Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 13

سورة العنكبوت

وَ لَیَحۡمِلُنَّ اَثۡقَالَہُمۡ وَ اَثۡقَالًا مَّعَ اَثۡقَالِہِمۡ ۫ وَ لَیُسۡئَلُنَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۱۳﴾٪  13

But they will surely carry their [own] burdens and [other] burdens along with their burdens, and they will surely be questioned on the Day of Resurrection about what they used to invent.

البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی اور جو کچھ افترا پردازیاں کر رہے ہیں ان سب کی بابت ان سے باز پرس کی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ... And verily, they shall bear their own loads, and other loads besides their own. Here Allah tells us that those who call others to disbelief and misguidance will, on the Day of Resurrection, bear their own sins and the sins of others, because of the people they misguided. Yet that will not detract from the burden of those other people in the slightest, as Allah says: لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَـمَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ That they may bear their own burdens in full on the Day of Resurrection, and also of the burdens of those whom they misled without knowledge. (16:25) In the Sahih, it says: مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الاَْجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْيًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَلَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الاْثْمِ مِثْلُ اثَامِ مَنِ اتَّبَعَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ اثَامِهِمْ شَيْيًا Whoever calls others to true guidance, will have a reward like that of those who follow him until the Day of Resurrection, without it detracting from their reward in the slightest. Whoever calls others to misguidance, will have a burden of sin like that of those who follow him until the Day of Resurrection, without it detracting from their burden in the slightest. In the Sahih, it also says: مَا قُتِلَتْ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ ادَمَ الاْاَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا لاِاَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْل No person is killed unlawfully, but a share of the guilt will be upon the first son of Adam, because he was the first one to initiate the idea of killing another. ... وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ and verily, they shall be questioned on the Day of Resurrection about that which they used to fabricate. means, the lies they used to tell and the falsehood they used to fabricate. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Umamah, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah conveyed the Message with which he was sent, then he said: إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ فَإِنَّ اللهَ يَعْزِمُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلَلِي لاَ يَجوزُنِي الْيَوْمَ ظُلْمٌ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ فَيَقُولُ أَيْنَ فُلَنُ بْنُ فُلَنٍ فَيَأْتِي يَتْبَعُهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ فَيَشْخَصُ النَّاسُ إِلَيْهَا أَبْصَارَهُمْ حَتَّى يَقُومَ بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمنِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَأْمُرُ الْمُنَادِيَ فَيُنَادِي مَنْ كَانَتْ لَهُ تِبَاعَةٌ أَوْ ظَلَمَةٌ عِنْدَ فُلَنِ بْنِ فُلَنٍ فَهَلُمَّ فَيُقْبِلُونَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا قِيَامًا بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمنِ فَيَقُولُ الرَّحْمنُ اقْضُوا عَنْ عَبْدِي فَيَقُولُونَ كَيْفَ نَقْضِي عَنْهُ فَيَقُولُ خُذُوا لَهُمْ مِنْ حَسَنَاتِهِ فَلَ يَزَالُونَ يَأْخُذُونَ مِنْهَا حَتَّى لاَ يَبْقَى مِنْهَا حَسَنَةٌ وَقَدْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ الظَّلَمَاتِ فَيَقُولُ اقْضُوا عَنْ عَبْدِي فَيَقُولُونَ لَمْ يَبْقَ لَهُ حَسَنَةٌ فَيَقُولُ خُذُوا مِنْ سَيِّيَاتِهِمْ فَاحْمِلُوهَا عَلَيْه Beware of injustice, for Allah will swear an oath of the Day of Resurrection and will say: "By My glory and majesty, no injustice will be overlooked today." Then a voice will call out, "Where is so-and-so the son of so-and-so?" He will be brought forth, followed by his good deeds which appear like mountains while the people are gazing at them in wonder, until he is standing before the Most Merciful. Then the caller will be commanded to say: "Whoever is owed anything by so-and-so the son of so-and-so, or has been wronged by him, let him come forth." So they will come forth and gather before the Most Merciful, then the Most Merciful will say: "Settle the matter for My servant." They will say, "How can we settle the matter?" He will say, "Take from his good deeds and give it to them." They will keep taking from his good deeds until there is nothing left, and there will still people with scores to be settled. Allah will say, "Settle the matter for My servant." They will say, "He does not have even one good deed left." Allah will say, "Take from their evil deeds and give them to him." Then the Prophet quoted this Ayah: وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ And verily, they shall bear their own loads, and other loads besides their own; and verily, they shall be questioned on the Day of Resurrection about that which they used to fabricate. There is a corroborating report in the Sahih with a different chain of narration: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ الْجِبَالِ وَقَدْ ظَلَمَ هَذَا وَأَخَذَ مَالَ هَذَا وَأَخَذَ مِنْ عِرْضِ هَذَا فَيَأْخُذُ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِذَا لَمْ تَبْقَ لَهُ حَسَنَةٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّيَاتِهِمْ فَطُرِحَ عَلَيْه A man will come on the Day of Resurrection with good deeds like mountains, but he had wronged this one, taken the wealth of that one and slandered the honor of another. So each of them will take from his good deeds. And if there is nothing left of his good deeds, it will be taken from their evil and placed on him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہوگا جو انکی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورة النحل میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہوگا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہوگا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہونگے۔ ، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہوگا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢] البتہ یوں ہوسکتا ہے کہ اگر ان لوگوں کے بہکانے سے کوئی شخص گمراہ ہوگیا تو گمراہ ہونے والے کو اپنی گمراہی کا عذاب دیا جائے گا۔ اور گمراہ کرنے والے کو دوہرا عذاب اس شکل میں ہوتا کہ ایک تو اسے اپنی گمراہی کی سزا بھگتنا ہوگی اور دوسرے اس گمراہ ہونے والے شخص کا حصہ رسدی عذاب اسے بھی دیا جائے گا جسے اس نے گمراہ کردیا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون کو پوری طرح واضح کر رہی ہے : منذر بن جریر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : && جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اس کے لئے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس برے طریقہ پر عمل کریں۔ لیکن عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کچھ کمی نہ ہوگی && (مسلم۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب الحث علی الصدقہ۔۔ ) [ ٢٣] مشرکوں کا یہ قول اللہ پر اقتراء اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے دراصل اللہ کے بتلائے ہوئے عقیدہ آخرت، باز پرس اور گناہوں کی سزا ان سب باتوں کا مذاق ارایا تھا۔ جس سے اللہ کی آیات کی بھی تکذیب ہوتی تھی اور اس کے رسول کی بھی۔ یعنی ان مشرکوں کے اپنے شرکیہ کارناموں کے علاوہ یہ اللہ پر افتراء کا جرم مزید اضافہ ہے اور اس جرم کی ان سے باز پرس بھی ہوگی اور عذاب بھی ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ : یعنی یہ جھوٹے ہیں، ان کا بوجھ رتی برابر ہلکا نہیں کرسکتے، ہاں اپنا بوجھ بھاری کر رہے ہیں، ایک تو یہ اپنے ذاتی گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور دوسرا اس کے ساتھ ان لوگوں کے گناہوں کا بھی جنھیں انھوں نے گمراہ کیا تھا، اگرچہ ان کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (دیکھیے نحل : ٢٥) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ دَعَا إِلٰی ہُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْءًا وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الإِْثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْءًا ) [ مسلم، العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ أو سیءۃ۔۔ : ٢٦٧٤ ] ” جو شخص ہدایت کے کسی کام کی طرف دعوت دے اسے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ملے گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِنْ دَمِہَا، لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ٣٣٣٥ ] ” کوئی جان ظلم سے قتل نہیں کی جاتی مگر آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ شروع کیا۔ “ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : یعنی جو جھوٹی باتیں یہ بناتے ہیں کہ ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے یہ خود مستقل گناہ ہے، اس افترا کی بھی انھیں سزا ملے گی۔ جس میں ان سے کی جانے والی بازپرس بھی ہوگی، جو بجائے خود نہایت خوفناک مرحلہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ۝ ٠ۡوَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝ ١٣ۧ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) اور یہ لوگ قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ان کے ساتھ ہی ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے اور قیامت کے دن ان سے یہ لوگ جو جھوٹی باتیں بناتے تھے اس کی باز پرس ہوگی

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْز) ” یعنی آخرت میں یہ لوگ صرف اپنی گمراہی کی سزا ہی نہیں بھگت رہے ہوں گے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا ہوگا۔ لیکن اے اہل ایمان ! اگر تم میں سے کوئی خطا کرے گا تو اس کے لیے وہ خود ہی جوابدہ ہوگا۔ تمہاری کسی خطا کا بوجھ یہ لوگ نہیں اٹھا سکیں گے۔ (وَلَیُسْءَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ” اس آیت میں تاکید کا پھر وہی انداز ہے (لام مفتوح اور نون مشدد) جو اس سے پہلے آیات ٣ ‘ ٧ اور ١١ میں آچکا ہے۔ یعنی قیامت کے دن دوسروں کی خطاؤں کا بوجھ اٹھانے کا یہ دعویٰ ان کا خود ساختہ جھوٹ ہے اور اس دن اپنی اس افترا پردازی کا بھی انہیں حساب دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اٹل فیصلہ اور قانون بہر حال یہ ہے : (وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط) (الاسراء : ١٥) کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ اس سورت کی ابتدائی بارہ آیات (پہلی آیت حروف مقطعات پر مشتمل ہے) اپنے مضمون کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ چناچہ کسی بھی دینی انقلابی تحریک کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان آیات کو حرز جان بنا لیں اور ان میں درج ہدایات و فرمودات کو اپنے قلوب و اذہان میں پتھر پر لکیر کی مانند کندہ کرلیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 That is "Though they will not bear the burdens of others, they will neither escape bearing a double burden: one burden of their own selves going astray, and the burden of leading the othere astray." This can be understood by an example. A person commits theft and also asks another person to join him. Now if the other person also commits theft, no judge will let him off only because he had committed the offence on someone else's prompting. He will in any case be punished for the theft and it will not be fair according to any law of justice to let him off and punish instead of him the first thief who had prompted him to commit the theft. However, the first thief will suffer punishment for two offences: the offence of committing theft himself and the offence of turning another person into a thief along with himself. This principle has been stated at another place in the Qur'an thus ".........so that they should bear the full brunt of their own burdens On the Day of Resurrection together with some of the burdens of those whom they are leading astray in their ignorance." (An-Nahl: 