On the Day of Resurrection, No Wealth or Offspring Shall Avail
Allah says;
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُم مِّنَ اللّهِ شَيْيًا وَأُولَـيِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ
Verily, those who disbelieve, neither their properties nor their offspring will avail them whatsoever against Allah; and it is they who will be fuel of the Fire.
Allah states that the disbelievers shall be fuel for the Fire,
يَوْمَ لاَ يَنفَعُ الظَّـلِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ الْلَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ
The Day when their excuses will be of no profit to wrongdoers. Theirs will be the curse, and theirs will be the evil abode (i.e. painful torment in Hell-fire). (40:52)
Further, what they were granted in this life of wealth and offspring shall not avail them with Allah, or save them from His punishment and severe torment.
Similarly, Allah said,
فَلَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَـفِرُونَ
So let not their wealth nor their children amaze you; in reality Allah's plan is to punish them with these things in the life of this world, and that their souls shall depart (die) while they are disbelievers. (9:55)
and,
لااَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِى الْبِلَـدِ
مَتَـعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمِهَادُ
Let not the free disposal (and affluence) of the disbelievers throughout the land deceive you. A brief enjoyment; then, their ultimate abode is Hell; and worst indeed is that place for rest. (3:196-197)
Allah said in this Ayah,,
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ
...
Verily, those who disbelieve,
meaning, disbelieved in Allah's Ayat, denied His Messengers, defied His Books and did not benefit from His revelation to His Prophets.
...
لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُم مِّنَ اللّهِ شَيْيًا وَأُولَـيِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ
Neither their properties nor their offspring will avail them whatsoever against Allah; and it is they who will be fuel of the Fire.
meaning, they will be the wood with which the Fire is kindled and fed.
Similarly, Allah said,
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ
Certainly you (disbelievers) and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (21:98)
Allah said next,
جہنم کا ایندھن کون لوگ؟
فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں ، ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی ، ان پر لعنت ہے ، اور ان کیلئے برا گھر ہے ، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی ، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے ، جیسا اور جگہ فرمایا آیت ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:82 ) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے ، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی ، اسی طرح ارشاد ہے کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے ، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے ، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں ، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ) 21 ۔ الانبیاء:98 ) تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام فضل کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند فرمانے لگے ، لوگو! کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں؟ لوگو! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ؟ لوگو! کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا ؟ حضرت عمر فرمانے لگے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہوگا اور خوب پھیلے گا ، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا ، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لئے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے ، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے ( پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر ) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں ، عالم ہیں ، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہوگی؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں ، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں ، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی ، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی ، آپ نے ہماری زبردست خیرخواہی کی اور بہتری چاہی ۔ پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے ، لفظ داب ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے ، جیسا نہر اور نہر ، اس کے معنی شان عدالت حال طریقے کے آتے ہیں ، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئے گا جیسے فرعونوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا ، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب دردناک ہے ، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے ، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے ، ہر چیز اس کے سامنے حقیر ہے ، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب ۔