Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 6

سورة النمل

وَ اِنَّکَ لَتُلَقَّی الۡقُرۡاٰنَ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ عَلِیۡمٍ ﴿۶﴾ الثلٰثۃ

And indeed, [O Muhammad], you receive the Qur'an from one Wise and Knowing.

بیشک آپ کو اللہ حکیم و علیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, you are being taught the Qur'an from One, All-Wise, All-Knowing. وَإِنَّكَ (And verily, you), O Muhammad. Qatadah said: لَتُلَقَّى (are being taught) "Are receiving." ... الْقُرْانَ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ the Qur'an from One, All-Wise, All-Knowing. from One Who is Wise in His commands and prohibitions, and Who knows all things, major and minor. Whatever He says is absolute Truth, and His rulings are entirely fair and just, as Allah says: وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً And the Word of your Lord has been fulfilled in truth and in justice. (6:115)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی یہ قرآن ایسی ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو تمام لوگوں کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کی نظروں میں سب انسان بحیثیت انسان ایک جیسے ہیں۔ جو ہر ایک کے حقوق و فرائض اپنے اسی وسیع علم کی بنا پر مقرر کرتی ہے۔ پھر وہ حکیم بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ہر حکم میں کچھ نہ کچھ حکمتیں مضمر ہوتی ہیں اور اس کے احکام بندوں ہی کی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ ۔۔ : ” مِنْ لَّدُنْ “ (کے پاس سے) کے لفظ سے قرآن مجید کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شدّتِ اتصال بیان کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ تجھے اپنے پاس سے عطا کر رہا ہے۔ یہ کسی مخلوق کا کلام نہیں کہ جس کا علم ناقص ہو، یا جو معاملات کی حکمت سے نا آشنا ہو، بلکہ یہ ایک کمال حکمت والے ہر چیز کا علم رکھنے والے نے اپنے پاس سے تجھے عطا کیا ہے، جس کا ہر کام اور ہر حکم حکمت سے بھرا ہوا ہے اور جسے ماضی، حال اور مستقبل کا پورا علم ہے، اس لیے نہ اس کی کوئی خبر غلط ہوتی ہے اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی غلطی ہوتی ہے۔ حَكِيْمٍ عَلِیْمٍ : دونوں صفات کا گزشتہ آیات سے بھی تعلق ہے اور آئندہ انبیاء کے قصوں کے ساتھ بھی کہ ان انبیاء کی بعثت، ان پر گزرنے والے واقعات اور آپ کی طرف ان کی صحیح ترین صورت میں وحی اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کا اظہار ہے۔ یہ دونوں الفاظ مبالغہ کے لیے آتے ہیں۔ ان کو نکرہ لانے سے مزید مبالغہ پیدا ہوگیا ہے، یعنی ایک انوکھے کمال حکمت و علم رکھنے والے کے پاس سے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۝ ٦ ( لقی) تلقی السّماحة منه والنّدى خلقا«2» ويقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر یہ قرآن حکیم بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) یقین کے ساتھ ایک بڑی حکمت والے علم والے کی جانب سے نازل کیا جارہا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 That is, the things being mentioned in the Qur'an are not imaginary nor are they based on the presumptions and opinions of a man, but they are being revealed by the One Who is All-Wise and All-Knowing, Who is perfect in Wisdom and Knowledge, Who has full knowledge of the affairs of His creation and of its past and present and future, and Whose Wisdom devises the best schemes for the reform and guidance of His servants.

