Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 196

سورة آل عمران

لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۱۹۶﴾ؕ

Be not deceived by the [uninhibited] movement of the disbelievers throughout the land.

تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning Against Being Deceived by This Life; the Rewards of the Righteous Believers Allah says; لااَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَدِ Let not the free disposal (and affluence) of the disbelievers throughout the land deceive you. Allah said, do not look at the disbelievers, who are enjoying various delights and joys. Soon, they will loose all this and be tied to their evil works, for verily, we are only giving them time, which deceives them. when all they have is, مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمِهَادُ

دنیا کا سامان تعیش دلیل نجات نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کافروں کی بدمستی کے سامان تعیش ان کی راحت و آرام ان کی خوش حالی اور فارغ البالی کی طرف اے نبی آپ نظریں نہ ڈالیں یہ سب عنقریب زائل ہو جائے گا اور صرف ان کی بداعمالیاں عذاب کی صورت میں ان کیلئے باقی رہ جائیں گی ان کی یہ تمام نعمتیں آخرت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں اسی مضمون کی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں ہیں مثلاً آیت ( مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ) 40 ۔ غافرب:4 ) اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑتے ہیں ان کا شہروں میں گھومنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے ، دوسری جگہ ارشاد ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ ) 16 ۔ النحل:16 ) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو انہیں ہماری طرف ہی لوٹنا ہے پھر ہم انہیں ان کے کفر کی پاداش میں سخت تر سزائیں دیں گے ارشاد ہے انہیں ہم تھوڑا سا فائدہ پہنچا کر پھر گہرے عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے اور جگہ ہے کافروں کو کچھ مہلت دے دے اور جگہ ہے کیا وہ شخص جو ہمارے بہترین وعدوں کو پالے گا اور وہ جو دنیا میں آرام سے گزار رہا ہے لیکن قیامت کے دن عذابوں کیلئے حاضری دینے والا ہے برابر ہو سکتے ہیں ؟ چونکہ کافروں کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہوا اس لئے ساتھ ہی مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ متقی گروہ قیامت کے دن نہروں والی ، بہشتوں میں ہوگا ، ابن مردویہ میں ہے رسول کریم افضل الصلوۃ واتسلیم فرماتے ہیں انہیں ابرار اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ماں باپ کے ساتھ اور اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے جس طرح تیرے ماں باپ کا تجھ پر حق ہے اسی طرح تیری اولاد کا تجھ پر حق ہے یہی روایت حضرت ابن عمرو سے موقوفاً بھی مروی ہے اور موقوف ہونا ہی زیادہ ٹھیک نظر آتا ہے واللہ اعلم ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں ابرار وہ ہیں جو کسی کو ایذاء نہ دیں ، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ہر شخص کیلئے خواہ نیک ہو خواہ بد موت اچھی چیز ہے اگر نیک ہے تو جو کچھ اس کیلئے اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے اور اگر بد ہے تو اللہ کے عذاب اور اس کے گناہ جو اس کی زندگی میں بڑھ رہے تھے اب ان کا بڑھنا ختم ہوا پہلے کی دلیل آیت ( وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ) 3 ۔ آل عمران:198 ) ہے اور دوسری کی دلیل آیت ( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ ) 3 ۔ آل عمران:178 ) ہے یعنی کافر ہماری ڈھیل دینے کو اپنے حق میں بہتر نہ خیال کریں یہ ڈھیل ان کے گناہوں میں اضافہ کر رہی ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب ہیں حضرت ابو الدرداء سے بھی یہی مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

