Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 38

سورة القصص

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرِیۡ ۚ فَاَوۡقِدۡ لِیۡ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیۡنِ فَاجۡعَلۡ لِّیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی ۙ وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳۸﴾

And Pharaoh said, "O eminent ones, I have not known you to have a god other than me. Then ignite for me, O Haman, [a fire] upon the clay and make for me a tower that I may look at the God of Moses. And indeed, I do think he is among the liars."

فرعون کہنے لگا اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا ۔ سن اے ہامان! تو میرے لئے مٹی کو آگ سے پکوا پھر میرے لئے ایک محل تعمیر کر تو میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اسے میں جھوٹوں میں سے ہی گمان کر رہا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Arrogance of Fir`awn and His ultimate Destiny Allah tells: وَقَالَ فِرْعَوْنُ ... Fir`awn said: Allah tells us of Fir`awn's disbelief and wrongdoing, and how he falsely claimed divinity for his evil self, may Allah curse him. فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ Thus he fooled his people, and they obeyed him. (43:54) He called on his people to recognize his divinity, and they responded, because of their weak and foolish minds. So, he said: ... يَا أَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرِي ... O chiefs! I know not that you have a god other than me. Allah tells us about Fir`awn: فَحَشَرَ فَنَادَى فَقَالَ أَنَاْ رَبُّكُمُ الاٌّعْلَى فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاٌّخِرَةِ وَالاٍّوْلَى إِنَّ فِى ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَى Then he gathered (his people) and cried aloud, saying: "I am your lord, most high." So Allah, seized him with punishment for his last and first transgression. Verily, in this is an instructive admonition for whosoever fears Allah. (79:23-26) meaning: he brought his people together and called to them in a loud voice, shouting that, and they responded to him obediently. So Allah took revenge on him, and made him a lesson to others in this world and the Hereafter. He even confronted Musa with that, and said: لَيِنِ اتَّخَذْتَ إِلَـهَاً غَيْرِى لاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ If you choose a god other than me, I will certainly put you among the prisoners. (26:29) ... فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى ... So kindle for me (a fire), O Haman, to bake (bricks out of) clay, and set up for me a Sarh in order that I may look at the God of Musa; He commanded his minister and adviser Haman to bake bricks for him, i.e., to make bricks in order to build a Sarh, a exalted towering palace. This is like the Ayah, وَقَالَ فَرْعَوْنُ يهَـمَـنُ ابْنِ لِى صَرْحاً لَّعَـلِّى أَبْلُغُ الاٌّسْبَـبَ أَسْبَـبَ السَّمَـوَتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَـهِ مُوسَى وَإِنِّى لاّظُنُّهُ كَـذِباً وَكَـذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ وَمَا كَـيْدُ فِرْعَوْنَ إِلاَّ فِى تَبَابٍ And Fir`awn said: "O Haman! Build me a Sarh that I may arrive at the ways -- the ways of the heavens, and I may look upon the God of Musa, but verily, I think him to be a liar." Thus it was made fair seeming, in Fir`awn's eyes, the evil of his deeds, and he was hindered from the path; and the plot of Fir`awn led to nothing but loss and destruction. (40:36-37) Fir`awn built this tower, which was the highest structure ever seen on earth, because he wanted to show his people that Musa was lying when he claimed that there was a God other than Fir`awn. Fir`awn said: ... وَإِنِّي لاَإَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ and verily, I think that he (Musa) is one of the liars. meaning, `when he says that there is a lord other than me.' The issue was not whether Allah had sent Musa, because he did not acknowledge the existence of the Creator in the first place. On the contrary, he said: وَمَا رَبُّ الْعَـلَمِينَ (And what is the Lord of Al-`Alamin) (26:23) and: لَيِنِ اتَّخَذْتَ إِلَـهَاً غَيْرِى لاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ (If you choose a god other than me, I will certainly put you among the prisoners). (26:29) and he said: يَا أَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرِي (O chiefs! I know not that you have a god other than me). This was the view of Ibn Jarir. And Allah tells: وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الاْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لاَا يُرْجَعُونَ

فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو بےعقل بناکر ان سے اپنا دعویٰ منوالیا اس نے ان کمینوں کو جمع کرکے ہانک لگائی کہ تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑلیا اور دوسروں کے لئے اسے نشان عبرت بنایا ۔ ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ حضرت موسیٰ سے ڈانٹ کر کہا کہ سن اگر تونے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا ۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعوی انہیں منواکر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ ( بھٹہ ) بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لئے ایک بلند وبالا مینار بنا کہ میں جاکر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں ۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے ۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی کا بیان آیت ( وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ 36؀ۙ ) 40-غافر:36 ) میں بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلند میناربنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں بنایا گیا ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا ومارب العلمین رب العالمین ہے کیا ؟ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کردونگا ۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں ۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی ۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہوگئے ۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر برس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹادیا ۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا ۔ لوگو سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم نے انہیں دوزخیوں کا امام بنادیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں ۔ جو بھی ان کی روش پر چلا اسے وہ جہنم میں لئے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے ۔ قیامت کے دن بھی انکی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے جسیے فرمان ہے ( اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13؀ ) 47-محمد:13 ) ہم نے انہیں تہہ وبالا کردیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا ۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَاُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ 99؀ ) 11-ھود:99 ) یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر، ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔ 382یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے۔ 383یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جو یہ دعوی کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] فرعون کی خدائی کا دعویٰ اس حد تک تھا کہ اس نے ملک کے تمام وسائل معاش پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دوسرے وہ اپنے قانونی اور سیاسی اختیارات میں کسی بالاتر ہستی کا قائل نہ تھا۔ ورنہ وہ دوسرے مشرکوں کی طرف کائنات کا خالق اللہ ہی کو سمجھتا تھا اور اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کا بھی قائل تھا۔ چناچہ خود اس کے درباریوں نے فرعون سے کہا تھا کہ && تو موسیٰ کو کھلی چھٹی دے دے گا کہ وہ اور اس کے پیرو کار تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے && (٧: ١٢٧) فراعنہ مصر دراصل اپنے آپ کو سورج دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ اپنی رعایا سے اپنے مجسموں کی پوجا بھی کرواتے تھے۔ علاوہ ازیں ان لوگوں میں گائے بیل کی پرستش کا عام رواج تھا۔ [٥٠] یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو الو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کہی تھی۔ اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے چند برس پیشتر روس نے جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، نے کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنگ طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں۔ مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور اسی دلیل کو بھی انہوں نے لوگوں کو الو بنانے کے لئے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا۔ کیونکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتلاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے ـ۔ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے ثابت مشاہدہ کئے جاچکے ہیں۔ اور یہ ستارے یا سورج جسامت کے لحاظ سے ہمارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک سورج موجود ہے جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام الفاقنطورس (Alfa Centoaris) ہے۔ ایسے ہی دوسرے سورج اس سے دو ہیں۔ اسی طرح ایک ستارے کا نام قلب عقرب ہے (Antares) ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا۔ جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل دور ہے۔ گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو سببت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ میل ہے۔ روشنی کا یہ سفر ٨ منٹ کا سفر ہے۔ گویا سورج ہم سے ٨ نوری منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلہ پر ہیں۔ یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور سب سے اوپر ہے کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے ؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے۔ جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ (قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 30؀) 9 ۔ التوبہ :30) اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی اس سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا۔ تو ایک لڑکی کے منہ سے بےساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک یہ سپوتنک میزائل پہنچا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔ فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی سے شک میں مبتلا کردے۔ ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینارہ بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ : سرکش اور مغرور فرعون پر موسیٰ (علیہ السلام) کی اتنی نرم اور حلم والی بات کا کچھ اثر نہیں ہوا، بلکہ اس نے اپنے سرداروں کو مخاطب کر کے لاف زنی شروع کردی، کہ ” اے سردارو ! میں نے اپنے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں جانا۔ “ اس سے فرعون کے تکبر کا اور اس کی حماقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ گویا وہ انھیں کہہ رہا تھا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود ہو اور جو مجھے معلوم نہیں وہ ہے ہی نہیں۔ بتائیے اس سے بڑی بےوقوفی کیا ہوگی۔ تمہیں تو یہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ تمہارے گھر میں کس کی پرورش ہو رہی ہے ؟ اس کی قوم کے سرداروں نے بھی اس کی اس یا وہ گوئی پر خاموش رہ کر اس کی تائید کی، جو ان کی جہالت اور بزدلی کی انتہا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ) [ الزخرف : ٥٤ ] ” غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بےوزن) کردیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقیناً وہ نافرمان لوگ تھے۔ “ 3 استاذ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” شاہ صاحب (رض) نے یہاں ” الٰہ “ (خدا) کا ترجمہ حاکم کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماء کا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا، بلکہ وہ خود بہت سے دیوتاؤں کی پرستش کرتا تھا۔ پس فرعون کا مطلب یہ تھا کہ میں ہی تمہارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں، میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، جس کی فرماں برداری کی جائے۔ “ (اشرف الحواشی) فرعون کے رب اعلیٰ ہونے کے دعوے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٢٧) کی تفسیر۔ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ ۔۔ : اپنے اس دعوے کے ساتھ کہ مجھے اپنے سوا تمہارا کوئی الٰہ معلوم نہیں، فرعون نے یہ دکھانے کے لیے کہ واقعی اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ وہ پکی اینٹیں تیار کرے۔ یہاں قرآن مجید کے الفاظ کے انتخاب پر توجہ فرمائیں، عربی زبان میں پکی اینٹ کے لیے ” آجُرٌّ، طُوْبٌ“ اور ” قَرْمَدٌ“ وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مگر ان سب کی ادائیگی میں ایک قسم کا ثقل پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بجائے فرمایا : (فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ ) ” تو اے ہامان ! میرے لیے مٹی پر آگ جلا “ اس جملے میں پختہ اینٹ بنانے کا طریقہ بھی بیان ہوگیا، ہامان کو اس کی تیاری کا حکم بھی اور اس جملے کے کسی لفظ میں کسی قسم کا کوئی ثقل بھی نہیں آیا، سب حروف متناسب اور سلیس ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پختہ اینٹ بنانے کی ابتدا ہامان نے فرعون کے حکم سے کی، مگر اس کی کوئی پختہ دلیل نہیں کہ اس سے پہلے پختہ اینٹیں نہیں بنتی تھیں۔ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا ۔۔ : لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے اس نے یہ حکم دیا کہ پختہ اینٹیں تیار کر کے میرے لیے ایک بلند و بالا محل بنا، تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے رب کو دیکھوں، کیونکہ میں تو اسے جھوٹا ہی گمان کرتا ہوں۔ فرعون کی یہ بات سورة مومن (٣٦، ٣٧) میں بھی بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید یا حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ اس نے وہ محل بنایا یا نہیں۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ ہامان نے کاریگر اور مزدور جمع کیے، حتیٰ کہ پچاس ہزار مستری جمع ہوگئے۔ مزدور اور کارکن اس کے علاوہ تھے۔ اسی طرح اینٹیں پکانے والے، چونا بنانے والے، لکڑی اور لوہے کا کام کرنے والے بھی ان کے علاوہ تھے۔ ان سب نے وہ عمارت بنائی جو اتنی بلند تھی کہ مخلوق میں سے کسی نے اتنی بلند عمارت نہیں بنائی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو فرعون اس کے اوپر چڑھا اور اس نے آسمان کی طرف تیر پھینکنے کا حکم دیا، وہ واپس آیا تو خون سے لت پت تھا۔ کہنے لگا، میں نے موسیٰ کے معبود کو قتل کردیا۔ فرعون گھوڑے کے ساتھ اس پر چڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورج غروب ہونے کے قریب جبریل (علیہ السلام) کو بھیجا، انھوں نے اس عمارت پر اپنا پر مارا اور اسے تین ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ ایک ٹکڑا فرعون کے لشکر پر گرا، جس نے ان میں سے دس لاکھ آدمیوں کو ہلاک کردیا، ایک ٹکڑا سمندر میں گرا اور ایک ٹکڑا مغرب میں جا گرا اور اس عمارت کے بنانے میں جس نے کچھ بھی کام کیا تھا، کوئی باقی نہ رہا۔ طبری نے اسے اختصار کے ساتھ سدی سے بیان کیا ہے۔ قرطبی نے اسے ذکر کر کے اس کے کمزور ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے : ” وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِصِحَّۃِ ذٰلِکَ “ کہ اس روایت کی صحت کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اسرائیلی روایات کی یہی مصیبت ہے کہ ان کی کوئی سند ہوتی ہے نہ ان کا سرا کہیں جا کر ملتا ہے۔ اس زمانے میں صرف مصر کے اندر دس لاکھ کے لشکر کی بات بھی قابل توجہ ہے۔ حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ یہ فرعون کی محض گیدڑ بھبکی تھی، جس کے ساتھ وہ اپنی قوم کو بیوقوف بنا رہا تھا۔ اینٹیں بنانے کا حکم بھی اس نے معاملے کو لٹکانے کے لیے دیا، ورنہ مصری لوگوں کو اینٹوں کی ضرورت ہی نہ تھی، جو لوگ اہرام مصر اتنے بڑے بڑے پتھروں سے بنا سکتے ہیں، جن میں سے ہر پتھر کا حجم عام کمرے کے مکمل حجم کے برابر ہے، انھیں اینٹیں پکانے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ صرف وقت گزاری کی کارروائی تھی، ویسے بلند و بالا پہاڑوں کے ہوتے ہوئے اینٹوں سے عمارت بنانے کا حکم دینا، جو کسی طرح بھی پہاڑوں جتنی بلند نہیں ہوسکتی، محض دھوکا تھا۔ جیسا کہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا تھا : (ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّهٗ ) [ المؤمن : ٢٦ ] ”(اور فرعون نے کہا) مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ “ بندہ پوچھے تمہیں کس نے پکڑا ہوا ہے، جسے چھوڑنے کے لیے کہہ رہے ہو ! ہمت ہے تو ہاتھ بڑھا کر تو دیکھو۔ 3 مفسر عبدالرحمان کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو اُلّو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کہی تھی اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسی چند برس پیشتر روس نے، جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنک طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں، مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہوسکتی ہے اور اس واقعہ کو بھی انھوں نے لوگوں کو اُلّو بنانے کے لیے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا، حالانکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے۔ یہ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے، جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے یا ثوابت مشاہدہ کیے جا چکے ہیں اور یہ ستارے یا سورج ہمارے سورج سے جسامت کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سورج موجود ہے، جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام قلب عقرب ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا، جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل ہے، گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو ہیئت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے، روشنی کا یہ سفر آٹھ منٹ کا سفر ہے، گویا سورج ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر ہیں۔ یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا، وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور ان سب سے اوپر ہے، کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے ؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے، جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ [ قٰتَلَھُمُ اللہ انی یوفکون ] اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی کہ اپنی سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا، تو ایک لڑکی کے منہ سے بےساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک سپوتنک میزائل پہنچا تھا اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔ فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی، جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی کے بارے میں شک میں مبتلا کر دے، ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینار بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔ “ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ : یعنی موسیٰ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کو پالنے والا ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ (So kindle for me, 0 Haman, a fire on the clay (to bake bricks) - 28:38). When the Pharaoh planned to build a very tall palace for himself, he asked his minister Haman to get the bricks baked properly first, because half baked bricks could not take the load of a tall building. Some people have observed that the Pharaoh was the first one to have tough bricks baked for the buildings, as no one had used them before. Historical narrations have recorded that Haman had collected fifty thousand masons for building this palace. Skilled labour, such as carpenters and blacksmith, were additional. This palace was built so tall that there was no parallel to it in the world. When it was completed, Allah Ta` ala commanded Jibra&il (علیہ السلام) to knock it down. He struck only one blow to it and it tumbled down in three pieces, killing thousands of soldiers of the Pharaoh&s army. (Qurtubi)

معارف و مسائل فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ ، فرعون نے بہت اونچا بلند محل تیار کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے وزیر ہامان کو اس کی تیاری کے لئے پہلے یہ حکم دیا کہ مٹی کی اینٹوں کو پکا کر پختہ کیا جائے کیونکہ کچی اینٹوں پر کوئی بڑی اور اونچی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ فرعون کے اس واقعہ سے پہلے پختہ اینٹوں کی تعمیر کا رواج نہ تھا سب سے پہلے فرعون نے یہ ایجاد کرائی۔ تاریخی روایات میں ہے کہ ہامان نے اس محل کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار معمار جمع کئے مزدور اور لکڑی لوہے کا کام کرنے والے ان کے علاوہ تھے اور محل کو اتنا اونچا بنایا کہ اس زمانے میں اس سے زیادہ بلند کوئی تعمیر نہیں تھی۔ پھر جب یہ تیاری مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو حکم دیا، انہوں نے ایک ضرب میں اس محل کے تین ٹکڑے کر کے گرا دیا جس میں فرعونی فوج کے ہزاروں آدمی دب کر مر گئے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۝ ٠ۚ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰہَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓى اِلٰہِ مُوْسٰي۝ ٠ۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝ ٣٨ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، ( م ل ء ) الملاء ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے وقد يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ ( و ق د ) وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج/ 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل طين الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] . ( ط ی ن ) الطین ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ صرح الصَّرْحُ : بيت عال مزوّق سمّي بذلک اعتبارا بکونه صَرْحاً عن الشّوب أي : خالصا . قال اللہ تعالی: صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] ، يلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ [ النمل/ 44] ، ولبن صَرِيحٌ بيّن الصَّرَاحَةِ ، والصَّرُوحَةِ ، وصَرِيحُ الحقّ : خلص عن محضه، وصَرَّحَ فلان بما في نفسه، وقیل : عاد تعریضک تَصْرِيحًا، وجاء صُرَاحاً جهارا . ( ص ر ح ) الصرح ؛بلند منقش ومزین مکان ۔ ہر قسم کے عیب سے پاک ہونے کے اعتبار سے اسے صرح کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] ایسا محل ہے جس کے ( نیچے بھی ) شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔ يلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ [ النمل/ 44]( پھر اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے ۔ لبن صریح : خالص دودھ ۔ صریح الحق : خالص حق جس میں باطل کی آمیزش نہ ہو صرح فلان فی نفسہ فلاں نے اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کردی ۔ محاورہ ہے ۔ عاد تعریضک تصریحا ۔ تمہاری تعریض نے تصریح کا کام دیا ۔ جاء صراحا : وہ کھلے بندوں آیا ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ طَلَعَ طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) فرعون نے کہا اے مصر والو ! مجھے تو تمہارا اپنے سوا کوئی اللہ معلوم نہیں ہوتا سو تم موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی مت کرنا اور اے ہامان تم ہمارے لیے مٹی کی اینٹیں بنوا کر ان کو آگ میں پکواؤ اور ان اینٹوں سے میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے اللہ کو دیکھوں اور میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو اس دعوے میں کہ کوئی اور اللہ بھی اوپر ہے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ج) ” اس ملک میں میری حکومت ہے اور یہاں صرف میرا حکم چلتا ہے۔ چناچہ میں اپنے علاوہ کسی اور کو تمہار ١ ” الٰہ “ یا ” رب “ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ (فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ ) ” یعنی گارے سے اینٹیں بنا کر انہیں بھٹے میں پکانے کا بندوبست کرو۔ (فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ الآی اِلٰہِ مُوْسٰیلا) ” موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے ‘ میں اس اونچی عمارت پر چڑھ کر آسمانوں میں جھانک کر اس الٰہ کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 By this Pharaoh did not, and could not, mean that he was the creator of his people and the earth and the heavens, for such a thing be uttered only by a madman. Likewise; he also did not mean that they had no other deity besides him for the Egyptians worshipped many gods, and the Pharaoh himself had been made the incarnation of the sungod. The Qur'an testifies that the Pharaoh himself worshipped many gods: "The chiefs of Pharaoh's people said, `Will you leave Moses and his followers free to spread disorder in the land, and to discard you and your deities'?" (A1-A`raf: 127) Therefore, inevitably, the Pharaoh had not used the word "god" here for himself as a creator and deity, but as an absolute and supreme sovereign. What he meant was this: "I am the owner of this land of Egypt: I alone will rule here: My law will be the law of the land; I alone shall be accepted as the fountainhead of all commands and prohibitions here. None else is entitled to give commands in this country. Who is this Moses, who has appeared as the delegate of the Lord of the universe and is conveying orders to me as though he is the ruler and I am his subordinate?" That is why he addressed his courtiers, thus: "O people: Is not the kingdom of Egypt mine? And are not these canals flowing beneath me?" (Az-Zukhruf: 51) And that is why he said to Moses again and again, "Have you come to turn us away from the faith of our forefathers so that you too may dominate over the land?" (Yunus: 78) "O Moses, have you come to drive us out of our land by the power of your sorcery?" (Ta Ha: 57) "I fear he will change your religion, or cause mischief to appear in the land." (Al-Mu'min: 