1. These verses refer to the battle of Uhud. The previous verses referred to Allah Almighty as the best of helpers&; recounted here are some incidents of Allah&s help. The word, سلطان sultan, rendered here as &authority& includes all revealed or rational bases of their position. The promise of casting awe and fear into the hearts of the disbelievers in this verse was made in the... back-ground of the battle of Uhud when the disbelievers of Arabia marched back to Makkah without any obvious reason and inspite of defeat overtaking Muslims (Baydawi). However, after having covered a certain distance on their way to Makkah, they awoke to their folly. When they thought of marching back to Madinah, Allah Almighty filled their hearts with such awe and fear that they could not muster the courage to do so. The most they could do was to hire a Madinah-bound villager to go there and tell Muslims that they were coming back. But, this whole deal came into the knowledge of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Madinah through revelation. He marched to Hamra& al-Asad to apprehend them but they had already run away from there. This was the background in which the present verse was revealed. The verses that follow recount, as pointed out earlier, Allah&s help and support for Muslims in the battle of Uhud. Show more
ربط آیات :۔ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ کا ناصر و مددگار ہونا مذکور تھا، ان آیات میں نصرت الٰہی کے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ خلاصہ تفسیر ہم ابھی ڈالے دیتے ہیں رعب (ہیبت) کافروں کے دلوں میں، بسب اس کے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ایک ایسی چیز کو ٹھہرایا جس (کے قابل شرکت ہونے) پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل ناز... ل نہیں فرمائی (نہ لفظاً اور صراحتاً اور نہ معنی یعنی ایسی دلیل جس کا شرع میں اعتبار ہوا اس میں تمام دلائل عقلیہ قطعیہ داخل ہوگئے، مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہر جاہ اپنی کوئی دلیل پیش کیا ہی کرتا ہے، مگر کوئی قابل اعتبار دلیل ان کے پاس نہیں) اور ان کی جگہ جہنم اور وہ بری جگہ ہے ظالموں کی، (اس آیت میں کافر پر رعب وہیبت طاری کرنے کا آج وعدہ ہے اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ اول تو باوجود اس کے کہ شکست مسلمانوں کو ہو رہی تھی، مشرکین عرب بلا کسی ظاہری سبب کے مکہ کی طرف لوٹ گئے (بیضاوی) پھر جب کچھ راستہ طے کرچکے تو اپنی حماقت پر افسوس کرنے لگے کہ جب مسلمان دم توڑ چکے تھے تو اس وقت وہاں سے واپس آنا کوئی دانشمندی نہیں تھی اور پھر مدینہ کی طرف واپسی کا کچھ ارادہ کیا، تو اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا رعب ڈالا کہ مدینہ کی طرف بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کسی راہ چلتے گاؤں والے سے کہہ دیا کہ ہم تجھے اتنا مال دیں گے، تم مدینہ جا کر مسلمانوں کو ڈرا دو کہ وہ پھر لوٹ کر آ رہے ہیں، یہاں پر سارا واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے تعاقب کے لئے مقام حمرا، الاسد تک پہونچے، مگر وہ بھاگ چکے تھے، یہ آیت اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی۔ اگلی آیتوں میں غزوہ احد کے اندر مسلمانوں کی عارضی شکست اور مغلوبیت کے اسباب کا بیان ہے، ارشاد ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تو تم سے اپنا وعدہ (نصرت کو سچا کر دکھایا، جس وقت کہ تم (ابتداء قتال میں) ان کفار کو بحکم خداوند قتل کر رہے تھے، (اور یہ تمہارا غلبہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا) یہاں تک کہ تم خود ہی (رائے میں) کمزور ہوگئے (اس طرح کہ جو تجویز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقب کے مورچہ پر پچاس سپاہی اور ایک افسر کو بٹھا کر فرمائی تھی اس میں بعض کو غلط فہمی ہوگئی کہ مسلمان فتح پاچکے ہیں، اب یہاں بیٹھے رہنے کی ضرورت ختم ہوگئی، اس لئے ہمیں بھی دشمن کے مقابلہ میں شریک ہوجانا چاہئے، جمے رہنے کی ہدایت پر قائم رہے، مگر بعض دوسروں نے دوسری تجویز پیش کردی، انکار و ملامت اسی دوسری تجویز پر ہے کہ) اور تم (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) کہنے پر نہ چلے بعد اس کے کہ تم کو تمہاری دل خواہ بات (آنکھوں سے) دکھا دی تھی (یعنی مسلمانوں کا غلبہ دکھلایا تھا اور اس وقت تمہاری یہ حالت تھی کہ) تم میں سے بعض تو وہ تھے جو دنیا (کا لینا) چاہتے تھے (یعنی کفار کا تعاقب کر کے مال غنیمت جمع کرنا چاہتے تھے) اور بعض تم میں وہ تھے جو (صرف) آخرت کے طلبگار تھے (اب چونکہ بعض سے رائے کی کمزری اور خلاف حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسری تجویز پیش کرنا اور آپ کہ کہنے پر نہ چلنا اور مطلب دنیا جیسے بعض امور سرزد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اپنی نصرت کو بند کرلیا اور پھر تم کو ان کافر (پر غالب آنے) سے ہٹا دیا (باوجودیکہ یہ عارضی شکست تمہارے فعل کا نتیجہ تھی، مگر پھر بھی منجانب اللہ پر عمل بطور و سزا کے نہیں بلکہ اس مصلحت سے ہوا) تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش (ایمان کی) فرما دے (چنانچہ اس وقت منافقین کا نفاق کھل گیا اور مخلصین کی قدر بڑھ گئی اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا (اب آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا) اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں مسلمانوں (کے حال) پر Show more