25) The same principle has been elucidated by the Holy Prophet in this Hadith: "whoever invited others to the right path will be granted a reward equal to the rewards of alI those who listened to him and adopted the right path, without diminishing their rewards in any way. And whoever invited others to deviation will earn a sin equal to the sins of all those who followed him, without diminishing their sins in any way." 20 "Scandal-mongering" implies all those untruths which were hidden in this saying of the disbelievers: "Follow our way and we will bear the burden of your sins. " In fact, they said this on the basis of two presumptions: (1) The creed of shirk they are following is hased on the truth and the Holy Prophet Muhammad's doctrine of Tauh, id is false; therefore, there is nothing wrong if it is rejected; and (2) there is going to be no Resurrection, and the doctrine of the Hereafter which deters a Muslim from unbelief is baseless. With these presumptions they would counsel a Muslim, saying, "Well, if you think that disbelief is really a sin, and there is going to be Resurrection when you will be called to account for this sin, then we are ready to take this sin of yours on our Selves You leave it to us and give up the religion of Muhammad and return to your ancestral religion." In this two other false things were also included: (a) Their belief that a person who commits an offence on someone else's prompting can be exempted from its responsibility, and the whole responsibility can be assumed by the one who had prompted the commission of the offence; and (b) their false promise that on the Day of Resurrection they will certainly assume the responsibility for those who might have turned apostates on their counselling. For when Resurrection will actually be established, and they will see Hell against their expectations, they will never be prepared to receive the punishment of their own disbelief as well as bear the whole burden of the sins of those others whom they had deceived and misled in the world.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 19 یعنی وہ خدا کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے لیکن دوہرا بوجھ اٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں ، ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے ۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑ دے گا کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے ۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گیا ور کسی اصول انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہوگا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا ۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی ، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا ۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ( النحل آیت 25 ) تاکہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں ۔ اور اسی قاعدے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا و من دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا ۔ ( مسلم ) جس شخص نے راہ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کوئی کمی ہو ، اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 20 افترا پردازیوں سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جو کفار کے اس قول میں چھپی ہوئی تھیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گی ۔ دراصل وہ لوگ دو مفروضات کی بنیاد پر یہ بات کہتے تھے ۔ ایک یہ کہ جس مذہب شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں وہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب توحید غلط ہے ، اس لیے اس سے کفر کرنے میں کوئی خطا نہیں ہے ، دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ کوئی حشر نہیں ہونا ہے اور یہ حیات اخروی کا تخیل ، جس کی وجہ سے ایک مسلمان کفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے ، بالکل بے اصل ہے ۔ یہ مفروضات اپنے دل میں رکھنے کے بعد وہ ایک مسلمان سے کہتے تھے کہ اچھا اگر تمہارے نزدیک کفر کرنا ایک خطا ہی ہے ، اور کوئی حشر بھی ہونا ہے جس میں اس خطا پر تم سے باز پرس ہوگی ، تو چلو تمہاری اس خطا کو ہم اپنے سر لیتے ہیں ، تم ہماری ذمہ داری پر دین محمد کو چھوڑ کر دین آبائی میں واپس آجاؤ ۔ اس معاملہ میں پھر مزید دو جھوٹی باتیں شامل تھیں ۔ ایک ان کا یہ خیال کہ جو شخص کسی کے کہنے پر جرم کی ذمہ داری سے بری ہوسکتا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری وہ شخص اٹھاتا سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے جرم کیا ہے ۔ دوسرا ان کا یہ جھوٹا وعدہ کہ قیامت کے روز وہ ان لوگوں کی ذمہ داری واقعی اٹھالیں گے جو ان کے کہنے پر ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں ۔ کیونکہ جب قیامت فی الواقع قائم ہوجائے گی اور ان کی امیدوں کے خلاف جہنم ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگی اس وقت وہ ہرگز اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ اپنے کفر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ ان لوگوں کا بوجھ بھی پورا کا پورا اپنے اوپر لے لیں جنہیں وہ دنیا میں بہکا کر گمراہ کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی جن لوگوں کو انہوں نے گمراہ کیا، ان کے گناہوں کا بوجھ بھی ان کو اٹھانا ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ گناہوں کی سزا سے بچ جائیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کو تو گناہ ہوگا ہی، لیکن ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گناہ ہوگا جنہوں نے ان کو گمراہ کیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣ تا ٢٠۔ اوپر مشرکین مکہ کی سرکشی کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اللہ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے حضرت نوح (علیہ السلام) کے حال سے ان کو آگاہ فرمایا کہ وہ اپنی قوم میں اس قدر عرصہ دراز تک رہے اور پوشیدہ اور علانیہ دن رات ان کو سمجھاتے رہے جب بھی قوم کے لوگ نہ سمجھے اور اللہ کے رسول کو جھٹلاتے رہے اور اتنی مدت میں ان کی قوم میں سے بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے جب اس قدر مدت دراز تک حضرت نوح (علیہ السلام) کی نصیحت اور ڈرانے نے کچھ فائدہ نہ دیا تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم اپنی امت کے حال پر کچھ نہ پچھتاؤ اور نہ غم کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اسی کے دست قدرت میں سب کچھ ہے اس لیے جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں وہ کسی طرح راہ راست پر نہیں آویں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں حضرت نوح (علیہ السلام) رسول کر کے بھیجے گئے اور قوم کے لوگوں میں ساڑھے نو سو برس رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس تک زندہ رہے سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ قوم نوح ( علیہ السلام) نے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی نصیحت اور عذاب کے وعدہ کو جھوٹا جان کر خود اپنی زبان سے عذاب کے نازل ہونے کی خواہش کی آخر طوفان کا عذاب آن کر سوا اسی ٨٠ آدمیوں کے اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ یہ طوفان نوح ( علیہ السلام) کا قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے قتادہ کا قول ہے کہ بہت دنوں تک وہ کشتی باقی رہی اور لوگوں نے اس کو دیکھا اسی کو فرمایا کہ یہ قصہ اور کشتی جہان کے لوگوں کے لیے اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اس لیے اکیلے اللہ کی تعظیم انسان پر واجب ہے برخلاف اس کے جو لوگ اللہ کی تعظیم میں دوسروں کی شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ناانصاف نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں مشرکوں کو جگہ جگہ ظالم فرمایا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو جب تک چاہتا ہے مہلت دیتا ہے پھر جب انکو پکڑتا ہے تو بالکل بر باد کردیتا ہے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ میں یہ لوگ عذاب کی جلدی کرتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان پر عذاب نازل نہیں کیا پھر جب پکڑ کا وقت آگیا تو سوا اسی ٨٠ آدمیوں کے اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم کو خدا کی عبادت کی طرف بلایا اور اس سے ڈرنے کو کہا اور کہا کہ جب تم یہ کام کرو گے تو دنیا اور آخرت کی بہتری تم کو حاصل ہوگی اور سوا اللہ کے جن بتوں کو اے کافرو تم پوجتے ہو وہ تمہارے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں تم نے ہی ان کے نام گھڑ لیے ہیں اور ان کو معبود ٹھہرا لیا ہے وہ تمہاری طرح مخلوق ہیں وتخلقون افکا کر تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ خود تم بت تراشتے ہو لیا ہے اور ان کو اپنا معبود ٹھہراتے ہو جن لوگوں کے نام یہ مورتیں ہیں ان کو تمہارے اس کام کی بالکل خبر نہیں اس لیے قیامت کے دن وہ تم سے بیزار ہوجائیں گے اور جن کو تم سوائے للہ کے پوجتے ہو وہ مالک تمہارے رزق کے نہیں کیونکہ ایک سال اگر قحط پڑجاوے تو تم کو ان بتوں سے کچھ مدد نہیں مل سکتی اس لیے تم اللہ کی ہی خالص عبادت کرو اور اس سے کشائش رزق کی التجا کرو اور اسی کا شکر ادا کرو اور اس کی طرف پھیرے جاؤ گے تم قیامت کے روز اور وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے موافق جزاو سزادے گا اور اگر تم ان باتوں کو جھٹلاؤ گے تو تو مثلا نوح (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ بات تم کو معلوم ہوچکی ہے کہ جن لوگوں نے پہلے پیغمبروں کو جھٹلایا ہے ان پر عذاب نازل ہوا ہے ہر رسول اسی بات کا ذمہ دار ہے کہ خدا کا حکم امت کے لوگوں کو پہنچا دیوے اور پھر اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے تم بھی نیکوں میں ہونے کی حرص کرو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں کو جو حشر کے منکر تھے یوں سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی دفعہ تم کو پیدا کیا جس سے تم ہوگئے سننے والے دیکھنے والے پھر جس خدا نے پہلی بار تم کو بنایا وہ دوسری بار تمہیں بنا سکتا ہے کیوں کہ دوسری بار کا پیدا کرنا اس پر آسان ہے پھر فرمایا سیر کرو زمین میں اور خدا تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر عبرت پکڑو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اب پہاڑوں درختوں بوٹیوں اور کھیتیوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح جس چیز کا دوبارہ پیدا کرنا اس کا منظور ہوگا وہ پیدا کر دیوے گا اس کا قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور یہ دوبارہ پیدا کرنا جزا وسزا کے لیے ہوگا تاکہ پہلی دفعہ کا پیدا کرنا ٹھکانے سے لگے اس سزا کے وقت تم آسمان و زمین میں کہیں بھگ نہ سکو گے اس لیے تم اللہ کو اپنا خالص معبود ٹھہراؤ کس لیے کہ اس شرک کے مؤاخذہ میں پکڑے گئے تو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے کہ وہ تم کو گرفتار نہ کرسکے غرضیکہ خدا کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا اور اس کے سوا تمہارا کوئی دست اور مددگار نہیں پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی آیتوں اور اس کی قدرت کی نشانیوں اور آخرت کو نہیں مانتے وہ خدا کی رحمت سے ناامید ہیں اور دنیا اور آخرت میں ان لوگوں کے واسطے سخت عذاب ہے قتادہ کے قول کے موافق حافظ ابو جعفرابن جریرنے اپنی تفسیر ١ ؎ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کے مابین میں وان تکذبوا سے عذاب الیم تک کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو نصیحت کی ہے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے اوپر فما کان جواب قومہ سے ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا سلسلہ ملایا ہے شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں اس قول کو لیا ہے معتبر سند سے مسند امام احمد اور ابوداؤد کے حوالہ ٢ ؎ سے براء بن (رض) عازب کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نافرمان لوگون کی موت کے وقت اللہ کے فرشتے ایسے لوگوں کو اللہ کے غصہ اور عذاب سے خبردار کردیتے ہیں جس سے ایسے لوگوں کی روحین رحمت الٰہی سے مایوس ہو کر جگہ جگہ جسم میں چھپتی ہیں اور پھر آخر نہایت سختی سے اللہ کے فرشتے ان لوگوں کی روحوں کی جسم سے نکال لیتے ہیں اور پھر ایسے لوگ دفن کے بعد طرح طرح کے عذاب قبر میں گرفتار ہوجاتے ہیں معتبر سند سے مسند امام احمد میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے (کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد عذاب قبر کی سختی کے علاوہ یہ سختی بھی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کا دوزخ کا ٹھکانہ انہیں دکھا کر اللہ کی فرشتے ان سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں جانے کے لیے تم کو حشر کے دن دوبارہ زندہ کیا جاوے گا براء ابن عازب کے اوپر کی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ دوزخ کے ٹھکانے کے عذاب کو دیکھ کر ایسے لوگ عذاب قبر کو غنیمت جانتے ہیں اور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ قیامت قائم نہ ہو معتبر سند سے عبداللہ بن عمر (رض) نے ترمذی کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ موت کے فرشتوں کے نظر آجانے کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی حاصل کلام یہ ہے کہ وان تکذبوا سے عذاب الیم تک کی آیتیں خواہ مشرکین مکہ کی شان میں ہوں یا ان کی اور پہلی امتوں کے منکرین حشر سب کی شان میں ہوں ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگ اس طرح کی بےکسی کے وقت میں اللہ کی رحمت سے ناامید ہو کر غذاب میں گرفتار ہونے سے خبر دار ہوتے ہیں کہ آئندہ کے لیے ان کو توبہ اور استغفار کا موقع بھی نہیں رہتا اور جس عذاب دوزخ کے یہ لوگ دنیا میں منکر تھے مرتے کے ساتھ ہی جب ان کا دوزخ کا ٹھکانہ انہیں دکھا دیا جاتا ہے تو اس کا ایسا خوف ان پر چھا جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں طرح طرح کے عذاب قبر کو یہ لوگ غنیمت جاننے لگتے ہیں اور قیامت کے دن اس عذاب دوزخ میں گرفتار ہوجانے کو یقینی جان کر عذاب قبر کی تکلیف میں بھی قیامت کے قائم نہ ہونے کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ (١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١٤٠ ج ‘ ٢ نیز دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص ٤٠٨ ج ٣۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر۔ ) ٣ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٦٤ ج ٣ درمیان عذاب قبر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:13) لیحملن اصل میں یحملون تھا۔ نون ثقیلہ کے آنے سے واؤ اور نون اعرابی ساقط ہوگئے۔ وہ ضرور اٹھائیں گے۔ لام جواب قسم کا بھی ہوسکتا ہے قسم محذوف ہے۔ ای واللہ لیحملن۔ اثقالا : ثقل کی جمع بحالت نصب۔ بوجھ (گناہوں کے) مراد یہاں ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ ہیں جن کو انہوں نے گمراہ کیا تھا۔ کانوا یفترون۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب (جو جھوٹ) وہ گھڑا جرتے تھے جو دروغ بافی وہ کیا کرتے تھے۔ افتراء (افتعال) مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ اسی کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے : من سن سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرعا و وزرمن عمل بھا۔ (دیکھئے سورة محمد آیت :3) جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اپنا وبال بھی ہے اور ان تمام لوگوں کا وبال بھی جنہوں نے اس برے طریقہ کی پیروی کی۔ (شوکانی بحوالہ صحیح مسلم عن ابی ہریرہ) نیز دیکھئے۔ (سورۃ نحل آیت 45) 2 ۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتے رہے۔ مقاتل (رح) کہتے ہیں کہ اس سے مراد ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے ذمہ دار ہیں جو وبال تم پر پڑے گا ہم اسے اپنے سر لے لیں گے۔ اس پر بھی ان سے سوال اور مواخذہ کیا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپر کفار کی ایذاوں اور مخالفتوں کا بیان تھا جس سے مسلمان متصر ہوتے ہیں۔ آگے تسلیہ کے لئے بعض قصص امم سابقہ کے مذکور ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ وہ دوسروں کا بوجھ کیا اٹھائیں گے وہ تو اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دبے ہوں گے۔ ایک تو خود ان کے اپنے کفر و شرک اور فسق وفجور کا بوجھ ہوگا اور دوسروں کو گمراہ کرنے اور کفر و شرک پر اکسانے سے گناہ کا بوجھ اس پر مستزاد ہوگا۔ دنیا میں جو وہ افتراء کرتے رہے اور جھوٹی باتیں بناتے رہے آخرت میں ان کے بارے میں ان کی جواب طلبی ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13۔ اور ہاں یہ ضرور ہوگا کہ یہ دین حق کے منکر اپنے بوجھ کو اٹھائیں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے یہ لوگ جو افترا پردازیاں کرتے رہتے ہیں ان سب کی قیامت کے دن ان سے باز پرس کی جائیگی ۔ یعنی اپنی گمراہی اور کفر کا بوجھ اور دوسروں کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا بوجم ان پر لدا ہوا ہوگا اور جو ان کے کہنے سے گمراہ ہوئے ان کا بوجھ ہلکا نہ ہوگا یعنی وہ تو سبکدوش نہ ہوئے اور ان پر ان کے گناہوں کے ساتھ ساتھ گمراہ کرنے کا بوجھ اور لاد دیا گیا یہ منکر جو افترا پردازیاں کیا کرتے ہیں ان سب کی قیامت میں ان سے باز پرس ہوگی اور ان سب سے سوال کیا جائیگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کوئی چاہے کہ رفاقت کر کے کسی کے گناہ اپنے اوپر لے لے یہ ہوتا نہیں مگر جس کو گمراہ کیا اور اس کے بہکانے سے اس نے گناہ کیا وہ گناہ اس پر بھی اور اس پر بھی ۔ 12 حضرت شاہ صاحب (رح) کی تقریر کے بعد تعارض کا کوئی شبہ باقی نہ رہا ۔ واللہ ورہ ٗ