196۔ 1 خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت اور کاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے، یہ تجارتی سفر وسائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکا میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان میں محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہونگے۔ یہ مضمون بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلا (مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ) 040:004 اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ " (قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَاب الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ 70؀ ) 010:069، 070 (نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24؀) 031:024

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٧] یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کے باوجود کفار کے تجارتی قافلے یمن سے شام تک جاتے اور معقول منافع کماتے اور پھر عیش و عشرت سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں تو اس چند روزہ عیش و آرام سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ ان پر مہربان ہے۔ کیونکہ آخرت میں ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ لہذا کسی کو اس فریب میں نہ پڑنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ ۔۔ : اوپر کی آیات میں مومنوں کے گناہ بخشنے اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا، حالانکہ وہ فقر و فاقہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے بالمقابل کفار نہایت عیش و نعمت میں تھے، انھیں دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جاتے، لہٰذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ انس بن مالک (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نیکی کے معاملہ میں مومن کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا، اسے اس نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی اور کافر جو نیکیاں اللہ کے لیے کرتا ہے اس کا بدلہ اسے دنیا ہی میں پورا دے دیا جاتا ہے، پھر جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی کہ اس کا بدلہ اسے دیا جائے۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین، باب جزاء المؤمنین۔۔ : ٢٨٠٨ ] مقصد یہ ہے کہ شہروں میں کفار کے تجارتی کاروبار، ان کی خوش حالی اور مال و دولت کی فراوانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں کسی قسم کا حزن و غم نہیں آنا چاہیے، نہ ان کو نا امیدی کا شکار ہونا چاہیے، نہ منافقین کا سا طرز عمل اختیار کرنچا چاہیے۔ جو سختی اور خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں : ( مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا ) [ الأحزاب : ١٢ ] ” پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھوکے کا وعدہ کیا ہے۔ “ کفار کی دنیوی خوشحالی سے کفر کے حق ہونے پر استدلال کرنا چاہیے، یہ چند روزہ زندگی کا قلیل سا سامان اور عارضی بہار ہے، مرنے کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ اس کے مخاطب بظاہر تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر مراد امت ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا، تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور یہ چونکہ کفار کے مقابلے میں بیان کی جا رہی ہے، اس لیے ” لکن “ کا لفظ بطور استدارک ذکر فرمایا۔ (المنار)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ۝ ١٩٦ ۭ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٦۔ ١٩٧) اور دنیا فانی ہے اس سے اعراض کرنا چاہیے (دل نہیں لگانا چاہیے) اور آخرت کی طلب و جستجو میں کوشاں رہنا چاہیے اور اے مخاطب ان مشرکین اور یہود کے تجارتی سفر تجھ مغالطہ میں نہ ڈال دیں یہ دنیا کے چکاچوند اور چہل پہل یہ چند روزہ بہار ہے، اس کے بعدان کا ان کا بدترین ٹھکانا جہنم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب فرمایا : آیت ١٩٦ (لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْْبِلاَدِ ) یہ کافر جو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ‘ اور اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں ‘ جمعیتیں فراہم کر رہے ہیں ‘ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی دھوکے میں نہ آئیں ‘ کسی مغالطے کا شکار نہ ہوں ‘ ان کی طاقت کے بارے میں کہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرعوب نہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(196 ۔ 