Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 13

سورة آل عمران

قَدۡ کَانَ لَکُمۡ اٰیَۃٌ فِیۡ فِئَتَیۡنِ الۡتَقَتَا ؕ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اُخۡرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوۡنَہُمۡ مِّثۡلَیۡہِمۡ رَاۡیَ الۡعَیۡنِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿۱۳﴾

Already there has been for you a sign in the two armies which met - one fighting in the cause of Allah and another of disbelievers. They saw them [to be] twice their [own] number by [their] eyesight. But Allah supports with His victory whom He wills. Indeed in that is a lesson for those of vision.

یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں ، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دیکھتے تھے اور اللہ تعالٰی جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَدْ كَانَ لَكُمْ ايَةٌ ... There has already been a sign for you, meaning, O Jews, who said what you said! You have an Ayah, meaning proof, that Allah will make His religion prevail, award victory to His Messenger, make His Word apparent and His religion the highest. ... فِي فِيَتَيْنِ ... In the two armies, meaning, two camps, ... الْتَقَتَا ... that met, in combat (in Badr). ... فِيَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ ... One was fighting in the Cause of Allah, (the Muslims), ... وَأُخْرَى كَافِرَةٌ ... And as for the other, in disbelief. meaning, the idolators of Quraysh at Badr. Allah's statement, ... يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ... They saw them with their own eyes twice their number, means, the idolators thought that the Muslims were twice as many as they were, for Allah made this illusion a factor in the victory that Islam had over them. It was said that the meaning of Allah's statement, يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ (They saw them with their own eyes twice their number), is that the Muslims saw twice as many idolators as they were, yet Allah gave them victory over the disbelievers. Abdullah bin Mas`ud said, "When we looked at the disbelievers' forces, we found that they were twice as many as we were. When we looked at them again, we thought they did not have one man more than we had. So Allah's statement, وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِى أَعْيُنِكُمْ قَلِيلً وَيُقَلِّلُكُمْ فِى أَعْيُنِهِمْ And (remember) when you met, He showed them to you as few in your eyes and He made you appear as few in their eyes." (8:44) When the two camps saw each other, the Muslims thought that the idolators were twice as many as they were, so that they would trust in Allah and seek His help. The idolators thought that the believers were twice as many as they were, so that they would feel fear, horror, fright and despair. When the two camps stood in lines and met in battle, Allah made each camp look smaller in the eyes of the other camp, so that they would be encouraged to fight each other, لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْراً كَانَ مَفْعُولاً so that Allah might accomplish a matter already ordained. (8:42), meaning, so that the truth and falsehood are distinguishable, and thus the word of faith prevails over disbelief and deviation, so that the believers prevail and the disbelievers are humiliated. In a similar statement, Allah said; وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ And Allah has already made you victorious at Badr, when you were a weak little force. (3:123) In this Ayah Allah said, ... وَاللّهُ يُوَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاء إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لاَُّوْلِي الاَبْصَارِ And Allah supports with His victory whom He wills. Verily, in this is a lesson for those who understand. meaning, this should be an example for those who have intelligence and sound comprehension. They should contemplate about Allah's wisdom, decisions and decree, that He gives victory to His believing servants in this life and on the Day the witnesses stand up to testify.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی ہر فریق دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا ہے کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا 313) تھی انہیں کافر 600 اور 700 کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالانکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (3 گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کا عزم و حوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرغوب ہوجاتے جب وہ تین گنا کی بجائے دو گنا نظر آئے تو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا لیکن یہ دوگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کر کے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل (وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ۭوَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ 44؀ ) 008:044 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی ایک تو اس لئے کہ یہ پہلی جنگ تھی دوسرے یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی مسلمان ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جارہا تھا مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ بچا کرلے گیا لیکن کفار مکہ اپنی طاقت و کثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر پر یہ پہلا معرکہ برپا ہوا تیسرے اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی چوتھے اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] اس آیت میں روئے سخن سب قسم کے کافروں سے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان جنگ کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ مسلمان تعداد میں تہائی سے بھی کم تھے۔ تین سو تیرہ اور یہ بعینہ وہی تعداد تھی جو طالوت کے لشکر کی تھی۔ جبکہ مشرکین مکہ کی تعداد ایک ہزار تھی۔ میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ نے قلیل ہونے کے باوجود اپنے تابعداروں کو ہی فتح و نصرت عطا فرمائی۔ میدان بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو کچھ اس انداز سے کھڑا کیا تھا کہ وہ کافروں کو اپنی اصل تعداد سے دوگنے نظر آتے تھے اور یہ آپ کی ایک جنگی تدبیر تھی۔ اگرچہ مسلمان تعداد، اسلحہ، جنگ اور سامان خوراک ہر لحاظ سے کافروں کے مقابلہ میں کمزور تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید سے مسلمانوں کی مدد کرکے شاندار فتح عطا فرمائی اور مسلمانوں کو سب کفار کے مقابل ایک جیتی جاگتی قوت بنادیا۔ غزوہ بدر دراصل کفر اور اسلام کا ابتدائی معرکہ تھا۔ جہاں ایک طرف کفار کو اپنی کثرت تعداد، اسلحہ جنگ کی فراوانی اور اپنی جنگی مہارت پر ناز تھا تو دوسری طرف مسلمان صرف اللہ کی ذات پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ ایک طرف شراب و کباب کا دور چل رہا تھا اور رقص و سرور کی محفلیں برپا تھیں تو دوسری طرف مسلمان اللہ کے حضور دعاؤں اور نمازوں میں مصروف تھے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک الگ خیمہ لگایا ہوا تھا۔ جس میں رات بھر آپ گریہ وزاری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) خیمہ میں تشریف لائے اور آپ کی حالت دیکھ کر کہا : & اب بس کیجئے آپ نے دعا مانگنے میں انتہا کردی & آپ نے دعا کے بعد یہ فرمایا۔ اے اللہ ! & اگر تو نے اس مٹھی بھر جماعت کو آج ختم کردیا تو قیامت تک تیرا کوئی پرستار باقی نہ رہے گا & یہ دعائیں مانگ کو جب آپ خیمہ سے باہر نکلے تو آپ کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے اور اللہ کی طرف سے آپ کو فتح کی بشارت مل چکی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت ( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ 45؀) 54 ۔ القمر :45) میدان بدر ایک ریگ زار میدان تھا۔ مگر کافروں نے پہلے پہنچ کر ایک پکی زمین پر قبضہ جما لیا تھا اور مسلمانوں کے پڑاؤ کے لیے سوائے ریتلے میدان کے کچھ نہ تھا۔ اب اللہ کی تائید مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی کہ ہوا چل پڑی۔ جس کا رخ کفار کے لشکر کی طرف تھا۔ ریت اڑ اڑ کر ان کی زبوں حالی کا باعث بن گئی۔ پھر اس کے بعد بارش ہوگئی، تو کفار کے پڑاؤ میں پھسلن بن گئی اور مسلمانوں کے پاؤں پھسلنے کے بجائے جمنے لگے۔ تیسری تائید الٰہی یہ تھی کہ اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل فرمایا اور پورے صبرو ثبات کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں جم گئے اور چوتھی تائید یہ تھی کہ اللہ نے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کو سہارا دیا۔ اس پے در پے تائید الٰہی کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی اور کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ کی تائید صرف اصحاب بدر کے لیے مخصوص نہ تھی۔ اس سے پہلے بھی اللہ نے اپنے بندوں کی ایسی ہی تائید فرمائی اور بعد میں بھی کی اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان خالصتاً اللہ کے عبادت گزار اور صرف اسی پر بھروسہ رکھنے والے ہوں۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو۔۔ اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَةٌ۔۔ : یعنی اوپر جو پیشین گوئی (یہودی) کافروں کے مغلوب اور جہنم واصل ہونے کی ذکر ہوئی ہے اس کے سچ ہونے کے لیے معرکۂ بدر میں بہت بڑی آیت (دلیل) موجود تھی۔ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ مسلمان کفار کو اپنے سے صرف دو گنا دیکھ رہے تھے، حالانکہ وہ ان سے تین گنا تھے، تاکہ مسلمان ثابت قدم رہیں، چناچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ دوسرا یہ کہ کفار مسلمانوں کو اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے، حالانکہ ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور مسلمان کل ٣١٣ تھے، مگر مسلمان دو گنا اس لیے نظرآتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت کے لیے فرشتے بھیج دیے تھے اور اللہ اپنی نصرت کے ساتھ جسے چاہے قوت بخشتا ہے۔ اکثر مفسرین نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر، شوکانی) واضح رہے کہ دو گنا دکھلانا لڑائی سے پہلے تھا ورنہ لڑائی کے وقت تو ہر گروہ دوسروں کو اپنے سے کم خیال کر رہا تھا۔ دیکھیے سورة انفال (٤٣، ٤٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence In the previous verses, the disbelievers were informed that they will be overcome. Now, cited in this verse is an example of how the prophecy has been fulfilled. Commentary This verse refers to the Battle of Badr in which the disbelievers had about 1000 men, 700 camels and 100 horses, while the Muslim mujahidin were just over 300, having a total of 70 camels, 2 horses, 6 armours and 8 swords. The encounter was certainly strange as each combating group saw the opponent being twice its own numbers. The sighting of so many Muslims inspired awe in the hearts of the disbe¬lievers, while Muslims who saw the disbelievers as twice of them turned to Allah more fervently. They had hopes of Allah&s help, and ul¬timate victory, because they had placed their total trust in Allah, were steadfast and sincerely believed in the promise of Allah revealed to them in the following words: إِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ If there be among you a hundred patient one, they shall over-come two hundred. (8:66) If the actual number of disbelievers which was three times more than their own were to be realized by Muslims, they may have been overawed. This state of sighting the numbers of the other group as twice its own was at a particular time. At another time each of the two combating groups felt the other one as low in numbers, as it would ap¬pear later in Surah al-Anfal. To sum up, it can be safely said that making a small group of peo¬ple with very little to fight against a much stronger group and score a victory, as prophesied in Makkah, is an unusual event full of lessons for the observant and the discerning.

