Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 16

سورة العنكبوت

وَ اِبۡرٰہِیۡمَ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۶﴾

And [We sent] Abraham, when he said to his people, "Worship Allah and fear Him. That is best for you, if you should know.

اور ابراہیم ( علیہ السلام ) نے بھی اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو ، اگر تم میں دانائی ہے تو یہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ibrahim's preaching to His People Allah tells: وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ ... And (remember) Ibrahim when he said to his people: Allah tells us how His servant, Messenger and close friend Ibrahim, the Imam of the monotheists, called his people to worship Allah alone, with no partner or associate, to fear Him alone, to seek provision from Him alone, with no partner or associate, to give thanks to Him alone, for He is the One to Whom thanks should be given for the blessings which none can bestow but He. Ibrahim said to his people: ... اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ... Worship Allah, and have Taqwa of Him, meaning worship Him and fear Him Alone, with all sincerity. ... ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ that is better for you if you know. if you do that you will attain good in this world and the next, and you will prevent evil from yourselves in this world and the Hereafter.

ریاکاری سے بچو امام الموحدین ابو المرسلین خلیل اللہ علیہ الصلوات اللہ کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید اللہ کی دعوت دی ریاکاری سے بچنے اور دل میں پرہیز گاری قائم کرنے کا حکم دیا اس کی نعمتوں پر شکرگزاری کرنے کو فرمایا ۔ اور اس کا نفع بھی بتایا کہ دنیا اور آخرت کی برائیاں اس سے دور ہوجائیں گی اور دونوں جہان کی نعمتیں اس سے مل جائیں گی ۔ ساتھ ہی انہیں بتایا کہ جن بتوں کی تم پرستش کررہے ہو ۔ یہ تو بےضرر اور بےنفع ہے تم نے خود ہی ان کے نام اور ان کے اجسام تراش لئے ہیں ۔ وہ تو تمہاری طرح مخلوق ہیں بلکہ تم سے بھی کمزور ہیں ۔ یہ تمہاری روزیوں کے بھی مختار نہیں ۔ اللہ ہی سے روزیاں طلب کرو ۔ اسی حصہ کے ساتھ آیت ( ایاک نعبد وایاک نستعین ) بھی ہے کہ ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ یہی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دعا میں ہے آیت ( رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 11۝ۙ ) 66- التحريم:11 ) اے اللہ میرے لئے اپنے پاس ہی جنت میں مکان بنا ۔ چونکہ اس کے سوا کوئی رزق نہیں دے سکتا اس لئے تم اسی سے روزیاں طلب کرو اور جب اس کی روزیاں کھاؤ تو اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو ۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ تم میں سے ہر ایک اسی کی طرف لوٹنے والا ہے ۔ وہ ہر عامل کو اسکے عمل کا بدلہ دے گا ۔ دیکھو مجھے جھوٹا کہہ کر خوش نہ ہو نظریں ڈالو کہ تم سے پہلے جنہوں نے نبیوں کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا تھا ان کی کیسی درگت ہوئی؟ یاد رکھنا نبیوں کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے ۔ ہدایت عدم ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اپنے آپ کو سعات مندوں میں بناؤ بدبختوں میں شامل نہ کرو ۔ حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید تشفی کی گئی ہے اس مطلب کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلاکام ختم ہوا ۔ اور یہاں سے لے کر آیت ( فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 24؀ ) 29- العنكبوت:24 ) تک یہ سب عبارت بطور جملہ معترضہ کے ہے ۔ ابن جریر نے تو کھلے لفظوں میں یہی کہا ہے ۔ لیکن الفاظ قرآن سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کلام حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا ہے آپ قیامت کے قائم ہونے کی دلیلیں پیش کررہے ہیں کیونکہ اس تمام کلام کے بعد آپ کی قوم کا جواب ذکر ہوا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِبْرٰهِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ۔۔ :” ابراھیم “ کا عطف ” نوحا “ پر ہے اور یہ ” ارسلنا “ کا مفعول ہے، یعنی ” اور ہم نے ابراہیم کو بھیجا۔ “ بعض مفسرین نے اسے ” اُذْکُرْ “ کا مفعول بنایا ہے کہ ابراہیم کو یاد کر۔ اگرچہ یہ بھی ہوسکتا ہے، مگر آگے آیت (٣٦) میں ” وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا “ سے ظاہر ہے کہ راجح یہی ہے کہ یہ ” ارسلنا “ کا مفعول ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (رکوع ١٥، ١٦ اور ٣٥) ، آل عمران (رکوع ٧) ، انعام (رکوع ٩) ، ہود (رکوع ٧) ، ابراہیم (رکوع ٦) ، حجر (رکوع ٤) ، مریم (رکوع ٣) ، انبیاء (رکوع ٥) ، شعراء (٥) ، صافات (رکوع ٣) ، زخرف (رکوع ٣) اور ذاریات (رکوع ٢) ۔ 3 نوح (علیہ السلام) کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا، کیونکہ ان کی آزمائش بھی بہت بڑی تھی، انھیں آگ میں پھینک دیا گیا، ہجرت کرنا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی باتوں کے ساتھ آزمایا اور وہ سب میں پورے اترے۔ (دیکھیے بقرہ : ١٢٤) ان آزمائشوں میں بہت بڑی آزمائش اس قوم کو توحید کی دعوت دینا تھی جو بت پرست تھی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یعنی اس بات سے ڈرو کہ اگر تم نے اس کی عبادت نہ کی، اس کا حکم نہ مانا یا کسی غیر کو اس کا شریک بنایا تو وہ تمہیں عذاب دے گا۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : ” خیر “ اصل میں ” أَخْیَرُ “ ہے جو اسم تفضیل کا صیغہ ہے، زیادہ اچھا، مگر یہاں تفضیل کا معنی مراد نہیں، کیونکہ توحید شرک سے زیادہ اچھی نہیں بلکہ توحید ہی اچھی ہے، شرک میں کسی طرح کی کوئی اچھائی نہیں۔ (سعدی) یا یہ مطلب ہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اور تمہارے خیال میں اس میں کسی قسم کی خیر ہے، لیکن اللہ کی عبادت اور اسی سے ڈرنا ہر حال میں اس سے کہیں اچھا ہے (اگرچہ فی الواقع بتوں کی عبادت میں کوئی خیر نہیں ) ۔ (آلوسی) اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یعنی اگر تمہیں کچھ بھی علم ہو۔ معلوم ہوا شرک میں وہی گرفتار ہوتا ہے جو علم سے بالکل محروم ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِبْرٰہِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّــقُوْہُ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ١٦ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ شر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا جب کہ انھون نے اپنی قوم سے فرمایا توحید خداوندی کا اقرار کرلو اور اسی سے ڈر اور کفر وشرک اور بتوں کی پوجا سے توبہ کر کے اسی کی اطاعت کرو یہ توبہ اور توحید جس طریقہ پر تم قائم ہو اس سے بہتر ہے اگر تم اس کو سمجھتے ہو اور تصدیق کرتے ہو نہ تم سمجھتے ہو اور نہ ہی تصدیق کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 For comparison, see AI-Baqarah: 122-141. 258-260; AI-i-'Imran: 6471; AI-An'am: 71-82; Hud:.69-83; Ibrahim: 35-41; AI-Hijr: 45-60; Maryam: 4150; AI-Anbiyaa: 51-75; Ash-Shu'araa: 69-104; As -Saftat: 75-I 13; Az-Zukhruf: 26-35; Adh-Dhariyat: 24-46. 27 That is, "Fear disobeying Him and associating others with Him."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 26 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو ، البقرہ رکوع 15 ۔ 16 ۔ 35 ۔ آل عمران 7 ۔ الانعام 9 ۔ ہود 7 ۔ ابراہیم 6 ۔ الحجر 4 ۔ مریم 3 ۔ الانبیاء 5 ۔ الشعراء 5 ۔ الصافات 3 ۔ الزخرف 3 ۔ الذاریات 2 ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 27 یعنی اس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29ـ:16) و ابراہیم۔ منصوب بوجہ مفعول فعل مضمر ای اذکر ابراہیم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی اس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو۔ 7 ۔ اور شرک میں کسی طرح کی کوئی بہتری نہیں ہے یا ” اگر تمہیں کچھ بھی علم ہے “ جس سے تم خیر و شر میں تمیز کرسکو۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اور ڈر کر شرک چھوڑ دو ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں دوسرے حقائق کے ساتھ یہ بھی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب آیا تو نہ وہ خود ایک دوسرے کو بچا سکے۔ اور نہ ہی ان کے مشکل کشا انہیں بچا سکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مشرک جن بتوں اور معبودوں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہیں اپنے چاہنے والوں کو نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم سے بیک وقت یہ استفسار کیا تھا کہ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو ! بتلاؤ جن پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیوں کے سامنے تم مراقبے، اور جن سے مانگتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ان کا جواب تھا کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں باور کروایا کہ تم واضح طور پر بہک چکے ہو۔ (الانبیاء : ٥١ تا ٥٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ بھی سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرتے رہو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم حقیقت جانتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تم بتوں کی عبادت کرتے ہو اور پھر ان کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہیں کسی قسم کا رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ صرف ایک اللہ سے رزق مانگو اسی ایک کی عبادت کرو اور اسی کا شکریہ ادا کرو۔ کیونکہ تم سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس سے ڈرنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن بتوں اور مورتیوں سے مانگتے اور ان کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے ہو ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی وہ تمہارے نفع اور نقصان کے مالک ہیں۔ ان کو خود ہی تم بناتے، سجاتے ہو اور پھر لوگون کو ان کا گرویدہ بنانے کے لیے جھوٹی کہانیاں تراشتے ہو حالانکہ وہ تمہیں ایک دانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزارات، بت اور مورتیوں کے بارے میں ذاتی اور جماعتی مفاد کی خاطر داستانیں پھیلاتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں مزار پر گیا تو اسے نرینہ اولاد مل گئی۔ وہ شخص فلاں مقام پر پہنچا تو اس کی مشکل حل ہوگئی۔ فلاں فوت شدہ بزرگ نے فلاں جگہ پہنچ کر فلاں شخص کی مدد کی۔ یہ صاحب قبر اس مشکل کا تریاق رکھتا ہے اور وہ قبر والا فلاں پریشانی کو دور کرتا ہے۔ یہ اقتدار اوراقبال عنایت کرتا اور وہ گنج بخش اور شکر گنج ہے اور اپنے ماننے والوں کی روزی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح کی کہانیاں ہر دور کے مشرک بالخصوص متولی، مجاور اور یہ عقیدہ رکھنے والے علماء بناتے اور بتاتے رہتے ہیں۔ رزق کی کشادگی کی خواہش انسانی فطرت کی کمزوری ہے اس لیے نام نہاد مذہبی لوگ مزارات پر اور کافر بتوں کے سامنے نذو نیاز پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی روزی اور وسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہی عقیدہ ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا تھا جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو منع کیا اسی وجہ سے انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے سلامت نکلے تو پھر قوم، حکومت اور ان کے باپ نے بالاتفاق ابراہیم (علیہ السلام) کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے رد عمل کی طرف توجہ دلاکر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو بتلایا ہے کہ آپ کے جدّ امجد کو کن کن مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طرح وہ اور ان کے ساتھی ثابت قدم رہے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو بھی استقامت اور صبر و استقلال کا مظاہر کرنا ہوگا۔ جس طرح آپ کو جھٹلایا جا رہا ہے اسی طرح پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا۔ حالات جیسے بھی ہوں رسول پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کھول کھول کر عقیدہ توحید بیان کرے اور پوری جرت و استقلال کے ساتھ شرک کی تردید کرتا رہے۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اسی سے ڈرنے کی تلقین کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا اور اس سے ڈر کر زندگی گزارنا بہترین طرز زندگی ہے۔ ٣۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبات کرتے ہیں وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ان کے نام پر جھوٹے قصہ کہانیاں اور کرامات بیان کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے والا نہیں اس لیے اسی سے رزق مانگنا، اسی کی عبادت کرنا اور اسی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ٥۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام کھلے الفاظ میں لوگوں تک حق پہنچانا تھا۔ جو آپ نے کماحقہ لوگوں تک پہنچایا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک اور رزق دینے والا نہیں : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ (الانبیاء : ٦٦) ٣۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اعلان فرمادیں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہچاسکتے۔ (الانبیاء : ٦٦) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٦۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمّہ ہے۔ (ھود : ٢) ٧۔ بیشک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذّاریات : ٥٨) ٨۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

و ابراہیم اذ قال لقومہ ۔۔۔۔۔۔۔ علی الرسول الا البلغ المبین (16 – 18) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو نہایت واضح اور سادہ دعوت دی جس میں کوئی پیچیدگی اور اجمال نہ تھا۔ اس دعوت کو انہوں نے نہایت مرتب انداز میں پیش کیا۔ جو لوگ دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ دعوت کی اس ترتیب اور انداز پر غور کریں۔ پہلے تو انہوں نے اپنی دعوت کی حقیقت ان کے سامنے رکھی۔ اعبدوا اللہ واتقوہ (29: 16) ” اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو “۔ اور اس کے بعد انہوں نے ان کے دلوں میں اس دعوت کے لیے دلچسپی پیدا کی کہ اس میں تمہارے لیے بہت خیر ہے ، بشرطیکہ وہ اچھائی اور برائی کو سمجھیں۔ خیر اور مقامات خیر کو جانیں۔ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (29: 16) ” یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو “۔ اس شرطیہ تعقیب میں ان کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ جہالت کو ترک کرکے اور اپنی ذات کے حوالے سے جہالت کی نفی کرکے اپنے لیے بھلائی کی راہ اختیار کریں۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے محض ایک خطابت اور جوش خطابت کی ہٹ دھرمی نہیں ہے اور نہ محض لفاظی ہے۔ تیسرے مرحلے میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ جو عقائد و نظریات رکھتے ہیں وہ متعدد پہلوؤں سے غلط ہیں۔ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور یہ بت پتھر یالکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بندگی اور پوجا نہایت غلط اور کھوٹا عمل ہے۔ جبکہ یہ انہیں اللہ وحدہ کی بندگی سے بھی روک رہا ہے۔ پھر وہ جو پوجا کرتے ہیں اس پر کوئی معقول برہان و دلیل بھی نہیں ہے بلکہ کچھ جھوٹی باتیں ہیں جو انہوں نے ازخود گھڑ رکھی ہیں۔ ان کا نہ کوئی سابقہ اور نہ کوئی لاحقہ ہے بلکہ جھوٹی خود ساختہ باتیں ہیں۔ اور کسی مسلمہ اصول و قاعدے پر مبنی نہیں ہیں۔ پھر یہ بت ان کو کوئی نفع یا نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے۔ نہ ان کو کچھ دے سکتے ہیں۔ ان الذین تعبدون ۔۔۔۔۔ لکم رزقا (29: 17) ” در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو ، وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے “۔ اور چوتھے مرحلے میں قرآن پھر ان کو متوجہ کرتا ہے کہ اللہ سے رزق طلب کرو کہ وہ وحدہ رزاق ہے۔ یہ بات ان کے لئے بہت اہم ہے اور ان کی حاجات اور ضروریات اللہ کے دربار ہی سے پوری ہو سکتی ہیں۔ فابتغوا عند اللہ الرزق (29: 17) ” اللہ سے رزق مانگو “۔ رزق دراصل مشغلہ نفوس ہے ، خصوصا نفوس مومنہ کا۔ اور رزق کو صرف اللہ کے ہاں طلب کرنا ایک حقیقت بھی ہے۔ یہ محض نفسیاتی ہیجان انگیزی نہیں ہے ، نہ نفسیاتی میلان ہے جسے ابھارا جا رہا ہو ، بلکہ ایک حقیقت ہے۔ آخر میں انکو یہ دعوت دی جاتی ہے کہ انعامات اور ارزاق کے حقیقی مسبب اور حقیقی منعم کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ واعبدوہ واشکروا لہ (29: 17) ” اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو “۔ آخر میں ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس سے بھاگ نہیں سکتے ، نہ اس اللہ سے تم کہیں پناہ پاسکتے ہو۔ لہٰذا مناسب یہی ہے اور اسی میں تمہاری بھلائی ہے کہ تم اس کی طرف لوٹ آؤ اور ایمان لاکر اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو ، الیہ ترجعون (29: 17) ” اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو “۔ اور اگر اس دعوت کے بعد وہ تمہاری تکذیب کریں تو اس تکذیب کی کیا حیثیت ہے ! اس سے اللہ کی بادشاہت میں کوئی نقص یا کمی واقع نہیں ہوتی۔ نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام و مرتبے میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کئی لوگوں نے تکذیب کی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈیوٹی تو صرف یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بس تبلیغ کردیں۔ وان تکذبوا فقد ۔۔۔۔۔۔ البلغ المبین (29: 18) ” اگر تم جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور رسول پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے “۔ یوں قرآن کریم قدم بقدم ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ اور ان کے دلوں پر ہر طرف سے اثر انداز ہوتا ہے اور ان کے دل کے تاروں کو ہر طرف سے چھیڑتا ہے۔ یہ تدریجی اقدامات دعوت پیش کرنے کا ایک بہترین نمونہ ہیں اور دعوت اسلامی کے کارکنوں کو اس انداز پر اچھی طرح غور کرنا چاہئے۔ اور اس انداز سے انسانی نفوس پر اثر انداز ہونا چاہئے۔ قبل اس کے کہ اس کہانی کو اختتام تک پہنچایا جائے۔ ایک وقفہ کیا جاتا ہے اور یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے۔ اسمیں ہر اس شخص کو مخاطب کیا جاتا ہے جو دعوت ایمان کا منکر ہے۔ جو اللہ کی طرف رجوع سے انکار کرتا ہے اور بعث بعد الموت کا منکر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینا اور اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے کی تلقین فرمانا ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعثت اور رسالت کا اور قوم کو توحید کی دعوت دینے اور شرک سے بیزار ہونے کا اجمالاً تذکرہ فرمایا ہے، ان کا واقعہ جگہ جگہ قرآن مجید میں مذکور ہے، سورة آل عمران میں ان کا نمرود سے مناظرہ کرنا اور سورة انعام میں اپنی قوم کو اور اپنے باپ کو بت پرستی اور ستارہ پرستی سے روکنا اور انہیں یہ بتانا کہ یہ سب گمراہی کا کام ہے اور سورة انبیاء میں اور سورة شعراء میں اپنی قوم کو سمجھانے اور بت پرستی کا ضرر اور نقصان اور خسران سمجھانے کا تذکرہ گزر چکا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہو اور جھوٹی باتیں تراشتے ہو تمہارا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ یہ اللہ کے شریک ہیں اور تمہارا یہ خیال کرنا کہ یہ ہمارے کام آئیں گے یہ سب جھوٹ ہے اللہ کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے تم ان کی عبادت چھوڑ دو ، اللہ سے رزق طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اور یہ بھی سمجھ لو کہ تمہیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے، اس کی عبادت کرو گے اور اس کا شکر ادا کرو گے تو موت کے بعد اچھی حالت میں رہو گے، اور اگر تم کفر اور شرک پر جمے رہے تو مرنے کے بعد اس کی سزا بھگتو گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مزید فرمایا کہ اگر تم مجھے جھٹلاؤ گے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں اپنے اپنے رسولوں کو جھٹلا چکی ہیں، وہ اپنے کردار کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں، رسول کا کام بس اتنا ہے کہ واضح طور پر حق کو بیان کردے، ایسا کرنے سے اس کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، تم سے پہلے جو لوگ رسولوں کی رسالت کے منکر ہوئے انہوں نے اپنا ہی برا کیا اور اپنی جانوں کو عذاب میں جھونکنے کا راستہ اختیار کیا، تم بھی سمجھ لو کہ اگر تم نے میری دعوت قبول نہیں کی، شرک سے توبہ نہ کی، توحید پر نہ آئے تو تمہارا اپنا ہی برا ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یہ دوسرا قصہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید پیش کی لیکن اس کی وجہ سے وقت کے بادشاہ نمرود، اپنی قوم اور خود اپنے باپ کے مسلسل مصائب و مشکلات کا نشانہ بنے۔ من دون اللہ اوثانا، اوثانا، تعبدون کا مفعول اور ذو الحال موخر ہے اور من دون اللہ حال مقدم ہے۔ اے میری قوم ! صرف اللہ کی عبادت کرو اور حاجات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو اور شرک کرنے میں اللہ سے ڈرو۔ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ٹھاکر ہی تو ہیں وہ کب الوہیت کے سزاوار ہیں تم انہیں کارساز سمجھ کر ایک صریح غلط اور جھوٹا نظریہ پیش کرتے ہو۔ ای تکذبون کذبا حیث تسمونہا الہۃ و تدعون انہا شفعاء کم عند اللہ سبحانہ (روح ج 20 ص 144) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16۔ اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی پیغمبر بنا کر بھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو یہ اللہ تعالیٰ کی پرستش اور اس سے ڈرتے رہنا اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو تمہارے لئے اس طریقہ کار سے بہتر ہے جو تم نے طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ یعنی تم نے جو طریقہ اختیار کر رکھا ہے وہ شرک اور بت پرستی کا ہے اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی پوجا اور اس سے ڈرنا بدرجہا بہتر ہے اگر تم جانتے ہو اور سمجھتے ہو۔