198) ۔ اوپر کی آیتوں میں ذکر تھا کہ مخالف شریعت لوگوں کی تجارت بڑے ٹوٹے کی تجارت ہے کیونکر دنیاچند روزہ ہے اس میں پھر چل کر ان لوگوں نے کچھ کمال یا توبہ سبب مخالفت شریعت الٰہی کے پھر عقبیٰ کا ابد الابآد عذاب الٰہی ان کو بھگتنا پڑے گا۔ اس مطلب کی فہمائش کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورت کو اس مضمون پر ختم کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں کی دنیا کی آسودگی بہت جلد جانے والی چیز ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے پھر فرمایا جو لوگ پابند شریعت الٰہی ہیں وہ بھی تجارت سے نفع دنیاوی اٹھاتے ہیں۔ لیکن ان میں یہ وصف ہے کہ دنیا کے پیچھے انہوں نے اپنے دین کو نہیں گنوایا۔ اس لئے ان کو عقبیٰ میں بڑی بڑی راحتیں ہیں جنت اور دوزخ کے طرح طرح کے حالات میں اس قدر کثرت سے حدیثیں ہیں جن کا بیان کرنا مشکل ہے اس لئے مختصر طور پر اتنا ذکر کردینا کافی ہے کہ جنت کی نعمتوں کے باب میں تو ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی صحیح بخاری و مسلم کی اوپر گذر چکی ہے کہ جنت کا تفصیلی حالت نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا نہ ان کا تصور خیال کسی کے دل میں گزر سکتا ہے ٢ اور دوزخ کے باب میں نعمان بن بشیر (رض) سے صحیحین کی روایت ہے کہ کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ آگ کی جوتیاں ان کم عذاب والے دوزخیوں کے پاؤں میں پہنا دی جائیں گی۔ جن سے ان کا بھیجا کھولنے لگے گا۔ جس طرح دیگ میں پکتے وقت کوئی چیز کھولنے لگتی ہے ٣۔ غرض خدا تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسے عملوں کی توفیق دے جس سے ان کو دوزخ کی آفتوں سے بچنا اور جنت کی نعمتوں کو برتنا نصیب ہو۔ آمین یا رب العالمین۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:196) لایغرنک۔ واحد مذکر غائب نہی بانون تاکید ثقیلہ۔ مت دھوکہ میں ڈالے تجھ کو غر یغر (نصر) غرور مصدر۔ تقلب بروزن تفعل۔ مصدر۔ پھرنا۔ پھر پھر آنا۔ آنا جانا۔ الٹنا پلٹنا۔ بلا روک ٹوک نقل و حرکت کرنا۔ اپنے کاموں میں بلا روک ٹوک آزاد ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 196 تا 200 لایغرنک (تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے) سریع الحساب (جلد ھساب لینے والا) تقلب (آناجانا، چلت پھرت) اصبروا ( صبر کرو) البلاد (شہر (بلد کی جمع) صابروا (صبر دلاتے رہے) المھاد (ٹھکانا) رابطوا (لگے رہو) نزل (مہمان داری) تفلحون (تم کامیابی حاصل کرو گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 196 تا 200 سورة آل عمران کو ان آیات پر ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثاروں کو یہ بتایا ہے کہ کفار کی دنیاوی ترقی ملکوں میں چلت پھرت، بھاگ دوڑ اور نئی سج دھج کہیں کسی دھوکے میں نہ ڈال دے کیونکہ یہ ساری چیزیں وقتی بہاریں ہیں موسم بدلتے ہی ساری خوبصورتیاں اور یہ سج دھج ختم ہوکر رہ جائے گی اصل کا میابی آخرت کی کامیابی ہے جس کو وہاں کی کامیابی مل گئی وہی شخص کامیاب ہے لیکن اگر ایک شخص دنیا کی ساری دولت بھی سمیٹ لے اور آخرت کی اصل زندگی کے لئے وہ کچھ نہ کرے تو یہ چیزیں اس کی آخرت میں حسرت بن جائیں گی۔ آخر میں فرمایا کہ زندگی میں جو بھی حالات پیش آئیں ان کو نہایت صبر وشکر سے برداشت کیا جائے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی صبر دلایا جائے اور خوف الہی، تقویٰ اور پرہیز گاری کو زندگی کے تمام معاملات کی بنیاد بنالیا جائے تو دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابیاں اور کامرانیاں عطا کی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فکر آخرت نصیب فرمائے اور آخرت کی تمام کامیابیاں نصیب فرمائے ، آمین ثم آمین۔ واخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اپنی بادشاہی اور زمین و آسمانوں کے عبرت انگیز نشانات وآثارات کی نشاندہی ‘ ان پر مومنوں کی طرز فکر اور دعاؤں کے ذکر کے بعدمومنوں کے بہتر انجام کے بیان کے ساتھ نصیحت کی جارہی ہے کہ کفار کے کرّوفر پر فریفتہ نہیں ہونا، یہ تو دنیا کی زندگی کا عارضی سامان ہے تمہیں جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ قرآن مجید انسان کو بار بار یہ حقیقت بتلاتا اور سمجھاتا ہے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی، ناپائیدار اور بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔ نادان ہے وہ انسان جو اس کی زیب وزینت پر فریفتہ ہو کر اپنی زندگی کے اصل مقصد کو کھو بیٹھتا ہے۔ اس دنیا کی شادابی اور حسن و زیبائی نظر کا فریب اور دماغ کا دھوکا ہے جس کے پیچھے لگ کر آدمی اپنی دائمی زندگی اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کو فراموش کرتا اور لامتناہی مستقبل کو تاریک کرکے جہنم کا خریداربن جاتا ہے۔ یہ طرز حیات ایک مومن کا نہیں بلکہ اللہ کے منکر اور باغی کا ہوا کرتا ہے۔ مسئلہ کی اہمیّت کے پیش نظر بظاہر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا ہے لیکن حقیقتاً ایمانداروں کو تاریک مستقبل اور جہنم کی ہولناکیوں سے بچنے کا احساس دلایا گیا ہے کہ دنیا کا سروسامان اور عیش و عشرت نہایت مختصر ہے۔ لہٰذا کفار کے کرّو فر، شان و شوکت اور ان کی زندگی کی چہل پہل مومنوں کو عظیم مقصد سے غافل اور اس غلط فہمی کا شکار نہ کردے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہے جس کی وجہ سے انہیں دنیا کی ترقی سے نوازا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کی حقیقت یہ ہے : ( لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَاسَقٰی کَافِرًا مِّنْہَا شُرْبَۃَ مَاءٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الزھد ] ” اگر دنیا کی قدرو منزلت اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو دنیا میں کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہوتا۔ “ ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول ! اگر ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔ “ [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد ] مسائل ١۔ کفار کی ترقی اور عیش و عشرت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ ٢۔ کافروں کے لیے بالآخر جہنم ہوگی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” اے نبی ! دنیا کے ملکوں کی اللہ کے نافرمانوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے ‘ یہ صرف چند روزہ زندگی کا تھوڑاسا لطف ہے ‘ پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے ۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ‘ ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ کے پاس سے یہ سامان ضیافت ہے ان کے لئے ‘ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لئے وہی سب سے بہتر ہے۔ “ لوگوں کا ممالک میں چلنا پھرنا ‘ سیاحتیں کرنا یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ دولتمند ہیں اور ان کے پاس کچھ ہے ۔ نیز یہ ان کے مرتبے اور سیاسی قوت کی بھی علامت ہے ۔ یہ ایسے مظاہر ہیں جو اہل ایمان کو کھٹک سکتے ہیں ۔ وہ دل میں کسک محسوس کرسکتے ہیں ۔ عام لوگ ایسا احساس بہرحال رکھتے ہیں جیسا کہ وہ مشکل معاشی حالات اور محرومیت کا شکار ہوں ۔ انہیں اذیت دی جارہی ہو اور وہ جہد مسلسل کررہے ہوں انہیں جلاوطن کیا گیا ہو اور وہ بہتری کے لئے جہاد کررہے ہوں ۔ ان پر ہر قسم کی تکالیف اور خوفناک حالات آرہے ہوں اور دشمنان اسلام اور باطل پرست ناز ونعم میں پل رہے ہوں ۔ یہ صورت حال ایک طرف تو غفلت کا شکار جمہور عوام کو قلبی اذیت میں مبتلا کرتی ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ سچائی اور اہل حق مشکلات میں ہیں اور باطل اور اہل باطل کامیاب ہیں بلکہ عیش میں ہیں ۔ اور خود ان گمراہوں اور اہل باطل کے دلوں میں بھی یہ صورتحال غرور اور خود اعتمادی پیدا کرتی ہے اور وہ مزید گمراہ ہوتے ہیں ۔ اور شر و فساد میں اور سرکش اور گمراہی میں مزید آگے بڑھتے ہیں ۔ اس لئے یہاں یہ آیت آئی کہ ” اے نبی ! دنیا کے ملکوں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے ۔ یہ چند روزہ زندگی کا تھوڑا سالطف ہے ‘ اور پھر یہ جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے ۔ “………متاع قلیل ہے۔ ختم ہونے والا اور جانے والا ہے ۔ اور دائمی ٹھکانہ ان کا جہنم ہے ۔ جو بہت بری جگہ ہے ۔ اور اس تھوڑے سے جانیوالے اور ختم ہونے والے متاع قلیل کے مقابلے میں کیا ہے ؟ باغات ہیں ‘ ان میں دائمی زندگی ہے اور اللہ کی طرف سے عزت افزائی ہے۔” ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔ “………” ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “……یہ سامان ضیافت ہے ان کے لئے ۔ “………جو اللہ کے ہاں مزید ہے وہ نیکوکاروں کے لئے بہت بہتر ہے۔ “ اس میں شک نہیں کہ اگر اس حصے کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیں اور دوسرے حصے کو دوسرے میں تو جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ نیک لوگوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے۔ اور یہ شک کسی دل میں نہ ہوگا کہ جو لوگ اپنی زندگی میں تقویٰ کی راہ اختیار کرتے یہیں ان کا پلڑان لوگوں سے بھاری ہوگا جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ۔ اور اسی طرح کوئی ذی عقل انسان اس معاملے میں تردد نہ کرے گا کہ اسے وہی حصہ اختیار کرنا چاہئے جو دانشور اپنے لئے اختیار کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں تعلیم وتربیت کے میدان میں اور اسلامی تصور حیات کی اساسی قدروں کے قیام میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں فرماتے کہ وہ ان کی نصرت فرمائیں گے ۔ یہ وعدہ بھی نہیں فرماتے کہ تمہارے دشمنوں کو میں مقہور ومغلوب کرکے تمہیں دوں گا اور یہ وعدہ بھی نہیں فرماتے کہ تمہیں زمین کے اند تمکین اور استقرار نصیب کیا جائے گا اور نہ وہ اس دنیا کی زندگی کی چیزوں میں سے کی دوسری چیز کا وعدہ فرماتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض دوسرے مقامات پر اللہ نے وعدہ فرمایا ہے وہ جو اللہ تعالیٰ اپنے اوپر یہ فرض کرتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرے گا بمقابلہ دشمنان اسلام ۔ یہاں اللہ تعالیٰ صرف ایک چیز کا وعدہ فرماتے ہیں ‘ وہ جو اللہ کے ہاں ہے۔ دعوت اسلامی میں اصل اجر یہی ہے ۔ اور یہی ہے اس دعوت کا نقطہ امتیاز ۔ ہر ہدف اور ہر مقصد سے بےنیازی ‘ ہر مطمح نظر سے استغنا۔ یہاں تک کہ وہ اس خواہش سے بھی بےنیاز ہوجائے کہ اس کا نظریہ حیات غالب ہو۔ اللہ کا حکم بلند ہو اور اللہ کے دشمن مقہور اور مغلوب ہوں۔ غرض اللہ کی مرضی یہ ہے کہ اہل ایمان اس غرض سے بھی بےنیاز ہوجائیں اور اپنے امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں ۔ اور ان کے دل اس سے بھی پاک ہوجائیں کہ یہ مقاصد ان کے لئے پسندیدہ ہوں ‘ اگرچہ یہ صرف ان کی ہی خواہش نہیں ہوتی ۔ یہ عقیدہ کہ جان دینی ہے ‘ وفاداری کرنی ہے اور ادائیگی فرض بجالانا ہے اور بس بغیر کسی دنیاوی غرض اور لالچ کے ۔ بغیر اس طلب کے کہ دنیا میں نصرت ‘ غلبہ تمکن فی الارض اور سربلندی حاصل ہو۔ اور ہر چیز کا انتظار دار آخرت میں ہو۔ اور اس کے بعد نصرت بھی آتی ہے ۔ تمکن فی الارض بھی نصیب ہوتا ہے اور دنیا میں اسلام کو سربلندی بھی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن یہ تمام امور بیعت میں داخل نہیں ہیں ۔ یہ امور سودے میں شامل نہیں ۔ اس سودے میں مومنین نے قیمت کا کوئی حصہ اس دنیا میں وصول نہیں کرنا ۔ یہاں تو صرف ادائیگی فرض ‘ وفائے عہد اور جان دینا ہے اور مشکلات کو برداشت کرنا ہے۔ مکہ مکرمہ میں دعوت اور دعوت کے لئے بیعت اسی اصول پر جاری تھی ۔ یہی سودا وہاں ہورہا تھا ۔ لیکن اللہ نے مسلمانوں کو نصرت ‘ غلبہ اور سربلندی نصیب نہ کی تھی ۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین کے اندر اقتدار کی چابیاں سپرد نہ کی تھیں ۔ نہ انسانیت کی قیادت کا منصب ان کے حوالے کردیا تھا۔ ہاں جب وہ اس معیار کے مطابق مخلص ہوگئے اور اس معیار کے مطابق وفائے عہد کرنے لگے تو انہیں سب کچھ ملا۔ محمد ابن کعب القرظی فرماتے ہیں عبداللہ ابن رواحہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عقبہ کی رات کے موقعہ پر (اوس اور خزرج کے نمائندوں کے کے اسی رات بیعت کی اور فیصلہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کو ہجرت فرمائیں گے ۔ ) عرض کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو شرائط چاہیں عائد کردیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں رب کے لئے تو یہ شرط لگاتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگے ۔ اور اپنے لئے میں یہ شرط لگاتا ہوں کہ تم لوگ میری حفاظت اسی طرح کروگے جس طرح تم اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو ۔ “ اس پر انہوں نے کہا تو پھر ہمیں کیا ملے گا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وسلم نے جواب دیا صرف ” الجنۃ “۔ اس پر انہوں نے ‘ سب کہا اس سودے میں ہم بہت ہی نفع میں رہے ۔ نہ ہم خود اس سودے کو واپس کرتے ہیں اور نہ فریق دوئم سے اس کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ “ یہ تھی بات الجنۃ ‘ فقط جنت اس میں ان سے یہ وعدہ نہ تھا کہ انہیں نصرت ‘ عزت ‘ اتحاد ‘ قوت ‘ تمکن فی الارض ‘ قیادت ‘ مال اور دولت یا کوئی اور چیز ملے گی ۔ اگرچہ یہ تمام چیزیں انہیں دی گئیں ۔ لیکن یہ چیزیں سودے سے خارج تھیں …………اس کے باوجود ان کا خیال یہ تھا کہ وہ اس سودے میں کامیاب رہے ۔ اور یہ کہ نہ افاقہ کرتے ہیں اور نہ دوسرے فریق سے اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں ۔ انہوں واضح سودا کیا۔ دو بیعت کرنیوالوں کے درمیان یہ سودا ہوا۔ معاملہ ختم ہوا۔ معاہدہ ہوگیا اور اس کے بعد اس میں کوئی سودا بازی نہیں ہوئی ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کی تربیت کی جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ اس کرہ ارض پر اقتدار کی چابیاں اس کے سپرد ہونی ہیں ۔ زمام اقتدار اس کے ہاتھ میں ہوگی اور اسے یہ قیادت اس وقت سپرد ہوئی جب وہ ہر قسم کے لالچ سے پاک ہوگئے ‘ ہر قسم کی خواہشات کو انہوں نے لات ماردی ‘ ہر قسم کی خواہشات نفس پر انہوں نے ضبط کیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسلامی انقلاب کے حوالے سے بھی اپنی فطری خواہشات کو ترک کردیا ۔ اسلامی نظام کے قیام کی خواہش کو بھی انہوں نے دبادیا ۔ اور انہوں نے نظریہ حیات کی کامیابی کے لئے سوچنا بند کردیا ۔ جس کے لئے وہ جانیں دے رہے تھے ۔ اس لئے کہ اس عظیم قیادت کی ذمہ داریاں اٹھانے کا اہل کوئی ایسا شخص یا جماعت نہیں ہوسکتی جس کے نفس کے اندر کوئی خواہش ہو یا اس کے نفس کے اندر کوئی نفسانیت ہو اور وہ پورا پورا اسلام میں داخل نہ ہوگیا ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہرگز دھوکہ میں نہ ڈالے آپ کو کافروں کا شہروں میں آنا جانا، یہ تھوڑا سا نفع ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا بچھونا ہے، لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہ مہمانی ہوگی اللہ کی طرف سے، اور جو اللہ کے پاس ہے بہتر ہے نیک بندوں کے لیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

296 لَا یَغُرَّنَّکَ میں خطاب آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور مراد آپ کی امت ہے الخطاب للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و المراد منہ امتہ و کثیرا ما یخاطب سید القوم بشیء و یراد اتباعہ فیقوم خطابہ مقام خطابھم (روح ج 4 ص 171) اور یہ بھی ممکن ہے کہ خطاب عام ہو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور بطریق تغلیب امت کو بھی۔ ویحتمل ان یکون عاما للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وغیرہ بطریق التغلیب تطییبا لقلوب المخاطبین (روح) اور تقلب فی البلاد سے بسلسلہ تجارت مختلف شہروں میں آمد و رفت مراد ہے۔ والمراد بتلقب الذین کفروا فی البلاد تصرفھم فی التجارات و المکاسب (کبیر ج 3 ص 185) یعنی کافروں کی تجارتیں، ان کے پاس دولت کی فراوانی اور وسعت عیش کہیں آپ کو اس دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ خدا کے یہاں ان کی کوئی قدر و منزلت ہے اور آخرت میں بھی ان کو اسی طرح عیش و عشرت کی مسرتیں حاصل ہوں گی۔ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ یہ دنیا کی حقیر دولت اور چند روزی عیش و عشرت خدا کے اس اجر وثواب کے مقابلہ میں بالکل قلیل اور بےوقعت ہے جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کے لیے مقدر ہے۔ اس لیے اے ایمان والو ! دنیوی منافع کو کوئی وقعت نہ دو بلکہ اللہ کی خوشنودی اور ثواب آخرت کی خاطر اپنی دولت جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر نیک کاموں میں خرچ کرو۔ ثُمَّ مَاوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِہَادُ یہ ان لوگوں کے لیے تخویف اخروی ہے جو دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بجائے عیش و طرب اور لہو و لعب میں اپنی دولت برباد کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi