Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 84

سورة القصص

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۚ وَ مَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجۡزَی الَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۴﴾

Whoever comes [on the Day of Judgement] with a good deed will have better than it; and whoever comes with an evil deed - then those who did evil deeds will not be recompensed except [as much as] what they used to do.

جو شخص نیکی لائے گا اسے اس سے بہتر ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا تو ایسے بد اعمالی کرنے والوں کو ان کے انہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ ... Whosoever brings good, meaning, on the Day of Resurrection, ... فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا ... he shall have the better thereof; meaning, the reward of Allah is better than the good deeds of His servant -- how can it not be, when Allah has multiplied it many times over. This is the position of generosity. Then Allah says: ... وَمَن جَاء بِالسَّيِّيَةِ فَلَ يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّيَاتِ إِلاَّ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ and whosoever brings evil, then those who do evil deeds will only be requited for what they used to do. This is like the Ayah, وَمَن جَأءَ بِالسَّيِّيَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِى النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ And whoever brings an evil deed, they will be cast down on their faces in the Fire. (And it will be said to them) "Are you being recompensed anything except what you used to do!" (27: 90) This is the position of generosity and justice.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

841یعنی کم از کم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لئے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔ 842یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کردیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل و کرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٤] اس آیت میں جزا و سزا سے متعلق ضابطہ الٰہی بتلایا گیا ہے جو یہ ہے کہ نیکی کا بدلہ اللہ تعالیٰ اس کے اصل اجر سے بہت زیادہ دے گا جو دس گناہ سے سات سو گناہ تک بھی ہوسکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ بھی اور یہ اس کے فضل و رحمت اور احسان کی بنا پر ہوگا۔ اور برائی کا بدلہ اتنا ہی ملے گا جتنی برائی تھی۔ یعنی اس بدلہ میں زیادتی نہ ہوگی اور یہ اس کی صفات عدل کا تقاضا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ نیکی پر اللہ نے وعدہ فرمایا کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا اور برائی پر یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ اس کا بدلہ ضرور مل کر رہے گا۔ کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ معاف فرما دے۔ البتہ یہ بیان فرمادیا کہ اپنے کئے سے زیادہ سزا نہیں ملے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ جَاۗءَ بالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا ۔۔ : اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٦٠) اور سورة نمل (٨٩) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَۃِ فَلَہٗ خَيْرٌ مِّنْہَا۝ ٠ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَۃِ فَلَا يُجْزَى الَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٨٤ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) جو شخص قیامت کے دن خلوص نیت کے ساتھ کلمہ طیبہ لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور جو شرک لے کر آئے گا تو شرک کرنے والوں کو اسی کے مطابق دوزخ ملے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْہَا ج) ” سورۃ النمل کی آیت ٨٩ میں بھی یہ مضمون بالکل ان ہی الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔ (وَمَنْ جَآء بالسَّیِّءَۃِ فَلَا یُجْزَی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ” مطلب یہ کہ برائی کی سزا برائی کے عین مطابق دی جائے گی ‘ اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن نیکوکاروں کے لیے ان کی نیکیوں میں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے دس گنا سے سات سو گنا تک اضافہ کردیا جائے گا ‘ بلکہ غور کیا جائے تو ” خَیْرٌ مِّنْہَا “ کی کوئی حد اور انتہا مقرر نہیں۔ جیسا کہ سورة البقرۃ میں ارشاد ہوا ہے : (وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ” اور اللہ جس کے لیے جتنا چاہے گا بڑھا دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا خوب جاننے والا ہے “۔ بہر حال ” خَیْرٌ مِّنْہَا “ کے الفاظ میں سب سے نچلی سطح پر بھی یہ بشارت موجود ہے کہ تم جیسی بھی کوئی نیکی کر کے لے جاؤ گے وہاں اس کا اجر اس سے بہتر ہی ملے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:84) خیر منھا افعل التفضیل کا صیغہ ہے بہتر۔ اور ھا ضمیر واحد مؤنث غائب راجع الی الحسنۃ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ یعنی ایک برائی کی سزاصرف اتنی ہی ملے گی جتنی خود وہ برائی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے کہ نیکی کا ثواب بہت بڑھا کردیتا ہے اور برائی کا بدلہ صرف اس برائی کے مطابق۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ کیونکہ مقتضا تو صرف اس قدر ہے کہ عمل کی حیثیت کے موافق ملے، مگر وہاں زیادہ ملے گا جس کا اقل درجہ دس حصہ ہے۔ 1۔ یعنی اس کے مقتضاء سے زیادہ نہ ملے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:۔ یہ نیک لوگوں کے لیے بشارت اور بروں کے لیے تخویف ہے یعنی نیکی کا بدلہ تو اصل نیکی سے زیادہ دیا جائے گا لیکن برے کاموں کسی سزا ان کے مطابق ہوگی اس میں زیادتی نہ ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84۔ جو شخص نیکی لیکرحاضر ہوگا تو اس کو اس نیکی سے بہتر بدلا ملے گا اور جو شخص بدی اور برائی لیکر حاضر ہوگا تو ایسے بد اعمالوں کو صرف انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔ یعنی نیکی لیکر قیامت میں حاضر ہونیوالا اس نیکی سے زیادہ بدلا پائے گا جس کا کم سے کم درجہ اس گنا ہوگا یعنی ایک نیکی کا مقتضایہ ہے کہ اس نیکی کی مثل بدلا مل جاتا لیکن نیکی والے کو دس گناہ بدلہ ملے گا اور یہ کم سے کم بدلا ہوگا یہاں تک کہ کسی کو سات سو تک بھی دیا جائیگا لیکن بدی کا بدلا اس بدی اور برائی کے مقتضا سے زیادہ نہیں ہوگا بلکہ صرف مقتضا کے مطابق دیا جائیگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس شخص پر افسوس ہے جس کی اکائیاں دہائیوں کو کھا جائیں یعنی جو ایک کی ایک لکھی جائے وہ زیادہ ہوں اور جو ایک کی دس لکھی جائیں وہ کم ہوجائیں تو گویا اکائیاں دہائیوں سے زیادہ ہوجائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ برائیاں بھلائیوں سے بڑھ جائیں حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نیکی پر وعدہ دیا نیکی کا وہ ملتا ہے مقرر اور برائی پر برائی وعدہ نہیں فرمایا کہ شاید معاف ہو مگر یہ فرمایا اپنے کئے سے زیادہ سزا نہیں ملتی ۔ 12