Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 35

سورة آل عمران

اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۵﴾

[Mention, O Muhammad], when the wife of 'Imran said, "My Lord, indeed I have pledged to You what is in my womb, consecrated [for Your service], so accept this from me. Indeed, You are the Hearing, the Knowing."

جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے ، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی ، تو میری طرف سے قبول فرما ، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Maryam's Birth Allah tells; إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ ... (Remember) when the wife of Imran said: The wife of Imran mentioned here is the mother of Maryam, and her name is Hannah bint Faqudh. Muhammad bin Ishaq mentioned that Hannah could not have children and that one day, she saw a bird feeding its chick. She wished she could have children and supplicated to Allah to grant her offspring. Allah accepted her supplication, and when her husband slept with her, she became pregnant. She vowed to make her child concentrate on worship and serving Bayt Al-Maqdis (the Masjid in Jerusalem), when she became aware that she was pregnant. She said, ... رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ O my Lord! I have vowed to You what is in my womb to be dedicated for Your services, so accept this from me. Verily, You are the All-Hearer, the All-Knowing. meaning, You hear my supplication and You know my intention. She did not know then what she would give birth to, a male or a female.

مریم بنت عمران حضرت عمران کی بیوی صاحبہ کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا حضرت مریم علیہما السلام کی والدہ تھیں حضرت محمد اسحاق فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا ، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہو گیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی ، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے ، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہو گا یا لڑکی جب پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لئے تو لڑکا ہونا چاہئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کر چکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے ، واللہ اعلم بما وضعت بھی پڑھا گیا یعنی یہ قول بھی حضرت حسنہ کا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور تا کے جزم کے ساتھ بھی آیا ہے ، یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے ، اور فرماتی ہے کہ مرد عورت برابر نہیں ، میں اس کا نام مریم رکھتی ہوں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن بچہ ہوا اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے ، کیونکہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہماری شریعت ہے اور یہاں یہ بیان کیا گیا اور تردید نہیں کی گئی بلکہ اسے ثابت اور مقرر رکھا گیا ، اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرے ہاں لڑکا ہوا اور میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر ابراہیم رکھا ملاحظہ ہو بخاری مسلم ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی کو جبکہ وہ تولد ہوئے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا ، یہ حدیث بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کو بچہ ہوا ہے کیا نام رکھوں؟ فرمایا عبدالرحمن نام رکھو ( بخاری ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بچہ ہوا جسے لے کر آپ حاضر خدمت نبوی ہوئے تاکہ آپ اپنے دست مبارک سے اس بچے کو گھٹی دیں آپ اور طرف متوجہ ہوگئے بچہ کا خیال نہ رہا ۔ حضرت ابو اسید نے بچے کو واپس گھر بھیج دیا جب آپ فارغ ہوئے بچے کی طرف نظر ڈالی تو اسے نہ پایا گھبرا کر پوچھا اور معلوم کر کے کہا اس کا نام منذر رکھو ( یعنی ڈرا دینے والا ) مسند احمد اور سنن میں ایک اور حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی جانور ذبح کرے اور نام رکھے ، اور بچہ کا سر منڈوائے ، ایک روایت میں ہے اور خون بہایا جائے اور یہ زیادہ ثبوت والی اور زیادہ حفظ والی روایت ہے واللہ اعلم ، لیکن زبیر بن بکار کی روایت جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا عقیقہ کیا اور نام ابراہیم رکھا یہ حدیث سنداً ثابت نہیں اور صحیح حدیث اس کے خلاف موجود ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ اس نام کی شہرت اس دن ہوئی واللہ اعلم ۔ حضرت مریم علیہما السلام کی اس دعا کو قبول فرمایا ، چنانچہ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچے کو شیطان اس کی پیدائش کے وقت ٹہوکا دیتا ہے اسی سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے لیکن حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اس سے بچے رہے ، اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو آیت ( وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران:36 ) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی موجود ہے ، یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے کسی میں ہے ایک یا دو دھچکے مارتا ہے ، ایک حدیث میں صرف عیسیٰ کا ہی ذکر ہے کہ شیطان نے انہیں بھی دھچکا مارنا چاہا لیکن انہیں دیا ہوا ٹہوکا پردے میں لگ کر رہ گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 مُحَرّرَا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تفاسیر میں عمران کی بیوی کا نام ” حَنَّہ “ مذکور ہے اور یہ کہ دمشق کے بیرونی حصے میں ان کی قبر ہے، مگر ان دونوں باتوں کی کوئی پختہ دلیل نہیں۔ اس زمانے میں دستور تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کرکے اللہ تعالیٰ کی نذر کردیتے اور عبادت خانے کے سپرد کردیتے۔ عمران کی بیوی حاملہ تھیں، انھوں نے بھی یہی نذر مانی۔ ” مُحَرَّرًا “ کے معنی ہیں کہ وہ صرف مسجد کی خدمت ہی کے لیے وقف رہے گا۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary: In the religious code of earlier prophets, there was a method of worship through which a child, out of one&s children, could be freed from all worldly services and devoted exclusively for Allah. Following this practice, the mother of Sayyidah Maryam made a vow during her pregnancy that she would let the newborn serve بیت المقدس Baitul-Maqdis in the way of Allah and that she would not put the child on worldly chores. Sayyidah Maryam&s mother thought that she will deliver a male child. But, when she delivered a girl, she was full of remorse thinking that a girl would not be able to do this duty. But Allah Almighty, out of His consideration for the sincerity of Sayyidah Maryam&s mother, accepted that very girl and thereby made her status distinct from any other girl of the world. From here we learn that a mother holds a certain measure of guar¬dianship over her child in respect of his or her education and training, for Sayyidah Maryam&s mother would have never vowed if the mother had no right of guardianship over her child. Similarly, it proves that a mother too has the right to give a name to her child. (a1-Jassas)

خلاصہ تفسیر ( وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ عمران ( پدر مریم) کی بی بی نے (حالت حمل میں حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں نے نذر ( یعنی منت) مانی ہے آپ ( کی عبادت) کے لئے اس بچے کی جو میرے شکم میں ہے کہ وہ ( خانہ خدا کی خدمت کے واسطے) آزاد (فارغ) رکھا جائے گا ( اور میں اس کو اپنے کام میں نہ لگاؤں گی) سو آپ ( اس کو) مجھ سے قبول کر لیجیے، بیشک آپ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں ( کہ میری عرض کو سن رہے ہیں اور میری نیت کو جان رہے ہیں) پھر جب (ان بی بی نے) لڑکی جنی ( تو ان کو رنج ہوا کہ یہ تو خدمت بیت المقدس کے لائق نہیں، یہ کام تو مردوں کا ہے، اس لئے حسرت سے) کہنے لگیں کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تو حمل لڑکی جنی (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے خیال سے حسرت کر رہی تھیں) حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتے ہیں ( اس لڑکی کی شان) کو جو انہوں نے جنی اور ( کسی طرح بھی) وہ لڑکا ( جو انہوں نے چاہا تھا) اس لڑکی کے برابر نہیں ( ہوسکتا تھا، بلکہ یہ لڑکی ہی افضل ہے کہ اس کے کمالات و برکات عجیب و غریب ہوں گے، یہ ارشاد خداوندی بطور جملہ معترضہ کے تھا، پھر بی بی کا قول ہے) اور میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو ( اگر کبھی اولاد ہو) آپ کی پناہ ( اور حفاظت) میں دیتی ہوں شیطان مردود سے۔ معارف و مسائل انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی شریعت میں ایک طریقہ عبادت کا یہ بھی تھا کہ اپنی اولاد میں سے کسی بچے کو اللہ کے لئے مخصوص کردیں کہ اس سے دنیا کی کوئی خدمت نہ لیں، حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ نے اسی قاعدہ کے مطابق اپنے حمل کے متعلق یہ منت مان لی کہ اس کو خاص بیت المقدس کی خدمت کے لئے رکھوں گی، دنیا کے کام میں نہ لگاؤں گی، مگر جب حمل سے لڑکی پیدا ہوئی تو یہ خیال کر کے افسوس کیا کہ لڑکی تو یہ کام نہیں کرسکتی، مگر حق تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی برکت سے اس لڑکی ہی کو قبول فرمالیا، اور اس کی شان ساری دنیا کی لڑکیوں سے ممتاز کردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کو اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک گونہ ولایت حاصل ہے، کیونکہ اگر ماں کو بچے پر ولایت حاصل نہ ہوتی تو حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ نذر نہ مانتیں، اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ ماں کو بھی حق ہے کہ اپنے بچے کا نام خود تجویز کرلے۔ (جصاص)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ۝ ٠ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٥ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ نذر ( منت) النّذر : أن تُوجِب علی نفسک ما ليس بواجب لحدوثِ أمر، يقال : نَذَرْتُ لله أمراً ، قال تعالی:إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، وقال : وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] ( ن ذ ر ) النذر : کے معنی کسیحادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ نذرت للہ نذر ا : میں نے اللہ کے لئے نذر مانی قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] میں نے خدا کے لئے روزے کی نذر مانی ہے ۔ وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] اور تم خدا کی راہ میں جس میں طرح کا خرچ کردیا کر دیا کوئی نذر مانو ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ تحریرُ : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران/ 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] . التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران/ 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے / کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھا ر بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔ قبل ( تقبل) قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥۔ ٣٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ وقت بھی یاد کیجئے کہ جب حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ نے کہا کہ جو میرے پیٹ میں ہے میں نے اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے، اور اے رب ! آپ دعاؤں کو سننے والے اور اس کی قبولیت اور جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اس کو بخوبی جاننے والے ہیں چناچہ جب انہوں نے لڑکی جنی تو حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ حسرت سے عرض کرنے لگیں پروردگار میں نے تو لڑکی جنی ہے، حالانکہ جو انہوں نے لڑکی جنی تو حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ حسرت سے عرض کرنے لگیں پروردگار میں نے تو لڑکی جنی ہے، حالانکہ جو انہوں نے جنا اللہ تعالیٰ اسے زیادہ جانتے تھے اور لڑکا خدمت وغیرہ میں کسی طرح اس لڑکی کے برابر نہیں ہوسکتا اور میں اس لڑکی کو اور اگر اس کی اولاد ہو تو شیطان مردود سے آپ کی پناہ اور حفاظت میں دیتی ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا) عمران کی بیوی یعنی حضرت مریم ( علیہ السلام) کی والدہ بہت ہی نیک ‘ متقی اور زاہدہ تھیں۔ جب ان کو حمل ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کیا کہ پروردگار ! جو بچہ میرے پیٹ میں ہے ‘ جسے تو پیدا فرما رہا ہے ‘ اسے میں تیری ہی نذر کرتی ہوں۔ ہم اس پر دنیوی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے اور اس کو خالصتاً ہیکل کی خدمت کے لیے ‘ دین کی خدمت کے لیے ‘ تورات کی خدمت کے لیے وقف کردیں گے۔ ہم اپنا بھی کوئی بوجھ اس پر نہیں ڈالیں گے۔ انہیں یہ توقع تھی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا۔ مُحَرَّرًا کے معنی ہیں اسے آزاد کرتے ہوئے۔ یعنی ہماری طرف سے اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اسے ہم تیرے لیے خالص کردیں گے۔ (فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ ج) اے اللہ تو میری اس نذر کو شرف قبول عطا فرما۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32. If the 'woman of 'Imran' is interpreted as the wife of 'Imran, this 'Imran must be different from the 'Imran just mentioned (see the preceding verse) . In the Christian tradition the name of the father of Mary is mentioned as Joachim. If this expression, however, is interpreted to mean 'a woman of the house of 'Imran', it would mean that the mother of Mary belonged to that tribe. There is, unfortunately, no definite source of information that would lead us to prefer one interpretation to the other, as there is no historical record either about who the parents of Mary were, or to which tribes they belonged. Were we to accept the tradition that the mother of John (Yahya) and the mother of Jesus were cousins, then it would be valid to interpret the expression as meaning 'a woman of the tribe of 'Imran' for, according to the Gospel of Luke, the mother of John was one of the daughters of Aaron (Luke 1:5) . 33. That is, God heeds the prayers of His creatures and is well aware of their intentions.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :32 اگر عمران کی عورت سے مراد”عمران کی بیوی“ لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ عمران نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ، بلکہ یہ حضرت مریم کے والد تھے ، جن کا نام شاید عمران ہوگا ۔ ( مسیحی روایات میں حضرت مریم کے والد کا نام یوآخیم Ioachim لکھا ہے ) اور اگر عمران کی عورت سے مراد آل عمران لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مریم کی والدہ اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ معلومات نہیں ہے جس سے ہم قطعی طور پر ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے سکیں ، کیونکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت مریم کے والد کون تھے اور ان کی والدہ کس قبیلے کی تھیں ۔ البتہ اگر یہ روایت صحیح مانی جائے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم کی والدہ آپس میں رشتہ کی بہنیں تھیں تو پھر ”عمران کی عورت“ کے معنی قبیلہ عمران کی عورت ہی درست ہوں گے ، کیونکہ انجیل لوقا میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے کہ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں ( لوقا۵:١ ) ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :33 یعنی تو اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی نیتوں کے حال سے واقف ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(35 ۔ 36) ۔ حضرت مریم کی ماں کا نام حنہ تھا یہ بانجھ تھیں ایک روز انہوں نے ایک پرند جانور کو دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو دانہ بھرا رہا ہے یہ دیکھ کر ان کو اپنے ہاں بھی بچہ پیدا ہونے کی حرص ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے بچہ ہونے کی دعا کی اور نذر مانی کہ بنی اسرائیل کے رواج کے موافق جب بچہ پیدا ہوگا تو اس کو دنیا کے کاموں سے باز رکھ کر بیت المقدس کا خادم بنایا جائے گا۔ اتفاق سے لڑکی پیدا ہوئی۔ اور لڑکی کو بیت المقدس کی خادمہ بنانے کا دستور نہ تھا۔ اس پر انہوں نے افسوس سے وہ باتیں منہ سے نکالیں جن کا ذکر آیت میں ہے مگر انہوں نے خواب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے بجائے لڑکے کے اس لڑکی کو نذر میں قبول کرلیا۔ پھر یہ حضرت مریم کو بیت المقدس کے خادموں کے پاس لے گئیں اور ان سے اپنا خواب بیان کیا۔ اس پر ان خادموں نے حضرت مریم کو بیت المقدس کی خادمہ بنانا منظور کرلیا۔ حضرت مریم کے باپ عمران حضرت مریم کے پیدائش سے پہلے مرگئے تھے اس لئے ان یتیمہ کی پرورش کی فکر ہوئی۔ قرعہ اندازی کے بعد ان کی پرورش ان کے خالو حضرت زکریا کے ذمہ ٹھہری۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت زکریا حضرت مریم کے بڑے بہنوئی تھے اس صورت میں بعض راویوں نے خالہ کو مشابہ بہن کہا ہے کیونکہ حضرت مریم کی ماں حضرت مریم کی پیدائش سے پہلے بانجھ تھیں پھر حضرت مریم کی بڑی بہن کا ہونا کیونکر ہوسکتا ہے۔ صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بچہ کی پیدائش کے وقت شیطان بچہ کے پہلو میں ایک انگلی چھبوتا ہے جس سے بچہ روتا ہے۔ مگر حضرت مریم کی ماں کی دعا کے سبب سے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے محفوظ رہے ١۔ مریم کے معنی عبادت گذار کے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:35) امرات عمران۔ عمران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) اور ان کی ہمشیرہ حضرت مریم کے باپ کا نام تھا۔ امرات عمران۔ میں عمران سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد نہیں بلکہ عمران کی عورت سے مراد عمران کی نسل میں سے ایک عورت ہے۔ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ہارون کی اولاد سے تھیں۔ اور حضرت مریم کی والدہ اور حضرت یحییٰ کی والدہ آپس میں رشتہ کی بہنیں تھیں۔ لہٰذا حضرت مریم ام عیسیٰ (علیہ السلام) آل عمران میں سے ہوئیں۔ یا یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے باپ کا نام بھی عمران ہی تھا۔ (3:35) نذرت۔ ماضی واحد متکلم نذر مصدر ۔ (باب ضرب۔ نصر) میں نے منت مانی۔ میں نے نذر مانی۔ محررا۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ تحریر۔ مصدر ۔ آزاد کیا ہوا۔ بیت المقدس کی خدمت کے لئے مخصوص (مجاہد) عبادت کے لئے خالص کرلیا گیا (شعبی) دنیا کے دھندوں سے آزاد کردہ (جعفر صادق (رح))

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 تفاسیر امئر ۃ عمران کا نام حنتہ مذکور ہے اور ظاہر دمشق میں ان کی قبر ہے۔ (ابن کثیر، بحر) اس زمانہ میں دستور تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کے نذر کردیتے ہیں اور عبادت خانے کے سپرد کردیتے۔ عمرانن کی بیوی حاملہ تھیں انہوں نے بھی یہی نذر مانی۔ اور محررا کے معنی ہیں ہے کہ خالصہ کنیسہ کی خدمت کے لیے وقف رہے گا۔ (قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس تمہیدی اعلان احترام کے بعد اب آل عمران کے بارے میں براہ راست بات شروع ہوجاتی ہے ۔ نذر کے اس قصے سے بیگم عمران کا دل کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ یہ مریم کی ماں تھیں۔ ان کا دل ذوق ایمان سے معمور ہے ۔ وہ اپنے عزیز ترین اثاثے کو اللہ کے لئے پیش کرتی ہے ۔ یعنی وہ بچہ جو ابھی تک ان کے پیٹ میں ہے ۔ وہ اسے خالصتاً اللہ کے لئے پیش کرتی ہیں ‘ اس پیش کش کے ساتھ کوئی شرط اور قید نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ کوئی شرکیہ تصور وابستہ نہیں جیسا کہ اکثر نذروں میں ہوتا ہے۔ اس فعل میں اللہ کے سوا کسی کے حق کا تصور نہیں ہے ۔ اور لفظ ” محرر “ سے اس بےقید نذر کی تعبیر نہایت ہی معنی خیز ہے ۔ اس لئے کہ صحیح معنوں میں آزاد وہی شخص ہوتا ہے ۔ جو اللہ کا ہوجائے ۔ وہ ہر طرف سے بھاگ کر جناب باری میں پناہ لے لے۔ وہ ہر شخص ‘ ہر چیز اور ہر قدر کی غلامی سے نجات پاکر نکل آئے اور بندگی صرف اللہ وحدہ کی اختیار کرے ۔ صرف اسی صورت میں ایک انسان صحیح معنوں میں تمام غلامیوں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اس صورت کے علاوہ تمام صورتوں میں کسی نہ کسی شکل میں غلامی موجود رہتی ہے اگرچہ بظاہر کسی کو آزادی نظر آئے۔ اس نکتہ کو پالینے کے بعد ہی یہ بات نظر آتی ہے عقیدہ توحید دراصل مکمل آزادی کا ایک چارٹر ہے ۔ وہ شخص کیونکر آزاد تصور ہوسکتا ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں ‘ اللہ کے سوا اوروں کا غلام اور تابع ہونے پر مجبور ہو ‘ اپنی ذات ونفسیات کی دنیا میں ‘ یا اپنے روزمرہ کے امور حیات کے معاملے میں یا اپنے طور طریقوں یا اقدار حیات کے معاملے میں یا قوانین اور دستور حیات کے سلسلے میں اس لئے کہ وہ یہ امور ہیں جو اس کی زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ اگر ایک انسان کا دل غیر اللہ کی محبت میں گرفتار ہو ‘ یا غیر اللہ کی غلامی کے زیر بار ہو یا وہ کسی چیز کی محبت کا شکار ہو تو اسے کن معنوں میں آزاد کہا جاسکتا ہے ۔ جبکہ اس کی زندگی میں ایسی اقدار کی قدر ہو اور ایسے قوانین پر عمل ہو رہا ہو جو غیر اللہ سے ماخوذ ہوں ۔ دنیا میں انسانوں کو حقیقی آزادی اس وقت نصیب ہوئی جب انہوں نے اسلام کے نظریہ توحید کو اپنایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ حضرت مریم صدیقہ کو بھی معبود مانتے تھے۔ انہیں شبہ اس لیے ہوا کہ بچپن میں بےموسم کے پھل ان کے پاس موجود ہوتے تھے تو اس سے انہوں نے یہ سمجھا کہ ان کو کچھ مافوق الاسباب اختیار حاصل تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ دیکھو تو سہی حضرت مریم کتنی دعاؤں کے بعد پیدا ہوئیں اور کس طرح ان کی پرورش کی گئی۔ بھلا جو اپنی پیدائش اور پرورش میں دوسروں کی محتاج ہو وہ کس طرح معبود بن سکتی ہے۔ جب حضرت مریم کی والدہ امید سے ہوئیں تو انہوں نے نذر مانی کہ اے اللہ میرے بطن سے جو بچہ پیدا ہوگا۔ وہ تیری عبادت اور تیرے گھر کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ لَکَ میں لام تعلیل کے لیے ہے۔ واللام من لک للتعلیل والمراد لخدمۃ ؟ (روح۔ ج 3 ص 133) معنی لک ای لعبادتک (قرطبی ج 4 ص 66) ان کی شریعت میں اس قسم کی نذر ماننا جائز تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ عمران بن ماثان کی بیوی حنہ بنت فاقوذہ نے اپنے حمل کے متعلق جناب باری میں عرض کیا۔ اے میرے پروردگار ! میں نے بچہ کو جو میرے پیٹ میں ہے آپ کی نذر کردیا کہ وہ آپکی خدمت کے لئے تمام کاموں سے آزاد اور فارغ البال رکھ کر وقف ہوگا ، یعنی میں اس سے کوئی کام نہ لوں گی وہ صرف بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف ہوگا لہٰذا آپ میری جانب سے اس کو جس کی میں نے نذر کی ہے قبول فرما لیجئے ! یقینا آپ بڑے سننے والے اور بڑے جاننے والے ہیں یعنی میری عاجزانہ دعا کو سنتا بھی ہے اور میری نیت کو جانتا بھی ہے۔ ( تیسیر) مفسرین نے بیان کیا ہے کہ حضرت حنہ کے اولاد نہ ہوتی تھی ۔ ایک دن انہوں نے ایک پرندے کو دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو بھرا رہا ہے۔ اس وقت ان کو اپنے لئے بچہ کا خیال آیا اور انہوں نے یہ تمنا کی کہ میرے ہاں جو اولاد ہوگی وہ میں بیت المقدس کی خدمت کے لئے سب کاموں سے آزاد کر کے وقف کر دوں گی۔ چنانچہ حسن اتفاق سے حنہ حاملہ ہوگئیں اور عمران کا انتقال ہوگیا ۔ جب ان کو اپنا حاملہ ہونا معلوم ہوگیا تو انہوں نے اس توقع پر کہ بیٹا ہوگا یا اس تمنا میں کہ میرے ہاں بیٹا ہو ایسی نذر مان لی جو لڑکوں کے لئے مانی جاتی تھی اور ایسی نذر جو اپنے اختیار اور اپنی ملک میں نہ ہو اور ان کی شریعت میں جائز ہوسکتی تھی چناچہ اکثر لوگ اپنے لڑکوں کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کردیا کرتے تھے اور مسجد کے حجروں میں جو مجاوروں کی سکونت کے لئے بنائے جاتے تھے ان میں رہتے تھے اور مسجد میں جھاڑو اور روشنی وغیرہ کا کام کرتے تھے اور زائرین کی خدمت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت حنہ نے بھی یہ عرض کیا کہ اے میرے رب ! میں تمہارے لئے اس مانی بطنی کی نذر مانتی ہوں کہ اس کو تمام کاموں سے آزاد رکھا جائے گا اور بس تیرے گھر کی خدمت کے لئے وہ وقف ہوگا یعنی اور کوئی شغل اس کے ذمہ نہ ہوگا کوئی کاروبار اور نکاح بیاہ وغیرہ سب سے آزاد ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس امت میں دستور تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کرتے اور اللہ کی نیاز کرتے پھر تمام عمران کو دنیا کے کام میں نہ لگاتے اور ہمیشہ مسجد میں وہ عبادت کیا کرتے۔ عمران کی عورت کو حمل تھا اس نے آگے سے یہی نذر کر رکھی ۔ ( موضح القرآن) ہم نے عرض کیا تھا کہ اس قسم کی نذر ماننا ان کی شریعت میں جائز تھا مگر لڑکوں کے لئے خصوصی تھا یعنی لڑکوں کے لئے نذر مانتے تھے۔ اب آگے ارشاد ہوتا ہے کہ بجائے لڑکے کے اتفاقا ً حنہ کے ہاں لڑکی ہوئی۔ ( تسہیل)