Surat ul Ankaboot

The Spider

Surah: 29

Verses: 69

Ruku: 7

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْعَنْکَبُوْت نام : آیت کے فقرے مَثَلُ الَّذِیْنَ التَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْ لِیَاءَ کَمَثَلِ العَنْکَبُوْتِ سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ ” عنکبوت “آیا ہے ۔ زمانہ نزول : آیات۵٦ تا ٦۰ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورة ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی ۔ باقی ... مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے ، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانے کے حالات جھلکتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے ، یہ قیاس قائم کر لیا کہ اس سورة کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورة مکی ہے ۔ حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کررہے تھے ، اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ ہی میں ہوسکتا تھا نہ کہ مدنیہ میں ۔ اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر کہ اس سورة میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دیا ہے ۔ حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے ۔ یہ تمام قیاسات دراصل کسی روات پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادت پر ان کی بنا رکھی گئی ہے ۔ اور یہ اندرونی شہادت ، اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے ، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی ۔ موضوع ومضمون : سورة کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا ۔ کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور و شور سے ہو رہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جارہے تھے ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورة ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لئے ، اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لئے نازل فرمائی ۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آرہے تھے ۔ مثلا ان کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو ۔ جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے ۔ تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے ۔ اس کا جواب آیت ۸ میں دیا گیا ہے ۔ اسی طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر ، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہوجاؤ ۔ اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب ، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں ، ان کو ہم نے ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا ، اس لئے آپ ہمیں پکڑلیں ۔ اس کا جواب آیات ١۲ ۔ ١۳ میں دیا گیا ہے ۔ جو قصے اس سورة میں بیان کئے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیاء کو دیکھو ، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے ۔ پھر آخر کار اللہ کی طرف سے اس کی مدد ہوئی ۔ اس لئے گھبراؤ نہیں ۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی ، مگر آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے ۔ مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں ۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمہارےسامنے ہیں ۔ دیکھ لو آخر کار ان کی شامت آکر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی ۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم تمہارے لئے ناقابل برداشت ہوجائے تو ایمان چھوڑنے کے بجائے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ ۔ خدا کی زمین وسیع ہے ۔ جہاں خدا کی بندگی کر سکو وہاں چلے جاؤ ۔ ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے ۔ توحید اور معاد ، دونوں حقیقتوں کو دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے ، شرک کا ابطال کیا گیا ہے ، اور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ تمہارے سامنے پیش کررہا ہے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ عنکبوت تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی تھیں، بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہ... یں۔ اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جو جنت تیار فرمائی ہے وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہوجائے۔ ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں، اور آخرکار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہے گی، اور غلبہ اسلام اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا ہے کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو برباد کیا اور مظلوم مومنوں کو فتح عطا فرمائی۔ مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے، اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین و مزہب کے معاملے میں میں بھی ان کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ اس سورت کی آیت نمبر ٨ میں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے، لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ جن مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم و ستم ناقابل برداشت ہورہا تھا، ان کو اس سورت میں نہ صرف اجازت، بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو، اور اگر اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے۔ اس سورت کی آیات ١٢ و ١٣ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر ٤١ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کر رکھا ہو، اس لیے اس سورت کا نام سورۃ عنکبوت ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں انہتر آیتیں اور سات رکوع ہیں  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورة نمر 29 کل رکوع 7 آیات 69 الفاظ و کلمات 990 حروف 4410 یہ سورة مکہ مکرمہ میں ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کفار و مشرکین نے اہل ایمان پر ظلم و سلم کرکے مکہ کی سرزمین کو ان پر تنگ کردیا تھا اور وہ مکہ مکرمہ چھوڑے نے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حک... م سے صحابہ کرام (رض) حبشہ کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ برائی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ فرمایا تم صبر کرو بہتر نتیجہ تمہارے حق ہی میں نکلے گا اور تم کامیاب ہو گے۔ اس سورة میں متعدد انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے صبر و تحمل سے کام لے کر دن رات جدوجہد کی۔ جو سعادت مند لوگ تھے انہوں نے دین کی سچائیوں کو قبول کر کے اپنی دنیا اور آخرت بہتر بنالی اور بد بخت لوگ نہ دنیا حاصل کرسکے نہ آخرت۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک ‘ متقی اور پرہیز گار بندوں کو دنیا اور آخرت میں بلند مقام عطا کرنے کے لیے طرح طرح سے آزماتا ہے۔ جو اس امتحان میں تکلیفیں ‘ مصیبتیں اور شدید تر مخالفتوں کے باوجود صبر و تحمل کا دامن تھامے رہتے ہیں ان کو دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں سے مالا مال کردیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے راستے کو چھوڑ کر کفر و شرک کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں وہ بظاہر عیش و آرام میں ہوتے ہیں لیکن ان کا انجم بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ وہ مظلوم اہل ایمان پر ظلم و ستم اور بربریت کی انتہا کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دنیا کے بد ترین ناکام لوگوں میں سے ہیں۔ جب یہ سورت نازل ہوئی اس وقت کفار مکہ اور مشرکین عرب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز خق و صداقت کو پابند کرنے کے لیے ہر وہ ظلم و ستم کررہے تھے کہ جس سے مکہ کی سرزمین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والوں پر اس قدر تنگ ہوچکی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق صحابہ کرام (رض) حق و صداقت کے لیے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے حبشہ کی طرف ہجرت شروع کردی اور کچھ عرصہ بعد اللہ کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ ان حالات میں یہ سورة نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ان کے ماننے والوں کو یہ سمجھایا کہ اہل ایمان حق وصداقت کی راہوں کو روشن کرتے رہیں یہ کفار مکہ کا ظلم و ستم اور ان کا غرور تکبر مکڑی کے جالے سے زیادہ طاقت ور نہیں ہے۔ جس طرح مکڑی اپنے جال کو مضبوط سمجھ کر اس میں ہر ایک کو شکار کرنے کے لیے مضبوط تریسن سمجھتی ہے حالانکہ مکڑی کا گھر اتنا ہی کمزور ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اہل ایمان نہ گھبرائیں بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ان کفار کی کمر ٹوٹ جائے گی اور ان کے لیے کوئی راہ نجات نہ ہوگی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے گذشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوموں کے حالات کو بتا کر یہ سمجھایا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھی اللہ نے اپنے کسی نبی کو بھیجا تو کفار و مشرکین نے اس سچائی کو جھٹلایا۔ انبیاء کرام کی بات نہ مان کر انہوں نے اپنی دنیا اور آخرت برباد کر ڈالی اور اللہ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو کامیاب و بامراد فرمایا اور انہیں دین و دنیا کی ساری نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ (١) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوم کا ذکر فرمایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم اور نسلوں کو سمجھایا مگر انہوں نے اہل ایمان کا مذاق اڑایا۔ انہیں طرح طرح سے ستایا جس سے و ہے کفار خود ہی مشکلات میں پھنس گئے۔ جب وہ مسلسل نافرمانیاں کرتے رہے تو اللہ نے ان کو پانی میں غرق کردیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو نجات عطا فرما دی۔ (٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو حق و صداقت کی طرف بلایا تو ساری قوم نے کہا کہ ہمارے بتوں اور معبودوں کی توہین کرنے والے ابراہیم کو قتل کردو ‘ ماردو ‘ جلا ڈالو اور کڑی سے کڑی سزا دو ۔ چناچہ ان کو زندہ آگ میں پھینک دیا گیا۔ اللہ نے اس آگ کو ایسا گل و گلزار بنادیا کہ آگ ان پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوگئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر فلسطین میں آباد ہوگئے اور کفار اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ (٣) حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم کو غیر فطری گناہوں اور بد فعلیوں سے بچانے کے لیے ہر طرح سمجھایا مگر سوائے چند لوگوں کے سب نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ ان کی بات سننے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی انبدکرداروں کے ساتھ مل گئی اور دولت ایمانی سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ ان کی مومن گھر والوں اور ماننے والوں کو نجات دے دی اور ان کفار پر پتھروں کی بارش کردی اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ کر ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ (٤) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم تک دین کو پہنچایا۔ ان کو حق وصداقت پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ معاملات میں بددیانتی ‘ بےایمانی اور ماپ تول میں کمی سے منع فرمایا مگر ان کی قوم ان کا مذاق اڑاتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرما دی اور نافرمانوں کو طوفانی ہواؤں اور پانی کے طوفان سے تہس نہس کرڈالا۔ (٥) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو ہر طرح کے کفر و شرک سے بچانے اور قوم فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کی ایک نئی زندگی دی لیکن انہوں نے نافرمانی کرنے کو اپنا مزاج بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمانبرداروں کو نجات دی اور کفار و مشرکین کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ (٦) قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا۔ ان کی نافرمانیاں کیں اللہ نے جو ان کو بےپناہ قوت و طاقت عطا کی تھی اس کا غلط استعمال کیا تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور ان کے ماننے والوں کو نجات دے دی اور ان قوموں کو تباہ و برباد کرڈالا۔ (٧) قارون کا واقعہ سنایا گیا جسے اللہ نے بےپناہ دولت عطا کی تھی مگر اس کی دولت نے اس کو ایسا سرکش ‘ ضدی اور ہٹ دھرم بنا دیا تھا کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی جٹلانا شروع کردیا۔ اللہ نے قارون کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اہلامیان کو یہواقعات سنا کر ان کو تسلی دی ہے کہ آج اگر کفار مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثاروں کو ستا رہے ہیں ایسے لوگ مذکورہ نبیوں اور لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کریں کہ اللہ اور اس کے نبیوں کے انکار کا کس قدر بھیانک انجام ہوا اور اہل ایمان کو کس قدر عزت و سربلندی اور نجات نصیب ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے کام میں لگے رہیں ‘ کسی کی پرواہ نہ کریں کیونکہ اللہ کا نظام اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ اہل ایمان سے فرمایا کہ وہ (١) تلاوت کلام اللہ کرتے رہیں۔ (٢) نمازوں کی پابندی کریں۔ (٣) اور اہل کتاب سے گفتگو میں شائستگی کے پہلو کو نظر انداز نہ کریں۔ اس سورة میں چند اور اہم باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ جو لوگ معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں وہ اگر واقعی حق کی تلاش میں ہیں تو قرآن کریم ان کے سامنے ایک معجزہ کے طور پر ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی اور معجزہ کا مطالبہ ایک عجیب سامطالبہ ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا عذاب کیوں نہیں آتا فرمایا کہ ان سے کہہ دیاجائے اللہ کا اپنا ایک نظام ہے جب وہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو پھر اس سے بچانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ جب کوئی سرزمین اس حدتک تنگ کردی جائے کہ وہاں رہنا مشکل ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کرجانا ہی بہتر ہے۔ اگر کوئی اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑتا ہے تو اس کو یہ سوچنا کہ ہم کھائیں گے کیا ؟ فرمایا کہ پرندے بھی روزانہ اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور رات کو پیٹ بھر کر سوتے ہیں فرمایا کہ حق و صداقت کے راستے میں چلنے والوں کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ فرمایا کہ جب یہ کفار کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور جب نجات پالیتے ہیں تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں حالانکہ ان کے دل جانتے ہیں کہ ساری کائنات اللہ نے پیدا کی ہے وہی نجات دیتا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں مشقت اور مصیبتیں اٹھاتے ہیں اللہ ان کے لیے زندگی کی راہیں آسان کردیتا ہے۔ دیانت وامانت اختیار کرنے والا اللہ کی مدد کا مستحق ہوتا ہے۔ ان سے اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اہل ایمان کے لیے بڑی خوش خبری اور بشارت ہے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة العنکبوت کا تعارف ربط سورة : القصص کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ” اللہ “ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارنا، حکم اللہ کا چلتا ہے لہٰذا اس کا حکم ہے کہ توحید کی دعوت کو عام کرو۔ العنکبوت کی ابتدا میں ارشاد ہے کہ اس راستہ میں آزمائشیں ضرور آئیں گی۔ تم سے پہلے لوگ بھی آزمائے گئے اور ... تمہیں بھی ضرور بضرور آزمایا جائے گا تاکہ لوگوں کو کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم ہوجائے۔ سورۃ کا نام آیت 41 سے لیا گیا ہے۔ یہ سورة مبارکہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ 7 رکوع اور 69 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلی سورة القصص ہے جس کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ ” اللہ “ کے سوا کوئی اور معبود نہیں اس لیے اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ اس سورة کی ابتدا میں یہ حقیقت کھول دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے لوگوں کو بھی مختلف انداز میں آزمایا تھا اور ہر صورت میں وہ تمہیں بھی آزمائے گا۔ آزمائش کا مطلب محض تکلیف دینا نہیں بلکہ سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جو امتحان کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی منکرین حق کو بتلایا گیا ہے کہ تم کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر نہیں ہو۔ یہ تو اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ تمہیں مہلت پر مہلت دے رہا ہے۔ تمہیں اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ کسی کے اس کی طرف متوجہ ہونے سے ” اللہ “ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق سے بےنیاز ہے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا وہ اس کا ضرور فائدہ پائے گا۔ اس سورة کا مرکزی مضمون شرک کی نفی اور ” اللہ “ کی توحید کا اثبات کرنا ہے۔ شرک کو مکڑی کے گھر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار چیز کو یہ شعور بخشا ہے کہ وہ اپنے آرام اور رات گزارنے کے لیے اپنا گھر بناتی ہے۔ دنیا کے گھروں میں سب سے کمزور اور ناپائیدار گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ جسے مکڑی اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہے۔ حالانکہ نہ اس سے گرمی میں بچا جاسکتا ہے نہ سردی میں اس میں سکون ملتا ہے۔ اس کی ناپائیداری کا عالم یہ ہے کہ ہوا کا معمولی جھونکا بھی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ یہی مشرک کے عقیدہ کی کیفیت ہوتی ہے وہ جنہیں دکھ اور مصیبت کے وقت پکارتا ہے جو نہی مشرک کو معلوم ہو کہ فلاں شخص بڑا پہنچا ہوا ہے تو وہ سب کو چھوڑ کر اس کی طرف بھاگ جاتا ہے۔ جس طرح مکڑی تانے بانے کو اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہے یہی حالت مشرک کی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے مضبوط سہارے کو چھوڑ کر فوت شدہ لوگوں اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں یہاں تک کہ درختوں اور پتھروں کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہے۔ جس طرح ہوا کا معمولی جھونکا مکڑی کے گروندھے کو ختم کردیتا ہے اسی طرح معمولی پریشانی سے مشرک کا اپنے مشکل کشاؤں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ شرک کے عقیدہ کو تار عنکبوت کے ساتھ تشبیہ دینے کے بعد مشرکین سے چند سوال کیے گئے ہیں۔ 1 بتاؤ کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور کس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے ؟ 2 ” اللہ “ ہی رزق زیادہ اور کم کرنے والا ہے کیا اس کے سوا کوئی ایسا کرسکتا ہے ؟ 3 بتاؤ آسمان سے بارش کون نازل کرتا ہے۔ اور کون بارش کے ساتھ مردہ زمین کو ہریالی عطا کرتا ہے ؟ ہر دور کے مشرک کا ایک ہی جواب ہے اور ہوگا کہ یہ کام تو صرف ” اللہ “ ہی کرتا ہے۔ فرمایا کہ تمام تعریفات ” اللہ “ کے لیے ہیں اس نے اپنی توحید سمجھانے کے لیے ایسے دلائل دیے اور مثالیں بیان فرمائی ہیں کہ ہر دور کے مشرک لاجواب ہوتے رہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک توحید سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مشرک جب کسی ناگہانی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ” اللہ “ کو مخلص ہو کر پکارتے ہیں۔ جب ناگہانی مصیبت بالخصوص سمندر کے بھنور سے ان کی کشتی سلامت نکل آتی ہے تو خشکی پر پہنچ کر پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ عقیدہ شرک اختیار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگانا اور اس کے ارشادات کی تکذیب کرنا ہے۔ کیونکہ شرکیہ عقیدہ کی بنیاد جھوٹی کہانیوں اور من گھڑت کرامات پر قائم ہوتی ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی بات لگائیں گے اور اس کے ارشادات کا انکار کرینگے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین اور اذّیت ناک جگہ ہے۔ ہاں جن لوگوں نے دین اور عقیدہ توحید کو پانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ ضرور ان کی۔ راہنمائی فرمائے گا کیونکہ وہ اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة العنکبوت ایک نظر میں سورة عنکبوت مکی ہے ، بعض روایات میں یہ آیا ہے کہ اس کی پہلی گیارہ آیات مدنی ہیں۔ محض اس لیے کہ ان میں جہاد اور منافقین کا ذکر ہے۔ لیکن ہم اس قول کو ترجیح دیتے ہیں یہ پوری سورت مکی ہے اور اس کی آٹھویں آیت کے بارے میں یہ روایت آتی ہے کہ یہ سعد ابن ابی وقاص کے اسلام کے بار... ے میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ عنقریب اس کا ذکر ہوگا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت سعد ابن ابی وقاص مکہ میں مسلمان ہوئے۔ ظاہر ہے کہ جن آیات کو مدنی کہا گیا ہے یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ ان سب آیات کو مکی کہا جائے۔ رہی یہ بات کہ ان میں جہاد کا ذکر آیا ہے تو اس کی تاویل آسان ہے کیونکہ مضمون کلام سے یہاں آزمائشوں کے خلاف جہاد معلوم ہوتا ہے ۔ نفس کے خلاف جہاد اور نفاق کا ذکر بھی اسی کا مفہوم ہے یعنی اسی منافقت کہ ایک آدمی بات کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا۔ ان آیات میں لوگوں کے ایک مخصوص نمونے کا ذکر ہے۔ یہ پوری سورت آغاز سے اختتام تک ایک ہی لائن اور ایک ہی موضوع پر جاری ہے۔ اس کا آغاز حروف مقطعات اور ایمان اور ایمان والوں کی آزمائش سے ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب ایمان کسی شخص کے دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے تو اس شخص سے ایمان بھاری تقاضے کرتا ہے کیونکہ ایمان صرف چند کلمات کا نام نہیں ہے جو کہہ دئیے جائیں بلکہ ایمان کے نتیجے میں جو مشکلات آتی ہے انکو برداشت کرنا ، اس کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہوتا ہے فرائض و مشکلات پر صبر کرنا بھی ایمان کا حصہ ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کا محور اور موضوع ہی ” ایمان اور اس کے تقاضے “ ہے کیونکہ ایمان اور مشکلات راہ کے ذکر کے بعد حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت لوط ، حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قصص آتے ہیں۔ پھر عاد ، ثمود ، قارون ، فرعون اور ہامان کا ذکر ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر تمام زمانوں اور اقوام میں یہی صورت حال اہل ایمان کو پیش آتی رہی ہے یعنی ایمان کے ساتھ فتنے اور آزمائش لازم ہوتی ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں شر کی قوتیں ہمیشہ ایمان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں اور مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ شر کی قوتیں اہل ایمان کو معاشرے میں حقیر قوت ظاہر کرتی ہیں۔ ان کو نظر انداز کرتی ہیں لیکن اللہ ان کو خوب پکڑتا ہے۔ فکلا اخذنا ۔۔۔۔۔۔ من اغرقنا (29: 40) ” آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا۔ پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی ، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا ، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، اور کسی کو غرق کردیا “۔ پھر ان تمام قوتوں کی ایک مجسم مثال دی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں یہ کس قدر کمزور ہیں اللہ کی قوتیں جب اٹھتی ہیں تو یہ بےبس ہوتی ہیں۔ مثل الذین اتخذوا ۔۔۔۔۔۔ لو کانو یعلمون (29: 41) ” جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے “۔ اس کے بعد یہ سورت اس سچائی کو جو تمام انبیاء کی دعوتوں میں پائی جاتی ہے ، اس سچائی کے ساتھ جوڑ دیتی ہے ، جو زمین اور آسمان کی تخلیق میں ہے اور اس کے بعد ان تمام دعوتوں کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے کہ یہ سب اللہ کی جانب سے ہیں۔ سب دعوتیں اللہ وحدہ کی طرف پکارتی ہیں۔ اس کے بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی کتاب قرآن کریم پر بات ہوتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ مشرکین کا ردعمل اس کتاب کے حوالے سے کیا تھا۔ وہ اس کتاب کے ہوتے ہوئے خارق عادت معجزات طلب کرتے ہیں حالانکہ اس کے اندر جو دعوت ہے وہ اللہ کی رحمت اور نہایت ہی بہترین راہنمائی اور یاد دہانی پر مشتمل ہے۔ اور پھر تعجب انگیز انداز میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس بارے میں جلدی کرتے ہیں کہ عذاب جلد کیوں نازل نہیں ہوتا حالانکہ جہنم تو بہت جلد ان کو اپنے گھیرے میں لینے والی ہے۔ پھر خود ان کی سوچ اور اپنے عقائد میں تضاد ہے۔ ولئن سالتھم ۔۔۔۔۔ لیقولن اللہ ” اگر ان سے پوچھو کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ، تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ نے “۔ ولئن سالتھم من نزول ۔۔۔۔۔۔۔ لیقولن اللہ ” اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں سے پانی کس نے نازل کیا ، پھر زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کے ساتھ اسے زندہ کردیا تو وہ کہیں گے کہ اللہ نے “۔ فاذا رکبوا ۔۔۔۔ لہ الدین (29: 56) ” جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو صرف اللہ کو پکارتے ہیں ، پورا دین اس لیے خالص کرتے ہوئے “۔ لیکن یہ عقائد رکھنے کے باوجود یہ لوگ شرک کرتے ہیں اور اہل ایمان کو آزمائشوں میں ڈالتے ہیں۔ اس بحث و مباحثے کے درمیان مومنین کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان آزمائشوں سے بچنے کیلئے ہجرت کریں ، موت سے نہ ڈریں ، کیونکہ کل نفس ذائقۃ الموت ثم الینا ترجعون ” ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ، پھر وہ سب ہماری طرف لوٹ کر آئیں گے “۔ نیز ہجرت کرتے ہوئے اس بات کی بھی پرواہ نہ کرو کہ ہم کھائیں گے کیا ، کیونکہ وکاین من دابۃ ۔۔۔۔۔ وایاکم (29: 60) ” کتنے ہی زمین پر چلنے والے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے ہوئے نہیں ہوتے ، اللہ انہیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی دیتا ہے “۔ سورت کے آخر میں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ان کی تعریف اور تمجید کی گئی ہے اور ان کو ہدایت پر مطمئن ہونے اور ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ والذین جاھدوا ۔۔۔۔۔۔ لمع المحسنین (29: 69) ” وہ لوگ جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ، ہم ضرور ان کی راہنمائی اپنے راستوں کی طرف کریں گے ، بیشک اللہ محسن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے “۔ یوں سورت کا خاتمہ اس کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور اس طرح پوری سورت کے پیش نظر جو حکمت ہے ، وہ واضح ہوجاتی ہے۔ اور اسکے تمام حلقے مربوط ہوجاتے ہیں اور سب اس سورت کے محور کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ اس سورت کی بات ، اپنے اس موضوع پر تین راونڈز میں چلتی ہے۔ پہلے راؤنڈ میں ایمان کی حقیقت ، اللہ کی یہ سنت کہ وہ کارکنوں کو آزماتا ہے اور مشکلات میں مبتلا کرتا ہے اور پھر یہ کہ ایمان لانے والوں کا انجام کیا ہوگا اور کافروں کا انجام کیا ہوگا۔ اور یہ کہ ذمہ داری انفرادی ہے۔ لہٰذا قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھا سکے گا۔ ولیسئلن یوم القیمۃ عما کانوا یفترون (29: 13) ” قیامت کے دن ضرور ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ کیا افترا پردازیاں کرتے رہے تھے۔ دوسرے راؤنڈ میں وہ قصص ہیں جن کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا۔ ان قصص میں بھی وہ مشکلات اور رکاوٹیں بیان کی گئی ہیں جو ہمیشہ دعوت اور داعی کی راہ میں آتی ہیں۔ لیکن آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی قوتوں کے سامنے ان مشکلات اور رکاوٹوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بتایا جاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت حق پر مبنی ہوتی ہے اور اس کائنات کی تخلیق بھی اس حق کے اصول پر ہے۔ جس حق پر کائنات استوار ہے اور جس پر دین و شریعت استوار ہے ، دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ تیسرے راؤنڈ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ نہ کرو مگر نہایت اچھے انداز میں۔ ہاں ان میں سے ایسے لوگوں کے خلاف سخت بات کی جاسکتی ہے جو ان میں سے ظالم ہوں۔ اہل کتاب سے یہ بات کی جاسکتی ہے کہ تمام ادیان ایک ہیں ، اور کافر جس دین اسلام کا انکار کر رہے ہیں ، یہ بھی تمام ادیان سماوی کا ہم مشرب دین ہے۔ سب کا سرچشمہ ایک ہے۔ اس راؤنڈ میں مشرکین کے ساتھ مباحثہ ہے۔ اور ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں کہ وہ مطمئن ہوجائیں ، ان کے لیے خوشخبریاں ہیں اور ثابت قدمی سے اپنی راہ پر چلیں ۔ کیونکہ وان اللہ لمع المحسنین (29: 69) ” بیشک اللہ محسنین کے ساتھ ہے “۔ آغاز سے اختتام تک دوران کلام جا بجا تبصرے آتے ہیں ، جن میں ایمان کی حقیت کو دلوں میں بٹھایا جاتا ہے۔ ان تبصروں کے ذریعے دلوں کو خوب جھنجھوڑا جاتا ہے۔ اور داعیان حق کے دلوں کو راہ ایمان کی مشکلات کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے کہ یا تو ان مشکلات کو برداشت کردیا اس راہ کو چھوڑدو۔ اگر تم ایمان کے تقاضے پورے نہ کروگے تو یہ نفاق ہوگا۔ غرض یہ ایسے اور ایسی ضربات ہیں جن پر ان نصوص کے ضمن ہی میں بحث کی جاسکتی ہے ، جن میں یہ ضربات آتی ہیں۔ لہٰذا مفصل بات ہم نصوص کی تشریح تک موخر کرتے ہیں اور یہاں اسی اشارے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ درس نمبر 180 تشریح آیات 1 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 13 ا۔ ل۔ م۔ ان حروف میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کتاب انہی حروف تہجی سے بنی ہے جو تمہیں معلوم ہیں اور تمہاری دسترس میں ہیں لیکن ان سے تم ایسی کتاب نہیں بنا سکتے جیسے قرآن ہے۔ اس لیے کہ یہ کتاب اللہ کا کلام ہے ، انسان کا کلام نہیں ہے۔ دوسرے مفسرین نے ان کے اور معانی بھی بیان کیے ہیں لیکن میں اس معنی کو ترجیح دیتا ہوں۔ اتل ما اوحی الیک من الکتب (29: 45) ” تمہاری طرف جو کتاب نازل کی جا رہی ہے اسے پڑھئے “۔ وکذلک انزلنا الیک الکتب (29: 47) ” اسی طرح ہم نے تمہاری طرف بھی کتاب نازل کی ہے “۔ وما کنت۔۔۔۔۔ تخطہ بیمینک (29: 48) ” اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اولم یکفھم ۔۔۔۔۔۔ علیھم (29: 51) ” کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر کتاب نازل کی ہے جو ان پر پڑھی جا رہی ہے “۔ یہ تذکرہ اسی قاعدے کے مطابق ہے اور اسی لیے ہم نے حروف مقطعات کی تفسیر میں یہ رائے اختیار کی ہے۔ ان کے بعد ایمان کی بات شروع ہوتی ہے اور ان آزمائشوں کی بات آتی ہے جو اس ایمان کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں ، تاکہ معلوم ہو کہ مدعیان ایمان صادق ہیں یا کاذب ، اس لئے کہ سچے اور جھوٹے کی آزمائش ، آزمائش ہی سے ہوتی ہے۔ الم ۔۔۔۔۔ ولیعلمن الکذبین (1 – 3) ؟ اس سورت کے پہلے پر زور قطعہ کا یہ دھماکہ خیز اعلان ہے ، سرزنش آمیز سوالیہ کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ تم ایمان کو کیا سمجھتے ہو ؟ کیا ایمان صرف چند الفاظ کا نام ہے جو زبانی ادا کر دئیے جائیں ؟ احسب الناس ۔۔۔۔۔۔ لا یفترون (29: 2) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ وہ کہہ دیں کہ ” ہم ایمان لائے “ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا “۔ ایمان چند کلمات کا نام نہیں ہے جو زبان سے کہہ دئیے جائیں بلکہ وہ ایک حقیقت ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں۔ وہ ایک امانت ہے جس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ یہ دراصل ایک جہاد ہے جس میں بڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات کافی ہے کہ کوئی زبان سے کہہ دے ” ہم ایمان لائے “۔ اگر وہ ایمان کا دعویٰ کریں گے تو خود ان کی آزمائش شروع ہوجائے گی اور ان کی آزمائشوں میں ان کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان آزمائشوں سے وہ صاف ہو کر نکلیں گے اور ان کے دلوں کو خالص ہونا ہوگا۔ فتنہ کے معنی ہیں سونے کو گرم کرکے اس سے کھوٹ جدا کرنا۔ اس لفظ کے یہ لغوی معنی بھی یہاں مراد ہیں کہ آزمائشوں کے نتیجے میں ہی خالص لوگ سامنے آتے ہیں۔ آزمائشوں سے نکل کر کارکنوں کے دل صاف و شفاف ہوجاتے ہیں لہٰذا ایمان کے اعلان کے بعد آزمائش کا آنا ایک اصولی بات ہے۔ ایک جاری سنت سے اور اللہ کا معیار ہے۔ جس پر اہل ایمان پرکھے جاتے ہیں۔ ولقد فتنا۔۔۔۔۔ الکذبین (29: 3) ” حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کو چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں “۔ اللہ کو تو ہر دل کی حقیقت معلوم ہے۔ ابتلا سے پہلے ہی معلوم ہے ، لیکن مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اللہ کے علم میں ہے اور لوگوں سے پوشیدہ ہے وہ کھل کر سامنے آجائے تاکہ لوگوں کے ساتھ حساب و کتاب ان کے اعمال کے مطابق کیا جاسکے۔ اور صرف اسی بات پر ان کا محاسبہ نہ ہو کہ اللہ کو علم تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ اور یہ ایک پہلو سے اللہ کا کرم ہے اور اللہ کا عدل ہے اور لوگوں کی تربیت ہے کہ کسی شخص کو صرف ان اعمال پر پکڑا جاسکتا ہے جو کھلے ہوں ، اور جو ایک عملی حقیقت ہوں۔ کسی کو اس کی نیت پر نہیں پکڑا جاسکتا۔ کیونکہ دنیا کا کوئی حاکم اللہ سے زیادہ نبات کا جاننے والا نہیں ہے اب ہم اس مضمون کی طرف آتے ہیں کہ اللہ اہل ایمان کو ، اپنی سنت کے مطابق ہمیشہ آزماتا ہے اور انہیں بعض مشکلات سے دوچار کرتا ہے تاہ یہ معلوم ہو کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور نظریہ اس کائنات میں اللہ کی امانت ہے۔ اس امانت کے حامل وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اس کی اہلیت رکھتے ہوں اور جن کے اندر اس کے اٹھانے کی قدرت ہو ، اور وہ ایمان اور نظریہ کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھتے ہوں ، جو اپنا آرام اور امن اور سکون و سلامتی ، سازو سامان اور عیش و عشرت اس پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ ایمان اور اسلامی نظریہ حیات اس زمین پر منصب خلافت الہیہ کا دوسرا نام ہے۔ بایں معنی کہ اس زمین پر مومن عوام الناس کا قائد ہو اور اللہ کے احکام کو اس دنیا کی زندگی میں حقیقت کا روپ دے۔ یہ ہے نہایت اہم اور قیمتی ذمہ داری اور یہ ایک ایسا کام ہے جو بہت ہی مشکل ہے اور اس کے لیے لوگوں کی ضرورت ہے جو مشکلات کو انگیز کرسکتے ہوں۔ اہل ایمان کی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش یہ ہوتی کہ وہ ان مشکلات اور اذیتوں پر صبر کریں جو ان کو اہل باطل کی طرف سے پہنچیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ ان کے لیے کوئی مددگار اور سہارانہ ہو۔ مومن نہ اپنا دفاع کرسکتا ہو اور نہ اسے کسی طرح سے کوئی مدد ملتی ہو۔ نہ اس کے پاس کوئی ایسی قوت ہو جس کے ساتھ وہ زیادتی کرنے والوں کا مقابلہ کرسکے۔ یہ آزمائش کی سخت ترین صورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں جب آزمائش کا ذکر ہوتا ہے تو ایسی ہی صورت حالات مراد ہوتی ہے۔ لیکن فتنے اور آزمائش کی اس سے بھی زیادہ سخت اور شدید صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً بعض اوقات یہ خطرہ ہوتا ہے کہ ایک مومن کی وجہ سے اس کے دوستوں ، احباب اور رشتہ داروں کو بھی اذیت دی جائے گی۔ اور یہ مومن ان کے بارے میں بےبس ہوتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ یہ احباب دہائیاں دیتے ہیں کہ مومن ان کی خاطر نرمی کرلے یا باطل کے ساتھ مصالحت کرے تاکہ اقرباء اور رشتہ داروں پر تشدد نہ ہو اور دوسرے لوگ تباہ و برباد نہ ہوں۔ اس سورت میں اس قسم کی آزمائشوں کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ جہاں مومن کے ساتھ بچے بھی مارے جاتے ہیں۔ آزمائش کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض اوقات باطل پرستوں پر دولت کی بارش ہوتی ہے ۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ اہل باطل خوشحال اور کامیاب ہیں۔ دنیا ان کے نعرے بلند کرتی ہے۔ عوام الناس تالیاں بجا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ اس کے راستے سے رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں اور لوگ ان پر قربان ہوتے ہیں اور ان کی زندگی نہایت ہی خوشگواری سے گزرتی ہے اور یہ مومن بیچارہ نظروں سے گرا ہوا ، غیر اہم جس کا کوئی حامی نہ ہو ، اور وہ جس عظیم سچائی کا حامل ہے اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ ہاں چند اس جیسے لوگ اور اس کے حامی ہوتے ہیں لیکن وہ خود معاشرے کے بےاثر لوگ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک مومن اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرتا ہے ، وہ دیکھتا ہے کہ وہ خود اپنی سوسائٹی میں غریب الدیار ہے۔ اس کا پورا ماحول گمراہی میں مبتلا ہے۔ اور اس ماحول میں وہ انوکھا لگ رہا ہے۔ اور آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مومن عجیب اذیت کے ساتھ آزمایا جاتا ہے ۔ ایک مومن دیکھتا ہے کہ اس کرہ ارض پر بعض اقوام گمراہی اور رذالت میں کانوں تک ڈوبی ہوئی ہیں لیکن یہ اقوام نہایت ترقی یافتہ ہیں اور نہایت خوشحال اور مہذب ہیں اور ایسی اقوام میں ایک فرد ، جو بھی ہو ، وہ ایک انسان کے لائق عزت اور دیکھ بھال پاتا ہے۔ یہ اقوام مالدار اور خوشحال ہیں حالانکہ یہ اللہ کی نافرمان اقوام ہیں۔ اور اس سے بھی ایک عظیم آزمائش ایک مومن کے لیے اور ہے۔ یہ بہت ہی شدید ہے۔ نفس ، نفسانیت اور شہوات کا فتنہ ، دنیا کی کشش ، جسمانی لذت ، دولت اور اقتدار کی پیاس ، خوشحالی اور مرفہ الخالی کی دوڑ ، اور صراط مستقیم اور راہ ایمان پر چلنے کی دشواری۔ پھر اخلاق و کردار اور نفس کے مخالف میلانات کی دشواری ، جدید دور کی زندگی کے حالات ، جدید لوگوں کی سوچ ، اور اہل زمانہ کے تصورات کے حملے اور آزمائش۔ اور جب ایک مومن کی جدوجہد طویل تر ہوجائے ، اور اللہ کی طرف سے نصرت آنے میں تاخیر اور آزمائش شدید اور ناقابل برداشت ہوجائے اور ان کا مقابلہ وہی شخص کرسکتا ہو جسے اللہ ہی لغزشوں سے بچا رہا ہو ، تو ایسے مومن ہی دراصل وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس امانت کا حق ادا کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں پر اس عظیم امانت کے سپرد کیے جانے کا اعتماد کیا جاتا ہے۔ یعنی زمین کے بارے میں عالم بالا کی امانت اور انسانی ضمیر میں ایمان باللہ کی امانت۔ خدا کی قسم ، یہ بات نہیں ہے کہ اللہ آزمائشوں کے ذریعہ اہل ایمان کو محض سزا دینا چاہتا ہو ، یا ان کو مصائب میں مبتلا کرکے ان کو اذیت دینا چاہتا ہو ، بلکہ اللہ ان کو اس امانت کے اٹھانے کے لیے حقیقتاً تیار کرنا چاہتا ہے اور یہ تیاری اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اہل ایمان کو عملا مشتقوں میں مبتلا نہ کیا جائے ، جب تک وہ صبر کرکے ہر قسم کی خواہشات اور شہوات پر برتری حاصل نہیں کرلیتے ، جب تک وہ اذیتوں پر صبر کرنا سیکھ نہیں لیتے ، اور جب تک انہیں اللہ کی نصرت پر حقیقی بھروسہ نہیں ہوجاتا۔ اگرچہ نصرت الہیہ بہت دیر کر دے اور اگرچہ ابتلاؤں کا دور طول کھینچ لے اور بہت شدید ہوجائے۔ نفس انسانی کو جب مصیبتوں کی بھٹی میں گرمایا جاتا ہے تو اس کا کھوٹ دور ہوجاتا ہے۔ اس کی خفیہ قوتیں جوش میں آتی ہیں ، اس کی مدافعانہ قوتیں جمع ہوتی ہیں۔ مصائب کے یہ پہاڑ جب کسی پر ٹوٹتے ہیں تو اس کا باطل عیقل ہوجاتا ہے ، اس کا جسم مضبوط ہوتا ہے اور یہ مومن ان مصائب و شدائد کا خوگر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی جماعت پر یہ مشکلات آئیں تو وہ جماعت بھی اسی طرح صاف ہوجاتی ہے۔ اس کی صفوں سے کمزور لوگ نکل جاتے ہیں۔ مضبوط لوگ ہی رہ جاتے ہیں اور اولوالعزم اور قوی الارادہ اور اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق والے ہی جماعت میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں کسی ایک نہ ایک اچھے نتیجے والے کی امید ہوتی ہے یا فتح کی یا اجراخروی کی اور یہی لوگ ہوتے ہیں ، جن کو آخر میں جھنڈے تھمائے جاتے ہیں اور اچھی تیاری اور ٹریننگ کے بعد پھر ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جب اس امانت کو اٹھاتے ہیں تو یہ پھر انہیں دل و جان سے عزیز ہوتی ہے اس لیے کہ انہوں نے اس کے لیے قربانیاں دی ہوتی ہیں اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہوتی ہے۔ اس کی خاطر انہوں نے صبر کیا ہوتا ہے اور مشقتیں جھیلی ہوتی ہیں اور جو کارکن اپنا خون اور اپنے اعصاب قربان کرتا ہے ، آرام اور اطمینان تج دیتا ہے۔ لذائذ اور مرغوبات کی قربانی دیتا ہے۔ اور پھر اذیتوں اور محرومیوں پر صبر کرتا ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی کارکن کو اس امانت اور نظریہ کا شعور ہوتا ہے کہ اس کی قدرو قیمت کیا ہے۔ اس لیے وہ اسے ارزاں فروخت نہیں کرتا ، کیونکہ اس نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہوئی ہوتی ہے۔ رہی یہ بات کہ آخر کار یہ ایمان ، امانت اور اسلامی نظریہ حیات غالب ہو کر رہے گا تو یہ وہ وعدہ ہے جو اللہ نے کیا ہے اور اس کی ضمانت دی ہے۔ اور کوئی سچا مومن اللہ کے وعدے کے بارے میں شک نہیں کرسکتا ، اگر یہ وعدہ دیر سے حقیقت بنتا ہے تو اس کی بھی کوئی حکمت ہوگی۔ اس میں اہل ایمان کے لیے بھلائی ہوگی۔ جان لو کہ اللہ جس قدر حق پر غیرت کرتا ہے ، جس قدر ان کی حمایت کرتا ہے ، اس سے زیادہ حق کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ مومن کے لیے آزمائش اور مشقت ہی بہتر ہے تاکہ اس طرح وہ بندگان مختار میں شامل ہوجائے۔ حق کا امین بن جائے ، اور اللہ اس پر گواہ ہوجائے کہ اس کا دین مضبوط ہے اور وہ حمل امانت کا اہل ہے اس لیے اسے آزمائش کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے ” ابتلاؤں میں شدید اور مضبوط لوگ انبیاء ہوتے ہیں۔ پھر صالحین ہوتے ہیں ، اور ان کے بعد درجہ بدرجہ ، ہر آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر اس کا دین مضبوط ہو تو اسے زیادہ آزمایا جاتا ہے “۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi