Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 10

سورة آل عمران

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ وَقُوۡدُ النَّارِ ﴿ۙ۱۰﴾

Indeed, those who disbelieve - never will their wealth or their children avail them against Allah at all. And it is they who are fuel for the Fire.

کافروں کوان کے مال اور ان کی اولاد اللہ تعالٰی ( کے عذاب ) سے چُھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی ، یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On the Day of Resurrection, No Wealth or Offspring Shall Avail Allah says; إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُم مِّنَ اللّهِ شَيْيًا وَأُولَـيِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ Verily, those who disbelieve, neither their properties nor their offspring will avail them whatsoever against Allah; and it is they who will be fuel of the Fire. Allah states that the disbelievers shall be fuel for the Fire, يَوْمَ لاَ يَنفَعُ الظَّـلِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ الْلَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ The Day when their excuses will be of no profit to wrongdoers. Theirs will be the curse, and theirs will be the evil abode (i.e. painful torment in Hell-fire). (40:52) Further, what they were granted in this life of wealth and offspring shall not avail them with Allah, or save them from His punishment and severe torment. Similarly, Allah said, فَلَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَـفِرُونَ So let not their wealth nor their children amaze you; in reality Allah's plan is to punish them with these things in the life of this world, and that their souls shall depart (die) while they are disbelievers. (9:55) and, لااَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِى الْبِلَـدِ مَتَـعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمِهَادُ Let not the free disposal (and affluence) of the disbelievers throughout the land deceive you. A brief enjoyment; then, their ultimate abode is Hell; and worst indeed is that place for rest. (3:196-197) Allah said in this Ayah,, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... Verily, those who disbelieve, meaning, disbelieved in Allah's Ayat, denied His Messengers, defied His Books and did not benefit from His revelation to His Prophets. ... لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُم مِّنَ اللّهِ شَيْيًا وَأُولَـيِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ Neither their properties nor their offspring will avail them whatsoever against Allah; and it is they who will be fuel of the Fire. meaning, they will be the wood with which the Fire is kindled and fed. Similarly, Allah said, إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ Certainly you (disbelievers) and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (21:98) Allah said next,

جہنم کا ایندھن کون لوگ؟ فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں ، ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی ، ان پر لعنت ہے ، اور ان کیلئے برا گھر ہے ، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی ، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے ، جیسا اور جگہ فرمایا آیت ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:82 ) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے ، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی ، اسی طرح ارشاد ہے کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے ، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے ، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں ، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ) 21 ۔ الانبیاء:98 ) تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام فضل کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند فرمانے لگے ، لوگو! کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں؟ لوگو! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ؟ لوگو! کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا ؟ حضرت عمر فرمانے لگے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہوگا اور خوب پھیلے گا ، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا ، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لئے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے ، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے ( پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر ) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں ، عالم ہیں ، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہوگی؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں ، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں ، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی ، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی ، آپ نے ہماری زبردست خیرخواہی کی اور بہتری چاہی ۔ پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے ، لفظ داب ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے ، جیسا نہر اور نہر ، اس کے معنی شان عدالت حال طریقے کے آتے ہیں ، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئے گا جیسے فرعونوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا ، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب دردناک ہے ، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے ، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے ، ہر چیز اس کے سامنے حقیر ہے ، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ اس کی ترکیب کے لیے دیکھیے سورة انفال (٥٢، ٥٤) یعنی جس طرح کا عذاب قوم فرعون اور پہلی امتوں کو رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے دیا گیا، اسی طرح کا عذاب ان اموال و اولاد والے کفار کو دیا جائے گا۔ یہاں ان کفار سے مراد وفد نجران، یہود، مشرکین عرب اور دوسرے تمام کفار بھی ہوسکتے ہیں۔ (شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence The text now shifts from the verbal confrontation with disbeliev¬ers on the warnings about the coming physical encounter as pointed out in verse 12 - &You shall soon be overcome (by Muslims) & while the verses earlier (10 and 11) serve as the introduction.

