Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 44

سورة آل عمران

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ؕ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ اَیُّہُمۡ یَکۡفُلُ مَرۡیَمَ ۪ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۴۴﴾

That is from the news of the unseen which We reveal to you, [O Muhammad]. And you were not with them when they cast their pens as to which of them should be responsible for Mary. Nor were you with them when they disputed.

یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں تُو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پا لے گا؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ ... This is a part of the news of the Ghayb which We reveal. "and narrate to you (O Muhammad)," ... وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ You were not with them, when they cast lots with their pens as to which of them should be charged with the care of Maryam; nor were you with them when they disputed. meaning, "You were not present, O Muhammad, when this occurred, so you cannot narrate what happened to the people as an eye witness. Rather, Allah disclosed these facts to you as if you were a witness, when they conducted a lottery to choose the custodian of Maryam, seeking the reward of this good deed." Ibn Jarir recorded that Ikrimah said, "Maryam's mother left with Maryam, carrying her in her infant cloth, and took her to the rabbis from the offspring of Aaron, the brother of Musa. They were responsible for taking care of Bayt Al-Maqdis (the Masjid) at that time, just as there were those who took care of the Ka`bah. Maryam's mother said to them, `Take this child whom I vowed (to serve the Masjid), I have set her free, since she is my daughter, for no menstruating woman should enter the Masjid, and I shall not take her back home.' They said, `She is the daughter of our Imam,' as Imran used to lead them in prayer, `who took care of our sacrificial rituals.' Zakariyya said, `Give her to me, for her maternal aunt is my wife.' They said, `Our hearts cannot bear that you take her, for she is the daughter of our Imam.' So they conducted a lottery with the pens with which they wrote the Tawrah, and Zakariyya won the lottery and took Maryam into his care."' Ikrimah, As-Suddi, Qatadah, Ar-Rabi bin Anas, and several others said that; the rabbis went into the Jordan river and conducted a lottery there, deciding to throw their pens into the river. The pen that remained afloat and idle would indicate that its owner would take care of Maryam. When they threw their pens into the river, the water took all the pens under, except Zakariyya's pen, which remained afloat in its place. Zakariyya was also their master, chief, scholar, Imam and Prophet, may Allah's peace and blessings be on him and the rest of the Prophets.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 آجکل کے اہل بدعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر اور ناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اس طرح اور ناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ (ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ) 003:044 سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے غیر پیغمبر پر نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤۔ ا ] یعنی ایسے واقعات صدیوں پہلے گزر چکے ہیں۔ انہیں بالکل ٹھیک طور پر اپنے مخالفوں کو بتلا دینا آپ کا معجزہ اور آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے۔ کیونکہ آپ نے نہ تو تورات پڑھی تھی نہ انجیل اور نہ ہی کوئی تاریخی کتاب۔ عمر کا اکثر حصہ مکہ مکرمہ میں گزرا جہاں کوئی ذی علم تھا ہی نہیں کہ آپ اس سے سن کر دوسروں کو بتلاسکتے، نہ آپ کا کوئی استاد تھا، نہ کسی کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کئے تھے۔ پھر ایسے واقعات کو علمائے اہل کتاب کے سامنے صحیح صحیح بیان کردینا آپ کے منجانب اللہ سچا رسول ہونے پر بڑی قوی دلیل ہے۔ پھر بھی جو لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ محض بغض وعناد اور دوسرے مفادات ہیں اور کچھ نہیں۔ [٤٥] حضرت مریم پر اللہ تعالیٰ کی جو عنایات ہو رہی تھیں ان سے ہیکل کے تمام خادم واقف تھے اور ان میں ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ حضرت مریم کی سرپرستی کا اعزاز اسے حاصل ہو اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے جھگڑتے اور اپنے استحقاق کے دلائل بھی دیتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں حضرت زکریا نے دوسروں کو اپنا یہ استحقاق بتلایا کہ چونکہ وہ حضرت مریم کے حقیقی خالو بھی ہیں لہذا وہی حضرت مریم کے کفیل بننے کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن دوسروں نے حضرت زکریا کے اس استحقاق کو چنداں اہمیت نہ دی، اور بالآخر طے یہ ہوا کہ ایسے سب حضرات اپنی اپنی قلمیں جن سے وہ تورات لکھا کرتے تھے کسی بہتی ندی میں پھینک دیں۔ اگر کسی شخص کا قلم ندی کے بہاؤ کی طرف بہنے سے رک جائے اور اپنی جگہ پر قائم رہے تو وہی شخص مریم کی سرپرستی کا حقدار ہوگا۔ اب ظاہر ہے یہ امتحان بھی ایک خرق عادت امر سے تھے اور کسی خرق عادت امر سے ہی اس قضیہ کا فیصلہ ہوسکتا تھا۔ چناچہ قلمیں پھینکی گئیں تو ماسوائے حضرت زکریا کے قلم کے، باقی سب قلمیں پانی کے بہاؤ کے رخ بہہ نکلیں لیکن حضرت زکریا کا قلم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ ایک تو وہ پہلے ہی حضرت مریم کے حقیقی خالو ہوتے تھے۔ اس امتحان میں بھی قرعہ فال انہی کے نام نکلا تو اب اس میں کسی کو اختلاف اور جھگڑے کی گنجائش نہ رہی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ۔۔ : اس آیت سے پانچ مسئلے واضح طور پر ثابت ہوئے، پہلا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ انھیں غیب کی یہ خبریں وحی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ تو اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھا۔ تیسرا یہ کہ اولیاء اور دوسرے انبیاء بھی غیب دان نہیں، ورنہ بیت المقدس کے خدام اور وقت کے پیغمبر زکریا (علیہ السلام) کو قرعہ ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔ چوتھا یہ کہ جب چیز ایک ہو اور اس کے حق دار کئی ہوں تو اس وقت قرعہ کے ذریعے سے فیصلہ شریعت کا فیصلہ ہے۔ امام بخاری (رض) نے ” کِتَاب الشَّہَادَاتِ “ میں باب باندھا ہے : ” بَابُ الْقُرْعَۃِ فِی الْمُشْکِلاَتِ “ ” مشکل معاملات میں قرعہ اندازی کا بیان “ اور اس میں کئی احادیث لائے ہیں۔ بعض لوگوں نے قرعہ کو جوا قرار دیا ہے، یہ ان کی غلطی ہے۔ ہاں، اگر اس مقصد کے لیے قرعہ ڈالا جائے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں، تو یہ قرعہ نہیں بلکہ فال نکالنا ہے جو حرام ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ : ٩٠) ۔ پانچواں یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس واقعہ کے وقت نہ موجود تھے، نہ اسے جانتے تھے، آپ کا وحی الٰہی سے اس واقعہ کو بیان کرنا آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ : اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مریم [ یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمران کی بیٹی تھیں، جب ان کی والدہ نے انھیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے خدام میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آخر کار انھوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا۔ ( ابن کثیر، قرطبی )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This verse presents an argument to prove the prophethood of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) by referring to happenings in the lives of Sayyidna Zakariyya (علیہ السلام) and Sayyidah Maryam. These took place in the remote past and there is no likelihood of their being seen or heard or read, specially so, by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which by itself proves that his being so informed of the unknown was beyond the ordinary course of learning. He had just no way of finding out such details by any obvious means at his command. Hence, the truth is that this information was revealed to him as part of the message he gave to others. The text very eloquently states that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was not there to see them drawing lots (by throwing their reed pens in water,. based on prior agreement that the owner of the pen which flows against the current shall be the winner), nor was he present on the scene when they were initially quarreling about the custody of Maryam before agreeing upon the drawing of lots. The rule governing قُرعَہ Qur&ah (to the drawing of lots) according to Hanafi jurists, is that قُرعَہ Qur&ah (drawing of lots) cannot be given a deci¬sive role in determining the rights known and fixed in Islamic Law. Drawing lots in such a situation is included under Qimar (gambling). For example, if something is jointly owned by several persons and a lot is drawn to decide that the one whose name comes out in the lot shall take the whole thing; or, in the case of a child whose parentage is dis¬puted, a lot is drawn and the one whose name comes out in the lot drawn is taken to be the father. Drawing lots in such cases is not al-lowed in Shari&ah. As for rights which depend upon opinion, قُرعَہ Qur&ah is permissible in them, for instance, while allotting portions of a joint property, A is given the eastern portion and B, the western, by draw-ing a lot. This is permissible because this was permissible even with-out having to draw lots by a mutual agreement of the parties concerned or by a decree of a judge. (Bayan a1-Qur&n) In other words, it can be said that in a situation where the rights of all parties are equal and the purpose of the lot is only to allocate equal portions to each of them and to decide as to which portion is for whom, then drawing a lot is permissible.

