Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 69

سورة العنكبوت

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۶۹﴾٪  3

And those who strive for Us - We will surely guide them to Our ways. And indeed, Allah is with the doers of good.

اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے یقیناً اللہ تعا لٰی نیکوکاروں کا ساتھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا ... As for those who strive hard for Us, meaning the Messenger and his Companions and those who follow him, until the Day of Resurrection, ... لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ... We will surely guide them to Our paths. means, `We will help them to follow Our path in this world and the Hereafter.' Ibn Abi Hatim narrated that Abbas Al-Hamdani Abu Ahmad ... -- one of the people of Akka (Palestine) -- said, concerning the Ayah: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ As for those who strive hard for Us (in Our cause), We will surely guide them to Our paths. And verily, Allah is with the doers of good. "Those who act upon what they know, Allah will guide them to that which they do not know." Ahmad bin Abu Al-Hawari said, "I told this to Abu Sulayman Ad-Darani, and he liked it and said: `No one who is inspired to do something good should do it until he hears a report concerning that; if he hears a report then he should go ahead and do it, and praise Allah because it was in accordance with what he himself felt."' ... وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ And verily, Allah is with the doers of good. Ibn Abi Hatim recorded that Ash-Sha`bi said; "Isa bin Maryam, peace be upon him, said: `Righteousness means doing good to those who ill-treat you, it does not mean doing good to those who do good to you."' And Allah knows best. This is the end of the Tafsir of Surah Al-`Ankabut. All praise and thanks are due to Allah.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

691یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں692اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ 693احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھو... ڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] یعنی انسان کا کام یہ ہے کہ وہ نہایت نیک نیتی سے اللہ کے راہ پر گامزن ہوجائے۔ اس راستہ میں کون کون سی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اور ان کا کیا حل ہوسکتا ہے یہ سوچنا انسان کے بس سے باہر ہے کیونکہ نہ اسے پیش آنے والی مشکلات کا پہلے سے صحیح اندازہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اللہ کی تقدیر کے مقابلہ میں انسان ... کی تدبیر کسی کام آسکتی ہے۔ انسان کا کام اعلائے کلمہ اللہ کے لئے اس کی مقدور بھر کوشش ہے اور اس کی لازمی شرط محض اللہ کی رضا مندی اور خلوص نیت ہے۔ اس شرط کے ساتھ اگر کوئی فرد یا کوئی جماعت جہاد کی کسی بھی قسم کے لئے گامزن ہوجائے گا تو اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل خود ہی سجھاتا جائے گا خلوص اور نیک نیتی ہوگی تو راہیں خود بخود کھلتی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ دستگیری اور مدد فرماتا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھلے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ راہیں سجھاتا بھی ہے، کھولتا بھی ہے اور بروقت مدد کو بھی پہنچتا ہے۔ انسان کا کام صبر و استقلال اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتے جانا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جہاد سے مراد صرف قتال فی سبیل اللہ ہی نہیں بلکہ جہاد کی جملہ اقسام ہیں۔ جن کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر دی جاچکی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا : کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اپنے مومن بندوں کے لیے بشارت بیان فرمائی۔ سورت کا آغاز اہل ایمان کی آزمائش اور جہاد کے ذکر سے ہوا تھا، فرمایا : (وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ ) [ العنکبوت : ٦ ] اب اختتام بھی اسی جہاد پر ... بشارت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ” وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا “ میں جہاد سے وہی جہاد مراد ہے جو سورت کے شروع میں ” وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ “ سے مراد ہے۔ اس لیے اس پہلی آیت کا فائدہ دوبارہ نقل کیا جاتا ہے۔ ” جَھَدَ یَجْھَدُ “ کا معنی کوشش کرنا ہے اور ” جَاہَدَ “ (مفاعلہ) میں مقابلے کا مفہوم بھی ہے اور مبالغے کا بھی، یعنی کسی کے مقابلے میں پوری کوشش لگا دینا۔ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر کاربند رہنے کے لیے بہت سی چیزوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے اپنے نفس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو ہر وقت اسے اپنی خواہش کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے، شیطان کا بھی جس نے اس کی دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے اور اپنے گھر سے لے کر تمام دنیا کے ان انسانوں کا بھی جو اسے راہ حق سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسے اس کوشش میں لڑائی بھی کرنا پڑتی ہے، جس میں وہ دشمن کو قتل کرتا ہے اور خود بھی قتل ہوجاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاد کا لفظ اکثر اسی معنی میں آیا ہے۔ سب سے اونچا درجہ اس کا وہ ہے جب وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر قربان ہوجاتا ہے۔ عبداللہ بن حُبْشی (رض) بیان کرتے ہیں (لمبی حدیث ہے) : ( قِیْلَ فَأَيُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ مَنْ جَاہَدَ الْمُشْرِکِیْنَ بِمَالِہِ ، وَنَفْسِہِ ، قِیْلَ فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ ؟ قَالَ مَنْ أُہْرِیْقَ دَمُہُ ، وَعُقِرَ جَوَادُہُ ) [ مسند أحمد : ٣؍٤١١، ٤١٢، ح : ١٥٤٠٧، قال المحقق إسنادہ قوي۔ أبوداوٗد : ١٤٤٩، قال الألباني صحیح ] ”(نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) سوال کیا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو مشرکین کے ساتھ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے۔ “ پوچھا گیا : ” پھر کون سا قتل سب سے اونچی شان والا ہے ؟ “ فرمایا : ” جس کا خون بہا دیا جائے اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا جائے۔ “ 3 یعنی اللہ پر جھوٹ گھڑنے اور حق کو جھٹلانے والوں کا انجام تو جہنم ہے، مگر ہماری خاطر جو لوگ ایسے لوگوں کے ساتھ جہاد کریں گے اور ہماری راہ میں اپنے مال اور اپنی جانیں قربان کریں گے ہم ضرور ہی انھیں وہ راستہ دکھا دیں گے جن پر چل کر وہ ہم تک پہنچیں اور انھیں ان پر چلنے کی توفیق دیں گے اور ان پر ثابت قدم رکھیں گے، کیونکہ ہدایت کی تکمیل ان تینوں چیزوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ : ” اِنَّ “ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یہاں ایک جملہ محذوف ہے جو خودبخود سمجھ میں آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ جو شخص ہماری راہ میں جہاد کرے وہ محسن ہے، یعنی اپنی جان پر اور دوسرے لوگوں پر احسان کرنے والا ہے اور ایسے لوگ جو احسان کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی مخلوق کے ساتھ بھی ہے۔ پھر اس کی یہ معیت (ساتھ) ایک تو عام ہے کہ وہ اپنے علم و قدرت کے ساتھ یا جس طرح وہ خود بہتر جانتا ہے ہر بندے کے ساتھ ہے (دیکھیے حدید : ٤۔ مجادلہ : ٧) اور ایک خاص معیت ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے لشکروں کے آنے پر کہا تھا : (اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٦٢ ] ” بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ “ اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کے آ پہنچنے پر اپنے غار کے ساتھی سے فرمایا تھا : ( لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ ” المحسنین “ کے ساتھ ہونے سے مراد یہی خاص معیت ہے، یعنی اللہ اپنی ہدایت، حفاظت، حمایت اور نصرت کے ذریعے سے ان کے ساتھ ہے۔ 