Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 127

سورة آل عمران

لِیَقۡطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡ یَکۡبِتَہُمۡ فَیَنۡقَلِبُوۡا خَآئِبِیۡنَ ﴿۱۲۷﴾

That He might cut down a section of the disbelievers or suppress them so that they turn back disappointed.

۔ ( اس امدادِ الٰہی کا مقصد یہ تھا کہ اللہ ) کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر ڈالے اور ( سارے کے سارے ) نامُراد ہو کر واپس چلے جائیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... That He might cut off a part of those who disbelieve, meaning, out of His wisdom, He commands you to perform Jihad and to fight. Allah then mentions the various consequences of performing Jihad against the disbelievers. For instance, Allah said, لِيَقْطَعَ طَرَفًا (That He might cut off a part...), meaning, to cause a part of a nation to perish. ... مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْ يَكْبِتَهُمْ ... of those who disbelieve, or expose them to infamy, by disgracing them and forcing them to return with only their rage, having failed in their aim to harm you. This is why Allah said next, ... أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنقَلِبُواْ ... or expose them to infamy, so that they retire, to go back to their land, ... خَأيِبِينَ frustrated. without achieving their aims.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

127۔ 1 یہ اللہ غالب و کار فرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے سورة انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے، " اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملٰئکۃ " جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرونگا۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتًا تو ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لئے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لئے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور اللہ اپنی مدد کے لیے فرشتوں کا یا کسی اور کا محتاج ہی نہیں ہے۔ چناچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ (ایسرالتفاسیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] اللہ کی مدد کا مقصد یہ تھا کہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور یہ مقصد مکمل طور پر حاصل ہوگیا۔ کافروں کے ستر سردار بمعہ ابو جہل سالار لشکر اس جنگ میں مارے گئے، اتنے ہی قید ہوگئے اور باقی لشکر ذلیل و خوار ہو کر بھاگ کھڑا ہوا جس کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ کار ہی نہ رہ گیا تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا فرشتوں کا نزول بدر اور احد دونوں میدانوں میں ہوا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدر میں فرشتوں کا نزول یقینا ہوا تھا اور وہ کتاب و سنت سے ثابت شدہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میدان احد میں بھی نزول ہوا تھا جیسا کہ مذکورہ آیات سے اشارہ ملتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس میدان میں مسلمانوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی بنا پر ایک شدید جنگی غلطی ہوگئی تھی جس نے ایک بار مسلمانوں کو شکست سے بھی دو چار کردیا تھا اور چونکہ اس غلطی کی وجہ محض حرص و طمع تھی۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس غلطی پر عتاب بھی فرمایا۔ تاہم ان کی یہ غلطی اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دی تھی۔ اس بےصبری کی وجہ سے میدان احد میں فرشتوں کا نزول نہیں ہوا۔ اگر مسلمان ایسا بےصبری کا مظاہرہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ یہاں بھی فرشتے بھیج دیتے۔ واللہ اعلم بالصواب اور اس پر بحث پہلے (حاشیہ نمبر ١١٤) کے تحت بھی گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْ يَكْبِتَھُمْ فَيَنْقَلِبُوْا خَاۗىِٕــبِيْنَ۝ ١٢٧ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا طرف طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] ( ط رف ) الطرف کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ كبت الْكَبْتُ : الرّدّ بعنف وتذلیل . قال تعالی: كُبِتُوا كَما كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ [ المجادلة/ 5] ، وقال : لِيَقْطَعَ طَرَفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خائِبِينَ [ آل عمران/ 127] . ( ک ب ت ) الکبت ( ض ) کسی کو سختی اور ذلت کے ساتھ واپس کردینا ۔ قرآن میں ہے : كُبِتُوا كَما كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ [ المجادلة/ 5] وہ اسی طرح ذلیل کئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کئے گئے تھے ۔ لِيَقْطَعَ طَرَفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خائِبِينَ [ آل عمران/ 127]( یہ خدا نے ) اس لئے ( کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک ، یا ( نہیں ذلیل ومغلوب کر دے کہ ( جیسے آئے تھے ویسے ہی ) ناکام واپس چلے جائیں ۔ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ خاب الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] . ( خ ی ب ) خاب ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧ ( لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (اَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآءِبِیْنَ ) یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرہ زمانی ترتیب سے نہیں ہے۔ سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے گھر سے نکل کر میدان جنگ میں مورچہ بندی کا ذکر ہوا۔ پھر اس سے پہلے کا ذکر ہو رہا ہے جب خبریں پہنچی ہوں گی کہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آ رہا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کی خوشخبری دی ہوگی۔ اب اس جنگ کے دوران مسلمانوں سے جو کچھ خطائیں اور غلطیاں ہوئیں ان کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ خود آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی خطا کا ایک معاملہ ہوا ‘ اس پر بھی گرفت ہے ‘ بلکہ سب سے پہلے اسی معاملے کو لیا جا رہا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدید زخمی ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ پھر جب ہوش آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یہ الفاظ آگئے : (کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ ) (١) یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا ! تلوار کا وار آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رخسار کی ہڈی پر پڑا تھا اور اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو دانت بھی شہید ہوگئے تھے۔ زخم سے خون کا فوارہ چھوٹا تھا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پورا چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا تھا۔ خون اتنی مقدار میں بہہ گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوش میں آئے تو زبان مبارک سے یہ الفاظ اداہو گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ ۔۔ ) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاملے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا کوئی اختیار نہیں ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا کام دعوت دینا اور تبلیغ کرنا ہے۔ لوگوں کی ہدایت اور ضلالت کے فیصلے ہم کرتے ہیں۔ اور دیکھئے اللہ نے کیا شان دکھائی ؟ جس شخص کی وجہ سے مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ‘ یعنی خالد بن ولید ‘ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی زبان مبارک سے اسے سیفٌ مِن سُیوف اللّٰہ (اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار) کا خطاب دلوا دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:127) لیقطع۔ قطع سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب (باب فتح) مضارع پر لام جاء مکسور فعل کی علت یا سبب بیان کرنے کے لئے آئے تو اس کے بعد ان مصدری غائب کا آنا ضروری ہے اور مضارع پر اسی ان کی وجہ سے نصب آیا ہے اگر ان مذکور نہ ہو جیسا کہ آیۃ ہذا میں ہے تو محذوف مقدد قرار دیا جائیگا۔ لیکن اگر فعل سے پہلے لا نفی آیا ہو تو لام جر کے بعد ان کو ذکر کرنا لازم ہے۔ جیسے لئلا یکون للناس علیکم حجۃ (2:150) لیقطع۔ تاکہ کاٹ دے۔ ہلاک کر دے۔ طرفا۔ طرف کی جمع اطراف۔ ایک ٹکڑہ ۔ ایک حصہ۔ یکبتہم۔ مضارع واحد مذکر غائب ہم ضمیر جمع مذکر غائب کبت مصدر باب ضرب تاکہ وہ ان کو ذلیل کرے۔ مضارع پر نصب لام جار مکسور کی وجہ سے ہے جو کہ محذوف ہے اصل میں یہ لیقطع کی طرح لیکبتھم تھا۔ خائبین۔ نامراد۔ خیبۃ سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ ترجمہ : (3:126127) ۔ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ امداد کا وعدہ مسلمانوں کو خوشخبری اور ان کے اطمینان قلب کی خاطر کیا۔ اور دوم یہ کہ اہل کفار کا ایک بازو کٹ جائے اور وہ ذلیل و خوار ہوکر نامراد واپس لو؁ یں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہاں امداد کی حکمت نہایت تصریح کے ساتھ فرمائی جس میں غور کرنے سے اس مضمون میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کیونکہ حاصل اس کا یہ ہوا کہ ان فرشتوں کے نزول سے اصلی مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے قلب کو سکون ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد اس نصرت کی حکمت بھی یہاں بیان کردی جاتی ہے ‘ کیسی فتح ؟ وہ فتح جس کے مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی انسان کی ذات سے وابستہ نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فتح اللہ کی جانب سے آتی ہے ۔ وہ اللہ کی تقدیر کو ظاہر کرتی ہے ۔ کسی رسول اور اس کے ساتھیوں کو فتح کی صورت میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ملتا ۔ نہ اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض ہوتی ہے۔ نیز حصول فتح میں نہ رسول کا دخل ہوتا ہے نہ اس کے ساتھ اس میں دخیل ہوتے ہیں ۔ وہ تو تقدیر الٰہی کے ظہور کے لئے ایک مظہر ہوتے ہیں ۔ قدرت انہیں جس طرح چاہتی ہے ‘ استعمال کرتی ہے ۔ وہ اس فتح ونصرت کا نہ سبب حقیقی ہوتے ہیں نہ اس کے صانع ہوتے ہیں ۔ وہ نہ فاتح ہوتے ہیں اور نہ ہی اس فتح کے نتیجے میں مفادات حاصل کرتے ہیں ۔ دست قدرت اپنے بعض اشخاص کو حرکت میں لاتا ہے ۔ پھر خود ان کی تائید کرتا ہے تاکہ اللہ کے پیش نظر جو حکمتیں ہوں ان کا ظہور ہو اور جو مقاصد ہوں وہ بروئے کار لائے جائیں ۔ لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا……………” تاکہ کفر کی راہ چلنے والوں کا ایک بازو کاٹ دے۔ “ وہ قتل ہوں اور ان کی افرادی قوت کم ہو ‘ ان کی اراضی ان ہاتھوں سے نکلے اور ان کا رقبہ کم ہوتا جائے۔ یا ان کی جابرانہ حکومت کا دائرہ تنگ ہوجائے۔ ان کی دولت میں بوجہ مال غنیمت کمی آجائے اور ہزیمت اور شکست کے نتیجے میں ان کی سرگرمیوں میں کمی آجائے۔ أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ……………” یا ان کو ایسی ذلیل شکست دے کہ وہ نامرادی کے ساتھ پسپا ہوجائیں ۔ “ یعنی ذلیل ہوکر ہزیمت اٹھائیں اور اپنے مقاصد میں ناکام ہوکر لوٹیں جبکہ وہ دبے ہوئے ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْ یَکْبِتَھُمْ فَیَنْقَلِبُوْا) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں تم کو اس لیے غلبہ دیا کہ کافروں کے ایک گروہ کو ہلاک فرما دے یا ان میں سے بعض کو ذلیل اور خوار کر دے پھر ناکام ہو کر لوٹ جائیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ بدر میں ستر کافر مارے گئے جو اپنی جماعت کے رؤسا تھے اور ستر قید کر کے لائے گئے۔ جو بچے تھے وہ ناکام ہو کر واپس ہوگئے ان کی تعداد اور سامان نے کچھ کام نہ دیا اللہ کی مدد کی وجہ سے مسلمان غالب ہوئے حالانکہ وہ تھوڑے سے تھے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