خلاصہ تفسیر بالیقین جو لوگ کفر کرتے ہیں ہرگز ان کے کام نہیں آسکتے، ان کے مال (دولت) اور نہ ان کی اولاد اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی ایسے لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے ( ان لوگوں کا معاملہ ایسا ہے) جیسا معاملہ تھا فرعون والوں کا اور ان سے پہلے والے (کافر) لوگوں کا ( وہ معاملہ یہ تھا) کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو ( یعنی اخبار و احکام کو) جھوٹا بتلایا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر دارو گیر فرمائی ان کے گناہوں کے سبب اور اللہ تعالیٰ ( کی دارو گیر بڑی سخت ہے کیونکہ ان کی شان یہ ہے کہ وہ) سخت سزا دینے والے ہیں ( اسی طرح معاملہ ہوگا کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی، سو ان کو بھی ایسی ہی سزا ہوگی اور) ان کفر کرنے والے لوگوں سے ( یوں بھی) فرما دیجئے کہ ( تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ دارو گیر صرف آخرت میں ہوگی، بلکہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ ہوگی، چناچہ دنیا میں) عنقریب تم (مسلمانوں کے ہاتھ سے) مغلوب کئے جاؤ گے اور ( آخرت میں) جہنم کی طرف جمع کر کے لے جائے جاؤ گے، اور (جہنم) ہے برا ٹھکانا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝ ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ۝ ١٠ ۙ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ وقد يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ ( و ق د ) وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج/ 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی یا ابوجہل اور اسکے ساتھی ہرگز ان کے اموال اور اولاد کی زیادتی عذاب الہی کے مقابلہ میں فائدہ مند نہیں ہوسکتی بلآخر یہ لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلاَدُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط) اب یہ ذرا تحدی اور چیلنج کا انداز ہے۔ زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپ نے نوٹ کرلیا کہ یہ سورة مبارکہ ٣ ھ میں غزوۂ احد کے بعد نازل ہورہی ہے ‘ لیکن یہ رکوع جو زیر مطالعہ ہے اس کے بارے میں گمان غالب ہے کہ یہ غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوا۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو بڑی زبردست فتح حاصل ہوئی تھی تو مسلمانوں کا morale بہت بلند تھا۔ لیکن ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ جب مسلمان بدر سے غازی بن کر ‘ فتح یاب ہو کر واپس آئے تو مدینہ منورہ میں جو یہودی قبیلے تھے ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ مسلمانو ! اتنا نہ اتراؤ۔ یہ تو قریش کے کچھ ناتجربہ کار چھوکرے تھے جن سے تمہارا مقابلہ پیش آیا ہے ‘ اگر کبھی ہم سے مقابلہ پیش آیا تو دن میں تارے نظر آجائیں گے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ تو اس پس منظر میں یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں کہ صرف مشرکین مکہ پر موقوف نہیں ‘ آخر کار تمام کفار اسی طرح سے زیر ہوں گے اور اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ (وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (یوسف)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :8 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ١٦١ ۔ ( سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161 ) ”کفر“ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا ۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویہ کی مختلف صورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے ، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے ، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ تیسرے یہ کہ اصولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے ، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے ، انہیں تسلیم نہ کرے ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے ۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد ، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو ، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے ۔ چھٹے یہ کہ نظریے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے ، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے ۔ یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو ، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو ۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے ۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی ، نمک حرامی ، غداری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(10 ۔ 