Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 27

سورة القصص

قَالَ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُنۡکِحَکَ اِحۡدَی ابۡنَتَیَّ ہٰتَیۡنِ عَلٰۤی اَنۡ تَاۡجُرَنِیۡ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِکَ ۚ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۲۷﴾

He said, "Indeed, I wish to wed you one of these, my two daughters, on [the condition] that you serve me for eight years; but if you complete ten, it will be [as a favor] from you. And I do not wish to put you in difficulty. You will find me, if Allah wills, from among the righteous."

اس بزرگ نے کہا میں اپنی دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح ٰمیں دینا چاہتا ہوں اس ( مہر پر ) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں ۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں ، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر مجھے بھلا آدمی پائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ ... He said: "I intend to wed one of these two daughters of mine to you, means, this old man asked him to take care of his flocks, then he would marry one of his two daughters to him. ... عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ... on condition that you serve me for eight years; but if you complete ten years, it will be (a favor) from you. meaning, `on the condition that you tend my flocks for eight years, and if you want to give me two extra years, that is up to you, but if you do not want to, then eight years is enough.' ... وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ But I intend not to place you under a difficulty. If Allah wills, you will find me one of the righteous. means, `I do not want to put pressure on you or cause you any inconvenience or argue with you.' Ibn Abi Hatim recorded that Ali bin Rabah Al-Lakhmi said, "I heard Utbah bin An-Nadar As-Sulami, the Companion of the Messenger of Allah narrating that the Messenger of Allah said: إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَمُ اجَرَ نَفْسَهُ بِعِفَّةِ فَرْجِهِ وَطُعْمَةِ بَطْنِه Musa, peace be upon him, hired himself out for the purpose of keeping chaste and to feed himself. And Allah tells us about Musa, peace be upon him: قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الاْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ وَاللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔ 272اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے 273یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایزاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔ 274نہ جھگڑا کرونگا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لونگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] باپ نے بھی لڑکیوں کی اس رائے سے اتفاق کرلیا۔ مگر اب مشکل یہ تھی کہ گھر میں اتنی آسودگی تو تھی نہیں کہ موسیٰ کو کچھ ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھا جاسکتا۔ اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ گھر میں ایک نوجوان کو کیسے ملازم رکھا جاسکتا ہے جبکہ گھر میں دو نوجوان لڑکیاں بھی موجود ہوں۔ لڑکیوں سے باہمی مشورہ کے بعد ایک دن موسیٰ سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اور آپ نکاح کے بعد میرے ہی پاس رہ کر گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیں۔ اور نکاح کے بعد کم از کم آٹھ سال تو ضرور میرے پاس رہیں۔ اور اگر یہ مدت آٹھ سال سے بڑھا کر دس سال کردیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔ میری طرف سے اس زائد مدت کے لئے پابندی نہ ہوگی۔ اور میں انشاء اللہ اس معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کی کوشش کروں گا اور کوئی سخت خدمت تم سے نہ لوں گا۔ اور نہ کسی طرح کی سختی تم مجھ میں دیکھو گے۔ اس مقام پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آیا ایک باپ اپنی لڑکی کے حق مہر کے عوض خود معاوضہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟ ہمارے خیال میں یہ سوال غلط مبحث ہے۔ یہاں معاملہ ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک نکاح کا معاملہ۔ دوسرے نکاح کے بعد گھر کا کام سنبھالنے کا معاملہ۔ یعنی شعیب نے شرط صرف یہ لگائی تھی کہ نکاح کے بعد تم اپنی بیوی کو لے کر چلے نہیں بنو گے۔ بلکہ تم کم از کم آٹھ سال میرے ہاں ہی قیام پذیر رہو گے۔ اس وقت یہ گھر جیسے میرا ہے ویسے ہی تمہارا بھی ہوگا۔ یہ سوال صرف اس صورت میں اٹھایا جاسکتا تھا جب آٹھ یا دس سال کی مدت گزرنے کے بعد شعیب اپنی لڑکی کا نکاح موسیٰ سے کرتے۔ آپ کی مجبوری ہی یہ تھی کہ لڑکیوں والے گھر میں ایک اجنبی آدمی کیسے رہ سکتا ہے۔ لہذا جلد از جلد اس کا نکاح کرکے اسے گھر میں رکھا جاسکے۔ رہا نکاح کے مہر کے مسولہ تو وہ تھوڑے سے تھوڑا بھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ لوہے کی ایک انگوھی بھی اور اتنا حق مہر ایک پردیسی بھی ادا کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ ۔۔ : باپ نے بیٹی کی رائے سے اتفاق کرلیا، مگر جوان بیٹیوں کی موجودگی میں ایک غیر محرم مرد کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں تھا، اس لیے اس مرد دانا نے فیصلہ کیا کہ ایک بیٹی کا اس صالح جوان کے ساتھ نکاح کر کے اسے مزدور کے طور پر گھر میں رکھ لے۔ چناچہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : (اِنِّیْ اُرِیْدُ ) ” یقیناً میں ارادہ رکھتا ہوں۔ “ اہل علم فرماتے ہیں، اس بزرگ نے ”إِنَّ “ کے ساتھ تاکید اس لیے کی کہ عام طور پر لوگ کسی اجنبی جوان کو جو مالی لحاظ سے بھی فقیر ہو، رشتہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس لیے اس نے کہا، یقیناً میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کر دوں، اس شرط پر کہ تو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا۔۔ 3 اس سے معلوم ہوا کہ کسی صالح آدمی کو اپنی بیٹی کے رشتے کی پیش کش خود کردینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ ایسا ہونا چاہیے۔ بیشمار لڑکیاں اس لیے نکاح سے محروم بیٹھی ہیں کہ ان کے والد انتظار میں ہیں کہ کوئی ہم سے رشتہ پوچھے، جبکہ لڑکوں کے والدین انکار کے خوف سے رشتہ مانگنے کی جرأت نہیں کرتے۔ نتیجہ اس کا لڑکے لڑکیوں دونوں کا نکاح سے محروم رہنا ہے۔ صحابہ کرام میں سے عمر (رض) کا عمل اس کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی بیٹی حفصہ (رض) خنیس بن حذافہ (رض) کے فوت ہونے سے بیوہ ہوگئی، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدری صحابہ میں سے تھے۔ عمر (رض) نے فرمایا : ” میں عثمان بن عفان (رض) کے پاس گیا اور انھیں حفصہ کا رشتہ پیش کیا، انھوں نے کہا، میں اس بارے میں سوچوں گا، کچھ راتیں گزریں تو مجھے ملے اور کہنے لگے : ” میری رائے یہی ٹھہری ہے کہ میں ان دنوں نکاح نہ کروں۔ “ عمر (رض) فرماتے ہیں : ” پھر میں ابوبکر صدیق (رض) سے ملا اور ان سے کہا : ” اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ بنت عمر کا نکاح آپ سے کر دوں۔ “ ابوبکر خاموش رہے، مجھے کچھ جواب نہیں دیا، میں دل میں ان پر عثمان سے بھی زیادہ ناراض ہوا۔ چند راتیں گزریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نکاح کا پیغام بھیج دیا، تو میں نے حفصہ کا نکاح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کردیا۔ “ [ بخاري، النکاح، باب عرض الإنسان ابنتہ أو أختہ علی أھل الخیر : ٥١٢٢ ] دیکھیے عمر بن خطاب (رض) سے بڑھ کر غیرت مند کون ہوگا، مگر اپنی بیٹی کے رشتے کی پیش کش خود کر رہے ہیں۔ 3 بعض لوگ اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ نکاح میں لڑکی کا مہر یہ ہوسکتا ہے کہ خاوند اس کے والد کی مزدوری کرے، مگر یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ کا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے بیان میں صرف نکاح کے ارادے اور اس کی شرط کا ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کم از کم آٹھ سال اپنے سسر کے ساتھ رہیں گے، اس سے پہلے اپنی بیوی کو لے کر نہیں جائیں گے۔ اگر یہ عقد نکاح ہوتا تو اس میں دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کی تعیین ہوتی اور ارادے کے الفاظ کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ میں نے اپنی فلاں لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تمہارے ساتھ کیا۔ قرآن نے نکاح کے لیے ابتدائی گفتگو اور والد کی شرط کا ذکر کیا ہے، عقد نکاح اور مہر وغیرہ کی تفصیل کا ذکر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اس کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں تھی۔ 