Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 27

سورة آل عمران

تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ تُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۲۷﴾

You cause the night to enter the day, and You cause the day to enter the night; and You bring the living out of the dead, and You bring the dead out of the living. And You give provision to whom You will without account."

تُو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہےتُو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تُوہی جاندار سے بےجان پیدا کرتا ہے تُو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ... You make the night enter into the day, and You make the day enter into the night, meaning, You take from the length of one of them and add it to the shortness of the other, so that they become equal, and take from the length of one of them and add it to the other so that they are not equal. This occurs throughout the...  seasons of the year: spring, summer, fall and winter. Allah's statement, ... وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ ... You bring the living out of the dead, and You bring the dead out of the living. means, You bring out the seed from the plant and the plant from the seed; the date from its seed and the date's seed from the date; the faithful from the disbeliever and the disbeliever from the faithful; the chicken from the egg and the egg from the chicken, etc. ... وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ And You give wealth and sustenance to whom You will, without limit. meaning, You give whomever You will innumerable amounts of wealth while depriving others from it, out of wisdom, and justice.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہوجاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہوجاتی ہے یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے بڑے ہوجاتے ہیں۔ 27۔ 2 جیسے نطفہ...  (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکلتا ہے۔ پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے سے کافر پیدا فرماتا ہے بعض روایات میں ہے کہ معاذ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم آیت (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 003:026 پڑھا کرو یہ دعا کرو (رَحْمَان الدُنْیَا وَلْاآخِرَۃِو رحیمھما تعطی من تشاء منھما رتمنع من تشاء ارحمنی رحمۃ تغنینی بھا عن رحمۃ من سواک اللھم اغننی من الفقر واقض عنی الدین) ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔ (مجمع الزوائد)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ: اس سے موسموں کے اعتبار سے رات اور دن کے بڑھنے اور گھٹنے کی طرف اشارہ ہے، ایک ہی وقت کبھی رات کا حصہ بن جاتا ہے اور کبھی دن کا۔ اس طرح رات دن میں داخل ہوجاتی ہے اور دن رات میں۔ وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ۔۔ : مردہ سے زن... دہ، یعنی کافر سے مسلمان، جیسے آزر سے ابراہیم (علیہ السلام) ، نطفہ سے حیوان، انڈے سے پرندہ اور زندہ سے مردہ جیسے نوح (علیہ السلام) سے کنعان اور حیوان اور پرندے سے نطفہ اور انڈا۔ طبرانی کی ایک روایت میں اس آیت کے اندر اسم اعظم ہونے کا ذکر ہے۔ ” ہدایۃ المستنیر “ میں اس روایت کو ایک راوی محمد بن زکریا غلابی کی وجہ سے موضوع کہا گیا ہے اور ” الضعیفہ (٢٧٧٢) “ سے ” ضَعِیْفٌ جِدًّا “ کا حکم نقل کیا گیا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (27) demonstrates that Allah controls all spaces and heavenly bodies and employs the sun and the moon to make the days longer than nights and the nights longer than the days at His will and command. Mentioned after that is His unrivalled power of &bringing the liv¬ing out from the dead& such as, a chick from an egg, or a human infant from the sperm, or a tree from a seed ... and of &bringing the dead out from the living& such as eggs from birds and beasts, sperm from hu¬mans or fruit from trees and dried grain from plants. If we were to take &the living& and the dead& in a broad and general sense, this will become inclusive of the learned and the ignorant, the perfect and the imperfect and the believer and the disbeliever (the Muslim and the Kafir). It only goes to show that Allah&s perfect power exercises absolute control over all phenomena, both physical and spiri¬tual, through which He can make a Muslim out of a Kafir, a perfect believer out of a staunch disbeliever, a scholar out of an ignorant person - if He so wills. And if He so wills, He can let a believer turn into a disbeliever or a rustic into a scholar. He brought Ibrahim (علیہ السلام) out of an idol-worshipper. He let the son of Prophet Nuh (علیہ السلام) remain an infidel. Strange but true, the son of an ` alim عالم (scholar) can remain illiterate and the son of someone illiterate can become an ` alim عالم . A discerning reader will not fail to notice the eloquent order in which Allah&s most perfect power that reigns and runs the universe from the cosmos to the soul of man has been demonstrated so effectively. The special merit of this verse: Imam al-Baghawi (رح) reports a hadith from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in which he said: It is Allah&s promise that anyone who recites, after eve¬ry Surah, the Surah al-Fatihah, Ayah al-Kursi, two verses of &Al-` Imran, that is شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ (3:18) and the present verse from قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ (26-27), He will make his abode in Paradise, and have him placed in the Sacred Enclosure, and bless him with His mercy seventy times every day, and fulfill seventy of his needs, and protect him against every envier and enemy and make him prevail over them.  Show more

دوسری آیت میں آسمانی طاقتوں اور فلکیات پر حق جل وعلا شانہ کی قدرت کاملہ کا احاطہ اس طرح بیان فرمایا ہے (تولج اللیل فی النھار وتولج النھار فی اللیل) |" یعنی آپ جب چاہتے ہیں رات کے اجزاء دن میں داخل فرما کر دن کو بڑا کردیتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں دن کے اجزاء رات میں داخل کر کے رات بڑی کردیتے ہیں |"۔ ا... ور یہ ظاہر ہے کہ رات اور دن کے بڑے چھوٹے ہونے کا مدار آفتاب کے طلوع و غروب اور اس کی حرکات پر ہے، اس لئے اس کا حاصل یہ ہوا کہ آسمان اور اس کے متعلق سب سے بڑا سیارہ شمس اور سب سے معروف سیارہ قمر سب آپ کے احاطہ قدرت میں ہیں، پھر عالم عناصر اور دنیا کی باقی طاقتوں میں کسی شک و شبہ کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد عالم روحانیت پر جل وعلاشانہ کا احاطہ قدرت اس طرح بیان فرمایا (تخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی) |" یعنی آپ زندہ کو مردہ سے نکال لیتے ہیں، جیسے بیضہ سے بچہ یا نطفہ سے انسان یا دانہ سے درخت کو نکال لیتے ہیں اور مردہ کو زندہ سے نکال لیتے ہیں، جیسے جانور سے بیضہ اور انسان سے نفطہ یا درخت سے پھل اور دانہ خشک |"۔ اور اگر زندہ اور مردہ کا مفہوم عام لیا جائے تو عالم اور جاہل اور کامل و ناقص اور مومن و کافر سب کو شامل ہوجاتا ہے جس سے حق جل وعلاشانہ کی قدرت کاملہ اور اس کے تصرفات تمام عالم ارواح اور روحانیات پر واضح ہوجاتے ہیں کہ وہ جب چاہیں تو کافر سے مومن یا جاہل سے عالم پیدا کردیں اور جب چاہیں مومن سے کافر یا عالم سے جاہل پیدا کردیں، آذر کے گھر میں خلیل اللہ پیدا ہوجائے اور نوح (علیہ السلام) کے گھر میں ان کا بیٹا کافر رہ جائے، عالم کی اولاد جاہل رہ جائے اور جاہل کی اولاد عالم ہوجائے۔ اس تفصیل سے آپ نے معلوم کیا ہوگا کہ کیسی بلیغ ترتیب کے ساتھ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تمام کائنات عالم پر محیط ہونا ترتیب وار بیان فرمایا گیا ہے کہ پہلے عالم عناصر اور اس کی قوتوں اور حکومتوں کا ذکر آیا ہے، پھر عالم افلاک اور اس کی قوتوں کا اور ان سب کے بعد روح اور روحانیت کا ذکر آیا ہے جو درحقیقت سارے عالم کی ساری قوتوں میں سب سے بالا تر قوت ہے، آخر آیت میں ارشاد فرمایا : (وترزق من تشاء بغیر حساب) |" یعنی آپ جس کو چاہیں بیشمار رزق عطا فرمادیں |" جس کو کوئی مخلوق نہ معلوم کرسکے، اگرچہ خالق کے علم میں ذرہ ذرہ لکھا ہوا ہے۔ آیت مذکورہ کی مخصوص فضیلت : امام بغوی (رح) نے اپنی سند کے ساتھ اس جگہ ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد سورة فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور آل عمران کی تین آیتیں ایک آیت نمبر ١٨ (شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو آخر تک۔ اور دوسری و تیسری (٢٦، ٢٧) آیت (قل اللھم مالک الملک سے بغیر حساب تک پڑھا کرے تو میں اس کا ٹھکانا جنت میں بنادوں گا، اور اس کو اپنے حظیرۃ القدس میں جگہ دوں گا، اور ہر روز اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت کروں گا، اور اس کی ستر حاجتیں پوری کروں گا اور ہر حاسد اور دشمن سے پناہ دوں گا، اور ان پر اس کو غالب رکھوں گا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۝ ٠ ۡوَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ۝ ٠ ۡوَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝ ٢٧ ولج الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ... ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج/ 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها . ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج/ 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو بِغَيْرِ حِسابٍ وقوله : يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ [ البقرة/ 212] . ففيه أوجه : الأول : يعطيه أكثر ممّا يستحقه . والثاني : يعطيه ولا يأخذه منه . والثالث : يعطيه عطاء لا يمكن للبشر إحصاؤه، کقول الشاعر : عطایاه يحصی قبل إحصائها القطر والرابع : يعطيه بلا مضایقة، من قولهم : حاسبته : إذا ضایقته . والخامس : يعطيه أكثر مما يحسبه . والسادس : أن يعطيه بحسب ما يعرفه من مصلحته لا علی حسب حسابهم، وذلک نحو ما نبّه عليه بقوله تعالی: وَلَوْلا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ ... الآية [ الزخرف/ 33] . والسابع : يعطي المؤمن ولا يحاسبه عليه، ووجه ذلك أنّ المؤمن لا يأخذ من الدنیا إلا قدر ما يجب وکما يجب، وفي وقت ما يجب، ولا ينفق إلا کذلک، ويحاسب نفسه فلا يحاسبه اللہ حسابا يضرّ ، كما روي : «من حاسب نفسه في الدنیا لم يحاسبه اللہ يوم القیامة» والثامن : يقابل اللہ المؤمنین في القیامة لا بقدر استحقاقهم، بل بأكثر منه كما قال عزّ وجل : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثِيرَةً [ البقرة/ 245] . وعلی هذه الأوجه قوله تعالی: فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيها بِغَيْرِ حِسابٍ [ غافر/ 40] ، وقوله تعالی: هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ، وقد قيل : تصرّف فيه تصرّف من لا يحاسب، أي : تناول کما يجب وفي وقت ما يجب وعلی ما يجب، وأنفقه كذلك . اور آیت کریمہ : ۔ يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ [ البقرة/ 212] اور خدا جس کو چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا ہے ۔ میں بغیر حساب کی متعدد تو جیہات ہوسکتی ہیں ۔ ( 2 ) جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور پھر اس سے واپس نہیں لیتا ۔ ( 3 ) اس قدر عطا فرماتا ہے کہ انسان کے لئے اس کا احصاء ممکن نہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ باعش کے قطروں سے بھی اس کے عطایا زیادہ ہوجاتے ہیں ۔ ( 4 ) بغیر کسی تنگی کے دیتا ہے اور یہ حاسبتہ سے ہے جس معنی ضایقتہ یعنی تنگی کرنا آتے ہیں ( 5 ) لوگوں کے عام اندازہ سے کہیں زیادہ دیتا ہے ۔ ( 6 ) اپنی مصلحت کے مطابق عطا فرماتا ہے ز کہ لوگوں کے حساب کے مطابق جیسا کہ آیت : ۔ وَلَوْلا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ ... الآية [ الزخرف/ 33] اور اگر یہ خیال نہ ہوتا گہ سب لوگ ایک ہی ۔۔۔۔۔۔ جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ۔ میں تنبیہ فرمائی ہے ۔ ( 7 ) مومن کو کچھ دیتا ہے اس پر محاسبہ نہیں کریگا اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن دنیا میں بقدر کفایت حاصل کرتا ہے اور وہ بھی جائز طریقہ سے اور حسب ضرورت اور اسی طریق سے خرچ کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ پر محاسبہ بھی کرتا رہتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے اس طرح حساب نہیں لے گا ۔ جس سے کہ اسے نقصان پہنچے جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ کہ جو شخص دنیا میں اپنے نفس پر محاسبہ کرتا رہے گا ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے حساب نہیں لے گا ( یعنی جس سے کہ اسے نقصان پہنچے ) ( 8 ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے استحقاق سے زیادہ بدلہ عطا فرمائیگا ۔ جیسے فرمایا : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثِيرَةً [ البقرة/ 245] کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کر وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيها بِغَيْرِ حِسابٍ [ غافر/ 40] تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں کے وہاں ان کو ی سے شمار رزق ملے گا ۔ بھی ان مزکورہ وجوہ ( ثمانیہ ) پر محمول ہوسکتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] یہ ہماری بخشش ہے ( چاہو ) تو احسان کردیا ( چاہو ) تو رکھ چھوڑو ( تم سے ) کچھ حساب نہیں ہے ۔ میں بغیر حساب کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اس میں اس شخص کی طرح تصرف کرو جسے محاسبہ کا خوف نہ ہو ۔ یعنی ( مومن کی طرح ) واجب طریق سے بوقت ضرورت اور بقدر کفایت لیا کرو اور پھر اسی طریق سے خرچ کرتے رہو  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نظارہ کراتے ہیں کہ وہ کبھی دن کو رات سے زیادہ بڑا اور کبھی رات کو دن سے بڑا کردیتے ہیں اور اس طرح اس رب علیم کا ایک کمال یہ ہے یہ وہ ذات نطفہ سے بچہ کو پیدا کردیتی ہے اور نطفہ کو انسان سے نکالتی ہے اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ وہ ذات انڈے سے مرغی کو اور...  مرغی سے انڈے کو نکال دیتی ہے (یاد رہے کہ مرغی سے مراد محض مرغی نہیں بلکہ تمام انڈہ دینے والے جانور اس میں شامل ہیں) اور گیہوں کے دانے سے بالی کو اور بالی سے دانوں کو نکال دیتی ہے اور جس کو چاہتا ہے، بغیر محنت ومشقت کے (بطور وراثت وغیرہ) رزق دیتا ہے یا یہ کہ جس پر چاہتا ہے بغیر کسی تنگی اور سختی کے مال کی فراوانی کردیتا ہے ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ ) (وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِز) (وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ) (وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّز) اس کی بہترین مثال مرغی اور انڈا ہے۔ انڈے میں جان نہیں ہے لیکن اسی میں سے زندہ چوزہ برآمد ہوتا ہے اور مرغی سے انڈا برآمد ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. Those who disbelieved and disobeyed were seen to be prosperous, whereas the believers, with their devotion and loyalty to God, suffered all the deprivation, persecution and torment to which the Prophet and his followers were subjected around the year 3 A.H. The contrasting states of the two groups of men were the reverse of what would naturally be expected. This raised disturbing questions in ... people's minds about the underlying wisdom of this phenomenon. The verse conveys God's answer.  