Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 53

سورة النمل

وَ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿۵۳﴾

And We saved those who believed and used to fear Allah .

ہم نے ان کو جو ایمان لائے تھے اور پرہیزگار تھے بال بال بچالیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

for they did wrong. Verily, in this is indeed an Ayah for people who know. And We saved those who believed, and had Taqwa of Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝ ٥٣ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اور ہم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور ان مومن بندوں کو جو کفر وشرک برائیوں اور اونٹنی کے قتل سے بچتے تھے نجات دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:53) انجینا۔ ہم نے بکات دی۔ ہم نے بچا لیا۔ کانوا یتقون۔ ماضی استمراری۔ جمع مذکر غائب وہ (اپنے رب سے) ڈرا کرتے تھے۔ وہ (کفر و معصیت سے) پرہیز رکھتے تھے اتقاء (افتعال) مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٤٧١ ایک نظر میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصے کا یہ مختصر ترین حلقہ مختصر اور شوٹنگ کے انداز میں ہے۔ قوم لوط حضرت لوط کو ملک بدر کرنا چاہتی ہے اور جرم کیا ہے ؟ صرف یہ کہ وہ اخلاقی تطہیر اور پاکیزگی کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کو اس اخلاقی گندگی سے نکالنا چاہتے تھے جس میں یہ لوگ علانیہ اور اجتماعی طور پر مبتلا تھے۔ ہم جنس پرستی یعنی مردوں کا مردوں کے ساتھ جنسی ملاپ اور عورتوں کے قریب نہ آنا ، یہ انتہائی گندگی ، غلاظت اور خلاف فطرت عمل تھا۔ انسانی تاریخ میں یہ جنسی بےراہ روی کبھی کبھی اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ بعض اوقات بعض افراد تو اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور ان کے لئے ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں مثلاً فوجی چھائونیوں میں لوگ خلاف فطرت جنسی عمل میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، جہاں انہیں فوجی کیمپوں میں عورتیں نہیں ملتیں۔ پھر قید خانوں اور جیلوں میں بھی یہ بیماری پھیل سکتی ہے۔ جہاں ایک طویل عرصے تک قیدیوں کو جنسی ملاپ سے محروم رکھا جاتا ہے اور ان پر جنسی ملاپ کا سخت دبائو ہوتا ہے اور عورتوں سے وہ دور ہوتے ہیں۔ رہی یہ صورتحال کہ کس بستی میں یہ جنسی بےراہ روی اور ایک عام مسلمہ قاعدہ بن جائے ، عورتیں موجود ہوں ، نکاح ہو سکتے ہوں تو حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں فی الواقعہ ، یہ ایک عجیب واقعہ ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی فطرت ایسی بنائی ہے اس میں نر اور مادہ ہیں اور فطرتاً نر اور مدہ کے درمیان ملاپ کا داعیہ رکھا ہے۔ تمام زندہ مخلوقات کی یہ فطرت ہے۔ سبحن الذی ……یعلمون (٦٣ : ٦٣) ” پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ “ تو اللہ نے تمام زندہ اشیاء کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ خواہ زمین کی نباتات ہوں یا انسان ہوں یا دوسرے حیوان ہوں ، خواہ ان کو انسان جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ اللہ کی مخلوقات میں سے بیشمار ایسی مخلوق اب بھی ہے جسے ہم نہیں جانتے ۔ لہٰذا نرو مادہ یا مخلاف جوڑا اس پوری کائنات کی تخلیق میں اصل الاصول ہے۔ زندہ چیزوں کے علاوہ دوسری نامعلوم مخلوقات میں بھی۔ ایٹم ، کائنات کا صغیر ترین ٹکڑا ابھی الیکٹرون سے پیدا شدہ ہے ، جس میں مثبت اور منفی چارج ہوتے ہیں ، گویا کائنات کے ہر ایٹم کے اندر جوڑا موجود ہے۔ …… (١) مصنف جس وقت لکھ رہے تھے اس وقت یورپ کے ملکوں نے اس فعل کو قانوناً جائز نہ کیا تھا (مترجم) ۔ جہاں تک زندہ مخلوقات کا تعلق ہے ان کے اندر نر و مادہ کا ہونا تو ایک لازمی امر ہے اور معلوم ہے یہاں تک کہ جن زندہ چیزوں میں نر اور مدہ نہیں ہوتے خود ان کے اندر نر اور مادہ کے خلیے ہوتے ہیں اور ان خلیوں کے اجتماع کی وجہ سے ان کے اندر پیداواری عمل جاری رہتا ہے۔ چونکہ نر اور مادہ کا ہونا اور تمام زندہ مخلوقات کا جوڑا جوڑا ہونا ناموس فطرت ہے۔ اس لئے اللہ نے فطرتاً نر اور مادہ کے درمیان ایک کشش رکھی ہے۔ ایسی کشش جسے کسی خارجی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ کسی غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ نے زندگی کو اس کی صحیح طور چلانا تھا اور اس راستے پر چلنے کا داعیہ بھی فطرتاً رکھا گیا اور اس کے لئے تعلیم و ترغیب کی ضرورت ہی نہ رکھی گئی۔ لوگوں کے لئے دواعی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا باعث لذت بنایا۔ اس طرح دست قدرت بغیر تعلیم اور ترغیب کے لوگوں سے یہ فطری کام لیتی ہے۔ اللہ نے نر اور مادہ کے مقامات نہانی کے اندر اس فطری ملاپ کا میلان رکھ دیا ہے اور یہ میلان اور لذت اللہ نے دو مردوں کے اعضاء کے اندر نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت کا یہ اجتماعی بگاڑ ، جو قوم لوط کے اندر ہوا ، عجیب لگتا ہے کیونکہ یہ تقاضا ئے فطرت کے خلاف ہے۔ چناچہ حضرت لوط ان لوگوں کے اس فطری بگاڑ کی اصلاح کرنے لگے۔ درس نمبر ٤٧١ تشریح آیات ٤٥……تا ……٩٥

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ) (اور ہم نے ایمان والوں کو نجات دی، اور یہ لوگ کفر اور شرک سے پرہیز کرتے تھے) ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ ہم صالح کے گھر والوں کو قتل کر کے اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہمیں نہیں معلوم کس نے قتل کیا اس میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی کے گھر والے مقتول ہوجائیں تو ولی کہاں بچے گا جو خون کا دعویٰ کرے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے متعلقین اہل ایمان کو قتل کردیں گے اور ساتھ ہی یہ ڈر پھر بھی لگا ہوا تھا کہ جو لوگ صالح (علیہ السلام) کے دین پر نہیں ہیں وہ رشتہ داری کی بنیاد پر خون کا دعویٰ کرنے لگیں گے جیسا کہ قریش مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے سے ڈرتے تھے کہ بنی ہاشم خون کا دعویٰ کردیں گے حالانکہ بنی ہاشم خود ایک عرصہ کے بعد مسلمان ہوئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ ایمان والوں اور کفر و شرک سے بچنے والوں کو ہم نے بچا لیا۔ مشرکین اور مفسدین کو ہلاک بھی ہم نے کیا اور ایمان والوں کو بچایا بھی ہم نے اس میں صالح (علیہ السلام) کے تصرف و اختیار کو کوئی دخل نہ تھا۔ انا دمرنھم اور انجینا جمع متکلم کے صیغوں سے جو عظمت و جبروت ظاہر کرنے کے لیے ہیں معلوم ہوا کہ منکرین کو ہلاک کرنا اور حضرت صالح (علیہ السلام) اور مومنوں کو نجات دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ برکات دہندہ بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) اور ہم نے ان لوگوں کو اس عذا ب سے بچالیا جو ایمان اور پرہیز گاری کا طریقہ اختیار کرچکے تھے یعنی اہل مکہ شام جاتے ہوئے ثمود کی ویران بستیوں کو دیکھتے ہیں اس لئے فرمایا کہ یہ ان کے ڈھئے ہوئے گھر پڑے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہی حال ہے ان کافروں کا 12 خلاصہ ! یہ کہ کافروں کا یہ حشر ہوا اور اہل یقین اور اہل تقویٰ بچالئے گئے۔