Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 103

سورة آل عمران

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾

And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided. And remember the favor of Allah upon you - when you were enemies and He brought your hearts together and you became, by His favor, brothers. And you were on the edge of a pit of the Fire, and He saved you from it. Thus does Allah make clear to you His verses that you may be guided.

اللہ تعالٰی کی رسّی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ، اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت ڈال دی ، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے ، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا ۔ اللہ تعالٰی اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ... And hold fast, all of you together, to the Rope of Allah, and be not divided among yourselves. It was said that, بِحَبْلِ اللّهِ (to the Rope of Allah), refers to Allah's covenant, just as Allah said in the following Ayah, ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْ... لٍ مِّنَ النَّاسِ (Indignity is put over them wherever they may be, except when under a covenant (of protection) from Allah, and from men); (3:112) in reference to pledges and peace treaties. Allah's statement وَلاَ تَفَرَّقُواْ (and be not divided among yourselves), orders sticking to the community of the believers and forbids division. There are several Hadiths that require adhering to the Jama`ah (congregation of believers) and prohibit division. Muslim recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَثًا وَيَسْخَطُ لَكُمْ ثَلَثًا يَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْيًا وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلاَأ تَفَرَّقُوا وَأَنْ تَنَاصَحُوا مَنْ وَلاَّهُ اللهُ أَمْرَكُمْ وَيَسْخَطُ لَكُمْ ثَلَثًا قِيلَ وَقَالَ وَكَثْرَةَ السُّوَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَال It pleases Allah for you to acquire three qualities and displeases Him that you acquire three characteristics. It pleases Him that; you worship Him Alone and not associate anything or anyone with Him in worship, that you hold on to the Rope of Allah altogether and do not divide, and that you advise whoever Allah appoints as your Leader. The three that displease Him are that; you say, `It was said,' and, `So-and-so said,' asking many unnecessary questions and wasting money. Allah said, ... وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ... and remember Allah's favor on you, for you were enemies one to another but He joined your hearts together, so that, by His grace, you became brethren. This was revealed about the Aws and Khazraj. During the time of Jahiliyyah, the Aws and Khazraj were at war and had great hatred, enmity and ill feelings towards each other, causing long conflicts and battles to occur between them. When Allah brought Islam, those among them who embraced it became brothers who loved each other by Allah's grace, having good ties for Allah's sake and helping each other in righteousness and piety. Allah said, ... هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُوْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الاَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ He it is Who has supported you with His Help and with the believers. And He has united their hearts. If you had spent all that is in the earth, you could not have united their hearts, but Allah has united them. Certainly He is All-Mighty, All-Wise.(8:62-63) ... وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ ايَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ and you were on the brink of a pit of Fire, and He saved you from it. Thus Allah makes His Ayat clear to you, that you may be guided. Before Islam, their disbelief had them standing at the edge of a pit of the Fire, but Allah saved them from it and delivered them to faith. The Messenger of Allah reminded the Ansar (from both Aws and Khazraj) of this bounty when he was dividing the war booty of Hunayn. During that time, some Ansar did not like the way the booty was divided, since they did not get what the others did, although that was what Allah directed His Prophet to do. The Messenger of Allah gave them a speech, in which he said, يَا مَعْشَرَ الاْاَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّلاًا فَهَدَاكُمُ اللهُ بِي وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمُ اللهُ بِي وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللهُ بِي O Ansar! Did I not find you misguided and Allah directed you to guidance because of me! Were you not divided beforehand and Allah united you around me! Were you not poor and Allah enriched you because of me! Whenever the Prophet asked them a question, they would answer, "Indeed, Allah and His Messenger have granted us bounty."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کردیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہیں پر قائم ہوسکتا اور رہ سکتا ہے۔ 103۔ 2 ' ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو ' کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف ک... رو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑجائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہوگیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] اللہ کی رسی سے مراد اللہ کا دین یا کتاب و سنت کے احکام ہیں اور اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ سے تعلق قائم رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط بناتا ہے اور کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا...  کہ مسلمانوں میں اختلاف، انتشار یا عداوت پیدا ہو۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی تمام تر توجہ دینی تعلیمات پر مرکوز رکھیں اور فروعی مسائل میں الجھ کر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے فرقہ بندیوں سے پرہیز کریں۔ [٩٤] یعنی جس وقت پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ کوئی حکومت یا عدالت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس کی طرف رجوع کیا جاسکتا۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا تھا جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتا، قبائلی حمیت، جسے قرآن نے حمیۃ جاہلیہ کا نام دیا ہے۔ اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے ؟ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ چونکہ ہمارے قبیلہ کے آدمی کو فلاں قبیلہ کے آدمی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے اس سے انتقام لینا ضروری ہے۔ پھر اس انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ جہاں کہیں کوئی جنگ چھڑی تو پھر وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ مکہ میں بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑائی شروع ہوئی جس میں نصف صدی لگ گئی۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے، کشتوں کے پشتے لگ گئے مگر لڑائی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔ تقریباً ایسی ہی صورت حال مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث کی تھی۔ عرب بھر کا ہوشمند طبقہ اس صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ مگر اس صورت حال سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ پھر یہ صورت حال مکہ اور مدینہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجائے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دولت اسلام سے سرفراز فرمایا۔ جس سے پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں۔ عداوت کے بجائے مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا ہوگئی اور وہ بالکل بھائیوں کی طرح بن گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو لڑائی کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اسی نعمت الفت و محبت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورة انفال میں فرمایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ : اگر آپ دنیا بھر کی دولت خرچ کرکے ان میں ایسی محبت و الفت پیدا کرنا چاہتے تو نہ کرسکتے تھے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی (٨: ٦٣) اور یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جو صرف اسلام اور اللہ کی مہربانی سے انہیں نصیب ہوئی اور جسے ہر شخص بچشم خود دیکھ رہا تھا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا۔۔ : مومنوں کو اہل کتاب کی اطاعت سے دور رہنے کی نصیحت فرما کر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے، جن کی پابندی سے انسان ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا جیسے ڈرنے کا حق ہے، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور ... جدا جدا نہ ہونا اور اللہ کی نعمت، یعنی دلوں میں الفت ڈالنے کو یاد رکھنا۔ اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے، درحقیقت یہ ایک استعارہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پہاڑ کی بلندی سے کسی گہری کھائی میں گرپڑیں تو انھیں نکالنے کے لیے اوپر سے رسی پھینکی جاتی ہے۔ اب جو لوگ مل کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں وہ اس رسی کے ساتھ اوپر نکل آئیں گے اور دوسرے گڑھے ہی میں رہ جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے آسمان سے قرآن اتارا ہے، جس کے ساتھ وحی الٰہی، یعنی سنت رسول بھی اتاری ہے۔ مسلمان موجودہ فرقہ بندیوں سے بھی اسی صورت میں نجات پاسکتے ہیں کہ قرآن مجید کو لائحہ عمل قرار دیں اور ذاتی خیالات و آراء کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور مشائخ و ائمہ کے اقوال و فتاویٰ کو قرآن و سنت کا درجہ دے کر گروہ بندی اختیار نہ کریں۔ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً ۔۔ : اسلام سے پہلے اوس اور خزرج ہی نہیں بلکہ تمام عرب کفر و شرک اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے۔ اسی کو یہاں آگ کے گڑھے کے کنارے پر ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گرنے سے بچا لیا اور عداوت کے بجائے اخوت پیدا کردی۔ اگر اس عداوت کا اندازہ کرنا ہو تو سورة انفال (٦٢، ٦٣) کا مطالعہ کریں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The first principle appears in the first of the two verses. The second principle follows in the second verse. The first principle stated in the said verse is that one must &fear Allah&, that is, one should orga¬nize and manage his life with a full sense of responsibility before Allah, avoiding all that is forbidden or undesirable, doing so in a manner &which is His due&. What تقوی... ٰ Taqwa is? In Arabic, the word, تقویٰ &Taqwa& is used to denote avoidance and abstinence. It is translated as &fear& in the sense that things one is asked to abstain from are nothing but things that cause fear, or alert one to the danger of Divine retribution. تقویٰ Taqwa has its own degrees, the lowest is to avoid کفر Kufr and شرک Shirk, that is, disbelieving in Allah and His Message and attributing part¬ners to His Divinity. In this sense, every Muslim can be counted as مُتَّقی Muttaqi (one who has the quality of تقوی Taqwa ), even if he is involved in sins. At several places in the Holy Qur&an, the words, مُتَّقین &Muttaqin& (plural of مُتَّقی Muttaqi and تقویٰ &Taqwa & have been used in that sense as well. What is really desirable falls under the second degree of تقویٰ Taqwa , that is, to avoid that which is disliked by Allah and His Messenger. The merits and blessings of تقویٰ Taqwa enumerated in the Qur&an and Iiadith have been promised on this degree of avoidance and abstinence. As far as the third degree of تقویٰ Taqwa is concerned, this is a high station destined for prophets, (علیہم السلام) ، their devoted deputies and men of Allah, for it is not within the grasp of everybody. To stand guard over one&s heart against the onslaught of what does not relate to Allah, and to keep it filled with the remembrance of Allah and the desire to seek His pleasure, are great assignments. The meaning of تقویٰ Taqwa &as due& While giving a directive to attain تقویٰ &Taqwa & the Holy Qur&an has qualified the word of تقویٰ Taqwa with (a fear which is His due) which mean: that one should seek to attain a degree of تقویٰ Taqwa which it inherently deserves. This has been explained by the blessed Companions, ` Abdullah ibn Masud, Rabi&, Qatadah and Hasan al-Basri (رض) in the following words: حق تقاتہ ہو ان یطاع فلا یعصٰی و یذکر فلا ینسیٰ ویشکر فلا یکفر (البحر المحیط) &A fear which is His due& means that one obeys, then does not disobey; remembers then does not forget; and is grateful, then does not become ungrateful.