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :24 جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کس طرح پھل پھول رہے ہیں ، دوسری طرف اہل ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور ان مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے ، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ... اور آپ کے صحابہ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مبتلا تھے ، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: سردیوں میں دن چھوٹا ہوتا ہے تو گرمیوں کے دن کا کچھ حصہ رات بن جاتا ہے، اور گرمیوں میں دن بڑا ہوتا ہے تو سردیوں کی رات کا کچھ حصہ دن میں داخل ہوجاتا ہے۔ 8: مثلاً بے جان انڈے سے جاندار چوزہ نکل آتا ہے اور جاندار پرندے سے بے جان انڈا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:27) تولج۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ ایلاج (افعال) مصدر۔ تو داخل کرتا ہے۔ و ل ج مادہ۔ کسی تنگ جگہ میں داخل کرنا۔ جیسے باب ضرب سے ولج یلج (حتی یلج الجمل فی سم الخیاط (7:40) یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس سے موسموں کے اعتبار سے رات اور دن کے بڑھنے اور گھٹنے کی طرف اشارہ ہے۔6 حاٖفظ طبرانی (رح) نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ قل اللھم تابغیر حساب میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے جس کی تلاوت کر کے دعا کی جائے تو اسے قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت معاز (رض) نے اپنے اوپر قرض بڑھ جانے کی شکایت کی تو آنحضرت (صلی ا... للہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس آیت کے تلاوت کرنے اور اس کے ساتھ یہ دعا پڑ ھنے کی ہدایت فرمائی : رحمان الدنیا والا خرۃ رحیمھما تعطی متشا منھماوتمنع من تشا ارحمنی رحمۃ تغنینی مھا رحمۃ من سواک اللھم اغنی من الفقرواقض عنی الدنیا : اے دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے تو جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے مجھ پر ایسی رحمت فرماکر اس کے بعد دوسروں کی رحمت سے بےنیاز ہوجاوں۔ اے اللہ مجھے فقر سے غنی کر دے اور میرا قرض ادا فرمادے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ہر طرح کی قدرت حاصل ہے، سو ضعفاء کو قوت و سلطنت دے دنیا کیا مشکل ہے، اس دعا میں ایک قسم کا استدلال ہے اس کے امکان پر اور دفع ہے استبعاد کفار کا، اور خیر کی تخصیص اس لئے مناسب ہوئی کہ یہاں مقصود خیر کا مانگنا ہے، جیسے کوئی کہے کہ نوکر رکھنا آپ کے اختیار میں ہوتا ہے، اگرچہ نوکر کا موقوف کردینا...  بھی اختیار میں ہوتا ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انسانی امور کی نگہبانی اور انسانی معاملات کا بھلائی کے ساتھ یہ انتظام یہ سب کے سب اس کے اس عظیم اور عظیم ترکائنات کی تدبیر کا ایک حصہ ہے ۔ اور اس وسیع اور عریض نظام حیات کا ایک پرتو وہ فرماتا ہے۔ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ...  وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ” تو رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ‘ جاندار میں سے بےجان کو نکالتا ہے اور بےجان میں سے جاندار کو ‘ اور جسے چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا ہے۔ “ اس عظیم حقیقت کو ایک تصویر کشی کے انداز میں بیان کیا گیا ہے ‘ جس کی ایک جانب قلب و شعور خوشی سے بھرجاتے ہیں اور دوسری جانب حواس اور نظر بھی مزے لیتی ہے ۔ ایک غیر محسوس باہم حرکت رات اور دن کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ رات دن میں بدلتی ہے اور دن رات میں پرویا جاتا ہے اور شب وروز سلسلہ تسبیح کے دانے نظر آتے ہیں ‘ مردہ سے زندہ چیز نکل رہی ہے اور زندہ سے مردہ ‘ اور یہ حرکت اور مسلسل حرکت بلاشبہ یہ بتارہی ہے کہ اس نظام میں خدائے حکیم کا ہاتھ ہے ۔ جو شخص غور سے اور کان لگا کر سنے ‘ اسے معلوم ہوگا کہ اس کائنات سے گہری صداقت پر مبنی آواز آرہی ہے ۔ رات کو دن میں داخل کرنے اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گرمیوں میں رات کا ایک حصہ دن میں بدل جاتا ہے اور سردیوں میں دن کا حصہ رات بن جاتا ہے اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ رات کی تاریکی میں دن کی روشنی نفوذ کرتی ہے اور دن کی روشنی میں رات داخل ہوتی ہے ‘ جو مفہوم بھی مراد ہو ‘ لیکن اس منظر میں حسی طور پر نظر آتا ہے کہ دست قدرت ارض وسما کو حرکت دے رہا ہے اور یہ زمین جو ایک تاریک کمرہ ہے وہ سورج کے روشن کرے کے سامنے اپنے محور پر گردان ہے ۔ یوں تاریک حصہ روشن حصے سے بدلتا رہتا ہے اور روشن تاریک سے ‘ یوں دھیرے دھیرے رات کی تاریکی دن کی روشنی کی طرف آرہی ہے ۔ اور دن کی روشنی رات میں بدلتی ہے ۔ آہستہ آہستہ رات لمبی ہوتی ہے اور دن کو کھاتی جاتی ہے اور اس طرح غیر محسوس طور پر دن بڑا ہوتا ہے اور رات کو کھاتا جاتا ہے ۔ اور یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کے بارے میں کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکت کہ اس کی تنابیں اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ اور نہ ہی کوئی عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حرکت اتفاقاً کسی مدبر کی تدبیر کے بغیر ہی شروع ہوگئی ۔ اسی طرح زندگی اور موت کا اعجوبہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ زندگی موت کی طرف بڑھتی ہے اور موت سے زندگی نمودار ہوتی ہے ۔ اور یہ کام بڑے آرام اور سکون سے ہوتا ہے۔ ایک زندہ مخلوق پر جو لمحہ بھی گزرتا ہے ‘ اس میں زندگی کے ساتھ اس موت بھی طاری ہوتی رہتی ہے ۔ اور اس کی زندگی کو موت کھاتی جاتی ہے ۔ اور اس سے پھر حیات نمودار ہوتی ہے ۔ ایک زندہ چیز سے خلئے مرجاتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں ۔ اور ان کی جگہ جدید خلئے پیدا ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں ۔ اور جو خلئے مرجاتے ہیں وہ دوسرے دور میں دوبارہ زندہ ہوتے ہیں ۔ اور ان میں سے جو زندہ ہوگئے وہ دوسرے کے دور میں پھر مرجاتے ہیں۔ یہ حالت تو ایک زندہ جسم کی ہے ۔ اب موت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور یہ تمام زندہ مرجاتا ہے ‘ لیکن اس کے خلئے ذرات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو دوسری ترکیب میں آتے ہیں اور دوسرے زندہ جسم میں آتے ہیں اور یہ زندگی اس میں داخل ہوتی ہے ۔ یوں رات اور دن یہ دورہ یوں ہی چلتا رہتا ہے ۔ اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ خود ان زندہ مخلوقات میں سے کوئی مخلوق تیار کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ موت وحیات کا یہ نظام از خود اتفاقاً اور مصادفتہ قائم ہوگیا ہے۔ اس پوری کائنات میں ایک حرکت جاری ہے اور ہر موجود کے جسم کے اندر ایک حرکت جاری ہے ۔ یہ ایک عظیم حرکت ہے مگر نہایت ہی خفیہ ‘ نہایت ہی گہری اور نہایت ہی لطیف ‘ قرآن کا یہ مختصر اشارہ اس مسلسل ذات کا انکشاف کرتا ہے انسان کے دل و دماغ کو ایک اشارہ دیا جاتا ہے اور اس حرکت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ قادر ہے ‘ از سر نو پیدا کرنے والا ہے ۔ اور مدبر ہے ‘ کوئی شخص بھی یہ سعی نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی کسی بھی تدبیر اور بہبود میں اللہ تعالیٰ سے علیحدہ ہوجائے جو لطیف اور مدبر ہے ۔ اور کس طرح وہ اپنے لئے از خود کوئی نظام تجویز کرسکتے ہیں ۔ جو خود ان کی اپنی خواہش نفس پر مبنی ہوں ‘ اس لئے کہ وہ اس کائنات کا حصہ ہیں اور اس کائنات کی تنظیم وہ حکیم وخبیر ہی کررہا ہے۔ پھر وہ کس طرح ایک دوسرے کو غلام اور بندے بناسکتے ہیں اور کیا جواز ہے کہ بعض دوسرے کے لئے رب اور الٰہ بن جائیں ۔ حالانکہ سب کا روزی رساں اللہ ہے ۔ اور سب لوگ اللہ کے عیال ہیں ۔ فرماتے ہیں وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ……………” اور تو جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ “ یہ ایک آخری ڈچ ہے اور اس سے انسانی دل پر حقیقت کبری منکشف ہوجاتی ہے۔ وہ کون سی حقیقت ہے ؟ یہ کہ الٰہ ایک ہی ہے یعنی اللہ ‘ وہی ایک کائنات کا نگہبان ہے ۔ وہی ایک ذات ہے جو فعال ہے ۔ وہ ایک ہی ہے جو مدبر ہے ‘ وہی ایک مالک ہے ، وہی مدبر ہے ۔ وہی داتا ہے ‘ اور دین بھی اسی کا ہے ۔ وہی مالک الملک ہے ‘ وہی معز اور مذل ہے ۔ وہی زندہ کرنیوالا اور مارنیوالا ہے ۔ وہی دینے والا اور لینے والا ہے ۔ وہی اس کائنات کا مدبر ہے جو نظام عدل پر تدبیر کرتا ہے وہی ہے جو بھلائی ہی بھلائی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قدرت خداوندی کے بعض مظاہرے : پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بعض مظاہرے جو نظروں کے سامنے ہیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے کبھی رات بڑی کبھی دن بڑا پورے عالم میں اس کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں رات دن کے اوقات میں چار پانچ ہی گھنٹے کا...  فرق ہوتا ہے اور کہیں پندرہ سولہ گھنٹے یا اس سے زیادہ کا بھی فرق ہوجاتا ہے یہ نظام جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے کسی بھی مخلوق کو قدرت نہیں ہے کہ اس کے خلاف کرسکے، نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ مفسرین نے اس کی شرح میں فرمایا ہے کہ نطفہ جو بےجان ہے اس سے زندہ حیوان نکالتا ہے اور زندہ حیوان سے نطفہ نکالتا ہے جو بےجان ہے، اور بعض حضرات نے اس کی مثال بچہ اور انڈے سے دی ہے کہ چوزہ کو انڈے سے اور انڈے کو پرندے سے نکالتا ہے، حضرت حسن اور عطاء نے اس کا ایک اور معنی بتایا اور وہ یہ کہ مومن کو کافر سے اور کافر کو مومن سے نکالتا ہے یعنی مومن کی اولاد کافر اور کافر کی اولاد مومن ہوتی ہے۔ مومن زندہ ہے اور کافر مردہ ہے۔ قَالَ تَعَالٰی (اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا) آخر میں فرمایا ! (وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) رازق حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے اور کمی بیشی کرنا بھی اس کے قبضہ میں ہے۔ (اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37 :۔ یہ بھی مع معطوفات منادی سے حال یا اس کی صفت ہے۔ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے سے دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا مراد ہے۔ مثلاً اگر رات کا کچھ حصہ دن میں داخل ہوجائے جیسا کہ موسم گرما میں ہوتا ہے تو دن بڑا ہوجاتا ہے اور اگر دن کا کچھ حصہ رات میں شامل ہوجائے تو رات بڑی ہوجاتی ہے۔ یہ حضرت ا... بن عباس، مجاہد، قتادہ اور حسن وغیرھم سے منقول ہے ای تدخل ما نقص من احدھما فی الآخر (قرطبی ج 4 ص 54) اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے لیل ونہار کا اختلاف اور رات دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا مراد ہے۔ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ۔ حضرت حسن بصری کا قول ہے کہ زندہ سے مراد مومن اور مردہ سے مراد کافر ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ مومن سے کافر اور کافر سے مومن پیدا کرتا ہے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) سے کنعان اور آزر سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ یخرج المومن من الکافر کا براھیم من اٰزر والکافر من المومن مثل کنعان من نوح (علیہ السلام) (کبیر ج 2 ص 643، قرطبی ج 4 ص 56) ور بعض مفسرین کا قول ہے کہ مردہ سے مراد نطفہ اور انڈا ہے۔ جو جاندار سے نکلتے ہیں اور زندہ سے مراد جاندار ہیں جو نطفہ اور انڈے سے پیدا ہوتے ہیں (کبیر، قرطبی وغیرہ ) ۔ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغِیْرِ حِسَابٍ ۔ یہاں تک صفتیں تمام ہوئیں اور مقصود بالنداء محذوف ہے ای اقض حاجتی یعنی ای مالک الملک الخ میری ہر حاجت پوری کر۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 ۔ اے مالک الملک تورات کے کچھ حصہ کو دن میں داخل کردیتا ہے اور تو دن کے بعض حصے کو رات میں داخل کردیتا ہے یعنی کبھی کے دن بڑے کبھی کی رات اور اے مالک تو ہی جاندارچیز کو بےجان سے نکالتا ہے اور بےجان چیز کو جان دار سے نکالتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بیشمار روزی عطا فرماتا ہے۔ ( تیسیر) ملکی انقلاب اور...  چھوٹی اقوام کو عروج ترقی عطا کرنے پر رات اور دن کے چھوٹے۔۔۔۔ بڑے ہونے سے استدلال کرنا اور مردوں سے زندہ اور زندوں سے مردوں کے نکالنے کا ذکر کرنا یہ استدلال حضرت حق تعالیٰ ہی کے کلام میں مل سکتا ہے نہ کسی اور کو نظام کائنات پر یہ دسترس حاصل ہے اور نہ کوئی اس قسم کا استدلال کرسکتا ہے ۔ سردی کے موسم میں رات بڑی ہوتی ہے اور گرمی کے موسم میں دن بڑا ہوتا ہے اس کو ایلاج سے تعبیر فرمایا ہے یعنی دن رات میں چلا جاتا ہے اور رات دن میں چلی جاتی ہے ۔ بےجان سے جاندار جیسے انڈے سے بچہ اور جاندار سے بےجان جیسے پرندے سے اندا ۔ یا جیسے مومن سے کافر او کافر سے مؤمن ، جاہل سے عالم اور عالم سے جاہل ، غلام قوموں سے حکمراں نکلتے ہیں اور حکمراں قوموں میں سے غلام نکلتے ہیں ۔ غلامی کی تاریکی حکمرانی کے نور سے بدل جاتی ہے اور حکمرانی کے نور کو کبھی بغاوت کی تاریکی غلام کر کے ڈول دیتی ہے۔ غریبوں کی اولاد سرمایہ دار ہوتی ہے اور سرمایہ داروں کی اولاد کو مزدور کردیا جاتا ہے۔ غرض کیا خوب استدلال ہے جس قدر چاہے مطلب بیان کرتے چلے جائو اور انقلاب ملکی کی عام طور سے دو صورتیں ہوتی ہیں ایک تو کبھی دو قوموں میں اتار چڑھائو رہتا ہے کبھی روم کا غلبہ فارس پر کبھی فارس کا غلبہ روم پر اور کبھی خلاف توقع ایسے لوگ برسر اقتدار آجاتے ہیں جن کے متعلق خیال بھی نہیں ہوتا کہ یہ اتنی ترقی کر جائیں گے اور اسی طرح بعض دفعہ ایسی پرانی اور بڑی مضبوط سلطنت پاش پاش ہوجاتی ہے جس کے متعلق خیال بھی نہیں ہوتا کہ یہ ختم ہوجائے گی۔ جیسا ہمارے دور میں جاپان اور جرمن کا زوال ، اٹلی اور فرانس کا زوال اور ان دونوں کی تباہی غرض تو لج اللیل کی آیت میں ہر قسم کے انقلاب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ آخر میں جو بیشمار رزق کا اظہار فرمایا اس میں بھی ایک طرف مسلمانوں کو تسلی ہے اور دوسری طرف وفد نجران کو اطمینان دلانا مقصود ہے کہ کسی سلطنت کے منصب اور وظیفہ کا خیال حق کے قبول کرنے سے مانع نہ ہونا چاہیے ۔ رزق کے مالک تو ہم ہیں جس کو چاہتے ہیں بیشمار روزق سے سرفراز فرماتے ہیں۔ ابو العباس المقری کا قول ہے کہ قرآن میں بغیر حساب تین معنی کے لئے آتا ہے ۔ بلا مشقت بلا شمار اور بلا مطالبہ ۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے ۔ سورة فاتحہ، آیت الکری اور ایک آیت شھد اللہ انہ اور ایک آیت قل انھم کی بغیر حساب تک یہ آیتیں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتی ہیں کہ جو ہم کو پڑھے اس کے متعلق کوئی امید افزا بات ہونی چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے جو تم کو ہر نماز کے بعد پڑھے گا میں اس کا ٹھکانہ جنت میں بنائوں گا اور اس کو خطیرۃ القدس میں جمع دوں گا ۔ ایک حدیث قدسی کا مضمون یہ ہے کہ میں اللہ ہوں تمام بادشاہوں کا بادشا ہ ہوں۔ بادشاہوں کے قلوب اور ان کی پیشانیاں میرے قبضے میں ہیں ، لہٰذا جب میرے بندے میری فرمانبرداری کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے قلوب مخلوق پر مہربان کردیتا ہوں اور جب میرے بندے نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے قلوب ان پر سخت کردیتا ہوں تم ایسے موقعہ پر بادشاہوں کو برا بھلا نہ کہا کرو بلکہ اپنی اصلاح کیا کرو اور نافرمانی سے توبہ کیا کرو بہر حال ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر قسم کی حکومت ، عزت ، ترقی ، تنزل ، امیری ، غریبی ، غرض کائنات کے تمام نشیب و فراز حضرت حق کے قبضے اور اختیار میں ہیں جب یہ بات معلوم ہوگئی تو دین حق کے قبول کرنے میں کسی قرابت دار کی قرابت یا زمانہ جاہلیت کی دوستی یا کسی حکومت سے راہ و رسم اور اس کا منصب مانع نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس قسم کی دوستیاں اور تعلقات جو دین حق کے قبول کرنے میں مانع ہوں سب نظر انداز کردیئے جائیں بلکہ سب کو ختم کردینا چاہئے۔ آگے اسی مضمون کی تصریح اور وضاحت فرماتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) کہتے ہیں ۔ یعنی یہود جانتے تھے کہ جو اول ہم میں بزرگی تھی وہی ہمیشہ رہے گی۔ اللہ کی قدرت سے غافل ہیں جس کو چاہے عزیز کرے اور سلطنت دیوے اور جس سے چاہے چھین لیوے اور ذلیل کرے اور جاہلوں میں سے کامل پیدا کرے اور کاملوں میں سے جاہل اور جس کو دیا چاہے رزق بےحساب دیوے۔ ( موضح القرآن) یعنی دائمی طور پر یہود کو ہی برتری رہے۔ یہ ضروری نہیں ہوسکتا ہے کہ نصاریٰ کو برتری حاصل ہوجائے اور ہوسکتا ہے کہ مسلمان زمین کے وارث بنا دیئے جائیں ، دنیاوی برتری کا کوئی اعتماد نہیں۔ ( تسہیل)  Show more