Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 48

سورة العنكبوت

وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ﴿۴۸﴾

And you did not recite before it any scripture, nor did you inscribe one with your right hand. Otherwise the falsifiers would have had [cause for] doubt.

اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے اورنہ تھے نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلاَ تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ... Neither did you read any book before it (this Qur'an) nor did you write any book with your right hand. meaning, `you lived among your people for a long time before you brought this Qur'an. During this time you never read any book or wrote anything. Your people, as well as others all know that you are an unlettere... d man who does not read or write.' This is how he was also described in the previous Scriptures, as Allah says: الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِىَّ الاُمِّىَّ الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالاِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ Those who follow the Messenger, the Prophet, the unlettered about whom they find written with them in the Tawrah and the Injil, -- he commands them with good; and forbids them from evil. (7:157) This is how the Messenger of Allah will remain until the Day of Resurrection, unable to write even one line or one letter. He used to have scribes who would write down the revelation for him, or would write letters from him to be sent to different places. Allah's saying: ... إِذًا لاَّرْتَابَ الْمُبْطِلُونَ In that case, indeed, the followers of falsehood might have doubted. means, `if you had been literate, some ignorant people would have doubted you. They would have said that you learned this from Books inherited from the Prophets which came before.' Indeed, they did say that, even though they knew that he was unlettered and could not read or write. وَقَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلً And they say: "Tales of the ancients, which he has written down, and they are dictated to him morning and afternoon." (25:5) Allah says: قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِى يَعْلَمُ السِّرَّ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ Say: "It has been sent down by Him Who knows the secret of the heavens and the earth. (25:6) And Allah says here:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

481اس لیے کہ ان پڑھ تھے 482اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔ 483یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] آپ کی رسالت کو جھٹلانے یا اسے کم از کم مشکوک بنانے کے لئے قریش نے جو باتیں اختراع کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس شخص نے سابقہ آسمانی کتابوں سے فیض حاصل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ آپ کی پیش کردہ کتاب یعنی قرآن کے بہت سے مضامین تورات سے ملتے جلتے تھے اور بعض منصف اہل کتاب اسی بات ک... ی تصدیق بھی کردیتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ آپ نبوت سے پیشتر نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کو ایسی معلومات حاصل ہوں اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کہ علمائے اہل کتاب سے سن کر اسے نوٹ کرتے جائیں اور بعد میں اپنی طرف سے پیش کردیں۔ ہاں ان میں سے کوئی بھی صورت ہوتی تو ان کافروں کے شک و شبہ کی کچھ نہ کچھ بنیاد بن سکتی تھیں۔ لیکن جب یہ دونوں صورتیں موجود نہیں تو پھر ان لوگوں کا آپ کی رسالت سے انکار، تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مِنْ قَبْلِہِ سے بعض مسلمانوں نے اس بات پر استشہاد کیا ہے کہ نبوت سے پیشتر تو آپ فی الواقع لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن نبوت کے بعد آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ اس اختراع کی بنیاد ان مسلمانوں کی آپ سے فرط عقیدت ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جو رسول سارے جہاں کے لئے رسول اور معلم بنا کر بھیجا گیا تھا کیسے ممکن ہے کہ وہ لکھا پڑھا نہ ہو۔ بالفاظ دیگر وہ نبی کی ذات سے لکھا پڑھا نہ ہونے کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے اس دعویٰ میں موجودہ دور کے مخالفین اسلام اور مستشرق محققین بھی شامل ہوگئے۔ کیونکہ یہ دعویٰ ان کے حق میں مفید تھا۔ عقیدت مند مسلمانوں کے اس دعویٰ کے جذبہ کی ہم قدر کرتے ہیں لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان نادان دوستوں کا یہ دعویٰ دانا دشمنوں کے کام آرہا ہے۔ اب ہم اس دعویٰ کی تردید دو طرح سے کریں گے ایک عقلی لحاظ سے اور دوسرے تاریخی لحاظ سے۔ عقلی لحاظ سے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہان کا معلم بنے تو یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا ایک شخص بہت عالم فاضل اور پڑھا لکھا ہو کر معلم بنے ؟ ظاہر ہے کہ پہلی صورت کو ہی معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے وہ تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں جو اس دور کے مخالفین اسلام نے پیغمبر اسلام پر وارد کئے تھے یا اس دور کے مخالفین اسلام کر رہے تھے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن نے دو آیات میں کی مدح کے طور پر امی کے لقب سے نوازا ہے (٧: ١٥٧، ١٥٨) اور سورة جمعہ میں فرمایا : وہی تو ہے جس نے امی لوگوں میں سے ہی ایک فرد کو رسول بنا کر بھیجا (٦٢: ٢) قرآن کے انداز بیان سے بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امی کا لقب آپ کے لئے مایہ صد افتخار ہے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ دعویٰ اس لئے غلط ہے کہ حدیبیہ کا صلح نامہ ٦ ھ میں لکھا گیا تھا۔ لکھنے والے حضرت علی (رض) تھے اور لکھانے والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ جب آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تو قریشیوں کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض کیا کہ اس کے بجائے باسمک اللھم لکھو۔ اس کے بعد آپ نے لکھوایا من محمد رسول اللہ اس پر اس نے یہ اعتراض کیا کہ من محمد بن عبداللہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں تو پھر جھگڑا ہی کا ہے کا ہے ؟ پھر جب سفیر سہیل بن عمرو نے اپنی بات پر اصرار کیا تو آپ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ یہ الفاظ مٹا کر قریش سفیر کی مرضی مطابق لکھ دو ۔ حضرت علی (رض) کہنے لگے کہ میرا تو ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول اللہ کا لفظ اپنے ہاتھوں سے مٹا دوں۔ آپ نے حضرت علی (رض) سے پوچھا اچھا بتلاؤ وہ لفظ کون سا ہے ؟ اور جب حضرت علی (رض) نے بتلایا تو آپ نے خود اسے مٹا دیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ) یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ کو نبوت عطا ہوئے ١٩ سال گزر چکے تھے اور اس وقت آپ کی عمر ٥٩ سال ہوچکی تھی۔ اور اس واقعہ کے چار پانچ سال بعد آپ کی وفات ہوجاتی ہے پھر آپ نے لکھنا پڑھنا کب سیکھا تھا ؟ اور دوسرا نبوت رسول اللہ کا اپنی زبانی پر اعتراف ہے کہ : && ہم امی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے (قمری) مہینہ اتنا بھی ہوتا ہے اور اتنا بھی، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بلند کرکے بتلایا کہ کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا && (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی لا تکتب الاتحسب   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ ۔۔ : یعنی اے نبی ! وحی کے ذریعے سے آنے والی جس کتاب کی تلاوت کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کے نزول سے پہلے آپ اپنی قوم میں چالیس سال کا عرصہ رہے ہیں، نہ آپ کسی بھی طرح کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھتے تھے نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، بلکہ محض امیّ تھے... ۔ وہ سب لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں جن میں آپ کی زندگی گزری، بلکہ بہت تھوڑے آدمی چھوڑ کر ان کا اپنا حال بھی یہی ہے کہ وہ امیّ ہیں، جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا) [ الجمعۃ : ٢ ] ” وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا۔ “ اور پہلی کتابوں میں بھی آپ کی یہی صفت مذکور ہے، فرمایا : ( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) [ الأعراف : ١٥٧ ] ” وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امیّ نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ “ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امیّ ہونے کو آپ کے دعوئ نبوت میں سچا ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے۔ دیکھیے سورة قصص (٨٦) اور یونس (١٦) ابن کثیر فرماتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمیشہ (وفات تک) یہی حال رہا، آپ نہ پڑھ سکتے تھے نہ ہی ایک سطر یا ایک حرف اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے، بلکہ آپ کے کئی کاتب تھے جو وحی اور مختلف علاقوں کی طرف خطوط وغیرہ لکھتے تھے۔ بعض لوگوں نے ” من قبلہ “ کے لفظ سے دلیل لی ہے کہ نبوت سے پہلے تو آپ فی الواقع لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر نبوت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ان حضرات نے عقیدت میں غلو کی وجہ سے یہ بات کہی ہے، یہ نہیں سوچا کہ ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہاں کا استاذ بن جائے، یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا یہ کہ کوئی عالم فاضل اور پڑھا لکھا شخص کوئی کتاب تصنیف کر کے لے آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری وقت تک امیّ ہونے کی دلیل صلح حدیبیہ کے معاہدے کا واقعہ ہے، جس کا صلح نامہ علی بن ابی طالب (رض) نے تحریر کیا تھا۔ براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں : ( فَکَتَبَ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَقَالُوْا لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَمْ نَمْنَعْکَ وَلَبَایَعْنَاکَ ، وَلٰکِنِ اکْتُبْ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ، فَقَالَ أَنَا وَاللّٰہِ ! مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَأَنَا وَاللّٰہِ ! رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ وَکَانَ لاَ یَکْتُبُ قَالَ فَقَالَ لِعَلِيٍّ امْحُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ عَلِيٌّ وَاللّٰہِ ! لاَ أَمْحَاہُ أَبَدًا قَالَ فَأَرِنِیْہِ قَالَ فَأَرَاہُ إِیَّاہُ ، فَمَحَاہ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ ) [ بخاري، الجزیۃ، باب المصالحۃ علی ثلاثۃ أیام ۔۔ : ٣١٨٤ ] ” علی (رض) نے لکھا : ” یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے معاہدہ کیا ہے۔ “ انھوں نے کہا : ” اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو (خانہ کعبہ سے) نہ روکتے، بلکہ ہم آپ کی بیعت کرلیتے، لیکن لکھو کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے معاہدہ کیا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم ! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ ہوں۔ “ براء نے فرمایا : ” اور آپ لکھتے نہیں تھے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) سے کہا : ” رسول اللہ (کا لفظ) مٹا دو ۔ “ علی (رض) نے کہا : ” اللہ کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر وہ مجھے دکھاؤ۔ “ انھوں نے وہ لفظ آپ کو دکھایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا۔ “ یہ واقعہ ذوالقعدہ چھ ہجری کا ہے جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار سال اور چند ماہ زندہ رہے، اس میں صراحت ہے ” وَکَانَ لَا یَکْتُبُ “ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھتے نہیں تھے) اب وہ کون سی روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنا سیکھ لیا تھا ؟ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ بخاری کی بعض روایات میں جو آیا ہے : ( ثُمَّ أَخَذَ فَکَتَبَ ) (پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکڑا اور لکھا) یہ دوسری روایت پر محمول ہے جس میں ہے : ( ثُمَّ أَمَرَ فَکَتَبَ ) ” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو انھوں نے لکھا۔ “ ابن کثیر فرماتے ہیں، بعض لوگوں نے جو حدیث بیان کی ہے : ( إِنَّہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی تَعَلَّمَ الْکِتَابَۃَ ) ” کہ آپ فوت نہیں ہوئے حتیٰ کہ آپ نے لکھنا سیکھ لیا “ تو یہ روایت ضعیف ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے امیّ ہونے کا اعتراف فرمایا ہے، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّا أُمَّۃٌ أُمِّیَّۃٌ، لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسُبُ ، الشَّہْرُ ہٰکَذَا وَ ہٰکَذَا یَعْنِيْ مَرَّۃً تِسْعَۃً وَعِشْرِیْنَ ، وَمَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ ) [ بخاري، الصوم، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نکتب و لا نحسب : ١٩١٣ ] ” ہم اُمّی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے، قمری مہینا اتنا ہوتا ہے اور اتنا بھی۔ “ یعنی کبھی انتیس (٢٩) دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس (٣٠) دن کا۔ “ 3 یہ اللہ کی شان ہے کہ ایک طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ کتاب عطا فرمائی جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل کل عالم بنانے سے عاجز ہے، تو دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پڑھنا سکھایا نہ لکھنا۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ عالم الغیب تھے اور ” مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ “ (جو ہوچکا اور جو ہوگا) سب جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ : یعنی اگر آپ پڑھتے ہوتے یا ہاتھ سے لکھتے ہوتے تو باطل پرستوں کے لیے شک کا کوئی موقع ہوسکتا تھا کہ آپ نے اگلی کتابیں پڑھ کر یہ باتیں لکھ لی ہیں، انھی کو آہستہ آہستہ اپنے الفاظ میں سنا رہے ہیں۔ گو اس وقت بھی یہ کہنا غلط ہوتا، کیونکہ کتنا بھی پڑھا لکھا انسان ہو بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسان مل کر اور کل مخلوق کو ساتھ ملاکر بھی اس بےمثال کتاب کی ایک سورت جیسی سورت پیش نہیں کرسکتے، پھر بھی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو جھوٹے لوگوں کو بات بنانے کا موقع مل سکتا تھا۔ جب آپ کا اَن پڑھ ہونا سب کے ہاں مسلّم ہے تو اس شبہ کا موقع بھی نہ رہا۔ 3 آپ کے اُمّی ہونے کے باوجود کفار نے یہ بہتان جڑ دیا : (وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) [ الفرقان : ٥ ] ” اور انھوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوا لی ہیں، سو وہ پہلے پہر اور پچھلے پہر اس پر پڑھی جاتی ہیں۔ “ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو باطل پرستوں کے شکوک و شبہات کا اور بہتان باندھنے کا کیا حال ہوتا۔ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ ” ولا تخطه “ (اور نہ تو اسے لکھتا تھا) کے الفاظ ہی کافی تھے، پھر ” بیمینک “ (اپنے دائیں ہاتھ سے) فرمانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات لکھوانے کو بھی لکھنا کہہ دیا جاتا ہے، مثلاً بعض اوقات خط لکھوا کر بھیجنے والا کہہ دیتا ہے، میں نے فلاں کو خط لکھا ہے۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے فرمایا : (وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ ) ” اور نہ تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The status of the narrations of the People of the Book quoted by the commentators in their commentaries is also the same. The object of their reproduction in the commentaries is meant to highlight their historical position. They cannot be used for determining what is permitted (halal) and what is not permitted حَرَام (haram). مَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ...  إِذًا لَّارْ‌تَابَ الْمُبْطِلُونَ (And you have never been reciting any book before this, nor have you been writing it with your right hand, had it been so, the people of falsehood would have raised doubts. - 29:48). That is Before the revelation of the Qur&an you could neither read nor write, rather you were unlettered (اُمِّی). If it was not so, and you were literate, then there could have been a possibility of doubt for the infidels to put the blame that you were repeating what you had read in, the earlier books, Torah and Injil, and it was not a new revelation sent down on you by way of prophethood.& It was a great honour and miracle for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to be unlettered Allah Ta’ ala had demonstrated so many evident and clear miracles to prove the prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and it was one of those miracles that He made him unlettered. Neither he could read anything nor could he write at all. Forty years of his life were spent in this fashion before the eyes of the people of Makkah. He did not have any acquaintance with the People of the Book wherefrom he could have learnt anything. In fact, there were no People of the Book living in Makkah. Suddenly, at the age of forty years, such a speech started flowing from his mouth that was a miracle not only in its theme and meaning, but also in the pinnacle of its eloquence. Some scholars have tried to prove that he was unlettered in the beginning, but later Allah Ta’ ala taught him how to read and write. In support of their contention they quote a hadith regarding the incident of Hudaibiyah, which says that when the agreement between the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the infidels of Makkah was being written, it was started by the Muslims with the words, مِن مُحَمَّدِ عبد اللہ وَ رسَوُلِہٖ - (From Muhammad, the slave of Allah and His messenger). On this the disbelievers of Makkah objected that his being the messenger of Allah was the real bone of contention, and if they had accepted him as a messenger of Allah, there would not have been any dispute among them. Therefore, they would not accept the words ` and His messenger& along with his name. Sayyidna Ali (رض) had written this agreement, so, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him to erase it, to which he declined out of respect and reverence for him. Then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) took the paper in his own hand, and after erasing the words ` His messenger& wrote مِن مُحَمَّدِ بن عَبدَاللہِ (From Muhammad, the son of ` Abdullah). In this narration, the act of writing has been attributed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which led some people to think that he knew how to write. But the correct position is that the act of writing was attributed to him in the narration as a colloquial expression. It is a fairly common idiom spoken quite widely that if someone gets something written by an ascribe, the writing is attributed to the former, even though he has not written it himself. The other possibility is that Allah Ta’ ala made him write this bit miraculously on this occasion. Also, by writing just a few words, one cannot be called a literate, but would still remain an unlettered. Furthermore, it would not be an honour for him to be labeled as literate, rather the honour is in him being an unlettered.  Show more

تفسیروں میں جو عام مفسرین نے اہل کتاب کی روایات نقل کی ہیں ان کا بھی یہی درجہ ہے اور نقل کرنے کا منشاء بھی صرف اس کی تاریخی حیثیت کو واضح کرنا ہے، احکام حلال و حرام کا ان سے استنباط نہیں کیا جاسکتا، مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْ... مُبْطِلُوْنَ ، یعنی نزول قرآن سے پہلے نہ آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے، نہ کچھ لکھ سکتے تھے، بلکہ آپ امی تھے، اگر ایسا نہ ہوتا اور آپ لکھے پڑھے ہوتے تو اہل باطل کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نکل آتی کہ یہ الزام لگاتے کہ آپ نے پچھلی کتابیں تورات و انجیل پڑھی ہیں یا نقل کی ہیں۔ آپ جو کچھ قرآن میں فرماتے ہیں وہ انہی پچھلی کتابوں کا اقتباس ہے، کوئی وحی اور نبوت و رسالت نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونا آپ کی بڑی فضیلت اور بڑا معجزہ ہے : حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت پر جس طرح بہت سے واضح اور کھلے ہوئے معجزات ظاہر فرمائے انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو پہلے سے امی رکھا، نہ کچھ لکھا ہوا پڑھ سکتے تھے، نہ خود کچھ لکھ سکتے تھے اور عمر کے چالیس سال اسی حال میں تمام اہل مکہ کے سامنے گذرے۔ آپ کا اختلاط اہل کتاب سے بھی کبھی نہیں ہوا کہ ان سے کچھ سن لیتے۔ کیونکہ مکہ میں اہل کتاب تھے ہی نہیں۔ چالیس سال ہونے پر یکایک آپ کی زبان مبارک سے ایسا کلام جاری ہونے لگا جو اپنے مضامین اور معانی کے ا عتبار سے بھی معجزہ تھا اور لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی۔ بعض علماء نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ آپ کا امی ہونا ابتداء میں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا تھا اور اس کی دلیل میں واقعہ حدیبیہ کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں یہ ہے کہ جب معاہدہ صلح لکھا گیا تو اس میں من محمد عبداللہ و رسولہ اول لکھا تھا، اس پر مشرکین مکہ نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسول مانتے تو یہ جھگڑا ہی کیوں ہوتا، اس لئے آپ کے نام کے ساتھ |" رسول اللہ |" کا لفظ ہم قبول نہیں کریں گے۔ لکھنے والے حضرت علی مرتضی تھے، آپ نے ان کو فرمایا کہ یہ لفظ مٹا دو ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ادب سے مجبور ہو کر ایسا کرنے سے انکار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاغذ خود اپنے ہاتھ میں لیا اور یہ لفظ مٹا کر یہ لکھ دیا، من محمد بن عبداللہ۔ اس روایت میں لکھنے کی نسبت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی گئی ہے جس سے کچھ حضرات نے استدلال کیا ہے کہ آپ لکھنا جانتے تھے، مگر صحیح بات یہی ہے کہ کسی دوسرے سے لکھوانے کو بھی عرف میں یہی کہا جاتا ہے کہ |" اس نے لکھا |" جیسا کہ محاورات میں عام ہے، اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ اس واقعہ میں بطور معجزہ آپ سے نام مبارک بھی اللہ تعالیٰ نے لکھوا دیا، اس کے علاوہ صرف اپنے نام کے چند حروف لکھ دینے سے کوئی آدمی لکھا پڑھا نہیں کہلا سکتا، اس کو ان پڑھ اور امی ہی کہا جائے گا جب لکھنے کی عادت نہ ہو، اور بلا دلیل کتابت کا آپ کی طرف منسوب کرنا آپ کی فضیلت کا اثبات نہیں، غور کریں تو بڑی فضیلت امی ہونے میں ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۝ ٤٨ خط الخطّ کالمدّ ، ويقال لما له طول، والخطوط أضرب فيما يذكره أهل الهندسة من مسطوح، ومستدیر، ومقوّس، وممال، ويعبّر عن کلّ أرض فيها طول بالخطّ كخطّ الیمن، وإليه ينسب الرّمح الخطّيّ ، وك... لّ مکان يَخُطُّهُ الإنسان لنفسه ويحفره يقال له خَطُّ وخِطَّةٌ. والخَطِيطَة : أرض لم يصبها مطر بين أرضین ممطورتین کالخطّ المنحرف عنه، ويعبّر عن الکتابة بالخَطِّ ، قال تعالی: وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ [ العنکبوت/ 48] . ( خ ط ط ) الخط ( مثل مد ) جس میں طول ہوا ہل ہند سہ کے نزدیک خطوط کئی قسم پر میں ۔ یعنی مسطوح ، مستد پر مقوس اور محال وغیرہ اور ہر مستطیل علاقہ کو خط کہہ دیتے ہیں جیسے خط الیمن جو زمین کے ایک علاقہ کا نام ہے جس کی طرف خطی نیزے منسوب ہیں اور زمین کا وہ حصہ جو انسان اپنے لئے مخصوص کرے اور کھولتے اسے خط اور خطۃ کہا جاتا ہے ۔ الخطیطۃ وہ زمین جس کے ارد گرد بارش ہوئی اور اور وہ درمیان میں خط منحرف کی طرح بےبارش کے رہ گئی ۔ اور الخط کے معنی لکھنا کتابت کرنا بھی ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ [ العنکبوت/ 48] اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل : 477- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے ارْتِيابُ والارْتِيابُ يجري مجری الْإِرَابَةِ ، قال : أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور/ 50] ، وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید/ 14] ، ونفی من المؤمنین الِارْتِيَابَ فقال : وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر/ 31] ، وقال : ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات/ 15] ، وقیل : «دع ما يُرِيبُكَ إلى ما لا يُرِيبُكَ» ورَيْبُ الدّهر صروفه، وإنما قيل رَيْبٌ لما يتوهّم فيه من المکر، والرِّيبَةُ اسم من الرّيب قال : بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، أي : تدلّ علی دغل وقلّة يقين . اور ارتیاب ( افتعال ) ارابہ کے ہم معنی ہے جس کے معنی شک و شبہ میں پڑنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور/ 50] یا شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس بات سے ڈرتے ہیں ۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید/ 14] اور اس بات کے منتظر رہے ( کہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو ) اور ( اسلام کی طرف سے ) شک میں پڑے رہے ۔ اور مؤمنین سے ارتیاب کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ولا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر/ 31] اور اہل کتاب اور مسلمان ( ان باتوں میں کسی طرح کا ) شک و شبہ نہ لائیں ۔ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات/ 15] پھر کسی طرح کا شک وشبہ نہیں کیا ۔ ایک حدیث میں ہے :(161) دع ما یریبک الی ما لا یریبک ۔ کہ شک و شبہ چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک و شبہ نہ ہو ۔ اور گردش زمانہ کو ریب الدحر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں فریب کاری کا وہم ہوتا ہے ( کما مر ) اور ریبۃ ، ریب سے اسم ہے جس کے معنی شک وشبہ کے ہیں ( جمع ریب ) قرآن میں ہے :۔ بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] کہ وہ عمارت ان کے دلوں میں ریبۃ بنی رہے گی ۔ یعنی ہمیشہ ان کے دلی کھوٹ اور خلجان پر دلالت کرتی رہے گی ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آپ قرآن کریم سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کسی کتاب کو لکھ سکتے تھے اور اگر ایسی حالت ہوتی تو یہ یہود و نصاری اور مشرکین ضرور شکل کرتے اور کہتے کہ ہماری کتابوں میں تو نبی امی کی بشارت ہے بلکہ آپ کی نعت و صفت کے بارے میں خود بہت سی واضح دلیلیں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن ... کو علم توریت دیا گیا ہے یا یہ قرآن کریم ہی آپ کی نبوت کے لیے خود بہت سی واضح دلیلوں والا اور حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو واضح طور پر بیان کرنے والا ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے جن کو قرآن کریم کا علم دیا گیا ہے۔ اور ہماری آیات یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم سے یہ یہود و نصاری اور مشرکین ہی انکار کیے جاتے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) ” قرآن نازل ہونے سے پہلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو کوئی کتاب پڑھ کر نہیں سناتے تھے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی کتاب خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تھ... ے ‘ بلکہ دنیوی اعتبار سے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کوئی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھنا لکھنا سیکھا ہے۔ ہاں اگر ایسا ہوتا تو قرآن کو باطل قرار دینے والوں کے لیے اس کے بارے میں شک کی کچھ گنجائش پیدا ہوسکتی تھی کہ جی ہاں ! یہ حضرت تو پرانے لکھاری ہیں ‘ روز روز کی مشق سے قلم میں زور اور تحریر میں نکھار آتا گیا اور رفتہ رفتہ یہ سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ انہوں نے قرآن جیسا بلند پایہ کلام لکھنا شروع کردیا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88 This is the same argument that has already been given in Surahs Yunus and Qasas as a proof of the Holy Prophet's Prophethood. (See E.N. 21 of Yunus and E.N.'s 64 and 109 of AI-Qasas. For further explanation, see E.N. 107 of An-Nahl, E.N. 105 of Bani Isra'il, E.N. 66 of AI-Mu'minun, E.N. 12 of Al-Furqan, and E.N. 84 of Ash-Shu`araa). The basis of the argument in this verse is that the Holy Proph... et was unlettered. His compatriots and his kinsmen among whom he had spent his whole life, from birth to old age, knew fully well that he had never read a book nor ever handled a pen. Presenting this actual fact Allah says: "This is a proof of the fact that the vast and deep knowledge of the teachings of the Divine Books, of the stories of the former Prophets, of the beliefs of the various religions and creeds, of the histories of the ancient nations, and the questions of social and moral and economic life, which is being presented through this ulettered, illiterate man could not have been attained by him through any means but Revelation. If he had been able to read and write and the people had seen him reading books and undertaking serious studies, the worshippers of falsehood could have had some basis for their doubts, that he had acquired the knowledge not through Revelation but through study and reading. But the fact of his being absolutely illiterate has left no basis whatever for any such doubt. Therefore, there can be no ground, except sheer stubbornness, which can be regarded as rational in any degree for denying his Prophethood."  Show more

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 88 یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ قصص میں گزر چکا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ یونس حاشیہ نمبر 21 و تفسیر سورہ قصس حاشیہ نمبر 64 و 109 ۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ ... نحل حاشیہ 107 ، بنی اسرائیل حاشیہ 105 ، المومنون حاشیہ 66 ، الفرقان حاشیہ 12 ، اور الشوری حاشیہ 84 کا مطالعہ بھی مفید ہوگا ) اس آیت میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے ۔ آپ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روز پیدائش سے سن کہلوت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی ، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی ، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا ۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات ، انبیاء سابقین کے حالات ، مذاہب و ادیان کے عقائد ، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس امی کی زبان سے ہورہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کی امیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی بناوٹ کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول کیا جاسکتا ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے امی بنایا، یعنی آپ لکھتے پڑھتے نہیں تھے۔ اس آیت میں اس کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ امی ہونے کے باوجود جب آپ کی زبان مبارک پر قرآن کریم جاری ہوا تو یہ بذات خود ایک عظیم الشان معجزہ تھا کہ جس شخص نے کبھی نہ پڑھنا سیکھا، نہ لکھنا، وہ ایسا ... فصیح و بلیغ کلام پیش کر رہا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے سارا عرب عاجز ہوگیا۔ قرآن کریم فرما رہا ہے کہ اگر آپ پڑھتے لکھتے ہوتے تو آپ کے مخالفین کو یہ کہنے کا کچھ نہ کچھ موقع مل جاتا کہ آپ نے کہیں سے پڑھ پڑھا کر یہ مضامین اکٹھے کرلیے ہیں۔ اگرچہ اعتراض اس پر بھی فضول ہی ہوتا، لیکن اب تو یہ کہنے کا کوئی موقع ہی باقی نہیں رہا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29ـ48) کنت تتلوا ماضی استمراری۔ واحد مذکر حاضر تو پڑھا کرتا تھا ۔ تو پڑھتا تھا۔ ما کنت تتلوا تو نہیں پڑھتا تھا۔ تو نہیں پڑھ سکتا تھا من قبلہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب القرآن کی طرف راجع ہے ۔ ای قبل انزال القرآن۔ قرآن کے نازل ہونے سے پہلے۔ من کتب۔ کوئی کتاب۔ ولا تخطہ مضارع منفی واحد مذکر حاضر ۔ ... خط یخط (باب نصر) خط (مضاعف) لکھنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کتاب کی طرف راجع ہے۔ اور نہ ہی تم اس کو لکھ سکتے تھے۔ بیمینک۔ تیرے دائیں ہاتھ سے۔ تو اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ۔ نفی کی تاکید کے لئے آیا ہے۔ یعنی نہ تو نے کبھی اپنے دائیں ہاتھ سے (جو اکثر اسی ہاتھ سے لکھنے کا کام لیا جاتا ہے) ایسی کسی کتاب کو لکھا۔ اسی طرح بولتے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دیکھنے کے فعل کی حقیقت کو شک و شبہ سے بالا تر ذہن نشین کرانے کے لئے۔ اذا۔ تب۔ اس وقت۔ یہاں اذا قائم مقام جزاء ہے اور جواب شرط اور جزاء کے لئے آتا ہے۔ اصل میں یہ اذن ہے وقف کی صورت میں نون کو الف سے بدل لیتے ہیں۔ جس جگہ اذا کے بعد لام آئے گا تو ضروری ہے کہ اس سے قبل لو مقدرہو۔ جملہ ہذا میں عبارت مقدرہ ہوگی لو کنت تتلوا من قبلہ من کتب وتخطہ اذا لارتاب المبطلون۔ اگر قبل ازیں آپ کتاب پڑھ سکتے ہوتے اور اسے لکھتے ہوتے تو اہل باطل ضرور شک کرتے۔ اس کی مثال : اذا لذھب کل الیہ بما خلق (23:91) (اس کے ساتھ اگر کوئی اور خدا ہوتا) تو ہر خدا ہر اس چیز کو جو اس نے پیدا کی لے جاتا۔ لارتاب۔ ماضی واحد مذکر غائب ارتیاب (افتعال) مصدر لام تاکید کا ۔ تو وہ ضرور شک کرتا۔ یہاں صیغہ جمع کے لئے استعمال ہوا ہے۔ تو وہ ضرور شک کرتے۔ ریب مادہ۔ المبطلون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ غلط گو۔ اہل باطل ، حق کو جھٹلا نے والے۔ ابطال (افعال) مصدر۔ مبطل واحد۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ کہ پچھلی کتابوں کو دیکھ کر آپ نے پیغمبر کا دعویٰ کردیا ہے۔ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت میں سچا ہونے پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ (دیکھئے سورة قصص آیت 86 و سورة یونس آیت 16) بعض لوگوں نے صحیح بخاری میں صلح حدیبیہ والی روایت میں ” ا... خذ لکتب “ کہ قلم پکڑا اور لکھا سے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنا پڑھنا جانتے تھے مگر یہ استدلال بچند وجوہ مخدوش ہے۔ اولاً تو صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ” امر لکتب “ کے الفاظ ہیں جو وضاحت کے لئے کافی ہیں یعنی کہ ” اپ نے حکم دیا تو کاتب نے لکھا “ اور پھر اسی روایت میں :” ولایحن ان لکتب “ کے الفاظ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس موقع پر لکھنا بھی اعجازی حیثیت کا حال ہے جو بجائے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا نبی ہونے کی دلیل ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (48 تا 55) ۔ لا تخط (نہیں لکھتا ہے) ۔ یمین (داہنا ہاتھ) ۔ ارتاب (شک کیا) ۔ المبطلون (ناحق چلنے والے) ۔ لم یکف (کافی نہیں ہے) ۔ یستعجلون (وہ جلدی کرتے ہیں) ۔ مسمی (مقرر۔ متعین) ۔ بغتتہ (اچانک) ۔ تشریح : آیت نمبر (48 تا 55) ۔ ” اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو پیدا ک... ر کے ان کی رہنمائی کے اسباب بھی مہیا کئے ہیں چناچہ ہر دور میں اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا اور ان کو وہ کتاب ہدایت بھی دی جس میں دنیا میں زندگی گذار کر آخرت کی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت تو ریت، زبور اور انجیل کتابیں موجود تھیں جس میں انسانی ہاتھوں نے اپنی دنیاوی مقاصد کے لئے بیشمار ان باتوں کو شامل کرلیا تھا جو اللہ نے نازل نہیں کی تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کتاب (قرآن مجید) کو نازل فرمایا جو قیامت تک ساری انسانیت کی رہبری کرتی رہے گی۔ اہل کتاب میں سے جو بھی حق و انصاف پر قائم ہیں وہ ان آیات اور سچائیوں کی تصدیق کریں گے اور بغیر کسی رکاوٹ کے ایمان لے آئیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں وہ صرف طرح طرح کے اعتراضات تو کریں گے مگر ہر سچائی سے آنکھیں بند کئے رہیں گے۔ اب اس سے بڑی سچائی کیا ہوگی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی زندگی کے چالیس سال ان اہل مکہ کے سامنے گذرے تھے جو اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے نہ کسی سے پڑھا، سیکھا اور نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا جس سے کچھ تحریر کیا جاتا ہے بلکہ آپ ” امی “ تھے۔ آپ کا امی ہونا ہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے کیونکہ ایک چھوٹے سے معاشرہ میں عام طور پر ہر شخص ایک دوسرے کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوا کرتا ہے۔ بیخبر نہین ہوتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چالیس سال جو زندگی کا ایک اچھا خاصا طویل وقت ہوتا ہے اس میں نہ تو آپ نے ان باتوں کا اظہار کیا جن سے گذشتہ انبیاء کرام کے حالات زندگی اور مختلف مذہبوں کے عقیدے اور ان کا اچھا یا برا انجام سامنے آتا ہے۔ نہ قوموں کی تاریخ ، ان کی تہذیب، تمدن، معاشرت، معیشت اور اخلاق کا بیان کیا ۔ اچانک یہ علوم کے دریا جاری ہوگئے جن کے حاصل ہونے کا ذریعہ محض وحی الہی ہے اور دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے، آپ کے پڑھانے والے استاد ہوتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے ہم سے پڑھا ہے اور آج یہ پیغمبر بن بیٹھے ہیں۔ اول تو سارے عرب میں چند لوگ ہی پڑھے لکھے تھے۔ پورے مکہ میں بڑی تعداد میں اہل کتاب بھی نہیں تھے جو ان کو سکھا دیتے۔ لہذا وحی الہی کے سوا کوئی دوسرا ویسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ علوم حاصل ہوتے۔ ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے آن آیات میں واضح فرمایا ہے۔ ارشاد ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کتاب سے پہلے نہ تو آپ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے لوگ آپ پر طرح طرح کے شبے کرسکتے تھے۔ فرمایا کہ اللہ کا یہ کلام ان کے دلوں میں موجود ہے جنہیں علم و بصیرت دیا گیا ہے وہ ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ظالم اور بےانصاف لوگ ہیں۔ فرمایا کہ وہ کفار یہ کہتے ہیں اگر یہ نبی ہیں تو گذشتہ انبیاء کی طرح ان کو معجزات کیوں نہ دیئے گئے جن کو دیکھ کر ہم ایمان لے آتے ؟ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ معجزات دکھانا یہ اللہ کے قبضہ قدرت اور اختیار میں ہے۔ معجزہ دکھانا میا کام نہیں ہے میں تو برے کاموں کے برے انجام سے ڈرانے اور باخبر کے لئے آیا ہوں۔ فرمایا کہ کیا ان لوگوں کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب کو نازل کی ہے جس کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں۔ یقینا اہل ایمان ہی اس رحمت اور نصیحت سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ آپ کی بات کو نہیں مانتے تو ان سے کہہ دیجے کہ میرے اور تمہارے درمیان صرف اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اللہ جو زمین اور آسمانوں کی ہر بات کا پوری طرح علم رکھتا ہے۔ فرمایا کہ نضر ابن حارث جیسے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان سے پتھ برسا دو اور وہ دردناک عذاب لے آئو جس کی دھمکیاں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو عذاب کی جلدی مچائے ہوئے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کے ہاں اس کا ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو کبھی کا عذاب آچکا ہوتا۔ اور یقینا وہ عذاب اس طرح اچانک آئے گا کہ ان کو اس کی خبر تک نہ ہوگی۔ فرمایا کہ وہ جس عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں کبھی انہوں نے اس بات پر غور کیا ہے ان کے کرتوتوں کے سبب اللہ کا عذاب ان کو تیزی سے چاروں طرف سے گھیر تا چلا جا رہا ہے۔ جب ان کے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے عذاب آئے گا تو اس وقت وہ اپنے آپ کو بچانہ سکیں گے۔ اور اللہ کے فرشتے اعلان کریں گے کہ تم جو کچھ کرتے تھے آج اس عذاب کا مزہ چکھو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی صداقت اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبّوت کے مزید ثبوت۔ سب سے پہلے قرآن مجید کا انکار کرنے والے اہل مکہ تھے، جن کا ایک الزام یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے آیات بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتا ہے جس کی درجنوں دلائل کے ساتھ نفی کی ... گئی ہے۔ جن میں دو دلائل یہ ہیں کہ سوچو اور غور کرو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے سے لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو پھر تمہیں اس کی نبّوت میں ضرور شک ہوسکتا تھا کہ پڑھا لکھا انسان تھا اپنی صلاحیّت کی بنیاد پر ایک کتاب بنا لایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت یہ ہے کہ نہ آپ نے کسی کے سامنے زنوائے تلمذ طے کیے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے لکھنا سیکھا پھر لوگوں کو کس بنیاد پر شک ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کسی سے پڑھ لیا ہے یا اپنی طرف سے لکھ لیا ہے ؟ یہاں اس بات کا بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ انسان کو بائیں کی بجائے دائیں ہاتھ کے ساتھ لکھنا چاہیے۔ حقیقتاً اس ارشاد کا روئے سخن منکرین قرآن کی طرف ہے لیکن بات کی اہمیت کے پیش نظر اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دینے کے لیے آپ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو غمگین اور دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی آپ کی توجہ ان کے بےہودہ الزام کی طرف ہونی چاہیے کیونکہ آپ تو اس سے پہلے نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ باطل پرست لوگ کسی دلیل کی بنیاد پر الزام نہیں لگاتے بلکہ حقیقت میں یہ ظالم اور بےانصاف لوگ ہیں جو بلا دلیل اور خواہ مخواہ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں ہماری آیات پر وہ لوگ ضرور ایمان لاتے ہیں جن کو حقیقی علم کی آگہی بخشی گئی ہے۔ حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالقعدہ میں عمرہ ادا کرنا چاہا، لیکن مکہ والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ بالآخران سے طے ہوا کہ آپ آئندہ سال آئیں گے اور مکہ مکرمہ میں صرف تین دن قیام کریں گے۔ جب کفار نے صلح نامہ تحریر کرنا چاہا تو آپ نے یوں تحریر لکھوائی، کہ اس معاہدے پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی ہے۔ انہوں نے فوراً اعتراض کیا۔ ہم آپ کی رسالت تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو کبھی آپ کو نہ روکتے۔ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں کہ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ کے الفاظ مٹا دے۔ انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ! میں ہرگز ان الفاظ کو نہیں مٹاؤں گا۔ تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلم پکڑا، جبکہ آپ بہتر انداز میں لکھ نہیں سکتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تحریر کیا کہ یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ نے کیا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : باب کَیْفَ یُکْتَبُ ہَذَا مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ ] مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنا، پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ٢۔ باطل پرست اور بےانصاف لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ ٣۔ علم کی حقیقت سے آشنا لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ تفسیر باالقرآن ” اللہ “ کی آیات کا کون لوگ انکار کرتے ہیں : ١۔ فاسق لوگ ” اللہ “ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٩٩) ٢۔ قرآن مجید میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثال بیان کی گئی مگر اکثر ناشکرے اس کا انکار کرتے ہیں۔ (الکہف : ٥٤) ٣۔ ” اللہ “ کی آیات کا انکار کرنے کا بدلہ آخرت میں آگ کا گھر ہے۔ ( حٰمٓ السجدۃ : ٢٨) ٤۔ کیا تم باطل کے ساتھ ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو ؟ (النحل : ٧٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما کنت تتلوا ۔۔۔۔۔ لارتاب المبطلون (48) قرآن کریم کفار کے شبہات کا پیچھا کرتا ہے ، یہاں تک کہ ان کے بچگانہ اعتراضات اور شبہات کا بھی دفعیہ کردیا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی کا طویل ترین حصہ کفار مکہ کے درمیان بسر کیا تھا۔ آپ نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے۔ اچانک انہو... ں نے ایسی عجیب کتاب پیش کی جس نے تمام پڑھے لکھے لوگوں اور لکھنے والوں کو عاجز کردیا۔ اگر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نزول قرآن سے قبل پڑھے لکھے ہوتے تو کفار مکہ جائز طور پر اعتراض کرتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تصنیف کر رہے ہیں لہٰذا اب وہ جو اعتراضات کرتے ہیں وہ بےبنیاد ہے۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم ان کے لغو اور بچگانہ سوالات کا بھی جواب دیتا ہے۔ ورنہ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھے لکھے تھے تو پھر بھی قرآن کریم پر ان کے لیے شبہ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ کیونکہ اگر قرآن کریم پر بذات خود غور کیا جائے تو یہ ایک معجز کتاب ہے اور انسانوں کی تصنیف کردہ کتاب نہیں ہے۔ یہ انسانی قوت اور معرفت کے حدود سے باہر ہے۔ انسانی علم و معرفت کی حدود سے اس کے مضامین وراء ہیں۔ قرآن کریم میں جو سچائی درج ہے وہ بےقید سچائی ہے جس طرح اس کائنات کے اندر موجود سچائی بےقید ہے۔ انسان جب بھی نصوص قرآنی پر غور کرتا ہے ، اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی پشت پر بےپناہ قوت ہے۔ قرآن کریم کی عبادت میں بھی ایک عظیم شوکت ہے اور یہ قوت اور یہ شوکت کلام انسانی طاقت سے وراء ہے  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسالت محمدیہ پر ایک واضح دلیل : اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایک واضح دلیل بیان فرمائی اور وہ یہ کہ آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، اہل مکہ میں آپ نے پورے چالیس سال گزارے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، مکہ والے جانتے تھے کہ آپ بالکل امی ہیں کسی سے آپ ... نے کچھ بھی نہیں پڑھا، آپ نہ پڑھنا جانتے تھے نہ لکھنا۔ اہل کتاب بھی اپنی کتابوں میں جو آپ کی صفات پاتے ان میں یہ واضح طور پر موجود تھا کہ آپ امی ہوں گے۔ مکہ معظمہ میں آپ نے نبوت کے بعد تیرہ سال گزارے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب سنائی تو انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے سے انکار کردیا اور یوں کہنے لگے کہ (اٍنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ) (انہیں ایک آدمی سکھاتا ہے) جب ان سے کہا گیا کہ تم اس جیسی ایک سورت بنا کر لاؤ تو بالکل عاجز رہ گئے حالانکہ وہ فصحاء اور بلغاء تھے، جس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ کتاب آپ کی بنائی ہوئی نہیں ہے، آپ نے کسی سے پڑھا نہیں اور یہ کسی دوسرے بشر کی سکھائی اور پڑھائی ہوئی کتاب نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو لوگ اس جیسا کلام بنا کرلے آتے، خصوصاً جبکہ وہ شخص عجمی ہے جس کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ آپ کو سکھاتا ہے ایک امی شخص جس نے کسی سے بھی نہیں پڑھا اس کا ایسی فصیح وبلیغ کتاب پیش کردینا جس کے مقابلہ سے بڑے بڑے فصحاء عاجز رہ گئے، اس کی نبوت کی صاف صریح اور واضح دلیل ہے۔ پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں پہلے سے اہل علم یعنی یہود موجود تھے انہوں نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی تشریف آوری کا ہمیں انتظار تھا، وہ لوگ آپ کی نشانیاں جانتے تھے اور اپنے اسلاف سے سنتے آ رہے تھے، ان نشانیوں میں یہ بھی تھا کہ آپ امی ہوں گے، امی ہوتے ہوئے آپ نے حضرات انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے واقعات بتائے اور جامع شریعت پیش کی، عقائد صحیحہ سے واقف کیا، یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے آگاہ فرمایا، ان کی گمراہیوں پر مطلع کیا، یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ وہ علوم دے دئیے جو کسی کو نہیں دئیے۔ اس تمہید کے بعد اب آیت کا مفہوم سمجھیں، ارشاد فرمایا : (وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) (اور اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے کتاب کو لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو باطل والے شک کرتے) یعنی انہیں شک کرنے اور یوں بات بنانے کا موقع مل جاتا کہ یہ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں، اپنے پاس سے لکھ لیتے ہیں پھر یوں کہہ دیتے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، لیکن جب آپ پڑھنا لکھنا جانتے ہی نہیں تو خود سے لکھنے کا احتمال ہی نہیں، لہٰذا اب یہ بات کہنے کا موقع نہیں رہا کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ لی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردی ہے۔ (العیاذ باللہ)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور دعوی توحید میں سچا ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی قرآن کے نزول سے پہلے نہ تو آپ پہلی کتابیں پڑھا کرتے تھے اور نہ کچھ تحریر کیا کرتے تھے یعنی آپ پڑھنا اور لکھنا جانتے ہی نہ تھے۔ اگر آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو باطل پرست یعنی مشرکین مکہ کو شکوک و شبہات کی ا... یک اور راہ مل جاتی اور وہ کہتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتب سابقہ کا مطالعہ کرتا رہتا ہے اور پھر اپنے ہاتھ سے مضامین لکھ کر وحی الٰہی کے نام سے ہمارے سامنے پیش کردیتا ہے۔ لیکن اب اس شب ہے کی کوئی گنجائش نہیں اس لیے اب ماننا پڑے گا کہ آپ جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ اللہ کی وحی سے کرتے ہیں اور آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قال النحاس دلیلا علی نبوتہ لقریش لانہ لا یقرا و لا یکتب ولا یخالط اھل الکتاب ولم یکن بمکۃ اھل الکتاب فجاء ھم باخبار الانبیاء و الامم و زالت الریبۃ والشک (قرطبی ج 13 ص 351) ۔ اذًا لارتاب المبطلون یہ منفی پر متفرع ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48۔ اور اے پیغمبر ! آپ اس کتاب یعنی قرآن کریم سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ کوئی کتاب اپنے داہنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے ایسا ہوتا تو یہ باطل پرست اور ہٹ دھرم جھوٹے اس وقت ضرور کسی شبہ میں پڑتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے پر ایک اور دلیل ب... یان کی گئی ہے کہ نزول قرآن کریم سے پیشتر آپ کوئی کتاب نہ پڑھ سکتے تھے نہ لکھ سکتے تھے اگر لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تھے تو اس شبہ کا امکان بھی تھا کہ لکھے پڑھے آدمی ہیں کہیں بیٹھ کر یہ قرآن کریم مرتب کرلیا ہوگا اگرچہ پھر بھی اس کی اعجازی فصاحت و بلاغت اس کی مقتضی تھی کہ اس کو منجانب اللہ مانا جائے لیکن اس وقت اہل زیغ اور اہل باطل کو شبہ کی گنجائش تو تھی اور آپ کے امتی ہو نیکی حالت میں تو افترا اور بناوٹ کہنے کی گنجائش ہی نہیں بلکہ اس کو منجانب اللہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔ سیدھا ہاتھ اس لئے فرمایا کہ عام طور سے سیدھے ہاتھ سے لکھاجاتا ہے اس لئے ہم نے ترجمے میں صرف ہاتھ ترجمہ کیا ہے، غرض ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے میں شبہ کرنیوالوں کے شبہات لغو اور ناقابل توجہ ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جگہ تھی شبہ کی اگلی کتاب پڑھ کر یہ باتیں معلوم کیں حضرت تو نہ کبھی استاد کے پاس بیٹھے نہ ہاتھ میں قلم پکڑا ۔ 12  Show more