Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 191

سورة آل عمران

الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾

Who remember Allah while standing or sitting or [lying] on their sides and give thought to the creation of the heavens and the earth, [saying], "Our Lord, You did not create this aimlessly; exalted are You [above such a thing]; then protect us from the punishment of the Fire.

جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ ... Those who remember Allah standing, sitting, and lying down on their sides. Al-Bukhari recorded that Imran bin Husayn said that the Messenger of Allah said, صَلِّ قَايِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْب Pray while standing, and if you can't, pray while sitting, and if you cannot do even that, then pray lying on your side. These people remember Allah in all situations, in their heart and speech, ... وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... and think deeply about the creation of the heavens and the Earth, contemplating about signs in the sky and earth that testify to the might, ability, knowledge, wisdom, will and mercy of the Creator. Allah criticizes those who do not contemplate about His creation, which testifies to His existence, Attributes, Shariah, His decree and Ayat. Allah said, وَكَأَيِّن مِّن ءَايَةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ وَمَا يُوْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ And how many a sign in the heavens and the Earth they pass by, while they are averse therefrom. And most of them believe not in Allah except that they attribute partners unto Him. (12:105-106) Allah also praises His believing servants, الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ Those who remember Allah standing, sitting, and lying down on their sides, and think deeply about the creation of the heavens and the earth, supplicating; ... رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلً ... "Our Lord! You have not created this without purpose," You did not create all this in jest and play. Rather, You created it in truth, so that You recompense those who do evil in kind, and reward those who do righteous deeds with what is better. The faithful believers praise Allah and deny that He does anything in jest and without purpose, saying, ... سُبْحَانَكَ ... "glory to You," for You would never create anything without purpose. ... فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ "Give us salvation from the torment of the Fire." meaning, "O You Who created the creation in truth and justice, Who is far from any shortcomings, or doing things without purpose or with jest, save us from the torment of the Fire with Your power and strength. Direct us to perform the deeds that make You pleased with us. Guide us to righteous work from which You admit us into the delightful Paradise, and save us from Your painful torment." They next supplicate,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191۔ 1 ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و طاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لئے ؟ اہل عقل و دانش کے لئے، اس کا مظلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہی کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں ' دانشور ' سمجھا ہی اس کو جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کا شکار ہو، دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان اور زمین کی تخلیق میں غورو فکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو، بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو۔ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلمند صرف وہ لوگ ہیں جو اس کارخانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ کی بےپناہ قدرت و تصرف کی حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس اعتراف حقیقت کے نتیجہ میں ان کے بدن کارواں رواں محبت الٰہی میں سرشار ہو کر اس کی حمد وثناء کرنے لگتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کارخانہ قدرت میں غورو فکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہ عالم مادہ سے بنا ہے۔ پھر اتفاق سے یوں ہوگیا، پھر اتفاق سے یوں ہوگیا اور اس مضبوط و مربوط نظام کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کا قرار دیتے ہیں، وہ ہرگز اہل عقل نہیں ہیں۔ کیونکہ اتفاق سے کبھی کبھار تو خیر پیدا ہوسکتی ہے لیکن مسلسل خیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ اس کائنات کی ہر ایک چیز نہایت خوبی کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ گویا اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات میں دہریت اور نیچریت کا رد موجود ہے۔ [١٩١] اس کائنات کے نظام میں غور و فکر کرنے سے اہل عقل پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجاتی ہے کہ اس کائنات میں ایک انسان ہی ایسی مخلوق ہے جسے عقل اور تمیز عطا کی گئی ہے۔ اسے اللہ نے تصرف کے کچھ اختیارات بھی دیئے ہیں اور اخلاقی حس بھی پیدا کی ہے۔ لہذا یہ بات سراسر عقل اور حکمت کے خلاف ہے کہ اس سے اس کی دنیا کی زندگی کے بارے میں باز پرس نہ ہو اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان عمر بھر ظلم و ستم کئے جاتا ہے۔ لوگوں کو پریشان بھی کرتا ہے۔ ان کے حقوق بھی غصب کرتا ہے۔ لیکن اسے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک نیک طبع اور دیندار انسان کی ساری عمر سختیاں اور مصائب برداشت کرتے اور تنگی و تنگ دستی کے عالم میں گزر جاتی ہے اور اسے کبھی راحت میسر نہیں آتی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل کے خلاف ہے۔ اس سے ایک عقلمند انسان لازماً یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہونی چاہئے۔ جس میں ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جاسکے۔ اس طرح انہیں اخروی زندگی کا یقین حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کی گرفت سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ [١٩٢] باطل کی ضد حق ہے اور جس طرح حق کا لفظ وسیع المعنی ہے۔ اسی طرح باطل کے بھی بہت سے معنی ہیں۔ مثلاً باطل بمعنی جھوٹ، جھوٹی بات، بہتان، عبث، بےکار، بےمقصد ہے۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ یہ کائنات بےمقصد پیدا نہیں کی گئی۔ جیسا کہ مادہ پرستوں، دہریوں اور نیچریوں کا خیال ہے کہ مادہ کے اجزا باہم ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز وجود میں آتی گئی۔ ہائیڈروجن کے ذرات ملے تو سورج پیدا ہوگیا اور وہ خود بھی گھومنے لگا۔ پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی۔ زمین نے جب گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اور انہی اتفاقات سے کائنات سے ایک ایک چیز بن گئی۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز جیسے اتفاق سے بنتی گئی۔ اسی طرح تباہ ہوجائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ یوں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلتا رہے گا۔ (وقس علیٰ ھٰذا من الخرافات) گویا ان کے خیال میں یہ کائنات محض ایک تماشا گاہ اس کی مختلف صورتوں اور اتفاقات کا کھیل ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ پوری کائنات تو درکنار، کائنات کی کوئی چیز بھی بےکار پیدا نہیں کی گئی۔ بلکہ با مقصد طور پر پیدا کی گئی ہے۔ قرآن کی تصریحات کے مطابق زمین اور اس کی جملہ اشیاء شمس و قمر اور ستارے سب انسان کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس کی خدمت پر مامور ہیں۔ زمین سے انسان کی ہر طرح کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سورج اور اس کی گردش سے رات دن پیدا ہوتے، موسم بنتے اور فصلیں پکتی ہیں۔ چاند سے رات کو روشنی اور ٹھنڈک ملتی ہے اور پھلوں میں رس پیدا ہوتا ہے۔ ستاروں سے ہم رات کے اوقات کی تعیین کرتے، روشنی حاصل کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔ یہی صورت ہواؤں اور بادلوں کی ہے۔ اب دیکھئے ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو تو انسان کا جینا محال ہوجاتا ہے لیکن اگر کائنات میں انسان نہ ہو تو ان چیزوں کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس بات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مقصد انسان کی خدمت ہے اور غالباً یہی وہ باشعور و باختیار مخلوق ہے۔ جسے سب چیزوں کے بعد پیدا کیا ہے۔ لہذا یہ کائنات یونہی بےمقصد نہیں بلکہ ایک نہایت اہم مقصد کے ساتھ وجود میں لائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی کوئی چیز بےمقصد پیدا نہیں فرماتا، اس کی ذات اس سے پاک ہے۔ اب اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو انسان کے لیے ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا۔ ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀) 51 ۔ الذاریات :56) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اور عبادت کا مفہوم اس قدروسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کا رد، توحید کی اہمیت، قانون جزا و سزا، جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آجاتی ہے۔ کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام، یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے اور ان کا صحیح تعین کرنے پر اہل عقل و خرد ابتدائے آدم سے لے کر غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ پھر جس کسی سائنسدان یا فلاسفر نے بھی وحی الٰہی سے بےنیاز ہو کر سوچنا شروع کیا تو اکثر اس کی عقل نے ٹھوکر ہی کھائی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ : پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہر چیز کے خالق اور رب ہونے کا ذکر تھا، اب اس اکیلے کی عبادت کا ذکر ہے، یعنی وہ ” اولوالالباب “ دل، زبان اور دوسرے سب اعضاء سے کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے ہر حالت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ روزی کماتے وقت اللہ کے حکم کا خیال رکھنا بھی اس کی یاد ہے، عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اسے نہ بھولنا بھی یاد ہے، نظر کو بےلگام نہ ہونے دینا بھی اس کا ذکر ہے، اسلام کی سر بلندی کے لیے جہاد کی تیاری میں مصروف ہونا بھی اس کی یاد ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے صرف نماز اور تسبیح و تحمید کو ذکر سمجھ لیا اور اللہ کی جس یاد اور ملاقات کے شوق سے صحابہ و تابعین کے سینے روشن تھے اور وہ موت کو موت کی جگہوں میں ڈھونڈتے پھرتے تھے، اس کو اپنے شب و روز سے نکال دیا، حالانکہ یہ ذکر اسلام کے بنیادی ارکان کے بعد تمام اذکار سے کہیں افضل ہے۔ فرمایا : ( اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِ ) [ التوبۃ : ١٩ ] ” کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنادیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَوْقِفُ سَاعَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ قِیَامِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ عِنْدَ الْحَجَرِ الْاَسْوَدِ ) ” ایک گھڑی اللہ کے راستے ( جہاد) میں رہنا حجر اسود کے پاس لیلۃ القدر کے قیام سے افضل ہے۔ “ [ ابن حبان : ٤٦٠٣ ] وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ : یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطۂ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ : بےمقصد نہیں بنایا، بلکہ اس عالم کی انتہا دوسرے عالم میں ہو رہی ہے، جس میں حساب کتاب ہوگا۔ (موضح) اس میں مادہ پرستوں اور دہریوں کا رد ہے جو کائنات کو محض اتفاق کا نتیجہ سمجھتے ہیں، یعنی غور و فکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام یونہی پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر و ثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب بھگتے، اس لیے وہ آگ سے محفوظ رہنے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

That human intentions and plans keep failing everywhere all the time is a matter of common experience. These cannot be called the prime movers and operators of this universal system. Therefore, the outcome of the deliberation into the creation of the heavens and the earth and into what has been created in them is, as wisdom dictates, living to know, obey and remember Allah. Anyone unmindful of it does not deserve to be classed as wise. Therefore, the Holy Qur&an has given the following sign of the wise: الَّذِينَ يَذْكُرُ‌ونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ That is, the wise are those who remember Allah - standing and sitting and (lying) on their sides (191). In other words it means that they are engaged in the remembrance of Allah under all conditions and at all times. From here we find out that the thing which our modern world takes as the criterion of reason and good sense is simply a deception. Catering to greed, some people take accumulation of money as their ideal of intelligence. There are others who love to equate human intel¬ligence with scientific inventions and electronic applications and for them, these are the power. But, real good sense lies in the message brought by the prophets and Messengers of Allah Almighty, for they, proceeding through knowledge and wisdom and advancing from the low to the high in the chain of causation, skipped the intermediary stages. Granted that human beings moved from raw materials to machines and science gave them access to power through utilization of energy generated in many ways. But, higher intelligence demands that human beings take that real giant step farther ahead so that they can discover that the main agent of human accomplishment is certainly not the water or clay or iron or copper or some other material, not even the machines that generate power. This function was accomplished by none else but the One who created the fire, the water and the air through which human beings were enabled to control technology and energy: کارزلفِ تست مشک افشانی اما عاشقان مصلحت راتہمتے برآّھُوے چین بستہ اند Spreading the scent of musk is the function of Your tresses But, those who love You have, out of expediency, ascribed the credit to the Chinese deer! Let us understand this through the commonplace example of an ignorant dweller of some distant jungle who reaches a railway station and notices that such a huge railway train stops at the flash of a red flag while it starts moving at the flutter of a green one. Then, should he say that these red and green flags must have super power as they can stop and move such a powerful engine of the big train. Obviously, all sensible people would dismiss the ignoramus telling him that no power is vested in these flags. Instead, power rests with the person who is sitting in the engine room and stops or moves the train by watching these signals. But, someone smarter might reject the assumption that the engine driver had any instrinsic power to move or stop the train. His strength had nothing to do with it. He will go a step farther and attribute this power to the mechanical parts of the engine. But, a scientist would bypass cold mechanics of the engine and ascribe the real power to the steam which has been generated in the engine through heat and water. But, that is as far as the so-called scientific thinking goes. At this point, comes the thinking of the prophets, may peace be upon them, who would be telling these tyrants of their intellect: If the ignoramus who took the flags or the driver or the engine parts as the respository of power was in error, so are those who take sources of energy powerful by themselves - intellectually, they too are in error! The prophets would ask them to take yet another step forward so that they could lay their hands on the lost end of this tangled ball of string. May be, by doing so, they could have access to the final link of the great chain of caused things and there they could find the answer that the ultimate master of all power is none else but the One who created all forces which were harnessed to achieve human models of power. It is not difficult to deduce from what has been said here that those who get to know Allah and remember Him at all times and under all conditions are the only people who deserve to be called &the wise&. It is for this reason that the Holy Qur&an has defined the &People of Wisdom& as ... الَّذِينَ يَذْكُرُ‌ونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ those who remember Allah standing and sitting, and (lying) on their sides.& It is on this basis that Muslim jurists have answered the case of a deceased person who, before his death, made a will that his property be given to the wise. As to who will be given this property, they have ruled that those who will deserve this are abstaining scholars who do not seek unnecessary material resources and are averse to the blind pursuit of the worldly, for they are the wise ones in the real sense. (al-Durr al-Mukhtar, Mitabul-Wasiyyah) Also worth attention at this point is the fact that the Shari` ah of Islam has not enjoined abundance in any other mode of worship except ذِکر Dhikr. But, about ذِکر Dhikr, the command is: وَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَثِيرً‌ا (Remember Allah remembering abundantly). The reason is that all modes of worship, other than ذِکر Dhikr, have some conditions and rules without observing which those acts of worship are not considered to have been duly performed. This is contrary to ذِکر Dhikr which can be performed at all times and under all conditions whether standing, sitting and lying with or without وضُو wudu. Perhaps, this verse is indicative of this element of wisdom. The second sign of the people of wisdom given in this verse is that they deliberate in the creation of the heavens and the earth: يَتَفَكَّرُ‌ونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ And ponder on the creation of the heavens and the earth - 191. Here we need to determine the. meaning of this act of &pondering& and the level at which it operates. The Arabic words, فِکر Fikr and تَفَکُّر Tafakkur, literally mean to ponder, to deliberate and think about something which is an effort to arrive at its reality. From this verse we find out that this act of pondering is also an act of worship and very much like the ذِکر Dhikr (Remembrance) of Allah. The difference is that the objective of ذِکر Dhikr is the remembrance of the Being and Attributes of Almighty Allah while the objective of فِکر Fikr and تَفَکُّر Tafakkur or thinking and deliberation relates to His crea¬tions. This is because the perception of the reality of the Divine Being and the Attributes is beyond human reason. Deliberation of this aspect results in nothing but wonder. The great poet, Rumi said: دور بینان بارگاہِ الست غیر ازیں پٔے نبردہ اند کہ ہست Expert watchers of the Court of the Being of the Covenant Found out nothing but that He is. In fact, this is an area of inquiry where excessive deliberation in the Being and Attributes of Almighty Allah could, at times, cause one&s imperfect reason to stray into error. Therefore, the greatest among spiritual masters have emphatically advised: تَفَکروا فی اٰیاتِ اللہ ولا تتفَکروا فی اللہ Deliberate in the signs of Allah, but do not deliberate in Allah. It means that there are signs in what Allah has created. One should think about these signs. But, one should not deliberate into the very Being and Attributes of Almighty Allah for that is beyond one&s reach. One can see everything in the light of the sun. But, should one wish to see the sun itself, his eyes would get dazzled. Who is Allah? What is He like? These are questions all wise thinkers and spiritual masters have answered by suggesting: نہ ہرجاۓ مرکب تواں تاختن کہ جاہا سیر باید انداختن You do not have to mount an assault on every field of inquiry For, there are places where you should simply surrender. However, thinking about creation inevitably leads one to realize the presence of its Creator. Look at the enormous expanse of the sky above us with the sun, the moon and the many planets and stars bound with the solar and lunar system under firm and predetermined laws working so well for thousands of years without being serviced or refurbished in some workshop. Then, there is this earth of ours, its rivers and mountains holding many marvels of creation, the trees, animals and hidden minerals, and the air that circulates in between the heavens and the earth and the rains that come and the electricity generated therein. This whole system so elaborately set up leads every sane person who is willing to think and understand that there is some special Being which is far ahead of everyone in power and control. This is what معارفت Ma&rifat is, the stage of knowing, realizing. So, this kind of deliberation which leads to the discovery of the Divine is an act of worship, a great one indeed. For this reason, Hadrat Hasan Basri (رح) said: تَفَکَّرُ ساعۃ خیر مِّن قیام لیلۃ (Ibn Kathir) which means: An hour spent in thinking about the signs of Allah is better and far more useful than a whole night standing in worship. Hadrat ` Umar ibn ` Abdul-` Aziz (رح) has characterized this deliberation as a superior act of worship (Ibn Kathir). Sayyidna Hasan ibn ` Amir (رض) said that he had heard from many noble Companions that deliberation is the light of faith. Hadrat Abu Sulayman al-Darani said: When I go out from my house, everything I cast my glance on makes me realize that it contains one or the other blessing of Allah for me and that in its pres¬ence I have a good source of learning my lesson (Ibn Kathir). So, the knowers of the secrets of the self have always maintained: Every blade of grass sprouting from the earth Says: He is One and in Him there is no partner. Hadrat Sufyan ibn ` Uyaynah has said: One who thinks a lot will under-stand reality, and who understands will arrive at sound knowledge, and who has sound knowledge is bound to act accordingly (Ibn Kathir). Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) said: A pious man saw an ascetic sitting at a spot with a graveyard on one of his sides and a garbage dump on the other. The passing pious man remarked - You have two treasure troves before you, one of them is the human treasure known as graveyard and the other is the treasure of wealth and property turned into refuse and filth. These two treasures are enough to learn your lesson (Ibn Kathir). Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) ، used to go out of the city into some wilderness with the express purpose of training and teaching his heart. When he reached there, he would ask the spot of land: Where are those who lived here? (ابن اھلک) ۔ After that he would answer his own question by saying: Everything must perish save the presence of His being (كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ) . (Ibn Kathir). This was how he summoned and preserved the remembrance of Afterlife in his heart. Hadrat Bashar al-Hafi said: If people pondered over the greatness of Almighty Allah, it would have become impossible for them to remain sinful and disobedient. Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) said: 0 you who were created weak, fear God wherever you are. Live in the world like a guest. Make prayer places your home. Let your eyes weep fearing God, let your body remain patient and let your heart keep reflecting. Used to this, worry not about tomorrow&s bread. It is this kind of thoughtfulness and concern that these verses identify as the superior quality of wise people. Pondering over the creation of Almighty Allah, such people get to know their Creator and are personally convinced of the temporality of the physical world. This is a superb act of worship resplendent with the light of faith. Simi¬larly, those who ` see and experience the signs of Almighty Allah yet get entangled with the superficial glamour of what has been created - as a result of which they fail to know their real master - is rank heedless-ness and very much juvenile. Sages have warned that whoever fails to learn a lesson from the universe before his eyes will find that the ability of his heart to realize the truth has corroded in proportion to his heedlessness. The eager protagonists of scientific progress all too engrossed in their breakthroughs fail to pay heed to their own ulti¬mate fate. Consequently, the speed with which developments in scientific inquiry unfold the secrets of Allah&s creation is also the speed at which they are receding farther away from reality and God. Commenting on the post-industrial revolution thinking, Akbar of Alla¬habad, poet, humourist, said: بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو Europe has forgotten the Father in the Heaven For them, electricity and steam are as good as God. It is about such visionless people with the dead weight of education and culture on their backs, the Holy Qur&an says: وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ يَمُرُّ‌ونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِ‌ضُونَ ﴿١٠٥﴾ And there are so many signs in the heavens and the earth which these people pass by with faces turned askance paying no heed to them - 12:105 . Now, as we move to the last part of this verse (191), مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا (Our Lord, You have not created all this in vain), we can clearly see that this is the outcome of pondering over the signs of Allah&s power. It means that there is nothing purposeless in Allah&s creation. On the contrary, there are thousands of wise considerations behind it. Things have been harnessed to serve human beings with man being the user of resources in the whole universe. This should make human beings see that the universe has been created for their benefit and in their interest. Likewise, every human being has been created to obey and worship Allah. This is his or her purpose of life. Further on, from verses 192 to 194, there appears a set of pleas and prayers from such people, people who realized that this universe is no exercise in futility and that is is brimming with open proofs of the great power and wisdom of its Creator. So, once they knew their Creator and Sustainer, they submitted before Him. 1. The first request they make is: فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌ Save us from the Fire. 2. The second request is: Save us from the disgrace of the Here-after for whoever is condemned to the Fire stands humiliated before the whole world. Some scholars have said that humiliation on the plains of Ressurection will be so disgraceful a punishment that one would wish to be cast into the (fire of) Hell but that the multitudes present on that fateful day do not get to hear about his or her misdeeds. 3. The third request is: We have heard the message given by the herald sent by You, that is, the message of the Messenger of Allah and we believed in him. So, forgive our major sins and expiate our shortcomings and misdeeds and give us death in the company of the righteous, that is, make us a part of their group.& These three requests were aimed at safety against punishment and pain and loss. The fourth request is about promised blessings, the blessings of Paradise promised through the noble prophets. This prayer for blessings is being made with the added request that there be no disgrace on the Day of Judgment. In other words, the request is to be excused from the torturous procedure of accounting (for all of one&s deeds), disgrace (as a result of misdeeds) and then forgiveness (on account of Allah&s mercy). The prayer is for outright forgiveness for Allah does not go back on His word. What is the purpose of this submission and re-submission? The purpose is to say: 0 Allah, enable us to become deserving, and a beneficiary of this promise (made by You), and enable us to remain steadfast so that we breath our last in this world with faith in our heart (ایمان) and busy doing what is good in Your sight ( عمل صالح).

الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعودا و علی جنوبھم یعنی عقل والے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو یاد کریں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے مراد یہ ہے کہ ہر حالت اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کی دنیا نے جس چیز کو عقل اور عقلمندی کا معیار سمجھ لیا ہے وہ محض ایک دھوکا ہے، کسی نے مال و دولت سمیٹ لینے کو عقلمندی قرار دیدیا، کسی نے مشینوں کے کل پرزے بنانے یا برق اور بھاپ کو اصلی پاور سمجھ لینے کا نام عقلمندی رکھ دیا لیکن عقل سلیم کی بات وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل لے کر آئے کہ علم و حکمت کے ذریعہ سلسلہ اسباب میں ادنی سے اعلی کی طرف ترقی کرتے ہوئے درمیانی مراحل کو نظر انداز کیا، خام مودا سے مشینوں تک اور مشینوں سے برق اور بھاپ کی قوت تک تمہیں سائنس نے پہونچایا عقل کا کام یہ ہے کہ ایک قدم اور آگے بڑھو تاکہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ اصل کام نہ پانی مٹی یا لوہے، تانبے کا ہے، نہ مشین کا، نہ اس کے ذریعہ پیدا کی ہوئی اسٹیم کا، بلکہ کام اس کا ہے جس نے آگ اور پانی اور ہوا پیدا کی، جس کے ذریعہ یہ برق و بھاپ تمہارے ہاتھ آئی۔ کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چین بستہ اند اس کو ایک عامیانہ محسوس مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک جنگل کا رہنے والا جاھل انسان جب کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے اور یہ دیکھے کہ ریل جیسی عظیم الشان سواری ایک سرخ جھنڈی کے دکھانے سے رک جاتی ہے اور سبز کے دکھانے سے چلنے لگتی ہے تو اگر وہ یہ کہے کہ یہ سرخ اور سبز جھنڈی بڑے پاور اور طاقت کی مالک ہے کہ اتنی طاقت والے انجن کو روک دیتی اور چلا دیتی ہے، تو علم و عقل والے اس کو احمق کہیں گے اور بتلائیں گے کہ طاقت ان جھنڈیوں میں نہیں بلکہ اس شخص کے پاس ہے جو انجن میں بیٹھا ہوا ان جھنڈیوں کو دیکھ کر روکے یا چلانے کا کام کرتا ہے، لیکن جس کی عقلی کچھ اس سے زیادہ ہے وہ کہے گا کہ انجن درائیور کو پاور یا طاقت کا مالک سمجھنا بھی غلطی ہے، کیونکہ درحقیقت اس کی طاقت کو اس میں کوئی دخل نہیں، وہ ایک قدم اور بڑھ کر اس طاقت کو انجن کے کل پرزوں کی طرف منسوب کرے گا، لیکن ایک فلاسفر یا سائنس داں اس کو بھی یہ کہہ کر بیوقوف بتلائے گا کہ بےحس کل پرزوں میں کیا رکھا ہے، اصل طاقت اس بھاپ اور اسٹیم کی ہے، جو انجن کے اندر آگ اور پانی کے ذریعہ پیدا کی گی ہے، لیکن حکمت و فلسفہ یہاں آ کر تھک جاتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) فرماتے ہیں کہ ظالم ! جس طرح جھنڈیوں کو یا ڈرائیور کو یا انجن کے کل پرزوں کو طاقت اور پاور کا مالک سمجھ بیٹھنا اس جاہل کی غلطی تھی، اسی طرح بھاپ اور اسٹیم کو طاقت کا مالک سمجھ لینا بھی تیری فلسفیانہ غلطی ہے، ایک قدم اور آگے بڑھ، تاکہ تجھے اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا ہاتھ آئے اور سلسلہ اسباب کی آخری کڑی تک تیری رسائی ہوجائے کہ دراصل ان ساری طاقتوں اور پاوروں کا مالک وہ ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے اور یہ اسٹیم تیار ہوئی۔ اس تفصیل سے آپ نے معلوم کرلیا کہ عقل والے کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور ہر وقت ہر حالت میں اس کو یاد کریں، اسی لیے اولی الالباب کی صفت قرآن کریم نے یہ بتلائی الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعودا وعلے جنوبھم اس لئے حضرات فقہا کرام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی انتقال سے قبل یہ وصیت کر جائے کہ میرا مال عقلاء کو دے دیا جائے، تو کس کو دیا جائے گا ؟ اس کے جواب میں حضرات فقہاء کرام نے تحریر فرمایا کہ ایسے عالم زاہد اس مال کے مستحق ہوں گے جو دنیا طلب اور غیر ضروری مادی وسائل سے دور ہیں، کیونکہ صحیح معنی میں وہی عقلاء ہیں (در مختار، کتاب الوصیتہ) اس جگہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت میں ذکر کے علاوہ کسی اور عبادت کی کثرت کا حکم نہیں دیا گیا، لیکن ذکر کے متعلق ارشاد ہے کہ اذکروا اللہ ذکراً کثیرا (٣٣: ١٤) وجہ اس کی یہ ہے کہ ذکر کے سوا سب عبادات کے لئے کچھ شرائط اور قواعد ہیں جن کے بغیر وہ عبادات ادا نہیں ہوتیں، بخلاف ذکر کے کہ اس کو انسان کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہوئے، باوضو ہو یا بےوضو ہر حالت میں اور ہر وقت انجام دے سکتا ہے، اس آیت میں شاید اسی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت مذکورہ میں عقل والوں کی دوسری علامت یہ بتلائی گی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق و پیدائش میں تفکر کرتے ہیں : یتفکرون فی خلق السموت والارض، الایتہ یہاں غور طلب یہ امر ہے کہ اس تفکر سے کیا مراد ہے اور اس کا کیا درجہ ہے ؟ فکر اور تفکر کے لفظی معنی غور کرنے اور کس چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے ہیں، اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر عبادت ہے اسی طرح فکر بھی ایک عبادت ہے، فرق یہ ہے کہ ذکر اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کا مطلوب ہے اور فکر و تفکر اس کی مخلوقات میں مقصود ہے، کیونکہ ذات وصفات الہیہ کی حقیقت کا ادراک انسان کی عقل سے بالاتر ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر و تفکر بجز حیرانی کے کوئی نتیجہ نہیں رکھتا، عارف رومی نے فرمایا۔ دور بینان بارگاہ الست غیر ازیں پے نبردہ اندکہ ہست بلکہ بعض اوقات حق جل شانہ کی ذات وصفات میں زیادہ غور و فکر انسان کی ناقص عقل کے لئے گمراہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے اکابر اہل معرفت کی وصیت ہے کہ تفکروا فی آیت اللہ ولاتتفکروا فی اللہ،” یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کرو مگر خود اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں غور و فکر نہ کرو، کہ وہ تمہاری رسائی سے بالاتر ہے، آفتاب کی روشنی میں ہر چیز کو دیکھا جاسکتا ہے، مگر خود آفتاب کو کوئی دیکھنا چاہے تو آنکھیں خیر ہوجاتی ہیں، ذات وصفات کے مسئلہ میں تو بڑے بڑے ماہر فلاسفہ اور جہانوں کی سیر کرنے والے ارباب معرفت نے آخرکار یہی نصیحت کی ہے کہ نہر ہر جائے مرکب تواں تاختن کہ جا ا سپر باید انداختن البتہ غور و فکر اور عقل کی دوڑ دھوپ کا میدان مخلوقات الہیہ ہیں، جن میں صحیح غور و فکر کا لازمی نتیجہ ان کے خالق جل شانہ کی معرفت ہے، اتنا عظیم الشان وسیع و عریض آسمان اور اس میں آفتاب و مہتاب اور دوسرے ستارے جن میں کچھ ثوابت ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کوئی بہت آہستہ حرکت ہو تو اس کا علم پیدا کرنے والے ہی کو ہے اور انہی ستاروں میں کچھ سیارات ہیں جن کے دورے نظام شمسی و قمری وغیرہ کے انداز میں نہایت محکم و مضبوط قانون کے تحت مقرر اور متعین ہیں، نہ ایک سیکنڈ ادھر ہوتے ہیں نہ ان کی مشینری کا کوئی پرزہ گھستا ہے، نہ ٹوٹتا ہے، نہ کبھی ان کو کسی ورکشاپ میں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اس کی مشینری کبھی رنگ و روغن چاہتی ہے، ہزاروں سال سے ان کے مسلسل دورے اسی نظام محکم اور معین اوقات کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح زمین کا پورا کرہ، اس کے دریا اور پہاڑ، اور دونوں میں طرح طرح کی مخلوقات درخت اور جانور اور زمین کی تہہ میں چھپی ہوئی معدنیات، اور زمین آسمان کے درمیان چلنے والی ہوا اور اس میں پیدا ہونے اور برسنے والی برق و باراں اور سال کے مخصوص نظام یہ سب کے سب سوچنے، سمجھنے والے کے لئے کسی ایسی ہستی کا پتہ دیتے ہیں جو علم و حکمت اور قوت وقدرت میں سب سے بالاتر ہے اور اسی کا نام معرفت ہے، تو یہ غور و فکر معرفت الہیہ کا سبب ہونے کی وجہ سے بہت بڑی عبادت ہے، اس لئے حضرت حسن بصری نے فرمایا، تفکر ساعة خیرمن قیام لیلتة ”(ابن کثیر) ” یعنی ایک گھڑی آیات قدرت میں غور کرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر اور زیادہ مفید ہے۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس غور و فکر کو افضل عبادت فرمایا ہے (ابن کثیر) حسن بن عامر نے فرمایا کہ میں نے بہت سے صحابہ کرام سے سنا ہے، سب یہ فرماتے تھے کہ ایمان کا نور اور روشنی تفکر ہے۔ حضرت ابو سلیمان دارانی (رح) نے فرمایا کہ میں گھر سے نکلتا ہوں تو جس چیز پر میری نگاہ پڑتی ہے میں کھلی آنکھوں دیکھتا ہوں کہ اس میں میرے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اور اس کے وجود میں میرے لئے عبرت حاصل کرنے کا سامان موجود ہے (ابن کثیر) اسی کو بعض عارفین نے فرمایا کہ ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لاشریک لہ گوید حضرت سفیان بن عینیہ کا ارشاد ہے کہ غور و فکر ایک نور ہے جو تیرے دل میں داخل ہو رہا ہے۔ حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کثرت سے غور و فکر کرے گا تو حقیقت سمجھ لے گا اور جو سمجھ لے گا اس کو علم صحیح حاصل ہوجائے گا اور جس کو علم صحیح حاصل ہوگیا وہ ضرور عمل بھی کرے گا (ابن کثیر) حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ ایک بزرگ کا گذر ایک عابد زاہد کے پاس ہوا جو ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے ایک طرف قبرستان تھا اور دوسری طرف گھروں کا کوڑا کباڑ وغیرہ تھا، گذرنے والے بزرگ نے کہا کہ دنیا کے دو خزانے تمہارے سامنے ہیں ایک انسانوں کا خزانہ جس کو قبرستان کہتے ہیں، دوسرا مال و دولت کا خزانہ جو فضلات اور گندگی کی صورت میں ہے، یہ دونوں خزانے عبرت کے لئے کافی ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت عبداللہ بن عمر اپنے قلب کی اصلاح و نگرانی کے لئے شہر سے باہر کسی ویرانہ کی طرف نکل جاتے تھے اور وہاں پر پہنچ کر کہتے این این اھلک یعنی تیرے بسنے والے کہاں گئے ؟ پھر خود ہی جواب دیتے کل شی ھالک الاوجھہ (٨٢: ٨٨) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے (ابن کثیر) اس طرح تفکر کے ذریعہ آخرت کی یاد اپنے قلب میں مستحضر کرتے تھے۔ حضرت بشر حافی نے فرمایا کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں تفکر کرتے تو اس کی معصیت و نافرمانی نہ کرسکتے۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : اے ضعیف الخلقت آدمی ! تو جہاں بھی ہو خدا سے ڈر، اور دنیا میں ایک مہمان کی طرح بسر کر اور مساجد کو اپنا گھر بنا لے اور اپنی آنکھوں کو خوف خدا سے رونے کا اور جسم کو صبر کا اور قلب کو تفکر کا عادی بنا دے اور کل کے رزق کی فکر نہ کر۔ آیت مذکورہ میں اسی فکر و تفکر کو عقلمند انسان کا اعلی وصف کر کے بیان فرمایا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کر کے حق تعالیٰ کی معرفت اور دنیا کی ناپائیداری کا علم حضوری حاصل کرلینا افضل عبادت اور نور ایمان ہے، اسی طرح آیات الہیہ کو دیکھنے اور برتنے کے باوجود خود ان مخلوقات کی ظاہری ٹیپ ٹاپ میں الجھ کر رہ جاتا اور ان کے ذریعہ مالک حقیقی کی معرفت حاصل نہ کرنا سخت نادانی اور ناسمجھ بچوں کی سی حرکت ہے، مولانا جامی نے اسی کو فرمایا ہے۔ ہمہ اندرزمن ترا زین است کہ تو طفلی و خانہ رنگین است اور اسی بےبصیرتی کو حضرت مجذب نے اس طرح بیان فرمایا۔ کچھ بھی مجنوں جو بصیرت تجھے حاصل ہو جائے تو نے لیلی جسے سمجھا ہے وہ محمل ہو جائے بعض حکماء نے فرمایا ہے کہ جو شخص کائنات عالم کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تو بقدر اس کی غفلت کے اس کے قلب کی بصیرت مٹ جاتی ہے آج کی سائنٹفک اور حیرت انگیز ایجادات اور ان میں الجھ کر رہ جانے والے موجدین کی اللہ تعالیٰ اور اپنے انجام کار سے غفلت حکماء کے اس مقولہ کی کھلی شادت ہے کہ سائنس کی ترقیات جوں جوں اللہ تعالیٰ کی کمال صنعت کے رازوں کو کھولتی جاتی ہیں، اتنا ہی وہ خدا شناسی اور حقیقت آگاہی سے اندھے ہوتے جاتے ہیں، بقول اکبر مرحوم بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو قرآن کریم نے ایسی ہی بےبصیرت لکھے پڑھے جاہلوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ وکاین من ایة فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون، یعنی آسمان اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ منہ موڑ کر گذر جاتے ہیں ان کی حقیقت و صنعت اور ان کے صانع کی طرف توجہ نہیں دیتے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات و مصنوعات میں غور و فکر کر کے اس کی عظمت وقدرت کا استحضار ایک اعلی عبادت ہے، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کرنا سخت نادانی ہے، آیت مذکورہ کے آخری جملے نے آیات قدرت میں غور و فکر کا نتیجہ بتلایا ہے۔ ربنا ماخلقت ھذا باطلاً یعنی حق تعالیٰ کی عظیم اور غیر محصور مخلوقات میں غور و فکر کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فضول و بیکار پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ ان کی خلقت میں ہزاروں حکمتیں مضمر ہیں، ان سب کو انسان کا خادم اور انسان کو مخدوم کائنات بنا کر انسان کو اس غور و فکر کی دعوت دی ہے کہ ساری کائنات تو اس کے فائدہ کے لئے بنی ہے، اور انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کے لئے پیدا ہوا ہے، یہی اس کا مقصد زندگی ہے، اس کے بعد غور و فکر اور تفکر و تدبر کے نتیجہ میں وہ لوگ اس حقیقت پر پہنچے کہ کائنات عالم فضول و بیکار پیدا نہیں کی گئی، بلکہ یہ سب خالق کائنات کی عظیم قدرت و حکمت کے روشن دلائل ہیں۔ آگے ان لوگوں کی چند درخواستوں اور دعاؤں کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے رب کو پہچان کر اس کی بارگاہ میں پیش کیں۔ پہلی درخواست یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچایئے، کیونکہ جن کو آپ نے جہنم میں داخل کردیا اس کو سارے جہان کے سامنے رسوا کردیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ میدان حشر کے اندر رسوائی ایک ایسا عذاب ہوگا کہ آدمی یہ خواہش کرے گا کہ کاش ! اسے جہنم میں ڈال دیا جائے اور اس کی بدکاریوں کا چرچا اہل محشر کے سامنے نہ ہو۔ تیسری درخواست یہ ہے کہ ہم نے آپ کی طرف سے آنے والے منادی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کو سنا، اور اس پر ایمان لائے تو آپ ہمارے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیں اور ہمارے عیوب اور برائیوں کا کفارہ فرما دیں اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دیں، یعنی ان کے زمرہ میں شامل فرما لیں۔ یہ تین درخواستیں تو عذاب اور تکلیف اور مضرت سے بچنے کے لئے تھیں، آگے چوتھی درخواست فوائد اور منافع حاصل کرنے کے متعلق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے جو وعدہ آپ نے جنت کی نعمتیں کا فرمایا ہے وہ ہمیں اس طرح عطا فرمایئے کہ قیامت میں رسوائی بھی نہ ہو، یعنی اول مواخذہ اور بدنامی، بعد میں معافی کی صورت کے بجائے اول ہی سے معافی فرما دیجئے، آپ تو وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے، مگر اس عرض و معروض کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس قابل بنا دیجئے کہ ہم یہ وعد حاصل کرنے کے مستحق ہوجائیں اور پھر اس پر قائم رہیں، یعنی خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۝ ٠ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝ ١٩١ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیم کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩١۔ ١٩٢) جن کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو جب کھڑے ہونے کی طاقت رکھتے ہیں کھڑے ہو کر اور جب اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کریاد کرتے یعنی کسی حالت میں اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے اور نمازیں پڑھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ان چیزوں کو تو نے بےکار نہیں پیدا کیا، ہم اس کے ہر طرح کے شرک سے تجھ کو پاک ومنزہ سمجھتے ہیں، اے ہمارے رب ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ اور خدا پر ایمان رکھنے والے ان مومنین کے بالمقابل ان مشرکوں کا دنیا وآخرت میں کوئی بھی مددگار نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩١ (الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ ) (وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج) اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ج) اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں ؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو ‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہوجاؤ ؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘ کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں ‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے ‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چناچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے ‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے ‘ مکافات عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں : (سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) تو نے یقیناً ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے ‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

135. This means that with the help of those signs one can easily arrive at the Truth, provided one is not indifferent to God and looks at the phenomenon of the universe thoughtfully. 136. When people look carefully at the order of the universe, it becomes clear to them that it is an order permeated by wisdom and intelligent purpose. It is altogether inconsistent with wisdom that the man endowed with moral consciousness and freedom of choice, the man gifted with reason and discretion, should not be held answerable for his deeds. This kind of reflection leads people to develop a strong conviction that the After-life is a reality. Thanks to this conviction, they begin to seek God's refuge from His punishment.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :135 یعنی ان نشانیوں سے ہر شخص بآسانی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ خدا سے غافل نہ ہو ، اور آثار کائنات کو جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ غور و فکر کے ساتھ مشاہدہ کرے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :136 جب وہ نظام کائنات کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ان پر کھل جاتی ہے کہ یہ سراسر ایک حکیمانہ نظام ہے ۔ اور یہ بات سراسر حکمت کے خلاف ہے کہ جس مخلوق میں اللہ نے اخلاقی حس پیدا کی ہو ، جسے تصرف کے اختیارات دیے ہوں ، جسے عقل و تمیز عطا کی ہو ، اس سے اس کی حیات دنیا کے اعمال پر باز پرس نہ ہو ، اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے ۔ اس طرح نظام کائنات پر غور و فکر کرنے سے انہیں آخرت کا یقین حاصل ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی سزا سے پناہ مانگنے لگتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:191) قعودا۔ جمع قاعد کی۔ حالت نصب۔ بیٹھے ہوئے۔ جنوبھم۔ جنوب مضاف ہم مضاف الیہ ۔ جنب کی جمع ۔ ان کے پہلو۔ فقنا۔ ف زائد ہے۔ ق۔ امر واحد مذکر حاضر۔ وقی یقی وقایۃ سے نا ضمیر جمع متکلم ۔ مفعول۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 پہلی آیت ربوبیت کی تقریر تھی اب عبو دیت کا ذکر ہے یعنی دل و زبان اور جوارح ہر حالت میں ذکر الہیٰ میں مشغول رہتے ہیں (بیضاوی) اس آیت کے تحت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر بیٹھ کہ نماز نہ پڑھ سکو تو (لیٹ کر) پہلو پر پڑھ لیا کرو، (ابن کثیر)6 یعنی زمین آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ پر غور وفکر کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ایک ساعت کا غور و فکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔ حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز فرماتے ہیں زبان سے اللہ کا ذکر کرنا اچھا ہے لیکن اللہ کی نعمتوں پر غورو فکر کرنا اس سے بھی بہتر ہے (ابن کثیر) علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطہ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ ک7 عبث نہیں بنایا یعنی اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں (مو ضح)8 یعنی غور و فکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کا کا ئنات کا یہ سارا نظام یوہی نہیں پیدا کیا گیا بلہ اس کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر وثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب کی سزا بھگتے اس لیے وہ آگ سے محفوظ کئے جانے دعا کرتے رہتے ہیں۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ بلکہ اس میں حکمتیں رکھی ہیں جن میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ اس مخلوق سے خالق تعالیٰ کے وجود پر توحید پر استدلال کیا جائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے بندے ہر حال میں اس کے شکر گزار ‘ اس کی عبادت میں محو اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہتے ہیں، یہی دانشمندی ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق کل اور حاکم مطلق ہے۔ اگر وہ چاہتا تو صرف حکم دیتا کہ میری ذات اور بات مانو لیکن اس نے اپنی ذات کو حاکم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ خالق ومالک اور رحمن و رحیم کے طور پر تسلیم کرنے کی دعوت دی ہے اس لیے وہ انسان کو اس کی تخلیق، اپنی قدرتوں اور کائنات کی بناوٹ اور سجاوٹ پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ عقل و فکر اور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس پر ایمان لایا جائے۔ ایسا ایمان ہی آدمی کی فکر میں تبدیلی اور اس کے کردار میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن مجید بار بار آدمی کی توجہ کائنات کی تخلیق اور اللہ کی قدرت وسطوت کی طرف دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے کیونکہ یہی لوگ غور و فکر اور دلائل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی بات اور ذات کو پہچانتے اور یاد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کے تین طریقے ہیں کیونکہ آدمی تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں ہی ہوتا ہے۔ کھڑا، بیٹھا اور لیٹا ہوا۔ چلنے پھرنے کی حالت کھڑے ہونے میں شمار ہوتی ہے۔ ذکر کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا ادراک واعتراف کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت کی جائے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا شعور نصیب ہوجائے تو پھر انسان ان تینوں حالتوں میں جس حالت میں بھی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے۔ نماز افضل ترین ذکر ہونے کی بنا پر فرض ہے۔ اس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں : (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ کَانَتْ بِیْ بَوَاسِیْرُ فَسَأَلْْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الصَّلَاۃِ فَقاَلَ : صَلِّ قَاءِمًا فإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقاَعِدًا فَإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فعَلٰی جَنْبٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب إذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : کھڑے ہو کر نماز پڑ ھو کھڑے ہو کر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر بیٹھ کر پڑھ اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو لیٹ کر۔ “ شعور کی دولت اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان اس کی تخلیقات اور زمین و آسمان کی بناوٹ وسجاوٹ پر فکر و تدبر اختیار کرے۔ پھر انسان اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے کہ اے ہمارے رب ! تو نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے۔ وہ بےمقصد پیدا نہیں فرمایا۔ اس لیے ہر چیز تیری حکمت اور حکم کے مطابق اپنی تخلیق کے مقصد پر لگی ہوئی ہے۔ اے ہمارے رب ! تو ہر عیب سے پاک ہے۔ ہم نے نافرمانیاں کر کے اپنے آپ کو ناپاک بنایا اور اپنی زندگی کے مقصد کو کھویا اور ضائع کرلیا ہے۔ ہماری تیرے حضور التجا ہے کہ ہمیں معاف فرما کر آگ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ (آمین) غور وفکر کے نتائج اور سائنسدانوں کے مشاہدات ماہر طبقات الأرض جے ‘ ڈبلیوڈاسن : ” حق تو یہ ہے کہ عبادت کا فلسفیانہ تصور پیدا کرنے کے لیے اصول و قوانین پر ایمان لانا لابدی ہے۔ اگر کائنات بےترتیب اتفاقات کا نتیجہ ہوتی یا محض کسی ضرورت یاحاجت کی پیداوار ہوتی تو سوچ سمجھ کر عبادت کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہ آتی۔ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک حکیم ودانا کی تدبیر کا مظہر ہے وہی ذات بےہمتا اسے کمال حکمت و دانائی سے چلا رہی ہے اسی حالت میں ہمارے دل میں یہ احساس ابھرتا ہے کہ ہم اس بےمثل ذات کو ہر چیز کا آقا ومولیٰ تصور کرکے، اس کی بےپناہ دانائی اور محبت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں۔ “ جہاں تک میرے شعبے کا تعلق ہے ہم لوگ ہر چیز کو وسیع پیمانے پر دیکھنے کے عادی ہیں۔ وقت کا شمار تاریخ ارضی کے پچاس کھرب سال اکائیوں میں کرتے ہیں اور فضا کا اندازہ زمین کے محیط سے اور عمل کائنات کا اندازہ عالمی گردش سے کرتے ہیں۔ ان تمام اندازوں کی وسعت سے ناگزیر طور پر عقیدہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو انسان مذہب کا دلدادہ نہ ہو وہ بھی ان حیرت پرور اشیاء کو دیکھ کر اپنے دل میں خوف وہیبت محسوس کرتا ہے اور اسے بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ : ” آسمان خدا کی عظمت کے شاہد ہیں اور یہ کائنات اس کے کرشمۂ تخلیق کا ثبوت ہے۔ “ مرلن گرانٹ سمتھ (ماہر ریاضیات وفلکیات): خدا کے بارے میں انسان کے دل میں جو سوال پیدا ہوتا ہے اس کا خالق اور مخلوق دونوں کے سامنے جواب دہی سے بڑاقریبی تعلق ہے اس لیے جواب کا فیصلہ کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اگر خدا ہے تو وہ صرف ہمارا پیدا کرنے والا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا مالک وآقا بھی ہے اس لیے ہمیں اس کے دونوں قسم کے پسندیدہ افعال و اعمال کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئیں، یعنی ان افعال کے بارے میں بھی جن کا تعلق براہ راست خدا سے ہے اور ان کے بارے میں بھی جن کا تعلق ہمارے ہم جنس انسانوں سے ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت چوٹی کے اہل علم نے حال ہی میں اس بات کا بالواسطہ یا بلا واسطہ اعتراف کیا ہے کہ خدا ہے۔ میں ان میں چند اقوال یہاں پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ مثلًا سرجیمر جینز کہتے ہیں : ” ہماری کائنات ایک بڑی مشین کے مقابلے میں ایک عظیم خیال سے زیادہ مشابہ ہے یہ بات ایک سائنسی حقیقت کی طرح نہیں بلکہ گمان کے طور پر کہتا ہوں کہ یہ کائنات کسی بڑے آفاقی ذہن کی پیداوا رہے جو ہمارے تمام ذہنوں سے مطابقت رکھتا ہے اور سائنس کے تصوّرات بھی اب اسی طرف اقدام کرتے نظر آتے ہیں۔ “ جارج رومینس جو ایک بڑا فاضل حیاتیات ہے لکھتا ہے : ” علم نجوم کی نئی معلومات سے جن کا حصول نئی میکانیات اور ذراتی علم کی بنا پر ممکن ہوا ہے کائنات کی طبیعیاتی بلندیوں خصوصًا اس مسلسل عمل اور ردّ عمل کو دیکھ کر ہمارے دماغ چکراگئے ہیں جو وہاں نظر آرہا ہے۔ یہ تمام بلکہ ان سے اور بھی زیادہ معلومات کا حصول اس مسلسل تلاش و جستجو کا مرہون منّت ہے جو اسباب اور ان کے پس پردہ نتائج معلوم کرنے کے لیے جاری ہے۔ اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے جد انہیں کیا جاسکتا۔ یہ دونوں معنوی طور پر ایک وحدت ہیں۔ ہم انسان اور ہمارے گردوپیش کی دنیا سب مل کر نتائج کا ایک مجموعہ ہیں اور اس مجموعہ کی تہہ میں اس کے پس پشت ایک غیر مرئی سبب اور ازلی علّت موجود ہے جس کو میں خدا کہتا ہوں۔ “ [ ماخوذ از : خدا موجود ہے، چالیس سائنسدانوں کی شہادت ] مسائل ١۔ اللہ کے بندے اٹھتے بیٹھتے اور اپنے بستروں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی قدرتوں پر غور و خوض کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن دعوت فکر : ١۔ حق پہچاننے کے لیے آفاق پر غور کرنے کی دعوت۔ (حمٓ السجدۃ : ٥٣) ٢۔ اپنی ذات پر غور وفکر کی دعوت۔ (الذاریات : ٢١) ٣۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٤۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠) ٥۔ شہد کی بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت۔ (النحل : ٦٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

زمین و آسمان کی تخلیق میں ‘ اور رات اور دن کی گردش میں وہ کیا آیات اور نشانیاں ہیں ‘ اور جب یہ اولوالالباب آسمان اور زمین میں تفکر کرتے ہیں تو وہ کیا نشانیاں ہیں ؟ جب وہ رات اور ان کی گردش میں غور کرتے ہیں تو انہیں کیا نظر آتا ہے ؟ جبکہ پھر وہ اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں کھڑے ہوکر بھی ‘ بیٹھ کر بھی اور کروٹ لیتے ہوئے بھی ۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ ان کے نتیجہ فکر کا تعلق اللہ کے ذکر کے ساتھ کیسے مربوط ہوجاتا ہے کہ وہ فوراً کھڑے ‘ بیٹھے اور کروٹ لیتے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ اور پھر وہ اس ذکر کو اس پر خشوع و خضوع اور پر سوز دعا پر کیسے ختم کرتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ……………(پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے۔ ) قرآن کریم یہاں ان لوگوں کی ایک زندہ اور متحرک تصویر کشی کرتا ہے جو اس کائنات کے اندر صحت مند غور کرتے ہیں اور ان کو اس کائنات کے مثرات کا ادراک ہوتا ہے ۔ اور وہ پھر ان مدرکات اور موثرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘ اور ان کی آنکھوں کے سامنے رات دن اس پوری کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی طرف لبیک کہتے ہیں ۔ قرآن کریم انسانی فکر ونظر میں باربار دعوت نظارہ دیتا ہے اور بڑی تاکید سے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کھلی کتاب کا مطالعہ کریں ۔ جس کے صفحات رات اور دن خود الٹتے پلٹتے رہتے ہیں ۔ ہر صفحے پر صانع قدرت کے نشانات میں سے ایک نشان نظر آتا ہے ۔ اور وہ فطعرت سلیمہ کے اندر ایک ایسی سچائی کے پہچاننے کا بےحد جوش پیدا کردیتا ہے ‘ جو سچائی اس کتاب کے صفحات کے اندر جمی ہوئی ہے ۔ اس کائنات کی اساس میں وہ سچائی موجود ہے ۔ اس کائنات کے خالق کے مطالبات کے تسلیم کرنے کی طرف یہ سچائی مائل کرتی ہے ۔ اور جس خالق نے اس کائنات میں یہ ناموس ودیعت کیا ہے ۔ اس کی طرف رجوع کی دعوت دی جاتی ہے ۔ دل میں خالق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ اس کا خوف اور خشیت بھی پیدا ہوتی ہے …………پھر یہ اولوالالباب کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صحیح الفکر ہیں ۔ جو آنکھیں کھول کر کتاب کائنات کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ آنکھوں پر پردے نہیں ڈالتے ۔ وہ اپنے غور وفکر اور تدبر کے دریچے بند نہیں کرتے ۔ اور اس طرح وہ اپنے دل کے حوالے سے ‘ اپنے قیام میں ‘ اپنے قعود میں اور کروٹ لیتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ یوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ذرائع ادراک کھل جاتے ہیں اور وہ اس ناموس اکبر اور حقیقت کائنات کا ادراک کرلیتے ہیں جو اللہ نے اس کائنات میں ودیعت کی ہے ۔ وہ اس کائنات کے مقصد وجود کو پالیتے ہیں ۔ اس ایجاد کرنے کے اصل اسباب ان کے علم میں آجاتے ہیں اور وہ کائنات کے فطرت کے اجزائے ترکیبی اور نظام قیام سے واقف ہوتے ہیں ۔ یہ تمام راز وہ اس الہام کے ذریعہ پاتے ہیں جو فطرت کے ان نوامیس اور انسانی دل کے درمیان رابطے کے ذریعے ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کا مشہد ‘ رات اور دن کی تبدیلی کا منظر اور سیاروں کی گردش کے مناظر ایسے مناظر ہیں کہ اگر ہم اپنی آنکھیں کھول کردیکھیں ‘ ہمارے دل کام کررہے ہوں اور ہمارا ادراک اچھی طرح کام کرتا ہو اور ان کو اس نظر سے دیکھیں جس طرح ایک انسان کسی مشہد اور منظر کو پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور اگر ہم اپنے احساس سے ان مناظر کے عادی ہونے کے تصور کو دور کردیں ‘ اور اس تکرار کے اثرات سے اپنی حس کو پاک کردیں تو ہمارے احساس کے لئے یہ قابل ارتعاش ہوں ‘ ہمارے شعور کے اندر زلزلہ آجائے اور ہمیں اچھی طرح احساس ہوجائے کہ اس نظام کے اندر جس قدر دقت نظر سے ہم آہنگی پیدا کی گئی ہے وہ کسی حکیمانہ ہاتھ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک مدبر عقل کام کررہی ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک ناموس کام کررہا ہے ۔ جس کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ سب کچھ دھوکہ اور فریب نہیں ہوسکتا ۔ نہ یہ کوئی بخت واتفاق ہوسکتا ہے اور نہ یہ نظام محض فریب نظر ہوسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہمارے شعور کے لئے کوئی کم زلزلہ خیز نہیں ہے کہ یہ زمین سورج کے اردگرد اور اپنے محور پر گردش کررہی ہے ۔ اور اس سے رات اور دن کے دومناظر پیدا ہورہے ہیں ۔ یہ کہ ان اجرام فلکی کے اندر کشش کام آرہی ہے ۔ اور اس نے ہر ایک جرم کو اپنی جگہ ٹھہرایا ہوا ہے ۔ یا کوئی اور نظام ہے ۔ یہ تو ہمارے مقرر کردہ اصول موضوعہ میں کبھی درست ہوں گے کبھی غلط ہوں گے ۔ جو صورت بھی ہو لیکن ہر صورت میں کائنات کا یہ عجوبہ ‘ عجوبہ ہی رہتا ہے ۔ اور نظر آتا ہے کہ ایک عظیم نظام ہے جس نے ان دیوہیکل سیاروں اور اجرام کو تھام رکھا ہے ۔ نہایت دقت سے ‘ نہ ٹوٹتے ہیں نہ باہم متصادم ہوتے ہیں ‘ بنی نوع انسان میں ماہرین فلکیات چاہے اس کا جو بھی نام رکھیں ‘ بہرحال یہ نظام قدرت کا نشان ہے ‘ یہ سچائی کی برہان ہے ‘ اور سچائی گردش ایام اور دوران فلک سے عیاں ہے۔ قرآن کریم نے یہاں جو صاف منظر کشی کی ہے ‘ اسی میں آسمانوں اور اجرام فلکی کی گردش اور رات اور دن کے پیہم تبدیلی کے مناظر اولوالالباب اور صاحبان عقل و دانش کے شعور اور فکر پر جو اثرات چھوڑتے ہیں ‘ ان اثرات کے ایک ایک جزء کو بڑی دقت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے ۔ یہ ایک قسم کی اثر انگیز تصویر ہے ۔ اسے دیکھ کر دل اس کائنات کے ساتھ باہم معاملہ کرتے وقت بہت ہی صحیح نظام اور طریقہ کا اختیار کرتا ہے ۔ یہ مناظر اپنی زبان میں بات کرتے ہیں اور یہ دل کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرتے ہیں ‘ اس کی حقیقت کے یکجا ہوجاتے ہیں ۔ اور کائنات کے اشارات اور اثرات کو قبول کرتے ہیں ۔ اس طرح کائنات کی یہ کتاب ایک مومن اور واصل باللہ انسان کے لئے کتاب علم ومعرفت بن جاتی ہے ۔ جسے اللہ نے تصنیف کیا ہے ۔ اس مطالعہ کائنات کا انسانی شعور پر پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ کھڑے ہوکر ‘ بیٹھتے ہوئے اور کروٹ بدلتے ہوئے ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور جبکہ وہ رات اور دن کے اختلاف کا مطالعہ بھی کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ غوروفکر پھر عبادت بن جاتے ہیں ۔ اور یوں یہ مشاہدات مشاہدات ذکر الٰہی بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ‘ اس تصور انسان اور تصور کائنات کے مطابق دوحقائق ثابت ہوجاتے ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق میں تدبر اور مشاہدہ کرنا اور اللہ کی اس کھلی کتاب کا مطالعہ کرنا اور اللہ کے تخلیقی ہاتھ کا مطالعہ کرنا بھی حرکت کائنات کا مطالعہ اور اس کائنات کے صفحات کو الٹنا پلٹنا ‘ درحقیقت اصلی اور بنیادی عبادت ہے ۔ اور یہ ایک ذکر الٰہی ہے جو نہایت ہی حقیقی ذکر الٰہی ہے ۔ اگر کائناتی علوم ‘ جن میں اس کائنات کی تنظیم اور تشکیل سے بحث ہوتی ہے ۔ اور اس کائنات کے اندر جاری وساری نوامیس وسنن کا مطالعہ اور ان قوتوں اور ذخائر کا مطالعہ جو اس کائنات کے اندر جمع شدہ ہیں اور اس کائنات کے اسرار و رموز کے علوم کو اگر اس کائنات کے خالق کے ذکر اور اس کی یاد کے ساتھ یکجا کردیا جائے اور اس مطالعے سے اللہ کی جلالت قدر کا شعور پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا احساس اجاگر کیا جائے تو یہ تمام عمل اس کائنات کے خالق کی عبادت بن جاتا ہے ۔ اور نماز کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اور ان علوم کے ذریعہ زندگی درست ہوکر راہ مستقیم پر استوار ہوسکتی ہے ۔ پوری انسانی آبادی اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مادی اور کافرانہ رجحان نے اس کائنات اور خالق کائنات کے درمیان تصوراتی بعد پیدا کردیا ہے ۔ انہوں نے تکوینی قوانین اور ازلی ابدی حقیقت کے درمیان تضاد پیدا کردیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم جو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوبصورت ترین تحفہ تھا وہ خود انسان کے لئے ایک ایسی لعنت بن گیا ہے۔ جو انسان کا پیچھا کررہا ہے ۔ اور انسان کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کررہا ہے ۔ اس کی زندگی قلق ‘ روحانی خلا ‘ اور عدم اطمینان کی صورت میں اس طرح بسر ہورہی ہے جس طرح انسان کا ایک قہار وجبار بھوت پیچھا کررہا ہے۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے اس کائنات میں جو آیات الٰہی ہیں ‘ وہ اپنی الہامی صورت میں اسی شخص پر ظاہر ہوتی ہیں جس کا دل ذکر الٰہی اور عبادت الٰہیہ میں مشغول ہو ۔ اور جو لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوکر ‘ بیٹھ کر اور کروٹ لیتے ہوئے ‘ درحقیقت وہی لوگ ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور رات اور دن کے پیہم آنے پر غور وفکر کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر عظیم حقائق کھلتے ہیں ۔ جو آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے اندر اور اختلاف لیل ونہار کے نظام میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ ان رازوں کے رازدان ہونے والے ہی پھر اسلامی زندگی تک پہنچتے ہیں جو نجات اخروی ‘ فلاح دنیوی اور خیر وصلاح کا ضامن ہے ۔ رہے وہ لوگ جو صرف ظاہری دنیا کی زندگی ہی پر بس کرتے ہیں اور وہ اس کائنات کی بعض تکوینی چیزوں کو دریافت کرلیتے ہیں اور ان لوگوں کا کوئی ربط اسلامی نظام حیات سے نہیں ہوتا تو یہ لوگ تو پوری زندگی کی بربادی کی فکر کرتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کو شکست وریخت سے دوچار کرتے ہیں اور ان تکوینی اسرار و رموز کو بربادی کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنی زندگی کو ایک ناقابل برداشت جہنم بنا رہے ہیں ‘ وہ زندگی کے ایسے قلق سے دوچار کرتے ہیں جس میں سانس گھٹتی ہے ۔ اور آخرت میں وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کی طرف لوٹیں گے ۔ غرض یہ دونوں حقائق ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ‘ ان دونوں کو اس سورت نے موضوع بحث بنایا ‘ جو اصحاب دانش کے لئے ان کے مطالعہ کائنات کے وقت اور تعلق باللہ کے قیام کی خاطر یہاں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور یہ ذکر وفکر کا وہ وقت ہوتا ہے ‘ جس میں دلی صفائی حاصل ہوتی ہے ‘ روح شفاف ہوجاتی ہے اور ادراک کے دروازے کھلتے ہیں ‘ ہدایت اخذ کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے ‘ اور اس میں انسان قبولیت ‘ تاثر اور اخذ کے لئے تیار ہوتا ہے۔ مطالعہ کائنات کا یہ وقت عبادت الٰہی کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ اللہ کی جانب سے استقبال اور بندے کی جانب سے اتصال کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لئے اس وقت ادراک کائنات اور آیات کونیہ کی استعداد بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اس وقت اس کائنات میں محض غور وفکر اور اس کے نظام گردش لیل ونہار اور نظام ارض وسما ہی انسان کے ذہن میں القا کرتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک عظیم حقیقت پوشیدہ ہے اور یہ کہ یہ کائنات عبث نہیں ہے ۔ نہ یہ محض فریب نظر ہے ‘ یہی وقت اللہ کے ساتھ وصال کا وقت ہوتا ہے۔ اور براہ راست معرفت الٰہی کا رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ……………” پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا ‘ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ “ تونے اس کائنات کو فضول پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ اس کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ حق ہو ‘ سچائی اس کے قیام کا سامان ہو ‘ سچائی اس کا قانون ہو ‘ سچائی میں اصل ہو۔ سچ یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک حقیقت ہے وہ ” عدم “ نہیں ہے جس طرح بعض فلسفے یہ کہتے ہیں کہ یہ عدم محض ہے۔ یہ حقیقت ہونے کے بعد ایک ناموس کے مطابق چلتی ہے لہٰذا یہ انارکی کے مطابق نہیں چل رہی ہے ۔ وہ ایک مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے وہ بخت واتفاق کے مطابق نہیں چلتی ۔ غرض وہ اپنے وجود ‘ اپنی حرکت اور اپنے مقاصد کے حوالے سے ایک عظیم سچائی کے کنٹرول میں چلتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ کوئی باطل ملاوٹ نہیں کرسکتا۔ یہ پہلا ڈچ ہے ‘ جو اصحاب علم و دانش کے دلوں کو اس وقت دیا جاتا ہے ہے جب وہ نظام تخلیق ارض وسما اور نظام گردش لیل ونہار پر غور کرتے ہیں اور اس ڈچ سے انہیں عبادت الٰہی ‘ ذکر الٰہی اور اتصال ذات کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ اس ڈچ سے ان کے پردہ احساس پر حقیقی سچائی کا ایک نقش پڑجاتا ہے جو اس کائنات کی نقشہ سازی میں کارفرما ہے ۔ جب یہ اصحاب دانش اس سچائی تک پہنچ جاتے ہیں تو معاً وہ اللہ کی تسبیح اور تنزیہہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی اس تاویل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا…………… ” اے ہمارے رب ‘ تونے اس کائنات کو عبث نہیں پیدا کیا ۔ “ اس کے بعد یہ نفسیاتی سوچ ذرا اور آگے بڑھتی ہے ۔ کچھ مزید تکوینی احساسات اور الہامات سامنے آتے ہیں فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (١٩١) رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ……………” ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے ‘ تونے جسے دوزخ میں ڈالاا سے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا ۔ اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “………سوال یہ ہے کہ زمین و آسمان کے اندر جو سچائی ہے اور اختلاف گردش لیل ونہار کے اندر جو سچائی ہے ‘ اس کے ادراک اور اس دعائیہ ارتعاش شعور کے درمیان کیا منطقی ربط ہے ‘ کہ صاحب ادراک نہایت ہی اللہ ترسی ‘ نہایت ہی عاجزی اور نہایت ہی یکسوئی سے دعا کرنے لگتا ہے ؟ جب اصحاب دانش اس سچائی کا ادراک کرلیتے ہیں ‘ جو اس کائنات کی تہہ میں کام کرتی ہے تو ان کے نزدیک اس ادراک کا مفہوم یہ ہوتا کہ اس کائنات کے اندر ایک تقدیر ہے ‘ ایک تدبیر ہے ‘ اس کے اندر ایک حکمت کام کررہی ہے اور اس کا ایک مقصد تخلیق ہے ۔ یہ کہ لوگوں کی زندگی کے پس پشت ‘ ان ستاروں میں ایک سچائی اور عدل کام کررہا ہے ۔ اس لئے لوگ یہاں جو کچھ اعمال وافعال کرتے ہیں ‘ ان کا کسی دن حساب و کتاب ضروری ہے ۔ مکافات عمل ہونا چاہئے ‘ اور مکافات عمل کی بنیاد پر عدالت اور انصاف کے لئے لازماً ایک دوسراجہاں ہونا چاہئے ۔ جس میں سچائی ‘ عدل اور جزاوسزا متحقق ہو۔ غرض اصحاب دانش کی دعا کے اندر جو حقائق سامنے آئے وہ فطرت کی بدیہی منطق ہے۔ جس کی کڑیاں اس طرح سرعت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہیں ۔ اور ان کا شعور ایک ہی جمپ میں آگ اور جہنم کا شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اور معاً دست بدعا ہوتے ہیں کہ اللہ ! ہمیں اس سے بچا ‘ یہ وہ پہلی بات ہوتی ہے جوان کے دلوں میں آتی ہے ۔ اور یہ آمد اس ادراک کا منطقی نتیجہ ہے جو اس کائنات کے اندر پنہاں سچائی کے حوالے سے وہ کرلیتے ہیں ۔ کیفیت کے اعتبار سے یہ دعا نہایت ہی طویل ‘ خشوع و خضوع سے پر ‘ نہایت ہی مضطرب دل کے ساتھ نہایت ہی کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اور پوری یکسوئی کے ساتھ ‘ دل مومن سے اٹھتی ہے اور الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک میٹھانغمہ ہے ۔ جس کی ضربات ہم آہنگ اور نغموں کی پرسوز حرارت اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ خوبصورت الفاظ میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

290 اَلَّذِیْنَ یَذَّکَّرُوْنَ سے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ تک اُولِی الْاَ لْبَاب کے اوصاف اور ان کے حالات کا ذکر ہے۔ یہاں تک ان کی صفتیں بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور اس کی توحید کو بیان کرتے اور اسے ہی پکارتے رہتے ہیں اور کسی حال میں بھی اس سے غافل نہیں ہوتے۔ دوم یہ کہ وہ زمین و آسمان کی مخلوقات اور کائنات عالم میں غور و تدبر کرتے رہتے ہیں اور کائنات کے ذرے ذرے سے اللہ کی توحید پر استدلال کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔ 291 یہ اُوْلِی الْاَلْبَاب کی دعا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک ہونے کا اعتراف کرتے اور کہتے ہیں اے اللہ ! تو ہی کا رساز ہے نظام عالم کے پیدا کرنے میں اور اسے چلانے میں تیرا کوئی شریک نہیں۔ ای یقولون ما خلقتہ عبثا وھزلا بل خلقتہ دلیلا علی قدرتک و حکمتک۔ (قرطبی ج 4 ص 315) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 وہ ادلیٰ الالباب ایسے ہیں جو ہر حال میں خواہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں خواہ کسی پہلو پر لیٹے ہوں اللہ تعالیٰ کی یاد کیا کرتے ہیں اور آسمانوں کی اور زمین کی ساخت اور ان کے پیدا ہونے میں غور و فکر کرتے ہیں اور غورو فکر کے نتیجے کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ اے پروردگار تو نے یہ سب کچھ فضول عبث اور بےکار و بےمقصد نہیں بنایا ہے بلکہ اس مخلوق کے بنانے میں تیری بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں ہم تجھ کو ہر عیب سے پاک سمجھتے ہیں سو تو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ (تیسیر) اہلِ عقل و خرد کا وصف بیان فرمایا کہ یہ لوگ زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں یعنی زمین و آسمان کا باہمی ربط اور اس سے جو مختلف احوال و کیفیات کا ظہورہوتا ہے اس پر گہری نظر ڈالتے ہیں اور نتیجہ خیز فکر سے کام لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے کمال قدرت پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ غور و فکر ایک تو وہ ہے جو آج کل کے سائنسدان اور فلسفہ والے غور و فکر کرتے ہیں جس کا نتیجہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں اور ایک غور کرنا یہ ہے کہ نظام عالم پر غور و فکر کرنے کے بعد خالق کی وحدانیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے احکام کو قبول کیا جائے جو ایک مومن کامل کی شان ہے اور یہی ان اہل عقل وخرد کا کام ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک غورتو ہے طرز خلقت پر مثلاً آسان کس طرح بنے۔ زمین کس طرح بنی۔ ستاروں کی گردش۔ آسمان کی گردش کے تابع ہے۔ یا ان کی حرکت مستقل ہے جو تارے ثوابت ہیں ان کی کیفیت کیا ہے ان باتوں کا تعلق علم سہیت سے ہے اور ایک غور و فکر کا مطلب ہے کہ یہ تمام نظام کسی خاص حکمت اور مصلحت کے ماتحت بنا ہے یا محض فضول اور عبث اور کھیل ہے یہ غور و فکر ہے۔ غرض خلقت میں اور آیت میں یہی زیر بحث ہے اور اسی کا وہ نتیجہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان یا اس ایمان کی تقویت۔ اور یہ جو فرمایا کھڑے بیٹھے اور لیٹے ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اس ذکر سے مراد ذکر انسانی اور ذکر قلبی دونوں ہیں بلکہ نماز جو سرتاپا ذکر ہے اس کو بھی شامل ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس ذکر اللہ سے نماز مرادلی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابو الدردا کا قول ہے کہ ایک گھڑی کا تفکر پوری شب کی عبارت سے بہتر ہے۔ دلمیمی نے حضرت انس (رض) سے مرفوعاً اس کو نقل کیا ہے حضرت ابوہریرہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گھڑی کا فکر ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ ایک شخص لیٹا ہوا آسمان کو اور تاروں کو دیکھ رہا تھا اس نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ اس کائنات کا ایک پروردگار اور خالق ہے یا اللہ مجھ کو بخش دے ! اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر نظر رحمت ڈالی اور اس کو بخش دیا۔ ابن المنذر نے حضرت عون کا قول روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ام سلمہ سے دریافت کیا تھا کہ افضل عبادت کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا تفکر اور اعتبار یعنی غور و فکر کرنا اور عبرت حاصل کرنا۔ عامر بن قیس (رض) فرماتے ہیں میں نے بہت سے صحابہ کرام (رض) سے سنا ہے کہ ایمان کا نور یا ایمان کی ضیاء تفکر ہے۔ حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی کا قول ہے جب میں اپنے گھر سے باہر نکلتا ہوں تو جس چیز پر میری نظر پڑتی ہے اس کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت دیکھتاہوں اور مجھے اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے اجازت لیکر اٹھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشک سے پانی نکالا وضو کیا مسواک کی اور نماز پڑھنی شروع کی اور نماز میں روتے رہے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنسو مبارک نیچے گرتے رہے پھر سجدے میں بھی اس قدر روئے کہ زمین تر ہوگئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح تک روتے رہے جب حضرت بلال (رض) حاضر ہوئے اور انہوں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی آخری آیتیں نازل فرمائی ہیں اس شخص پر افسوس ہے جس نے ان آیتوں کو پڑھا اور ان پر غور نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس (رض) اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اٹھے وضو کیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر ان فی خلق السمٰوٰت کی آیتیں پڑھیں۔ بعض روایات میں تہجد کے وقت آپ کا آل عمران کی آخری آیتوں میں سے دس آیات کا پڑھنا ثابت ہے جو آپ آسمان کی طرف دیکھ کر پڑھا کرتے تھے اور جب غور و فکر کا نتیجہ عبرت اور ایمان ہے تو اس لئے یہ اولو الالباب اس نتیجے پر پہنچ کر کہتے ہیں ہم آپ کی جملہ عیوب سے پاکی بیان کرتے ہیں خاص کر اس عیب سے پاکی بیان کرتے ہیں کہ آپ کوئی عبث اور لایعنی کام کریں۔ ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ سے دوزخ سے بچائو کی درخواست ہے کہ آپ ہم کو آگ کے عذاب سے بچا لیجئے کیونکہ ایمان کا مقتضا یہی ہے کہ انسان کو دوزخ سے بالکل بچالیا جائے اور اگر کبھی کسی وجہ سے چند دن کے لئے دوزخ میں جانا بھی پڑے تو جلدی وہاں سے نکل جائے۔ اب آگے چند اور درخواستیں مذکور ہیں جو اسی بنیاد پر کی گئی ہیں اور جن کا مبنی یہی ایمان اور توحید ہے حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ عبث نہیں بنایا یعنی اس عالم کا انتہا ہے دوسرے عالم میں۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب نے باطل کی شرح خوب فرمائی۔ جہاں اس عالم وجود خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے دلیل ہے وہیں اس کے تغیرات اس امر پر بھی دلیل ہیں کہ یہ عالم فنا ہونے والا ہے اور اس کے بعد دوسرا عالم ہے تو گویا غور و فکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں۔ (تسہیل)