Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 69

سورة القصص

وَ رَبُّکَ یَعۡلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوۡرُہُمۡ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ﴿۶۹﴾

And your Lord knows what their breasts conceal and what they declare.

ان کے سینے جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں آپ کا رب سب کچھ جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And your Lord knows what their breasts conceal, and what they reveal. He knows what is hidden in their hearts, just as He knows what they do openly. سَوَاءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ It is the same whether any of you conceals his speech or declares it openly, whether he be hid by night or goes forth freely by day. (13:10)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] بات مشرکین مکہ کے ان حیلوں بہانوں کی ہو رہی تھی۔ جو وہ اسلام نہ لانے کے سلسلہ میں دلیل کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین مکہ خود بھی خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے ایسے حیلوں اور اعتراضات کی کیا حقیقت ہے۔ اور اللہ ان کے دلوں کے خیالات تک سے خوب واقف ہے وہ جانتا ہے کہ ان کے ایسے لغو اعتراضات میں وہ کون سے محرکات ہیں۔ جو انھیں ایسی باتیں بنانے پر اکساتے ہیں اور ان کے ایمان نہ لانے کے اصل اسباب کیا ہیں ؟ پھر اسی کے مطابق ان سے معاملہ بھی کرے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ ۔۔ : ” أَکَنَّ یُکِنُّ إِکْنَانًا “ چھپانا۔ پچھلی آیت میں مذکور اختیار اور قدرت علم کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے فرمایا : ” تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ “ یعنی قدرت و اختیار کا مالک بھی وہی ہے اور پوشیدہ اور ظاہر کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ سینوں کی چھپی ہوئی بات جاننا تو واقعی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے، مخلوق کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی، مگر جو کچھ لوگ علانیہ کرتے یا کہتے ہیں اسے جاننا تو آدمی کے لیے بھی کچھ مشکل نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ سینوں کی چھپی ہوئی بات تو پھر بھی بعض اوقات کسی اشارے کنائے سے کچھ نہ کچھ معلوم ہوجاتی ہے، مگر ایک ہی وقت میں سب لوگ جو کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں، اسے رب العالمین کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اگر کوئی سنے گا تو اسے ایک شور کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری جگہ فرمایا : (سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ) [ الرعد : ١٠ ] ” برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے اور جو اسے بلند آواز سے کرے اور وہ جو رات کو بالکل چھپا ہوا ہے اور (جو) دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ۝ ٦٩ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا كن الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] . والکِنَانُ : الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ. نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة . ( ک ن ن ) الکن ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ الکنان ۔ پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ علن العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال : ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته . ( ع ل ن ) العلانیہ ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٩) اور آپ کا پروردگار سب چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں بغض ودشمنی چھپی ہوئی ہے اور جو یہ ظاہری طور پر نافرمانیاں کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ) ” مثلاً ان کے دل قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی حقانیتّ کی گواہی دیتے ہیں مگر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس گواہی کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اور دوسری طرف اپنے جن نام نہاد اعتراضات کو وہ ظاہر کر رہے ہیں ان پر انہیں خود بھی اعتماد نہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر یہ نبی ہیں تو انہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح معجزات کیوں نہیں دیے گئے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91 The object for which this thing has been said in this context is: A person (or persons) can make a claim before the people in this world that he is fully satisfied on rational grounds that the deviation he has adopted is sound and right, and the arguments that are given against it are not convincing; that he has adopted the deviation not due to any evil motive but with the sincerest