194 لِیَقْطَعَ میں لام نَصَرَکُمْ سے متعلق ہے۔ قطع کے معنی قتل کے ہیں اور طرف جماعت گروہ کے معنی میں ہے لیھلک طائفۃ منھم بالقتل والاسرالخ (مدارک ص 141 ج 1) یعنی جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری غیب سے امداد اس لیے فرمائی تاکہ کافروں کی ایک جماعت تمہارے ہاتھوں ماری جائے اور وہ ذلیل و خوار ہوجائیں اور نامراد ہو کر گھروں کو لوٹیں اور اس طرح کفر کا زور ٹوٹ جائے۔ اور کافروں کی شان و شوکت اور ان کا رعب ووقار مسلمانوں کے ہاتھوں خاک میں مل جائے چناچہ ایسا ہی ہوا۔ بدر میں کفر وشرک کے ستر لیڈر اور سرغنے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ امداد محض اس لئے فرمائی کہ تم کو فتح کی بشارت اور خوشی حاصل ہو اور تاکہ تمہارے قلوب کو اضطراب اور پریشانی سے اطمینان حاصل ہو اور تمہارے دل اس امداد سے مطمئن ہوجائیں ورنہ نصرت و مدد تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے اور اسی کے پاس سے ہوتی ہے جو کمال قوت کا بڑا مالک اور بڑا زبردست اور کمال حکمت کا مالک ہے عزیر کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے غلبہ حاصل ہوجائے مگر حکمت اور اس کے حکیم ہونے کا مقتضا یہ ہے کہ جب چاہے اسباب سے غلبہ عطا کرے اور اس فتح اور غلبہ کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منکرین حق کے ایک گروہ کو ہلاک کر دے یا ان میں سے بعض کو اس قدر ذلیل و خوار کر دے کہ وہ ناکام و نامراد ہو کر واپس لوٹ جائیں۔ لیقطع طرفا و ما النصرا الامن عند اللہ میں جو فتح و نصرت ہے اس کی علت ہے یا نصرکم اللہ کی علت ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ بھی وما جعلہ اللہ کی علت ہو جیسا کہ ہمارے ترجمہ اور تیسیر کے فرق سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ کبت کے معنی رسوا کرنا توڑ دینا کسی کو اٹھا کر پھینک دینا اور پچھاڑ دینا اور یہ جو فرمایا کہ ایک گروہ کو بالکل ہلاک کردیں یا رسوا اور ذلیل کردیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک بات ہوجائے یا دونوں باتیں ہوجائیں چناچہ یہاں دونوں ہوئیں کہ ستر مارے بھی گئے اور ستر قید بھی ہوئے اور باقی خائب و خاکسر ہو کر بھاگ گئے۔ اس امداد بالم کہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ایک بشارت فتح دوسرے اطمینان قلوب یہی دو باتیں یہاں تسلی دینے کے لئے مطلوب تھیں کہ نفع بھی حاصل ہو اور مجاہد ضرر سے بھی محفوظ رہیں اور یہ جو فرمایا کہ مدد تو اللہ ہی کے پاس سے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسباب پر فقط بھروسہ نہیں کرنا چاہئے وہ چاہیں تو اپنی زبردست طاقت و بلا کسی سبب کے کامیاب فرما دیں کیونکہ کامیابی اور فتح تو اصل میں انہی کے قبضے میں سے اور وہ اسباب کے محتاج نہیں لیکن وہ حکیم ہیں س لئے نظام عالم کو اسی حکمت کے ماتحت قائم کر رکھا ہے اور بات بھی یہ ہے کہ اس عالم تکوینی کے بھیدوں کا کون احاطہ کرسکتا ہے پوری قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے شکست اور باوجود بےسروسامانی کے فتح ملائکہ کی تشریف آوری کو اطمینان قلوب کا موجب فرمایا اس کی تفصیل انشاء اللہ سورة انفال میں آجائے گی۔ چونکہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں ایک مناسبت تھی اس لئے بیچ میں بدر کا ذکر فرمایا اب آگے پھر غزوۂ احد کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)