Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 163

سورة آل عمران

ہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۶۳﴾

They are [varying] degrees in the sight of Allah , and Allah is Seeing of whatever they do.

اللہ تعالٰی کے پاس ان کے الگ الگ درجے ہیں اور ان کے تمام اعمال کو اللہ بخوبی دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللّهِ ... They are in varying grades with Allah, Al-Hasan Al-Basri and Muhammad bin Ishaq said, meaning, the people of righteousness and the people of evil are in grades. Abu Ubaydah and Al-Kisa'i said that; this Ayah refers to degrees, meaning there are various degrees and dwellings in Paradise, as well as, various degrees and dwellings in the Fire. In another Ayah, Allah said, وَلِكُلٍّ دَرَجَـتٌ مِّمَّا عَمِلُواْ For all there will be degrees (or ranks) according to what they did. (6:132) Next, Allah said, ... واللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ and Allah is All-Seer of what they do. and He will compensate or punish them, and will never rid them of a good deed, or increase their evil deeds. Rather, each will be treated according to his deeds. The Magnificent Blessing in the Advent of Our Prophet Muhammad Allah the Most High said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٦٣ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٣۔ ١٦٤) جو ذات اقدس خمس لینے اور خیانت کے چھوڑنے میں رضائے حق میں تابع ہو وہ کیا اس شخص کی طرح ہوجائے گا جس پر خیانت کی بنا پر اللہ کا غصہ نازل ہوا۔ جو خیانت چھوڑے گا اس کے لیے جنت میں بلند درجات ہوں گے اور جو خیانت کا ایسا کام کرے گا اس کی اللہ کے ہاں سخت گرفت ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٣ (ہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰہِ ط) جیسے نیکوکاروں کے درجے ہیں اسی طرح وہاں بدکاروں کے بھی درجے ہیں۔ سب بدکار برابر نہیں اور سب نیکوکار برابر نہیں۔ (وَاللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ ) اب آگے جو آیت آرہی ہے ‘ یہ مضمون سورة البقرۃ میں دو مرتبہ آچکا ہے۔ پہلی مرتبہ سورة البقرۃ کے پندرہویں رکوع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی دعا میں یہ مضمون بایں الفاظ آیا تھا : (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ط) (آیت ١٢٩) پھر اٹھارہویں رکوع کے آخر میں یہ الفاظ آئے تھے : (کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ) اب یہ مضمون تیسری مرتبہ یہاں آ رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:163) ہم۔ ضمیر جمع مذکر غائب اس کا اشارہ ان دو گروہوں کے افراد کی طرف ہے جن کا بیان آیۃ ما قبل میں ہوا ہے یعنی گروہ اول من اتبع رضوان اللہ اور گروہ ثانی من باء بسخط من اللہ۔ یعنی ان ہر دو گروہ کے افراد کے الگ الگ درجے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں دیا نتدار اور خائن برابر نہیں ہوسکتے تو پیغمبر جس کا درجہ بہت بلند ہے وہ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ نبی اور دسری مخلوق ایک جیسی نہیں طمع کے کام تو ادنی نبیوں سے بھی سرزد نہیں ہوسکتے۔ (مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ بھی ایک مقام ہے اور وہ بھی ایک مقام ہے اور ان دونوں مقامات کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے هُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ اللَّهِ……………” یہ درجے ہیں اللہ کے نزدیک۔ “ ہر شخص اپنے مقام تک استحقاق کی بناپر پہنچتا ہے ۔ اس لئے اس معاملے میں نہ کسی پر کوئی ظلم و زیادتی ہے اور نہ بےجا محبت اور طرفداری ہے ۔ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ……………” اور اللہ اپنے بندوں کے اعمال پر نظر رکھتا ہے ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 بھلا ایک ایسا شخص جو رضائے الٰہی کا ہر وقت جویاں اور رضائے حق کا بالکل تابع ہوگیا وہ اس شخص کی مثل ہوسکتا ہے جو غضب الٰہی کا مستحق ہوا اور خدا کا غصہ اور غضب لے کر واپس آیا اور اس بدبخت کا ٹھکانا جہنم ہو اور وہ جہنم بازگشت کی بری جگہ ہے ۔ یہ دونوں شخص ہرگز برابر نہیں ہوسکتے اس قسم کے لوگوں کے اللہ کے ہاں الگ الگ مختلف درجات ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ان اعمال کو جو یہ کرتے رہتے ہیں خوب دیکھتے ہیں اس لئے ہر شخص کے ساتھ اس کے عمل کے موافق سلوک کیا جائے گا۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی نبی اور سب خلق برابر نہیں طمع کے کام ادنیٰ نبیوں سے نہیں ہوتے۔ (موضح القرآن) ہم ابھی عرض کرچکے ہیں کہ من اتبع سے مراد رسول اور کمن باء سے مراد خائن اور بددیانت کی عدم مساوات کا اظہار ہے اور آیت کی عمومیت کے پیش نظر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انصار و مہاجرین اور منافقین کی عدم مساوات مراد ہو بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر اچھے برے نیک و بد کی عدم مساوات مراد ہو۔ سب معنی ظاہر ہیں اور سب کی گنجائش ہے اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کا ایک مستقل نعمت ہونا بیان کرتے ہیں۔ (تسہیل)