Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 151

سورة آل عمران

سَنُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ بِمَاۤ اَشۡرَکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا ۚ وَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ ؕ وَ بِئۡسَ مَثۡوَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۵۱﴾

We will cast terror into the hearts of those who disbelieve for what they have associated with Allah of which He had not sent down [any] authority. And their refuge will be the Fire, and wretched is the residence of the wrongdoers.

ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رُعب ڈال دیں گے ، اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اُتاری ، ان کا ٹِھکانا جہنّم ہے ، اور ان ظالموں کی بُری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

We shall cast terror into the hearts of those who disbelieve, because they joined others in worship with Allah, for which He sent no authority; their abode will be the Fire and how evil is the abode of the wrongdoers. In addition, the Two Sahihs recorded that Jabir bin Abdullah said that the Messenger of Allah said, أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الاَْنْبِ... يَاءِ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ وَجُعِلَتْ لِيَ الاَْرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَايِمُ وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلى النَّاسِ عَامَّة I was given five things that no other Prophet before me was given. I was aided with fear the distance of one month, the earth was made a Masjid and clean place for me, I was allowed war booty, I was given the Intercession, and Prophets used to be sent to their people, but I was sent to all mankind particularly. Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151۔ 1 مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے بڑا اچھا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا پھر انہیں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر) ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ عل... یہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ " نصرت بالرعب مسیرۃ شھر " دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے۔ " اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کی بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٧] آپ کے زخمی ہونے کے بعد جب مشرکین نے گھیرا ڈالا اور صحابہ کرام (رض) نے نہایت جانبازی سے مشرکین کو منتشر کردیا تو آپ نے ہمت کرکے نہایت دانشمندی اور حربی مہارت سے نقشہ جنگ میں تبدیلی کی اور ثابت قدمی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ آپ کے اس اقدام سے فوراً جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ ابو سفیان نے آپ کو...  دیکھا تو فوج لے کر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کی۔ اوپر سے صحابہ نے پتھر برسائے، لہذا وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس طرح شکست خوردہ مسلمان پھر سے برابری کی سطح پر آگئے اور ابو سفیان کو ناکام واپس جانا پڑا۔ چونکہ یہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی اور اسی حال میں ابو سفیان واپس چلا گیا۔ لہذا آپ کو خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو سفیان واپس مڑ کر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کردے۔ لہذا آپ نے صحابہ کو تعاقب کا حکم دیا۔ چناچہ زخم خوردہ اور غمزدہ مسلمانوں میں سے ستر آدمیوں کی ایک جماعت تعاقب کے لیے تیار ہوگئی اور وہ مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک پہنچ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گمان بالکل درست نکلا۔ ابو سفیان جب مقام روحاء پر پہنچا تو اسے خیال آیا کہ کام تو ناتمام ہی رہ گیا۔ لہذا واپس مدینہ چل کر دوبارہ حملہ کرنا چاہئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال ہوئی۔ قبیلہ خزاعہ کا رئیس معبد (یہ قبیلہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ تاہم وہ مسلمانوں کا حلیف اور خیر خواہ ضرور تھا) مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر دلجوئی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اسے صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سے مشورہ کے بعد وہ ابو سفیان کے پاس گیا۔ ابو سفیان نے اسے اپنا خیر خواہ سمجھ کر جب اپنا واپس جاکر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو معبد کہنے لگا میں ادھر سے ہی آرہا ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( ) ایک لشکر جرار لے کر آپ لوگوں کے تعاقب میں آرہے ہیں اور اس لشکر میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اس معرکہ میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ ابو سفیان نے جب یہ قصہ سنا تو اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اپنا ارادہ بدل دیا اور مکہ کی راہ لی۔ [١٣٨] مشرکوں کے مرعوب ہوجانے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتلائی ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو مخلوق ہیں اور اپنے بھی نفع و نقصان پر قادر نہیں تو دوسروں کی کیا مدد کرسکتے ہیں (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ 73؀) 22 ۔ الحج :73) والا معاملہ ہوتا ہے۔ جبکہ مومن صرف ایک اللہ کا پرستار ہوتا ہے جو مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ بشرطیکہ مومن اس کی اطاعت کریں اور اسی پر توکل کریں۔ اللہ پر توکل اور تقدیر الٰہی کا عقیدہ اسے اللہ کے علاوہ باقی سب چیزوں سے بےخوف اور نڈر بنا دیتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَـنُلْقِيْ ۔۔ : یہ آیت اپنے سیاق کے اعتبار سے اوپر کے بیان کو مکمل کر رہی ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف وجوہ سے جہاد کی ترغیب دی ہے اور کفار کے خوف کو دلوں سے نکالا ہے۔ یہاں فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھو گے اور اسی سے مدد مانگو گے تو اللہ تعالیٰ کفار کے دلوں میں تمہارا خوف ڈا... ل دے گا، اس طرح تمہیں ان پر غلبہ حاصل ہوجائے گا، کیونکہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں، لہٰذا ” بِمَآ اَشْرَكُوْا “ میں باء برائے سببیت ہے۔ (قرطبی) 2 شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مشرک اللہ تعالیٰ کے چور ہیں اور چور کے دل میں ڈر ہوتا ہے۔ “ (موضح) چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہوا اور کافر احد میں باوجود غالب ہونے کے چپکے سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ واپسی کے وقت راستے میں انھوں نے دوبارہ مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا مگر مرعوب ہوگئے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پانچ چیزوں میں مجھے پہلے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن کے دل میں میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے۔ “ [ بخاری، التیمم، بابٌ : ٣٣٣٥۔ مسلم : ٥٢١، عن جابر بن عبد اللہ (رض) ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفار کے دل میں رعب ڈالنے کا وعدہ احد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہے۔ 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کی امت، یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے، گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے ڈرتا اور لرزتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں گرفتار ہوئی، تقریباً ہر شہر اور محلہ میں پختہ قبریں اور غیر اللہ کے آستانے بن گئے اور غیر اللہ سے استغاثہ اور مدد مانگنا شروع ہوگئے۔ تو وہی رعب جو شرک کی وجہ سے کفار کے دل میں تھا، ڈیڑھ ارب کے قریب تعداد ہونے کے باوجود مسلمانوں کے دلوں میں پڑگیا۔ ہاں، توحید والے اس رعب سے محفوظ ہیں اور قیامت تک کفار سے جہاد جاری رکھیں گے اور ان کا رعب کفار کے دلوں میں کفار کے مشرکانہ عقائد و اعمال کی وجہ سے رہے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَنْ یَّبْرَحَ ھٰذَا الدِّیْنُ قَاءِمًا یُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ ) [ مسلم، الأمارۃ، باب قولہ (رض) : لا تزال من أمتی۔۔ : ١٩٢٢، عن جابر بن سمرۃ (رض) ] ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی، حتیٰ کہ قیامت قائم ہو۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

1. These verses refer to the battle of Uhud. The previous verses referred to Allah Almighty as the best of helpers&; recounted here are some incidents of Allah&s help. The word, سلطان sultan, rendered here as &authority& includes all revealed or rational bases of their position. The promise of casting awe and fear into the hearts of the disbelievers in this verse was made in the...  back-ground of the battle of Uhud when the disbelievers of Arabia marched back to Makkah without any obvious reason and inspite of defeat overtaking Muslims (Baydawi). However, after having covered a certain distance on their way to Makkah, they awoke to their folly. When they thought of marching back to Madinah, Allah Almighty filled their hearts with such awe and fear that they could not muster the courage to do so. The most they could do was to hire a Madinah-bound villager to go there and tell Muslims that they were coming back. But, this whole deal came into the knowledge of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Madinah through revelation. He marched to Hamra& al-Asad to apprehend them but they had already run away from there. This was the background in which the present verse was revealed. The verses that follow recount, as pointed out earlier, Allah&s help and support for Muslims in the battle of Uhud.  Show more

ربط آیات :۔ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ کا ناصر و مددگار ہونا مذکور تھا، ان آیات میں نصرت الٰہی کے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ خلاصہ تفسیر ہم ابھی ڈالے دیتے ہیں رعب (ہیبت) کافروں کے دلوں میں، بسب اس کے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ایک ایسی چیز کو ٹھہرایا جس (کے قابل شرکت ہونے) پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل ناز... ل نہیں فرمائی (نہ لفظاً اور صراحتاً اور نہ معنی یعنی ایسی دلیل جس کا شرع میں اعتبار ہوا اس میں تمام دلائل عقلیہ قطعیہ داخل ہوگئے، مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہر جاہ اپنی کوئی دلیل پیش کیا ہی کرتا ہے، مگر کوئی قابل اعتبار دلیل ان کے پاس نہیں) اور ان کی جگہ جہنم اور وہ بری جگہ ہے ظالموں کی، (اس آیت میں کافر پر رعب وہیبت طاری کرنے کا آج وعدہ ہے اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ اول تو باوجود اس کے کہ شکست مسلمانوں کو ہو رہی تھی، مشرکین عرب بلا کسی ظاہری سبب کے مکہ کی طرف لوٹ گئے (بیضاوی) پھر جب کچھ راستہ طے کرچکے تو اپنی حماقت پر افسوس کرنے لگے کہ جب مسلمان دم توڑ چکے تھے تو اس وقت وہاں سے واپس آنا کوئی دانشمندی نہیں تھی اور پھر مدینہ کی طرف واپسی کا کچھ ارادہ کیا، تو اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا رعب ڈالا کہ مدینہ کی طرف بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کسی راہ چلتے گاؤں والے سے کہہ دیا کہ ہم تجھے اتنا مال دیں گے، تم مدینہ جا کر مسلمانوں کو ڈرا دو کہ وہ پھر لوٹ کر آ رہے ہیں، یہاں پر سارا واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے تعاقب کے لئے مقام حمرا، الاسد تک پہونچے، مگر وہ بھاگ چکے تھے، یہ آیت اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی۔ اگلی آیتوں میں غزوہ احد کے اندر مسلمانوں کی عارضی شکست اور مغلوبیت کے اسباب کا بیان ہے، ارشاد ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تو تم سے اپنا وعدہ (نصرت کو سچا کر دکھایا، جس وقت کہ تم (ابتداء قتال میں) ان کفار کو بحکم خداوند قتل کر رہے تھے، (اور یہ تمہارا غلبہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا) یہاں تک کہ تم خود ہی (رائے میں) کمزور ہوگئے (اس طرح کہ جو تجویز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقب کے مورچہ پر پچاس سپاہی اور ایک افسر کو بٹھا کر فرمائی تھی اس میں بعض کو غلط فہمی ہوگئی کہ مسلمان فتح پاچکے ہیں، اب یہاں بیٹھے رہنے کی ضرورت ختم ہوگئی، اس لئے ہمیں بھی دشمن کے مقابلہ میں شریک ہوجانا چاہئے، جمے رہنے کی ہدایت پر قائم رہے، مگر بعض دوسروں نے دوسری تجویز پیش کردی، انکار و ملامت اسی دوسری تجویز پر ہے کہ) اور تم (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) کہنے پر نہ چلے بعد اس کے کہ تم کو تمہاری دل خواہ بات (آنکھوں سے) دکھا دی تھی (یعنی مسلمانوں کا غلبہ دکھلایا تھا اور اس وقت تمہاری یہ حالت تھی کہ) تم میں سے بعض تو وہ تھے جو دنیا (کا لینا) چاہتے تھے (یعنی کفار کا تعاقب کر کے مال غنیمت جمع کرنا چاہتے تھے) اور بعض تم میں وہ تھے جو (صرف) آخرت کے طلبگار تھے (اب چونکہ بعض سے رائے کی کمزری اور خلاف حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسری تجویز پیش کرنا اور آپ کہ کہنے پر نہ چلنا اور مطلب دنیا جیسے بعض امور سرزد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اپنی نصرت کو بند کرلیا اور پھر تم کو ان کافر (پر غالب آنے) سے ہٹا دیا (باوجودیکہ یہ عارضی شکست تمہارے فعل کا نتیجہ تھی، مگر پھر بھی منجانب اللہ پر عمل بطور و سزا کے نہیں بلکہ اس مصلحت سے ہوا) تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش (ایمان کی) فرما دے (چنانچہ اس وقت منافقین کا نفاق کھل گیا اور مخلصین کی قدر بڑھ گئی اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا (اب آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا) اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں مسلمانوں (کے حال) پر   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۝ ٠ ۚ وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِــمِيْنَ۝ ١٥١ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَل... ْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ رعب الرُّعْبُ : الانقطاع من امتلاء الخوف، يقال : رَعَبْتُهُ فَرَعَبَ رُعْباً ، فهو رَعِبٌ ، والتِّرْعَابَةُ : الفروق . قال تعالی: وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، وقال : سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ [ آل عمران/ 151] ، وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف/ 18] ، ولتصوّر الامتلاء منه قيل : رَعَبْتُ الحوص : ملأته، وسیل رَاعِبٌ: يملأ الوادي، ( ر ع ب ) الرعب ۔ اس کے اصل معنی خوف سے بھر کر کٹ جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ رعبتہ فرعب رعبا ۔ میں نے اسے خوف زدہ کیا تو وہ خوف زدہ ہوگیا ۔ اور خوف زدہ شخص کو رعب کہا جاتا ہے ۔ الترعابۃ ( صیغہ صفت ) بہت زیادہ ڈر پوک ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بیٹھا دیں گے ۔ وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف/ 18] اور ان کی ( صورت حال سے ) تجھ میں ایک دہشت سما جائے پھر کبھی یہ صرف بھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے رعبت الحوض میں نے حوض کو پانی سے پر کردیا ۔ سیل راعب : سیلاب جو وادی کو پر کر دے ۔ اور جاریۃ رعبوبۃ کے معنی جوانی سے بھرپور اور نازک اندام دو شیزہ کے ہیں اس کی جمع رعابیب آتی ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (سنلقی فی قلوب الذین کفروا الّرعب بما اشرکواباللہ ما لم ینزل بہ سلطانا۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرین حق کے دلوں میں رعب بٹھا دیں گے اس لیے کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ ان کو خدائی میں شریک ٹھہرایا ہے جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سندنازل نہیں کی) آیت میں تقلید کے بطلان کی دلیل مو... جود ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے قول کے بطلان کا اس وجہ سے حکم لگادیا کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں تھی یہاں سلطان سے مراد برہان اور دلیل ہے۔ ایک قول ہے کہ سلطان کے اصل معنی قوت کے ہیں۔ بادشاہ کا سلطان اس کی قو ت ہوتی ہے۔ حجت اور دلیل کو بھی اس لیے سلطان کہتے ہیں کہ اس میں باطل کو جڑ سے اکھاڑدینے اور طابل پرست پر غالب آجانے کی قوت ہوتی ہے۔ کسی چیز پر تسلیط اور غلبہ کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھڑکاکر اس کے خلاف قوت کا مظاہرہ کیا جائے ورا سے دبالیا جائے۔ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی دلیل موجود ہے۔ اس میں مشرکین کے دلوں میں رعب ڈال دینے کی خبردی گئی ہے۔ بعد میں پیش آمدہ واقعات نے اسے سچ کردکھایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (نصرت بالرعب حتی ان العد ولیرعب منی وھوعلی مسیرۃ شھر، دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر میری نصرت کی گئی ہے حتی کہ دشمن ایک ماہ کی مسافت پر بھی مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥١ (سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ ) (بِمَآ اَشْرَکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا ج) (وَمَاْوٰٹہُمُ النَّارُط وَبِءْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ ) اس آیت میں دراصل توجیہہ بیان ہو رہی ہے کہ غزوۂ احد میں مشرکین واپس کیوں چلے گئے ‘ جب کہ ان کو اس درجے کھلی فت... ح حاصل ہوچکی تھی اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے پہاڑ کے اوپر چڑھ کر پناہ لے لی تھی۔ خالد بن ولید کہہ رہے تھے کہ ہمیں ان کا تعاقب کرنا چاہیے اور اس معاملے کو ختم کردینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان کے دل میں اللہ نے اس وقت ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ لشکر کو لے کر وہاں سے چلے گئے۔ ورنہ واقعتا اس وقت صورت حال بہت مخدوش ہوچکی تھی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:151) سنلقی۔ س مستقبل قریب کے لئے ہے۔ نلقی۔ مضارع جمع متکلم ۔ القاء مصدر (افعال) لقی مادہ۔ ہم ڈالنے کو ہیں۔ ہم عنقریب ڈالیں گے۔ بما۔ بوجہ ۔ بمقابلہ۔ بدلہ میں۔ سلطانا۔ زور۔ قوت۔ حجت۔ برہان۔ سند۔ حکومت مادی۔ مصدر۔ اور اسم ظرف، قیام کرنا۔ سکونت پذیر ہونا۔ مقام سکونت۔ ٹھکانہ۔ پناہ گاہ۔ اوی یاوی ... (ضرب) مثوی۔ ظرف مکان۔ مثاوی جمع۔ ٹھکانہ۔ قیام گاہ۔ فرودگاہ۔ ثوی یثوی (ضرب) ثواء ثویا مصدر متعدی بنفسہ بھی ہے۔ ثوی المکان اس نے اس جگہ قیام کیا ۔ اترا۔ ٹھہرا۔ اثوی بالمکان (افعال) وہ وہاں مدت دراز تک ٹھہرا رہا۔ اثویتہ۔ میں نے اس کو ٹھہرایا۔ ثوی۔ یثوی (تفعیل لازم) وہ مرگیا۔ ثویتہ (باب تفعیل متعدی) میں نے اس کو ٹھہرایا اور تثویتہ (باب تفعل) میں اس کا مہمان ہوا۔ اگلی چند آیات کو سمجھنے کے لئے جنگ احد (جس سے ان آیات کا تعلق ہے) کا مختصر سا نقشہ نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ شوال سنہ 3 ھ کی ابتداء میں کفار قریش تقریباً 4 ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس سازو سامان بھی مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔ اور پھر جنگ بدر کے انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تجربہ کار صحابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہوکر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے جو شہادت کے شوق سے بےتاب تھے اور جنہیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار ان کے اصرار پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باہر نکلنے کا ہی فیصلہ کرلیا۔ ایک ہزار آدمی آپ کے ہمراہ نکلے مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبد اللہ بن ابی اپنے 300 ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا ۔ عین وقت پر اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں خاصا اضطراب پھیل گیا۔ حتی کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگوں نے بھی دل سکشتہ ہوکر پلٹ جانے کا ارادہ کرلیا۔ (آیۃ 122) مگر پھر اولوالعزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہوگیا اور ان ہر دو گروہوں نے پلٹنے کا ارادہ ترک کردیا۔ باقی ماندہ 700 آدمیوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمراہ لے کر آگے بڑھے۔ اور احد کی پہاڑی کے دامن میں اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا۔ وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبد اللہ بن جبیر (رض) کی زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیئے اور ان کو تاکید کردی کہ کسی کو ہمارے قریب نہ بھٹکنے دیا جائے۔ اور کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا۔ اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لئے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت کے اٹھانے میں مصروف ہوگئے۔ ادھر جن تیر اندازوں کو عقب کی حفاظت کے لئے بٹھایا گیا تھا انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔ حضرت عبد اللہ بن جبیر (رض) نے ان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تاکیدی فرمان یاد دلاکر بہت روکنے کی کوشش کی مگر چند آدمیوں کے سوا (جن کی تعداد دس سے بھی کم تھی) کوئی نہ ٹھہرا۔ اس موقعہ سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے۔ بروقت فائدہ اٹھایا۔ اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کردیا۔ حضرت عبد اللہ بن جبیر نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ساتھ حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے۔ اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوئے۔ جب مسلمانوں پر اچانک دو طرف سے حملہ ہوا تو ان کی صفوں میں ابتری پھیل گئی۔ کچھ لوگ مدینہ کی طرف بھاگ نکلے۔ اور کچھ احد پر چڑھ گئے۔ مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک انچ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ دس بارہ جاں نثار آپ کے ہمراہ تھے اور آپ بھاگنے والوں کو پکار رہے تھے الی عباد اللہ۔ الی عباد اللہ۔ میری طرف آؤ اللہ کے بندو۔ لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹنے سے مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ایک بڑا حصہ پراگندہ ہوکر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں افواہ اڑ گئی کہ نبی اکرم صلی اللہ شہید ہوگئے۔ اس خبر نے صحابہ (رض) کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دئیے۔ بعض کمزور دل کے مسلمانوں نے تو یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ کاش کوئی ہمارے لئے ابو سفیان سے (جو اس وقت لشکر کفار کے کمانڈر تھے) امان طلب کرے۔ بعض منافقوں نے تو یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا کہ محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام اگر نبی ہوتے تو شہید کیسے کئے جاتے آؤ اپنے پہلے دین کی طرف لوٹ جائیں۔ (اسی کے متعلق ایسے اشخاص کو آیۃ 144 میں سرزنش ہوتی ہے) ۔ لیکن جلد ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی افواہ غلط نکلی۔ اور تمام صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہیں۔ اس حقیقت نے مسلمانوں کو ہمت بندھائی۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہونے لگے۔ ادھر اپنے قیدیوں کو چھڑا لینے اپنے لوٹے ہوئے مال کو واپس لینے نیز مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر شہید کرنے کے بعد قریش نے خیال کیا کہ ان کا مقصد حاصل ہوگیا اس لئے انہوں نے اتنی ہی کامیابی پر اکتفاء کیا۔ جو حالات نے ان کو نصیب میں کردی تھی۔ مزید برآں شدت کار زار سے ان کی اپنی ہمت بھی قریب قریب جواب دے چکی تھی۔ اس لئے انہوں نے بجائے مدینہ کا رخ کرنے کے اپنی سپہ سالار ابو سفیان کے حکم پر اپنا اسباب باندھا۔ اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو دوبارہ دیکھ کر اور اپنے میں مزید لڑائی کی قوت نہ پاکر انہوں نے اس کو ہی غنیمت جانا کہ اب کے ہمارا ہاتھ اوپر ہے مزید خطرہ مول نہ لیا جاوے۔ بہرکیف انہوں نے میدان کا رزار کو چھوڑ کر مکہ کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ ادھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار میں کچھ آرام کرکے مدینہ کی طرف واپسی فرمائی۔ اگلے دن پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کا پھر تعاقب کیا۔ اور حمراء الاسد جو مدینہ سے 9 میل کے فاصلہ پر ہے جاکر قیام کیا۔ اس وقت ابو سفیان کا لشکر چند میل آگے روحاء کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ ہر دو فریق کو ایک دوسرے کے متعلق خبر ملی کہ مقابل فریق ڈٹنے کو تیار ہے لیکن تین دن تک قیام کے بعد ابو سفیان اپنے میں دوبارہ مقابلہ کی ہمت نہ پاکر مکہ کی طرف چل دیا۔ (تفہیم القرآن۔ ضیاء القرآن۔ تفسیر علامہ عبد اللہ یوسف علی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔ حیاۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصنفہ محمد حسین ہیکل مصری)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 آیت اپنے سیاق کے اعتبار سے اوپر کے بیان کا تتمہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مختلف وجوہ سے جہاد کی ترغیب دی ہے اور کفار کے خوف کو دلوں سے نکا لا یہاں فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھوگے اور اسی مدد مانگو گے تو اللہ تعالیٰ کفار کی دلوں میں تمہارا خوف ڈال دتے گا اس طرح تمہیں ان پر غلبہ حاصل ... ہوجائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ پس مبا اشر کوا میں با براے سببیب ہے۔ (قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں مشرک چور میں اللہ تعالیٰ کے اور چور کے دل میں ڈرہو تا ہے کہ (موضح) چناچہ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ سچ ہوا اور احد میں باوجود غالب ہونے کے چپکے سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے عمائے تفسیر کا بیان ہے کہ راستہ میں انہوں نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کا ارادہ کیا مگر مرعوب ہوگئے صحیحین میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ چیزوں میں مجھے پہلے انبیا پر فضیلت دی گئی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ہے۔ (قرطبی ابن کثیر) حدیث سے معلوم ہوتا ہوا کہ اس وعدہ یا تعلق خاص احد ہی سے نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ ( کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ چناچہ اس القاء رعب کا ظہور اس طرح ہوا کہ اول تو باجود مسلمانوں کے شکست کھا جانے کے مشرکین بلاکسی سبب ظاہری کے مکہ کو لوٹ گئے پھر جب کچھ رستہ قطع کرچکے تو اپنے اس طرح آنے پر بہت افسوس کیا اور پھر ارادہ واپسی مدینہ کا کیا مگر کچھ ایسا رعب چھایا کہ پھر ارادہ واپسی مدینہ کا کیا مگر کچھ ایسا رعب چھایا...  کہ پھر نہ آسکے اور راہ میں کوئی اعرابی مل گیا اس سے کہا کہ ہم تجھ کو اتنا مال دیں گے تو مسلمانوں کو ڈرا دینا یہاں وحی سے معلوم ہوگیا آپ ان کے تعاقب میں حمراء الاسد تک پہنچے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد مومنین کو تسلی دی جاتی ہے اور انہیں یہ خوش خبری دی جاتی ہے کہ جلد ہی وہ کفار کے دلوں میں تحریک اسلامی کا رعب ڈال دیں گے اور یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی ذات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور یہ نظریہ شرک کی پشت پر اس دنیا میں نہ قوت ہے نہ قوت دلیل ہے اور آخرت میں تو ان کے لئے بہت ہی براٹھکانہ تیا... ر کیا گیا ہے۔ سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ ” عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرین حق کے دلوں میں رعب بٹھادیں گے ‘ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ ان کو خدائی میں شریک ٹھہرایا ہے جس کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے اور بہت ہی بری ہے وہ قیام گاہ جو ان ظالموں کو نصیب ہوگی ۔ “ یہ وعدہ اللہ جل شانہ کی جانب سے ہے ‘ جو غالب ہے اور قادر مطلق ہے ۔ وہ اہل کفر کے دلوں میں رعب بٹھاسکتا ہے ۔ وہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اس معرکے کا انجام کیا ہوگا ‘ وہ ضمانت دیتا ہے کہ اس کے دوست فاتح ہوں گے اور اس کے دشمنوں کو شکست ہوگی ۔ اللہ کا یہ وعدہ ہر اس معرکے کے لئے اب بھی قائم ہے جس میں فریقین معرکہ اہل کفر اور اہل ایمان ہوں۔ جب بھی اہل کفر اہل سے دوچار ہوجاتے ہیں ‘ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا رعب بٹھادیتے ہیں ۔ لیکن اہم بات اور اہم شرط یہ ہے کہ اہل ایمان کے دل میں ایمان کی حقیقت موجود ہو۔ ان کو اللہ کی نصرت کا حقیقی شعور ہو ‘ انہیں پورا پورا یقین ہو کہ اللہ ان کا مددگار ہے اور ان کے دل میں ذرہ برابر شک اس بارے میں نہ ہو کہ اللہ کا لشکر ہی غالب رہتا ہے اور یہ کہ اللہ اپنے معاملات پر پورا کنٹرول رکھتے ہی اور یہ کہ اہل کفر اللہ کو شکست نہیں دے سکتے اور نہ وہ اللہ سے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ اور ان کا معاملہ اللہ کے اس وعدے کے ساتھ ہو کہ وہ روبعمل ہوکر رہے گا چاہے ظاہری حالات اس کے خلاف نظر آئیں ‘ اس لئے کہ اللہ کا وعدہ بہرحال سچا ہوتا ہے اگرچہ ہماری آنکھیں الٹ دیکھ رہی ہوں۔ اہل کفر رعب میں اس لئے آجاتے ہیں کہ ان کا تکیہ صحیح نہیں ہے ۔ ان کا بھروسہ نہ قوت پر ہے اور نہ صاحب قوت پر۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ ایسے خداؤں کو شریک کیا ہوا ہے جن کے ہاتھ میں کوئی قوت نہیں ہے کیونکہ اللہ نے ان شریکوں کو کوئی قوت دے کر اپنے ساتھ شریک نہیں کرلیا۔ یہ انداز تعبیر کہ اللہ نے ان پر کوئی ” سلطان “ نہیں اتاری ‘ اپنے اندر گہرامفہوم رکھتی ہے ۔ قرآن میں اس انداز تعبیر کو بار بار اپنایا گیا ہے ۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ جھوٹے الہٰوں کے پاس سلطان نہیں ہے ۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ غلط عقائد پر کوئی سلطان نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی تصور ‘ کوئی عقیدہ ‘ کوئی نظریہ ‘ کوئی شخصیت اور کوئی بھی تنظیم ‘ اس قدر موثر ہوتی ہے جس قدر اس کے اندر پوشیدہ قوت اور غلبے کا داعیہ ہوتا ہے ۔ اس اندرونی قوت کی مقدار کے مطابق ہی اس کی جدوجہد قائم اور دائم رہتی ہے ۔ اور اس اندرونی قوت کا دارومدار اس کی اس سچائی کی اس مقدار پر ہوتا ہے جو اس کے اندر موجود ہوتی ہے اور یہ کہ اس قوت اور اس قوت کے اندر کی قدر ہم آہنگی ہے جس قوت اور سچائی پر اللہ نے اس پوری کائنات کو قائم کیا ہے ۔ نیز یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کائنات کے سنن اور نوامیس کے ساتھ اس کی ہم آہنگی کی قدر ہے ۔ کسی شخص یا ادارے کو اللہ اسی قدر قوت اور سلطان دیتا ہے جس قدر وہ ان نوامیس فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ‘ جو اس کائنات میں مؤثر ہیں اور کارفرما ہیں ۔ اگر یہ ہم آہنگی نہیں ہے تو وہ شخص ‘ نظریہ اور ادارہ ‘ بوگس ‘ کھوٹا اور ضعیف اور ختم ہونے والا ہے ‘ چاہے بظاہر وہ بہت ہی قوی نظر آئے ‘ بظاہر وہ جس قدر مزین کیا گیا ہو اور بظاہر وہ پھولا ہوا نظر آتا ہو۔ مشرکین کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔ یہ شرک مختلف الاقسام ہوتی ہے ۔ اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ پہلے اللہ کی خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت غیر اللہ کو عطا کرتے ہیں ‘ یا اللہ کے مظاہر میں سے کوئی مظہر غیر اللہ کو دیتے ہیں ۔ ان خصائص میں سے اہم خاصہ خدا اس کا حق قانون سازی ہے ‘ جو وہ اپنے بندوں کی زندگی کے مختلف حالات کے لئے کرتا ہے اور ان اقدار کے تعین کا حق ہے جن کے مطابق لوگوں کو اپنی زندگی کے معاملات ‘ انفرادی اور اجتماعی فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور یہ کہ بندوں پر حق حکمرانی صرف اللہ کو ہے اور یہ صرف اس کا حق ہے کہ وہ اپنے قوانین اور اپنے طے کئے ہوئے حسن وقبح کے معیارات اور پیمانوں کی اطاعت کرائے ۔ اس کے بعد شرک پھر ان شعائر تعبدیہ کے اندر ہوتا ہے جو اللہ کے لئے مخصوص ہوتے ہیں یعنی عبادات۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ خدا جن کو مشرکین اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں اس کے ہاں اس سچائی کی کیا مقدار ہوتی جس پر اللہ نے اس کائنات کو قائم کیا ہے ؟ یہ صرف اللہ ہے جس نے اس کائنات کو حق پر قائم کیا ہے اور تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اس کی بندگی کا اقرار کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اور وہ شریعت اور حسن وقبح کے پیمانے صرف اس سے لیں ۔ اور صرف اس کی عبادت اس طرح کریں جس طرح اس کی عبادت کرنے کا حق ہے ۔ بغیر کسی شرک کے ‘ بغیر کسی شراکت کے ۔ اس لئے جو نظریہ اصول توحید کے خلاف ہو جس پر یہ کائنات اپنی اساس سے قائم ہے وہ کھوٹا ‘ باطل اور حق کے مخالف ہے۔ اور یہی راز ہے کہ اس کے کمزور اور واہیات ہونے کی اور یہی وجہ ہے کہ اس کے اندر نہ قوت ہوتی ہے اور نہ اس کے اندر سلطان ہوتی ہے اور وہ زندگی کے دھارے کو متاثر نہیں کرسکتا ۔ بلکہ اس کے اندر سرے سے زندگی کے بنیادی عناصر (Potentials) نہیں ہوتے ۔ جب تک مشرکین شرک میں مبتلا ہیں (اور شرک ایسا نظریہ ہے جس اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی سلطان نہیں ہے) یہ شرک وہ چاہے الٰہوں کی صورت میں کررہے ہوں یا وہ عقائد و تصورات میں کررہے ہوں ‘ تو وہ گویا کمزوری خلا اور وہم پر بھروسہ کررہے ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہ ہمیشہ ذلیل وہ خوار اور ضعیف وناتواں رہیں گے اور وہ ہمیشہ مرعوب رہیں گے ‘ جب بھی ان کا سامنا اہل ایمان کے ساتھ ہوا۔ اس لئے کہ اہل ایمان کا بھروسہ ایسی سچائی پہ ہوتا ہے جو پر شوکت اور پر قوت ہوتی ہے ۔ اس وعدے کا مصداق ہمیں ہر وقت نظر آسکتا ہے جب بھی حق و باطل کا آپس میں ٹکراؤ ہو ‘ بارہا ایسا ہوا ہے کہ باطل زاد وعتاد اور کثر سامان جنگ کے ساتھ حق کے مقابلے میں آیا ہے ‘ جبکہ حق غیر مسلح تھا لیکن اس صورت حال کے باوجود باطل خوفزدہ اور مرعوب ہوکر کانپنے لگتا ہے ۔ وہ ہر حرکت اور ہر نعرہ تکبیر کے مقابلے میں تھرتھر کانپتا رہا ہے حالانکہ اس کے ساتھ عظیم مسلح لشکر رہے ہیں ۔ لیکن جونہی ان عظیم لشکروں پر حق جھپٹا ہے باطل دبک گیا ہے ‘ جزع وفزع کرتے ہوئے منتشر ہوگیا ہے۔ اس کی صفوں میں اضطراب پھیل گیا ہے ۔ اگرچہ وہ تعداد اور زاد وعتاد میں بہت زیادہ تھا اور حق اس کے مقابلے میں قلت قلیلہ تھا۔ یوں اس فرمان کی سچائی باربار ثابت ہوئی ہے ۔ سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا…………… ” عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرین حق کے دلوں میں رعب بٹھادیں گے ‘ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ ان کو خدائی میں شریک ٹھہرایا ہے ‘ جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ “ یہ بات تو دنیا سے متعلق تھی ۔ آخرت میں کیا ہوگا ‘ تو وہاں ان کا انجام نہایت ہی پریشان کن اور برا ہوگا اور ان ظالموں کے لائق حال ہوگا وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ……………” ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے اور بہت ہی بری ہے وہ قیام گاہ جو ان ظالموں کے نصیب ہوگی۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ انہیں اس اصول کا مصداق خود جنگ احد بتاتے ہیں ۔ اس جنگ کی ابتدائی جھڑپ ہی میں مسلمانوں و فیصلہ کن فتح ہوگئی تھی ۔ مشرکین مارے جارہے ‘ یہاں تک کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے اپنا مال غنیمت بھی چھوڑدیا ۔ ان کا علم گر گیا اور کوئی اسے اٹھانے و الا نہ رہا ۔ صرف ایک عورت کو ہمت ہوئی اور اس نے اس علم اٹھالیا ۔ یہ فتح شکست میں صرف اس وقت تبدیل ہوئی جبب تیراندازوں کے دلوں میں ضعف پیدا ہوگیا ۔ وہ مال غنیمت سمیٹنے کے لئے چڑھ دوڑے ۔ آپس میں تنازعہ بھی ہوا اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی خلاف ورزی کی جو نبی وقت بھی تھے اور ان کے قائد بھی تھے ۔ چناچہ قرآن کریم اس معرکہ کے عروج پر جو واقعات پیش آئے ‘ جو حادثات ہوئے ۔ جن حالات میں ہوئے اور جس طرح ہوتے ہوئے نظرآئے ‘ ان کی توجہ نہایت ہی عجیب اور زندگی اور حرکت سے بھرپور انداز میں ‘ ان واقعات کی طرف مبذول کراتا ہے ذرا غور سے پڑھئے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کے قلوب میں رعب ڈالنے کا وعدہ : (سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ ) صاحب روح المعانی اس کا سبب نزول بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ جب ابو سفیان اور اس کے ساتھی غزوہ احد کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف چل دئیے اور کچھ دور پہنچ گئے تو نادم ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگوں نے برا کیا... ، چاہیے تھا کہ ان لوگوں کو (یعنی سب مسلمانوں کو) قتل کر کے آتے یہاں تک کہ ان میں اس کے سوا کوئی بھی نہ باقی رہتا جو ادھر ادھر نکلا ہوا ہو لہٰذا واپس چلو اور ان سب کو ختم کر کے آؤ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہیں سے واپس چلے گئے البتہ ایک اعرابی کو اس پر کچھ دینا کیا کہ تو مدینہ منورہ پہنچے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو یہ کہہ دینا کہ ہم نے ان کے لیے ایسی ایسی تیاری کر رکھی ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دے دی آپ نے مقام حمراء الاسد تک اپنے صحابہ کو بھیجا تاکہ ان کا پیچھا کریں وہ لوگ جا چکے تھے کہیں ملاقات نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا ذکر فرمایا کہ ہم ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے، اور رعب ڈالنے کا سبب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (بِمَآ اَشْرَکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا) کہ ہمارے اس رعب ڈالنے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا جس کی کوئی دلیل اور سند اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ دنیا میں ان کے دلوں میں رعب ڈال کر مومنین کو محفوظ رکھا اور ان کا آخرت کا عذاب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ مَاْوٰھُمُ النَّارُ ) کہ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے (وَ بِءْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ ) اور وہ ظالموں کا برا ٹھکانہ ہے۔ آیت کے انداز بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ شرک باللہ رعب واقع ہونے کا سبب ہے اور یہ آزمائی ہوئی بات ہے حضرات صحابہ (رض) نے جب فارس کی طرف رخ کیا تو وہاں کے مشرکین آتش پرست بڑی بھاری تعداد میں ان کے مقابلہ میں آتے تھے۔ پھر جب معرکہ شروع ہوتا تھا ان کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے تھے اور بچے کھچے بےتحاشا بھاگ جاتے تھے صلیبی جنگوں میں بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ ہندوستان پر جب مسلمانوں نے حملے کیے تو مشرکین رعب کھا گئے، مقتول ہوئے اور راہ فرار اختیار کی اور فاتحین نے ان کے ملک پر توحید کے جھنڈے لہرا دئیے۔ شرک کے مزاج میں مرعوبیت اور توحید کے مزاج میں شجاعت دلیری اور بہادری ہے۔ دین حق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہو : (مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطَانًا) سے یہ بات بتائی ہے کہ زندگی گزارنے کا طریق کار وہی صحیح ہے جس کی اللہ کی طرف سے سند اور دلیل ہو انسان فطری طور پر اس بات کو مانتا ہے کہ میں مخلوق ہوں اور میرا کوئی خالق اور مالک اور معبود ہے لیکن جنہوں نے حضرات انبیاء (علیہ السلام) کا دامن نہیں پکڑا انہوں نے اپنے خالق اور مالک حقیقی کی عبادت میں شرک کی ملاوٹ کردی وہ اپنے خالق کی بھی عبادت کرتے ہیں اور مخلوق کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگوں نے اپنے خالق اور مالک کے بارے میں ایسے عقیدے تجویر کرلیے ہیں، جو گمراہی پر مبنی ہیں۔ عقائد اور عبادات کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ تجویر کرلینا بالکل گمراہی ہے اسلام کے علاوہ دنیا میں جو مذاہب معروف ہیں اور ان میں جو عبادات کے طریقے رائج ہیں ان کے ماننے والے اپنے عقائد اور اعمال کے بارے میں کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے یہ عقائد اور اعمال ان کے مذہب کے بانیوں نے یا بعد کے لوگوں نے بنائے ہیں اور بتائے ہیں جو عقیدہ اور عمل خالق کی طرف سے نہ بتایا گیا ہو اس کو زندگی کا مشغلہ بنانا اور اس پر نجات کی امید رکھنا عقل و فہم کی رو سے کسی بھی طرح صحیح نہیں۔ ایسے عقائد اور اعمال کے اختیار کرنے کی وجہ سے یہ امید رکھنا کہ موت کے بعد نجات ہوگی اور عذاب سے محفوظ ہوں گے بہت بڑی نادانی ہے جو عقل و دانش کے سراسر خلاف ہے۔ ان سب لوگوں سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ خالق کی ذات وصفات کے بارے میں جو عقائد رکھتے ہو اور جن طریقوں سے تم اس کی عبادت کرتے ہو کیا تمہارے پاس اس کی کوئی سند ہے کہ خداوند قدوس جل مجدہ نے تمہیں یہ عقائد اور اعمال بتائے ہیں۔ مشہور ادیان میں نصاریٰ کا دین بھی ہے نصاریٰ کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا ہو کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں یا یہ فرمایا ہو کہ لوگ مجھے قتل کردیں گے اور میرے قتل کے بعد جو شخص یہ عقیدہ رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے کو قتل کر اکر ان سب لوگوں کو نجات دے دی جو ان کو اللہ کا بیٹا مانیں۔ ان میں سے کوئی بات بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نہیں فرمائی۔ یہ سب باتیں عرصہ دراز کے بعد تجویز کی گئیں ہر مذہب والا اس بات پر غور کرے کہ میں جس دین پر ہوں میرے پاس اس کی کیا دلیل اور سند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دین پر چلنے کا حکم دیا ہے اور اس پر چل کر آخرت میں میری نجات ہوگی۔ قرآن شریف نے واضح طور پر بتادیا کہ ہر عقیدہ اور ہر عبادت وہی صحیح ہے جس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم دی گئی ہو اور جو سند صحیح کے ساتھ بندہ تک پہنچی ہو سب کو معلوم ہے کہ دین اسلام کے علاوہ کوئی دین ایسا نہیں ہے جو اس بات کی سند پیش کرسکے کہ میرا دین اللہ کی طرف سے ہے۔ پس جب ان لوگوں کے پاس اپنے اپنے دین کے صحیح ہونے کی سند خالق ومالک جل مجدہ کی طرف سے نہیں ہے تو ہر شخص اس دین پر آئے جو دین اللہ جل شانہ نے بھیجا ہے اور تمام انسانوں کی نجات اسی پر رکھی ہے اور وہ دین اسلام ہے۔ ادامنا اللّٰہ علیہ و اما تنا علیہ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