ربط آیات پچھلی آیات میں کفار کے مغلوب ہونے کی خبر دی گئی تھی اب اس آیت سے اس کی ایک مثال بطور دلیل کے بیان فرماتے ہیں۔ خلاصہ تفسیر بیشک تمہارے ( استدلال کے) لئے بڑا نمونہ دو گروہوں ( کے واقعہ) میں جو کہ باہم ( بدر کی لڑائی میں) ایک دوسرے سے مقابل ہوئے تھے، ایک گروہ تو ( یعنی مسلمان) اللہ کی راہ لڑتے تھے اور دوسرا گروہ وہ کافر لوگ تھے ( اور کافر اس قدر زیادہ تھے کہ) یہ کافر اپنے (گروہ) کو دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں سے کئی حصے ( زیادہ) ہیں ( اور دیکھنا بھی کچھ وہم و خیال کا نہیں بلکہ) کھلی آنکھوں دیکھنا ( جس کے واقع ہونے میں شبہ نہیں تھا، لیکن کفار کے باوجود اس قدر زیادہ عدد ہونے کے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غالب کیا) ، اور (غالب اور مغلوب کرنا محض قبضہ خداوندی ہی میں ہے) اللہ تعالیٰ اپنی امداد سے جس کو چاہتے ہیں قوت دیدیتے ہیں ( سو) بلا شبہ اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے ( اور نمونہ) ہے دیکھنے والوں کے لئے۔ معارف و مسائل اس آیت میں جنگ بدر کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جس میں کفار تقریبا ایک ہزار تھے جن کے پاس سو اونٹ اور ایک سو گھوڑتے تھے، دوسری طرف مسلمان مجاہدین تین سو سے کچھ اوپر تھے، جن کے پاس کل ستر اونٹ دو گھوڑے اور چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں اور تماشہ یہ تھا کہ ہر ایک فریق کو حریف مقابل اپنے سے دو گنا نظر آتا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کفار کے دل مسلمانوں کی کثرت کا تصور کر کے مرعوب ہورہے تھے اور مسلمان اپنے سے دوگنی تعداد دیکھ کر اور زیادہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور کامل توکل و استقلال سے خدا کے وعدہ ( ان یکن منکم مائة صابرة یغلبوا مائتین۔ ٨: ٦٦) پر اعتماد کر کے فتح و نصرت کی امید رکھتے تھے، اگر ان کی پوری تعداد جو تین گنا تھی منکشف ہوجاتی تو ممکن تھا خوف طاری ہوجاتا اور یہ فریقین کا دوگنی تعداد دیکھنا بعض احوال میں تھا، ورنہ بعض احوال وہ تھے جب ہر ایک کو دوسرے فریق کی جمعیت کم محسوس ہوئی، جیسا کہ سورة انفال میں آئے گا۔ بہرحال ایک قلیل اور بےسروسامان جماعت کو ایسی مضبوط جمیعت کے مقابلے میں ان پیشنگوئیوں کے موافق جو مکہ میں کی گئی تھیں اس طرح کامیاب کرنا، آنکھیں رکھنے والوں کے لئے بہت بڑا عبرت ناک واقعہ ہے۔ (فوائد علامہ عثمانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَۃٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا۝ ٠ ۭ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَاُخْرٰى كَافِرَۃٌ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْہِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُـؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۝ ١٣ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ فِئَةُ ( جماعت) والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی: إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ ( التقتا) ، فيه إعلال بالحذف لالتقاء الساکنين، حذفت الألف۔ لام الکلمة۔ لمجيئها ساكنة قبل تاء التأنيث، وزنه افتعتا . قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ ايد ( قوة) قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة/ 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه . ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔ عبرت والعِبْرَةُ : بالحالة التي يتوصّل بها من معرفة المشاهد إلى ما ليس بمشاهد . قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] ، فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر/ 2] عبرت والاعتبار اس حالت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے ۔ فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر/ 2] اے اصحاب بصیرت اس سے عبرت حاصل کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قد کان لکم ایۃ فی فئتین القتال فئۃ تقال فی سبیل اللہ، تمہارے لیئے ان دوگروہوں میں بڑی نشانی تھی جن کا آمناسامنا ہوا تھا ایک گروہ اللہ کے راستے میں قتال کررہا تھا) تاآخر آیت، حضرت ابن مسعود اور حسن بصری سے مروی ہے کہ یہ خطاب اہل ایمان کو ہے۔ اور مسلمان ہی دہ گروہ تھے جو اپنی آنکھوں سے کافروں کو اپنے سے دوچند دیکھ رہے تھے۔ کافروں کو اگرچہ وہ اپنی تعداد سے دوگنادیکھ رہے تھے لیکن کافردرحقیقت مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا تھے کیونکہ ان کی تعدادایک ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعدادکچھ اوپر تین سو تھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں کو تقویت دینے کے لیئے کافروں کی تعدادان کی نظروں میں کم کرکے دکھائی۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ قول باری (قدکان لکم) میں کافروں سے خطاب ہے جن کے ذکرکے ساتھ سلسلہ کلام کی ان الفاظ میں ابتدا کی گئی تھی (قل للذین کفرواستخلبو وتحشرون الی جھنم) اور قول باری (قدکالکم ایۃ) اس پر معطوف اور اس کا تتمہ ہے۔ معنی یہ ہوں گے کہ کافروں نے مسلمانوں کو اپنے سے دوچند دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ظاہری طورپر اسی دکھایاتا کہ ان کے دلوں میں بزدلی پیدا ہوجائے اور ان پر خوف طاری ہوجائے جس کی وجہ سے ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی پوزیش اور زیادہ مضبوط ہوجائے۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی نصرت اور کافروں کو پسپائی کی طرف دھکیل دینے کا یہ ایک طریقہ تھا۔ اس آیت میں دوطرح سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت و صداقت پر دلالت ہورہی ہے۔ اول ایسے گروہ کا جس کی تعدادبھی تھوڑی تھی اور جس کے پاس سامان جنگ بھی برائے نام تھا ایک بڑی تعداد والے گروہ پر غالب آجاناجس کے پاس سامان جنگ کی کوئی کمی نہیں تھی۔ یہ بات خلاف عادت تھی اور یہ سب اس وجہ سے وقوع پذیرہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیئے بھیج دیا تھا، دو ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں قریش کے تجارتی قافلے اور لشکر قریش میں سے ایک مل جائے گا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ شروع ہونے اور فتح مندی حاصل کرنے سے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ فلاں کافرکا مقتل ہے۔ اور یہ فلاں کافرکامقتل ہے۔ پھر وہی ہواجس کا اللہ نے وعدہ کیا اور جس کی اطلاع حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیدی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) کفار مکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی شہادت کے لیے دو جماعتوں میں بڑی نشانی ہے کہ غزوہ بدر میں ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور دوسری جماعت ابوسفیان کی تھی، ایک جماعت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں لڑرہی تھی اور وہ صحابہ کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت تھی جو تعداد میں صرف تین سو تیرہ یا کم و بیش تھے ، اور دوسری جماعت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کی تھی جو کفار اہل قریش کی جماعت تھی یہ تعداد میں ایک ہزار تھے یہ لوگ کھلی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کررہے تھے کہ ہم تعداد میں اصحاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی گنا زیادہ ہیں اور (آیت) ” قل للذین کفروا “ کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے گئے ہیں کہ آپ بنی قریظہ اور بنو نضیر سے فرما دیجیے کہ عنقریب تم قتل اور جلا وطنی کے ساتھ مغلوب کیے جاؤ گے اور پھر قیامت کے دن جہنم کی طرف جمع کیے جاؤ گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ غزوہ بدر سے دو سال قبل ان کو اس چیز کی اطلاع دی گئی پھر اللہ تعالیٰ نے آگلی آیت نازل فرمائی کہ اے گروہ یہود تمہارے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے لیے دو جماعتوں میں جن کا بدر میں مقابلہ ہوا نشانی ہے ان میں ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تھی جو اللہ کے راستہ میں لڑرہی تھی، دوسری جماعت ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کی تھی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرنے والی تھی اور اسے یہودیو تم ابوسفیان کی جماعت کو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی آنکھوں سے کئی گنا زیادہ دیکھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قوت دی اور غزوہ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمانے میں اہل ایمان اور اہل دانش کے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِءَتَیْنِ الْتَقَتَا ط) یعنی بدر کی جنگ میں ایک طرف مسلمان تھے اور دوسری طرف مشرکین مکہ تھے۔ اس میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے۔ (فِءَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ) (یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ط) اس کے کئی معانی کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو تو کھلم کھلا نظر آ رہا تھا کہ ہمارے مقابل ہم سے دوگنی فوج ہے ‘ جبکہ وہ تگنی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں کفار پر ایسا رعب طاری کردیا تھا کہ انہیں نظر آ رہا تھا کہ مسلمان ہم سے دگنے ہیں۔ (وَاللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط) (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ ) یہ عبرت اور سبق آموزی صرف ان کے لیے ہوتی ہے جو آنکھیں رکھتے ہوں ‘ جن کے اندر دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ اگلی آیت فطرت انسانی کے اعتبار سے بڑی اہم ہے۔ بعض لوگوں میں خاص طور پر دنیا اور علائق دنیوی کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ یہاں اس کا اصل سبب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعتا یہ شے فطرت انسانی میں رکھی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قیامت تک آباد رکھنا ہے اور اس کی رونقیں بحال رکھنی ہیں۔ چناچہ مرد اور عورت کی ایک دوسرے کے لیے کشش ہوگی تو اولاد پیدا ہوگی اور دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس طرح دنیا قائم رہے گی۔ دولت کی کوئی طلب ہوگی تو آدمی محنت و مشقت کرے گا اور دولت کمائے گا۔ اس لیے یہ چیزیں فطرت انسانی میں basic animal instincts کے طور پر رکھ دی گئی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جبلی تقاضوں کو دبا کر رکھا جائے ‘ اللہ کی محبت اور اللہ کی شریعت کو اس سے بالاتر رکھا جائے۔ یہ مطلوب نہیں ہے کہ ان کو ختم کردیا جائے۔ تعذیب نفس اور نفس کشی (self annihilation) اسلام میں نہیں ہے۔ یہ تو رہبانیت ہے کہ اپنے نفس کو کچل دو ‘ ختم کر دو ۔ جبکہ اسلام تزکیۂ نفس اور self control کا درس دیتا ہے کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ نفس انسانی ایک منہ زور گھوڑا ہے۔ گھوڑا جتنا طاقت ور ہوتا ہے اتنا ہی سوار کے لیے تیز دوڑنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن منہ زور اور طاقتور گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ ورنہ سوار اگر اس کے رحم و کرم پر آگیا تو وہ جہاں چاہے گا اسے پٹخنی دے دے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. The actual disparity between the two armies was roughly three to one, but even a cursory glance was enough to tell the casual observer that the army of unbelievers was about twice as large as that of the believers.