3 اس واقعہ سے مزدوری کرنے کا جواز بلکہ اس کا استحباب ثابت ہوتا ہے اور اس کے ضمن میں بکریاں رکھنے اور انھیں چرانے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا إِلَّا رَعَی الْغَنَمَ ) ” اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا اس نے بکریاں چرائی ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے پوچھا : ” تو کیا آپ نے بھی (چرائی ہیں) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نَعَمْ کُنْتُ أَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِأَھْلِ مَکَّۃَ ) [ بخاري، الإجارۃ، باب رعي الغنم علی قراریط : ٢٢٦٢ ] ” ہاں، میں اہل مکہ کے لیے چند قیراطوں پر بکریاں چرایا کرتا تھا۔ “ 3 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی لمبی مدت تک بکریاں چرانے کی اجرت کیا تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدوری صرف کھانا اور کپڑا ہی تھی، جیسا کہ عتبہ بن ندر السلمی (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” طسم “ کی تلاوت کی، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے پر پہنچے، تو فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شرم گاہ کی عفت اور پیٹ کے کھانے پر آٹھ سال یا دس سال اپنے آپ کو مزدور بنائے رکھا۔ “ [ ابن ماجہ، الرھون، باب إجارۃ الأجیر علی طعام بطنہ : ٢٤٤٤ ] ابن کثیر (رض) نے اس پر فرمایا : ” اس طریق سے یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ مسلمہ بن علی ( خُشنی، دمشقی اور ہلالی) ائمہ کے نزدیک روایت میں ضعیف ہے۔ ایک اور سند سے بھی یہ حدیث آئی ہے مگر اس میں بھی نظر ہے۔ “ ابن کثیر (رض) نے بعض روایات نقل کی ہیں کہ جس سال موسیٰ (علیہ السلام) نے رخصت ہونا تھا اس سال ان کے سسر نے ان سے کہا کہ اس سال جو بکری اپنے رنگ سے مختلف بچہ دے وہ تمہارا ہوگا، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ایسی کسی روایت کی سند صحیح نہیں۔ بعض صحابہ کے اقوال موجود ہیں، مگر ظاہر ہے کہ وہ اسرائیلیات سے ہیں، کیونکہ وہ صحابہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، نہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات روایت کرتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ یہ بات اسی طرح چھوڑ دی جائے جس طرح قرآن نے تفصیل کے بغیر چھوڑ دی ہے، اگر یہ بات ہدایت کے لیے ضروری ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور بیان فرما دیتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Two important conditions for hiring a person, and assigning a job Allah Ta` ala made the daughter of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) say something of great wisdom. In the present set up of employment, great emphasis is laid at the time of interviews on scrutinizing the degrees and experience of a candidate, but no attention is paid to ascertain his integrity and trustworthiness. As a result of this, there is neither efficiency nor honesty of purpose in the offices. On the contrary bribery and nepotism are so common that there seems to be no law in operation. If people could pay heed to this Qur&anic verse, many a problems would be solved automatically. قَالَ إِنِّي أُرِ‌يدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ (He (the father) said (to Musa), |"I wish to marry one of these two daughters of mine to you on the condition that you serve me for eight years. - 28:27). Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) made the proposal of marriage of his daughter to Musa (علیہ السلام) on his own. It shows that the guardian of girls need not wait for the proposal to come from the boy&s side. If a suitable good match is available, the girl&s guardian may take the lead, for this has been the practice of the prophets. To quote an example, Sayyidna ` Umar Ibn Khattab (رض) had offered his daughter, Sayyidnh Hafsah (رض) for marriage to Sayyidna Abu Bakr (رض) and to Sayyidna ` Uthman (رض) when she became widow. (Qurtubi) إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ (one of these daughters of mine 28:27). Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) did not make the selection of one or the other girl for the proposal of marriage, rather he kept it vague. It was not the formal nikah, that requires offer and acceptance in presence of two witnesses, but only a discussion to have his consent to work for eight years in lieu of marriage with a girl. Sayyidna Musa (علیہ السلام) agreed to the proposal, and got married to one of the girls. The Holy Qur&an does not describe every detail of a story, the happening of which is obvious from the context. Therefore, it cannot be doubted here that without pinpointing the bride and without the presence of witnesses how the nikah was solemnized. (Ruh, Bayan ul Qur’ an) عَلَىٰ أَن تَأْجُرَ‌نِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ (on the condition that you serve me for eight years - 28:27). Eight years service and employment was regarded the mahr (dower) (the dower) of marriage. Scholars have different points of view on the issue, whether a service rendered to one&s wife can be taken as a valid mahr (dower) or not. The subject is dealt with in detail in Ahkamul-Qur&an in Arabic language, under Surah Al-Qasas. Those who are interested can study the details there. For the common man it is enough to understand that if it is not allowed in the Muhammadi law, it might have been permitted in the code of law followed by Shu&aib (علیہ السلام) . It is not uncommon to have minor differences in the laws (Shari’ ah) brought by various prophets. Imam Abu Hanifah (رح) has ruled in his Zahir-ur-Riwayah that the service rendered for one&s wife cannot be considered as a valid mahr (dower). But in a later ruling by the scholars it is elaborated that though it is against the honour and dignity of husband to serve his wife in lieu of mahr (dower), but any duty performed outside the house, such as grazing of cattle or trading, can be made a substitute for it, provided a time frame is agreed upon before hand, as was in the case of Sayyidna Musa, where the parties had agreed before hand on eight years period of service. The reason is that the remuneration of the husband payable by his wife in this case will be treated as mahr (dower). (Bada` i&, from Nawadir Ibn Sama` ah). Another question that arises here is that the mahr (dower) is the right of wife, and if it is paid to her father or any other relative without her consent, it will be taken as not paid. In this incident the words أَن تَأْجُرَ‌نِي are a proof enough that Shu&aib (علیہ السلام) had hired him for his duty. So, the benefit of service went to him. In that situation how could this be regarded as mahr (dower) of the wife? The answer to this question is that it is quite probable that the herd of goats was the property of the girls, and therefore, the benefit of service went to his wife. Alternatively, if the goats belonged to the father and the wages were due from him, then the money of the wages payable by the father belonged to the wife, as her mahr (dower). It is lawful for a father to spend the money of his daughter with her permission. It is quite obvious that this whole deal was carried out with the consent of the girl. Ruling The word أُنكِحَكَ (I wish to marry...with you) has proved that the father had arranged the nikah. Jurists are unanimous that it should be done as such. It is the father&s duty and privilege to make arrangements of daughter&s marriage. A girl should not arrange her own marriage. But there is difference of opinion between jurists on the issue whether the nikah is lawful or not, if a girl arranges her own marriage due to some need or pressure. Imam Abu Hanifah (رح) has ruled that it is lawful. However, this verse is silent on the issue.