11) اوپر کی آیتوں میں یہ ذکر تھا کہ پچھلی کتابوں میں قرآن کی اور قرآن میں پچھلی کتابوں کی صداقت موجود ہے اس پر بھی جو لوگ کلام الہٰی کی آیتوں کو جھٹلائیں گے ان کو سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔ ان آیتوں میں یہ ارشاد ہے کہ اگر ان لوگوں کو یہ خیال ہو کہ جس طرح دنیا کی بعض آفتوں سے یہ لوگ اپنے مال اور اولاد کے سبب سے بچ جاتے ہیں اسی طرح عقبیٰ میں بھی ان کا مال ان کی اولاد ان کے کچھ کام آجائیں گے تو ان لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے عقبیٰ میں تو انہی لوگوں کا صدقہ خیرات کا مال اور ان ہی کی نیک اولاد کام آئیں گے جن کے دل میں نور ایمان کی کچھ چمک ہے اور جو لوگ اللہ کے کلام اللہ کے رسول کے جھٹلانے کے درپے ہیں ان کے مال و اولاد کا حال تو عذاب الٰہی مسلط ہوجانے کے بعد عقبیٰ میں وہی ہوگا جو دنیا میں انہوں نے فرعون کا حال سنا کہ عذاب الٰہی کے نازل ہوجانے کے بعد ایک دم میں مع اپنے لشکر کے غرق ہوگیا اتنی بڑا مال دار اور اتنا بڑا لشکر کوئی چیز بھی اس کے کام نہ آئی مسند امام احمد اور صحیحین میں انس (رض) بن مالک سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس قسم کے منکر لوگوں کو جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو ان سے پوچھا جائے گا کہ بھلا اگر ساری دنیا کی زمین بھر کے سونا تم لوگوں کے پاس اس وقت ہو تو تم اس کو دے کر عذاب سے بچنے کا ارادہ رکھتے ہو وہ لوگ کہیں گے ہاں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ایک آسمان بات شرک سے باز رہنے کی تم لوگوں سے چاہی گئی تھی وہ تم سے نہ ہوسکی تو اب کیا ہوسکتا ہے ١۔ اس سے معلوم ہوا کہ معمولی مال تو درکنار بغیر ایمان کے زمین بھر سونا بھی وہاں عذاب الٰہی سے کسی منکر کو نہیں بچا سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:10) لن تغنی عنہم۔ نفی تاکید بلن۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ الغنی۔ تونگری ، بےنیازی۔ غنی۔ مالدار۔ بےنیاز۔ اغنی عنہ شیئا۔ اس کو کسی حد تک بےنیاز کردینا ۔ ھذا ما یغنی عنک شیئائی تمہارے کسی کام نہ آئے گی۔ تمہارے لئے کسی فائدہ کی نہ ہوگی۔ تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ ما اغنی عنہ ما لہ (111:2) اس کا مال اس کے کام نہ آیا۔ لن تغنی عنھم اموالہم ولا اولادھم من اللہ شیئا ان کا مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کی جانب سے کسی حد تک بھی بےنیاز نہ کرسکیں گی یعنی ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکیں گے وقود۔ وقد یقد (ضرب) (آگ کا بھڑکنا) سے ایندھن ۔ نیز وقاد وقید بمعنی ایندھن۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 10 20 اسرارو معارف ان الذین کفروا………………وبئس المھاد۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا۔ ان کے مال اور اولاد اللہ کے مقابل ذرہ برابر کام نہ آئیں گے یا وہ یہ سمجھ رکھیں کہ ان کے پاس دولت ہے اولاد ہے تو شاید عنداللہ وہ مقبول ہیں اور یہ اللہ کی خوشنودی کی دلیل ہے ہرگز نہیں ! یہ ایک نظام ہے اللہ کا مقرر کردہ جو چل رہا ہے ہاں ! اللہ کی رضامندی کی دلیل دین ہے۔ اگر دین قبول نہ کیا تو مالدار ہوں یا صاحب اولاد ہوں ، دوزخ کا ایندھن ہیں بلکہ ترجمہ تو یوں ہے کہ یہی لوگ دوزخ کا ایندھن ہیں۔ ان کا رویہ تو آل فرعون جیسا ہے یا ان سے پہلے گزرنے والے کافروں جیسا کہ دولت اور ریاست کے لالچ میں حق کو قبول نہ کیا اور اللہ کی آیات کی تکذیب کی۔ اللہ نے ان کے جرائم کی ان کو سزا دی اور اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار سے فرمادیجئے کہ عنقریب تم مغلوب ہوجائو گے اور تمہیں ہنکا کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ یعنی دونوں عالم میں تم داروگیر سے نہ بچ سکو گے کہ دنیا میں تمہیں مسلمانوں کے ہاتھ سے شکست ملے گی اور آخرت میں جہنم۔ جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ فتح بدر کے بعد یہودنے کہا تھا کہ مسلمانوں کو کسی آزمودہ کار جنگی قوت سے واسطہ نہیں پڑا۔ مکہ والے ناتجربہ کار تھے اگر کبھی ہم سے مقابلہ ہوا تو خبر ہوجائے گی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں ان کو شکست کی پیش گوئی تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی۔ بنی قریظہ قتل ہوئے اور بنی نصیر جلاوطن۔ نیز خیر فتح ہوا۔ جس کے بارے یہود سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنی بڑی قوت مسلمانوں کے ہاتھوں مخلوف ہوجائے گی مگر چشم عالم نے دیکھا یہ سب کچھ ہو کر رہا اور یہیں پر بس نہیں۔ نزول اگرچہ خاص ہو مگر آیت کا حکم تو عام ہے۔ یہ کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ چند سرفروش جنہیں مکہ میں زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا جارہا اور بےکسی وبے بسی کے عالم میں مہاجر بن کر نکل رہے ہیں۔ آئندہ چند سالوں میں بحیثیت فاتح مکہ میں داخل ہوں گے اور اہل مکہ کی گردنیں جھکی ہوئی ہوں گی ، یا صحرا اور ریگ زار سے اٹھنے والے یہ چند خادمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرق ومغرب کو ہلا کر رکھ دیں گے اور عالمی قوتیں اپنے دور کی واقعی سپر پاورز قیصروکسریٰ کی سلطنتیں ان کی ضرب پا سے چور چور ہوجائیں گی اور دین برحق کی ہر طف نسیم سحر کی طرح اور خوشبوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک عالم کی مشام جان تک پہنچادیں گے ۔ صحرائوں کی وسعتیں ان کے قدموں میں سمٹ آئیں گی۔ یہاڑ ان کا راستہ نہ روک سکیں گے اور سمندر ان کے لئے پایاب ثابت ہوں گے مگر یہ سب کچھ ہوا۔ یہی تاریخ کا روشن اور سنہرا باب ہے۔ اس پس منظر میں ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو معاملہ بالکل برعکس ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کے کسی ملک سے خیرت کی خبر نہیں آتی ، ارٹییریا سے لے کر فلسطین تک خون مسلم کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور کفر کے عفریت اپنے ہیبت ناک جبڑوں میں انہیں جکڑے ہوئے ہیں تو سوچتے ہیں کہ وعدہ الٰہی کیا ہوئے ؟ صاحب معارف القرآن نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں دنیا بھر کے کفار مراد نہیں بلکہ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہود و مشرکین مراد ہیں جو واقعی مغلوب ہوئے۔ بیان القرآن میں حضرت تھانوی (رح) نے بھی یہی فرمایا ہے میں صرف عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کافر مراد ہیں اور آخرت میں سب۔ مگر یہ شان تو ہمیں صرف خلافت راشدہ میں نظر آتی ہے بلکہ صدیوں تک اس کا مظہرہ ہوتا رہا اور صلاح الدین ایوبی کی ضرب ہو یا غزنوی کی چوص ، سب میں یہی وعدہ کار فرما نظر آتا ہے ۔ اور آج کے چند تہی دست ، غیر تربیت یافتہ فوجی بغیر وردی بلکہ بغیر پگڑی کے اور ننگے پائوں دنیا کی ، دور حاضرہ کی مسلمہ سپر پاور کو افغانستان کی گھاٹیوں میں گزشتہ چھ برس سے رگید رہے ہیں۔ یہاں بھی مادی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ یہی نصرت اللہ ہے کہ ان بادیہ نشینوں کے سینوں میں نور ایمان ہے۔ یہ قدامت پسند عین برستی آگ میں بھی اذان کہتے اور باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ ان کے چہرے سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزین ہیں اور دل عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آماجگاہ۔ یہ کافی ثبوت ہے کہ نصرت باری تو ہے شاید مسلمان اپنی جگہ سے سرک گیا ہے اور ترقی کے شوق میں بےدینی اور بےحیائی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا سال محرم کی جاں نثاری سے شروع ہو کر ذوالحجہ کی جان سپاری پہ ختم ہوتا تھا ، آج شب بھر کلبوں میں دھت داد عیش دے کر گزشتہ برس کو رخصت کرتا ہے اور نئے سال کو خوش آمدید کہتا ہے اور پھر اس کے ساتھ اپنے کو اس لطف وکرم کا حقدار بھی جانتا ہے جو صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ اگر ہمیں آج بھی کفر کی ظلمت کو مٹانا ہے اور دنیا کو دین کے نور سے منور کرنا ہے تو پھر پلٹ کر اپنی اصلی جگہ پر آنا ہوگا۔ اللہ توفیق عطا فرمائے ! آمین۔ قدکان……………ان فی ذالک لعبرۃ لاولی الابصار۔ اللہ کے اس وعدہ کے ساتھ غزوہ بدر کی مثال کو دلیل کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم اس کی مثال کا نظارہ کرچکے ہو کہ میدان بدر میں دو گروہوں کا مقابلہ ہوا تھا۔ جہاں مادی اعتبار سے یا افرادی قوت کے اعتبار سے کوئی مقابلہ نہ تھا کہ اہل مکہ 950 کی تعداد میں اور مکہ کے چنے ہوئے افراد ، جن کے پاس 700 اونٹ 1000 گھوڑے مکمل سامان حرب اور وافر مقدار میں راشن بھی تھا۔ دوسری طرف 313 جان فروش ، جن میں 70 مہاجر اور باقی انصار تھے۔ ان میں بچے بھی تھے اور عمر رسیدہ افراد بھی کل 70 اونٹ ، دو گھوڑے اور سامان حرب میں کل چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ یہ پہلی جنگ تھی جو رمضان 2 ہجری میں خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں کفر کے مقابل لڑی گئی۔ مہاجرین کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر (رض) اور انصار کے حضرت سعد بن عبادہ تھے اور ایک جھنڈا نبی پاک کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سارے لشکر کا بنایا جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے دوپٹے سے بنایا گیا تھا اور اس کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اٹھائے ہوئے تھے گویا جان پیش کی احباب کی جان پیش فرمائی۔ گھر اور شہر سے ہجرت فرمائی اور میدان بدر اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناموس رسالت بھی راہ خدا پر لے آیا کہ اللہ ! اگر آج یہ جھنڈا گرے گا تو تیرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبوب بیوی کا دوپٹہ ہے جو کفار کے قدموں میں روندا جائے گا۔ بدر میں علم : اب تیرے اختیار میں ہے کہ اسے بلند رکھ ! تاریخ شاہد ہے کہ دوسری دفعہ خیبر کے مقام پر جب لڑتے لڑتے مہینہ بھر سے اوپر دن نکل گئے۔ راشن کے ساتھ سامان حرب بھی کافی نہ رہا۔ تلواریں بیشتر ٹوٹ گئیں اور جو تیری ہود نے پھینکے تھے وہی اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی طرف پھینکتے تھے۔ پھر پندرہ سو جاں نثار دس ہزار یہود کے مقابل تھے پشت پر بنوغطفان تھے جن کے لشکر کی تعداد پانچ سو تھی اور یہود سے معاہدہ بھی تھا مگر تاحال دبکے ہوئے تھے۔ جب یہ حال ہوا تو آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر صدیقہ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے دوپٹے کا جھنڈا بنایا اور حضرت علی (رض) کو علمبردار مقرر فرمایا ۔ اللہ کی شان کہ ایک ریلے میں خیبر کے قلعے فتح ہوتے گئے اور تیسری دفعہ جب حضور پرنور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں بحیثیت فاتح داخل ہوئے تو جھنڈا صدیقہ کائنات (رض) کے دوپٹے کا بنایا اور وہ علم پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا فرمایا۔ یہ غالباً اظہار تشکر کے لئے تھا کہ رب العزت نے اس پرچم کو کبھی گرنے نہیں دیا۔ بار بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمانے کی ممکن ہے یہ وجہ ہو کہ حضرت علی نہ صرف داماد تھے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں ایک بیٹے کی طرح پلے بھی تھے اور ماں کا دوپٹہ اٹھانا بیٹے ہی کا حق ہے واللہ اعلم۔ بات اتنی تھی کہ ایک گروہ اگرچہ تعداد میں ، اسباب میں کم تھا مگر اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ تعداد میں زیادہ اسباب سے لدا پھندا۔ مگر تھا کافروں کا اور دونوں گروہ ایک دوسرے کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے یعنی جو مسلمانوں سے تین گنا تھے کم نظر آرہے تھے اور مسلمان جو تعداد میں کم تھے زیادہ نظر آتے تھے۔ سورة انفال میں ہے یقلکم فی اعینھم۔ تو اس سے مراد میدان جنگ کی شروع کی کیفیت ہے کہ مسلمان کافروں کو بہت تھوڑے لگے اور وہ جنگ میں کود پڑے مگر جب جنگ چھڑ گئی تو انہیں نظر آیا کہ یہ تو ہم سے دوگنا ہیں۔ ہمت توڑنے کا سبب بن گیا۔ یہ مختلف کیفیات مختلف اوقات کی ہیں۔ نیز اللہ پاک ہر کام کے لئے اسباب پیدا فرماتا ہے۔ ترک سبب مناسب نہیں۔ پھر دیکھا تم نے کہ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور اپنی مدد سے قوی کردیتا ہے چند تہی دست مسلمانوں نے اچھی طرح سے مسلح ہوئے لشکر کو کتنی ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا کہ چیدہ چیدہ کفار بھی قتل ہوئے اور قید بھی۔ اہل بصیرت کے لئے تو اس میں بہت بڑی نصیحت ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشگوئیوں کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت۔ زین للناس حب الشھوات…………واللہ عندہ حسن المآب۔ لوگوں کو مرغوب اور پسندیدہ چیزوں کی محبت بھی بڑی خوشنما معلوم ہوتی ہے حب الشھوت فرمایا کہ شہوت دلیل بہیمت ہے یعنی بالکل جانوروں کی طرح۔ ان اشیاء کے پیچھے لپکتے ہیں اور مکمل طور پر ان کی طلب میں مستغرق ہو کر اللہ کی یاد اور اس کی اطاعت سے کٹ جاتے ہیں۔ یاد رہے اسباب زینت بنانے والا خود اللہ ہے اور ان تمام اشیاء کی طبعی محبت خود اللہ کی پیدا کردہ ہے ۔ لہٰذا دل سے نکل نہیں سکتی۔ ہاں ! جب عقلی محبت پر جو اللہ سے ، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور دارآخرت سے ہونی چاہیے کہ اگر مقابلہ آجائے تو حب طبعی کو حب عقلی پر قربان کرسکے۔ یہی انسان کا امتحان ہے ورنہ انہی اشیاء سے استفادہ شکر نعمت ہے اور سعادت آخرت ہے نیز انہی کی وجہ سے آدمی کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہے مگر اس وقت تک جب تک یہ سب کچھ اپنی حد کے اندر رہے۔ اگر انہی رسومات یا حب جاہ یا نام ونمود کی نمائش اور خواہش میں اللہ کے احکام کے مقابل کھڑا ہوگیا۔ تو یہی تباہی کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ ارشاد ہے کہ عورتوں کی محبت ، اولاد اور مال یعنی سونے چاندی کے ڈھیروں سے محبت اور خوبصورت گھوڑوں اور چارپائوں کی الفت لوگوں کو کھینچ رہی ہے حالانکہ یہ سب دنیا کی قلیل زندگی میں استعمال کی عارضی چیزیں ہیں۔ انہیں فنا ہونا ہے کہ موجودات دنیوی کا مبدء وجود عدم ہے یعنی تمام ممکنات اصلاً معدوم تھے پہلے نہ تھے پھر ہوئے ان کا وجود ظلی ہے ان کی اصل عدم ہے اس لئے ہر شے فنا کی طرف جارہی ہے۔ اسی لئے کہ ہر ممکن حادث ہے۔ اس کا اپنا کوئی وجود نہیں اپنے وجود کے لئے دوسروں کا محتاج ہے اور تمام حقائق کو نیہ کا قترر اور تقدر علم باری تعالیٰ میں ہے۔ اصلاً سب کچھ معدوم جب صفات باری تعالیٰ کا پرتو پڑا تو ہر شے کا وجود ظلی طور پر یا عکسی طور پر نمودار ہوگیا جسے لوگ وجود اصلی جان بیٹھے اور جس شے کی اصل ہی نہ ہو اس میں حسن یا کمال نہیں ہوا کرتا۔ ہاں ! آخرت کی نعمتیں چاہے جانے کے قابل ہیں کہ ان کے تعین اور تحقق کے مبادی صفات خداوندی ہیں۔ یعنی صفات خداوندی آخرت میں بصورت مہروقہر نمایاں ہوگی اسی لئے ان کا ابدی کنارہ کوئی نہیں ، وہ لازوال ہیں ، نعمتیں بھی لازوال اور مصائب بھی لازوال۔ فرمایا واللہ عندہ حسن الماب۔ کہ اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے یعنی دارآخرت بہترین ٹھکانہ ہے دنیا کی جو شے حصول آخرت میں معاون ہوگی وہی محبوب ہوگی۔ انبیاء صحابہ اور اولیاء اللہ کی محبت ، آخرت کی محبت ہے۔ اور آخرت کی محبت اللہ کی محبت ہے اخروی نعمتوں کی رغبت اللہ کی طرف رغبت ہے۔ قل اونبئکم بخیر من ذالکم……………والمستغفرین بالا۔ سحار۔ فرمادیجئے کہ ان تمام لذات سے بدرجہا بہتر نعمتوں کی بابت تمہیں خبر کروں ؟ وہ ان کے لئے ہیں کہ جو لوگ متقی ہوں گے یعنی اپنی زندگی میں مرضیات باری کے حصول کے لئے کوشاں رہیں گے دنیا اور دنیا کی لذتوں کو اللہ کی رضا پہ قربان کرنے کی ہمت رکھتے ہوں گے ان کے پروردگار کے پاس ان کی خاطر جنتیں ہیں باغات ہیں ، جن میں نہریں جاری ہیں اور وہ جنتیں بھی لازوال اور ابدی ہیں ان میں داخل ہونے والے بھی کبھی نہ نکالے جائیں گے بلکہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ وہاں ان کے لئے بیبیاں ہیں یعنی جسمانی آلائش حیض ونفاس اور بوں وبراز سے پاک ، اخلاقی آلائش یا بدخلقی سے پاک۔ یہ بات دنیا کی ان عورتوں کو جو جنت میں داخل ہوں گی اور جنت میں وہاں کی مخلوق بیبیوں دونوں کو شامل ہے۔ پھر سب سے بڑی نعمت اللہ کی خوشنودی ہے جو جنت میں رہنے والوں کو حاصل ہوگی۔ مومنین کے جنتی اقرباء اور اولاد سب جنت میں جمع ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ کے لئے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ زوال نعمت کا کوئی کھٹکا نہ ہوگا نیز جو چاہیں گے ملے گا۔ احادیث مبارکہ میں اس قدر نعمتوں کا ذکر ہے کہ آدمی پڑھ کر یہ چاہتا ہے کہ اللہ دنیا سے اٹھائے اور جنت نصیب کرے۔ یہاں بوجہ خوف طوالت احادیث نقل نہیں کی جارہیں۔ فرمایا اللہ سب کو دیکھ رہا ہے کون کس چیز کے لئے کوشاں ہے اور خود ملاحظہ فرمارہا ہے جانتا ہے سب اس کی نگاہ کے سامنے ہے ان کو بھی دیکھ رہا ہے جو یہ عرض کرتے ہیں کہ اللہ ہم ایمان لے آئے۔ ہم نے کفر کو ترک کردیا۔ اب تو ہمارے گناہ ، ہماری لغزشیں معاف فرمادے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ یہاں ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایمان مغفرت کا استحقاق پیدا کردیتا ہے۔ اولیاء اللہ کے اوصاف : فرمایا ایسے لوگ جو نفس کی مخالفت پہ جم جاتے ہیں الصابرین یعنی بری باتوں سے نفس کو روکتے ہیں اور اطاعت الٰہی اور اچھی باتوں میں لگاتے ہیں۔ یاد رہے یہاں متقین اور اولیاء اللہ کی صفتوں کا بیان ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ کسی کو پیر بنانے سے پہلے یہ اوصاف دیکھے ورنہ بدکار کی بیعت تو سرے سے حرام ہے ۔ یعنی صبر کرنے والے اور والصادقین سچے۔ تمام دعوئوں میں ، احوال میں ، نقل واقعات میں ، نیز سب سے بڑا سچ کلمہ طیبہ ہے کہ اس پر کاربند ہیں۔ اللہ کی عبادت سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق کرنے والے۔ یہی مفہوم ہے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اسی کی عبادت کریں گے بھئی ! کیسے کرو گے۔ تمہیں اس کی پسند کا پتہ کیسے چلے گا ” محمد رسول اللہ ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق۔ والقانتین۔ یعنی ہمہ وقت اللہ کی رضا کے طالب۔ والمنفقین۔ اپنی تمام کوششوں کو مال و دولت ہو یا محنت و کاوش۔ سب کو اللہ کی راہ میں لگانے والے اور پھر اس سب طاعت و عبادت کے باوجود سحری کو اٹھ کر اپنی کوتاہی کا اقرار کرکے معافی طلب کرنے والے کہ اللہ ! یہ عبادت ونی کی کی طاقت بھی تو نے بخشی۔ اس کا علم بھی تیری عطا ہے اور یہ تیرے قبول کی محتاج ، کہ تو محض اپنے کرم سے شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔ وقت سحر چونکہ قبولیت کا وقت بھی ہے اور اٹھنے کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے کسی کام کی اہمیت ہی اس وقت بستر سے نکال سکتی ہے۔ اس میں صوفیہ اور اہل اللہ کی صفات بیان فرمادی ہیں کہ ان لوگوں کے پاس یہ دولت ہوتی ہے اور اسی کے حصول کے لئے ان کی صحبت اختیار کی جاتی ہے۔ جہاں یہ نہ ہو وہاں سے اجتناب اور علیحدگی اختیار کرنا چاہیے۔ شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو…………واللہ بصیر بالعباد اللہ خود گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اس کی ذات ، اس کی صفات اور تمام مظاہرو مصنوعات اس کی توحید پر گواہ ہیں۔ اور فرشتے جو اس کے مقرب ہیں اپنے اذکار وتسبیح میں اور اطاعت میں اس کی توحید کے شاہد ہیں۔ اسلام کیا ہے ؟ : ہر دور کے اہل علم نے بھی شہادت دی کہ وہ لاشریک ہے۔ اہل علم سے مراد ایسے لوگ ہیں جو انبیاء سے سیکھ کر یا کائنات عالم میں غور کرکے توحید باری کو پاسکیں خواہ ضابطے کے عالم ہوں یا نہ۔ ورنہ ایسے لوگ جو اللہ ہی کو نہ پہچان سکیں۔ کتنے علوم بھی سیکھ جائیں عنداللہ جاہل ہی ہوں گے کہ سب سے بڑی حقیقت تو اسی کی ذات ہے ا س سے جاہل رہنے والا کب عالم ہوسکتا ہے تو یہ سب گواہ ہیں کہ اللہ واحد ، لاشریک اور معبود برحق ہے اور ہر شے پہ غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ بھی یقینی بات ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اسلام سے مراد اپنے کو اللہ کے سپرد کردینا اور اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجانا ہے ہر نبی دعوت لے کر دنیا میں آیا اور ہر نبی کے ساتھ ایمان اور اطاعت کا رشتہ اسلام ہی ہے۔ اسی لئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے دور میں اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے زمانے میں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے وقت میں مسلمان ہونے کا اعلان فرمایا۔ غرضیکہ ہر نبی کا لایا ہوا دین اسلام ہی تھا اور عنداللہ مقبول اور آخر میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لایا ہوا دین اسلام کہلایا۔ جو قیامت تک باقی رہے گا۔ باقی انبیاء بھی توحید ، رسالت ، آخرت ، جنت ، دوزخ ، جزاوسزا یا فرشتوں کے بارے میں متفق تھے۔ فرق صرف عبادات کے طریق میں تھا جو ہر دور میں شریعت لانے والے نبی کے ساتھ تبدیل ہوتارہا۔ حتیٰ کو جو جو احکام منسوخ ہوتے گئے اس کے بعد وہ اسلام نہ رہے اور اب آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت اسلام ہے اور شرائع سابقہ جو منسوخ ہوئے ان پر عمل اب اسلام نہیں رہا۔ بعثت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام صرف وہ ہے جو کتاب اللہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ رواداری کے نام پر کفر سے مصالحت کرانے والے ملحد ہیں اور یہ نظریہ کہ دنیا کا ہر مذہب یہودیت و نصرانیت ہو یا بت پرستی ذریعہ نجات بن سکتا ہے بشرطیکہ اعمال صالحہ اور اخلاق اعلیٰ ہوں۔ دراصل یہ اسلام پر بہت بڑی چوٹ اور الحاد پھیلانے کی کوشش ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت اور اطاعت نہیں اور اس کا طریقہ سیکھنا ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے۔ اگر یہ بات نہیں تو کافر ہے اگر کوئی نیک کام بھی کر گزرے تو نہ اس نے اللہ کے لئے کیا نہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ آخرت میں کوئی اجر نہیں اور نہ وہ ذریعہ نجات ہے۔ اب اگر اہل کتاب اس بات میں جھگڑا بھی کریں تو وہ بغاوت کرکے ہوگا ورنہ تو ان کے پاس خود ان کی کتب میں بھی یہی بات موجود ہے اور اسی پر سب دلائل موجود ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں جس میں کوئی شبہ رہ گیا ہے بلکہ مسلمانوں سے حسد اور حب مال وجاہ نے انہیں اختلاف میں مبتلا کردیا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے اسے بہت جلد حساب دینا ہوگا کہ اللہ عنقریب اس سے حساب لینے والا ہے کہ مرتے ہی برزخ میں داخل پر پوچھ گچھ شروع ہوجائے گی اور پھر قیامت کا سب جھگڑوں کی حقیقت سر میدان کھل جائے گی اور اگر اس قدر دلائل وبراہین کے باوجود بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیجئے کہ میں تو اللہ کا فرمانبردار ہوں۔ اپنے دل ، زبان اور سارے اعضاء کو اس کی اطاعت پر لگادیا اور یہی کام ان سب لوگوں نے کیا جو میرے ساتھ ہیں میرے پیروگار ہیں۔ انہوں نے اپنی ہستی اللہ کے سپرد کردی۔ اب اے اہل کتاب ! اور اے گروہ مشرکین ! کیا تم بھی ایسا کرسکتے ہو ؟ اگر وہ بھی قبول کرلیں تو ہدایت پاگئے سیدھی راہ ان کو بھی نصیب ہوئی اور اگر یہ نہ کرسکیں تو پھر درمیانی راستہ کوئی نہیں۔ وہ کفر میں بھٹکتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ تو بات کا پہنچا دینا تھا۔ اس سے آگے سب کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے ۔ سب اس کی نگاہ میں ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 10 تا 13 لن تغنی (ہرگز کام نہ آئے گا) وقود (ایندھن) داب (طریقہ، دستور) اٰل (اولاد۔ کسی کو مان کر اس کے پیچھے چلنے والے) ستغلبون (عنقریب تم مغلوب کئے جاؤ گے) تحشرون (تم جمع کئے جاؤ گے) فئتین (دوجماعتیں (فئة۔ جماعت) (التقتا (آپس میں دونوں مقابل ہوئے) اخرٰی (دوسری) یرون (وہ دیکھتے ہیں) مثلیھم (اپنے سے دوگنے (مثلی اصل میں مثلین تھا نون گر گیا) رای العین ( دیکھنے والی آنکھ) عبرۃ (نصیحت ، سبق) اولی الابصار (آنکھوں والے (اولو، والا ابصار، بصر) آنکھیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 10 تا 13 نخران سے عیسائیوں کا جو وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذہبی بحث ومناظرہ کے لئے آیا ہوا تھا خطاب ان ہی سے ہے کہ تمام دلیلوں سے اسلام کی سچائی ثابت ہوچکی ہے۔ بادشاہ اور رئیسوں کے دربار کے اعزاز واکرام اور مال و دولت کا لالچ تمہیں اسلام قبول کرلینے سے روک رہا ہے عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب بادشاہ اور سردار مسلمانوں سے مغلوب ہوں گے جس طرح بھ بس اور نہتے مسلمانوں نے اللہ کی مدد اور حمایت سے غزوہ بدر میں مکہ کے کافروں کا غرور خاک میں ملادیا تھا اسی طرح وہ ہوں گے اور دنیا کی رسوائیوں اور آخرت کی سزا سے انہیں اور تمہیں کوئی نہ بچاسکے گا۔ فرمایا جارہا ہے کہ اب اسی کو فتح و کامرانی عطا ہوگی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت ونبوت پر ایمان لائے گا۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ نبیوں کے جھٹلانے والوں کو درس عبرت بنادیتا ہے جس طرح فرعون کے ساتھیوں ، حمایتیوں اور ان سے پہلے لوگوں کی زندگی کو نشان عبرت بنادیا گیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مقابلہ میں کام آنے کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی ضرورت نہ ہو، اس کے عوض صرف مال و اولاد نافع اور کافی ہوجاوے، دوسرے یہ کہ مال و اولاد اللہ تعالیٰ کے مقابل ہو کر ان کے عذاب سے بچا لے گی، مقابلہ کا لفظ دونوں جگہ بولا جاتا ہے، سو آیت میں دونوں کی نفی کردی گئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس مال اور افرادی قوت کی بنیاد پر اہل مکہ حقائق کا انکار کرتے ہیں آل فرعون بھی اسی بنا پر گمراہ ہوئے اور تباہی کے گھاٹ اترے تھے۔ اہل مکہ بھی عنقریب دنیا میں بدر کے معرکہ میں اور آخرت میں جہنم میں داخل ہونے کی بنا پر کافر ذلیل ہوں گے۔ سورۂ آل عمران کا آغازبڑے جاہ و جلال سے ہوا۔ جس میں واشگاف لہجے میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے اپنی آخری کتاب نازل فرمائی ‘ منکروں کے لیے اس کا عذاب بڑا سخت ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے زبردست انتقام لینے والا ہے۔ وہ سب کو اپنے حضور اکٹھا کرے گا اور یہ وعدہ اٹل ہے۔ اے کفر کرنے والو ! جب تمہیں جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا تو یہ مال و منال ‘ اولاد و احفاد اور دنیا کی جاہ و حشمت تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ تمہارا انجام بھی دنیا اور آخرت میں آل فرعون کی طرح ہونے والا ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تکذیب کی اس کو اس کے جرائم کی وجہ سے شدید عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ فرعون کا غرور، اقتدار، اختیار اور مال واسباب فرعون کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچا سکا۔ اے رسول معظم ! دوٹوک اور بلا جھجک اعلان فرمائیں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے منکروں کو دنیا میں سرنگوں اور آخرت میں جہنم میں اکٹھا کیا جائے گا جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یہود کو مخاطب کرتے ہوئے سمجھایا کہ تمہیں اسلام کی مخالفت اور کفر کی حمایت چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے۔ انہوں نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا کہ بدر میں تمہارا مقابلہ اپنے ہم وطنوں اور ناتجربہ کار لوگوں سے ہوا ہے۔ جب ہمارے ساتھ تمہاری پنجہ آزمائی ہوگی تو تمہارا جہاد کا شوق پورا کردیا جائے گا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہو دونصارٰی اور اہل کفر غزوۂ بدر سے عبرت حاصل کرتے کیونکہ دنیا کی تاریخ میں یہ ایسا معرکہ تھا کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں کٹ مرنے کا جذبہ اور دوسری طرف خدا کے نافرمان تھے۔ جن کے درمیان طاقت کے عدم توازن کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت بےخانماں، افرادی قوت کے اعتبار سے تھوڑے اور اسباب کے حوالے سے نہایت ہی کمزور اپنے سے کئی گناطاقت ور دشمن کے خلاف برسر پیکار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے کفار کی نظروں میں مسلمانوں کو دوگنا کردکھایا اور ملائکہ کے ساتھ اپنے بندوں کی نصرت و حمایت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے جتنی چاہے جس کی چاہے مدد کرتا ہے۔ اس معرکۂ حق و باطل کو یوم الفرقان کے لقب سے ملقب فرمایا اور دنیا والوں کے لیے اس طرح عبرت قرار دیا جس طرح فرعون اور اس سے پہلے لوگ عبرت کا سامان بنائے گئے۔ اسے فرقان اس لیے بھی کہا گیا کہ جنگ بدر کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ کرام (رض) سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا یارسول اللہ ! یہ لوگ چچیرے بھائی اور برادری ‘ قبیلے کے لوگ ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لیں اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفار کے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے دست وبازو بن جائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابن خطاب ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا واللہ میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکر کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں کو (جو حضرت عمر (رض) کا قریبی تھا) میرے حوالے کریں میں اس کی گردن ماردوں۔ عقیل بن ابی طالب کو علی (رض) کے حوالے کریں وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو جو حمزہ (رض) کا بھائی ہے حمزہ (رض) کے حوالے کریں وہ اس کی گردن ماردیں۔ تاکہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے ذرّہ برابر بھی نرم گوشہ نہیں ہے اور یہ لوگ مشرکین کے ائمہ اور اکابر ہیں۔ حضرت عمر (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہ کی گئی، چناچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا وہ دونوں رو رہے تھے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپ اور آپ کا ساتھی کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر مجھے رونے کی وجہ ہوئی تو روؤں گا اور اگر نہ معلوم ہوسکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے اسی وجہ سے رو رہا ہوں۔ آپ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا مجھ پر اللہ کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب کردیا گیا۔ [ الرحیق المختوم، بدر کے قیدیوں کا قضیہ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کفار کو ان کے مال اور اولاد کچھ فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ٢۔ کفار جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون اور ان سے پہلے مجرموں کی سخت گرفت کی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ٥۔ عنقریب کفار مغلوب اور جہنم میں اکٹھے کیے جائیں گے۔ ٦۔ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ ٧۔ معرکۂ بدر بصیرت والوں کے لیے قدرت کا بہت بڑا نشان ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے جس کی چاہے اور جب چاہے مدد فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قوموں کی تباہی کے اسباب : ١۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح : ٢٣) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھی۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا سبب ماپ تول میں کمی تھی۔ (ھود : ٨٤، ٨٥) ٤۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٥۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے قوم ! یہ اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اسکو چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں چرے اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب آپکڑے گا۔ مگر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تو صالح نے کہا تین دن فائدہ اٹھا لو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔ (ھود : ٦٤، ٦٥) ٦۔ فرعونیوں نے اپنے پروردگار کے پیغمبر کی نافرمانی کی تو اللہ نے بھی ان کو سخت پکڑا۔ (الحاقۃ : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ آیات بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔ ان میں یہ دہمکی دی گئی ہے کہ وہ اہل کفر کے انجام پر غور کرلیں ۔ پہلے جو ہوچکا ہے اور آئندہ جو ہونے والا ہے ۔ اس میں ایک لطیف اور عمیق اشارہ ہے اس جانب کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی لیکن یہ ہلاکت اس لئے نہ تھی کہ فرعون فرعون تھا بلکہ اس لئے کہ وہ کافر تھا۔ اور نجات بنی اسرائیل بھی اس لئے نہ تھی کہ وہ قوم بنی اسرائیل سے نسبی رشتہ رکھتے تھے ۔ بلکہ اس لئے تھی کہ وہ اہل ایمان تھے ۔ اس لئے اب اگر وہ کفر اور گمراہی کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ نجات کے مستحق نہ ہوں گے ۔ اگر وہ گمراہ ہوگئے تو وہ اہل کفر کہلانے سے نہ بچ سکیں گے ۔ اسی طرح وہ دنیا وآخرت میں اہل کفر کے انجام بد سے لازماً دوچار ہوں گے جیسا کہ بوجہ کفر آل فرعون کا یہ انجام ہوا۔ اسی طرح انہیں بدر کے میدان میں اہل قریش کے مقتل کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ اس صورت حال سے وہ محض اس لئے دوچار ہوئے کہ وہ کفار تھے ۔ اگر وہ بھی کفر پر قائم رہے تو پھر سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ لازماً اسی انجام سے دوچار ہوں گے جن سے اہل قریش دوچار ہوئے۔ اس لئے کہ اس انجام کا اصل سب کفر تھا۔ اللہ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے ‘ نہ وہاں سفارش چلتی ہے ‘ صرف ایمان صحیح ہی وہاں شفیع ہوسکتا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ ” جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ‘ انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ ان کا مال کچھ کام دے گا اور نہ اولاد ‘ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ “ دنیا میں مال اور اولاد بچاؤ کا سہارا ہوتے ہیں لیکن یہ دونوں چیزیں ‘ اس دن کام نہ دیں گی جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس دن کے آنے کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور اللہ کے وعدے میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ۔ اللہ کا وعدہ کبھی ٹلتا نہیں ‘ اہل کفر وہاں جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ یہاں انداز تعبیر ایسا اختیار کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اہل جہنم سے انسانی خصوصیات سلب ہوجائیں گی اور وہ جہنم میں خس و خاشاک کی طرح سوختی کی اشیاء ہوں گے ۔ اور اس وقت نہ مال اور دولت ‘ نہ جاہ اور نہ سلطنت ان کے کچھ کام آئے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخرت میں اموال و اولاد کام نہیں آئیں گے اہل کفر اپنے مالوں پر اور اولاد پر بہت فخر کرتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہیں دنیا میں کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ ہی جاتا ہے ان کا خیال خام یہ ہے کہ آخرت میں بھی مال اور اولاد سے کام چلے گا اور اللہ کے عذاب سے یہ چیزیں ہم کو بچا لیں گی۔ سورة سبا رکوع نمبر ٤ میں کافروں کا قول نقل فرماتے ہوئے ارشاد ہے : (وَ قَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا وَّ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ) (اور انہوں نے کہا ہم زیادہ مال اور اولاد والے ہیں اور ہم کو عذاب ہونے والا نہیں ہے) جب آخرت میں کفر پر عذاب ہوگا تو وہاں مال تو ہونے ہی کا نہیں۔ اگر مال ہو بھی تو جان کے بدلے میں قبول نہیں ہوسکتا جیسا کہ اسی سورت کے رکوع ٩ میں فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْ ءُ الْاَرْضِ ذَھَبً وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) (بےشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ اس حالت میں مرگئے کہ کافر تھے سو ہرگز ان میں سے کسی کی طرف سے بھی زمین بھر کر سونا قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اپنی جان کا بدلہ دینا چاہے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے اور ان کے لیے کوئی بھی مددگار نہ ہوگا) ۔ یہ تو مال کے بارے میں ارشاد فرمایا اور اولاد کے بارے میں سورة عبس میں فرمایا کہ (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ) (جس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے، ہر شخص کی الگ الگ حالت ہوگی جو دوسروں کی طرف توجہ کرنے سے بےنیا زکر دے گی) ان حالات میں یہ امید رکھنا کہ جس طرح مال و اولاد سے دنیا میں کام چل جاتا ہے آخرت میں بھی کام چل جائے گا سراپا حماقت اور بےوقوفی ہے اور جھوٹی آرزو ہے جنہوں نے کفر کیا اور کفر پر مرے ان کو دوزخ میں جانا ہی ہوگا اور وہ دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ حضرت خاتم النّبیین محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کا حال اور طور طریق وہی ہے جو آل فرعون کا تھا۔ اور جو ان لوگوں کا تھا جو ان سے پہلے تھے ان لوگوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے سبب گرفت فرما لی۔ دنیا میں بھی ان پر عذاب آئے اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ قولہ تعالیٰ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا قَال الکلبی من عذاب اللّٰہ و قال ابو عبیدہ من بمعنی عند ای عند اللّٰہ۔ (معالم التنزیل صفحہ ٢٨١: ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13 عیسائیوں کو ان کے شبہ کا معقول جواب دینے کے بعد دنیوی اور اخروی تخویف سنائی کہ ان معقول اور واضح دلائل کے بعد بھی اگر تم اپنی ضد پر قائم رہو گے اور اللہ کی توحید کی واضح آیات کا انکار کرتے رہو گے تو قوم فرعون کے سے بد انجام کے لیے تیار ہوجاؤ جنہیں دنیا میں عذاب غرق سے ہلاک کیا گیا اور آخرت میں بھی سخت عذاب دیا جائے گا۔ اور جب اللہ کا عذاب آپہنچے گا۔ اس وقت مال و دولت اور اولاد وانصار کام نہیں آئینگے۔ 14 جو لوگ توحید کے دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ کے باوجود آیات الٰہی کا انکار کریں، توحید کو چھوڑ شرک اختیار کریں، غیر اللہ کی عبادت کریں اور حاجت ومشکلات میں غیر اللہ کو پکاریں۔ ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہونگے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi