Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 25

سورة آل عمران

فَکَیۡفَ اِذَا جَمَعۡنٰہُمۡ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ۟ وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۵﴾

So how will it be when We assemble them for a Day about which there is no doubt? And each soul will be compensated [in full for] what it earned, and they will not be wronged.

پس کیا حال ہوگا جبکہ ہم انہیں اس دن جمع کریں گے؟ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو اپنا اپنا کیا پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيهِ ... How (will it be) when We gather them together on the Day about which there is no doubt (i. e. the Day of Resurrection). meaning, what will their condition be like after they have uttered this lie about Allah, rejected His Messengers and killed His Prophets and their scholars who enjoined righteousness and forbade evil Allah will ask them about all this and punish them for what they have done. This is why Allah said, فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيهِ (How (will it be) when We gather them together on the Day about which there is no doubt.) meaning, there is no doubt that this Day will come, ... وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ And each person will be paid in full what he has earned And they will not be dealt with unjustly.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بےلاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت سے مقامات پر اپنے قانون جزاء و سزا کی وضاحت فرما دی ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، آباؤ اجداد کی نیکی یا بندگی کسی کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔ نیز اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے عمل کیا ہے، نہ کم نہ زیادہ، کمی تو کسی صورت نہ ہوگی اور اللہ اگر چاہے تو عمل کا زیادہ بدلہ بھی دے سکتا ہے۔ نیز اللہ کے حضور کرے کوئی اور بھرے کوئی والا سلسلہ بھی نہیں چل سکتا۔ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بار اٹھانے کو تیار نہ ہوگا خواہ وہ اس کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ البتہ جو شخص کوئی ایسا نیکی کا کام جاری کر جائے جو اس کی موت کے بعد جاری رہے تو اس کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی بطور حصہ رسدی اسے ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی برائی کا کام جاری کیا تو بطور حصہ رسدی اس کا گناہ بھی اس کے کھاتہ میں جمع ہوتا رہے گا۔ (مسلم، کتاب العلم باب من سن سنہ حسنہ او سیئہ الخ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی انھیں جان لینا چاہیے کہ قیامت کے روز جب ہمارے حضور جمع ہوں گے تو ان کا بہت برا حال ہوگا، ان کے یہ من گھڑت عقیدے ان کے کسی کام نہیں آسکیں گے اور نہ انھیں اپنے بزرگوں سے جھوٹی محبت اور دامن گیری اللہ کے عذاب سے بچا سکے گی۔ کوئی نبی یا ولی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر سفارش بھی نہیں کرسکے گا۔ (ترجمان)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝ ٠ ۣ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ٢٥ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرنے کے بعد اس دن جس کے آنے میں بالکل شک نہیں، ان لوگوں کا کیا حال ہوگا اور یہ کیا کریں گے اور اس دن یہ عالم ہوگا کہ ہر ایک نیک وبد کو اس کی نیکی اور بدی کا پورا پورا بدلا مل جائے گا درحقیقت نہ ان کی نیکیوں میں کسی قسم کی کمی کی جائے گی اور ان کی برائیوں میں کوئی اضافہ کیا جائے گا، بلکہ عدل کے جملہ تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِ قف) اِس وقت تو یہ بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہیں ‘ زبان درازیاں کر رہے ہیں۔ لیکن جب ہم انہیں ایک ایسے دن میں جمع کریں گے جس کے آنے میں ذرا شک نہیں ‘ تو اس دن ان کا کیا حال ہوگا ! (وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ ) (وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) اس کے بعد اب پھر ایک بہت عظیم دعا آرہی ہے۔ اس سورة مبارکہ میں بہت سی دعائیں ہیں۔ یہ بھی ایک عظیم دعا ہے ‘ جس کی باقاعدہ تلقین کر کے کہا گیا ہے کہ یوں کہا کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:25) فکیف۔ ای فکیف یکون حالہم لیوم میں ل بمعنینی آیا ہے ای فی یوم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ینعی انہیں جان لینا چاہیے کہ قیامت کے روز جب ہمارے حضور جمع ہوں گے تو ان کا بہت براحال ہوگا ان کے یہ من گھڑت عقیدے انہیں بزرگوں سے جھو ٹی محبت اور دامن گیری خدا کے عذاب سے بچا سکے گی۔ کوئی نبی یا ولی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے غیر سفارش کا بھی مجاز نہ ہوگا۔ (ترجمان۔ وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اگلی آیت میں امت محمدیہ کے کفار پر غالب آنے کی پیشنگوئی کی طرف تعلیم مناجات کے عنوان میں اشارہ ہے، جیسا شان نزول سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم وفارس کے فتح ہوجانے کا وعدہ فرمایا تو منافقین و یہود نے استبعاد اور استہزاء کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ ” مگر کیا بنے گی ان پر جب ہم انہیں اس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے ؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دیدیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ “……………کیاحال ہوگا ؟ یہ ایک خوفناک دہمکی ہے ۔ دل مومن کانپ اٹھتا ہے ‘ وہ سنتے ہی محسوس کرتا ہے کہ وہ دن نہایت ہی خوفناک اور سنجیدہ ہوگا ‘ اللہ کے سامنے پیشی کا دن ہوگا۔ اس صحیح عدل ہوگا۔ اس دن کا تصور اور اس کا صحیح شعور ان باطل تصورات اور ان کے خود گھڑے ہوئے تصورات سے کوئی میل نہیں کھاتا ۔ اس تہدید اور تخویف کے بعد یہ حکم قائم ہے ۔ یہ مشرکین کے لئے بھی ہے ‘ ملحدین کے لئے بھی دعوائے اسلام رکھنے والے اہل کتاب کے لئے بھی اور آج کے مسلمانوں کے لئے بھی جو اپنی زندگیوں میں اسلام کو صحیح طرح نافذ نہیں کرتے ۔ ان لوگوں کا اس دن کیا حال ہوگا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور جس میں ہم ان سب کو جمع کریں گے ۔ اور جس دن اللہ تعالیٰ کا نظام عدل اپنے طریقوں پر چلے گا۔ اور ہر شخص کو اس کی کمائی کا صلہ مل جائے گا ۔ پورا پورا بغیر کسی ظلم اور بغیر کسی لحاظ کے ‘ کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی ۔ گو اللہ کے حساب میں کوئی روع رعایت ان سے نہ ہوگی ۔………آیت میں سوال کردیا گیا ہے ‘ لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ‘ دل کانپ اٹھے ‘ بدن دہل گیا اور جواب از خود آنکھوں کے سامنے تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35 یہ ان فریب خوردہ یہودیوں کے لیے اخروی تخویف ہے۔ لِیَوْمٍ میں لام بمعنی فی ہے۔ (قرطبی ج 4 ص 51، روح ج 3 ص 112) یعنی دنیا میں تو وہ کتاب اللہ کی طرف آنے سے انکار کر رہے ہیں اور جھوٹی آرزؤوں سے دل بہلا رہے ہیں مگر اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ان سب کو ایک ایسے دن میں جمع کریں گے۔ جس کی آمد میں کوئی شک نہیں اور ان کی آرزؤوں کے علی الرغم ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائیگی اور اپنے ذاتی اعمال صالحہ کے بغیر بزرگوں سے انتساب کسی کام نہیں آئے گا۔ اور وہاں کسی پر ظلم بھی نہیں ہوگا۔ نہ کسی کے اعمال صالحہ کی جزا میں کمی کی جائے گی اور نہ کسی کے گناہوں کی واجبی سزا میں اضافہ کیا جائیگا اور اور نہ کسی کو ناکردہ گناہ کی سزا دی جائے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے ان لوگوں کا حال ملاحظہ نہیں کیا جن کو کتاب سماوی یعنی توریت کے علم میں سے ایک خاص اچھا حصہ دیا گیا ہے یعنی توریت کے اچھے خاصے عالم ہیں ان لوگوں کو اس عرض کے لئے کتاب الٰہی کی طرف دعوت دی جاتی ہے تا کہ وہ کتاب اللہ ان کے مابین مذہبی اختلاف کا فیصلہ کر دے اور توریت کو پڑھنے سے صحیح حکم معلوم ہوجائے تو کچھ لوگ ان ہی میں سے اس دعوت الی الکتاب سے بےرخی اور اغراض و انحراف کرتے ہوئے پہلو تہی کرتے ہیں اور منہ پھیرلیتے ہیں ان کی اس بےرخی اور اعراض و انحراف کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ یوں کہتے کہ ہم کو تو آتش دوزخ صرف چند روز کے سوا مس بھی نہیں کرے گی اور ان کو ان کے دین کے بارے میں ان کی ان افترا پر دازیوں اور ان کے خود ساختہ عقائد نے مبتلائے فریب کر رکھا ہے اور ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے مگر اس گھڑی ان کا کیا خال ہوگا اور ان پر کیا بنے گا جب ہم ان سب کو اس دن جمع کرلیں گ جس دن کے آنے میں ذرا شک و شبہ نہیں اور اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بالکل ظلم نہ کیا جائے گا ۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب مسئلہ کی تحقیق کے لئے انہی کی مسلمہ کتاب کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے کہ لائو اپنی کتاب لے آئو تا کہ وہ ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دے اور جو مذہبی اختلاف ہے وہ دور ہوجائے تو ان کے اچھے خاصے علماء کا حال یہ ہے کہ اس معقول مطالبے سے پہلو تہی اور روگردانی کر جاتے ہیں آگے وجہ بیان فرمائی کہ اس سے بےرخی کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ یوں سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ جہنم میں جانے ہی کے نہیں اور اگر کہیں ان کو جانا بھی پڑا تو صرف گنتی کے چند دن وہ چالیس دن ہوں یا سات دن ہوں۔ بہر حال ! ان دنوں کے بعد جہنم سے نکل آئیں گے۔ حضرت حق نے فرمایا ان کو ان کے خود ساختہ عقائد اور خانہ ساز افتراء پر درازی نے فریب خوردہ کر رکھا ہے اور یہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ آخری آیت میں تخویف اور وعید ہے کہ اس دن ان پر کسی بری بنے گی جس دن خدا کے روبرو سب جمع ہوں گے اور وہ دن قیامت کا ایسا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ پھر اس دن صرف اجتماع ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنے اپنے کئے کا بدلہ بھی پانا ہے۔ پھر جب تمہارے ان مجرمانہ اعمال و غلط عقائد کا بدلہ ملے گا تو کیا حال ہوگا ۔ آخری ٹکڑے میں ظلم کی نفی ہے یعنی نہ ثواب میں کمی اور نہ سزا میں زیادتی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) یفترون کے تحت فرماتے ہیں یہ ذکر یہود کا ہے کہ قضیے میں اپنی کتاب پر بھی عمل نہیں کرتے اور گناہ پر دلیر ہیں اس غرہ پر کہ ان کے پہلے جھوٹ بنا کر کہہ گئے ہیں کہ ہم میں اگر کوئی بہت گناہ گار ہوگا تو سات دن سے زیادہ عذاب نہ پاوے گا ۔ ( موضح القرآن) فقیر سورة بقرہ میں یہو د کے اس قول کی تفصیل عرض کرچکا ہے۔ چالیس دن کا قول شاید اس بنا پر ہو کہ ان کے بزرگوں نے چالیس دن تک گئو سالہ پرستی کی تھی۔ ( واللہ اعلم) چونکہ اوپر جنگ بدر کی طرف اشارہ آیا تھا اور اس وقت مسلمانوں کی حالت مالی اعتبار سے جیسی نازک تھی اس کا مختصر تذکرہ ہوچکا ہے اور یہ امر طبعی ہے کہ جب انسان اپنے مخالفوں کو اچھی حالت میں دیکھتا ہے اور اپنے کو فقر و افلاس میں مبتلا پاتا ہے تو قدرتی طور پر یہ خیال ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ ایسی خوشحالی کا معاملہ اور اپنوں کے ساتھ اس قسم کے فقر و فاقہ کا برتائو کیوں ہے ممکن ہے کہ کسی نے اس کو سرکاردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رض) کے گوش گزار بھی کیا ہو اور آپ نے مسلمانوں کو اطمینان دلایاہو جایسا کہ بعض روایات سے معلوم بھی ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فارس اور روم کے فتح ہونے کی بشارت دی تھی اور اس بعض اہل کتاب نے مذاق بھی اڑایا تھا۔ حضرت حق جل مجدہٗ نے اس سوال اور خواہش کا جواب بہترین اور نہایت لطیف پیرایہ میں دیا جو بظاہر ایک دعا ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم کی گئی ہے ۔ لیکن اس دعا میں وہ سب کچھ ہے جس کی ایسے موقع پر ضرورت تھی ۔ مسلمانوں کیلئے اطمینان بھی ہے اپنی قدرت اور مالکیت کا اظہار بھی ہے ۔ دن رات اور مردے زندے کے ذکر میں انقلاب کی ایک مکمل تصویر بھی ہے ۔ آئندہ کی ترقی اور مالی برتری اور غلبہ کی طرف اشارہ بھی ہے۔ غرض ایسا عمدہ پیرایہ اختیار کیا ہے جس کی خوبیاں بیان بلکہ تصور سے ہی باہر ہیں اگر اس آیت پر اجزاء کے اجزاء بھی لکھے جائیں تو کم ہیں ۔ چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں۔ ( تسہیل)