سورة النمل حاشیہ نمبر :7 یعنی یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں جو اس قرآن کی جارہی ہیں اور نہ یہ کسی انسان کے قیاس و رائے پر مبنی ہیں ، بلکہ انہیں ایک حکیم و علیم ذات القا کررہی ہے جو حکمت و دانائی اور علم و دانش میں کامل ہے ، جسے اپنی خلق کے مصالح اور ان کے ماضی و حال اور مستقبل کا پورا علم ہے ، اور جس کی حکمت بندوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بہترین تدابیر اختیار کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٦ تا ١٣) مشرکین مکہ قرآن کو انسان کا کلام کہتے تھے اس لیے فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے تو قرآن ایسے صاحب حکمت سے پایا ہے جو حکمت والا ہے اپنے حکموں میں اور خبردار ہے تمام امور میں اب آگے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا کہ کس طور سے ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے انتخاب کرلیا اور ان سے باتیں کیں اور ان کو بڑی بڑی نشانیاں دیں اور بھیجا ان کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس تو ان لوگوں نے کفر اور تکبر کیا اور جو معجزات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دکھائے ان کو کھلا ہوا جادو بتلایا صحیح بخاری ومسلم کے ١ ؎ (١ ؎ مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین فصل اول) حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علاوہ اور معجزوں کے مجھ کو قرآن کا ہی ایک معجزہ ایسا دیا گیا ہے جس کے سب سے کثرت سے لوگ راہ راست پر آویں گے جس کثرت سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے زیادہ ہوگی یہ حدیث من لدن حکیم علیم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف میں ایسی حکمت اور علم غیب کی باتیں ہیں جس کا اثر قیامت تک لوگوں کے دلوں پر پڑے گا ان آیتوں میں موسیٰ (علیہ السلام) کا جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بی بی کو ساتھ لے کر مدین سے مصر کو آرہے تھے تو اندہیری رات میں راستہ بھول گئے تھے اور جاڑے کے موسم کے سبب سے ان کو اور ان کی بی بی کو سردی بھی بہت لگ رہی تھی اسی حالت میں طور پہاڑ کے پاس ان کو آگ کی سی روشنی نظر آئی اسی روشنی کو دیکھ کر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں اس آگ کی روشنی کی طرف جاتا ہوں آگ کے پاس کوئی شخص ملا تو اس سے راستہ کی خبر بھی مل جاوے گی کہ سیدھا راستہ کدہر کو ہے اور سردی میں تاپنے کے لیے تھوڑی سی آگ بھی لیتا آؤں گا اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نظر تمام مخلوقات کو گھیرے ہوئے ہے لیکن مخلوقات میں یہ تاب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر کی برداشت کرسکے اس لیے اللہ تعالیٰ کے منہ کے آگے پردے ہیں چناچہ صحیح مسلم کی ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ٢ ؎ میں ان پردوں کا ذکر تفصیل سے ہے (٢ ؎ صحیح مسلم ص ٩٩ جلد اول۔ ) صحیح مسلم کی بعض روایتوں میں ناری پردہ کا ذکر ہے اور بعض میں نوری پردے کا اسی واسطے بعضے سلف نے یہاں نار کے معنے آگ کے لیے ہیں اور بعضوں نے نور کے اور صحیح مسلم میں دونوں معنے کی روایت ہے اس لیے دونوں معنے صحیح ہیں لیکن امام مسلم کی طرز روایت ٣ ؎ سے نور کے پردے کی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے (٣ ؎ حوالہ مذکور۔ ) اس روشنی کے اندر اور آس پاس جو فرشتے تھے ان کو صاحب برکت فرمایا کیونکہ وہ مقرب فرشتے نور الٰہی کی روشنی میں تھے اب غیب سے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز آئی کہ اے موسیٰ اللہ کی ذات سب عیبوں سے پاک ہے اور وہ بڑا زبردست حکمتوں والا ہے اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو قدرت اور حکمت الٰہی دکھانے کے لیے یہ ارشاد ہوا کہ موسیٰ تم اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دو وہ لکڑی زمین پر ڈالتے ہی اب تو پتلا سا ایک سانپ بن گئی اور فرعون کے سامنے اور جادوگروں کے مقابلہ کے وقت بڑا سانپ بن گئی اس لیے اس قصہ میں کہیں سانپ کے بیان ہیں ایک لفظ آیا ہے کہ اور کہیں دوسرا پہلے پہل لکڑی کو سانپ بنتے ہوئے دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) ڈرے اور جھجک کر پیچھے کو ہٹ گئے اس لیے فرمایا موسیٰ ڈر نہیں اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنا رسول مقرر کیا ہے اور اللہ کے رسول سوا اللہ کے اور کسی چیز سے نہیں ڈرتے اور ایک