کوئی ملازمت یا عہدہ سپرد کرنے کے لئے اہم شرطیں دو ہیں : حضرت شعیب (علیہ السلام) کی صاحبزادی کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمت کی بات جاری فرمائی۔ آج کل سرکاری عہدوں اور ملازمتوں کے لئے کام کی صلاحیت اور ڈگریوں کو تو دیکھا جاتا ہے مگر دیانت و امانت کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام دفتروں اور عہدوں کی کارروائی میں پوری کامیابی کے بجائے رشوت خوری، اقرباء پروری وغیرہ کی وجہ سے قانون معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ کاش لوگ اس قرآنی ہدایت کی قدر کریں تو سارا نظام درست ہوجائے۔ قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ ، یعنی لڑکیوں کے والد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے خود ہی اپنی طرف سے اپنی لڑکی کو ان کے نکاح میں دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کے ولی کو چاہئے کہ کوئی مرد صالح ملے تو اس کا انتظار نہ کرے کہ اسی کی طرف سے نکاح کے معاملہ کی تحریک ہو، بلکہ خود بھی پیش کردینا سنت انبیاء ہے جیسا کہ عمر بن خطاب نے اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کے بیوہ ہوجانے کے بعد از خود ہی صدیق اکبر اور عثمان غنی سے ان کے نکاح کی پیشکش کی تھی۔ (قرطبی) اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے دونوں لڑکیوں میں سے کسی کو معین کر کے گفتگو نہیں فرمائی بلکہ اس کو مبہم رکھا کہ ان میں سے کسی ایک کو آپ کے نکاح میں دینے کا ارادہ ہے مگر چونکہ یہ گفتگو باقاعدہ عقد نکاح کی گفتگو نہ تھی جس میں ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہونا شرط ہے بلکہ معاملہ کی گفتگو تھی کہ آپ کو آٹھ سال کی نوکری اس نکاح کے عوض میں منظور ہو تو ہم نکاح کردیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر معاہدہ کرلیا۔ آگے یہ خود بخود ظاہر ہے کہ باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو اور قرآن کریم عموماً قصہ کے ان اجزاء کو ذکر نہیں کرتا جن کا وقوع سیاق وسباق سے ظاہر اور یقینی ہو۔ اس تحقیق کی بناء پر یہاں یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ زوجہ منکوحہ کو متعین کئے بغیر نکاح کیسے ہوگیا یا گواہوں کے بغیر کیسے ہوگیا (کذا فی الروح وبیان القرآن) عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ ، یہ آٹھ سال کی ملازمت و خدمت نکاح کا مہر قرار دیا گیا اس میں ائمہ فقہاء کا اختلاف ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی خدمت و ملازمت کو اس کا مہر قرار دے سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کی مکمل تحقیق مع دلائل کے بزبان عربی احکام القرآن سورة قصص میں مفصل لکھ دی گئی ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں عوام کے لئے اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اگر یہ معاملہ مہر کا شریعت محمدیہ کے لحاظ سے درست نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ شریعت شعیب (علیہ السلام) میں درست ہو اور شرائع انبیاء میں ایسے فروعی فرق ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ سے ظاہر الروایت میں یہی صورت منقول ہے کہ خدمت زوجہ کو مہر نہیں بنایا جاسکتا مگر ایک روایت جس پر علماء متاخرین نے فتوی دیا ہے یہ ہے کہ خود بیوی کی خدمت کو مہر بنانا تو شوہر کی تکریم و احترام کے خلاف ہے مگر بیوی کا کوئی ایسا کام جو گھر سے باہر کیا جاتا ہے جیسے مواشی چرانا یا کوئی تجارت کرنا اگر اس میں شرائط اجارہ کے مطابق مدت معین کردی گئی ہو جیسا کہ اس واقعہ میں آٹھ سال کی مدت معین ہے تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ اس مدت کی ملازمت کی تنخواہ جو بیوی کے ذمہ لازم ہو تو اس تنخواہ کو مہر قرار دینا جائز ہے (ذکرہ فی البدائع عن نوادر ابن سماعہ) ہاں ایک دوسرا سوال یہاں یہ ہوتا ہے کہ مہر تو بیوی کا حق ہے بیوی کے باپ یا کسی عزیز کو بغیر اجازت زوجہ مہر کی رقم نقد بھی دے دی جائے تو مہر ادا نہیں ہوتا۔ اس واقعہ میں اَنْ تَاْجُرَنِيْ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں کہ والد نے ان کو اپنے کام کے لئے ملازم رکھا تو ملازمت کا جو معاوضہ ہے وہ والد کو ملا، تو یہ زوجہ کا مہر کیسے بن گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بکریاں لڑکیوں ہی کی ملک ہوں اور یہ ملازمت کا فائدہ اس حیثیت سے خود لڑکی کو پہنچا۔ دوسرے اگر باپ ہی کا کام انجام دیا اور اس کی تنخواہ والد کے ذمہ لازم ہوئی تو یہ زر مہر لڑکی کا ہوگیا لڑکی کی اجازت سے والد کو بھی اس کا استعمال درست ہے یہاں ظاہر ہے کہ یہ معاملہ لڑکی کی اجازت سے ہوا ہے۔ مسئلہ : لفظ اُنْكِحَكَ سے ثابت ہوا کہ نکاح کا معاملہ والد نے کیا ہے باجماع فقہاء ایسا ہی ہونا چاہئے کہ لڑکی کا ولی اس کے نکاح کے معاملہ کی کفالت کرے، لڑکی خود اپنا نکاح نہ کرے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی لڑکی نے خود اپنا نکاح کسی ضرورت و مجبوری سے کرلیا تو وہ منعقد ہوجاتا ہے یا نہیں ؟ اس میں ائمہ فقہاء کا اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور یہ آیت اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیتی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ ہٰتَيْنِ عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ ٠ ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ۝ ٠ ۚ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ۝ ٠ ۭ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٢٧ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ نكح أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی [ النور/ 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] إلى غير ذلک من الآیات . ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور/ 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ شق ( مشقت) والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] ( ش ق ق ) الشق الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ دود سے بدن نا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

شعراء کی دو اقسام قول باری ہے : (والشعرآء یتبعھم الغادون۔ رہے شعرآء ، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلتے ہیں) سفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کی ہے، انہوں نے مجاہد سے کہ آیت میں نافرمان قسم کے جن مراد ہیں۔ خصیف نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ جب دو شاعر ایک دوسرے کی ہجو کرتے ہیں تو سرکش اور بہکے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ ایک کا ساتھ دیتا ہے اور دوسرا گروہ دوسرے کا۔ “ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان شعراء کا ذکر کیا جن کی نشانیاں یہ ہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو خود کرتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی جو منہ اٹھائے ہر اس وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے جو اسے نظر آجاتی ہے وہ یہ رویہ خواہشات کے غلبے کے تحت اختیار کرتا ہے اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے آیا وہ غلط ہے یا صحیح یا اس کا نجام کیا ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ نے (فی کل واد یھیمون) وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں کہ تفسیر میں کہا ہے۔ ” وہ ہر لغو اور بےہودہ بات بات میں گھس پڑتے ہیں۔ کسی کی تعریف کرتے ہیں اور کسی کی مذمت۔ دونوں صورتوں میں ان کے پیش نظر جھوٹ اور خلاف واقعہ باتیں ہوتی ہیں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے : (لان یمتلی جوف احدکم قیحا حتی یریہ خیر لہ من ان یمتلی شعرا۔ ) اگر تم میں سے کسی کا خول پیپ سے بھر جائے یہاں تک کہ وہ اس کے پھیپھڑے کو زخمی کردے یہ بات اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ اس کا خول شعروں سے پر ہوجائے۔ اس ارشاد میں قابل مذمت اشعار مراد ہیں جن کے قائلین کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مذمت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان شعرآء کو ان سے مستثنیٰ کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے : (الاالذین امنوا وعملوا الصالحات وذکروا اللہ کثیرا وانتصروا من بعد ما ظلموا) بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا تھا : (اھجھم ومعک روح القدس۔ ان کی خبر لو، تمہارے ساتھ روح القدس ہے۔ ) یہ بات قول باری (اوانتصروا من بعد ماظلموا) کے مطابق ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ولمن انتصر بعد ظلمہ فالئک ما علیھم من سبیل۔ ) جن لوگوں پر ظلم ہوا ہے وہ اگر صرف بدلہ لے لیں تو ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ نیز ارشاد ہے : (لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم۔ اللہ یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کوئی آدمی بدگوئی پر زبان کھولے الا یہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو۔ ) حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان من الشعر لحکمۃ بعض اشعار حکمت کی باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) برؤن نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں میں سے ایک کی تمہارے ساتھ شادی کر دوں، اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میری بکریاں چراؤ پھر اگر تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہے اور میں اس دس سال کے پورا کرنے میں تمہیں مجبور کرنا نہیں چاہتا تم مجھے انشاء اللہ خوش معاملہ پاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ہٰتَیْنِ ) ” چنانچہ شیخ مدین اپنی بیٹی کے مشورے کی روشنی میں جو ارادہ کرچکے تھے اس بارے میں انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اعتماد میں لینا چاہا کہ وہ اپنی ایک بیٹی ان کے نکاح میں دینا چاہتے ہیں۔ (عَلٰٓی اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ج) ” ممکن ہے اس وقت اس علاقے میں نکاح کے بدلے لڑکے سے معاوضہ لینے کا رواج ہو۔ بہر حال شیخ مدین نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر وہ آٹھ سال تک ان کی خدمت کریں ‘ ان کی بھیڑ بکریاں چرائیں اور گھر کے دوسرے کام کاج کریں تو اس کے بدلے میں وہ اپنی ایک بیٹی ان کے نکاح میں دے دیں گے۔ (فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ ج) ” یعنی اگر تم آٹھ سال کے بجائے دس سال پورے کر دو یہ تمہاری طرف سے ایک طرح کا احسان ہوگا۔ (وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ ط) ” یعنی تمہیں اطمینان ہونا چاہیے کہ اس دوران میری طرف سے تم پر کوئی بےجا سختی نہیں کی جائے گی اور بہت بھاری کام کے باعث کسی بےجا مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔ (سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) ” معاملات کے سلسلے میں ان شاء اللہ تم مجھے ایک راست باز اور کھرا آدمی پاؤ گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 It is also not necessary that the father should have said this to Moses immediately at the daughter's counsel. One feels that he must have formed this opinion after due consideration. He must have thought: "No doubt he is a noble person, but employing a healthy and strong young man like him as a servant in a house where there are grown up daughters would not be the right thing. When he is a gentle, educated and civilized man of a noble family (as he must have come to know from the story told by Moses), why shouldn't he be kept as a son-in-law in the house?" After reaching such a decision, he might have spoken to Moses at a suitable time. Here again the lsraelites have done a grave injustice to their illustrious Prophet, greatest benefactor and national hero. The Talmud says, "Moses lived with Re'uel, and he looked with favour upon Ziporah, the daughter of his host, and married her." Another Jewish tradition related in the Jewish Encyclopedia is to the effect: When Moses related his story to Jethro, the latter understood that he was the person at whose hand the kingdom of Pharaoh was to be destroyed according to prophecies. Therefore, he immediately imprisoned Moses so that he should hand him over to Pharaoh and get a reward. He remained imprisoned for seven or ten years in a dark underground cell, but Jethro's daughter, Ziporah, whom he had first met at the well of water, kept visiting him in the cell secretly and providing him with food and drink;. They had even decided to marry. After seven or ten years Ziporah said to her father, "Years ago you put a man in the cell and then forgot him altogether. He should have died by now. But if he is still alive, he must be a godly person." Hearing this when Jethro went to the prison, he found Moses alive and was convinced that he had miraculously remained so. Then he married Ziporah to him. Have the Western orientalists who are ever on the lookout for the sources of the Qur'anic narratives ever cared to see this manifest difference that exists between the Qur'anic version and the Israelite traditions?