222 یہ آیت ماقبل کا تتمہ ہے۔ اَلرُّعْبُ خوف وہراس۔ بِمَا میں باء سببیہ ہے اور بِهٖ میں ضمیر دوسرے مَا کی طرف راجع ہے جو معبودان باطل سے کنایہ ہے۔ اور اس کا مضاف محذوف ہے ای بمعبودیتہ سلطاناً حجت اور دلیل۔ حجۃ وبیانا وعذرا وبرھانا (قرطبی ص 233 ج 4) یعنی کافروں کی اطاعت مت کرو اور کمزوری مت دکھاؤ ہم ت... مہاری مدد کریں گے اور دیکھو ہم بھی ان مشرکین کے دلوں پر تمہارا رعب اور خوف مسلط کیے دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بزدلانہ انداز میں شکست کھا کر بھاگ نکلیں گے اور یہ اس لیے کہ وہ اللہ کے ساتھ اس کی عباددت میں ایسے معبودوں کو شریک کرتے ہیں جن کے معبود ہونے اور غائبانہ دعاء و پکار کے لائق ہونے پر اللہ نے کوئی دلیل اور حجت نازل نہیں فرمائی یعنی ان کی بزدلی اور خوف وہراس کی وجہ اور علت شرک ہے کیونکہ مشرک کا اعتماد اور بھروسہ غیر اللہ کے کمزور ترین سہاروں پر ہوتا ہے اور کمزور سہاروں پر اعتماد کا اثر نفسیاتی اور تکوینی طور پر ہمیشہ خوف، کمزوری اور بزدلی ہوتا ہے۔ اور یہ القاء رعب کا واقعہ عین جنگ احد میں نہایت معجزانہ طریقے سے پیش آیا۔ احد میں جب مشرکین نے تیر انداز دستہ کی غلطی سے یہ فائدہ اٹھا کر پیچھے سے مسلمانوں پر پر حملہ کردیا۔ اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہید ہونے کی افواہ پھیلا دی۔ اس پر مسلمان بد دل ہو کر منتشر ہوگئے اور ایک جماعت آپ کے ساتھ ثابت قدم رہی اس پر اس پر حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو آواز دی جب ان کو پتہ چلا کہ آپ تو زندہ ہیں اور شہید نہیں ہوئے تو سب واپس آکر آپ کے گرد جمع ہونے لگے اس وقت مشرکین کے دلوں پر مسلمانوں کا اسقدر رعب چھایا کہ سب میدان چھوڑ بھاگےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا تعاقب کرنے کا حکم دیا چناچہ مسلمان مجاہدین نے حمراء الاسد (ایک جگہ) تک مشرکین کا تعاقب کیا۔ ان الکفار لما استوالوا علی المسلمین وھزموھم اوقع اللہ الرعب فی قلوبھم فترکوھم وفروا منھم من غیر سبب (کبیر ص 94 ج 3) وَبئْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ ۔ دنیا میں تو ان کو تمہارے ہاتھوں ذلیل کروں ہی گا۔ آخرت میں بھی ان کے لیے بد ترین ٹھکانا ہے یعنی جہنم۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 ہم ابھی ان منکرین حق کے دلوں میں اس وجہ سے ہیبت ڈالدیں گے کہ انہوں نے ایسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا ہے اور ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک مقرر کیا ہے جن کے شریک ہونے اور قابل شرکت ہونے پر کوئی دلیل اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں فرمائی یعنی جن چیزوں کو مشرکین نے اللہ تعالیٰ کا شریک مقرر کیا...  وہ عقلاً اور نقلاً کسی طرح بھی اس کے شریک بننے کے قابل نہیں ہیں اور ان کافروں کا مسکن اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ جہنم ایسے ظالموں کے رہنے کی بہت بری جگہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی وہ چور ہیں اللہ کے اور چور کے دل میں ڈر ہوتا ہے اس واسطے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ ہیبت ڈالے گا۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ چونکہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی ولایت اور تائید حاصل ہے اس لئے ان کے دل مضبوط اور باہمت ہوتے ہیں۔ ان کو ان تمام بشارتوں پر یقین ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو دی گئیں ہیں ان کو اپنے مستقبل کی بھلائی پر کامل یقین ہے کافروں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں نہ ان کو دوسری زندگی پر اعتبار ہے نہ خدا کی تائید اور مغفرت حاصل ہے چناچہ اس پیشین گوئی کا اس طرح ظہور ہوا کہ احد سے کافر دوبارہ بغیر لڑے واپس ہوگئے پھر راستے میں آ کر خیال بھی کیا کہ ایسا اچھا موقعہ چھوڑ کر چلے آئے یہ موقعہ تو مسلمانوں کو ختم کردینے کا بہترین تھا چلو پھر مدینہ واپس چلو مگر ان کے قلوب میں ایسا رعب اور ہیبت پڑی کہ دوبارہ مدینہ پر حملہ کی ہمت نہ پڑی پھر تھوڑے دنوں کے بعد صغریٰ کی تیاری کی مگر وہاں بھی مقابلے کی ہمت نہ پڑی شرک پر نہ کوئی دلیل لفظی ہے نہ معنوی، نہ عقلی ہے نہ نقلی اس لئے مشرک کو خود بھی اپنے شرک پر بھروسہ نہیں ہوتا اور دوسری زندگی پر ایمان نہ ہونے سے اس کو اپنا مستقل تاریک نظر آتا ہے اور بظاہر یہی وجہ اس کے مرعوب اور کم ہمت ہونے کی ہے اور اسی لئے وہ موت کو پسند نہیں کرتا اور چونکہ اس کے سامنے یہی دنیا کی زندی ہوتی ہے اس لئے اس کو دنیا کی محبت بھی بہت ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ میری امت کے مسلمانوں کو مٹانے اور فنا کرنے کی غرض سے تمام کفار ایک دوسرے کو بلا بلا کر جمع ہوجائیں گے اور میری امت کو اس طرح فنا کرنے کے در پے ہوجائیں گے جس طرح ایک بھوکی جماعت کسی بڑے پیالے میں ایک دم ہاتھ ڈال کر ختم کردیتی ہے۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہماری تعداد اس دن کم ہوگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیں تم آج سے اس دن تعداد میں بہت زیادہ ہو گے پھر کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) پھر جب کفار کی باوجود قلت تعداد کے ہمت نہیں پڑتی تو اس دن کس طرح آمادہ ہوجائیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا تم میں دہن پیدا ہوجائے گا۔ کسی نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دہن کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت اور نفرت حب الدنیا و کراھیۃ الموت (ابودائود) اب آگے اللہ تعالیٰ اس ہزیمت کے اسباب و علل بیان فرماتے ہیں اور الزام کے ساتھ ساتھ معافی کا اعلان فرما کر تسلی اور بشارت بھی دیتے ہیں اور اس شبہ کا جواب بھی ہے جس سے بعض کو خلجان ہو رہا تھا کہ غلبہ کا وعدہ کیوں پورا نہیں کیا گیا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more