Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 63

سورة القصص

قَالَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَغۡوَیۡنَا ۚ اَغۡوَیۡنٰہُمۡ کَمَا غَوَیۡنَا ۚ تَبَرَّاۡنَاۤ اِلَیۡکَ ۫ مَا کَانُوۡۤا اِیَّانَا یَعۡبُدُوۡنَ ﴿۶۳﴾

Those upon whom the word will have come into effect will say, "Our Lord, these are the ones we led to error. We led them to error just as we were in error. We declare our disassociation [from them] to You. They did not used to worship us."

جن پر بات آچکی وہ جواب دیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! یہی وہ ہیں جنہیں ہم نے بہکا رکھا تھا ہم نے انہیں اسی طرح بہکایا جس طرح ہم بہکے تھے ہم تیری سرکار میں اپنی دست برادری کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ ... Those about whom the Word will have been fulfilled, means the Shayatin and evil Jinn, and those who used to advocate disbelief. ... رَبَّنَا هَوُلاَء الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ "Our Lord! These are they whom we led astray. We led them astray, as we were astray ourselves. We declare our innocence before You. It was not us they worshipped." They will testify against them and say that they led them astray, then they will declare their innocence of their worship. This is like the Ayat: وَاتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزّاً كَلَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَـدَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً And they have taken gods besides Allah, that they might give them honor, power and glory. Nay, but they will deny their worship of them, and become opponents to them. (19:81-82) وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ وَهُمْ عَن دُعَأيِهِمْ غَـفِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُواْ لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ And who is more astray than one who calls besides Allah, who will not answer him till the Day of Resurrection, and who are (even) unaware of their calls to them! And when mankind are gathered, they will become their enemies and will deny their worshipping. (46:5-6) Ibrahim Al-Khalil, peace be upon him, said to his people: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَـناً مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضاً You have taken idols instead of Allah. The love between you is only in the life of this world, but on the Day of Resurrection, you shall disown each other, and curse each other. (29:25) إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الاَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّوُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ When those who were followed disown (declare themselves innocent of) those who followed (them), and they see the torment, then all their relations will be cut off from them. And those who followed will say: "If only we had one more chance to return (to the worldly life), we would disown (declare ourselves as innocent from) them as they have disowned (declared themselves as innocent from) us." Thus Allah will show them their deeds as regrets for them. And they will never get out of the Fire. (2:166-167) Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

۔631یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پاچکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور دعویٰ کفر و شرک وغیرہ وہ کہیں گے۔ 632یہ جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو دعویٰ کفر نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔ 633یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کئے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنی سے اشارے پر ہماری طرح ہی انہوں نے بھی گمراہی احتیار کرلی۔ 634یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ 635بلکہ درحقیقت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کردیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہیں جن کی کسی نہ کسی رنگ میں دنیا میں عبادت کی جاتی رہی ہے۔ یہاں عبادت سے مراد محض پوجا پاٹ نہیں بلکہ بندگی اور غلامی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو چاہتے تھے کہ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں ان کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ خواہ یہ دنیوی حکام ہوں یا پیرو مشائخ کی قسم کے لوگ ہوں۔ [٨٧] یعنی سوال تو اللہ مشرکوں سے کرے گا کہ تم نے جو میرے مقابل شریک بنا رکھے تھے وہ کہاں ہیں۔ لیکن وہ مشرک تو ابھی کچھ جواب نہ دینے پائیں گے کہ اس سے بیشتر یہ معبود حضرات خود ہی بول اٹھیں گے اور کہینگے کہ پروردگار ! واقعی ہم ان لوگوں کی گمراہی کا سبب ضرور بنے تھے۔ مگر ہم نے انھیں زبردستی اس بات پر مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ لوگ بھی ایسے ہی گمراہ ہوئے جیسے ہم خود ہوئے تھے۔ ہمیں بھی ہماری خواہشات نفس کی پیروی نے گمراہ کیا تھا۔ اور انھیں بھی اسی بات میں اپنے مفاد نظر ائے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ اگر یہ ہدایت کی راہ اختیار کرنے والے ہو تو ہماری ان پر کچھ زبردستی نہیں تھی۔ لہذا یہ لوگ ہرگز ہماری بندی نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہشات کی بندگی کر رہے تھے ہم بھی یہی کچھ کرتے رہے اور یہ بھی وہی کچھ کرتے رہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور تھا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ :” بات ثابت ہوچکی “ سے مراد ہے ” عذاب کی بات ثابت ہوچکی “ جیسا کہ فرمایا : (وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) [ السجدۃ : ١٣ ] ” اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہوچکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔ “ اور ” جن پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی “ سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار، لیڈر اور پیرفقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو لوگوں نے دنیا میں ” اربابا من دون اللہ “ بنا لیا تھا اور جن کی بات کے مقابلے میں وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کردیا کرتے تھے۔ وہ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو حلال سمجھتے، حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھتے، یہ ان کو اللہ کے سوا رب اور اللہ کے شریک بنانا تھا۔ جن پیشواؤں نے لوگوں کو اپنی بندگی پر لگایا تھا اور جن پر عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ۔۔ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا ۔۔ : یعنی جنھیں اللہ کے شریک بنایا گیا تھا، وہ کہیں گے، اے ہمارے رب ! یہ ہیں وہ لوگ جنھیں ہم نے گمراہ کیا۔ ہم نے انھیں ویسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے، یعنی گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت پر جس طرح ہم اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے اسی طرح ہم نے ان کے سامنے گمراہی پیش کی تو یہ اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے، نہ ہم پر کسی نے جبر کیا تھا اور نہ ہم نے ان پر کوئی زبردستی کی۔ مَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ : ہم ان کی گمراہی کی ذمہ داری سے بری ہیں۔ اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی گئی، وہ نیک تھے یا بد، قیامت کے دن اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہوجائیں گے، بلکہ ان کے دشمن ہوں گے۔ دیکھیے سورة مریم (٨١، ٨٢) ، احقاف (٥، ٦) ، عنکبوت (٢٥) اور سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ۔ : کیونکہ اللہ کے سوا کسی بھی شریک کی پیروی کرنے والے یا اسے پکارنے والے درحقیقت نہ کسی موجود چیز کو پکار رہے ہیں، نہ اس کی پیروی کر رہے ہیں، کیونکہ اللہ کے کسی شریک کا وجود ہے ہی نہیں، وہ محض اپنے خیال اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (ااَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ ۭ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَاۗءَ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ) [ یونس : ٦٦ ] ” سن لو ! بیشک اللہ ہی کے لیے ہے جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ “ اس لیے جنھیں شریک بنایا گیا تھا وہ صاف کہہ دیں گے کہ یہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے، بلکہ محض اپنے گمان کی پرستش کیا کرتے تھے اور ہمارے بندے نہیں بلکہ اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ 3 اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ سوال تو ان لوگوں سے ہوگا جنھوں نے شریک بنائے تھے، مگر بول وہ اٹھیں گے جنھیں شریک بنایا گیا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے سوال ہوگا تو پیشوا اور سردار سمجھ لیں گے کہ اب ہماری شامت آنے والی ہے، ہمارے یہ مرید اور پیروکار ضرور اپنی گمراہی کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں گے، اس لیے وہ پہلے ہی اپنی صفائی پیش کرنے لگیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا۝ ٠ۚ اَغْوَيْنٰہُمْ كَـمَا غَوَيْنَا۝ ٠ۚ تَبَرَّاْنَآ اِلَيْكَ۝ ٠ۡمَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ۝ ٦٣ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ، ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) یہ سن کر وہ شرکاء اور شیاطین جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کی ناراضگی ثابت ہوچکی ہوگی کہہ اٹھیں گے اے ہمارے پروردگار یہ ہمارے پیروکار وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا ہے ہم نے حق و ہدایت سے ان کو ایسا ہی گمراہ کیا جیسا کہ ہم خود گمراہ تھے اور ہم ان سے دست بردار ہوتے ہیں یہ لوگ ہمارے حکم سے ہمیں نہیں پوجتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَا ج) ” وہ مشرکین جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ صادر ہوجائے گا ‘ آخری عذر کے طور پر اپنے لیڈروں کی طرف اشارہ کریں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ اگر یہ ہمیں گمراہ نہ کرتے تو ہم گمراہ نہ ہوتے ! ان لیڈروں میں ان کے معبودان باطل ‘ شیاطینِ جنّ و انس ‘ طاغوت اور گمراہ مذہبی و سیاسی راہنما شامل ہوں گے۔ یہ لیڈر جھٹ جواب دیں گے کہ جو کچھ ہم خود تھے وہی ہم نے ان کو بنایا۔ (اَغْوَیْنٰہُمْ کَمَا غَوَیْنَا ج) ” یعنی ہم خود ہدایت پر ہوتے تو انہیں ہدایت کا رستہ دکھاتے۔ ہم چونکہ خود گمراہ تھے اس لیے ہمارے زیر اثر یہ تمام لوگ گمراہ ہوتے چلے گئے۔ (تَبَرَّاْنَآ اِلَیْکَز مَا کَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ ) ” یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ ہم پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ اپنی آزاد مرضی سے ہماری باتیں مانتے رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86 This implies those satans from among jinns and men, who had been set up as associates, of God in the world, whose teachings had been followed in preference to Divine Commandments, and dependence on whom had made the people give up the Right Way and adopt the wrong ways of life. Such persons may not have been called gods and lords as such, but since they were worshipped and obeyed as one should worship and obey only God, they were inevitably made partners in Godhead. 87 That is, "We did not lead them astray forcibly. We neither deprived them of their powers of seeing and hearing nor of their powers of thinking, nor there ever arose a situation when they wanted to follow the right way but we might have forcibly pulled them to the wrong way. But just as we ourselves had gone astray of our own free will, so they also of their own free will accepted the wrong way when we presented it before them. Therefore, we are not responsible for what they did: we are responsible for our acts and they are responsible for theirs." There is a subtle point to be noted here. Allah, in fact, will question those who had set up others as associates with Him, but before they make an answer, those who had been set up as associates will speak up. The reason is: When the common polytheists will be questioned thus, their leaders and guides will feel that their doomsday had come, for their followers will certainly blame them for their deviation. Therefore, even before the followers say something in response, the leaders will forestall them and start pleading their innocence. 88 That is, "They did not serve us but served their own selves alone. "

سورة القصص حاشیہ نمبر : 86 اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہں جن کو دنیا میں خدا کا شریک بنایا گیا تھا ، جن کی بات کے مقابلے میں خدا اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کیا تھا تھا ، اور جن کے اعتماد پر صراط مستقیم کو چھوڑ کر زندگی کے غلط راستے اختیار کیے گئے تھے ۔ ایسے لوگوں کو خواہ کسی نے الہ اور رب کہا ہو یا نہ کہا ہو ، بہرحال جب ان کی اطاعت و پیروی اس طرح کی گئی جیسی خدا کی ہونی چاہیے تو لازما انہیں خدائی میں شریک کیا گیا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 50 ) سورة القصص حاشیہ نمبر : 87 یعنی ہم نے زبردستی ان کو گمراہ نہیں کیا تھا ، ہم نے نہ ان سے بینائی اور سماعت سلب کی تھہ ، نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی تھیں ، اور نہ ایسی ہی کوئی صورت پیش آئی تھی کہ یہ تو راہ راست کی طرف جانا چاہتے ہوں مگر ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر جبرا انہیں غلط راستے پر کھینچ لے گئے ہوں ۔ بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ان کے سامنے بھی ہم نے گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرض سے اس کو قبول کیا ۔ لہذا ہم ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ، ہم اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور یہ اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں ۔ یہاں یہ لطیف نکتہ قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالی سوال تو کرے گا شریک ٹھہرانے والوں سے ، مگر قبل اس کے کہ یہ کچھ بولیں ، جواب دینے لگیں وہ جن کو شریک ٹھہرایا گیا تھا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے یہ سوال کیا جائے گا تو ان کے لیڈر اور پیشوا محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت ، یہ ہمارے سابق پیرو ضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری گمراہی کے اصل ذمہ دار ہیں ۔ اس لیے پیرووں کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت کر کے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کردیں گے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 88 یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36: ان سے مراد بھی وہی شیاطین ہیں جن کو نفع نقصان کا مالک سمجھ کر کافر لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اور بات پوری ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ جو شیاطین دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، انہیں آخر کار دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے فرمان کے مطابق ان شیاطین کے دوزخ میں جانے کا وقت آ چکا ہوگا۔ اس وقت وہ یہ بات کہیں گے 37: یعنی جس طرح ہم نے اپنے اختیار سے گمراہی اختیار کی، ان لوگوں نے بھی اپنے اختیار سے گمراہی اپنائی، ورنہ ہم نے ان پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی کہ یہ ضور ہماری بات مانیں۔ 38: یعنی در حقیقت یہ لوگ ہماری عبادت کرنے کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی عبادت کرتے تھے ْ

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:63) حق علیہم القول جن پر (اللہ کا) قول ثابت ہوچکا۔ القول سے مراد یہاں کفروشرک پر عذاب کے متعلق آیات وعید ہیں مطلب یہ کہ جن پر ان آیات وعید کے مطابق اللہ کا فرمان عذاب ثابت ہوچکا ہوگا۔ الذین حق علیہم القول سے مراد وہ معبودان باطل ہیں جن کو مشرک لوگ شریک خداوندی خیال کرتے تھے۔ ف : ربنا سے لے کر اخیر آیت تک ان معبودان باطل کا قول ہے۔ ھؤلائ۔ اسم اشارہ۔ جمع کا صیغہ، یہ سب۔ الذین اغوینا۔ جن کو ہم نے بہکایا۔ صیغہ جمع متکلم ۔ ماضی معروف اغواء (افعال) مصدر۔ اغوینھم۔ ہم نے ان کو گمراہ کیا۔ کما غوینا (ایسے ہی جیسے ہم خود گمراہ ہوئے یعنی نہ ہم کو کسی نے جبرا گمراہ کیا تھا بلکہ ہم خود اپنی مرضی سے راہ راست سے ہٹ گئے۔ اسی طرح ہم نے ان کو بھی زبردستی گمرای نہیں کیا۔ ہم نے ان کے سامنے گمراہی کا راستہ دکھایا اور انہوں نے اپنی مرضی سے اسے اختیار کرلیا۔ تبرانا۔ ماضی جمع متکلم البرء البراء کسی مکروہ امر سے نجات حاصل کرنا۔ برات من المرض میں تندرست ہوا۔ میں نے مرض سے نجات پائی۔ برات من فلان میں فلاں سے بیزار ہوں۔ اسی طرح باب تفعل سے تبرء یتبرء تبرء بیزار ہونا۔ تبرانا ہم بیزار ہوگئے ہیں۔ ہم بیزاری کا اظہار کرتے ہیں (ماضی بمعنی حال) ای تبرانا من عبادتھم ایانا وہ جو ہماری عبادت کتے تھے ہم اس سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ الیک۔ تیرے سامنے۔ ما کانوا ایانا یعبدون۔ ای ما کانوا ایانا یعبدون انما کانوا یعبدون اھواء ھم وہ ہماری بندگی تو نہیں کرتے تھے بلکہ در حقیقت وہ ہوائے نفس کی پوجا کرتے تھے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سوال تو کریگا شریک ٹھہرانے والوں سے مگر قبل اس کے کہ وہ کچھ بولیں جواب دینے لگیں گے وہ جن کو شریک ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے سوال کیا جائے گا تو ان کے پیشوا اور لیڈر محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت بھی۔ یہ ہمارے سابق ضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری گمراہی کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے پیرؤوں کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت کرکے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کردیں گے۔ (تفہی القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ ان سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار لیڈر اور پیر فقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو دنیا میں لوگوں نے ادبابا من دون اللہ بنا لیا تھا اور ان کی بات کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کردیا کرتے تھے۔ (شوکانی) 6 ۔ یعنی ہم نے ان پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی اور نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب کرلی تھیں بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے۔ اسی طرح ہم نے ان کے سامنے بھی گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرضی سے اسے قبول کرلیا۔ (وحیدی بتصرف) 7 ۔ یعنی یہ ہماری نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کی بندگی کرتے تھے۔ خود ان کے دل میں یہ سمایا کہ ہماری بندگی کریں اس لئے ہماری بندگی کرنے لگے لہٰذا ہم پر ان کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری نہیں۔ (وحیدی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ شیطان بولیں گے بہکایا تو انہوں نے نام لے کر نیکیوں کا اسی لئے کہا کہ ہم کو نہ پوجتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی جب یہ اپنے اختیار سے بہکے ہیں نہ کہ مجرد ہمارے بہکانے سے تو اس اعتبار سے یہ خواہش پرست تھے نہ صرف شیطان پرست، مطلب یہ کہ یہ خود اپنی خواہش سے خراب ہوئے، اس درجہ میں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں، البتہ جس قدر ہماری خطاء ہے کہ ہم نے ان کو اغا کیا اس کے ہم مقر ہیں، مقصود اس سب حکایت سے یہ ہے کہ جن کے بھروسے پر بیٹھے ہیں وہ ان سے کانوں پر ہاتھ رکھیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ موصول سے کفر و شرک کے امام اور پیشوا مراد ہیں یعنی مشرک پیر جو دوسروں کو کفر و شرک اور باطل کی راہ پر چلاتے ہیں اور ھؤلاء سے ان کے مشرک پیرو اور متبع مراد ہیں۔ کما اغوینا ما قبل کے لیے بمنزلہ علت ہے الذین حق علیہم القول ای الشیاطین وائمۃ الکفر و ؤسہ (بحر) ۔ یعنی ہم چونکہ خود گمراہ تھے اس لیے ہم نے ان کو بھی گمراہ کردیا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہم گمراہ ہیں اس لیے یہ ہمارے پیچھے کیوں چلے۔ لہذا اے ہمارے پروردگار ہم ان سے بری الذمہ ہیں۔ ماکانوا ایانا یعبدون، یہ لوگ ہماری پیروی اور اطاعت کر کے گمراہ نہیں ہوئے بلکہ یہ تو انی ہی خواہشات نفسانیہ کے بندے تھے اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوئے۔ بل یعبدون اھواءھم ویطیعون شھواتھم (مدارک ج 3 ص 186) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

63۔ وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا فرمان ثابت ہوچکا ہے کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے ویسا ہی گمراہ کیا ہے جیسے ہم خود گمراہ ہوئے تھے ہم آپ کے روبرو اور آپ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری اور بےتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور ان سے دست بردار ہوتے ہیں یہ لوگ ہماری پرستش نہیں کیا کرتے اور ہم کو نہیں پوجتے تھے۔ یعنی یہ سوال مشرکین سے ہوگا کہ جن کو تم میرا شریک سمجھتے تھے وہ کہاں ہیں وہ شرکاء سمجھیں گے کہ مشرکین ہمارا نام لیں گے تو وہ پہلے ہی اپنی صفائی کے طور پر کہیں گے یہ شرکاء خواہ جنات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے ہوں ۔ بہرحال ! یہ مفروضہ شرکاء وہ ہوں گے جن پر عتاب کا حکم پہلے ہی سے ہوچکا ہوگا اور علم الٰہی میں وہ پہلے ہی سے مستحق عذاب ٹھہر چکے ہوں گے۔ جیسا کہ فرمایا وتمت کلمۃ ربک لا ملان جھنم من الجن والناس اجمعین ۔ شر کاء اپنی صفائی میں کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے بہکایا اور گمراہ کیا اور ان کو ویسا ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے یعنی ان کے بہکانے میں کوئی جبر و کراہ اور زبردستی نہیں کی گئی بلکہ جس طرح ہم گمراہ ہوئے تھے کہ ہم پر کسی نے جبر نہیں کیا بلکہ ہم اپنی خوشی سے گمراہ ہوئے ٹھیک اسی طرح یہ بھی اپنی خوشی اور اپنی رضا سے بہکے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہم بہکانے کے قصوروار ہیں لیکن ہم کو ان پر کوئی جابرانہ تسلط حاصل نہیں تھا اس لئے یہ بھی مجرم ہیں کہ کیوں ہمارے بہکانے میں آئے ، بہرحال ! ہم آپ کے روبرو ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور ان سے بری ہوتے ہیں یہ ہماری پرستش نہیں کیا کرتے تھے بلکہ یہ تو اپنی نفسانی خواہشات کے پجاری تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ شیطان بولیں گے بہکایا تو ہے انہوں نے پر نام لیکر نیکوں کا اسی سے کہا ہم کو نہ پوجتے تھے۔ 12