& (Al-Bahr Al-Muhit) The above explanation has also been reported with its chain of authorities ascending to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself. Major commentators have explained the sense of the above report differently. For instance, some say that the due fear of Allah means that, in obedience to Allah, one should dismiss all derogatory criticism, no matter where it comes from, always standing firm on what is just, even if, by being just, he has to hurt his own self, or his children, or his parents. Some say, that one can never hope to achieve تقویٰ ’ Taqwa as due& unless he protects his tongue. There is another verse in the Holy Qur&an where it is said: اتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ Fear Allah as much as you can. (64:16) According to the blessed Companions, Ibn ` Abbas and Tawus (رض) ، this is really nothing but an explanation of حَقَّ تُقَاتِهِ (a fear which is His due). It means that should one be doing his best, using all his attention and energy to guard against evil, the obligation of Taqwa shall stand fulfilled. If one, who has already done everything he could, happens to fall a victim to something impermissible, that would not be considered being against تقویٰ &Taqwa as due&. The statement which follows immediately: وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (and let not yourself die save as Muslims) tells us that تقویٰ Taqwa is, in reality, the whole of Islam since the total obedience to Allah and His Messenger, and the total avoidance of disobedience both to Allah and His Messenger is what تقویٰ Taqwa is all about; and this is what Islam is. The command in the verse, &and let not yourself die save as Muslims& raises a possible doubt as man does not control death, it may come anytime, anywhere. This doubt is removed when we consider the کما تَحِبُّون تموتون و کما تموتون تحشرون &As you live, so shall you die; and as you die, so shall you be raised.& Therefore, anyone who is determined to live his entire life by the tenets of Islam, and to the best of his determination and ability, acts accordingly, his death will definitely come, God willing, on a state of Islam. Now, about some hadith narrations where it is said that there will be people who may have spent a life-time of good deeds, yet the entire roster of such deeds shall go waste because of something awful they did later. Such fate can befall those people only who did not act with sincerity and steadfastness from the very beginning. And Allah knows best. UNITY: The second principle of collective Muslim strength: In the second verse, 103: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا (And hold on to the cord of Allah, all of you), the golden principle of unity has been presented with great eloquence and wisdom, for the principle, being the only effective binding factor, has been identified before the command to unite was given, following which, came the prohibition of disunity and chaos. Elaborating this a little, it can be said that unity is something good and desirable, a premise generally approved by all human beings, no matter what place, time, religion or life style they adhere to. A person, who considers fights and disputes as something useful, and good in themselves, would be hard to find anywhere. This is why all groups and parties around the world invariably ask people to unite, but expe¬rience shows that all is not well in world affairs. No doubt, everybody agrees that unity is useful, and necessary, yet humanity is divided apart in sects, groups and parties. Then, there is a whole chain of sects within sects and parties within parties, reaching the limits of absur¬dity where even the unity of two people, in the real sense, has become a myth. A few people get together, agree on something under the driving force of temporary objectives; then, no sooner do interests get served, or remain unrealized, unity evaporates in thin air, and instead, there remains the fall-out of mutual bickering and hostility. With a little deliberation, it will become clear that every group, every sect, almost every person would like to unite people on some self-made programme, while the position is that other people have their own self-made programmes. So, rather than agree with them, they invite others to line up under their programme. Therefore, all calls for unity end up in break-ups and chaos among parties and persons. Thus, stuck in this quagmire of differences, humanity at large is the loser. Therefore, the Holy Qur&an has not stopped at giving sermons on unity and order, instead, it has also come forward with a just principle which would help achieve and sustain the desired state of affairs in the world, something in which no group should find a ground for differences. The truth of the matter is that imposing a system or programme conceived by one or some members of the human race on other human beings, and hoping that all of them will accept it unani¬mously, is simply against commonsense, and justice, and is nothing but cheeky self-deception. However, the system and the programme given by the Creator-Sustainer of all the worlds, the رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ Rabb al-` Alamin, is something all human beings should naturally agree upon. No rational human being can deny it on principle. Now, the only possible inroad to difference here can show up in the actual identification of the system given by the Sovereign of Sovereigns, the رَ‌بِّ Rabb, the Lord. Which is it? The Jews say it is the system of the Torah, the Christians say it is the system of the Evangel; both say it was sent by God and it is necessary to act upon it. The approach goes as far as even the poly-theists, who have groups among them attributing their respective religious rites to none but god. But, if man could rise a little above his group prejudice and the blind following of forefathers, using his own God-given reason, he would stand face to face with the reality without any frills; the reality that the Last of the Prophets, (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، has come with the last message of Allah Almighty in the form of the Holy Qur&an and that, at this point of time, there is no other system or living pattern acceptable in the sight of Allah Almighty. Leaving this wider focus aside, we can turn to the first and present addressees of the Qur&an, the Muslims who believe that in the world as we have found it, the Holy Qur&an is the only way of life revealed by Allah Almighty without any shadow of doubt in it, and since Allah Almighty has Himself taken the responsi¬bility of protecting it, there is just no possibility of interpolation or change in it right through to the Day of Judgment. With this position in view, I leave the part of the subject dealing with non-Muslim groups for some other occasion and say to Muslims alone who, being believers in the Qur&an, have no other alternative line of action except this. If different parties among Muslims were to unite on the system of the Holy Qur&an, thousands of their differences based on group, race and country would be resolved instantly, which block the road to human progress. Whatever difference may remain among Muslims, would possibly be in the understanding and the interpretation of the Qur&an. If such difference stays within limits, it is neither blame-worthy nor harmful to collective human living. In fact, the existence of such difference of opinion among the learned is natural. Therefore, exercising restraint and observing limits should not be so difficult to manage. Contrary to this, if our parties were to go on fighting in complete disregard to the Qur&an then, they would not be left with any possibility of correction. It is this chronic dissension and disorder which the Holy Qur&an has sternly forbidden, and it is because of this abandonment of a great Qur&anic principle that our community at large is wasting its potential by succumbing to chaos and factionalism. The Holy Qur&an, in the present verse, shows us the way as to how we can eliminate this tendency to become divided when it says: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا And hold on to the cord of Allah, all of you. Here, حَبْلِ اللَّـهِ (the cord of Allah) means the Holy Qur&an. The blessed Companion, ` Abdullah ibn Masud (رض) is the narrator of the hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: کتاب اللہ ہو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض The Book of Allah is the cord of Allah, extended from the heavens to the earth. In another narration of the hadith by the noble Companion, Zayd ibn Arqam (رض) ، the words are: حبل اللہ ہو القرآن : The cord of Allah is the Qur&an (Ibn Kathir). In Arabic usage, the word, حبل &habl& also means &covenant& and, in an absolute sense, it covers everything that can be used as a connecting link. The metaphor of &cord& has been used for the Qur&an or the Faith to suggest that this is the connecting link which, on one side, estab¬lishes the lines of communion between those who believe and their Lord, while, on the other side, it brings all those who believe close together, forming one group. In short, this one statement of the Qur&an is full of wise rules of conduct. To begin with, it can be said that man must firmly act in accordance with the way of life revealed by Allah Almighty, that is, the Holy Qur&an. Then comes the unity of action, that is, all Muslims should join hands to act in accordance with it. The result will be that Muslims will become united and organized as if they were a group holding on to the same cord firmly, turning the whole group into a powerful single body. The Holy Qur&an has explained this mystique of Muslim unity more clearly in another verse where it was said: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّ‌حْمَـٰنُ وُدًّا ﴿٩٦﴾ Surely, those who believe and do good deeds, among them the X11-Merciful Allah shall create (mutual) affection. (19:96) Also present here is a subtle analogy focused on Muslims holding fast to the Book of Allah. Their effort resembles the effort of those who would grip a strong rope while climbing and thus remain protected against a fall. So, the hint is: If Muslims keep holding on to the Book of Allah with their total strength, all in unison, no شیطان satan will ever succeed