3 بعض مفسرین نے اس مقام پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ سے واپس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِھَادِ الْأَکْبَرِ ) ” ہم چھوٹے جہاد (یعنی کفار سے لڑائی) سے بڑے جہاد (یعنی نفس سے جہاد) کی طرف واپس آئے ہیں۔ “ حالانکہ یہ کسی شخص کا قول ہے، اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے لگانا بہت بڑا جھوٹ اور زبردست دیدہ دلیری ہے۔ جہاد اکبر وہی ہے جس کا ذکر اوپر حدیث رسول میں آیا ہے : ( مَنْ أُھْرِیْقَ دَمُہُ وَ عُقِرَ جَوَادُہُ ) ” جس کا خون بہا دیا گیا اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا گیا۔ “ حقیقت یہ ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بھی سب سے بڑھ کر اسی کا ہے جو اللہ کی راہ میں جان دے دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے قتال فی سبیل اللہ کو چھوٹا قرار دیا اور نفس سے جہاد کو بڑا قرار دے کر حجروں میں چلہ کشی کے لیے بیٹھ گئے۔ ایسے آرام دہ جہاد ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں مغلوب ہیں اور کافر غالب۔ کاش ! یہ حضرات راہبوں کے طریقے کے بجائے وہ جہاد کرتے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے کیا، جس کے ساتھ وہ صرف دس سال کے عرصے میں پورے جزیرۂ عرب کے مالک بن گئے اور پھر نصف صدی کے اندر اندر مشرق سے مغرب تک کے فرماں روا بن گئے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (And those who strive in Our way We will certainly take them to Our paths - 69). The real meaning of jihad is to put in all efforts to remove the hurdles in the way of faith. These hurdles include those that are put up by the infidels, for which fighting is at the top pedestal, and also those hurdles that are created by one&s own Self a... nd by Shaitan. There is a promise in this verse for both types of jihad, that Allah Ta’ ala guides those waging jihad to the righteous way. It means that when there is a &confusion between evil and virtue, truth and false, and profit or loss, and a wise person wonders which way to adopt, on such occasions Allah Ta’ ala guides those striving in His way to the path which is straight, righteous and without risk. In other words, He turns their hearts toward a way that may bring the divine blessing and the best results. Knowledge improves if it is acted upon Sayyidna Abu Ad-Darda& (رض) while interpreting this verse has said that the people who strive for acting in accordance with their knowledge are promised by Allah Ta’ ala in this verse that He will disclose to them some other areas of knowledge that they did not have before. Fudayl Ibn ` Iyad (رح) has given yet another interpretation to this verse, that is, ` those who strive for knowledge, We make it easy for them to act&. (Mazhari). وَاللہُ سبحانَہُ و تعالیٰ اَعلَم   Show more

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا، جہاد کے اصلی معنی دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے ہیں، اس میں وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار و فجار کی طرف سے پیش آتی ہیں، کفار سے جنگ و مقاتلہ اس کی اعلی فرد ہے اور وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو...  اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے پیش آتی ہیں۔ جہاد کی ان دونوں قسموں پر اس آیت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جہاد کرنے والوں کو اپنے راستوں کو ہدایت کردیتے ہیں۔ یعنی جن مواقع میں خیر و شر یا حق و باطل یا نفع و ضرر میں التباس ہوتا ہے عقلمند انسان سوچتا ہے کہ کس راہ کو اختیار کروں، ایسے مواقع میں اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو صحیح، سیدھی، بےخطر راہ بتا دیتے ہیں۔ یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لئے خیر و برکت ہو۔ علم پر عمل کرنے سے علم میں زیادتی : اور حضرت ابوالدرداء نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے جو علم لوگوں کو دیا گیا ہے جو لوگ اپنے علم پر عمل کرنے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان پر دوسرے علوم بھی منکشف کردیتے ہیں جو اب تک حاصل نہیں۔ اور فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ جو لوگ طلب علم میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے عمل بھی آسان کردیتے ہیں۔ (مظہری) واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٦٩ۧ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال ت... عالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یعنی جو اپنے علم کے مطابق نیکیاں کرتا ہے تو ہم اس کو ان چیزوں کی بھی توفیق عطا فرمائیں گے کہ جو اس کے علم میں نہیں یا یہ کہ ہم خوشی و حلاوت طبع اس کو نصیب فرمائیں گے یا یہ کہ ہم اپنی اطاعت کی اس کو مزید توفیق عطا فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کی قول و فعل توفیق و عصمت کے ذریعے مدد فرمانے وال... ا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط) ” جو لوگ ہمارے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور ہماری راہ میں جہاد کر رہے ہیں انہیں مطمئن رہنا چاہیے کہ ہم انہیں بےسہارا نہیں چھوڑیں گے ‘ ہم انہیں اپنے راستوں کی بصیرت عطا فرمائیں گے۔ یہ ان سے ہمارا پختہ وعدہ ہے۔ (وَاِنَّ اللّٰہَ لَ... مَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) ” جن لوگوں کا اللہ پر ایمان ہے اور ان کا ایمان ” احسان “ کے درجے تک پہنچ چکا ہے ‘ پھر اللہ کی راہ میں وہ اپنا تن من اور دھن قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار بھی رہتے ہیں ‘ اللہ کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس کی تائید و نصرت ہر وقت ان کے ساتھ رہے گی۔ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم۔۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107 The word mujahadah has already been explained in E.N: 8 above. There it was said that a person who exerts will exert for his own good (v. 6.). Here it is being reassured that Allah dces not leave alone those who strive in His cause sincerely, even at the risk of a conflict with the entire world, but He helps and guides them and opens for them ways towards Himself. He teaches them at every step...  the way of winning His approval and good-will and He shows them the light at every turning point to discriminate between the Right Way and the wrong ways of life. In short, Allah helps and succours and guides them according to their sincerity and intensity of desire for goodness.  Show more

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 107 مجاہدہ کی تشریح اسی سورہ عنکبوت کے حاشیہ نمبر 8 میں گزر چکی ہے ۔ وہاں یہ فرمایا گیا تھا کہ جو شخص مجاہدہ کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا ( آیت 6 ) یہاں یہ اطمینان دلایا جارہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ دنیا بھر سے کش مکش کا خطرہ مول لے ل... یتے ہیں انہیں اللہ تعالی ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا ۔ بلکہ وہ ان کی دستگیری و رہنمائی فرماتا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہیں ان کے لیے کھول دیتا ہے ۔ وہ قدم قدم پر انہیں بتاتا ہے کہ ہماری خوشنودی تم کس طرح حاصل کرسکتے ہو ۔ ہر ہر موڑ پر انہیں روشنی دکھاتا ہے کہ راہ راست کدھر ہے اور غلط راستے کون سے ہیں ۔ جتنی نیک نیتی اور خیر طلبی ان میں ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی مدد اور توفیق اور ہدایت بھی ان کے ساتھ رہتی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: یہ اُن لوگوں کے لئے بڑی عظیم خوشخبری ہے جو اﷲ تعالیٰ کے دِین پر خود چلنے اور دُوسروں کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں، جب تک اِنسان اس راستے میں کوشش جاری رکھے، اور مایوس ہو کر نہ بیٹھ جائے، اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُس کی مدد فرماکر ضرور منزل تک پہنچادیں گے، لہٰذا راستے کی مشکلات سے ہار مان کر بیٹھن... ے کے بجائے نئے عزم وہمت کے ساتھ یہ کوشش ہمیشہ جاری رہنی چاہئے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس کی مکمل توفیق عطا فرمائیں۔ امین۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:69) جاھدوا فینا۔ جاھدواماضی جمع مذکر غائب انہوں نے جہاد کیا انہوں نے محنت کی، وہ لڑے۔ مجاھدوا (مفاعلۃ) مصدر فینا : لوجھنا۔ ہمارے لئے۔ من اجلنا۔ ہمارے واسطے۔ لنھدینہم۔ مضارع بلام تاکید و نون تاکید ثقیلہ جمع متکلم ھدایۃ مصدر۔ سبلنا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمارے راستے۔ ہماری راہیں۔ اس کا واحد سبیل ہے۔...  ان اللہ لمع المحسنین : ان تحقیق و تاکید کے لئے۔ مع کے ساتھ لام تاکید کے لئے۔ تاکہ شک و شبہ کی بالکل گنجائش نہ رہے۔ اللہ کی معیت اس کی نصرت اور اعانت ہی کا دوسرا نام ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ ان سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، صحابہ کرام (رض) اور قیامت تک کے لئے ان کے متبعین مراد ہیں۔ (ابن کثیر) ” جہاد “ کا لفظ جس طرح دشمنوں کے ساتھ قتال پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح مجاہدات و ریاضات نفسانی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے بلکہ بعض روایات میں ان مجاہدات کو ” جہاد اکبر “ فرمایا ہے بشرطیکہ ... اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور شریعت کی حدود کے اندر رہ کر یہ ریاضتیں کی جائیں۔ (قرطبی) 2 ۔ یعنی ان کی رہنمائی فرمائیں گے اور نیکی کے راستے اختیار کرنے اور ان پر چلنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق دیں گے۔ بعض نے بہشت کی راہ مراد لی ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اپنی راہیں یعنی راہ قرب کے اور رضا کے جو بہشت ہے۔ “ (موضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شرک اور ظلم جتنا بھی بڑھ جائے حق کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حق پا ہی لیا کرتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ اخلاق کے ساتھ کوشش کریں۔ سورۃ العنکبوت کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ انہیں اس راستے میں کوئی آزمائش نہیں آئے گی، ایسا ہرگز نہیں ہوگا... ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایمان داروں کو بھی آزمایا تھا، اور تمہیں بھی آزمائے گا تاکہ حق والے اور باطل پرست آپس میں ممتاز ہوجائیں۔ سورة کا اختتام اس بات سے کیا جاتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر کوئی حق کی جستجو اور آزمائشوں کا مقابلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے راستے ہموار کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔ ” سبیل “ کی جمع ” سُبُلٌ“ اور اس کے ساتھ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جمع کی ضمیر میں رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔” سُبُلٌ“ کے ساتھ جمع کی ضمیر لا کر یقین دلایا ہے کہ انسان کا کام خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حق تک پہنچنا آسان کر دے گا اور اپنے راستوں میں کوئی نہ کوئی راستہ ضرورنکال دے گا۔ احسان کا معنٰی پورے خلوص کے ساتھ نیکی کرنا اور برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والوں کے لیے حق کا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٥۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بیشک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٩٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں تکلیفیں اٹھائیں ضرور ضرور ہم انہیں اپنی راہیں بتائیں گے اور بلاشبہ اللہ اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہے) اس آیت میں ایک اہم مضمون بیان فرمایا ہے اور وہ...  یہ کہ اللہ کی رضا اختیار کرنے اور اس کی طلب میں محنت کرنے اور مشقت اٹھانے پر اللہ تعالیٰ شانہ کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور اپنے راستے بتادے گا۔ آیت شریفہ میں بہت بڑی جامعیت ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جس طرح بھی جو بھی کوششیں کی جائیں مثلاً طلب علم ہو، کافروں سے مقاتلہ ہو، اہل فتن سے مقابلہ ہو زبان سے یا قلم سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو یا ظالموں کے سامنے اظہار حق ہو، یہ سب کچھ مجاہدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ہمارے بارے میں یعنی ہماری رضا کے لیے ہمارے دین کو بلند کرنے کے لیے محنت کریں گے، تکلیف اٹھائیں گے، مصیبتیں برداشت کریں گے ہم انہیں ضرور ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ انہیں اور زیادہ ہدایت سے نوازیں گے جیسا کہ سورة محمد میں فرمایا (وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتَاھُمْ تَقْوٰھُمْ ) (اور جن لوگوں نے ہدایت کو اختیار کیا اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ ہدایت دے گا اور انہیں تقویٰ عطا فرما دے گا) دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنت کے راستے دکھا دیں گے۔ جو شخص علم میں لگے اللہ تعالیٰ اس کے لیے علم کی راہیں کھول دیتے ہیں اور علم پر عمل کرنے سے مزید علم عطا فرماتے ہیں۔ جو شخص دعوت و تبلیغ اور جہاد کے کام میں لگے، تصنیف و تالیف کا کام کرے اس کا سینہ کھول دیتے ہیں، تفسیر قرآن لکھنے لگے تو اسے ایسی معروفت عطا فرماتے ہیں جس کی وجہ سے قرآن مجید کے اسرار و رموز اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں، جو شخص معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کی نظر معاشرہ کی خرابیوں پر جاتی ہے پھر زبان سے یا تحریر سے ان خرابیوں پر تنبیہ کرنے کی بھی توفیق ہوجاتی ہے اور بات کہنے کے ایسے پیرائے ذہن میں ڈال دئیے جاتے ہیں جنہیں اختیار کرنے سے مخاطبین بات کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ مومن بندہ کو اپنے ہر عمل میں مخلص ہونا لازم ہے یعنی محض اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی کیسی مدد نازل ہوتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بڑھے تو سہی پھر دیکھے کہ اس کا کیسا فضل و انعام ہوتا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے من تقرب منی شبرا تقربت منہ ذراعاً ومن تقرب منی ذراعاً تقربت منہ ارباعا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں اور جو شخص ایک ہاتھ میرے نزدیک ہو تو میں چار ہاتھ اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں۔ ) آخر میں فرمایا کہ (اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور بلاشبہ اللہ محسنین کے ساتھ ہے) لفظ (مُحْسِنِیْنَ ) جمع ہے محسن کی، جو لفظ احسان سے لیا گیا ہے اور احسان کا معنی ہے اچھائی کرنا، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کو وحدہٗ لا شریک ماننا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، اس کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کرنا، اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرنا نماز کے ارکان اور اعمال ادا کرنے میں خوبی اختیار کرنا خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنا، ہر عمل کو ریاکاری اور شہرت کے جذبہ سے پاک رکھنا اور جس طرح جس عمل کے ادا کرنے کا حکم ہوا اسی طرح عمل کرنا لفظ ” احسان “ ان سب کو شامل ہے۔ جو لوگ صفت احسان سے متصف ہیں وہ محسنین ہیں ان کے بارے میں (وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اور وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ) فرمایا، اور یہاں سورة عنکبوت میں فرمایا، (وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور بلاشبہ اللہ محسنین کے ساتھ ہے) اللہ تعالیٰ کی معیت یہ ہے کہ وہ مدد فرماتا ہے اور آفات و مصائب سے محفوظ رکھتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پر باقی رکھتا ہے اور مزید ہدایت دیتا ہے۔ سورۂ عنکبوت کے ابتداء میں فرمایا (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ) (کیا لوگوں نے یہ خیال کیا کہ ہم یوں کہہ کر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی) وہاں یہ بتادیا تھا کہ اہل ایمان کو تکلیفیں پہنچیں گی، اور سورت کے ختم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد و نصرت اور معیت کا وعدہ فرمایا۔ فالحمد للہ الذی بنعمتہ وعزتہ تتم الصالحات وقد تم تفسیر سورة العنکبوت بحمد للّٰہ تعالیٰ وحسن توفیقہ والحمد للّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الاولین والآخرین وعلیٰ اٰلہ و اصحابہ اجمعین۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ جہاد سے یہاں جہاد کفار مراد نہیں بلکہ مجاہدٔ نفس اور مقاساتِ مصائب مراد ہے۔ یہ سورت کی ابتداء یعنی دعوی اولی سے متعلق ہے۔ دین حق اور مسئلہ توحید کی وجہ سے مصائب آئیں گے یہاں تک کہ اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑے گا۔ جو لوگ راہ حق میں مصائب و شدائد پر صابر و شاکر رہے اور دین توحید کی خاطر صبر و استقلال ... کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کیا ہم انہیں راہ حق پر قائم رکھیں گے اور انہٰں توحید پر ثبات و استقلال عطا کریں گے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دیں گے۔ (والذین جاھدوا فینا) فی شاننا و من اجلنا ولو جہنا خالصا۔ لنہدینہم سبلنا والمراد نزیدنہم ھدایۃ الی سبیل الخیر وتوفیقا لسلو کہا (روح ج 21 ص 14) ۔ 60:۔ یہ جملہ ماقبل کے لیے بمنزلہ تعلیل ہے اور محسنین سے وہی لوگ مراد ہیں جو اللہ کی راہ میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں (روح) یعنی ہم ان لوگوں کو دین حق اور صراط مستقیم پر قائم رکھیں گے اس لیے کہ ہماری مدد اور نصرت ہمیشہ ان لوگوں کے شامل حال رہتی ہے جو دین حق کی خاطر پورے اخلاص کے ساتھ مصائب برداشت کرتے ہیں۔ سورة عنکبوت کی خصوصیات اور اس میں آیات توحید 1 ۔ احسب الناس۔ تا۔ ولیعلمن الکذبین۔ اے ایمان والو ! جس طرح پہلے لوگوں پر توحید کی وجہ سے آزمائشیں آئٰں اسی طرح تم پر بھی آئیں گی۔ (خصوصیت) 2 ۔ ام حسب الذین۔ تا۔ ساء ما یحکمون۔ مشرکین کا یہ خیال غلط ہے کہ وہ کہیں بھاگ کر ہمارے عذاب سے اپنی جان بچا لیں گے (خصوصیت) ۔ 3 ۔ ومن الناس من یقول۔ تا۔ انا معکم۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو توحید کی خاطر تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتے اور معمولی تکلیف آنے پر بھی توحید کو چھور بیٹھتے ہیں۔ (خصوصیت) ۔ فانجینہ واصحب السفینۃ وجعلنہا ایۃ للعلمین۔ مصائب و مشکلات میں کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ 5 ۔ انما تعبدون من دون اللہ۔ تا۔ الیہ ترجعون۔ نفی شرک فی التصرف۔ 6 ۔ و قال انما تخذتم من دون اللہ۔ تا۔ ومالکم من نصرین۔ (رکوع 3) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 7 ۔ ولما ان جاءت رسلنا۔ تا۔ کانت من الغبرین (رکوع 4) ۔ نفی علم غیب و تصرف از لوط علیہ الصلوۃ والسلام۔ 8 ۔ مثل الذین اتخذوا من دون اللہ۔ تا۔ لوکانو یعلمون۔ نفی تصرف و اختیار از معبودانِ باطلہ۔ 9 ۔ ان اللہ یعلم۔ تا۔ وھو العزیز الحکیم۔ نفی شرک فی العلم۔ 10 ۔ خلق اللہ السموت۔ تا۔ لایۃ للمومنین۔ نفی شرک فی التصرف۔ 11 ۔ اتل ما اوحی الیک من الکتب (رکوع 5) ۔ قرآن کے ذریعہ سے مسئلہ توحید بیان کرتے رہئے۔ 12 ۔ ولئن سالتھم من خلق السموت۔ تا۔ بل اکثرھم لا یعقلون (رکوع 6) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 13 ۔ فاذا رکبوا فی الفلک۔ تا۔ فسوف یعلمون (رکوع 7) ۔ جب کشتیوں کو خطرے میں دیکھتے ہیں تو ہر طرف سے مایوس ہو کر خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ (خصوصیت) ۔ سورٔ عنکبوت ختم ہوئی  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

69۔ اور جو لوگ ہمارے لئے مشقتیں برداشت کرتے ہیں تو ہم ضرور ان کو اپنی راہیں دکھا دیں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کے ساتھ ہیں ۔ اور جو لوگ ہماری رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے مختلف مشقتیں برداشت کرتے ہیں تو ہم ان کے لئے اپنے قرب و محبت کی راہیں ظاہر کردیتے ہیں اور دکھا دیتے ہیں اور ... ہم حضرات مخلصین کے ساتھ ہیں دنیا و آخرت میں حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اپنی راہیں یعنی راہ قرب کی اور رضا کی جو بہشت ہے۔ 12 یعنی جو لوگ ریاضت و مجاہدے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر وصل کی راہیں آسان کردیتا ہے اور نور بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ جنت میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ ساتھ کا یہ مطلب کہ اس کی حمایت اور نصرت ان کے ساتھ رہتی ہے راستہ تو ایک ہی ہے لیکن ریاضت اور مجاہدے کے بہت سے شعبے ہیں اس لئے راہیں فرمایا۔ واللہ اعلم وعلم اتم واحکم تم تفسیر سورة العنکبوت وللہ والحمد  Show more