سورة القصص حاشیہ نمبر :38 یہ بھی ضروری نہیں کہ بیٹی کی بات سنتے ہی باپ نے فورا حضرت موسی سے یہ بات کہہ دی ہو ، قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے مشورے پر غور کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہوگی کہ آدمی شریف سہی مگر جوان بیٹیوں کے گھر میں ایک جوان ، تندرست و توانا آدمی کو یونہی ملازم رکھ چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ جب یہ شریف ، تعلیم یافتہ ، مہذب اور خاندانی آدمی ہے ( جیسا کہ حضرت موسی کا قصہ سن کر انہیں معلوم ہوچکا ہوگا ) تو کیوں نہ اسے داماد بنا کر ہی گھر میں رکھا جائے ۔ اس رائے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے کسی مناسب وقت پر حضرت موسی سے یہ بات کہی ہوگی ۔ یہاں پھر بنی اسرائیل کی ایک کرم فرمائی ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے جلیل القدر نبی ، اپنے سب سے بڑے محسن اور قومی ہیرو پر کی ہے ، تلمود میں کہا گیا ہے کہ موسی رعویل کے ہاں رہنے لگے اور وہ اپنے میزبان کی بیٹی صفورہ پر نظر عنایت رکھتے تھے ، یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے اس سے بیاہ کرلیا ۔ ایک اور یہودی روایت جو جیوش انسائیکلوپیڈیا میں نقل کی گئی ہے ، یہ ہے کہ حضرت موسی نے جب یتھرو کو اپنا سارا ماجرا سنایا تو اس نے سمجھ لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت تباہ ہونے کی پیشن گوئیاں کی گئی تھیں ، اس لیے اس نے فورا حضرت موسی کو قید کرلیا تاکہ انہیں فرعون کے حوالہ کر کے انعام حاصل کرے ، سات یا دس سال تک وہ اس کی قید میں رہے ، ایک تاریک تہ خانہ تھا جس میں وہ بند تھے ، مگر یتھرو کی بیٹی زفورا ( یا صفورا ) جس سے کنویں پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی ، چپکے چپکے ان سے قید خانہ میں ملتی رہی اور انہیں کھانا پانی بھی پہنچاتی رہی ، ان دونوں میں شادی کی خفیہ قرارداد ہوچکی تھی ، سات یا دس سال کے بعد زفورا نے اپنے باپ سے کہا کہ اتنی مدت ہوئی آپ نے ایک شخص کو قید میں ڈال دیا تھا اور پھر اس کی خبر تک نہ لی ، اب تک اسے مرجانا چاہیے تھا ، لیکن اگر وہ اب بھی زندہ ہو تو ضرور کوئی کدا رسیدہ آدمی ہے ، یتھرو اس کی یہ بات سن کر جب قید خانے میں گیا تو حضرت موسی کو زندہ دیکھ کر اسے یقین آگیا کہ وہ معجزے سے زندہ ہیں ، تب اس نے زفورا سے ان کی شادی کردی ۔ جو مغربی مستشرقین قرآنی قصوں کے مآخذ ڈھونڈتے پھرتے ہیں انہیں کہیں یہ کھلا فرق بھی نظر آتا ہے جو قرآن کے بیان اور اسرائیلی روایات میں پایا جاتا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: اُس وقت تو حضرت شعیب علیہ السلام نے دونوں میں سے کسی ایک صاحبزادی کی تعیین نہیں کی، لیکن جب باقاعدہ نکاح ہوا تو متعین کر کے معروف طریقے کے مطابق ہوا۔ اور اُجرت پر کام کرنے سے مراد بکریاں چرانا تھا۔ بہت سے فقہا اور مفسرین نے یہ قرار دیا ہے کہ بکریاں چرانے کو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی کا مہر مقرر کیا تھا، لیکن اس پر اوّل تو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بیوی کا کوئی کام کرنا مہر بن سکتا ہے یا نہیں؟ اِس میں فقہا کا اختلاف ہے، دوسرے یہاں تو بیوی کا نہیں، بلکہ بیوی کے والد کا کام کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ جو حضرات اس معاہدے کو مہر قرار دیتے ہیں اگرچہ اُنہوں نے اس اشکال کا بھی جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ تکلّف سے خالی نہیں ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین اور فقہا نے یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ بکریاں چرانا بطور مہر نہیں تھا۔ بلکہ یہ دو الگ الگ باتوں کی مفاہمت تھی، حضرت شعیب علیہ السلام یہ چاہتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اُن کی بکریاں بھی چرائیں جس کی اجرت الگ مقرّر ہو، اور ان کی صاحبزادی سے نکاح بھی کریں، جس کا مہر الگ سے قاعدے کے مطابق طے کیا جائے اِن دونوں باتوں کے بارے میں ان کی مرضی معلوم کرنے کے لئے آپ نے دونوں باتیں ذکر فرمائیں، تاکہ جب وہ ان باتوں کو منظور کر کے وعدہ کرلیں تو نکاح اس کے اپنے طریقے سے کیا جائے جس میں لڑکی کا تعین بھی ہو، گواہ بھی ہوں اور مہر بھی مقرّر کیا جائے اور ملازمت کا معاہدہ اپنے طریقے سے کیا جائے جس میں اجرت باقاعدہ مقرّر کی جائے۔ چنانچہ یہ دونوں معاملات اپنے اپنے اِحکام کے مطابق اپنے اپنے وقت پر انجام پائے اور اُس وقت صرف اِن معاملات کو آئندہ وجود میں لانے کا دونوں طرف سے وعدہ کیا گیا۔ لہٰذا اس پر یہ اشکال بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک معاملے کو دوسرے معاملے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ یہی مؤقف علامہ بدر الدین عینیؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (دیکھئے عمدۃ القاری، کتاب الاجارات، ص : 85 ج 12)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧ ٢٨۔ علماء مفسرین نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بڑا اختلاف کئی باتوں میں کیا ہے پہلی یہ کہ مصر سے جاکر جن بزرگ سے مدین میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ملے وہ بزرگ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے یا دوسرے کوئی شخص تھے دوسرے یہ کہ ان بزرگ کی چھوٹی لڑکی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوا یا بڑی سے دوسرے یہ کہ ان بزرگ سے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ شرط جو ٹھہری تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان بزرگ کے پاس کم سے کم آٹھ برس رہ کر ان بزرگ کی بکریاں چرائیں اور اگر ہو سکے تو اور دو برس اپنی طرف سے اور اپنی خوشی سے پورے کریں پھر یہ نہیں معلوم ہوا کہ مدین میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین کو گئے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جن بزرگ کا نام اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر نہیں کیا اور ان بزرگ کی ایک بیٹی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوا خواہ چھوٹی خواہ بڑی اور آٹھ برس یادس برس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین میں رہے لیکن مفسرین نے جب ان باتوں کو اپنی تفسیروں ١ ؎ میں ذکر کر کے آپس میں اختلاف بھی کیا ہے تو اس اختلاف میں غلبہ کدہر ہے اور نتیجہ اس اختلاف کا کیا ہے اس کا ذکر مختصر طور پر کردیا جاتا جاتا وہ یہ ہے کہ روایت طبرانی اور تفسیر حسن بصری اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزرگ حضرت شعیب ( علیہ السلام) تھے اب جو مفسران روایتوں کے خلاف میں ہیں ان کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب اور حضرت لوط کا زمانہ قریب قریب تھا کیوں کہ حضرت شعیب نے اپنی امت کو وما قوم لوط منکم یعید۔ کہہ کر ڈرایا ہے اور حضرت موسیٰ اور حضرت لوط کے زمانہ میں چار سو برس کے قریب کا فرق ہے حضرت شعیب حضرت موسیٰ کے زمانہ تک کیوں کر زندہ رہ سکتے ہیں اس کا جواب مفسرین نے یہ دیا ہے کہ حضرت شعیب کی عمر بہت بڑی ہوئی ہے دوسرا اعتراض یہ ہے کہ وہ بزرگ اگر حضرت شعیب ہوتے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کا نام قرآن شریف میں ذکر فرماتا اس کا جواب ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے وابونا شیخ کبیر جو فرمایا ہے یہ ان بزرگ کی لڑکیوں کا قول ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تذکرہ کے طور پر فرمایا ہے اور یہ بات دنیا میں ایک عادت ہے کہ اولا داپنے باپ کا نام کم لیا کرتی ہے اس لیے قرآن شریف کے اس قصہ میں ان بزرگ کے نام لینے کا موقع نہیں تھا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے اس قصے کی جن روایتوں میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا نام آیا ہے وہ روایتیں ضعیف ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سب روایتوں کو ملانے سے ایک روایت کو دوسرے سے قوت ہوجاتی ہے علیٰ الخصوص جبکہ عتب بن منذر کی معتبر روایت میں حضرت شعیب کا نام موجود ٢ ؎ ہے تو پھر اب باقی کی دو باتیں اختلاف کی راہیں اس اختلاف کا رفع یہ ہے کہ صحیح بخاری اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس سے اور مسند بزار میں حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دس برس تک مدین میں رہے اور ابوذر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت شعیب کی چھوٹی لڑکی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوا اور تفسیر ابن ابی حاتم میں عوید بن عمران اور عتبہ بن منذر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی مسند بزار کے موافق ہیں جس روایت میں کچھ ضعف ہے۔ اس کا حال یہ ہے کہ ایک روایت کو دوسری روایت سے تائیدہو جانے کے بعد وہ ضعف جاتا رہتا ہے ابوذر کی مسند بزار کی حدیث میں سند اسحاق بن ادریس راوی میں کلام ہے ٢ ؎ لیکن طبرانی صغیر اور اوسط کی سند میں یہ راوی نہیں ہے اسی واسطے مجمع الزوائد میں اس سند کو معتبر قرار دیا ہے ٣ ؎ حاصل کلام یہ ہے کہ اختلاف کی یہ جانب ایسی ہے جس کی سند روایتی ہے اور دوسری جانب ایسی ہے کہ محض عقلی ہے اور یہ ایک مسلم الثبوت بات ہے کہ تفسیر کے باب میں جانب روایتی ‘ عقلی پر غالب ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تم اگر اس شرط پر راضی ہو کہ آٹھ برس یہاں مدین میں رہ کر میری بکریاں چراؤ تو ان دونوں لڑکیوں میں سے اپنی ایک لڑکی کا نکاح میں تمہارے ساتھ کرنا چاہتا ہوں اور اگر اس شرط سے بڑھ کر اور دو برس تم یہاں رہو تو یہ تمہارا احسان ہے میں دو برس کی زیادتی میں تمہارے اوپر کچھ زبردستی نہ کروں گا اور اللہ نے چاہا تو تم مجھ کو حسن اخلاق اور وعدہ کا پورا کرنے میں نیک خصلت پاؤ گے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا یہ شرط مجھ کو منظور ہے آٹھ برس تو ضرور میں یہاں رہوں گا اس کے بعد دو برس کی زیادتی میرے اختیار پر چھڑ دی جائے جائے موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب کے بعد معاہدہ پوا ہوگیا اس لیے شعیب (علیہ السلام) نے کہا اب ہم اس معاملہ کے پورا ہوجانے کا اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ اس معاہدہ کی سچائی سے پورا کر دے صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ٤ ؎ ہے جس میں آنحضٗرت نے سچ بولنے کو جنت کا راستہ فرمایا ہے اس حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمان آدمی کو ہر معاملہ میں سچ بولنے کی عادت کا پابند ہونا کتنے بڑے مرتبہ کی بات ہے اس لیے ایماندار آدمی کو شعیب (علیہ السلام) کی طرح اللہ پر بھروسہ کرکے ہر معاملہ میں سچ بولنے کی عادت لازم ہے۔ ١ ؎ ایضاً تفسیر ابن کثیر ٢ ؎ مجمع الزوائد ص ٧ ٣ ؎ ایضاً ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٤١٢ باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٨٥‘ ٣٨٦ ج ٣ تفسیر روح المعانی۔ ) (٢ ؎ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کے رسالۃ فی قصہ شعیب (علیہ السلام) “ میں بھی یہ تحقیق فرمائی گئی ہے کہ یہ بزرگ حضرت شعیب نبی نہیں تھے بلکہ کوئی دوسرے تھے رجامع الرسائل لابن تیمیہ ص ٦٤‘ ٦ جلد اول) ۔ (ع ‘ ح)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:27) انکحک۔ انکح مضارع واحد متکلم منصوب (بوجہ عمل ان) ۔ انکاح (افعال) مصدر۔ نکاح میں دینا۔ بیاہ دینا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر (کہ) میں تیرے نکاح میں دے دوں۔ احدی : احد کا مؤنث ہے ایک عورت۔ ابنتی۔ میری دو بیٹیاں۔ ی متکلم کی ہے۔ ابنتی اصل میں ابنتین تھا۔ انبۃ کا تثنیہ۔ یاء متکلم کی طرف اضافت کے سبب نون گرگیا۔ یاء کو یاء میں ادغام کیا ابنتی ہوگیا۔ ھا تین : ھا حرف تنبیہ تین اسم اشارہ تثنیہ مؤنث مجروریہ دونوں عورتیں ۔ علی : ای علی شرط (اس شرط) پر۔ تاجرنی۔ تاجر مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر حاضر۔ اجر یاجر (نصر) اجر مصدر۔ مزدوری دینا۔ یا کسی کی مزدوری کرنا۔ ن وقایہ اور ی ضمیر واحد متکلم (کہ) تو میری نوکری کرے گا۔ حجج۔ سال ۔ برس۔ حجۃ کی جمع۔ فمن عندک۔ پس یہ تمہاری مرضی ہے۔ ای فھو من عندک من طریق التفضیل لامن عندی بطریق الالزام۔ یعنی تمہاری طرف سے احسان ہوگا میری طرف سے بطور شرط نہیں ہے۔ اشق۔ شق یشق (نصر) شق سے مضارع واحد متکلم منصوب بوجہ عمل ان (کہ) میں تکلیف دوں۔ میں مشقت میں ڈالوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ کہ خواہ مخواہ دس برس پورے کرے یا سخت سخت کام سرانجام دے۔ معلوم ہوا کہ اجارہ کو صداق (مہر) مقرر کیا جاسکتا ہے۔ احادیث سے بھی یہ ثابت ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ حاصل یہ کہ آٹھ سال کی خدمت اس نکاح کا مہر ہے۔ 5۔ یعنی کام لینے اور وقت کی پابندی وغیرہ تمام امور میں آسانی برتوں گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال انی ارید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ من الصلحین (27) یوں نہایت ہی سادگی اور بےتکلفی سے اس شخص نے اپنی دو بیٹیوں میں ایک حضرت موسیٰ کے عقد میں دینے کے لیے خود پیش کش کردی۔ شاید یہ وہی لڑکی تھی جس نے تجویز دی تھی اور اس کے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے قلوب کا میلان ایک دوسرے کی طرف تھا۔ اس شخص نے بےتکلفی سے اور براہ راست پیش کش صراحت کے ساتھ کردی۔ کیونکہ یہ پیش کش عقد کے لیے تھی۔ لہٰذا اس میں حجاب محسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ یہ پیش کش اس لیے تھی کہ ایک نیا خاندان وجود میں آجائے۔ اس شخص نے تکلف اور کنایہ و اشارہ میں بات کرنے کا تکلف نہیں کیا۔ ایسے تکلفات اور بناوٹیں ان معاشروں میں ہوتی ہیں جن میں فطرت سے انحراف پیدا ہوجاتا ہے اور ایسے معاشرے نہایت ہی باطل ، گندی رسومات اور تکلفات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان تکلفات کی وجہ سے والد یا سرپرست کسی بچی کو کسی کے عقد میں دینے کے لیے کبھی صاف صاف پیش کش نہیں کرتا ، حالانکہ دل سے وہ کئی لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ فلاں رشتہ اس کی بہن بیٹی اور رشتہ دار کے لیے بہت مفید ہے ، لیکن لوگ انتظار کرتے ہیں کچھ خاوند ، اس کے وکیل یا اس کے سرپرست کی طرف سے کوئی پیش کش ہو ، بالعموم یہ تصور کیا جاتا ہے کہ عورت کی جانب سے پیش کش مناسب نہیں ہے۔ لیکن ایسی غیر فطری اور سڑی ہوئی سوسائٹیوں کے تضادات میں سے ایک تضاد یہ ہے کہ نوجوان لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ میل جول رکھتے ہیں۔ آزادانہ گب شپ لگاتے ہیں ، آزادانہ اختلاط اور باہم انکشاف کے روادار ہوتے ہیں لیکن نکاح اور عقد کی پیش کش کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جب نکاح کی پیش کش ہوتی ہے تو اس وقت بھی مصنوعی حجاب اور پردہ داری شروع ہوجاتی ہے اور لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت چھوڑ دیتے ہیں بلکہ پردہ شروع ہوجاتا ہے۔ غرض نکاح کی پیش کش میں فطری بےتکلفی نہیں ہوتی حالانکہ اس میں سادگی اور کھلاپن ہونا چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں باپ صاف صاف اپنی لڑکیوں کا رشتہ پیش کرتے تھے بلکہ عورتیں بھی اپنے آپ کو پیش کرتی تھیں۔ عورتیں اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آنے کی پیش کش کرتی تھیں یا ان لوگوں کو بےتکلف پیش کش کرتی تھیں جو ان کے ساتھ نکاح میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ معاملہ نہایت سادگی اور علانیہ اور بےتکلفی اور کھلے پن سے طے ہوجاتا۔ اور اس کے لیے کوئی مخصوص آداب و تکلفات نہ تھے۔ نہ اس طرح پیش کش سے کسی کی عزت اور شرافت میں فرق آتا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بچی حفصہ کی پیش کش حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو کی تو وہ خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے حضرت عثمان کو کی تو انہوں نے معذرت کی۔ جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی کہ انہوں نے ایسا کیا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت خوش ہوئے اور فرمایا ہوسکتا ہے کہ اسے ایسا رشتہ مل جائے جو ان دونوں سے بہتر ہو۔ اس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ان کے ساتھ نکاح کرلیا۔ ایک دوسری عورت نے اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پیش کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معذرت کی۔ پھر اس عورت نے اپنے نکاح کا اختیار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نکاح ایک ایسے شخص سے کردیا جس کے پاس قرآن کی دو سورتیں تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کا نکاح اس کے ساتھ کردیا اور ان دو سورتوں کو اس کا مہر قرار دیا۔ یہ تھی وہ سادگی جس کے ساتھ اسلامی معاشرے میں خاندان بن رہے تھے اور اس طرح ایک اسلامی سوسائٹی وجود میں آرہی تھی۔ اس معاملے میں ان کے ہاں کوئی اشارہ ، کنایہ ، تکلف اور تصنع اور ٹیڑھ نہ تھی۔ مدین کے اس بوڑھے نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے خود موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ پیش کش کی اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اس عرصے میں وہ ان پر کوئی سختی نہ کرے گا۔ اور ان کی وسعت سے زیادہ کام نہ لے گا۔ اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ تم ایک صالح نوجوان کا کردار ادا کرو گے۔ اور ہمارے معاملات و صفائی کے ساتھ چلیں گے۔ یہ نہایت ہی خوبصورت اور سادہ آداب ہیں۔ وہ نہ اپنے آپ کو آسمانوں پر چڑھاتے ہیں اور پاکی داماں کی حکایات کرتے ہیں اور نہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں تعریف اور مدح سرائی کرتے ہیں۔ پس صرف خیر کی امید رکھتے ہیں۔ اور تمام معاملات اللہ کی مشیت کے سپرد کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فائدہ خامسہ : شیخ مدین نے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں تم سے اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب لڑکی نکاح کے قابل ہوجائے اور اس کے مناسب حال رشتہ مل جائے تو اس میں دیر نہ لگائے۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے علی ! تین چیزیں ایسی ہیں جس میں دیر نہ لگائی جائے۔ (١) نماز (جب اس کا وقت ہوجائے) (٢) جنازہ (اس کی نماز اور تدفین) جب حاضر ہوجائے۔ (٣) بےشوہر والی عورت (جب تو) اس کے لیے کفو پالے۔ (رواہ الترمذی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص ٦١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے راضی ہو تو اس کا نکاح کر دو ۔ ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ ہوجائے گا اور (لمبا) چوڑا فساد ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) شیخ مدین کے عمل سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی شخص سے یہ کہنا کہ میں تم سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتا ہوں، کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ آج کل جو لوگوں میں یہ طریقہ ہے کہ لڑکیوں کے لیے خود رشتہ نہیں ڈھونڈتے، پیغام آنے کے انتظار میں رہتے ہیں اگرچہ اچھا رشتہ سامنے آجائے تو اپنی زبان سے بات چلانے کو عیب سمجھتے ہیں۔ یہ جاہلانہ بات ہے۔ اسی طرح اگر لڑکی کا نکاح ہوتا ہے تو باپ چھپا چھپا پھرتا ہے۔ اور مجلس عقد میں حاضر ہوتا ہے تو خود ایجاب و قبول کرنے کو آبرو کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کی بیٹی حفصہ (رض) ان کے شوہر کے شہید ہوجانے کی وجہ سے بیوہ ہوگئیں تو عدت گزر جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ میری بیٹی کو نکاح میں قبول کرلیں۔ وہ خاموش ہوگئے۔ انہی دنوں حضرت عثمان (رض) کی اہلیہ حضرت رقیہ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی) کی وفات ہوگئی تھی لہٰذا حضرت عمر نے حضرت عثمان سے کہا کہ میری بیٹی کو اپنے نکاح میں قبول کرلو۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ان دنوں نکاح کرنے کا خیال نہیں ہے، حضرت عمر (رض) نے یہ بات بطور شکایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ذکر کردی تو آپ نے فرمایا کہ حفصہ سے وہ شخص نکاح کرے گا جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کے نکاح میں ایسی بیوی آجائے گی جو حفصہ سے بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے حضرت حفصہ سے خود نکاح فرما لیا اور حضرت عثمان (رض) سے اپنی صاحبزادی کلثوم (رض) کا نکاح کردیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ دیکھو اپنے دل میں ناراض نہ ہونا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سامنے تذکرہ فرمایا تھا کہ میں حفصہ سے نکاح کرلوں گا لہٰذا مجھے یہ بات پسند نہ ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز افشا کروں اگر آپ حفصہ سے نکاح کرنے کا خیال چھوڑ دیتے تو میں نکاح کرلیتا۔ (راجع الاستیعاب والاصابہ ذکر حفصہ و رقیہ و ام کلثوم رضی اللّٰہ عھن) ۔ فائدہ سادسہ : شیخ مدین نے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یوں کہا کہ میں ان دو لڑکیوں میں اس شرط پر تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں کہ آٹھ سال میرے پاس ملازمت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مہر میں کوئی دینار و درہم روپیہ و پیسہ اور کوئی مالیت کی چیز دینا ہی ضروری نہیں ہے۔ شوہر کا خدمت کرنا بھی مہر بن سکتا ہے۔ البتہ فقہاء حنفیہ یوں کہتے ہیں کہ کوئی آزاد شخص (جو غلام نہ ہو) اپنی بیوی کی خدمت کرنے کو مہر بنا کر نکاح کرلے تو اسے مہر مثل ملے گا۔ نکاح تو ہوجائے گا لیکن شوہر اس کی خدمت نہ کرے گا کیونکہ یہ قلب موضوع ہے کہ شوہر بیوی کا خادم بن جائے اور شیخ مدین اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملہ سے جو شوافع نے جواز پر استدلال کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں اس شرط پر نکاح کرنے کا ذکر ہے کہ تم آٹھ سال میرے ہاں اجرت پر کام کرو وہاں مہر کا ذکر ہی نہیں ہے اور اس کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ ان کی شریعت میں مہر ضروری تھا پھر یہ بات بھی ہے کہ بکریاں بیوی کے باپ کی تھیں اور انہیں کی خدمت کا وعدہ تھا اسی لیے ان تاجرھا نہیں فرمایا۔ قال ابن الھمام فی فتح القدیر ص ٢٢٤ ج ٣ و کون الا وجہ الصحۃ لقص اللّٰہ سبحانہ قصۃ شعیب و موسیٰ علیھما السلام من غیر بیان نفیہ فی شرعنا انما یلزم لو کانت الغنم ملک البنت دون شعیب وھو منتف۔ (امام ابن الھمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں حضرت شعیب و حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے قصہ کو ہماری شریعت میں نفی کے بغیر بیان کرنا آزاد آدمی کی خدمت کو بیوی کے حق مہر مقرر کرنے کے جائز ہونے کی دلیل تب ہوتا جب بکریاں ان کی بیٹی کی ملکیت ہوتیں نہ کہ حضرت شعیب کی جبکہ یہ بات ہے نہیں کہ بکریاں بیٹی کی تھیں) شوہر اگر بیوی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی خدمت کر دے اگرچہ مہر ہی کے طور پر تو حنفیہ اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ رہی یہ بات کہ جب باپ کی خدمت کردی تو بیٹی کو کیا ملا اور اس کا مہر اس طرح ادا ہوا تو اس کی ادائیگی اس کے ذمہ آتی ہے جس نے محنت مزدوری پر رکھا اور کام لیا۔ اب تو باپ کے ذمہ ہوگا کہ حق الخدمت کا عوض اپنی بیٹی کے حوالے کر دے بیٹی کو بھی اختیار ہے کہ پہلے ہی سے معاف کر دے یا باپ دینے لگے تو وصول نہ کرے۔ فائدہ سابعہ : شیخ مدین نے جو یوں کہا تھا کہ میں تم سے ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت انہوں نے بیٹی کی تعیین نہیں کی تھی اگر کوئی شخص اس پر یہ اشکال کرے کہ بغیر تعیین کے نکاح کیسے صحیح ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت شیخ مدین نے آٹھ سال ملازمت کرنے کی شرط پر نکاح کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا نکاح نہیں ہو رہا تھا۔ حضرت موسیٰ نے معاہدہ کرلیا۔ بعد باقاعدہ نکاح کردیا گیا۔ اس وقت منکوحہ کی بھی تعیین ہو گئیقال القرطبی (رح) ص ٢٧٢ ج ٧ یدل علیٰ انہ لا عقد لأنہ لو کان عقد العین المعقود علیھا لہ۔ (امام قرطبی (رض) فرماتے ہیں آیت کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شیخ مدین نے ارادہ ظاہر کیا تھا ان مذکورہ الفاظ سے عقد نکاح نہیں کیا اگر اسی بات میں نکاح بھی مقصود ہوتا تو جس کا نکاح ہو رہا تھا اس کی تعیین بھی فرما دیتے۔ ) فائدہ ثامنہ : آیت کریمہ میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ شیخ مدین نے اپنی بیٹی سے نکاح کرنے کی اجازت لی تھی۔ حضرات شوافع کا مذہب یہ ہے کہ بالغ لڑکی کا نکاح اس کا والد اس سے دریافت کیے بغیر کرسکتا ہے لیکن اس پر آیت کریمہ سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ کیونکہ آیت میں صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نکاح بشرط ملازمت کرنے کا ذکر ہے۔ جب آپس میں معاہدہ ہوگیا تب نکاح ہوا اس میں لڑکی سے دریافت کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہاں بعض روایات حدیث سے شوافع کا استدلال ہوسکتا ہے جو متکلم فیہا ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب یہ ہے کہ بالغ لڑکی سے ولی کا اجازت لینا ضروری ہے اگر لڑکی کنواری ہے تو اجازت کے وقت اس کا چپ ہوجانا کافی ہے۔ یعنی خاموشی اجازت میں شمار ہے اور جو عورت بیوہ یا مطلقہ ہو اس کا ولی اس سے نکاح کی اجازت طلب کرے تو جب تک وہ زبان سے اجازت نہ دے اس وقت تک اجازت نہیں مانی جائے گی۔ نیز قرآن مجید کی آیت (وَ لَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ ) سے بھی یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بالغ عورت اپنا نکاح خود کرے تو کرسکتی ہے، البتہ جب عورت کا مخلص خیر خواہ ولی موجود ہو تو عورت آگے نہ بڑھے اور نکاح کا معاملہ ولی کے سپرد رکھے۔ احادیث کے مراجعہ کے لیے مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٧٠ کا مراجعہ کیا جائے۔ فائدہ تاسعہ : شیخ مدین نے یہ جو فرمایا کہ (وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ ) اس میں یہ بتادیا کہ تمہارے ذمہ جو کام لگایا جائے گا تمہارے ذمہ بس وہی ہوگا، اور میں تم پر سختی نہ کروں گا۔ معاہدہ اور طے شدہ معاملہ سے زیادہ کام نہ لوں گا پھر (سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) بھی فرمایا اس میں یہ بھی بتادیا کہ تم مجھے حسن معاملہ میں اور نرم برتاؤ میں اور عہد کے پورا کرنے میں اچھا پاؤ گے معلوم ہوا کہ مزدور اور ملازم پوری طرح محنت سے مفوضہ اعمال پورا کرنے کی کوشش کرے اور جو شخص ملازم رکھے وہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اس کا حق واجب ادا کرے اس کی ادائیگی میں دیر نہ لگائے اور ملازم سے کبھی کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس سے درگزر کرے اگر کسی بات پر مواخذہ کرنا ہو تو اس کا اندازہ بھی مناسب رکھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو (رواہ ابن ماجہ ص ١٧٦) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن میں تین آدمیوں کے خلاف مدعی بنوں گا۔ (١) وہ شخص جس نے میرا نام لے کر عہد کیا پھر دھوکہ دیا۔ (٢) جس شخص نے کسی آزاد کو بیچ دیا پھر اس کی قیمت کھا گیا۔ (٣) جس شخص کو مزدوری پر لیا پھر اس سے اپنا کام لے لیا اور اسے اس کی مزدوری نہ دی۔ (رواہ البخاری) فائدہ عاشرہ : شیخ مدین کی جن دونوں بیٹیوں کا ذکر ہے بعض مفسرین نے ان کے نام بھی لکھے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تھی ایک چھوٹی تھی۔ ان میں سے ایک کا نام لیّا اور دوسری کا نام صفورا تھا اور یہ بھی لکھا ہے کہ صفورا چھوٹی تھی اور وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانے گئی تھی اور اسی سے ان کا نکاح ہوا تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ بڑی لڑکی موسیٰ (علیہ السلام) کے نکاح میں دی گئی تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جب موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت اور دیانت و امانت کا علم ہوگیا تو فرمایا میں چاہتا ہوں اگر تو آٹھ برس میری نوکری کرے تو میں ایک بیٹی تیرے نکاح میں دے دوں۔ اگر تو آٹھ کے بجائے دس سال پورے کردے تو یہ تیری طرف سے احسان و تفضل ہوگا اور کام کاج میں میں تجھ پر سختی کرنے اور زیادہ مشقت ڈالنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا۔ اور انشاء اللہ تو مجھے اس معاملے میں اچھا پائیگا۔ قال ذلک بینی و بینک الخ، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ ہوگیا کہ مجھے اختیار ہے آٹھ سال پورے کروں یا دس سال اور دس سال پورے کرنے کے سلسلے میں مجھ پر دباؤ نہ ڈالا جاسکے گا اور ہمارے اس معاہدے پر خدا گواہ ہے۔ مقصود یہ ہے کہ یہ معاہدہ پختہ ہوچکا ہے ہم میں سے کوئی اپنے معاہدے سے پھر نہیں سکے گا۔ یہ اصول ہے کہ اگر گذشتہ شرائع کو بلا انکار نقل کیا جائے تو وہ ہمارے لیے بھی حجت ہوں گی۔ اسی لیے حنفیہ نے یہاں سے استدلال کیا ہے کہ ایسی خدمت زوج مہر بن سکتی ہے۔ صاحب مدارک نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔ والتزوج علی رعی الغنم جائز بالاجماع لانہ من باب القیام بامر الزوجیۃ (روح ج 20 ص 69) لیکن ایک شبہ ہوسکتا ہے کہ رعی غنم کی میعاد تو معین ہے لیکن منکوحہ مبہم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو صرف وعدہ ہے عقد نکاح نہیں عقد نکاح کے وقت منکوحہ کی تعیین لا محالہ کرنی ہوگی۔ وھذہ مواعدۃ منہ ولم یکن ذلک عقد نکاح اذ لو کان عقدا لقال قد انکحتک (مدارک ج 3 ص 158) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27۔ ا ن بزرگ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تیرے ساتھ اس شرط پر کر دوں کہ تو آٹھ سال تک میری ملازمت کرے اور اگر تو دس سال پورے کردے تو یہ تیری طرف سے ہے اور میں تجھ پر کوئی سختی یا مشقت ڈالنا نہیں چاہتا تو مجھ کو انشاء اللہ خوش معاملہ اور بھلے لوگوں میں سے پائے گا۔ نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور آٹھ سال کی خدمت اس نکاح کا معاوضہ یعنی مہر مقرر فرمایا دس سال پورا کرنے کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا یعنی کوئی جبر نہیں ۔ سختی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عام طور سے نوکروں اور ملززموں کے ساتھ سخت برتائو کیا جاتا ہے۔ وہ میرے ہاں نہیں ہوگا اور آپ مجھے شائستہ اور بھلے لوگوں میں سے پائیں گے۔