فرعونی شخص پر جو تم نے زیادتی کی اگرچہ وہ اللہ سے ڈرنے کا کام تھا لیکن ایسے کام کے بعد جو شخص نام ہو تو للہ غفور رحیم ہے اس کے بعد ہاتھ کے سورج کی طرح چمکدار ہوجانے کا معجزہ عنایت ہوا ان دونوں معجزوں کے ساتھ زبان کے تو تلاپن کے اچھے ہوجانے کو دریا میں راستہ پیدا ہوجانے کے طورفان کو ٹڈیوں چیچڑیوں کی مینڈکوں اور خون کو ملایا جائے تو یہ نو معجزے ہوئے ان سب کو فرعون اور اس کی قوم نے جادو بتلایا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں برے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں یہ یہ حدیث اس کی تفسیر ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے آنکھیں بند کر کے ایسے ایسے بڑے معجزوں کو جادو کیوں بتلایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

27:6) لتلقی۔ لام تاکید کا ہے۔ تلقی مضارع مجہول صیغہ اور مذکر حاضر۔ اصل میں تتلقی تھا ایک تاء حذف ہوگئی۔ تلقی (تفعل) مصدر۔ تجھے تلقین کیا جاتا ہے۔ تجھے سکھلایا جاتا ہے تجھے ملتا ہے۔ لدن ظرف زمان ہے جو نہایت وقت کی ابتداء پر دلالت کرتا ہے مثلاً اقمت عندہ من لدن طلوع الشمس الی غروبھا میں اس کے پاس مقیم رہا طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک۔ ظرف مکان بھی ہے بمعنی طرف پاس جیسے ربنا اتنا من لدنک رحمۃ (18:10) اے ہمارے رب ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ قرآن مجید میں اکثر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے من لدن۔ طرف سے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس قرآن کو مومنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری کے طور اتارا گیا ہے یہ من جانب اللہ ہے۔ سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ والوں کو ایک یہ بھی اختلاف تھا کہ یہ نبی قرآن مجید کو خود بنا لیتا ہے اس الزام کی اس سے پہلے مختلف الفاظ اور پیرائے میں تردید کی گئی ہے۔ یہاں اس بات کو یوں بیان فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک کی ہرگز گنجائش نہیں کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا حکیم اور ہر بات کو جاننے والا ہے۔ ان الفاظ میں کفار کی تردید کرنے کے ساتھ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس بات کا کبھی خیال نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی مخالفت کرنے والوں کا علم نہیں۔ یقین رکھو کہ ہر بات اس کے علم میں ہے لیکن وہ اپنی حکمت کے ساتھ حق و باطل میں کشمکش پیدا کرتا ہے تاکہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوجائے۔ وحی کا معنٰی : لغوی لحاظ سے وحی میں مندرجہ ذیل مفہوم پائے جاتے ہیں۔ ١۔ الہام : (وَأَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِیہِ ) [ القصص : ٧] ” ہم نے امّ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ تم موسیٰ کو دودھ پلاؤ۔ “ ٢۔ شہد کی مکھی کو الہام : (وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ )[ النحل : ٦٨] ” تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ تو پہاڑوں، درختوں اور چھپروں میں گھر بنا لے۔ “ ٣۔ وحی کا معنٰی اشارہ۔ جس طرح زکریا (علیہ السلام) کو اشارہ ہوا۔ (فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّا) [ مریم : ١١] ” وہ محراب سے نکل کے قوم کے پاس آئے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح وشام سبحان اللہ کہو۔ “ ٤۔ شیطان کا وسوسہ پیدا کرنا اور برائی کو انسان کے لیے مزّین کرنا۔ (وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ) [ انعام : ١٢١] ” بیشک شیطان اپنے دوستوں کو اشارہ کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ جھگڑیں۔ “ (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا) [ انعام : ١١٢] ” ہم ہر نبی کے لیے انسانی اور جناتی شیاطین میں سے دشمن بناتے ہیں جو ایک دوسرے کو چکنی چپٹی دھوکا دینے والی بتاتیں بتاتے ہیں۔ “ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو کسی کام کے کرنے کا حکم۔ ( اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلآءِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) [ الانفال : ١٢] ” جب تیرے رب نے فرشتوں کی طرف وحی کی بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ۔ “ ٦۔ انبیاء (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجنا۔ (وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِیْ إِلَیْہِمْ )[ الانبیاء : ٧] ” ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سبھی مردوں میں سے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی کی۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل و دماغ کا اختراع نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ ” اللہ “ کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ لوگوں کے اعمال اور ان کے دلوں کی حالت جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے : ١۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) ٢۔ ” اللہ “ ہی قرآن مجید نازل کرنے والا، حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٤٢) ٣۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ٤۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانک ……لتلقی القرآن من لدن حکیم علیم (٦) “ تلفی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے آپ کو علیم و حکیم ذات کی طرف سے براہ راست ہدایات دی جا رہی ہیں اور یہ ذلت ہر چیز کو حکیمانہ انداز میں بنانے والی ہے اور ہر معاملے کی تدبیر علم سے کرنے والی ہے اور اس ذات کے علم و حکمت کا ایک نمونہ یہ قرآن ہے۔ اپنے منہاج کے اعتبار سے ، اپنے احکام و فرائض کے لحاظ سے ، اپنی ہدایات اور طریقہ کار کے لحاظ سے ، اپنی آیات و احکام کے نزول کے اعتبار سے ، اپنے اجزاء کے تسلسل اور اپنے مضامین و موضوعات کے توازن اور ہم آہنگی کے اعتبار سے۔ اب قرآن کریم قصص کو لیتا ہے اور ان قصص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی حکمت اور الل ہ کی نہایت ہی خفیہ تدابیر اس کائنات میں اور اس قرآن میں کس قدر موثر ہیں۔ درس نمبر ١٧١ تشریح آیات ٧……تا……٤١ حضرت مسویٰ (علیہ السلام) کے قصے کا یہ حلقہ نہایت اختصار اور تیزی سے اسکرین پر آتا ہے اور گزر جاتا ہے اور سیاق کلام میں یہ آیت وانک لتلقی ……علیم (٨٢ : ٦) ” اے نبی ، بلاشبہ آپ یہ قرآن ایک حکیم وعلیم کی طرف سیپا رہے ہیں “ کے بعد متصاد آتا ہے۔ اب گویا بتایا جاتا ہے کہ نزول قرآن کا یہ علم کوئی انوکھی بات نہیں ہے ، تمام انبیاء اللہ سے ہدایات اور کتب پاتے رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ کا حال بطور نمونہ پیش کریں کہ یہ فریضہ ان کو بھی سونپا گیا۔ وہ فرعون اور اس کے سرداروں اور قوم کے پاس گئے اور قوم نے تکذیب کی۔ جس طرح آج قریش تکذیب کر رہے ہیں۔ جس طرح قوم موسیٰ کو یقین تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو آیات و معجزات پیش کرتے ہیں وہ حق ہیں اور پھر بھی انکار کرتے تھے اور یہ انکار ظلم اور تکبر کی وجہ سے تھا ، یہی روش آج قریش کی ہے لیکن فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین (٨٢ : ٣١) ” دیکھ لیں کہ مفسدین کا انجام کیسا ہوا۔ “ یہی انجام قریش کا بھی ہوگا۔ جو محض غرور کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا (وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ ) (اور بالیقین آپ کو حکمت والے علم والے کی طرف سے قرآن دیا جا رہا ہے) پس جب اللہ تعالیٰ کی آپ پر مہربانی ہے اللہ کا فرشتہ آتارہتا ہے اور اللہ کی کتاب آپ تک پہنچاتا رہتا ہے آپ کو یہ محبوبیت عند اللہ ہی کافی ہے۔ دشمن جو کچھ کہیں کہنے دو ، ان کی باتوں سے غمگین نہ ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ ترغیب الی القران ہے۔ یہ قرآن ایک عظیم الشان کتاب ہے جو حکیم وعلیم خدا نے اپنے پیغمبر پر نازل فرمائی اس لیے اس کو ضرور ماننا اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی بھی ہے۔ سورت کے آخر میں بھی دو بار تسلی کا ذکر ہے ” ولا تحزن علیہم الخ “ اور فتوکل علی اللہ الخ “ (رکوع 6) یعنی یہ رفیع المنزلت کتاب اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی ہے، آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اگر معاندین نہیں مانتے تو آپ غم نہ کریں اور اللہ پر بھروسہ کر کے اس کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہیں۔ آپ کی دعوت سراپا حق ہے اور آخر کار فتح و کامرانی آپ ہی کو نصیب ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اور اے پیغمبر آپ کو یقینا یہ قرآن کریم ایک بڑی حکمت والے بڑے علم والے کی جانب سے ملتا اور دیا جاتا اور تلقین کیا جاتا ہے یعنی یہ قرآن کریم اس کی جانب آپ کو دیاجاتا ہے جو کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے۔