے قبضے میں کیا فرق ہے دیکھا جاسکتا ہے۔ نیز ملکہ بلقیس یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ یہ بات صرف بادشاہ کی نہیں اس میں بات عقیدے کی ہے اور باطل مذہب کو چھوڑنے اور اللہ کے ساتھ ایمان لانے کی ہے لہذا دیکھا جائے کہ یہ بندہ محض ہوس ملک گیری میں مذہبی لبادہ اوڑے ہوئے ہے یا واقعی اللہ کا سچا نبی ہے اگر تو مفاد پرست ہے تو مقابلہ کریں گے اور نبی سچا ہے تو اطاعت کی جائے کہ جنگ سے سوائے شکست کے کچھ حاصل نہ ہوگا چناچہ یہ طے کیا کہ میں بہت ہی قیمتی تحائف دے کر اپنے قاصد روانہ کرتی ہوں دیکھیں وہ کیا جواب لاتے ہیں کہ اگر دنیا کا طالب ہے تو دولت لے کر خوش ہوجائے گا یا مزید طلب کرے گا اور اگر نبی ہے تو عقیدے پہ سمجھوتہ نہ کرے گا یہاں یہ بات ثابت ہے کہ باطل معاشرے یا باطل انداز حکمرانی کو محض چند فوائد کے لیے قبول کرنا درست نہیں بلکہ اس سے ٹکرانا ضروری ہے۔ رہا غیر مسلم کا ہدایہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول بھی فرمایا اور رد بھی۔ جہاں دین پر سمجھوتے کا انداز تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رد فرما دیا اور جہاں محض تعلقات میں بہتری کا ذریعہ تھا قبول فرما لیا۔ تحائف کی طویل فہرست لکھی گئی ہے سونے کی اینٹیں جواہرات غلام اور کنیزیں تو ظاہر ہے ایک بہت بڑی خوشحال حکومت کا ایک بہت بڑے شاہنشاہ کے حضور تحفہ بہت قیمتی ہوگا۔ ساتھ کچھ سوالات بھی تھے۔ حضرت ابن عباس کے مطابق ہدہد میں یہ خصوصیت ہے کہ زیر زمین پانی کی گذرگاہوں کو بھانپ لیتا ہے اور لشکر جہاں پہنچا تھا وہاں بظاہر پانی نہ تھا اب اس کی ضرورت پڑی کہ جگہ کی نشاندہی کرے اور جنات پل بھر میں کھود نکالیں تو وہ غائب جبکہ لشکر میں سے بعض کا پیاس سے مرنے کا اندیشہ تھا تو اس کی غیر حاضری پر بھی سزائے موت تک کا امکان بیان ہوا لہذا امور سلطنت میں خدام اور رعایا کی خبرگیری نیز ذمہ دار لوگوں پر انتظامی امور می دیانتداری کا اور پابندی سے کرنے کا اہتمام ضروری ہے یہاں عجیب بات نقل فرماتے کہ ہدہد زیر زمین تو دیکھ لیتا ہے مگر زمین پر ڈالے گئے جال میں بہت جلد پھنس جاتا ہے وہ نہیں دیکھ پاتا سبحان اللہ سب قدرت اللہ ہی کے لیے ہے اور مخلوق بہرحال محتاج۔ سو ہدہد بہت جلد حاضر ہوگیا اور عرض کرنے لگا کہ حضور غلام ایک بہت ایک بہت اہم خبر لایا ہے کہ دوران پرواز ایک شاداب ملک دیکھ کر ادھر چلا گیا اور وہاں جا کر ایسی عجیب حالت دیکھی جس کی آپ کو ابھی اطلاع نہیں کہ علم غیب تو خاصہ باری تعالیٰ ہے اور انبیاء کو اطلاع دی جاتی ہے لہذا جس بات کی خبر اللہ کی طرف سے نہ پہنچے اس کا پتہ نہیں ہوسکتا یہاں اللہ نے ہدہد کو ذریعہ بنا دیا۔ اور وہ خبر یہ تھی کہ میں سباء سے جو یمن کا بہت بڑا شہر تھا یہ اطلاع لایا ہوں اور پورے وثوق سے عرض کر رہا ہوں کہ وہاں اس قوم پر ایک خاتون کی حکومت ہے جس کے پاس حکومت وسلطتنت کے تمام لوازم موجود ہیں اور وہ ایک بہت بڑے اور عظیم الشان تخت پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ اللہ کریم نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اطلاع کردی آپ نے دربار سے باہر دور تک سونے چاندی کا فرش لگوادیا اور انسان حیوان پرندے جنات درجہ بدرجہ دو رویہ کھڑے کردئیے اور عالیشان دربار سجایا۔ جب وہ قاصد پہنچے تو اپنے تحفے خود انہیں بےقیمت نظر آنے لگے آپ نے فرمایا تو تم مجھے مال و دولت بطور رشوت دینا چاہتے ہو حالانکہ اللہ نے بیشمار مال و دولت اپنے احسان سے عطا فرمایا ہے۔ اپنے تحفے واپس لے جاؤ اور یہ دیکھ لو کہ میرے لشکروں کا اندازہ کیا ہے یہ تم پر چڑھائی کریں گے تو تمہیں مقابلہ کی تاب نہ ہوگی اور تمہارے حکمران ذلیل و خوار ہو کر ملک بدر کردیے جائیں گے چناچہ قاصد مبہوت ہو کر واپس پہنچے اور سوالوں کے جواب بھی لائے۔ دنیاوی شان و شوکت اور فوجی طاقت کا تذکرہ بھی کیا تو ملکہ بلقیس نے اطاعت کرنے اور خود حاضر ہونے کا ارادہ کرلیا۔ مفسرین کرام کے مطابق اس کے ہمراہ بارہ ہزار سردار تھے جن کے تحت ایک لاکھ سپاہ تھی۔ ادھر جب حضرت کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اہل دربار سے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو اس کا وہ مشہور تخت اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے حاضر کردے۔ تخت جو اندر ہی بنایا گیا تھا قلعوں کے اندر محلات کے کمرہ خاص میں تھا وہاں سے نکلنا ہی محال تھا چہ جائیکہ کوئی پہریداروں کے سامنے اسے لے کر چل دے اور حضرت کا یہ فرمانا کہ تم میں سے کون لائے گا ظاہر کرتا ہے کہ یہ کام تو آپ کے خدام بھی کرسکتے تھے اور خدام کی کرامت بھی آپ ہی کا معجزہ تھا یعنی آپ نے دنیاوی شوکت کے ساتھ اظہار معجزہ کو ملانا چاہا کہ محض بادشاہ نہ سمجھیں یہ بھی جان لیں کہ اللہ کے نبی بھی ہیں نبی کا معجزہ ایسا فعل ہوتا ہے جو عقلی دلائل کو عاجز کردیتا ہے صادر نبی کے ہاتھ پر ہوتا ہے مگر فعل اللہ کا ہوتا ہے ایسے ہی نبی کے ماننے والوں سے جب کوئی ایسی بات صادر ہوتی ہے جو عقل کی رسائی سے باہر ہو تو کرامت کہلاتی ہے اور ولی کی کرامت بھی نبی کا معجزہ ہوتی ہے کہ اس کی اطاعت و نسبت سے حاصل ہوتی ہے۔ تیسری قسم تصرف کی ہے یہ بھی کرامت کی ایک قسم ہے کہ کرامت میں ارادے کو دخل نہیں ہوتا مگر جہاں ارادہ کیا جائے اور وہ کام ہوجائے اسے تصرف کہا جاتا ہے جو یہاں ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے حکم پر ایک بہت بڑے جن نے عرض کیا کہ آپ کا دربار ختم ہونے سے پہلے میں وہ تخت خدمت عالیہ میں حاضر کرسکتا ہوں اگرچہ بہت مشکل کام اور بھاری تخت محل کے اندر اور پہروں میں ہے مگر اللہ نے مجھے اتنی قوت دی ہے کہ لاسکوں اور کروڑوں کے قیمتی جواہرات سے مرصع ہے مگر پوری امانتداری سے لا حاضر کروں گا تب ایک ایسے شخص نے جس کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا عرض کیا حضور بندہ پلک جھپکنے میں آپ کی خدمت میں حاضر کرسکتا ہے۔ کتاب اللہ کا علم : کتاب اللہ کا علم کیا ہے حق یہ ہے کہ کتاب میں محض الفاظ و معانی ہی نہیں ہوتے بلکہ ہر حرف اور ہر لفظ میں انوارات و تجلیات اور کیفیات ہوتی ہیں جو سب نبی کے دل پر وارد ہوتی ہیں اور اس کی حقیقت متبعین کو سینہ بسینہ نصیب ہوتی ہیں انہی کیفیات کے حامل ولی اللہ کہلاتے ہیں اور ایسے علما ہی انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ورنہ محض الفاظ و معانی سے کھیلنے والے عموماً کتاب اللہ کو بھی صرف ذریعہ معاش ہی بنا پاتے ہیں اور بس۔ ان کیفیات کے حامل لوگوں میں تصرف کی قوت بھی حسب استعداد ہوتی ہے جس کا اظہار مختلف مواقع پہ ہوتا رہتا ہے۔ قلبی طور پر اس کی تحقیق پر جو حضرت (رح) کے حکم پر کی گئی تھی یہ سمجھ آئی تھی کہ اس شخص نے جو آپ کا صحابی اور درباری تھا اور مفسرین نے جس کا نام آصف بن برخیا لکھا ہے اپنے قلب کے انوارات تخت پر القا فرما کر ایک بار اللہ کہا تو تخت سامنے پڑا تھا۔ جب آپ نے سامنے پڑا دیکھا تو فرمایا یہ میرے پروردگار کا بہت بڑا احسان ہے کہ مجھے ایسے کامل خادم عطا فرمائے اور اس قدر شوکت بخشی یہ بھی ایک امتحان کا انداز ہے کہ اس عظمت میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کہیں اس سے محروم تو نہیں ہورہا اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اپنے فائدے کو کرتا ہے اور اگر کوئی ناشکری بھی کرے تو اللہ کو اس کی پرواہ نہیں وہ اپنا نقصان کرتا ہے اللہ ان سب باتوں سے بالاتر اور بےنیاز ہے اور بہت کریم ہے کہ بندوں کو کتنے عظیم کمالات عطا فرماتا ہے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ تخت میں کچھ تبدیلیاں کردی جائیں جیسے جواہرات کی جگہ وغیرہ بدل جائے اور پتہ نہ چلے کہ کچھ تبدیل کیا گیا ہے کہ دیکھیں یہ خاتون کتنی ذہین ہے۔ چناچہ جب ملکہ حاضر ہوئی تو پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی ایسا ہی ہے تو کہنے لگی لگتا تو یہ ہے کہ یہ وہی تخت ہے اور اتنے بڑے معجزے کی ہمیں اب ضرورت تو نہ تھی ہم جان چکے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہوئے ہیں۔ رسومات کا اثر بد : ارشاد ہوتا ہے کہ دانشمند خاتون تھی مگر پہلے ایمان اس لیے نہ لاسکی کہ قوم کی رسومات میں گرفتار ہو کر حق سے دور تھی چونکہ قوم کافر تھی اس نے بھی ان کی رسومات میں آنکھ کھولی تو اس کا اثر بد یہ تھا کہ ذہین ہونے کے باوجود اندھیرے میں تھی شمس نبوت کو دیکھا تو آنکھیں روشن ہوگئیں۔ چنانچہ محل کے اندر چلنے کو کہا گیا تو سارا محل شیشوں سے جڑا ہوا تھا راہ میں حوض تھے جن میں مچھلیاں بھی تھیں مگر اوپر شیشے کا فرش تھا جو نظر نہ آتا تھا جب گزرنے لگی تو پنڈلیوں سے کپڑے کو اوپر کھینچا تو بتایا گیا اس حوض پر شیشہ جڑا ہوا ہے آپ آرام سے گزر جائیں تو کہنے لگی ایک محل کے اندر کا راستہ بھولنے والے بھلا اکیلے راہ ہدایت کو کیسے پاسکتے ہیں ہم جو خود کو حق پر سمجھتے رہے تو اپنے آپ پر ظلم کیا اور اے پروردگار اب فرما دے کہ میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ تیری توحید پہ ایمان لاتی ہوں تو ہی سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔ یہاں قرآن حکیم بات ختم کردیتا ہے مختلف روایات ملتی ہیں کہ حضرت نے اس سے شادی کی اور حکومت پہ بحال رکھا محل بنوا کر دئیے اور مہینے میں چند روز وہاں گزارتے تھے مگر ان روایات کی صحت ایسی نہیں کہ صحیح کہا جاسکے اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے اور اگر ایسا ہو بھی تو عورت کی حکمرانی پہ دلیل نہیں بن سکتی کہ پھر بادشاہ نہ تھی بادشاہ کا نمائندہ تھی نیز ہمیں حکم شریعت محمدی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام سے حاصل کرنا ہے۔ اور بلقیس پر اللہ کا یہ احسان ہوا کہ پوری قوم کے ایمان لانے کا سبب بن گئی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ملکہ بلقیس کا اپنی قوم کے زعماء کے سامنے خط پڑھ کر مشورہ لینا اس پر قوم کا ردِّ عمل۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ ملکہ اور اس کا انداز حکمرانی کیا تھا۔ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط پڑھنے کے بعد قوم کے نمائندوں سے کہا کہ مجھے اس معاملہ میں مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ میں تمہارے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ انھوں نے خط کا مضمون سن کر فوری ردِّ عمل دیا کہ ہم طاقت ور اور شدید لڑائی لڑنے والی جنگجو قوم ہیں اس لیے ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاہم آپ ہماری حکمران ہیں آپ کو ہر قسم کے آئینی اختیارات ہیں۔ لہٰذا غور و فکر کرکے فرمائیں کہ ہمارے لیے کیا حکم ہے۔ ملکہ نے قوم کے نمائندوں کے حوصلہ اور جرأت دیکھنے کے باوجو دٹھنڈے دل اور نرم لب و لہجہ سے انھیں سمجھایا کہ یاد رکھو حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ جب وہ کسی بستی اور علاقہ پر یلغار کرتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں اور وہاں کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ جنھوں نے ہمیں خط لکھا ہے اگر وہ کامیاب ہوئے تو ہمارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اس کی بجائے میں ان کی طرف کچھ تحائف بھیجتی ہوں اور پھر دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے نمائندوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ملکہ سبا نے خط کے مضمون اور دیگر ذرائع سے معلوم کرلیا تھا کہ ہماری مضبوط حکومت کو جو شخص انتباہ اور ہمیں اپنی تابعداری کا حکم دے رہا ہے وہ کوئی معمولی حکمران نہیں اس لیے اس نے کہا کہ جنگ کرنے سے پہلے تحائف بھیجے جائیں۔ تحائف بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر سلیمان (علیہ السلام) نے تحائف قبول کرلیے اور خیرسگالی کا مظاہرہ کیا تو پھر ہمیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ دنیا پرست حکمران کو مذاکرات کے ذریعے رام کرنا آسان ہوگا۔ مسائل ١۔ ظالم بادشاہ دوسروں کی عزت کا خیال نہیں کیا کرتے۔ ٢۔ کسی کو جانچنے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالت ……تشھدون (٢٣) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا کس قدر ہوشیار عورت ہے اس نے اس خط کو لیا جبکہ اس کے پھینکنے والے کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو ٹوک ہے اور جس نے لکھا ہے وہ کوئی سپرطاقت ہے۔ یہ تاثر اس نے اپنے اہل حل و عقد کے ذہنوں میں یوں منتقل کیا کہ اس نے اسے ایک اہم کھلا اور کتاب کریم کہا۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مکلہ مقابلہ کرنا نہیں چاہتی لیکن وہ بصراحت اس کا اظہار بھی نہیں کرتی۔ بطور تمہید کہہ دیتی ہے۔ پھر رائے طلب کرتی ہے اور حاشیہ نشینوں کا جواب آتا ہے۔ وہ حسب عادت یہی کہتے ہیں کہ حکم کیجیے ہم تیار ہیں۔ طاقتور ہیں لیکن بہرحال فیصلہ بدست حضور ہے !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ خط کا مضمون اپنے وزراء اور مشیروں کو سنانے کے بعد بلقیس نے دوبارہ سب کو متوجہ کر کے کہا اے امراء مجھے اس معاملے میں مشورہ دو کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ تمہارے مشورے کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔ اس سے ملکہ سبا کے طرز حکومت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشیروں کی رائے کا کس قدر احترام کرتی ہے۔ قالوا نحن اولوا قوۃ الخ : مشیروں کا جواب کوئی دانشمندانہ نہیں، اس سے خوشامد اور نیاز مندی کی بو آتی ہے۔ درباریوں نے مشورہ دیا کہ ہم سلیمان سے لڑیں گے کیونکہ ہماری جنگی اور فوجی طاقت نہایت مضبوط ہے اور ہم لڑائی میں بڑے بہادر اور دلیر ہیں ہم تو آپ کے حکم کے منتظر ہیں جو حکم ہوگا اس کی اطاعت کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) خط سنانے کے بعد بلقین نے اپنے امرا اور اہل دربار سے مزید مشورہ طلب کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے بلقین نے اہل دربار سے کہا اے اہل دربار تم مجھ کو میرے اس معاملہ میں رائے اور مشورہ دو میں اس وقت تک کسی بات کا قطعی فیصلہ نہیں کیا کرتی جب تک تم میرے پاس موجود نہ ہو ۔ یعنی چونکہ تم میرے معتمد ہو اس لئے میں تم سے ہر ایک کام کا مشورہ کرتی ہوں اور کوئی بات تم سے سوپیدہ نہیں کرتی بلکہ جو فیصلہ کرتی ہوں تم سے رائے حاصل کرنے کے بعد تمہارے روبرو کرتی ہوں۔