in dividing them. As a result, like their individual life, the collective strength of the Muslim community as well shall become stable and impregnable. Keeping a firm grip on the Qur&an is some-thing which helps in uniting scattered forces through which a dead nation gets new life. God forbid, if Muslims break away from it, it is certain that their national and collective life will be ruined, and when this happens, their individual life is not likely to fare any better. Islam is the only source of the Muslim Unity Unity and agreement need a centre of attraction or a common idea. This idea of a centre has been different with different peoples of the world. Somewhere it was race and tribal affinity. For instance, among the tribal complex of Arabia, Quraysh was one nation and Banu Tamim another. There were other places where colour was the criterion, with black people taken as one nation, and the white people as another. There were still other places where the geographical or lingual factor was the centre of unity making Indian one nation and the Arab, another. Then there were areas where people rallied around ancestral customs drawing a line between those who follow these customs and those who do not, for instance, the Arya Samajists in India. The Holy Qur&an, bypassing all these, made the Book of Allah basis of unity, that is, the system revealed by Allah Almighty. In a single stroke, it declared that Muslims are a nation attached to حبل للہ &Hablillah&, the cord of Allah, and those who disbelieve are another nation, not attached to this strong &cord& or &rope&. The statement: خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ‌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ (It is He who created you. So, some of you are infidels and some of you are believers) means just this. So, the unifying factors of geog-raphy, race, tribe or language do not deserve to be the centre of affinity for man generally has no control over them. One cannot have them by personal effort or choice. Black cannot become white, a Qurayshi cannot become a Tamimi, an Indian cannot become an Arab. Such unities can exist in a very limited frame; they can never claim to have assembled the whole humanity under their umbrella hoping to have the entire world gathered on a united platform. This is why the Holy Qur&an has made the Divinely revealed way of life as the centre of unity, something one can elect to have for himself. Everyone from the East or the West, black or white, speaking Arabic or English or any other language, coming from any family, any tribe, any human group, can freely make this centre of unity his own as the most rational and correct choice available. Then, humankind can come close together around this centre and become brothers and sisters to one another. What is needed is a little impartial thinking, a slight rising above custom, prejudice and habit, as a result of which, the seeker shall be striking the best bargain of his life. Hopefully, he will discover for himself the way of life revealed by Allah Almighty, understand it, and follow it holding fast on to this strong medium of communion with Allah. As a result of this, the whole humanity will become beneficially concentric, having the centre of God-given guidance in common. Consequently, every individual member of this great brotherhood will be able to tune his deeds, material and spiritual, to the jointly accepted way of life from Allah. Here is the principle, wise and correct, of which Muslims can be proud, and confident when inviting others to join in. Unfortunately, conspiracies hatched by the Europeans, for centuries to crush the Muslim unity have succeeded in dividing the ranks of those who claim to be Muslims. Now they have themselves accepted the differences of race, language and nationalities as the dividing forces, and the link of Muslim unity stands severed by the concept of Arabs and Non-Arabs, Indians and non-Indians etc. The Holy Qur&an proclaims a universal reality, loudly and openly, time and again, that these distinctions are ill-founded and divisive and any unity based on them shall remain irrational and false. A centricity is not the solution for Muslims who have no choice but to &hold on to the cord of Allah&, all of them, as a way of life. This has given them a place of honour earlier, and if there is yet another success destined for them, this is how it would come again. Before we move on to the second part of the verse, let us remember the two distinct instructions given to Muslims in this verse, that is, they should first live by the system prescribed for them by Allah Almighty, then, they should hold fast to the cord of Allah& all together. This is how the Muslim ummah gained ascendance in the past and there is no reason why, it will not rise again. This far the discussion revolved around the positive aspect of unity among Muslims. The text now takes up the negative aspect when it says: وَلَا تَفَرَّ‌قُوا (And&be not divided). This is another example of the pecu¬liarly wise style of the Holy Qur&an when it would highlight the posi¬tive aspect first, then identify the negative, and forbid the later. In another verse, it was said: وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌اطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ Surely, this is the straight path, so, follow it. And do not follow (other) ways which will cause you to become separated from His way. (6:153) Since disunity is the first and the last reason behind the destruction of a nation, therefore, the Holy Qur&an has repeatedly forbidden it in various ways. It has been said in another verse: إِنَّ الَّذِينَ فَرَّ‌قُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ Those who have made divisions in their religion and become sects, you have nothing to do with them. (6:159) Also narrated in the Holy Qur&an are events concerning communi¬ties led by their prophet&s (علیہم السلام) communities which fell into temporal and eternal disgrace because of their mutual disputes and disunity which turned them away from the honest pursuit of their central purpose of life. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that there are three things Allah Almighty has liked for you while there are three others He has disliked. The ones He has liked are as follows: 1. That your worship should be for Allah alone and that you should not attribute partners to His divinity. 2. That you should hold on to the Book of Allah firmly and avoid disunity. 3. That you should have goodwill for those in authority from among you. The three things which cause Allah&s displeasure are: 1. Unnecessary argumentation. 2. Needless asking. 3. Wastage of resources. (Ibn Kathir from Abi Hurairah) Differences and their Limits A question that remains unanswered is: Is every difference to be despised or is there a sort of difference which can be called un-blame¬worthy? The answer is: Every difference is not blameworthy or despi¬cable. A blameworthy difference is one in which individuals and groups stay away from the Qur&an and think in terms of their whims and wishes. But, should it be that everyone stays united in and around the Qur&an and at the same time, continues to accept the explanation and detail coming from the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and then, on the basis of God-given natural ability and intellectual quality, expresses differences in opinion about subsidiaries of religion, in which case, this difference will be natural and Islam does not forbid it. The difference among the blessed Companions and their Successors and among leading juristic authorities was of this nature. It was nothing but this difference that was called a &mercy& for the commu¬nity. However, if these very subsidiary debates were to be invested with the status of the mainstream of religion, and differences arising out of them were to become a cause of controversy, confrontation, insult and vilification, then, this too will be considered blameworthy. The Blessing of Brotherhood The text, after making the two aspects of unity clear, points out to the conditions prevailing among pre-Islam Arabs. Because of tribal rivalries, incessant warfare and long-drawn blood feuds, the entire nation was on the brink of total ruin. What saved them from the fire of hatred was nothing but these blessings of Islam. So, it was said: وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَ‌ةٍ مِّنَ النَّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا And remember the blessing of Allah upon you: When you were enemies to each other, and He brought your hearts together, then you, with His grace, became brothers. And you were at the brink of a pit of the Fire, then, He saved you from it. (103) In other words, by erasing out deep-seated enmities going back to centuries, Allah Almighty made them brothers to each other through the benediction of Islam and the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This made their life worth living, materially and spiritually, establishing between them such exemplary friendship that even their enemies found it awesome. Where in the whole wide world would they have found this brotherly unity, this enormous blessing of Allah, even if they were to spend the combined treasures of the world? If we recollect what was said in the opening remarks under these verses, we can see very clearly that the present verse helps eliminate the mischief engineered by the wicked when they tried to disunite the tribes of Aws and Khazraj by reminding them of their past feuds. The lesson is: Once in Islam, division is unthinkable. Unity among Muslims depends on obedience to Allah: The above statement of the Holy Qur&an unravels yet another mystery. We now know that, in reality, Allah Almighty is the Master of hearts. Activating mutual love and consideration in the hearts of a people is purely a Divine blessing. Obvious along with it is the fact that one can become deserving of the blessings of Allah only through obedi¬ence to Him. With disobedience and sin, one cannot hope to have this reward. It also follows from here that for Muslims, if they desire to have a stable organization among them, and unity, the only alternative open is that they should make obedience to Allah their life style. This point has been hinted at towards the end of the verse where it was said: كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ This is how Allah makes His signs clear to you, so that you may take the right path. (103)   Show more

مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا دوسرا اصول باہمی اتفاق : دوسری آیت واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ میں اس کو نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے وہ اصول اور گر بتلایا جو انسانوں کو باہمی مربوط اور متفق کرنے کا نسخہ اکسیر ہے، اس کے بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا، اس کے بعد آپس کے اف... تراق و انتشار سے منع فرمایا۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں، کسی مذہب و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں، دنیا میں شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کو بذاتہ مفید اور بہتر جانتا ہوں، اس لئے دنیا کی ہر جماعت، ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہیں، لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں، گروہوں، پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے، پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا ہے کہ صحیح معنی میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے، وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں، اغراض پوری ہوجائیں، یا ان میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آتی ہے۔ غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ و ہر فرقہ اور ہر شخص لوگوں کو اپنے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے، اور جبکہ دوسرے لوگ خود اپنا بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اس لئے لازمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا نتیجہ ایک ہی جماعتوں اور افراد کا افتراق و انتشار نکلتا ہے، اور اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اس لئے قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلادیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے، کوئی عقلمند انسان اس سے اصولا انکار نہیں کرسکتا، اب اگر اختلاف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کے پہچاننے میں ہوسکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا ہے، یہودی نظام تورات کو، نصاری نظام انجیل کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواواجب التعمیل بتلاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتی ہیں۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور آبائی تقلید سے ذرا بلند ہو کر اپنی عقل خداداد سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہو کر اس کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیام قرآن کی صورت میں لائے ہیں، آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں، اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اور چونکہ خود حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے، اس لئے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف و تغییر کا بھی امکان نہیں، اس لئے سردست میں غیر مسلم جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے، اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختلافات ایک لحظہ میں ختم ہوسکتے ہین، جو انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر ہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے مضر بلکہ ایسا اختلاف رائے عقلاء کے درمیان رہنا فطری امر ہے، سو اس پر قابو پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں، بخلاف اس کے کہ قرآنی نظام سے آزاد ہو کر ہماری پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خلاف وجدال کا کوئی علاج نہیں رہتا، اور اسی اختلاف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہورہی ہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکسیر اس طرح بتلایا ہے : واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ |" یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو |" اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے، عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض۔ یعنی کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) زید بن ارقم کی روایت میں حبل اللہ ہوا القرآن کے الفاظ آئے ہیں۔ (ابن کثیر) محاورہ عربی میں حبل سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے، قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے، ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو، دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل کریں، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں، جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم وحد بن جاتی ہے، قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا ہے : ان الذین امنوا و عملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا (١٩: ٩٦) ۔ |" یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں دوستی و محبت پیدا فرمادیتے ہیں |"۔ پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط ریس کو پکڑ لیں، اور ہلاکت سے محفوظ رہیں، لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب ملکر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا، اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں۔ پوری مسلم قوم کا اتفاق صرف اسلام ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے نسبی اور وطنی وحدت سے یہ کام نہیں ہوسکتا : یہاں سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو، پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا، جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی، اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا، کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھتے جاتے، کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز اتحاد بنایا ہوا تھا کہ ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم، کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا، کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم، جیسے ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج وغیرہ۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت حبل اللہ قرآن کریم کو یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا، اور دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل اللہ سے وابستہ ہے، اور کافر دوسری قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں، خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (٦٤: ٣) کا یہی مطلب ہے، جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے، کیونکہ وہ وحدتیں عموما غیر اختیاری امور ہین، جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کرسکتا، جو کالا ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا، جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا، جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا، اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ میں ہوسکتی ہیں، ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا، اس لئے قرآن کریم نے مرکز وحدت حبل اللہ یعنی قرآن اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے، کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، گورا ہو یا کالا، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے، اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں، اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہو کر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں، اور اس کا اتباع کر کے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کر کے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرلے گا، یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرح آؤ، اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے، لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہوگئی، اب امت اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی، قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات درحقیقت امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے، اس لئے اعتصام بحبل اللہ کی وحدت اختیار کریں، جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔ الغرض اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں، دوسرے یہ کہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ اس نظام کو تھام لیں، تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولی میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔ مسلمانوں میں اتفاق کے ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا ولا تفرقوا باہم نااتفاقی نہ کرو، قرآن حکیم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرماتا ہے، چناچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ (٦: ١٥٤) اس آیت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین ہے، اور اپنی خواہشات کے زیر اثر خودساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت نااتفاقی کسی قوم کی ہلاکت کا سب سے پہلا اور آخری سبب ہے، اسی لئے قرآن حکیم نے بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔ (٦: ١٦) |" یعنی جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں |"۔ علاوہ ازیں انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایا کہ کس طرح وہ امتیں باہمی اختلاف و شقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہو کر دنیا و آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے، اور تین چیزوں کو ناپسند، پسندیدہ چیزیں یہ ہیں : اول یہ کہ تم عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو، اور نااتفاقی سے بچو۔ سوم یہ کہ اپنے حکام اور اولوا الامر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو۔ اور وہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں۔ (١) بےضرورت قیل و قال اور بحث و مباحثہ (٢) بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا (٣) اضاعت مال۔ (ابن کثیر عن ابی ہریرہ) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے، جواب یہ ہے کہ ہر اختلاف مذموم نہیں ہے، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے کہ جس میں اپنی اہواء اور خواہشات کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے، لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے، اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا، صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ و جدل اور سب و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے، باہمی اتحاد کے ان دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد اس حالت کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے، قبائل کی باہمی عداوتیں، بات بات پر ان کی لڑائیاں اور شب و روز کے کشت وخون کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی، اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ چناچہ فرمایا گیا۔ واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا۔ |" یعنی اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی، سو تم اس کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، سو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا |" یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر اللہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے بھائی بھائی بنادیا، جس سے تمہارے دین و دنیا درست ہوگئے اور ایسی دوستی قائم ہوگئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوئے، اور یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔ واقعہ شان نزول میں شریر لوگوں نے جو اوس و خزرج کے قبیلوں کو پچھلی جنگ یاد دلا کر فساد برپا کرنا چاہا تھا آیت مذکور میں اس کا مکمل علاج ہوگیا، نتائج اور بذریعہ اسلام ان سے رہائی کا بیان فرمادیا۔ مسلمانوں کا باہمی اتحاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر موقوف ہے : قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا، وہ یہ کہ دلوں کا مالک درحقیقت اللہ جل شانہ ہے، دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے، کسی جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور موددت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، معصیت و نافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم و اتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنالیں، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے کہ کذلک یبین اللہ لکم ایتہ لعلکم تھتدون |" یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لئے حقائق واضح کر کے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم لوگ صحیح راہ پر رہو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝ ٠ ۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝ ٠ ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ ا... للہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝ ١٠٣ عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] حبل الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين : - عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» . والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة . ( ج ب ل ) الحبل ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ تفریق والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، ( ف ر ق ) الفرق التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] . والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش/ 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : { إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ } ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ { لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ } ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : { وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ شفا (کناره) شَفَا البئر وغیرها : حرفه، ويضرب به المثل في القرب من الهلاك . قال تعالی: عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة/ 109] ، وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] ، وأَشْفَى فلان علی الهلاك، أي : حصل علی شفاه، ومنه استعیر : ما بقي من کذا إلّا شَفاً أي : قلیل کشفا البئر . وتثنية شفا شَفَوَانِ ، وجمعه أَشْفَاءٌ ، ( ش ف و ) شفا۔ کنوئیں وغیرہ کے کنارہ کو کہتے ہیں ۔ یہ قرب ہلاکت کے لئے ضرب المثل ہے ۔ قرآن میں ہے : عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة/ 109] گرجانے والی کھائی کے کنارہ پر ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] ( اور تم ) آگ کے گڑھے کے کنارے تک فلاں ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور ہر کہا جاتا ہے ما بقي من کذا إلّا شَفاً ۔۔ کہ فلاں چیز تھوڑی سی باقی رہ گئی ہے ( یہ چاند یا سورج کے غروب ہونے یا کسی کی موت کے وقت بولا جا تا ہے ) شفا کا تثنیہ شفوان اور جمع اشفاء آتی ہے ۔ حفر قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] ، أي : مکان محفور، ويقال لها : حَفِيرَة . والحَفَر : التراب الذي يخرج من الحفرة، نحو : نقض لما ينقض، والمِحْفَار والمِحْفَر والمِحْفَرَة : ما يحفر به، وسمّي حَافِر الفرس تشبيها لحفره في عدوه، وقوله عزّ وجل : أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحافِرَةِ [ النازعات/ 10] ، مثل لمن يردّ من حيث جاء، أي : أنحیا بعد أن نموت ؟. وقیل : الحافرة : الأرض التي جعلت قبورهم، ومعناه : أإنّا لمردودون ونحن في الحافرة ؟ أي : في القبور، وقوله : فِي الْحافِرَةِ علی هذا في موضع الحال . وقیل : رجع علی حافرته ورجع الشیخ إلى حافرته، أي : هرم، نحو قوله تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] ، وقولهم : ( النقد عند الحافرة) لما يباع نقدا، وأصله في الفرس إذا بيع، فيقال : لا يزول حافره أو ينقد ثمنه، والحَفْر : تأكّل الأسنان، وقد حَفَرَ فوه حَفْراً ، وأَحْفَرَ المهر للإثناء والإرباع ( ح ف ر ) الحفر۔ وہ مٹی جو گڑھے سے نکالی جاتی ہے ( یہ اسم مفعول کے معنی میں ہے ) جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے ۔ الحفرۃ والحفیرۃ گڑھا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران/ 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے ۔ المحفار والمحفر والمحفرۃ بیلچہ وغیرہ جس سے گڑھا کھودا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر گھوڑے کے سم کو حافر کہاجاتا ہے کیونکہ وہ درڑتے دقت اپنے سم سے مٹی اڑاتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحافِرَةِ [ النازعات/ 10] کیا ہم الٹے پاؤں پھر لوٹیں گے ۔ میں مردود فی الحافرۃ ۔ ایک مثل ہے اور یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو جد ھر سے آئے اسی طرف لوٹا دیا جائے ان کا مطلب یہ تھا ک ہم مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں گے ۔ بعض نے کہا ہے ک حافرۃ سے مراد وہ زمین ہے جس میں ان کی قبریں بنائی گئی تھیں اور حافرۃ یہاں موضع حال میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ کیا ہم لوٹائے جائیں گے اس حال میں کہ قبروں میں ہوں گے ۔ محاورہ ہے ۔ رجع علی حافرتہ اور جع الشیخ الی حافرتہ یعنی بوڑھا ہوگیا ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] آیا ہے ۔ اور جو چیز لقدر فروخت کی جائے اس کے متعلق عرب لوگ کہتے ہیں ( مثل ) النقد عند الحافرۃ ۔ اور اصل میں یہ گھوڑے کی بیع کے متعلق بولا جاتا ہے ۔ جیسے ؛ لا یذول حافرہ او ینقد ثمنہ کی اس کا سم یہاں سے جدا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی قیمت نقداد ادا نہ کی جائے ۔ الحفر تاکل الاسنان دانتوں کی زردی ان کو کھا جاتی ہے ۔ حفر فوہ حفرا اس کے دانت خراب ہوگئے احفر المھر ۔ بچھڑے کے ثنائی یا رباعی دانت گرگئے نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ نقذ الإِنْقَاذُ : التَّخْلِيصُ من وَرْطَةٍ. قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها [ آل عمران/ 103] والنَّقْذُ : ما أَنْقَذْتَهُ ، وفَرَسٌ نَقِيذٌ: مأخوذٌ من قومٍ آخرین كأنه أُنْقِذَ منهم، وجمْعُه نَقَائِذُ. ( ن ق ذ) الانقاذ کسی خطرہ یا ہلاکت سے خلاصی دینا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها[ آل عمران/ 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا ۔ النقذ بمعنی چھڑا یا ہوا فر س نقیذ دشمن کے ہاتھ سے چھینا ہوا گھوڑا گویا وہ ان سے بچایا گیا ہے نقا ئذ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (اعتصموابحبل اللہ جمیعاولا تفر قوا، تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہاں، حبل اللہ، کے معنی کے متعلق روایت ہے اس سے مراد قرآن ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د، قتادہ اور سدی سے بھی روایت ہے ایک قول ہے کہ اس سے مراد ... اللہ کا دین ہے، ایک قول ہے کہ اس سے مراد عہدالٰہی ہے، اس لیے کہ یہ اسی طرح نجات کا ذریعہ ہے جس طرح رسی دوبنے وغیرہ سے نجات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ امان کو بھی حبل کا نام دیاجاتا ہے اس لیے کہ وہ نجات کا سبب ہوتا ہے۔ یہ مفہوم اس قول باری کا ہے (الا بحبل من اللہ وحبل من الناس، سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے یا لوگوں کی طرف سے امان ہو) یہاں حبل سے مراد امان ہے۔ البتہ قول باری (واعتصموابحبل اللہ جمیعا) میں اجتماع اور اتفاق کا حکم اور تفرقہ کی نہی ہے۔ اس مفہوم کو اپنے اس قول (ولاتفرقوا) سے اور موکد کردیا ہے۔ جس کے معنی دین کے راستے سے بکھر جانے اور ہٹ جانے کے ہیں۔ جبکہ اس کے لزوم اور اس پر اکٹھا ہوجانے کا تمام لوگوں کو حکم دیا گیا ہے حضرت عبداللہ اور قتادہ سے اسی قس کی روایت ہے۔ حسن کے قول میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑکرنہ چلے جاؤ۔ اس آیت سے دوقسم کے لوگوں نے استدلال کیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو نئے پیدا ہونے والے مسائل کے احکام میں قیاس اور اجتہاد کی نفی کرتا ہے۔ مثلا نظام اور اس جیسے دوسرے روافض۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو قیاس اور اجتہاد کا توقائل ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کرنے والوں کے اقوال میں حق صرف ایک قول ہوتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک اجتہادی مسئلے میں جس کا قول حق کے مطابق نہیں ہوتا وہ خطاکارہوتا ہے۔ اس گردہ کی دلیل یہ ہے کہ قول باری (ولا تفرقوا) اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تفرقہ اور اختلاف اللہ کا دین بن جائے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع بھی فرمایا ہے۔ اصول دین میں اختلاف کی ممانعت ہے فروع دین میں نہیں ہمارے نزدیک بات ایسی نہیں ہے۔ جو انہوں نے بیان کی ہے۔ اس لیے کہ اصل کے اعتبار سے احکام شرع کچھ اس طرح ہیں کہ ان میں سے بعض میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ وہ احکام ہیں جن کی ہر حالت میں مانعت یا ایجاب پر عقل دلالت کرتی ہے اور بعض ایسے ہیں جن میں اس کا جواز اور اس کی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ کبھی واجب ہوجائیں کبھی ممنوع اور کبھی مباح۔ ایسے احکام میں اختلاف کی گنجائش ہے اور انہیں بجالانادرست ہوتا ہے۔ مثلا نماز، روزے میں طاہر اور حائضہ کا حکم ، مقیم اور مسافرکاقصر اوراتمام کے سلسلے میں حکم، یا اسی طرح کے اور احکام۔ اب اس حیثیت سے کہ ان مسائل میں لوگوں کو ملنے والے احکام کے اختلاف کی وجہ نص ک اورود ہے۔ جس کے تحت بعض لوگ ایسے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہیں جو بعض دوسروں کے احکامات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں تو ایسے مسائل میں اجتہاد کی گنجائش اور جواز مین کوئی امتناع نہیں۔ جن میں نص کے ورودکاجوازوجہ اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ہر قسم کا اختلاف قابل مذمت ہوتاتو پھر یہ ضروری ہوتا کہ احکام شرع میں نص اور توقیف کی راہ سے اختلاف کادورد جائز ہی نہ ہوتا۔ اب جو اختلاف نص میں جائز ہے وہی اجتہاد میں بھی جائز ہے۔ بعض دفعہ دوعالم بیویوں کے نان ونفقہ تلف ہوجانے والی اشیاء کی قیمتوں کے تعین اور فوجداری جرائم میں جرمانوں اور دیتوں کے تخمینہ لگانے میں اپنے اپنے اجتہاد میں ایک دوسرے سے مختلف الرائے ہوجاتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی قابل ملامت یامذمت نہیں ہوتا۔ دراصل اجتہادی مسائل کا یہی طریق کا رہے اگر اس قسم کا اختلاف قابل مذمت ہوتا تو پھر صحابہ کرام کا حصہ اس میں س ب سے بڑھ کرہوتا اس لیے کہ بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کے متعلق ہم ان کی آراء میں اختلاف پاتے ہیں لیکن اس کے باجودان کے آپس کے تعلقات میں کوئی بگاڑپیدا نہیں ہوتا۔ ہر صحابی اپنے رفیق کے اختلاف رائے کے برداشت کرتے اور اس کی کوئی معذرت نہیں کرتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح گویا اس قسم کے اختلاف کے جواز اور اس کی گنجائش پر صحابہ کرام کا ایک طرح کا اتفاق اور اجماع ہوچکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے اجماع کی صحت اور اس کے بطورحجت ثبوت پر اپنی کتاب میں کئی مواقع پر حکم جاری کردیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اختلاف) امتی رحمۃ، میری امت کا اختلاف رائے ہونا ایک رحمت ہے) نیز فرمایا (لاتجتمع امتی علی ضلال گمراہی پر میری امت کا اجتماع نہیں ہوسکتا) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قول (ولاتفرقوا) کے ذریعے اس قسم کے اختلاف سے منع نہیں فرمایا ہے۔ بلکہ نہی کا رخ ود میں سے ایک بات کی طرف ہے یا تو منصوص احکامات میں اختلاف کی طرف یا ایسے مسائل میں جن کے ثبوت یاعدم ثبوت کے متعلق کوئی عقلی یاسمعی دلیل قائم ہوچکی ہو جس میں صرف اور صرف ایک ہی معنی کا احتمال ہو۔ آیت کے مضمون میں یہ بات موجود ہے کہ اس سے مراد اصول دین میں تفرقہ اور اختلاف ہے فروع دین میں نہیں ، اور نہ ہی اس میں جس کے اندراختلاف کرتے ہوئے بھی تعبد اورفرماں برداری بجالانے کا جوازموجود ہو۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (واذکروانعمۃ اللہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم، اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروجب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا) یعنی اسلام کے ذریعے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے۔ قابل مذمت اختلاف جس سے آیت میں روکا گیا ہے۔ وہ اختلاف اور تفرقہ ہے جو اصول وین واسلام میں کیا جائے ۔ وہ اختلاف مراد نہیں جو فروع دین میں ہو۔ واللہ اعلم۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣) اور دین الہی اور کتاب خداوندی (قرآن) کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اسلام کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جاہلیت میں تم کس طرح باہم دشمن تھے پھر دین اسلام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ اور بوجہ کفر کے تم لوگ دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے، اس دوزخ سے تمہیں بذریعہ ایمان نجات عطا کی، اسی طرح اللہ تعالیٰ ... اپنے اوامرو نواہی اور اپنے احسانات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص) ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت ١٠١ ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے : (وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے چمٹ جائے (اللہ کی حفاظت میں آجائے) اس کو تو ہدایت ہوگئی صراط مستقیم ... کی طرف۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے : (وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ ) اور اللہ سے چمٹ جاؤ ! اب اللہ کی حفاظت میں کیسے آیا جائے ؟ اللہ سے کیسے چمٹیں ؟ اس کے لیے فرمایا : (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ ) کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور یہ اللہ کی رسّی کونسی ہے ؟ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن ہے۔ ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو ‘ اور دوسری طرف اس میں علم آنا چاہیے ‘ قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے ‘ قرآن کے نظریات کو سمجھنا چاہیے ‘ قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی طرح نہیں ہوسکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے کر سب کو ہانک رہا ہے۔ انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں گے ‘ ان کی سوچ ایک بنانی ہوگی۔ یہ حیوان عاقل ہیں ‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک ہو ‘ نظریات ایک ہوں ‘ مقاصد ایک ہوں ‘ ہم آہنگی ہو ‘ نقطۂ ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع ہوں گے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جو ان میں یک رنگئ خیال ‘ یک رنگئ نظر ‘ یک جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے ‘ اور وہ قرآن ہے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں : (وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ) (١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کِتَاب اللّٰہِ ‘ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ) (٢) اللہ کی کتاب (کو تھامے رکھنا) ‘ یہی وہ مضبوط رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا : (اَبْشِرُوْا اَبْشِرُوْا ۔۔ فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ‘ طَرْفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرْفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ ) (٣) خوش ہوجاؤ ‘ خوشیاں مناؤ۔۔ یہ قرآن ایک واسطہ ہے ‘ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ چناچہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و سرچشمہ اور مبنیٰ و مدار قرآن ہے۔ اس کا عنوان ہی دعوت رجوع الی القرآن ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی الحمد للہ اسی کام میں کھپائی ہے اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ایک سالہ رجوع الی القرآن کو رس برسہا برس سے جاری ہے۔ اس کو رس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں ‘ جو ایم اے؍ایم ایس سی ہوتے ہیں ‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں ‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہوگی تو پھر آپ دین کے اس رخ پر آگے چلیں گے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ اللہ کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً ) (فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ ) (فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ج) یہاں اوّلین مخاطب انصار ہیں۔ ان کے جو دو قبیلے تھے اوس اور خزرج وہ آپس میں لڑتے آ رہے تھے۔ سو برس سے خاندانی دشمنیاں چلی آرہی تھیں اور قتل کے بعد قتل کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن جب ایمان آگیا ‘ اسلام آگیا ‘ اللہ کی کتاب آگئی ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے تو اب وہ شیر و شکر ہوگئے ‘ ان کے جھگڑے ختم ہوگئے۔ اسی طرح پورے عرب کے اندر غارت گری ہوتی تھی ‘ لیکن اب اللہ نے اسے دارالامن بنا دیا۔ (وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ) (فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا ط) (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ ) اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل کے یہ دو نکتے بیان ہوگئے۔ سب سے پہلے افراد کے کردار کی تعمیر ‘ انہیں تقویٰ اور فرمانبرداری جیسے اوصاف سے متصف کرنا ۔۔ اور پھر ان کو ایک جمعیت ‘ تنظیم یا جماعت کی صورت میں منظم کرنا ‘ اور اس تنظیم کا معنوی محور قرآن مجید ہونا چاہیے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ بقول علامہ اقبال : عاعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست ! اس کو مضبوطی سے تھامو کہ یہ حبل اللہ ہے ! اس جماعت سازی کا فطری طریقہ بھی ہم اسی سورت کی آیت ٥٢ کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ داعی بن کر کھڑا ہو اور (مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ) کی آواز لگائے کہ میں تو اس راستے پر چل رہا ہوں ‘ اب کون ہے جو میرے ساتھ اس راستے پر آتا ہے اور اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے ؟ ایسی جمعیت جب وجود میں آئے گی تو وہ کیا کرے گی ؟ اس ضمن میں یہ تیسری آیت اہم ترین ہے :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83. The expression 'cable of Allah', in this verse, refers to the 'religion of God'. The reason for use of the word 'cable' (habl) is that it both establishes a bond between man and God and joins all believers together. To take a firm hold on this cable means that the believers should attach profound importance to their religion: this should always be the centre of their concerns; they should cont... inually strive to establish it; and the common desire to serve it should make them co-operate with each other. As soon as Muslims turn their attentions away from the fundamental teachings of their religion and lose sight of establishing its hegemony in life they begin to concern themselves with matters of secondary importance. And, just as they rent the communities of the former Prophets, enticing people away from their true objective in life, so schisms and dissensions are bound to plague their lives. If Muslims do this they are bound to suffer indignity and disgrace both in this world and the Next as happened with the followers of the previous Prophets. 84. This refers to the state of the Arabs on the eve of the advent of Islam. There were animosities among the tribes which regularly broke out into fighting; every now and then there was much bloodshed. Things had reached a point that the entire Arabian nation seemed to be on the verge of destroying itself. It was due to the blessings of Islam alone that it was saved from being consumed by the fire to which this verse alludes. The people of Madina had embraced Islam some three or four years before these verses were revealed. They had witnessed the blessing of Islam as it unified into one brotherhood the Aws and Khazraj, two tribes which had long been sworn enemies. Moreover, both tribes treated the migrants from Makka in a spirit of sacrifice and love seldom seen even among members of the same family. 85. If they had eyes to see they could conclude for themselves whether their salvation lay in adhering firmly to this religion or in abandoning it and reverting to their former state; i.e. decide whether their true well-wishers were God and His Messenger or those Jews, polytheists and hypocrites who strove to plunge them back into their former state.  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :83 اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے ۔ اس رسی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانو... ں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو ، اسی سے ان کو دلچسپی ہو ، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں ، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :84 یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے ۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں ، اور شب و روز کے کشت و خون ، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی ۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی ۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے ، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے ، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے ، اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتاؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :85 یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اسے چھوڑ کر پھر اسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالت سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3ـ:101) یعتصم۔ واحد مذکر غائب مضارع مجزوم اعتصام (افتعال) مصدر۔ مضبوط پکڑنا ہے۔ عصمۃ۔ گردن بند۔ حمیل عصمۃ اور عصام کتے وغیرہ کی گردن کا پٹہ۔ عصام۔ مشک کا بندھن معصم کلائی کا پونچا۔ عصم مصدر۔ (ضرب سے) اختیار کرنا۔ بچانا۔ محفوظ رکھنا ۔ عصم الیہ اس نے اس کی طرف پناہ لی۔ اعتصام (افتعال) گناہ سے بچے رہن... ا۔ انعصام (انفعال) گناہ سے بچنا۔ (3:103) الف۔ اس نے الفت دی۔ اس نے محبت ڈال دی۔ تالیف (تفعیل) سے جس کے معنی جمع کرنے اور الفت پیدا کرنے کے ہیں۔ تالیف القلوب دلوں کو اکٹھا کرنا ۔ باہمی الفت پیدا کرنا۔ شفا۔ کنارہ۔ یہ لفظ ہلاکت کے قریب ہونے کے لئے ضرب المثل ہے (ش ف و حروف مادہ ہیں) چناچہ کہتے ہیں اشفی فلان علی الہلاک فلاں ہلاکت کے قریب پہنچ گیا۔ حضرۃ۔ گڑھا۔ حفر سے مشتق ہے جس کے معنی زمین کھودنے کے ہیں۔ حفر جمع حفار گورکن۔ محفر بیلچہ۔ شفاحفرۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ گڑھے کا کنارہ۔ انقذکم۔ الانقاذ (افعال) کسی خطرہ یا ہلاکت سے خلاصی دینا۔ نجات دینا۔ اس نے تم کو بچا لیا۔ صیغہ ماضی واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ فرس نقیذ دشمن کے ہاتھ سے چھینا ہوا گھوڑا۔ گویا وہ دشمن سے بچا لیا گیا ہے۔ جمع نقائد۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یہاں حبل اللہ۔ اسے مراد قرآن ہے متعدد احادیث میں بھی قرآن کو حبل اللہ الممدود فرمایا گیا ہے۔ (شوکانی مسلمان ہو جو فرقہ بندویوں بھی اسی صورت میں نجات پاسکتے ہیں کہ قرآن کا لا ئحہ عمل قرار دیں اور ذاتی آراو و خیالات کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ائمہ دین کے اقوال و ... فتاوی ٰ کا قرآن وسنت کا درجہ دے کر تحرتب اختیار کریں۔6 اسلام سے پہلے اوس و خزرج ہی نہیں بلکہ عرب شرک و کفر اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے اسی کو یہاں آگ کے کنارے کھڑا ہونے سے تعبیر فرمایا ہے مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گر نے سے بچالیا اور عداوت کی بجائے اخوت پیدا کردی (قرطبی۔ ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی بوجہ کافر ہونے کے دوزخ سے اتنے قریب تھے کہ بس دوزخ میں جانے کے لیے صرف مرنے کی دیر تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

دوسری اساس جس پر اسلامی سوسائٹی کی عمارت اٹھتی ہے وہ اخوت اسلامی کی اساس ہے ۔ صرف اللہ کے نام پر برادری ‘ اسلامی نظام زندگی کی رفاقت ‘ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے کی رفاقت ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُ... مْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو ‘ اور تفرقہ میں نہ پڑو ‘ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ اس نے تمہارے دل جوڑ دیئے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ‘ اللہ نے تم کو بچالیا ۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ تم ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا رستہ نظر آجائے ۔ “ یہ اخوت گویا خدا خوفی اور ایمان سے پھوٹتی ہے ‘ یعنی اسلام کی اساس اول ہے ۔ اور اخوت کی بنیاد اللہ کی رسی ہے ۔ یعنی اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی اساس پر ‘ اس کے دین کی اساس پر اور اس کے منہاج کی اساس پر ۔ اس اخوت کی اساس جاہلیت کی اکٹھ کی اساس پر نہیں ہے ‘ نہ جاہلیت کے کسی دوسرے مقصد کی اساس پر ہے ‘ نہ کسی اور رسی پر جو اللہ کی رسی کے علاوہ ہو۔ صرف اللہ کی رسی پر َاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا……………” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ “ یہ اخوت جس کی اساس اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے پر ہے ‘ اللہ تعالیٰ پہلی جماعت اسلامی پر اپنا احسان عظیم بتاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ یہ وہ نعمت ہے ‘ جس سے اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کو سرفراز فرماتے ہیں جن سے اللہ کو محبت ہوتی ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اس انعام کو یاد دلاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ذرا اس حالت کو ذہن میں لائیں جس پر وہ جاہلیت کے دور میں تھے ۔ یعنی وہ ” اعداء “ تھے۔ ایک ایک کا دشمن تھا ۔ دیکھو مدینہ میں اوس اور خزرج کی طرح دشمنی کا نمونہ اور کوئی پیش کرسکتا ہے ۔ یہ یثرب کے دوقبیلے تھے ‘ یہ قبیلے یہودیوں کے پڑوس میں رہتے تھے اور یہ یہودی ان کے درمیان عداوت کی آگ سلگائے رکھتے تھے ‘ وہ ہر وقت پھونکیں مارتے تھے ‘ اور اس آگ کو اس قدر تازہ رکھتے کہ وہ ان کے درمیان ہر قسم کے تعلقات کو جلاکر بھسم کردیتی ۔ یہودیوں کے لئے یہ ایک اچھا میدان کار تھا ۔ اور وہ اسی میں رات اور دن کام کرتے رہے تھے ۔ اور اسی کے ساتھ زندہ رہتے تھے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان دو عربی قبیلوں کی تالیف قلب کا سامان کردیا اور یہ اسلام تھا ‘ یہ صرف اسلام ہی تھا جس نے ان نفرت کرنے والے قبائل کے دلوں کو جوڑا۔ اور یہ صرف اللہ کی رسی ہی تھی جسے سب نے مضبوطی سے پکڑرکھا تھا اور وہ اللہ کے اس احسان کی وجہ سے بھائی بھائی بن گئے تھے ۔ یہ صرف اسلامی اخوت ہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے اپنی تاریخی دشمنیاں بھول سکتے ہیں ‘ یا اپنے قبائلی انتقام معاف کرسکتے ہیں ‘ یا لوگ اپنے ذاتی مفادات اور فرقہ وارانہ روایات کو ترک کرسکتے ہیں اور پھر تمام لوگ اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے سامنے ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ” اور تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ اس نے تمہارے دل جوڑ دئیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ۔ “ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنا وہ احسان جتلاتے ہیں کہ وہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے پر تھے اور قریب تھا کہ وہ اس میں گرجائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بچالیا۔ اور وہ اس سے اس طرح بچے کہ انہوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلیا اور ایمان لے آئے ۔ یہ تھی اسلام کی پہلی اساس ۔ اور پھر ان کے دلوں میں محبت ڈال دی اور وہ بھائی بھائی بن گئے اور یہ محبت اور رفاقت اسلام کے اجتماعی نظام کی دوسری اساس تھی ۔ اس لئے فرمایا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا……………” اور تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے تھے ‘ اس نے تم کو اس سے بچالیا۔ “ آیت میں ” تمہارے دل جوڑ دیئے “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ دل کا لفظ اس لئے استعمال ہوا ہے کہ باہم انسانی رابطے اور شعور دلوں کی ایک گٹھڑی میں باہم ملاکر ‘ جوڑ دیا گیا ‘ اور وہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد اور میثاق کی رسی کے ساتھ باندھ دیا گیا ۔ اس طرح اس آیت میں مسلمانوں کی اس وقت کی تصویر کو جامہ الفاظ پہنایا گیا ہے بلکہ ان کی صورتحال ایک زندہ اور متحرک منظر میں نظر آرہی ہے کہ وہ وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ……………” اور تم آگے سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے پر تھے ۔ “ اور صورت حال یوں تھی کہ تم گرنے ہی والے تھے اچانک اللہ کے دست قدرت نے تمہیں بچالیا ۔ گویا اللہ کا ہاتھ محسوس اور شاہد ہے ۔ اللہ کی رسی محسوس طور پر نظر آتی ہے ۔ اور انتہائی خطرے کی صورت حال سے قوم بال بال بچ جاتی ہے ۔ یہ ایک زندہ ‘ متحرک نظارہ ہے ۔ اس منظر کو دیکھنے والوں کے دل دھڑک رہے ہیں اور خطرہ سامنے موجود ہے ۔ صدیوں اور نسلوں کے بعد گویا آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔ محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت میں اس کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ آیت اوس اور خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک یہودی ایک ایسی محفل کے پاس سے گزرا جس میں اوس اور خرزج کے لوگ بھائیوں کی طرح بیٹھے ہوئے تھے ‘ اسے یہ بات بہت ہی شاق گزری ۔ اس پر اس نے ایک شخص بھیجا اور اسے کہا کہ جنگ بعاث میں ان کے درمیان جو واقعات ہوئے تھے ذرا اس محفل میں ان کا تذکرہ کرے اور یہ شخص اور ان کی محفلوں میں ان واقعات کا اپنے انداز میں تذکرہ کرتارہا ۔ اس طرح لوگ ایک دوسرے کے خلاف گرم ہوگئے ۔ ایک دوسرے کو غضبناک نظروں سے دیکھنے لگے ۔ ایک دوسرے کے اندر انہوں نے جذبہ انتقام بھڑکایا ۔ اپنے اپنے جھنڈے اٹھالئے ‘ اسلحہ طلب ہوگیا اور مقام ” حرہ “ دوبارہ جنگ کے لئے تقریباً طے ہوگیا ۔ اس بات کی اطلاع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو ہوگئی ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس آئے ‘ انہیں ٹھنڈا کیا اور فرمایا :” کیا تم دوبارہ جاہلیت کی طرف دعوت دیتے ہو اور میں تمہارے درمیان ہوں۔ “ اس کے بعد آپ نے ان پر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس پر انہیں سخت ندامت ہوئی ۔ فوراً ان کے درمیان صلح ہوگئی ۔ انہوں نے باہم معانقہ کیا اور اسلحے پھینک دئیے ‘ اللہ ان سے راضی ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے حقیقت واضح فرمائی تو وہ راہ ہدایت پر آگئے ۔ اور ان کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بات سچی ہوگئی ۔ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ……………” اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تم پر روشن کرتا ہے تاکہ ان نشانیوں میں سے تمہاری فلاح کا سیدھا راستہ نظرآئے ۔ “ مسلمان ایک دو سے سے محبت کرتے تھے ‘ اللہ کے نظام پر قائم تھے اور تمام انسانیت کی قیادت کرنے کی راہ پر گامزن تھے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے اور یہودی یہ سعی کررہے تھے کہ اس رسی کو کاٹ دیں ۔ یہودیوں کی ان مسلسل سازشوں کا یہ ایک نمونہ ہے ‘ جو وہ مسلسل جماعت مسلمہ کے خلاف کرتے رہے رہتے ہیں ۔ اور یہ سازشیں وہ ہمیشہ اس وقت کرنے لگتے ہیں جب مسلمان اللہ کی رسی کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلامی نظام زندگی کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ان کی یہ کوششیں کامیاب ہی اس لئے ہوتی ہیں کہ مسلمان اہل کتاب کی پیروی شروع کردیتے ہیں اور ان کی یہ ریشہ دوانیاں اس قدر گہری چال پر مبنی ہوتی ہیں کہ قریب تھا کہ وہ دور اول کے مسلمانوں کو بھی باہم دست گریباں کردیں اور انہیں اسلام سے پھیر کر دوبارہ کفر کے حالات میں داخل کردیں۔ اور ان کے درمیان رابطہ پیدا کرنے والی اللہ کی مضبوط رسی کو کاٹ دیں ‘ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے تھے اور متفق اور مجتمع ہوگئے تھے ۔ آیت کا یہ ٹکڑا اس آیت اور اس سے قبل کی آیات کے درمیان ربط کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہ ہو یا نہ ہو ‘ آیت بہرحال اس واقعہ کے مقابلہ میں ایک عام صورت حال کو بیان کررہی ہے ۔ کیونکہ اس کے سیاق اور سباق یہ بتا رہے ہیں کہ اس وقت یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے اور ان کے اندر تفریق پیدا کرنے میں ایک زبردست تحریک مسلسل چل رہی تھی ۔ وہ اپنے تمام وسائل کو کام میں لاکر اسلامی صفوں میں فتنہ انگیزیاں اور تفرقہ برپا کرنے کی کوشش میں ہر وقت لگے رہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کو بار بار تنبیہ کرتا ہے کہ یہودیوں اور اہل کتاب کی سازشوں کے مقابلے میں ہوشیار رہیں ‘ وہ ان کے درمیان شکوک و شبہات اور نفاق کے بیج بو رہے ہیں اور ان کے اندر فکری انتشار کے لئے ہر وقت کوشاں ہیں ۔ ہر دور میں یہودیوں کا مسلمانوں کے حوالے سے یہی طرزعمل ہے ۔ آج بھی وہ یہی کچھ کررہے ہیں اور کل بھی ان کا رویہ یہی ہوگا ‘ ہر اسلامی سوسائٹی اور ہر زمانے میں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی نعمت کی یاد دہانی : پھر فرمایا (وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً ) (الآیۃ) کہ تم اللہ کے انعام کو یاد کرو جبکہ تم دشمن تھے اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرمائی لہٰذا تم اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے اللہ نے تم...  کو بچا لیا۔ دوزخ کے کنارہ پر ہونا تو ظاہر ہی ہے کیونکہ اوس اور خزرج دونوں قبیلے کافر اور مشرک تھے اور ان کی آپس کی دشمنی کا یہ عالم تھا کہ بقول ابن اسحاق اوس اور خزرج میں ایک سو بیس سال تک جنگ جاری رہی تھی جب دونوں قوموں نے اسلام قبول کیا تو وہ جنگ کی آگ اللہ نے بجھا دی ان کے درمیان اللہ نے الفت پیدا فرما دی۔ (درمنثور صفحہ ٦١: ج ٢) آخر میں فرمایا (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ) کہ اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیات بیان فرماتے ہیں تاکہ تم ہدایت پر رہو۔ ضروری تنبیہ : مذکورہ بالا آیات میں اول تو تقویٰ کا حکم فرمایا اور یہ فرمایا اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔ پھر فرمایا کہ جب مرو تو اسلام ہی کی حالت میں مرو، شیطان کے بہکانے سے یا دشمنوں کے ورغلانے سے یا دنیا کی محبت کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار مت کرو۔ پھر سب مسلمانوں کو اتفاق کے ساتھ مجتمع رہنے کی ہدایت فرمائی سب کو معلوم ہے کہ اتفاق و اتحاد ہر قوم کی قوت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اور اتفاق اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب کہ ہر قبیلہ ہر قوم ہر علاقہ کے لوگ اسلام کی قوت اور ساکھ برقرار رکھنے کے لیے اپنے اپنے جذبات کو دبا کر رکھیں۔ مسلمانوں کا پورے عالم میں ایک ہی امیر المومنین ہونا چاہیے اور مشرق سے مغرب تک تمام مسلمانوں کا ایک ہی ملک ہو تو اس قوت کا کیا عالم ہوگا اس کو غور کرلیں۔ دشمنوں نے جو عصبیتیں بیدار کردی ہیں کہ عربی عجمیوں کے ماتحت کیوں رہیں اور عراقی اور شامی اور یمنی حجاز کے ماتحت کیوں رہیں اور سندھی پنجابیوں کے ماتحت کیوں رہیں اور بنگالی پٹھانوں کے ماتحت کیوں رہیں اور غیر بنگالی بنگالیوں کے ماتحت کیوں رہیں ان باتوں نے کثیر تعداد میں مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے ملک بنا دئیے ہیں پھر دشمن نے ان ملکوں کے سر براہوں پر سیاسی یا نظریاتی قبضہ کر رکھا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تمہارا امیر ایسا شخص بنا دیا جائے جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں جو تمہیں اللہ کی کتاب کے ذریعہ لے کر آگے چلتا ہو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ ١٢٠: ج ٢) ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایسے شخص کو عامل بنا دیا جائے جو حبشی غلام ہو گویا کہ اس کا سر کشمش کی طرح چھوٹا سا ہو۔ (رواہ البخاری صفحہ ١٠٥: ج ٢) حضرت عبادۃ بن الصامت (رض) سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی کہ بات سنیں گے اور فرمانبرداری کریں گے تنگی میں بھی اور آسانی میں بھی، خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی اور اس بات پر بھی کہ صاحب اقتدار سے جھگڑا نہ کریں گے ہاں اگر بالکل ظاہر باہر کفر نظر آئے جس کے بارے میں ہمارے پاس اللہ کی طرف سے کھلی ہوئی دلیل ہو تو اس وقت ہم اس سے جھگڑا کریں گے۔ (رواہ مسلم صفحہ ١٢٥: ج ٢) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امیر المومنین کیسا ہی ہو اس کے ساتھ چلنا چاہیے۔ بشرطیکہ اللہ کی کتاب کے ذریعہ لے کر چلتا ہو۔ اپنی رائے اور منشاء کے موافق ہو تب بھی فرمانبر داری کریں اور اپنی رائے اور منشا کے مخالف ہو تب بھی فرمانبر داری کریں۔ اگر ہمارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی جاتی ہو تب بھی بات مانیں اور اطاعت کریں۔ اگر کالے حبشی کو امیر بنا دیا جائے تب بھی اطاعت کریں۔ حبشی کی مثال دینے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رنگ اور نسل کا سوال ختم فرما دیا اور یہ جو فرمایا کہ اگر امیر کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں تب بھی بات سنیں اور اطاعت کریں۔ اس سے صورت اور شکل کا سوال ختم فرما دیا۔ پھر عبد حبشی فرما کر یہ بتادیا کہ اگرچہ آئمہ قریش سے ہونے چاہئیں، لیکن اس کے خلاف کسی غلام کو بھی اقتدار دے دیا جائے تب بھی اس سے جڑے رہو بعض مرتبہ امیر کی رائے سے اختلاف ہوجاتا ہے اور اس کی رائے خطا معلوم ہوتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے اس نے صحیح فیصلہ نہیں کیا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ باوجود اختلاف رائے کے جھگڑا نہ کریں ہاں اگر بالکل ہی دلیل واضح سے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا فیصلہ بالکل کا فرانہ فیصلہ ہے اور تم اس کی دلیل اللہ پاک کے حضور میں دے سکتے ہو تو اس سے منازعت کرسکتے ہو۔ امیر اور مامورین کے بارے میں احادیث تو اور بھی ہیں لیکن ان چند احادیث میں ایسے چند امور ارشاد فرما دیئے جن کو اختیار کرنے سے امت کا شیرازہ بندھا رہ سکتا ہے اور وحدت قائم رہ سکتی ہے سارے مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوط تھا میں صاحب اقتدار یا عوام یا جماعتیں دشمنوں کا کھلونا نہ بنیں نہ کسی کے ہاتھ بکیں وحدت اسلامیہ کو قائم رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ باوجود یکہ زبانیں مختلف ہوں جغرافیائی اعتبار سے مختلف علاقوں کے رہنے والے ہوں لیکن سب اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے ہوئے ہوں۔ زبانوں کے اختلاف کو اور اختلاف رائے اور فروعی مسائل کو جنگ وجدال اور اختلاف کا ذریعہ نہ بنائیں اور پہلے سے دیکھ کر متقی آدمی کو امارت اور خلافت سونپیں، یورپ سے آئی ہوئی جمہوریت جاہلیہ کو ذریعہ انتخاب نہ بنائیں۔ جو فاسقوں بلکہ کفریہ عقائد رکھنے والوں کو بھی اقتدار اعلیٰ اور اقتدار ادنیٰ دلوا دیتی ہے۔ افتراق کے اسباب، اتحاد کا طریقہ : اس آیت میں اول تو اجتماعیت کا طریقہ بتایا (وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا) پھر افتراق سے منع فرمایا اور واضح طور پر بتایا (وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ) (آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ یہ میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے لہٰذا تم اس کا اتباع کرو اور دوسری راہوں پر مت چلو وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی) مسائل فرعیہ میں جو آئمہ کا اختلاف ہے وہ اتحاد و اتفاق سے مانع نہیں ہے صدیوں سے حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنبلیہ، ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرتے رہے ہیں۔ حضرات صحابہ (رض) میں بھی مسائل میں اختلاف تھا لیکن وہ باوجود اختلاف کے آپس میں شیرو شکر ہو کر مجتمع رہے۔ اگر کہیں شدید اختلاف ہوگیا تو وہ بھی اللہ ہی کے لیے تھا۔ کسی سے خطا اجتہا دی ہوگئی یہ دوسری بات ہے لیکن مقصد کسی کا دین اسلام کے خلاف چلنا نہ تھا، البتہ اصحاب ہویٰ (جنہیں اپنی خواہشات پرچلنا ہے) اہل حق کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ بحوالہ درمنثور روایت گذر چکی ہے کہ اوس اور خزرج میں ١٢٠ سال سے لڑائی چلی آرہی تھی وہ اسلام قبول کرنے پر ختم ہوگئی اور سب آپس میں بھائی بھائی ہوگئے جس کو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے (وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا) میں یاد دلایا ہے۔ اتنی پرانی دشمنی محبت سے بدل سکتی ہے تو دور حاضر کے مسلمانوں کے آپس کے صوبائی اور لسانی اور سیاسی اختلافات وحدت اسلامیہ کو قائم کرنے کے لیے کیوں ختم نہیں ہوسکتے جو زعماء سیاست ہیں، جنہیں اسلام سے تعلق ہی نہیں وہ برملا اسلام سے اپنی برأت ظاہر کرتے ہیں۔ اسلام کے قوانین پر اعتراض کرتے ہیں عجیب بات ہے کہ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے انہیں کے پیچھے لگے ہوے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو حدود کفر میں تو داخل نہیں ہوئے لیکن وحدت اسلامیہ سے زیادہ انہیں اپنا اقتدار محبوب ہے ان حالات میں وحدت کیسے قائم ہو ؟ جو لوگ نام کے مسلمان ہیں لیکن اپنے عقائد کی وجہ سے اور اسلام پر اعتراض کرنے کی وجہ سے حدود کفر میں داخل ہیں (عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّن النَّار) ان پر بھی صادق ہے یہ لوگ سچے دل سے صحیح معنی میں اسلام قبول کریں تو عذاب دوزخ سے بچ جائیں گے اللہ کی آیات ہمیشہ کے لیے ہیں۔ (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

148 حَبْلِ اللہِ (اللہ کی رسی) سے مراد یہاں قرآن ہے جیسا کہ صحیح سند کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتاب اللہ ھو حبل اللہ المدود من السماء الی الارض (ابن جریر ص 20 ج 4) اور اعتصام کے معنی تمسک اور مضبوطی سے پکڑنے...  کے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان پر مضبوطی سے قائم رہو۔ وَلَاتَفَرَّقُوْا جس کتاب اور دین حق پر تمہیں قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے علیحدگی مت اختیار کرو۔ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا عَنِ الْحَقِّ الذی امرتم بالعتصام بہ (روح ص 19 ج 4) یا مطلب یہ ہے کہ آپس میں اتفاق اور محبت سے رہو۔ شقاق وعداوت سے پرہیز کرو۔ نھی عن المعاداۃ والمخاصمۃ فانھم کانوا فی الجاہلیۃ مواظبین علی المحاربۃ والمنازعۃ فنھاھم اللہ عنھا (کبیر ص 25 ج 3) کیونکہ جب تک آپس میں اتفاق اور ہم آہنگی نہیں ہوگی اس وقت تک جہاد میں کامیابی نہیں ہوسکتی۔ 149 اس آیت میں اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کی باہمی عداوت اور دشمنی کی طرف اشارہ ہے زمانہ کفر کی عداوتیں اور لڑائیاں جو پشتہا پشت سے چلی آرہی تھیں اسلام کی برکت سے وہ یکسر ختم ہوگئیں۔ انصار کے دو قبیلے خزرج اور اوس تھے ان کے مابین کئی پشتوں سے جنگ وجدال اور قتل وخون کا سلسلسہ چلا آرہا تھا جب ان دونوں قبیلوں نے اسلام قبول کرلیا تو ان کی دشمنی ختم ہوگئی۔ جنگیں موقوف ہوگئیں اور آپس میں بھائیوں کی طرح محبت اور الفت سے رہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کی پرانی عداوت کا ذکر کر کے اسلام کے ذریعے محبت والفت پیدا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا ہے تاکہ انہیں اس نعمت کی قدر کا اچھی طح احساس ہوسکے۔ اور یہاں نعمت سے مراد اسلام ہے جس کی برکت سے محبت اور الفت پیدا ہوئی۔ امر تعالیٰ بتذکیر نعمہ واعظمھا الاسلام واتباع نبیہ محمد (علیہ السلام) فان بہ زالت العداوۃ والفرقۃ وکانت المحبۃ والافلۃ الخ (قرطبی ص 164 ج 4) ۔ 150 شَفَا کے معنی کنارے کے ہیں اور حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مَّنْھَا بِالْاِسْلَامِ (مدارک ص 135 ج 1) اللہ تعالیٰ نے یہاں صحابہ کرام کو مخاطب کر کے ان پر دو نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے ایک دنیوی یعنی دنیا میں باہمی محبت واتفاق کا پیدا ہونا اور دوسری اخروی یعنی آخرت میں جہنم سے نجات پانا۔ فائدہ : اس آیت سے صحابہ کرام (رض) کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے دشمنان صحابہ نے مشہور کر رکھا ہے کہ ان کے درمیان باہمی عداوت اور دشمنی تھی لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اسلام لانے کے بعد صحابہ میں عداوت اور دشمنی باقی نہیں رہی تھی بلکہ ان میں محبت اور الفت پیدا ہوگئی تھی وہ آپس میں بھائی بھائی ہوگئے تھے اور دوسرا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ انہیں جہنم کی آگ سے بچا کر جنت کا مستحق بنادیا گیا ہے۔ وذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور دیکھو تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو یعنی حالت اسلام ہی پر دم نکلے اور تم سب باہم متفق ہو کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور آپس میں نااتفاقی اور پھوٹ نہ ڈالو اور حق سے جدا نہ ہو جائو اور اللہ تعالی... ٰ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے جبکہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں الفت و محبت ڈال دی سو تم اس کے فضل کی بدولت بھائی بھائی ہوگئے اور تم لوگ دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو اس گڑھے سے بچا لیا۔ تقویٰ کی تفصیل ہم پہلے پارے میں کرچکے ہیں کہ تقویٰ کے مختلف مدارج ہیں۔ کم سے کم یہ کہ شرک سے بچنا ہو اور زیادہ سے زیادہ یہ کہ ہر قسم کے گناہ سے بچنا ہو اور ہر نیکی کو بجا لاتا ہو۔ یہاں حق تقتہ سے تقویٰ کا وہی اعلیٰ درجہ مراد ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا حق ہے کیونکہ اس کی عظمت کا حق کون ادا کرسکتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو حق ادا کرنے کا تم پر عائد ہوتا ہے اس کو پورا کردو یعنی کفر و شرک سے جس طرح بچنا ضروری ہے اسی طرح تمام گناہوں سے بچو اور جیسا کہ آپس میں لڑنے کو تیار ہوگئے تھے اور مسلمان مسلمان کو قتل کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا ایسا آئندہ نہ کرو کیونکہ یہ حق تقتبہ کے منافی ہے۔ مسلمون سے مراد یہاں مخلصون اور کمال ایمان ہے چونکہ اوپر تقویٰ میں حق تقتہ کی قید لگائی تھی اس لئے مطلب یہ ہے کہ مرد تو ایسی حالت میں مرنا کہ کامل اور مخلص مسلمان ہو کیونکہ کمال تقویٰ کمال اخلاص کی دلیل ہے۔ اب آیت کا خلاصہ یہ ہوگا کہ مسلمانو ! تقویٰ کا بلند مرتبہ اختیار کرو اور اس پر آخر دم تک قائم رہو یہاں تک کہ جب مرد تو ایسی حالت پر مرد اس حالت کے علاوہ اور کسی حالت پر تم کو موت نہ آئے۔ اس تقریر کے بعد جو ہم نے عرض کی ہے فاتقوا اللہ ما استطعتم کی آیت کو اس آیت کا ناسخ قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بندے پر جو تقویٰ کا حق عائد ہوتا ہے وہ استطاعت میں داخل ہے۔ (واللہ اعلم) تقویٰ اور موت علی الاخلاص کی تاکید کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رسی کو باہم متفق اور متحد ہو کر مضبوط پکڑے رہو اور ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جائو۔ اللہ کی رسی سے مراد قرآن یا ایمان یا عہد خداوندی یا اعتماد علی اللہ وغیرہ مراد ہے اسی کا استعمال بطور استعارہ کیا گیا ہے۔ جس طرح رسی پکڑ کر چلنے سے انسان محفوظ رہتا ہے اور خطر سے بچا رہتا ہے۔ جیسا کہ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ دونوں طرف رسی کے دونوں سرے بندھے ہوئے ہوں تو لوگ رسی کو پکڑ کے بےخوف و خطر اترتے چڑھتے ہیں یہاں چونکہ قوموں کی ہدایت اور ثابت قدمی کا معاملہ ہے اس لئے فرمایا کہ تم سب متفق ہو کر قرآن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو یا اللہ کے اعتماد کی رسی کو مضبوط پکڑو۔ یا خدا سے جو عہد کیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔ یا اس سلسلے کو جو تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو خواہ وہ قرآن ہو یا اسلام ہو تاکہ تم بلاخوف و خطر اپنی راہ پر سلامتی کے ساتھ گزر جائو اور منزل مقصود تک پہنچ جائو اور راستے کی گمراہیوں سے محفوظ رہو، اس حکم کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کی طرف توجہ دلائی کہ دیکھو اسلام سے پہلے تم لوگ آپس میں کیسے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ اوس اور خزرج کا ہی صرف معاملہ نہیں ہے بلکہ تمام عرب ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے اور تم سب باہم رقابتی جنگ میں مبتلا تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ احسان فرمایا کہ تمہارے قلوب میں باہم الفت و محبت ڈال دی اور اسلام قبول کرتے ہی تم سب آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے جو الفت و محبت کی شکل اختیار کی گئی اس سے باہمی رقابتیں اور عداوتیں ختم ہوگئیں اور قومی زندگی میں یہ بات اگر کسی قوم کو میسر ہوجائے کہ اس کے افراد باہم متفق و متحد اور باہمی آویزش سے پاک ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور اس کا بہت بڑا فضل ہے اس کے بعد ایک اور احسان کی جانب توجہ دلائی جو حقیقتاً اس احسان مذکور کی بنیاد ہے اور یہ الفت و محبت انہی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ یہ کہ تم لوگ ایک آگ کے بھرے ہوئے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے اور اس گڑھے میں گرنے والے ہی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے بچا لیا یعنی تم لوگ کفر و شرک میں مبتلا تھے اور جاہلانہ گمراہیوں نے تم پر گھیرا ڈال رکھا تھا اور یہ چیزیں دوزخ میں گر جانے کا سبب اور جہنم میں جانے کی علت تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو اسلام کی بدولت اس گڑھے میں گرنے سے بچا لیا اور اسلام قبول کرنے کی برکت سے وہ سبب زائل ہوگیا۔ لہٰذا اب تم ایسی حرکات کے مرتکب نہ ہو کر جو سبب زائل ہوا تھا خدانخواستہ کہیں وہ پھر عود کر آئے۔ اگر اسلام کے بعد اور الفت و محبت جو تمہارے قلوب میں پیدا کردی گئی ہے اس کے بعد زمانہ جاہلیت کی طرح پھر آپس میں لڑو گے اور ایک دوسرے کا گلا کاٹو گے تو وہ نعمت سلب ہوجائے گی اور یہ الفاظ و محبت زائل ہوجائے گی اور کبائر کے ارتکاب سے اسلام کی نعمت اگر زائل نہ بھی ہوگی تو مضمحل تو ضرور ہوجائے گی۔ فانقذکم منھا کی ضمیر کا مرجع گڑھا بھی ہوسکتا ہے آگ بھی ہوسکتی ہے اور کفارہ بھی ہوسکتا ہے ہم نے ایک صورت اختیار کرلیا ہے۔ ولا تفرقوا کے بھی کئی معنی ہیں۔ ہم نے تیسیر میں وضاحت کردی ہے۔ مطلب آپس کی تفریق سے روکنا ہے یا امر حق سے کٹ کر علیحدہ ہوجانے کی ممانعت ہے۔ جیسا کہ بکثرت احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور اہل حق کی جماعت کے ساتھ رہنے اور امام کا ساتھ دینے کی تاکید منقول ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے امام احمد اور امام مسلم نے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں کو پسند کرتا ہے اور تین باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور تم پر غصے ہوتا ہے۔ پسندیدہ تین باتیں یہ ہیں۔ (1) اللہ کی بندگی کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ (2) اللہ کی رسی کو متفق و متحد ہو کر مضبوط پکڑے رہنا۔ (3) جو مسلمان والی مقرر ہوجائے اس کی خیر خوایہ کرنا۔ جن تین باتوں پر وہ غضب ناک ہوتے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔ (1) بےکار قیل و قال کرنا۔ (2) مال کو ضائع کرنا۔ (3) بکثرت اور بلاضرورت سوال کرنا۔ غرض اہل حق کی جماعت سے جدا نہیں ہونا چاہئے ورنہ شیطان اچک لے گا۔ جیسا کہ بھیڑیا اس بکری کو آسانی سے لے بھاگتا ہے جو اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ یہ مضمون بھی حضرت معاذ بن جبل کی روایت کا ہے جس کو امام احمد نے نقل کیا ہے اس کے بعد اپنے دلائل کی عمومیت کا اظہار فرماتے ہیں ۔ (تسہیل) ف 2 جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ احکام مذکور جو اوپر واضح طور پر بیان فرمائے ہیں اسی طرح اپنے اور احکام بھی وہ واضح اور صاف صاف طور پر بیان کرتا رہتا ہے تاکہ تم راہ راست پر ثابت قدم رہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک مجلس میں مسلمان اور یہود تھے یہود نے مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا اور قریب ہوا کہ شمشیر چلے۔ حضرت آپ وہاں پہنچے اور صلح کرا دی۔ لڑا دیا اس طرح کہ مدینے کے لوگ دو فرقے تھے۔ اسلام سے پہلے آپس میں لڑ چکے تھے اور دونوں طرف لوگ بہت مرے تھے اس وقت یہود نے دونوں کو وہی لڑائی یاد دلا کر غصہ چڑھایا اور لڑا دیا۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو خبردار کرتا ہے کہ نہ بہکو اور آپس کا اتفاق نعمت سمجھو اور یہود کی طرح پھوٹ کر خراب نہ ہو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے اسی شماس بن قیس کی شرارت اور فتنہ جوئی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے اوس اور خزرج کو لڑانے کا سامان کیا تھا۔ بہرحال اوپر کی آیتوں میں کفار کی گمراہی اور خدا کی راہ سے روکنے کی مذمت تھی پھر مسلمانوں کو صحیح راہ پر قائم رہنے کا حکم تھا۔ اب آگے کی آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی تبلیغ کیا کریں اور دوسروں کو بھی صحیح راہ دکھانے اور بتانے کا فریضہ انجام دیا کریں۔ چونکہ اسلام ایک عالمگیر حقانیت کا داعی ہے لہٰذا دوسروں کو اس کی دعوت دینا ضروری ہے۔ (تسہیل)  Show more