26) If the matter is considered from this angle it will become evident that the position of Pharaoh was no different from the position of those states which claim political and legal sovereignty independent of Divine Law brought by the Prophets. Whether they accept a king as the fountainhead of law and commands and prohibitions, or the will of the nation, in any case as long as they stick to the position that the country will be ruled by their law and not by the Law of AIlah and His Messengers, there will be no fundamental difference between their position and that of Pharaoh. It is, however, a different thing that the ignorant people curse Pharaoh but approve these as lawful. A person who understands reality will look for the spirit and sense and not merely for words and terminology. Pharaoh had used the word "god" for himself but these stales use the term "sovereignty" in the same sense. (For further explanation, see E.N. 21 of Ta'Ha. 53 This was the same kind of mentality as the Russian communists of today are displaying. They launch Sputniks and Lunics and tell the world that these balls have not found God anywhere above. That stupid man of yore wanted to see God from the top of a tower. This shows that the extent of the imagination of the straying people during the past 3,500 years has remained where it was. They have not advanced even an inch. It is not known who told them that the Being Whom the God-worshippers acknowledge as the Lord of the universe resided some where above according to their belief. And if they do not see Him a few thousand feet or a few lakh miles above the earth's surface in this limitless universe, it will be a proof that He exists nowhere. The Qur'an does not specify whether Pharaoh actually got such a tower built and tried to see God from the top of it, but it only relates what he said. Apparently, he did not commit the folly. He only meant to befool the people. This also is not clear whether Pharaoh was, in actual fact, a disbeliever in the Being of the Lord of the universe, or talked atheism only due to stubbornness. In this regard his sayings point to the same mental confusion which one finds in the statements of the Russian Communists. Sometimes he wanted to climb into the sky and come back to tell the world that he had nowhere seen the God of Moses, and sometimes he would say, "Why were not bracelets of gold sent down on him, or a company of angels as attendants?" (Az-Zukhruf: 53) These things are not much different from what a former Prime Minister of Russia, Khrushchev, said. He sometimes rejected God and sometimes invoked Him and swore by Him. We are of the opinion that after the passage of the period of the Prophet Joseph and his successors when Egypt was dominated by the Coptic nationalism and a political revolution took place in the country owing to the racial and nationalistic prejudice, the new leaders, in their nationalistic enthusiasm, revolted against the God also towards Whom the Prophet Joseph and his followers, the Israelites and the Egyptian Muslims, had been calling the people. They thought that if they believed in God, they would never be able to shed the influence and impact of the civilization brought about by the Prophet Joseph. For if that civilization remained, they would never be able to consolidate, their political influence. For them belief in God and Muslim sovereignty were inseparable and inter-dependent. Therefore, to get rid of the one it was necessary to reject the other, although they could not root out belief in One God from the depths of their hearts.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 52 اس قول سے فرعون کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں تھا کہ اور نہیں ہوسکتا تھا کہ میں ہی تمہارا اور زمین و آسمان کا خالق ہوں ، کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کے منہ سے نکل سکتی تھی ، اور اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، کیونکہ اہل مصر کے مذہب میں بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی اور خود فرعون کو جس بنا پر معبودیت کا مرتبہ دیا گیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سورج دیوتا کا اوتار مانا جاتا تھا ، سب سے بڑی شہادت قرآن مجید کی موجود ہے کہ فرعون خود بہ سے دیوتاؤں کا پرستار تھا: وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۔ اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسی اور اس کی قوم کو چھوٹ دے دے گا کہ ملک میں فساد برپا کریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں ۔ ( الاعراف ، آیت 127 ) اس لیے لامحالہ یہاں فرعون نے لفظ خدا اپنے لیے بمعنی خالق و معبود نہیں بلکہ بمعنی مطیع و حاکم مطلق استعمال کیا تھا ۔ اس کا مدعا یہ تھا کہ اس سرزمین مصر کا مالک میں ہوں ۔ یہاں میرا حکم چلے گا ، میرا ہی قانون یہاں قانون مانا جائے گا ۔ میری ذات ہی یہاں امر و نہی کا سرچشمہ تسلیم کی جائے گی ، کوئی دوسرا یہاں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے ، یہ موسی کون ہے جو رب العالمین کا نمائندہ بن کر ا کھڑا ہوا ہے اور مجھے اس طرح احکام سنا رہا ہے کہ گویا اصل فرمنروا یہ ہے اور میں اس کا تابع ہوں ۔ اسی بنا پر اس نے اپنے دربار کے لگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَهٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ ۔ اے قوم ، کیا مصر کی بادشاہی میری ہی نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے تحت جاری نہیں ہیں ( الزخرف ، آیت 51 ) اور اسی بنا پر وہ حضرت موسی سے بار بار کہتا تھا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ ۔ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے ہٹا دے جو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور اس ملک میں بڑائی تم دونوں بھائیوں کی ہوجائے ( یونس ، آیت 78 ) اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى ۔ اے موسی کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہماری زمین سے بے دخل کردے ( طہ ، آیت 57 ) اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ ۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ شخص تم لوگوں کا دین بدل ڈالے گا ، یا ملک میں فساد برپا کرے گا ۔ ( المومن ، آیت 26 ) اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کی پوزیشن ان ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو خدا کے پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت سے آزاد و خود مختار ہوکر اپنی سیاسی اور قانونی حاکمیت کی مدعی ہیں ۔ وہ خواہ سرچشمہ قانون اور صاحب امر و نہی کسی بادشاہ کو مانیں یا قوم کی مرضی کو ، بہرحال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اور اس کے رسول کا بلکہ ہمارا حکم چلے گا اس وقت تک ان کے اور فرعون کے موقف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بے شعور لوگ فرعون پر لعنت بھیجتے رہیں اور ان کو سند جواز عطا کرتے رہیں ، حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تو معنی اور روح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اور اصطلاحات کو ۔ آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے الہ کا لفظ استعمال کیا تھا ، اور یہ اسی معنی میں حاکمیت کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، سورہ طہ ، حاشیہ 21 ) سورة القصص حاشیہ نمبر : 53 یہ اسی قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانے کے ر وسی کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں ، یہ اسپٹنک اور لونک چھوڑ کر دنیا کو خبر دیتے ہیں کہ ہماری ان گیندوں کو اوپر کہیں خدا نہیں ملا ۔ وہ بے وقوف ایک مینارے پر چڑھ کر خدا کو جھانکنا چاہتا تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کے ذہن کی پرواز ساڑھے تین ہزار برس پہلے جہاں تک تھی آج بھی وہیں تک ہے ۔ اس اعتبار سے ایک انگل بھر ترقی بھی وہ نہیں کرسکے ہیں ۔ معلوم نہیں کسی احمق نے ان کو یہ خبر دی تھی کہ خدا پرست لوگ لوگ جس رب العالمین کو مانتے ہیں وہ ان کے عقیدے کی رو سے اوپر کہیں بیٹھا ہوا ہے ، اور اس اتھاہ کائنات میں زمین سے چند ہزار فیٹ یا چند لاکھ میل اوپر اٹھ کر اگر وہ انہیں نہ ملے تو یہ بات گویا بالکل ثابت ہوجائے گی کہ وہ کہیں موجود نہیں ہے ۔ قرآن یہاں یہ نہیں کہتا کہ فرعون نے فی الواقع ایک عمارت اس غرض کے لیے بنوائی تھی اور اس پر چڑھ کر خدا کو جھانکنے کی کوشش بھی کی تھی ، بلکہ وہ اس کے صرف اس قول کو نقل کرتا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عملا یہ حماقت نہیں کی تھی ، ان باتوں سے اس کا مدعا صرف بے وقوف بنانا تھا ۔ یہ امر بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ فرعون آیا فی الواقع خداوند عالم کی ہستی کا منکر تھا یا محض ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر دہریت کی باتیں کرتا تھا ۔ اس کے اقوال اس معاملہ میں اسی ذہنی الجھاؤ کی نشان دہی کرتے ہیں جو روسی کمیونسٹوں کی باتوں میں پایا جاتا ہے ۔ کبھی تو وہ آسمان پر چڑھ کر دنیا کو باتانا چاہتا تھا کہ میں اوپر دیکھ آیا ہوں ، موسی کا خدا کہیں نہیں ہے ، اور کبھی وہ کہتا فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ ۔ اگر موسی واقعی خدا کا بھیجا ہوا ہے تو کیوں نہ اس کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے ، یا اس کی اردلی میں ملائکہ نہ آئے ۔ یہ باتیں روس کے ایک سابق وزیر اعظم خروشچیف کی باتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو کبھی خدا کا انکار کرتا اور کبھی بار بار خدا کا نام لیتا اور اس کے نام کی قسمیں کھاتا تھا ۔ ہمارا قیاس ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے خلفاء کا دور اقتدار گزر جانے کے بعد جب مصر میں قبطی قوم پرستی کا زور ہوا اور ملک میں اسی نسلی و وطنی تعصب کی بنیاد پر سیاسی انقلاب رونما ہوگیا تو نئے لیڈروں نے اپنے قوم پرستانہ جوش میں اس خدا کے خلاف بھی بغاوت کردی جس کو ماننے کی دعوت حضرت یوسف اور ان کے پیرو اسرائیلی اور مصری مسلمان دیتے تھے ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ خدا کو مان کر ہم یوسفی تہذیب کے اثر سے نکل سکیں گے ، اور یہ تہذیب باقی رہی تو ہمارا سیاسی اثر بھی مستحکم نہ ہوسکے گا ۔ وہ کدا کے اقرار و مسلم اقتدار کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے ، اس لیے ایک سے پیچھا چھڑانے کی خاطر دوسرے کا انکار ان کے نزدیک ضروری تھا ، اگرچہ اس کا اقرار ان کے دل کی گہرائیوں سے کسی طرح نکالے نہ نکلتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یہ اس نے محض مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨ تا ٤٠۔ جن مفسروں نے اپنی تفسیریں عقلی طور پر لکھی ہیں انہوں نے ان آیتوں کی تفسیر میں طرح طرح کی باتیں لکھی ہیں زمخشری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس قول سے فرعون کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کا منکر تھا قاضی بیضاوی نے لکھا ہے کہ نہیں فرعون کا مطلب یہ تھا کہ کسی دلیل سے خدا کا موجود ہونا اب تک اس کو معلوم نہیں ہو تھا اسی واسطے خدا کے موجود ہونے کا علم حاصل کرنے کے لیے اس نے آسمان تک جانے کے لیے وہ اونچی مینار بنائی تھی اگو وہ خدا کا منکر ہوتا تو پھر مینار کیوں بنواتا اور اس طرح کی عقلی بحثیں اور تفسیروں میں بھی ہیں لیکن قرآن شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون دہر یہ تھا۔ اور خدا کا منکر تھا اور اس میں یہ بات فرقہ دہر یہ سے بھی بڑھ کر تھی کہ وہ گمراہی کے سبب سے اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدا تعالیٰ کا ذکر کیا تو اس نے صاف کہ دیا کہ فرعون کے سوا کوئی دوسرا خدا تم قرار دوگے تو تم کو قید کردیا جاوے گا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملعون دہر یہ اس قدر خدا کا منکر تھا کہ خدا کے نام لینے کو بھی قید کے قابل جرم گنتا تھا اس لیے اس نے اپنی تمام قوم کو جمع کر کے ڈھنڈورہ پٹوا دیا تھا کہ فرعون ہی نعوذباللہ من ذالک ان سب کا خدا ہے چناچہ اس ڈھنڈورے کا ذکر سورة والنا زعات میں آوے گا۔ ناقابل اعتراض سند سے تفسیر ابن مردو یہ میں حضرت عبداللہ بن (رض) عباس سے روایت ١ ؎ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرعون نے یہ دو باتیں ہوتی تھیں ایک تو یہ کہ سوا اپنے اس کو کوئی اور خدا معلوم نہیں ہوتا دوسری یہ کہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا وہی ان کا خدا ہے یہ دوسری بات اس نے پہلی بات کے چالیس برس کے بعد کہی اس دوسری بات کے کہتے ہی خدا کے عذاب میں وہ گرفتار ہوگیا۔ معتبر سند سے تفسیر ابن حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی دوسری روایت ١ ؎ ہے جب کا حاصل یہ ہے کہ پہلی بات جب فرعون نے کہی تو جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اللہ یہ شخص اب بہت گمراہ ہوگیا ہے اس کی ہلاکت کا حکم ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابھی اس کی ہلاکت کا وقت نہیں آیا ہے جب اس نے دوسری بات کہی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حضرت جبرئیل سے فرمایا اب اس کا وقت قریب آگیا ہے غرض جس منار کا ذکر ان آیتوں مکیں ہے۔ وہ منار اس دہریہ نے اپنی قوم کو یہ دھوکہ دینے کے لیے بنوائی کہ وہ حضرت موسیٰ کو جھوٹا جانتا ہے اس بےمنار بنواتے وقت اس نے حضرت موسیٰ کے حق میں یہ بات کہی تھی وانی لا ظنہ من الکاذ بین جس سے صاف معلوم ہوتا کہ منار بنواتے وقت خدا کی ہستی کا اس کے دل میں خیال اور گمان نہیں تھا اور وہ ملعون موسیٰ کو فقط اس بات میں نہیں جھٹلاتا تھا کہ حضرت موسیٰ خدا کے رسول ہیں بلکہ وہ اس بات میں ان کو جھٹلاتا تھا کہ سوا اس کے اور کوئی خدا نہیں ہے پھر یہ کس خدا کا رسول اپنے آپ کو بتلاتے ہیں سورة یونس میں جہاں یہ ذکر ہے کہ غرق ہوتے وقت فرعون نے یہ کہا کہ میں بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لایا وہاں اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون نے ایسے وقت خدا کے موجود ہونے اور اس کے معبود ہونے کا اقرار کیا کہ اس وقت کا اقرار مفید نہیں اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سے پہلے کبھی فرعون کے دل میں خدا کے موجود ہونے کا خیال نہیں آیا تفسیر عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم میں قتادہ کا قول ہے کہ پہلے پہل پختہ اینٹوں کا بنانا فرعون نے نکالا ہے اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ جب فرعون کے حکم کے موافق یہ اونچی منار اس کے وزیر ہامان نے بنائی تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اس کو اپنا پر مار کر گرا دیا جس سے بہت سے آدمی فرعون کے لشکر کے ہلاک ہوگئے۔ اب اس منار کا قصہ کے بعد مختصر طور پر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکر کی سرکشی اور فرعون کے غرق ہونے کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ قریش کو عبرت ہوجائے کہ اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام یہ ہوتا ہے باوجود اس قدر لشکر کے رسول وقت کی مخالفت کے سبب سے جب ایک دم میں فرعون مع اپنے لشکر کے ہلاک ہوگیا تو قریش کے پاس تو نہ لشکر ہے نہ بادشاہت نہ فرعون کی سی حکومت پھر کس بھروسہ پر یہ لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں کیا اس ان کا ہلاک کرنا اللہ کے نزدیک فرعون کے ہلاک کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے دہر یہ لوگ خدا کی ہستی قائل نہیں اسی لیے یہ لوگ مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے اور حساب و کتاب کے واسطے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کی بھی منکر ہیں اسی کو فرمایا وظننوا انھم الینا لایر جعون صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ٢ ؎ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث اور گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ تک چاہتا ہے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے پھر جب انہیں پکڑتا ہے تو بالکل برباد کردیتا ہے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ایک مدت تک اللہ تعالیٰ نے مہلت دی جب وہ لوگ مہلت ملنے کے زمانہ میں اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو ان سب کو دریائے قلزم میں ڈبو کر ہلاک کردیا جس کا قصہ اوپر گزر چکا ہے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر قریش کو نافرمان لوگوں کے انجام سے ڈرایا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر۔ ) (١ ؎ تفسیر المنثور ص ١٢٨ ج ٥۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:38) اوقد۔ فعل امر واحد مذکر تو آگ جلا۔ تو آگ سلگا۔ تو آگ روشن کر۔ ایقاد افعال مصدر وقود۔ ایندھن کی لکڑیاں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اے ہامان میرے لئے مٹی پر آگ جلاؤ اور اینٹیں پکاؤ۔ صرحا لعلی : صرحا۔ بلند، منقش و مزین مکان (جو ہر عیب سے پاک ہو) اس لئے لبن صریح خالص دودھ کو کہتے ہیں جس میں پانی کی ملاوٹ نہ ہو۔ لعلی۔ تاکہ میں۔ شاید کہ میں لعل حرف مشبہ بفعل ی ضمیر واحد متکلم اس کا اسم ۔ اطلع الی : اصعد الی۔ میں چڑھ جاؤں (موسی کے خدا کی طرف) یعنی اوپر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کو دیکھوں۔ اطلع یطلع اطلاع (افتعال) سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر متکلم۔ میں جھانکوں۔ میں اطلاع پاؤں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ شاہ صاحب (رح) نے یہاں ” الہ “ (خدا) کا ترجمہ ” حاکم “ کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماکا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا بلکہ وہ خود بہت سے دیوتائوں کی پرستش کرتا تھا۔ ( سورة اعراف :127) پس فرعون کا مطلب یہ ہے کہ میں ہی تمہارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں۔ میرے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوسکتا جس کی فرمانبرداری کی جائے۔ 5 ۔ جو یہ کہتا ہے کہ میرا خدا آسمان پر ہے فرعون نے جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا، ہر دور میں خدا کے منکر ایسی باتیں کھلتے آئے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے ظالمانہ رویہ کی انتہا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کے مقابلہ میں فرعون اپنے آپ کو بےبس محسوس کرنے لگا تو اس نے دیوانے کے بھڑ مارنے کی مانند بھڑ مارتے ہوئے اپنے وزیروں، مشیروں کو کہا کہ میں یہ بات کسی حال میں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کہ میرے سوا بھی تمہارا کوئی الٰہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بھڑ مارتے ہوئے اپنے دست راست وزیر ہامان کو کہا اے ہامان ! ملک بھر کے بھٹوں میں فی الفور پکی اینٹیں کثیر تعداد میں تیار کروائی ایک فلک بوس ٹ اور تیار کیا جائے۔ تاکہ بلند وبالا عمارت پر چڑھ کر دیکھوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا کہاں رہتا ہے۔ کیونکہ مصر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا وجود مجھے نظر نہیں آتا۔ اگر وہ آسمان پر ہے تو میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ سب کچھ لوگوں کی تسلّی کے لیے ہے ورنہ مجھے یقین ہے کہ موسیٰ کذّاب انسان ہے۔ اس قسم کی گفتگو اور ظالمانہ اقدامات کے سبب فرعون اور اس کا لشکر ملک میں بڑے بن بیٹھتے تھے۔ جس کا انھیں کسی صورت استحقاق نہ تھا۔ وہ ظلم اور فخر و غرور میں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ رب ذوالجلال کے حضور کبھی جواب دہ نہ ہوں گے۔ فرعون اور اس کے آباؤ اجداد کئی پشتوں سے قانونی اور سیاسی اختیارات میں اپنے آپ سے کسی کو برتر نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ اس کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے تھے جیسا کہ بڑے لوگوں کے سامنے لوگ جھکا کرتے ہیں۔ اسی بات کو ان کی خدائی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرعون کی طرح متکبرانہ بات ماضی قریب کی نام نہاد سپر پاور روس نے کہی تھی۔ روس کے خلا باز جب خلا (Space) میں چاند سے ہو کر آئے تو کہنے لگے کہ ہمیں تو کہیں مسلمانوں کا خدا نہیں ملا۔ یہ کائنات کتنی بڑی ہے ؟ اصل حقیقت تو خالق کائنات ہی جانتا ہے۔ درج ذیل معلومات سے اندازہ ہونے میں مدد ملے گی۔ کائنات میں فاصلوں کی پیمائش کے لیے جو اکائی استعمال کی جاتی ہے اسے نوری سال (Light Year) کہتے ہیں یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اس کی مقدار (9.46X10 , 12KM) ہے۔ جس کہکشاں میں ہمارا نظام شمسی (Solar System) واقع ہے اسے (Milky Way Galaxy) کہتے ہیں۔ اس کا قطر ایک لاکھ نوری سال (10000 Light Years) ہے اس میں لگ بھگ ایک سوبلین ستارے دریافت ہوچکے ہیں۔ Milky way سے اگلی کہکشاں 8 لاکھ نوری سال (800000 Light Years) کے فاصلے پہ واقع ہے ابھی تک بیسیوں ملین کہکشائیں (Tens of Millions Galaxies) دریافت ہوچکی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود ستاروں ( Stars) کی تعداد کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا تاہم ان کی تعداد بلین بلین (Billion Billion=1024) سے زیادہ ہے۔ The Guinnes encyclopedia of Science یہ بیوقوف ایک نوری سال کے بھی کئی ہزار ویں حصے کا فاصلہ طے کر آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ متکبرانہ اور گستاخانہ بات کرنے والے فرعون کو اللہ تعالیٰ نے سمندر میں ڈبو کر اس کی لاش کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا چھوڑا۔ دور جدید کے متکبرانہ نظام روس کو بھی اللہ تعالیٰ نے تمام جدید ترین ٹیکنالوجی کی دسترس کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر کے دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن) (فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِ ) [ الحشر : ٢] ” اے دانا و بینا نصیحت حاصل کرو۔ “ مسائل ١۔ فرعون نے ہر حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو چیلنج کر رکھا تھا۔ ٢۔ فرعون کے بعد ہامان سب سے بڑا باغی اور متکبر شخص تھا۔ ٣۔ فرعون اور اس کے ساتھی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی پیشی کو یکسر بھول چکے تھے۔ تفسیر بالقرآن اِلٰہ حقیقی کا مختصر تعارف : ١۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔ ١٦٣) ٢۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٣۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ : ٧٣) ٤۔ فرما دیجیے اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٥۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل : ٥١) ٦۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٧۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦١) ٨۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٩۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ١٠۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ١١۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ١٢۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ١٣۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص : ٧٢) ١٤۔ اگر دو الٰہ ہوتے تو فساد ہوجاتا۔ ( الانبیاء : ٢٢) ١٥۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ فرعون کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بعض لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت سے متاثر نہ ہوجائیں اس لیے اصل حقیقت پر پردہ اور ان کے دلوں میں شبہات ڈالنے کے لیے ازراہ خیر خواہی لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا اے شرفاء قوم ! گذشتہ زمانے میں تو مجھے اپنی ذات کے سوا تمہارا کوئی معبود معلوم نہیں ہوسکا اگر کوئی ہوتا تو میں تمہیں ضرور بتاتا۔ اور اب میں اس کی مزید تحقیق کرتا ہوں۔ فاوقد لی یہامن علی الطین الخ ارے ہامان فورًا پختہ اینٹوں کی بھٹی چڑھاأ اور ایک بہت ہی بلند مقام پر نہایت اونچی رصد گہ تعمیر کرو تاکہ میں اس پر چڑھ کر دیکھوں موسیٰ کا خدا کہاں ہے جسے وہ رب العالمین کہتا ہے۔ مجھے تو موسیٰ کا یہ دعوی سراسر غلط اور جھوٹا معلوم ہوتا ہے (العیاذ باللہ) ۔ اعلم ان فرعون کانت عادتہ متی ظھرت حجۃ موسیٰ ان یتعلق فی دفع تلک الحجۃ بشبھۃ یروجھا علی اغمار قومہ وذکر ھھنا شبہتین الاولی قولہ ما علمت لکم من الہ غیر الشبہۃ الثانیۃ قولہ فاوقد لی یہامن علی الطین الخ (کبیر ج 6 ص 608) ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرعون کے حکم کے مطابق ہامان نے ایک نہایت ہی بلند وبالا عمارت تعمیر کی لیکن یہ صحیح نہیں۔ فرعون نے صرف دفع الوقتی کے لیے یہ بات کہی تھی نہ اس نے بنوائی اور نہ اس کا ارادہ ہی تھا۔ الاقرب انہ کان اوھم البناء ولم یبن (کبیر) ۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں سورة مومن میں اس قصے کے انداز بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ محل وغیرہ کوئی نہیں بنایا گیا کیونکہ وہاں فرعون کے حکم یاھامن ابن لی صرحا لعلی الخ کے بعد مومن آل فرعون کی تقریر ہے اور اس کے بعد فرعون اور اس کی قوم کے گرفتار عذاب ہو کر ہلاک ہونے کا ذکر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

38۔ اور فرعون نے اپنے مشیروں اور سرداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا اے اہل دربار میں تو سوائے اپنے تمہارے لئے کسی اور معبود کو جانتا نہیں پھر اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا اے ہامان ! تو میرے لئے مٹی کی کچی انیٹوں کو آگ میں پکوا کر ان پکی اور پختہ اینٹوں سے میرے لئے ایک محل اور بلند عمارت بنوا تا کہ میں ذرا موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود کی ٹوہ لگائوں اور دیکھ بھال کروں اور میں موسیٰ (علیہ السلام) کے رب کو جھانک کر دیکھ لوں اور میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں اور میری اٹل میں تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) جھوٹا ہے۔ یعنی فرعون کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ اہل دربار موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل سے متاثر ہوکر موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کے قائل نہ ہوجائیں اس لئے ان کی توجہ کو مٹانے اور ہٹانے کے لئے اہل دربار کو مخاطب کیا اور کہنے لگا اے اہل دربارمجھ کو تو سوائے اپنے تمہارا کوئی اور معبود معلوم نہیں ہوتا ۔ اے ہامان تو ایسا کر گارے کی کچی اینٹوں کو تو آگ جلا کر پکا لے اور جب پکی اینٹیں تیار ہوجائیں تو ان اینٹوں سے ایک بلند عمارت تیار کر ا تا کہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود اور اس کے رب کا پتہ لگائوں ۔ یہ بےخوف سمجھا کہ وہ آسمان میں بیٹھا ہوگا اور باوجود اس کوشش کے اس نے یہ بھی کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا سمجھتا ہوں ۔ غرض ! وہ محل پچاس ہزار راج مزدوروں کی محنت سے تیار ہوا سمجھا یہ تھا کہ آسمان کچھ قریب ہوجائیگا اس کی چھت پرچڑھ کر دیکھا تو آسمان اتنا ہی اونچا نظر آیا جتنا نیچے سے نظر آتا تھا۔ ذلیل و شرمندہ ہو کر نیچے آگیا اور بجائے دین حق کو قبول کرنے کے اس کی سرکشی اور تکبر اور بڑھ گیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں گارے کو آگ دے یعنی پکی اینٹ بنا کہتے ہیں پکی اینٹ اول اسی نے نکالی عمارت اونچی بنادے تو پتھر کے بوجھ سے گر نہ پڑے۔ 12