Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 50

سورة القصص

فَاِنۡ لَّمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکَ فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا یَتَّبِعُوۡنَ اَہۡوَآءَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَیۡرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿٪۵۰﴾  8

But if they do not respond to you - then know that they only follow their [own] desires. And who is more astray than one who follows his desire without guidance from Allah ? Indeed, Allah does not guide the wrongdoing people.

پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کر لے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے ، بیشک اللہ تعالٰی ظالم لوگوں کوہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ ... But if they answer you not, means, `if they do not respond to what you tell them, and do not follow the truth,' ... فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءهُمْ ... then know that they only follow their own lusts. means, with no basis or evidence. ... وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ... And who is...  more astray than one who follows his own lusts, without guidance from Allah, means, with no guidance taken from the Book of Allah. ... إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ Verily, Allah guides not the people who are wrongdoers.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501یعنی قرآن و تورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کرسکیں اور یقینا نہیں کرسکیں گے۔ 502یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو ایسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] ان کی باتوں اور ان کے اعتراضات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ لوگ قطعاً ہدایت کے طالب نہیں ہیں بلکہ یہ صرف ایسی کتاب کی پیروی کرسکتے ہیں جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ گویا یہ لوگ اپنی ہی خواہشات کے پیرو اور پرستار ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کو ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ ۔۔ : پھر اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ قبول نہ کریں تو جان لو کہ ان کے پاس کوئی دلیل یا حجت نہیں، بلکہ وہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یہ مطالبہ قبول کرسکتے ہیں، بلکہ یہ بات ان کے عجز کے اظہار کے لیے کہی جا رہی ہے، کیونکہ سب جان... تے ہیں کہ ایسی کتاب کہاں سے آسکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا : فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ) [ البقرۃ : ٢٤ ] ” پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کرو گے تو اس آگ سے بچ جاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ “ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ :” اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ “ اس آیت میں تقلید کا زبردست رد ہے، کیونکہ تقلید کی تعریف ہے : ” أَخْذُ قَوْلِ الْغَیْرِ بلاَ دَلِیْلٍ “ کہ اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات کو بلا دلیل لے لینا۔ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت دلیل ہے، جو قرآن اور سنت ہے۔ اس کو چھوڑ کر جس کی بھی بات مانی جائے وہ خواہش کی پیروی ہے، جس سے بڑی گمراہی کوئی نہیں۔ رازی نے بھی اس آیت کو تقلید کے رد کی دلیل قرار دیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : یہ کہنے کے بجائے کہ اللہ ایسے لوگوں کو جو خواہش کی پیروی کریں، ہدایت نہیں دیتا، فرمایا، اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، یعنی اللہ کی ہدایت کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرنے والے ظالم ہیں اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا، کیونکہ وہ ظلمت میں رہنا پسند کرتے ہیں اور جو چیز جہاں رکھنی چاہیے وہاں رکھنے کے بجائے دوسری جگہ رکھتے ہیں (ظلم کا یہی معنی ہے) اور جو اندھیرے میں رہنے پر اصرار کرے اسے ہدایت کی روشنی کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۝ ٠ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٥٠ۧ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن...  الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہی  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر اگر اس احتجاج کے بعد یہ گمراہ آپ کا کہا پورا نہ کرسکیں تو آپ سمجھ لیجے کہ یہ لوگ کفر و شرک اور بتوں کی پوجا میں گرفتار ہیں۔ اور حق وہدایت سے اس شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو کفر وشرک اور بتوں کی پوجا میں گرفتار و سوائے اس کے اللہ کی طرف سے اس کے پاس اس چیز پر کوئی دل... یل ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے مشرکوں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو اپنے دین کی ہدایت نہیں کیا کرتا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دلیل کو بھی اگر یہ لوگ تسلیم نہ کریں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠ تا ٥٣۔ حضرت نوح جو سب سے پہلے صاحب شریعت نبی ہیں ان کے زمانہ سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک جس قدر پہلی امتیں اللہ کے رسولوں کی نافرمانی میں ہلاک ہوئیں ان کا ذکر قرآن شریف میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اوس ذکر میں سے فرعون کے غرق ہونے کے تذکرہ کا ٹکڑا اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں ذکر فر... ما کر اس آیت میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نافرمان لوگوں کو ڈرا دیا ہے اور فرمایا ہے کہ پہلی امتوں کا پے درپے اس لیے ذکر کیا جاتا ہے کہ پہلے نافرمان لوگوں کا حال گھڑی گھڑی سن کر حال کے زمانہ کے نافرمان لوگوں کو ایک طرح کی عبرت اور نصیحت اس بات کی ہو کہ اگر یہ حال کے زمانہ کے لوگ رسول قوت کی نافرمانی سے باز (رض) آویں گے تو آخر وہی حال ان کا ہونے والا ہے جو پہلے نافرمان لوگوں کا ہوا اگرچہ مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں قریش کی شان میں ہے بعضے کہتے ہیں اہل کتاب کی شان میں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالٍٰ نے ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو لوگ ہدایت الٰہی کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے موافق چلتے ہیں اب خواہ قریش ہوں یا اہل کتاب یا حال کے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کے بدعتی لوگ جو اپنی خواہش اور رسم کو حکم الٰہی اور فرما نبرداری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مقدم رکھتے ہیں سب اس آیت کے حکم میں داخل ہیں اور سب کو اللہ تعالیٰ نے رسول وقت کی مخالفت سے ڈرایا ہے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ حدیث ١ ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس زمانہ کے لوگوں میں سے خواہ یہودی خواہ نصرانی کوئی ہو جو میری مخالفت کرے گا وہ دوزخ میں جاوے گا یہ حدیث اس آیت کی پوری تفسیر اور پوری شان نزول ہے کیونکہ جب غیرامت کے لوگوں کو بھی آپ نے اپنی مخالفت سے ڈرایا ہے تو خود وہ لوگ جو آپ کی امت کھلاتے ہیں آپ کی مخالفت کے بعد کس طرح دوزخ سے امن پاسکتے ہیں اب اس عبرت دلانے کی آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایمان کی رغیب دلانے کے لیے ان اہل کتاب کا ذکر آگے کی آیتوں میں فرمایا ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفتیں اپنی کتاب میں پائی تھیں ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پاکر ان کو سچا نبی اور قرآن شریف کو اللہ کی سچی کتاب تسلیم کرلیا یہ ذکر بھی عام ہے یہود ونصارے دونوں کو شامل ہے کیوں کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کی صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آپ نے یہ جو خوشخبری اہل کتاب کو دی ہے کہ اہل کتاب میں سے جو شخص اپنی کتاب پر ایمان قائم رکھ کر قرآن پر بھی ایمان لاء لاوے اس کو اللہ تعالیٰ دوگنا اجردے گا وہ حدیث عام خوشخبری میں ہے نہ اس میں یہود کی کچھ خصوصیت ہے نہ نصاری کی وہی صحیح حدیث ان آیتوں کی تفسیر اور شان نزول کے لیے کافی ہے بعضے مفسرین نے یہ اختلاف جو کیا ہے کہ ایک فریق حبشہ کے نصاریٰ کی مدح اس آیت کو ٹھہراتے ہیں اور دوسرا فریق عبداللہ بن سلام وغیرہ کی مدح قرار دیتے ہیں اس اختلاف کی کوئی ضرورت پائی نہیں رہ جاتی کیونکہ یہ بات اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکی ہے کہ چند قصوں کا مجموعہ کبھی شان نزول ہوتا ہے اس لیے یہاں بھی حبشہ کے نصارے کے قصے اور عبد اللہ (رض) بن سلام کے قصہ سے ان دونوں قصوں کو آخر کی تینوں آتیوں کی شان نزول قرار دیا جائے۔ تو پھر کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا یہی حال پہلی آیت کا ہے کہ اس نے سے پہلے قل فاتو اب کتاب من عنداللہ فرما کر تو قریش کو مخاطب ٹھہرایا تھا پھر ومن اضل ممن اتبع ھواہ اس واسطے سنائے جاتے ہیں کو جو کوئی پہلی امتوں کی طرح نافرمانی کی چال چلے گا عذاب میں گرفتار ہوجائے گا فرق فقط اتنا ہی ہے کہ قریش نے یہ قصے پہلے پہل سنے ہیں اور اہل کتاب تو رات کے ذریعہ سے بھی ان قصوں کو سن چکے ہیں اور قرآن کے ذریعہ سے بھی تو رات کی تصدیق ہوگئی ہے اس پر بھی اگر یہ لوگ نہ مانیں گے تو وہ آسمانی کتابوں کے جھٹلانے کے وبال میں پکڑے جائیں گے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو اوپر گزری اس سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ دو شریعتوں کی پابندی کے سبب سے جس طرح اہل کتاب کو دوگنا اجرملے گا اسی طرح دو شریعتوں کے جھٹلانے والے اہل کتاب کو خمیازہ بھی دوگنا بھگتنا پڑے گا حبشہ کے نصاریٰ کا قصہ سورة مائدہ میں گزر چکا ہے کہ نجاشی کے پاس سے چند عیسائی میدنہ میں آئے اور قرآن شریف کی آیتیں سن کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے صحیح بخاری وغیرہ میں عبداللہ (رض) بن سلام کے اسلام کا قصہ ١ ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عبداللہ (رض) بن سلام یہود میں کے بڑے عالم تھے اس واسطے یہود پہلے تو ان کو بہت اچھا کہتے تھے مگر ان کے اسلام لانے کے بعد ان کو برا کہنے لگے عبداللہ (رض) بن سلام اور ان کے ساتھی یہود کے برابر کہنے کو در گزر سے ٹال دیتے تھے حبشہ کے نصاریٰ نے اسلام میں داخل ہوں کے بعد تنگ دست مہاجرین کی کچھ مالی امداد بھی کی تھی غرض اس سے درگزر اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کا ذکر ان آیتوں میں خاص بطور تعریف کے فرمایا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٢ کتاب الایمان۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ باب فی المعجزات فصل اول ‘ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:50) لم یستجیبوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ استجابۃ استفعال۔ مصدر۔ فان لم یستجیبوا۔ پھر اگر وہ (لوگ) تجھے جواب نہ دیں۔ یا ایسا نہ کرسکیں۔ یا آپ کے چیلنج قبول نہ کریں۔ اضل۔ افعل التفضیل کا صیغہ۔ زیادہ بےراہ۔ زیادہ گمراہ۔ ضلال مصدر ممن۔ مرکب ہے من اور من سے۔ اس سے جو،

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی اگر ان دونوں سے بہتر کتاب پیش نہ کرسکیں۔ (کبیر) 6 ۔ مطلب یہ ہے کہ ہدایت تو انہی لوگوں کو نصیب ہوسکتی ہے جن کے دل ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہوں اور وہ حق کی معرفت کے بعد اسے قبول کرنے کو تیار ہوں مگر جن کے دلوں میں زیغ وعناد ہو انہیں راہ ہدایت کیسے مل سکتی ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ لوگ اگر آپ کی بات قبول نہ کرسکیں اور قبول کر بھی نہیں سکتے کیونکہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب نہیں ہے تو آپ سمجھ لیں کہ یہ لوگ ہدایت کی تلاش میں ہیں ہی نہیں یہ تو حق سے منہ موڑنے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ ان کا یہی طریقہ ہے کہ اپنی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں جس کے پاس اللہ کی ہدا... یت نہ ہو اور وہ اپنی خواہشات نفسانی ہی کا اتباع کرتا رہے اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا) جو وضوح حق کے بعد ہدایت سے منہ موڑے اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتا رہے۔ (اَھْدٰی مِنْھُمَآ) میں تثنیہ کی ضمیر قرآن مجید اور اصلی توراۃ کی طرف راجع ہے۔ لہٰذا یہ اشکال نہیں ہوتا کہ محرف توراۃ کو ہدایت کا ذریعہ کیسے بتادیا اور بات بھی علی سبیل الفرض ہے کہ اگر تم سے ہو سکے تو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت والی کتاب لے آؤ جو اللہ کی طرف سے ہو لہٰذا یہ اشکال بھی نہیں رہا کہ اصل توریت بھی تو منسوخ ہے۔ اس پر عمل کرنے کا وعدہ کیوں فرمایا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50۔ پھر اگر یہ آپ کا کہا نہ کرسکیں اور آپ کے فرمانے کے مطابق کوئی کتاب حق دکھانے والی ایسی نہ لاسکیں جو توریت و قرآن کریم سے زیادہ راہ حق دکھانے والی ہو تو آپ یقین جانئے کہ یہ کفار مکہ صرف اپنی نفسانی خواہشات پر چلتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کون گم کردہ راہ گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بغیر...  کسی رہنمائی اور بدون کسی دلیل کے محض اپنی نفسانی خواہش اور دل کی چائو پر چلے بلا شبہ اللہ تعالیٰ ایسے نا انصافوں اور ظالم لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا ۔ یعنی دلائل اور براہین سے حق واضح ہوجانے کے بعد بھی حق کو قبول نہ کریں اور نفس کے ابھارنے سے انکار ہی کرتے چلے جائیں اور حق کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور واقعی اس شخص سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہوسکتا ہے جس کے پاس کوئی آسمانی ہدایت نہ ہو اور وہ صرف اپنے نفس کی خواہش پر چلے تو ایسے ظالموں کی ہدایت اور رہنمائی کی اللہ تعالیٰ پر کوئی ذمہ دار نہیں ۔  Show more