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :9 اگرچہ حقیقی فرق سہ چند تھا ، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسوس کیے بغیر تو نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دو گنا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :10 جنگ بدر کا واقعہ اس وقت قریبی زمانے ہی میں پیش آچکا تھا ، اس لیے اس کے مشاہدات و نتائج کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو عبرت دلائی گئی ہے ۔ اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں: ایک یہ کہ مسلمان اور کفار جس شان سے ایک دوسرے کے بالمقابل آئے تھے ، اس سے دونوں کا اخلاقی فرق صاف ظاہر ہو رہا تھا ۔ ایک طرف کافروں کے لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے ، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب داد عیش دی جارہی تھی ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیز گاری تھی ، خدا ترسی تھی ، انتہا درجہ کا اخلاقی انضباط تھا ، نمازیں تھیں اور روزے تھے ، بات بات پر خدا کا نام تھا اور خدا ہی کے آگے دعائیں اور التجائیں کی جارہی تھیں ۔ دونوں لشکر وں کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی معلوم کر سکتا تھا کہ دونوں میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ مسلمان اپنی قلت تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود کفار کی کثیر التعداد اور بہتر اسلحہ رکھنے والی فوج کے مقابلے میں جس طرح کامیاب ہوئے ، اس سے صاف معلوم ہو گیا تھا کہ ان کو اللہ کی تائید حاصل تھی ۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی غالب طاقت سے غافل ہو کر جو لوگ اپنے سروسامان اور اپنے حامیوں کی کثرت پر پھولے ہوئے تھے ، ان کے لیے یہ واقعہ ایک تازیانہ تھا کہ اللہ کس طرح چند مفلس و قلانچ غریب الوطن مہاجروں اور مدینے کے کاشتکاروں کی ایک مٹھی بھر جماعت کے ذریعے سے قریش جیسے قبیلے کو شکست دلوا سکتا ہے ، جو تمام عرب کا سرتاج تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: پیچھے یہ پیشینگوئی کی گئی تھی کہ کفار مسلمانوں سے مغلوب ہوں گے، اب اس کی ایک مثال دینے کی غرض سے جنگ بدر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں کافروں کا لشکر ایک ہزار مسلح لوگوں پر مشتمل تھا اور مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی، کافر کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کافروں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:13) یرونھم مثلیہم رای العین۔ یرون کی ضمیر کا مرجع فئۃ تقاتل فی سبیل اللہ بھی ہوسکتا ہے اور اخری (کافروں کا گروہ) بھی۔ اسی طرح یرونھم میں ہم ضمیر مسلمانوں کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور کفار کے متعلق بھی۔ اس طرح اس فقرہ کے ترجمہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) مسلمان کافروں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے۔ (2) مسلمان کافروں کو ان کی اصل تعداد سے دو چند دیکھ رہے تھے۔ (3) مسلمان اپنے آپ کو کافروں سے دو چند دیکھ رہے تھے۔ (4) کفار مسلمانوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے۔ (5) کفار مسلمانوں کو ان کی تعداد سے دو چند دیکھ رہے تھے۔ (6) کافر اپنے تئیں مسلمانوں سے دو چند دیکھ رہے تھے۔ رای العین مصدر مؤکد لیرونھم۔ بادی النظر میں تعداد کا اندازہ ایک اضافی امر ہے اگر حوصلے بلند اور دل میں ولولہ ہو تو مدمقابل کی تعداد اصل سے کم معلوم دیتی ہے۔ اور اس کے برعکس اگر حوصلے پست ہوں تو دشمن کی تعداد اصل سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اس لحاظ سے معانی نمبر 2 بعید از قیاس ہے کیونکہ مسلمان جوش ایمان سے پُر تھے اس لئے ایسی حالت میں دشمنوں کی تعداداصل سے زیادہ ہرگز معلوم نہیں دیتی بلکہ اصل سے کم نظر آتی ہے معنی نمبر 3 بھی قرین قیاس نہیں مسلمان بخوبی جانتے تھے کہ ان کی تعداد 313 ہے اور جبکہ کافر کی تعداد 1000 کے لگ بھگ تھی۔ اس لئے کسی بھی صورت میں وہ 313 کو 1000 ہزار سے دوگنا خیال نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح معنی نمبر 4 بھی بعید از قیاس ہے کہ کافر 1000 ہزار ہوتے ہوئے 313 کو اپنے سے دو چند یعنی 2000 ہزار کیسے خیال کرسکتے تھے۔ رہے معانی نمبر 1 ۔ نمبر 5 ۔ نمبر 6 ۔ تو فریقین میں سے ایک فریق (مسلمانوں) کے جوش ہمت و جرأت اور دوسرے فریق (کفار) کے جذبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تینوں صورتیں ممکن ہیں۔ اس اضافی کیفیت کی تائید میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت نقل کی جاسکتی ہے فرماتے ہیں : نظرنا الی المشرکین فرأیناھم یضعفون علینا ثم نظرناھم فما رأیناھم یزیدون علینا رجلا واحدا۔ (ہم نے مشرکین کی طرف دیکھا تو بادی النظر میں ان کو اپنے سے دو گناہ دیکھا پھر دوباہ جب (جوش ایمانی اپنے زوروں پر آیا) ہم نے ان کو دیکھا تو ایسا پایا کہ ہم سے وہ ایک آدمی بھی زائد نہ تھے) ۔ دوسری طرف ابو جہل کا قول ہے کہ جب کفار نے مسلمانوں کو دیکھا تو (چونکہ ابھی مدمقابل کا زور ملاحظہ ہی نہ کیا تھا) ابو جہل نے کہا ان محمد او اصحابہ اکلۃ جزور۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی تو اونٹ کا ایک لقمہ ہیں۔ لیکن جب مسلمانوں کی جرأت و ہمت کا مزہ چکھا تو نگاہ میں فرق آگیا۔ اور مسلمانوں کی تعداد اصل تعداد سے دو گنا دکھائی دینے لگی۔ جمہور علماء و مفسرین نے اس فقرہ کا مطلب وہی لیا ہے جو کہ نمبر 1 پر درج ہے یعنی مسلمان کافروں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے حالانکہ وہ تگنے سے بھی زیادہ تھے۔ یؤید۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تائید مصدرباب تفعیل وہ قوی کرتا ہے۔ عبرۃ۔ عبرت۔ نصیحت حاصل کرنا۔ دوسرے کے حال سے اپنے حال کو قیاس کرنا۔ اولی الابصار۔ اصحاب نظر۔ اصحاب عقل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی متذکرہ بالا پیش گوئی کے مبنی پر صداقت ہونے کے لیے معرکہ بدر میں بہت بڑی آیت (دلیل موجود ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) یرو نھم مثلھم صیغہ غائب یا کے ساتھ پڑ ھا جائے تو اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مسلمان کفار کو اپنے سے صرف دو چند دیکھ رہے تھے حالانکہ وہ سہ چند تھے تاکہ مسلمانوں کو ثبات حاصل ہو چناچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ دوم یہ کہ کفار مسلمانوں کے اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے حالا ن کہ ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور مسلمان کل 313 مگر مسلمان دوچند اس لیے نظر آتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے فرشتے بھیج دیئے تھے۔ اکثر مفسرین نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اور ترونھم پڑھیں تو معنی اور بن سکتے ہیں۔ (شوکانی) واضح رہے کہ دوچند دکھلا نا لڑائی سے قبل تھا ورنہ لڑائی کے وقت تو ہر گروہ دوسروں کو اپنے سے کم خیال کر رہا تھا۔ دیکھئے سورت برات آیت 130 (وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ بدر کی لڑائی میں۔ 5۔ وایتوں میں آیا ہے کہ اس روز مسلمان تین سو تیرہ تھے اور کفار ایک ہزار تھے، گو یا کفار مسلمانوں سے تین حصے تھے، اس آیت میں اسی کثرت کو بیان فرمایا ہے، کہ کفار آنکھوں سے مشاہدہ کرتے تھے کہ ہمارا گروہ زیادہ ہے مگر پھر بھی انجام دیکھ لیا کہ مسلمان ہی غالب رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ …………… کے دومفہوم ہوسکتے ہیں ‘ یرون کی ضمیر اگر کفار کی طرف ہے اور ہم سے مراد اہل ایمان ہیں تو مفہوم ہوگا کہ اہل کفر کو اپنی ظاہری کثرت کے باجود نظر یوں آرہا تھا کہ اہل اسلام ان سے دوگنا ہیں ۔ اور یوں یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تائید غیبی تھی کہ کفار کو اہل اسلام زیادہ اور وہ خود تھوڑے نظر آرہے تھے ۔ یوں ان کے قدم اکھڑ گئے اور ان کے دل بیٹھ گئے۔ اور اگر اس کے برعکس لیا جائے یعنی یرون سے مراد ہو کہ مسلمان ھم ان کو دیکھ رہے تھے ۔ تو مفہوم یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو وہ اپنے دوگنا نظر آرہے تھے ‘ وہ تین گنا تھے ۔ اس کے باوجود اہل اسلام ثابت قدم رہے ‘ اور فتح یاب ہوئے ۔ اصل بات یہ ہے کہ تائید ونصرت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے دکھانا یہ مطلوب ہے کہ اہل کفر اپنے انجام پر غور کریں ۔ اور اہل اسلام دلوں کو مضبوط کرلیں اور یقین کرلیں کہ ان کے اعداء کی تقدیر میں شکست لکھی جاچکی ہے ۔ اس لئے وہ ان اعداء سے خوف نہ کھائیں ۔ جیسا کہ ہم نے اس سورت پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس وقت جو صورتحال تھی ‘ اس میں اہل کتاب کو اس قسم کی تنبیہ اور تخویف کی ضرورت تھی ۔ قرآن کریم مسلسل اپنی عظیم حقیقت پر کاربند ہے اور اس عظیم سچائی میں سے ایک بات یہ ہے کہ اس دنیا میں جو لوگ کفر کرتے ہیں ‘ آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اسلامی نظام زندگی سے انحراف کرتے ہیں ان کی شکست کا وعدہ اب بھی اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ‘ اہل ایمان کے ساتھ یہ وعدہ بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ فتح یاب ہوں گے اگرچہ وہ قلیل تعداد میں ہوں ‘ اور نصرت اور فتح صرف تائید ایزدی پر موقوف ہے اور یہ صرف اس کا اختیا رہے ‘ جسے چاہے وہ فتح ونصرت سے نوازے ۔ حقیقت اپنی جگہ اب بھی قائم ہے ۔ منسوخ نہیں ہوئی۔ اہل ایمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت پر اچھی طرح مطمئن ہوجائیں ۔ اور اس پر پوری طرح اعتماد کریں ۔ اور میدان جہاد میں اپنی تیاریاں مکمل طور پر کریں جس قدر ممکن ہو ‘ اور اس تیاری کے بعد پھر تائید خداوندی کا انتظار کریں ۔ وہ نہ جلدبازی کریں ‘ نہ مایوس ہوں ‘ اگرچہ انہیں طویل انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ اللہ حکیم ہے وہ اپنی تدابیر خود اپنے وقت پر کرتا ہے ‘ اور اس حکمت کے مطابق ہی اس کا وعدہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لأولِي الأبْصَارِ ……………” دیدہ بینا رکھنے والوں کے لئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے ۔ اس لئے ضروری ہے دیکھنے والی آنکھ ہو ‘ تدبیر کرنے والی بصیرت ہو ‘ تب ہی ایک انسان عبرت حاصل کرسکتا ہے اور تب ہی قلب میں فہم پیدا ہوتا ہے ۔ اگر بصیرت نہ ہو تو سامان عبرت شب وروز آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے مگر آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔ “ اگلی آیت میں ‘ جماعت مسلم کی تربیت کے سلسلے میں ‘ اسے ان فطری میلانات اور فطری اسباب کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے ‘ جن کی وجہ سے انسان کی زندگی میں گمراہی اور انحراف کا آگاز ہوتا ہے ‘ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان فطری میلانات کو ہر وقت ضبط کنٹرول میں رکھا جائے ۔ اور ہر وقت زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو پیش نظر رکھاجائے اور اصل مطمح نظر وہ اکرام وانعام ہوجائے جو کسی انسان کو یوم آخرت میں مل سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواہشات دنیاوی میں گم ہوجانے ‘ مرغوبات نفس کے درپے ہوجانے اور دوسرے فطری میلانات کا بندہ بن جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ‘ کہ انسان کے دل بصیرت اور اس کی عقل سے عبرت آموزی ختم ہوجاتی ہے۔ اور انسان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ حسی لذتوں اور دنیاوی مرغوبات کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے۔ اعلیٰ اور بلند مقاصد نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے احساسات مادی ہوجاتے ہیں وہ دنیائے قریب کی ان لذتوں کے دائرے سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اور وہ ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کی لذت سے محروم ہوجاتا ہے جس کا تعلق انسان کے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کے منصب سے ہے ۔ اور جو اس دنیا کی اس مخلوق کے شایان شان ہیں جسے اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اس وسیع مملکت دنیا میں۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ فطری میلانات اور دنیاوی مرغوبات چونکہ اللہ کی جانب سے ‘ انسان کے تکوینی فرائض ہیں اور یہ رجحانات ومیلانات ‘ اس دنیا میں حیات انسانی کی نشوونما اور ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ ایک قسم کا فطری فریضہ ہیں ‘ اس لئے اسلام نے ان فطری میلانات کو ختم کرنے یا ان کی بیخ کنی کا کوئی اشارہ نہیں دیتا ۔ ہاں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ان میلانات کو ضابطے کا پابند بنایاجائے ۔ ان کو منظم کیا جائے ‘ ان کی تیزی کو کم کیا جائے ان کو اس طرح کنٹرول کیا جائے کہ ان پر انسان کو پورا پورا ضبط حاصل ہو ‘ انسان ان کا مالک اور متصرف ہو ‘ اور انسان ان سے آگے مقاصد عالیہ پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہو اور اپنے آپ کو ان کی غلامی سے بلند سمجھتا ہو۔ اس لئے قرآن کریم کی آنیونی آیات ان مرغوبات اور ان میلانات کے بارے میں بحث کرتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان اخروی لذائذ ‘ مرغوبات جن کا تعلق کام ودہن سے ہے اور ان کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق عقل وخرد سے ہوتا ۔ اور یہ اخروی لذات ان لوگوں کا نصیبہ ہوگا جنہوں نے اس جہاں میں اپنے نفوس کے اوپر کنٹرول کیا ۔ اور وہ اس جہاں میں عیش و عشرت اور لذات میں غرق نہ ہوئے اور انہوں نے یہاں اپنے آپ کو مقام انسانیت پر بلند رکھا۔ اس ایک ہی آیت میں قرآن کریم نے دوران کلام ‘ اس دنیا کی تمام اہم مرغوبات کو ایک ساتھ جمع کردیا ۔ مثلاً عورتیں ‘ اولاد ‘ مال دولت ‘ گھوڑے اور سواری ‘ سرسبز و شاداب اراضی اور اس میں قسم قسم کے مویشی ‘ اس دنیا میں جس قدر مرغوبات ممکن ہیں وہ سب اس آیت میں جمع کردی گئی ہیں ۔ یا تو بذات خود یہ اشیاء مرغوبات میں شامل ہیں ‘ یا وہ انسان کے لئے فراہمی مرغوبات کا ذریعہ ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں ان مرغوبات اور لذائذ کا ذکر ہے ‘ جو اللہ نے اہل ایمان کے لئے ‘ اس جہاں میں تیار کی ہیں ۔ ایسے باغات اور لذائذ کا ذکر ہے ‘ جو اللہ نے اہل ایمان کے لئے ‘ اس جہاں میں تیار کی ہیں ۔ ایسے باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ‘ پاکیزہ بیویاں ‘ اور ان سب انعامات سے بڑا انعام ذات باری کی رضامندی اور خوشنودی ۔ اور یہ انعام صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کی نظریں ان دنیاوی لذائذ سے اونچی ہیں ‘ جن کا تعلق اللہ سے قائم ہے ‘ ذرا ان آیات پر غور فرمائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِذِ الْتَقَیْتُمُوْھُمْ ) کو سامنے رکھ کر یوں کہا جائے گا کہ جب ابتدائی مقابلہ کے لیے فریقین آمنے سامنے آئے تو مشرکین مسلمانوں کو اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے اور جب بالکل ہی مڈ بھیڑ ہونے لگی تو وہ مسلمانوں کو کم دیکھ رہے تھے اور مسلمان ان کو کم دیکھ رہے تھے لفظ ترانی اور ترائی جو صاحب روح المعانی اپنی عبارت میں لائے ہیں اس سے یہ معنی مفہوم ہوتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے بعض علماء سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یرون کی ضمیر مرفوع سے مومنین مراد ہیں اور ضمیر منصوب کافروں کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ مومنین کافروں کو اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے حالانکہ وہ ان سے تین گنا تھے اور ان کو دو گنا اس لیے دکھایا کہ انہیں اپنی فتح کا اطمینان رہے کیونکہ (فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ) میں اللہ تعالیٰ کا ان سے وعدہ تھا کہ اپنے سے دو گنوں پر غالب ہوں گے۔ علامہ صاوی نے فرمایا کہ فاعل اور مفعول کے ضمیروں کے احتمالات کو دیکھتے ہوئے معنوی اعتبار سے چارصورتیں بنتی ہیں یعنی : (١) یشاھد المومنون الکفار قدر انفسھم مرّتین (٢) یری المومنون الکفار قدر الکفار مرتین محنۃً لھم (٣) یری الکفار المومنین قدر ھم مرتین (٤) یری الکفار المومنین قدر المومنین مرتین یہ سب احتمال ہوسکتے ہیں لیکن دوسرا احتمال بعید معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بمرادہ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ یُأَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہے تقویت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے ٣١٣ بےسرو سامان جماعت کو ہزار افراد کے لشکر پر غالب فرمایا جبکہ اس مغلوب ہونے والے لشکر کے پاس خوب زیادہ ہتھیار تھے۔ سب لڑنے والے مسلح تھے اور کھانے پینے کا سامان بھی خوب تھا اور ہر طرح کی آسائش تھی۔ یہودیوں نے اس بھر پور مدد کو نہ دیکھا اور عبرت حاصل نہ کی۔ بلکہ الٹا اثر لیا اور کہنے لگے کہ وہ تو اناڑی لوگ تھے جو جنگ میں ہار گئے۔ ہم سے پالا پڑا تو پتہ چلے گا کہ لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں۔ درحقیقت جب ظاہری و باطنی بینائی کو کام میں نہ لایا جائے اور قصداً کوئی شخص اندھا بنے تو وہ ہلاک ہی ہو کر رہتا ہے اسی کو فرمایا (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ ) کہ بدر کے واقعہ میں بصارت اور بصیرت رکھنے والوں کے لیے بہت بڑی عبرت ہے، اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہودی قصداً اندھے بنے ہوئے ہیں بصیرت سے کام نہیں لیتے عقل اور سمجھ کو کام میں لاتے تو مشرکین مکہ کی شکست دیکھ کر جو سرور عالم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت بڑا معجزہ تھا اسلام قبول کرلیتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18 یہ ماقبل کا تتمہ ہے اور قل کے تحت داخل ہے اور اس میں جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد کافروں کے مقابلہ میں بہت کم تھی مگر مسلمانوں کے رعب اور ان کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے۔ مسلمانوں کا کافروں کو دوگنا نظر آنا یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت بٹھانے کے لیے اس کا اظہار فرمایا۔ اس آیت سے جنگ بدر میں شریک ہونیوالے صحابہ کرام (رض) کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا۔ فِئَهٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ۔ یعنی وہ ایک ایسی جماعت تھی۔ جو محض اللہ کے دین کی خاطر لڑ رہی تھی۔ اللہ کی طرف سے یہ ان کے اخلاص اور ایمان کامل کی زبردست شہادت ہے۔ 19 اللہ تعالیٰ جس کی چاہے ظاہری اسباب کے بغیر بھی مدد کرسکتا ہے۔ جس طرح بدر میں مسلمانوں کی مدد کی اور انہیں کفار پر غلبہ عطا کیا حالانکہ تعداد اور ظاہری اسباب میں وہ مسلمانوں سے زیادہ تھے۔ اس واقعہ میں عقل وبصیرت رکھنے والوں کے لیے کافی عبرت ہے اس لیے اے یہودیو ! تم اس واقعہ سے عبرت حاصل کرو اور اب بھی موقع ہے تکذیب و انکار سے باز آجاؤ اور اسلام قبول کرلو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ بلا شبہ تمہارے لئے ان دو جماعتوں میں بڑی عبرت آموز نشانی تھی جو میدان بدر میں ایک دوسرے سے باہم نبرد آزما ہوتی تھیں اور دونوں جماعتیں آپس میں بھڑی تھیں ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا یعنی اعلاء کلمۃ اللہ کی غرض سے جنگ کر رہا تھا اور دوسرا فریق کافروں کا تھا جو کھلی آنکھوں ان کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی امداد سے قوت دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے اپنی فتح و نصرت کے ساتھ تائید کرتا ہے۔ یقین جانو ! اس واقعہ میں آنکھیں رکھنے والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ ( تیسیر) حضرت حق نے کفار کے عنقریب مغلوب ہونے کی جو پیشین گوئی اوپر کی آیت میں فرمائی تھی اس کا اس آیت میں ثبوت ہے کہ کفار باوجود صریح اکثریت کے کس طرح بدر کے میدان میں مغلوب ہوئے کیونکہ اس غزوے میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی ۔ سستر آدمی تو مہاجرین میں سے تھے اور مہاجرین کے علم بردار حضرت علی (رض) یا معصب بن عمیر تھے اور دو سو چھتیس مسلمان انصار میں سے تھے اور انصاریوں کے علمبردار بن عبادہ تھے ۔ اسلامی فوج کے پاس ستر اونٹ ، دو گھوڑے، آٹھ تلواریں اور چھ ذرعیں تھیں مسلمانوں کا یہ کل جنگی سامان تھا۔ دوسری طرف تقریباً ساڑھے نو سو کافر تھے جن میں سات سو کے پاس اونٹ اور ایک سو کے ساتھ گھوڑے تھے ان کا سردار عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس تھا یہ جنگ ہجرت کے اٹھارہ مہینے کے بعد رمضان میں واقع ہوئی تھی ۔ دونوں فوجوں میں تعداد کے اعتبار سے، سامان کے اعتبار سے اور بڑی بات یہ کہ اخلاق کے اعتبار سے نمایاں فرق تھا ایک طرف گانے والی عورتیں ساتھ تھیں ۔ شراب کا ہر وقت دور چل رہام تھا گانے والیاں جنگی ترانے گا گا کر ابھارہی تھیں۔ دوسری طرف نماز تھی خدا تعالیٰ سے دعائیں تھیں ۔ روزے کا چرچا تھا با ت بات پر اللہ تعالیٰ کا نام تھا ۔ قرآن شریف کی تلاوت تھی اس طرح دو لشکروں کی مڈ بھیڑ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح و نصرت کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی اور مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور بدر کی فتح نے تمام کفار عرب پر مسلمانوں کی ڈھاک بٹھا دی اور بڑے بڑے زبردست اور سرکش کافر اسلام پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے آیت میں جو لکم کا خطاب ہے اس میں بھی تین احتمال ہیں یا اہل کتاب کو خطاب ہے یا کفارقریش کو یا دونوں کو بھی مخاطب بنایا جاسکتا ہے اور چونکہ نافع اور یعقوب اور دوسرے بعض قراء کی قرأت میں بجائے یرونہم کے تو ونہم ہے اس لئے اس جملہ کے بہت سے معنی کئے گئے ہیں اور اسی غرض سے ہم نے تیسیر میں کوئی بات ظاہر نہیں کی اور چونکہ اس دن خرق عادت کے طور پر ایک فریق دوسرے فریق کو صحیح تعداد سے کئی گنا بڑھتی دیکھ رہا تھا اس لئے ترجمہ کرنے والوڈ نے یرونھم مثلیھم کی ضمیروں کے مختلف مرجع قرار دیئے ہیں ۔ مزید تشریح سورة انفال میں آجائے گی۔ سورۂ انفال کی آیت میں اور سورة آل عمران کی آیت میں کوئی تناقض نہیں ہے یہ تقلیل اور تکثیر مختلف حالات میں ہوتی ہے ابتداء کم دکھانے کی مصلحت یہ تھی کہ دونوں فریق بھیڑ جائیں بھڑ جانے کے بعد تھوڑوں کو بہت دکھانا اس غرض سے تھا کہ مشرکوں کا دل ٹوٹ جائے۔ بہر حال حفص کی قرأت پر یہاں بہ معنی ہوسکتے ہیں کہ مشرک مسلمانوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے یعنی تین سو تیرہ کو دو ہزار دیکھ رہے تھے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ کافر مسلمانوں کو ان کی تعداد سے دو چند دیکھ رہے تھے یعنی تین سو تیرہ کو چھ سو چھبیس سمجھ رہے تھے اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مسلمان مشرکوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے یعنی ہزار کی تعداد صرف چھ سو چھبیس دکھائی دے رہی تھی اور بعض اکابر نے اپنے ذوق کے موافق یوں معنی کئے ہیں کہ یہ کافر اپنے کو مسلمانوں سے کئی حصہ زیادہ دیکھ رہے تھے اور یہ دیکھنا بھی صریح آنکوں کا دیکھنا تھا اور اگرچہ یہاں دیکھنے سے مراد علم ہے جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ سمجھ رہے تھے لیکن یہ علم چونکہ معائنہ اور مشاہدہ سے حاصل ہوا تھا اس لئے سبب کا مسبب کی بجائے نام لیا ہے۔ بہر حال جو معنی بھی لئے جائیں سب کی گنجائش ہے نتیجہ یہ ہوا کہ حسب وعدہ کفار مغلوب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اسی کو حضرت حق نے ایۃ فرمایا ہے کفار کے لئے یہ بہت بڑی نشانی تھی اور یہود کے لئے بھی بہت بڑی نشانی تھی کہ قلت تعداد اور بےسروسرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تھوڑی تعداد اور بےسرو سامان لوگوں کے ہاتھوں کفار کی بڑی جماعت اور بھاری جمعیت کو شکست دلوائی اس کو آخر میں فرمایا ۔ ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار۔ یعنی اس سبق آموز واقعہ میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت اور بڑا سبق ہے جو دیدہ ٔ بینا اور دیکھنے والی نگاہ رکھتے ہیں چونکہ ان آیات میں کفار کا ذکر تھا اور مال اور اولاد کے کام نہ آنے کا تذکرہ تھا۔ اب آگے اس کی مزید تصریح فرماتے ہیں اور اسی کے ساتھ ان چیزوں کا بیان کرتے ہیں جو قیامت میں مفید اور کام آنے والی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جنگ بدر میں جس کا قصہ سورة انفال میں ہے مسلمانوں سے کافر تین برابر تھے اللہ دو ہی برابر دکھاتا تھا کہ خوف نہ کھاویں ، پھر اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی ، اس سے چاہئے کہ سب کافر عبرت پکڑیں۔ ( موضح القرآن) تسہیل