and purest intentions; that he has never been confronted by anything that might have proved him to be in the wrong. But he cannot advance such an argument before Allah, for Allah is not only aware of the open, but also of the hidden secrets of the mind and heart: He knows directly what kind of knowledge and feelings and sentiments and desires and intentions and conscience a certain person has: He is aware of the occasions and the means and the ways through which a person was warned, through which the Truth reached him, through which falsehood was proved to be Falsehood to him, and also the real motives for which he preferred his deviation to the Right Way.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 91 اس سلسلہ کلام میں یہ بات جس مقصد کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص یا گروہ دنیا میں لوگوں کے سامنے یہ دعوی کرسکتا ہے کہ جس گمراہی کو اس نے اختیار کیا ہے اس کی صحت پر وہ بڑے معقول وجوہ سے مطمئن ہے ، اور اس کے خلاف جو دلائل دیے گئے ہیں ان سے فی الحقیقت اس کا اطمینان نہیں ہوا ہے ، اور اس گمراہی کو اس نے کسی برے جذبے سے نہیں بلکہ خاص نیک نیتی کے ساتھ اختیار کیا ہے اور اس کے سامنے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں آئی ہے جس سے اس کی غلطی اس پر واضح ہو ۔ لیکن اللہ کے سامنے اس کی یہ بات نہیں چل سکتی ۔ وہ صرف ظاہری کو نہیں دیکھتا ، اس کے سامنے تو آدمی کے دل و دماغ کا ایک ایک گوشہ کھلا ہوا ہے ، وہ اس کے علم اور احساسات اور جذبات اور خواہشات اور نیت اور ضمیر ، ہر چیز کو براہ راست جانتا ہے ، اس کو معلوم ہے کہ کس شخص کو کس کس وقت کن ذرائع سے تنبیہ ہوئی ، کن کن راستوں سے حق پہنچا ، کس کس طریقے سے باطل کا باطل ہونا اس پر کھلا ، اور پھر وہ اصل محرکات کیا تھے جن کی بنا پر اس نے اپنی گمراہی کو ترجیح دی اور حق سے منہ موڑا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:29) تکن۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ فاعل صدور چونکہ اسم ظاہر ہے اور جمع مکسر ہے اس لئے فعل کو مؤنث لایا گیا ہے اکن یکن اکنان افعال۔ کسی بات کو دل میں چھپانا۔ تکن وہ چھپاتی ہے ما تکن صدرہم جو ان کے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں۔ جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے اور جگہ قرآن مجید میں ہے او اکننتم فی انفسکم (2:235) یا اپنے دلوں میں مخفی رکھو (نکاح کی خواہش کو) یعلنون۔ مضارع جمع مذکر غائب اعلان (افعال) مصدر۔ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ علانیہ کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی وہ ان کے دل کی باتوں کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ان باتوں کو جنہیں وہ اپنی زبانوں پر لاتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ ایسا کریں کہ دلوں میں کفر و شرک یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت چھپائے رکھیں اور ظاہر میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے لگیں تو اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی صفت علم کو بیان فرمایا اور فرمایا کہ آپ کا رب وہ سب کچھ جانتا ہے جسے لوگ اپنے سینوں میں چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں نے جو کچھ اپنے دل میں بات رکھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں نہیں ہے اسے ظاہراً اور باطناً ہر چیز اور ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ یہ دعوی توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی عالم الغہب ہے اور کوئی نہیں۔ وھو اللہ لا الہ الا ھو الخ یہ مذکورہ دونوں دلیلوں کا ثمرہ ہے یعنی جب متصرف و مختار بھی وہی ہے اور عالم الغیب بھی تو لا محالہ حاجات و مشکلات میں پکار کے لائق بھی وہی ہے۔ لہ الحمد فی الاولی الخ دنیا اور آخرت میں صفت کارسازی کا مالک وہی ہے اور کوئی نہیں، دنیا میں بھی وہی کارساز ہے اور آخرت میں بھی مذکورہ بالا دونوں دلیلوں کے درمیان علت و معلول کا رشتہ ہے۔ پہلی دلیل دوسری کے لیے علت ہے یعنی جب سب کچھ کرنے والا وہی ہے تو سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے۔ ثبوت دعوی کا مدار چونکہ امر اول (پہلی دلیل) پر ہے اس لیے اگلی تین دلیلوں سے اسی کو ثابت کیا ہے۔ ولہ الحکم الخ غائبانہ حکم یعنی قضا و قدر کا فیصلہ بھی اسی کے اختیار میں ہے اور اس کے سوا کسی کا اس میں دخل نہیں۔ برکات دہندہ اور حاجت روائی کا فیصلہ اسی کے قبضہ میں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

69۔ اور آپ کے پروردگار کو وہ سب باتیں معلوم ہیں جو ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہیں اور وہ بھی معلوم ہیں جو یہ لوگ علانیہ کرتے ہیں۔ یعنی علم بھی ایسا کامل ہے کہ کسی دوسرے کو ایسا علم نہیں جو ہر شخص کے سینے کی باتوں سے اور اس کی علانیہ باتوں سے واقف ہو تو وہ علم میں بھی منفرد ہے۔