Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 123

سورة آل عمران

وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۳﴾

And already had Allah given you victory at [the battle of] Badr while you were few in number. Then fear Allah ; perhaps you will be grateful.

جنگ بدر میں اللہ تعالٰی نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب کہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے اس لیے اللہ ہی سے ڈرو! ( نہ کسی اور سے ) تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ ... And Allah has already made you victorious at Badr, meaning, during the battle of Badr, which occurred on a Friday, the seventeenth of Ramadan, in the second year of Hijrah. The day of Badr is known as Yawm Al-Furqan (the Day of the Clarification), by which Allah gave victory and dominance to Islam and its...  people and disgraced and destroyed Shirk, even though the Muslims were few. The Muslims numbered three hundred and thirteen men, with two horses and seventy camels. The rest were foot soldiers without enough supplies for the battle. The enemy army consisted of nine hundred to a thousand men, having enough shields and supplies, battle-ready horses and even various adornments. However, Allah gave victory to His Messenger, supported His revelation, and illuminated success on the faces of the Prophet and his following. Allah also brought disgrace to Shaytan and his army. This is why Allah reminded His believing servants and pious party of this favor, وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ... And Allah has already made you victorious at Badr, when you were a weak little force, when you were few then. This Ayah reminds them that victory is only from Allah, not because of a large army and adequate supplies. This is why Allah said in another Ayah, لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْيًا ...and on the day of Hunayn (battle) when you rejoiced at your great number, but it availed you naught... until, وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ...and Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful (9:25-27). Badr is an area between Makkah and Al-Madinah and is known by the well that bears its name, which in turn was so named after Badr bin An-Narayn, the person who dug the well. ... فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ So have Taqwa of Allah that you may be grateful. means, fulfill the obligations of His obedience.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

123۔ 1 بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان 313 تھے اور یہ بھی بےسرو سامان۔ صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] قلت تعداد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بدر کے میدان میں تم ہر لحاظ سے کمزور تھے۔ تعداد بھی کم تھی۔ اسلحہ جنگ اور رسد بھی بہت کم تھی تو ان حالات میں جب اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرچکا ہے تو اے کمزوری دکھانے والے اور دل چھوڑنے والے مسلمانو ! اب وہ تمہاری مدد کیو... ں نہ کرے گا ؟ پس تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کی نصرت کے لیے غیب سے سامان مہیا کردیتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ نَصَرَ‌كُمُ اللَّـهُ بِبَدْرٍ‌ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ And Allah certainly supported you at Badr when you were weak. (123) Badr : Location and Importance Badr is located about eighty miles south-west of Madinah and used to be a halting-place while travelling between Makkah and Madinah, before the modern Tariq al-Hijrah was commissioned into service which by passes it. At that time, Badr wa... s known for its abundance of water, something very important in the desert zones of Arabia. The first armed encounter between believers and disbelievers came to pass at this spot on Friday, Ramadan al-Mubarak, Hijrah year 2 which fell on March 11, 624 A.D. On a superficial view, this battle appears to be a local tribal war, but the truth is that it has charted a revolutionary course in the history of the world, therefore, the Holy Qur&an calls it Yawm al-Furgan یوم الفرقان (a day of distinction). According to Professor Philip Hitti, this was Islam&s first clear victory. The expression وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ translated as &when you were weak& means that &you were, at that time, few in numbers and materials&. According to strong and authentic narrations, the number of Muslims was 313. This &army& had two horses and seventy camels. On these, they took their turns while riding. The verse ends with the statement: فَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ (So, fear Allah, that you may be grateful). This may remind one of the many places in the Holy Qur&an where Taqwa (fear of Allah) and Sabr (patience) have been prescribed as a security shield against the machinations of the hypocrites and the harmful effects of hostile enemies. Right here, in these two behaviour models, there lies the secret of an entire orga¬nized struggle, and clear victory, that comes in its wake. As mentioned elsewhere, Taqwa and Sabr have not been mentioned here, in conjunc¬tion. Instead, Taqwa has been considered sufficient for, in reality, Taqwa is such a comprehensive human attribute that صبر Sabr too gets to be included therein.  Show more

ارشاد ہے (ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلۃ) یعنی اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بدر میں تمہاری امداد فرمائی، جبکہ تم تعداد میں بھی صرف تین سو تیرہ تھے، اور وہ بھی سب بےسروسامان۔ بدر کی اہمیت اور اس کا محل وقوع : بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں کوئی اسی میل کے فاصلہ پر ایک پر اؤ اور منڈی کا نام ہے۔ ... اس وقت اس کو اس لئے اہمیت حاصل تھی کہ یہاں پانی کی افراط تھی، اور یہ عرب کے ریگستانی میدانوں میں بڑی چیز تھی، توحید اور شرک کے درمیان یہیں سب سے پہلا معرکہ بروز جمعہ ١٧، رمضان المبارک ٢ ھ مطابق ١١ مارچ ٦٢٤ ء کو پیش آیا تھا، یہ غزوہ بظاہر تو ایک مقامی جنگ معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیا، اسی لئے قرآن کی زبان میں اس کو یوم الفرقان کہا گیا ہے، فرنگی مورخوں نے بھی اس کی اہمیت کا اقرار کیا ہے۔ امریکی پروفیسر ہٹی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربین میں کہتا ہے :|" یہ اسلام کی سب سے پہلی فتح مبین تھی |"۔ وانتم اذلۃ، یعنی تم اس وقت تعداد میں قلیل اور سامان میں حقیر تھے، مسلمان تعداد میں قوی روایات کے مطابق ٣١٣ تھے، اس فوج کے ہمراہ گھوڑے صرف دو تھے، اور اونٹ ستر کی تعداد میں تھے، انہی پر لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ آخر کی آیت میں فرمایا گیا فاتقوا اللہ لعلکم تشکرون، یعنی اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم شکر گزار ہو |"۔ قرآن نے جگہ جگہ منافقین کے کید اور شدید مخالفین کے عناد و مخالفت کے نتائج بد سے محفوظ رہنے کے لئے تقوی اور صبر بتلایا ہے، انہی دو چیزوں کے اندر ساری تنظیمی جدوجہد اور فتح مبین کا راز مضمر ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، اور یہاں صبر وتقوی کے بجائے صرف تقوی پر اکتفاء کیا گیا ہے، کیونکہ درحقیقت تقوی ایسی صفت جامع ہے کہ صبر بھی اس میں شامل ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۝ ٠ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ١٢٣ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل (...  قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی بدر قال تعالی: وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] أي : مسارعة، يقال : بَدَرْتُ إليه وبَادَرْتُ ، ويعبّر عن الخطأ الذي يقع عن حدّة : بَادِرَة «2» . يقال : کانت من فلان بَوَادِر في هذا الأمر، والبَدْرُ قيل سمّي بذلک لمبادرته الشمس بالطلوع، وقیل : لامتلائه تشبيها بالبَدْرَةِ «3» ، فعلی ما قيل يكون مصدرا في معنی الفاعل، والأقرب عندي أن يجعل البدر أصلا في الباب، ثم تعتبر معانيه التي تظهر منه، فيقال تارة : بَدَرَ كذا، أي : طلع طلوع البدر، ويعتبر امتلاؤه تارة فشبّه البدرة به . والبَيْدَرُ : المکان المرشح لجمع الغلّة فيه وملئه منه لامتلائه من الطعام . قال تعالی: وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ [ آل عمران/ 123] ، وهو موضع مخصوص بين مكة والمدینة . ( ب د ر ) بدرت الیہ وبادرت : کسی کام کے لئے جلدی کرنا قرآن میں ہے ولا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ یعنی اسراف اور عجلت سے یتیم کا مال مت کھاؤ اور جو لغزش جلدی بازی سے انسان سے سرزد ہوا سے بادرۃ کہا جاتا ہے ۔ بوادر کانت من فلان بوادر فی ھذا الامر فلاں سے اس معاملہ میں جلد بازی سے لغزشیں ہوئی ہیں ۔ البدر ( ماہ کامل ) بعض نے کہا ہے کہ پورے چاند کو بدر اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہے کہ وہ سورج سے پہلے طلوع ہوتا ہے اور بعض نے بدرۃ ( روپے سے بھری ہوئی تھیلی ) سے اخذا کیا ہے اور کہا ہے کہ پورا چاند بھی بدرۃ کی طرح بھر پور ہوتا ہے اس لئے اسے بدرۃ کی طرح بھرپور ہوتا ہے اس لئے اسے بدر کہا جاتا ہے اس توجیہ کی بنا پر یہ مصدر بمعنی فاعل ہوگا ۔ لیکن قرین قیاس یہ ہے کہ بدر کو اس باب میں اصل قرار دیا جائے ۔ اور دوسرے معافی کو بدر کے مختلف اوصاف کے اعتبار سے اس پر متفرع کیا جائے مثلا بدر کذا کے معنی ہوں گے وہ بدر کی طرح طلوع اور ظاہر ہو اور معنی امتلاء کے لحاظ سے دراہم جیسے بھری تھیلی کو بدرۃ کہہ دیتے ہیں اس طرح کھلیان کو البیدر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی غلہ سے پر ہوجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ [ آل عمران/ 123] اور خدا نے جنگ بدر میں تہماری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بےسرو سامان تھے ۔ میں بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور مقام کا نام ہے ذُّلُّ ( محمود) متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة/ 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران/ 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل/ 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان/ 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها أي : مسالکها وطرقها . پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة/ 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران/ 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] يعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٣) اور بدر میں بھی جب کہ تمہاری تعداد صرف تین سو تیرہ (یا کم وبیش) تھی تمہاری مدد کی لہٰذا لڑائی میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس ذات کی مخالفت نہ کرو جو تمہارے ساتھ ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کے انعام پر شکر کرسکو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٣ (وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج) غزوۂ بدر میں ایک ہزار مشرکین کے مقابلے میں اہل ایمان صرف تین سو تیرہ تھے ‘ جبکہ سب کے پاس تلواریں بھی نہیں تھیں۔ کل آٹھ تلواریں تھیں۔ کفار مکہ ایک سو گھوڑوں کا رسالہ لے کر آئے تھے اور ادھر صرف دو گھوڑے تھے۔ ادھر سات سو اونٹ تھے...  اور ادھر ستر اونٹ تھے۔ اس سب کے باوجود اللہ نے تمہاری مدد کی تھی اور تمہیں اپنے سے طاقتور دشمن پر غلبہ عطا فرمایا تھا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی اور ان کے پاس ستر اونٹ دوگھوڑے اور صرف آٹھ تلواریں تھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(123 ۔ 127) ۔ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست ہو کر ایک بڑی پریشانی مسلمانوں میں پھیل گئی تھی۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے احد کی لڑائی کے ذکر میں دو جگہ بدر کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک اس آیت میں اور دوسرے آئندہ کی آیت میں اس طرح کہ اگر اس احد کی لڑائی میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوگئے تو تم بھی تو بدر کی لڑا... ئی میں کافروں کے ستر آدمی مارچکے ہو۔ اور ستر کو قید کرچکے ہو یہ ایک لڑائی کے ذکر میں دوسری لڑائی کا ذکر اسی واسطے فرما دیا ہے کہ اس فتح کی لڑائی کو یاد کر کے اس شکست کی لڑائی کا زیادہ افسوس مسلمانوں کو نہ رہے یہ فرشتوں کی مدد کا ذکر جو اس آیت میں ہے اس میں مفسروں کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ بدر اور احد دونوں لڑائیوں میں فرشتے مدد کو آئے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ فقط بدر کی لڑائی میں فرشتے مدد کو آئے تھے۔ اس اختلاف کا فیصلہ وہی ایک صحیح فیصلہ ہے ١۔ جو فخر المتاخرین ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت خاص کے لئے احد کی لڑائی میں صرف حضرت جبرئیل و میکائیل آئے تھے۔ جس کا ذکر صحیحین میں ہے ٢ بدر کی لڑائی کی طرح عام ملائکہ احد کی لڑائی میں آتے تو مسلمانوں کو شکست نہ ہوتی  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:123) اذلۃ۔ کمزور۔ نرم دل۔ ذلیل۔ ذلیل کی جمع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اذلتہ کے لفظ سے مسلمانوں کی قلت تعداد اور ضعف حال کی طرف اشارہ ہے مقام بدر مدینہ سے قریبا 60 میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ یہ وقعہ بروز جمعہ 27 رمضان المبارک 2 ھ ( مارچ 624) کو پیش آیا، اس آیت میں جنگ احد میں شکست کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معر کہ بدر کے وقعات پر غور وفکر کی دعوت اور آئندہ ... ثابت قدم رہنے کے لیے تقوی یٰ کی تعلیم دی ہے۔ جنگ بدر کی تفصیل کے لیے سورة انفال آیت 41 دیکھئے (شوکانی، ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد اور بدر کے حالات کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ اُحد کی شکست کے عوامل اور محرّکات پر تبصرہ کرنے سے پہلے بدر کی کامیابی ‘ اس وقت کے حالات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کی شکل میں نصرت و حمایت کا تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کا غم ہلکا اور مورال بلند ہو سکے۔ اے مسل... مانو ! میدان بدر کی طرف دیکھو جب تم کمزور اور تعداد میں تھوڑے ہونے کی وجہ سے کفار کی نگاہوں میں حقیر اور کمزور سمجھے جارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی تاکہ تم اللہ سے ڈر کر اپنی کمزوریوں کو دور کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ واقعہ اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا کہ کفار ایک ہزار کا لشکر لے کر بدر کے میدان میں اترنے والے ہیں تو آپ مدینہ سے 313 صحابہ کو لے کر تقریباً 80 میل کا سفر طے کرتے ہوئے بدر میں کفار کے مد مقابل ہوئے۔ صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے ایک ہزار فرشتوں کی مدد کی خوشخبری سنائی جس کا ذکر سورة الانفال آیت : 9 میں کیا گیا ہے۔ لیکن جنگ کا میدان گرم ہونے سے پہلے کفار نے افواہ پھیلائی کہ کرز بن جابر بھاری کمک کے ساتھ ہماری مدد کے لیے پہنچنے والا ہے۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا کہ اے مومنو ! کیا تم کافی نہیں سمجھتے کہ اللہ تمہاری مدد کے لیے تین ہزار مخصوص نشان والے فرشتے نازل کرے ؟ بلکہ اگر تم جرأت و حوصلہ اور تقو ٰی میں آگے بڑھو گے تو فوری طور پر ملائکہ کی کمک کو پانچ ہزار کردیا جائے گا۔ ملائکہ کی بھاری نفری اس لیے اتاری جا رہی ہے تاکہ تمہارے دل مطمئن اور تم خوش ہوجاؤ۔ جب کہ حقیقی مدد تو اللہ غالب حکمت والے کی ہی ہوا کرتی ہے۔ کفار کی تباہی کے لیے ایک فرشتہ ہی کافی تھا لیکن جنگ میں افرادی قوت مجاہدین کے لیے خوشی ‘ تقویت اور حوصلے کا باعث ہوا کرتی ہے اس لیے فرشتوں کی تعداد کو بشارت کے طور پر بڑھا دیا گیا۔ اتنی بڑی حمایت کے باوجود اس بات کی وضاحت کی گئی کہ پانچ ہزار فرشتوں کی بجائے کائنات کے جن و بشر اور ملائکہ بھی تمہاری حمایت کے لیے آجاتے تو وہ تمہیں فتح نہیں دلوا سکتے تھے کیونکہ نصرت و حمایت ‘ فتح و شکست کی طاقت کسی کے پاس نہیں صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہی غالب حکمت والا ہے۔ بدر میں کفار کے ستر سرخیل زمین بوس ہوئے اور ستر کو گرفتار کیا گیا۔ یہ اس لیے ہوا تاکہ کفار کی کمر ٹوٹ جائے اور وہ دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوجائیں۔ مسائل ١۔ تقو ٰی شکر گزاری کا سبب ہے۔ ٢۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تین ہزار مخصوص ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ صابر اور متقی مجاہدین کی مدد میں اضافہ فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کامیابی کی ضمانت اور دلوں کا سکون ہوتی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی مدد نہیں کرسکتا وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ٦۔ مسلمانوں کو اللہ کی مدد پہنچنے کے بعد کافر ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں کی مدد کرتا ہے : ١۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٢۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبۃ : ٤٠) ٣۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بدر میں مسلمانوں کو جو فتح نصیب ہوئی تھی وہ معجزانہ تھی ‘ جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ۔ یہ فتح مادی اسباب کی نایابی کے باوجود حاصل ہوئی تھی ۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس معروف مادی اسباب نہ تھے ۔ اس جنگ میں ترازو کے دوپلڑے یعنی مومنین اور مشرکین متوازن نہ تھے ‘ نہ ہی ان کی حالت ایسی تھی کہ وہ توازن کے قر... یب ہوں ۔ مشرک ایک ہزار کی تعداد میں تھے ‘ اور وہ جنگ کی خاطر بطور عام لام بندی نکلے تھے ‘ اس لئے کہ ان سے ابوسفیان نے مددچاہی تھی ‘ اور ان کا ہدف بھی متعین تھا وہ یہ کہ ابوسفیان کے قافلے کو بچایا جائے اور یہ ہزار آدمی ہر قسم کے ساز و سامان سے لیس تھے ۔ وہ اپنی دولت کے بچاؤ کے لئے نکلے تھے ۔ نیز اپنی عزت اور شرف کو بھی انہوں نے بچانا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان صرف تین فی صد تھے اور وہ اس لئے نہ نکلے تھے ‘ سازوسامان سے لیس اس قدر عظیم فوج سے ‘ ان کا مقابلہ ہوگا وہ ایک ہلکے پھلکے پروگرام کے لئے نکلے تھے ‘ وہ ایک غیر مسلح قفلے پر ہاتھ ڈالنے کے لئے نکلے تھے ‘ اور اس پر ہاتھ ڈالنا چاہتے تھے ‘ قلیل تعداد میں ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس سازوسامان نہ بھی تھا ‘ اور ان کے پیچھے مدینہ میں ابھی تک مشرکین بھی موجود تھے اور وہ بھی اپنی جگہ پر قوت تھے ۔ اس طرح مدینہ میں منافقین کا بھی ایک بڑ طبقہ موجود تھا اور وہ مدینہ کے معاشرے میں اونچامقام رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ مدینہ میں یہودی بھی تھے جو ہر وقت اس تاک میں لگے رہتے تھے کہ مدینہ میں مسلمانوں پر وار کریں ۔ علاوہ ازیں وہ قلیل تعداد میں مسلمانوں کا ایک گروہ تھے جو جزیرۃ العرب کفر وشرک کی ایک عظیم قوت کے درمیان گھرے ہوئے تھے اور ان سب اسباب کے علاوہ ابھی وہ مظلوم پناہ گزیں تھے ‘ جنہیں مکہ سے نکال دیا گیا تھا ‘ کچھ انصار تھے جنہوں نے ان مہاجرین کو پناہ دی ہوئی تھی ‘ بہرحال اس معاشرے میں ان کی حیثیت ایک نوخیز پودے کی تھی ۔ ان حالات کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ ایسے حالات میں اس قدر عظیم فتح کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالیٰ کی نصرت ہی ہے۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ……………” اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرچکا تھا ‘ حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے ‘ لہٰذا تم کو چاہئے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو ۔ امید ہے کہ اب تم شکرگزار بنوگے۔ “ صرف اللہ ہی نے انہیں نصرت بخشی اور انہیں اس وجہ سے نصرت بخشی جس کی حکمت کو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ ناصر و مددگار نہ وہ خود تھے نہ کوئی اور تھا ‘ اس لئے اگر انہوں نے کسی سے ڈرنا ہے اور کسی سے خائف ہونا ہے تو چاہئے کہ صرف اللہ سے ڈریں اور اس کا خوف اپنے اندر پیدا کریں ۔ اس لئے کہ فتح وشکست اس کے ہاتھ میں ہے ۔ وہی اللہ ہے جو اقتدار وقوت کا سرچشمہ ہے ۔ اللہ خوفی ہی انہیں شکر پر آمادہ کرسکتی ہے ۔ ہر حال میں ان پر اللہ کا جو انعام واکرام ہورہا ہے ‘ اس پر ان کا فرج ہے کہ وہ اللہ کا پورا پورا شکر ادا کریں ‘ جو ان انعامات واکرامات کے لائق ہو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غزوہ بدر کی فتح یابی کا تذکرہ ابھی غزوہ احد کا واقعہ مکمل نہیں ہوا، انشاء اللہ آگے مزید اس کا بیان ہوگا۔ اللہ جل شانہٗ نے غزوہ احد کا تھوڑا سا واقعہ بیان فرما کر غروہ بدر کا تذکرہ فرمایا۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو خوب زیادہ بڑھ چڑھ کر فتح حاصل ہوئی اور اللہ جل شانہٗ نے مسلمانوں کی خوب مدد فرمائی تھی...  یہاں اس مدد کا تذکرہ ہے۔ غزوۂ بدر والی مدد احد کی حالیہ شکست کے مقابلہ میں سامنے رکھی جائے تو وہی زیادہ معلوم ہوتی کیونکہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر کافروں کو قید کرکے مدینہ منورہ لے آئے۔ اور غزوہ احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے لہٰذا اس فتح کے سامنے یہ شکست آدھی رہ جاتی ہے اس طرح سے غزوہ بدر کے تذکرہ میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑی تسلی ہے۔ (اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) (الآیۃ) میں فرشتوں کے نزول کے وعدہ کا تذکرہ ہے غزوۂ بدر میں فرشتے آئے تھے انہوں نے جنگ میں بھی حصہ لیا اور مسلمانوں کو ہمتیں دلائیں اور ان کو ثابت قدم رکھا۔ کیا غزوہ احد میں بھی فرشتوں کا نزول ہوا تھا۔ اس بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے، آیت بالا میں جو تین ہزار فرشتوں کے نزول کا تذکرہ ہے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس میں غزورہ بدر ہی کے فرشتوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ سورة انفال میں غزوۂ بدر میں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کا تذکرہ ہے اور یہاں تین ہزار پھر پانچ ہزار فرشتوں کے نزول کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ سب غزوۂ بدر سے متعلق ہے اول ایک ہزار پھر تین ہزار پھر پانچ ہزار فرشتوں کے نزول کا وعدہ فرمایا اور پانچ ہزار کا نزول ہوا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18 حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ یہ اِنْ تَصبِرُوْ وتتقوْ کا دوسرا نمونہ ہے۔ یعنی صبر وتقوی اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید غیبی اور نصرت آسمانی کے سامان بہم پہنچ جاتے ہیں۔ چناچہ جنگ بدر کے موقع پر ایسا ہی ہوا تم تعداد میں بہت قلیل تھے اور سامان جنگ بھی بالکل معمولی تھا۔ اذلۃ...  ذلیل کی جمع ہے۔ جس کے معنی حقیر اور پست کے ہیں۔ یعنی تعداد اور سامان کی قلت کے باعثھی ماکانوا علیہ من الضعف وقلۃ السلاح والمال والمرکوب (بحر ص 47 ج 3) ای بقلۃ العدد والسلاح (جامع البیان ص 59) چناچہ مسلمانوں کی کل تعداد 313 تھی اور پوری فوج کے پاس سواری کے لیے صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے اور تلواریں بھی صرف غالباً آٹھ تھیں اور باقی سامان جنگ بھی نہایت قلیل اور ناکافی تھا۔ لیکن اس بےسروسامانی کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی صبر وتقوی کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد اور نصرت بھی فوراً آپ پہنچی۔ بدر کا واقعہ یاد دلا کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد میں ثابت قدم رہنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ نیز اس میں کافروں کے شبہ کے جواب کی طرف بھی اشارہ ہے کافروں کا شبہ یہ تھا کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور نہیں نقصان اٹھانا پڑٓ اگر اسلام سچا دین ہوتا تو اس کے ماننے والے کیوں اس طرح ذلیل ہوتے یہاں اشارہ فرمایا کہ اگرچہ دنیا میں فتح وشکست صداقت کا معیار نہیں۔ فتح کی مثال کنویں کے ڈول کی سی ہے کبھی کسی کے ہاتھ کبھی کسی کے ہاتھ اس لیے اے ایمان والو ! احد کی وقتی شکست سے دلگیر اور افسردہ خاطر نہ ہونا اگر احد میں ایسا ہوگیا ہے تو ہوا کیا۔ جنگ بدر میں جب کہ تم بالکل بےسروسامان تھے کیا اس وقت میں نے تم کو غیبی امداد سے منصور ومظفر نہیں کیا تھا۔ اس شبہ کا اصل جواب آگے آرہا ہے۔ 190 یعنی تقویٰ اور خوف خدا سے شکر گزاری کے جذبہ کو تقویت پہنچتی ہے اور شکر گذاری ایک ایسا مبارک عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم ع 1)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم مسلمانوں کی بدر کے میدان میں مدد کرچکا ہے اور تم کو منصور اور فتح مند فرما چکا ہے حالانکہ تم بہت کمزور اور بےسروسامان تھے اور چونکہ یہ نصرت و فتح تمہارے تقویے کی برکت سے ہوئی تھی لہٰذا آئندہ بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ تاکہ تم شکر کے خوگر رہو اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا...  لاتے رہو۔ (تیسیر) بدر ایک کنویں کا نام ہے اس نام سے یہ میدان مشہور ہے جہاں بدر کی لڑائی ہوئی تھی اذلۃ ذلیل کی جمع ہے مراد یہاں یہ ہے کہ تعداد میں کم ساز و سامان میں کم، غرض ہر طرح ضعیف اور کمزور اور بےسروسامان تھے اور یہ کامیابی تقوے کی برکت سے ہوئی تھی۔ تقوے کا مفہوم چونکہ عام ہے اس میں اس لئے استقلال بھی داخل ہے۔ لہٰذا جس کی برکت سے کامیابی ہوئی اسی چیز کو اپنی زندگی کا جز بنا لو کیونکہ انعامات الٰہی کا شکریہ یہی ہے کہ انسان تقوے کا پابند رہے تاکہ آئندہ بھی اس کے احسانات کی بارش ہوتی رہے اس واقعہ کی مزید تفصیل سورة انفال میں انشاء اللہ آجائے گی آگے اپنی تائید اور اپنی مدد کے اسباب اور اس کی صورتیں بیان فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)  Show more