خلاصہ تفسیر یہ قصے ( جو اوپر مذکور ہوئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتبار سے بوجہ اس کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی ذریعہ ظاہری ان کے معلوم کرنے کا نہ تھا) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جن کی وحی بھیجتے ہیں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ( اس کے ذریعہ سے آپ یہ خبریں معلوم کر کے اوروں کو بتلاتے ہیں) اور (ظاہر ہے کہ جو لوگ حضرت مریم (علیہا السلام) کے رکھنے میں اختلاف کر رہے تھے جس کا فیصلہ اخیر میں قرعہ پر قرار پایا تھا) آپ ان لوگوں کے پاس نہ تو اس وقت موجود تھے جبکہ وہ ( قرعہ کے طور پر) اپنے اپنے قلموں کو ( پانی میں) ڈالتے تھے (اور صورت قرعہ نکلنے کی یہ قرار پائی تھی کہ جس کا قلم پانی کی حرکت کے خلاف الٹا بہہ جاوے وہ مستحق سمجھا جاوے سو قرعہ سے غرض اس امر کا طے کرنا تھا) کہ ان سب میں کون شخص حضرت مریم (علیہا السلام) کی کفالت (پرورش) کرے (پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو اس وقت موجود تھے) اور نہ آپ ان کے پاس اس وقت موجود تھے جبکہ وہ لوگ (قبل قرعہ اس مقدمہ میں) باہم اختلاف کر رہے تھے (جس کے رفع کی ضرورت کے لئے یہ قرعہ قرار پایا، اور ان خبروں کے دریافت ہونے کے لئے دوسرے وسائط کا نہ ہونا بھی یقینا معلوم ہے۔ پس ایسی حالت میں یہ غیبی خبریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہیں) ۔ معارف و مسائل : مسئلہ : شریعت محمدیہ میں حنفیہ کے مسلک پر قرعہ کا یہ حکم ہے کہ جن حقوق کے اسباب شروع میں معلوم و متعین ہیں ان میں قرعہ ناجائز و داخل قمار ہے، مثلا شے مشترک میں جس کا نام نکل آئے وہ سب لے لے، یا جس بچے کے نسب میں اختلاف ہو، اس میں جس کا نام نکل آوے وہی باپ سمجھا جاوے اور جن حقوق کے اسباب رائے کے سپرد ہوں ان میں قرعہ جائز ہے۔ مثلا مشترک مکان کی تقسیم میں قرعہ سے زید کو شرقی حصہ دیدینا اور عمرو کو غربی حصہ دیدینا، یہ اس لئے جائز ہے کہ بلا قرعہ بھی ایسا کرنا اتفاق شریکین سے یا قضائے قاضی سے جائز تھا۔ (بیان القرآن) یا یوں کہئے کہ جہاں سب شریکوں کے حقوق مساویانہ ہوں وہاں کوئی ایک جہت ایک شخص کے لئے متعین کرنے کے واسطے قرعہ اندازی جائز ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۝ ٠ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ۝ ٠ ۠ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ۝ ٤٤ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ قلم أصل القَلْمِ : القصّ من الشیء الصّلب، کا لظفر وکعب الرّمح والقصب، ويقال لِلْمَقْلُومِ : قِلْمٌ. كما يقال للمنقوض : نقض . وخصّ ذلک بما يكتب به، وبالقدح الذي يضرب به، وجمعه : أَقْلَامٌ. قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] . وقال : وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان/ 27] ، وقوله : إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران/ 44] أي : أقداحهم، وقوله تعالی: عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] تنبيه لنعمته علی الإنسان بما أفاده من الکتابة وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام کان يأخذ الوحي عن جبریل وجبریل عن ميكائيل وميكائيل عن ؟ ؟ ؟ إسرافیل وإسرافیل عن اللّوح المحفوظ واللّوح عن القَلَمِ» فإشارة إلى معنی إلهيّ ، ولیس هذا موضع تحقیقه . والْإِقْلِيمُ : واحد الْأَقَالِيمِ السّبعة . وذلک أنّ الدّنيا مقسومة علی سبعة أسهم علی تقدیر أصحاب الهيئة . ( ق ل م ) القلم ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی کسی سخت چیز کو تراشنے کے ہیں ۔ اس لئے ناخن بانس کی گرہ اور سر کنڈ سے وغیرہ کے تراشنے پر قلم کا لفظ بو لاجاتا ہے اور تراشیدہ چیز کو ہے جیسے کہا جاتا ہے تو قلم مقلوم ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اتا ہے ۔ اور ( عرف میں ) خاص کر لکھنے کے آلہ اور قرعہ اندازی کے تیر پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اس کی جمع اقلام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان/ 27] اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں ( سب کے سب ) قلم ہوں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران/ 44] جب وہ لوگ اپنے قلم بطور قرعہ ڈال رہے تھے ۔ میں اقلام سے قرعہ اندازی کے تیر مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] جس نے قلم کے ذر یعہ سے علم سکھایا ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انسان کو کتابت کی تعلیم دینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور جو حدیث میں ایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبیریل (علیہ السلام) سے وحی اخذ کرتے تھے اور جبیریل مکائیل سے وہ اسرافیل سے اور اسرافیل لوح محفوظ سے اور لوح محفوظ قلم سے تو یہاں سر الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کی تحقیق کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ الاقلیم ۔ ربع مسکون کا ساتواں حصہ ۔ علماء بیئت کی تحقیق کے مطابق زمین کے سات حصے ہیں ۔ اور ہر حصہ پر اقلیم کا لفظ بولتے ہیں اس کی جمع اقالیم ہے ۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ كفل الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا [ آل عمران/ 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201] ( ک ف ل ) الکفالۃ ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران/ 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201 خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حلال کاموں میں قرعہ اندازی جائز ہے قول باری ہے (وماکنت لدیھم اذیلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم) تم اس وقت وہاں موجودنہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو، اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرناق نے، انہیں معمرنے قتادہ سے قول باری (اذیلقون اقلامھم) کی تفسیر میں یہ بیان کیا کہ ہیکل کے مجادروں نے حضرت مریم کی کفالت کے سلسلے میں آپس میں قرعہ اندازی کی۔ حضرت زکریا کے نام قرعہ نکلا۔ ایک قول ہے کہ قلموں سے یہاں وہ تیرمراد ہیں جن کے ذریعے قرعہ اندازی کی جاتی تھی۔ مجاوروں نے اپنے اپنے قلم پانی کی ایک گذرگاہ میں ڈال دیئے تھے۔ تمام مجاوروں کے قلم پانی کے بہاؤ کے رخ نیچے کی طرف بہتے چلے گئے لین حضرت زکریا کا قلم پانی کے چڑھاؤ کے رخ بہتا رہا۔ یہ حضرت زکریا کا معجزہ تھا۔ اس طرح قرعہ آپ کے نام نکل آیا۔ ربیع بن انس سے اسی قسم کی روایت ہے، اس تاویل کی رو سے مجاوروں کے باہمی قرعہ اندازی کی وجہ یہ تھی کہ ہر ایک حضرت مریم کی کفالت کا خواہشمند تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک میں قحط اور خوراک کی سنگیں صورت حال کے تحت مجاوروں نے قرعہ اندازی کے ذریعے حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری سے بچنا چاہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت زکریاعلیہ السلام کو بہترین کفالت کی ذمہ داری مل گئی۔ لیکن پہلی تاویل زیادہ صحیح ہے۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی کہ اس نے زکریا کو کفیل بنادیا اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریاکوان کی کفالت کی بڑی آرزو تھی۔ بعض لوگ اس واقعہ سے درج ذیل مسئلے میں قرعہ اندازی کے جوازپراستدلال کرتے ہیں۔ مسئلے کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مرض الموت میں اپنے غلام آزاد کردیتا ہے اور پھر مرجاتا ہے۔ ان غلاموں کے سواوہ اپنے پیچھے اور کوئی مال نہیں چھوڑتا۔ ایسی صورت میں غلاموں میں قرعہ اندازی جائز ہے اور جس غلام کے نام قرعہ نکلے گا اسے پھر سے غلام بنالیا جائے گا۔ کیونکہ مرنے والا صرف اپنے تہائی مال سے ان غلاموں کو آزادی دے سکتا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے یعنی غلاموں کی آزادی میں اس واقعہ سے استدلال کی کوء گنجائش نہیں ہے۔ اس لیئے کہ کفالت کے مسئلے میں اگر قرعہ اندازی کے بغیران مجاوروں میں سے کسی ایک کے کفیل بننے پر سب کا اتفاق ہوجاتا ہے تو اس کا کفیل بننا جائز اور درست ہوتالیکن غلاموں کے مسئلے میں انہیں آزادی ملنے کے بعد کسی ایک کی دوبارہ غلامی پر باہمی رضامندی اور اتفاق جائز نہیں ہے۔ مرنے والے نے اپنے تمام غلاموں کو آزادی دے دی تھی۔ اس لیئے قرعہ اندازی کے ذریعے اس عتق کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوگا۔ جس طرح کہ کسی ایک سے آزادی کی منتقلی پر باہمی رضامندی اور اتفاق جائز نہیں ہے۔ قلموں کو بہتے ہوئے پانی میں ڈال دینا تقسیم میں قرعہ اندازی اور حاکم کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے مشابہ ہے۔ اس کی نظیروہ روایت ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ سب سفرکا ارادہ فرماتے تو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ اور یہ اس لیے کہ قرعہ جس کے نام نکلا، قرعہ اندازی کے بغیر بھی اس پر اتفاق اور باہمی رضامندی جائز تھی یہی صورت حضرت مریم کی کفالت کے مسئلے کی تھی۔ لیکن غلاموں کی آزادی کے مسئلے کا جہاں تک تعلق ہے اس میں اس بات پر باہمی رضامندی جائز نہیں ہے کہ جس غلام کو آزادی مل گئی ہے اس سے اس آزادی کو کسی اور کی طرف منتقل کردیاجائے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) اور حضرت مریم (علیہ السلام) اور زکریا (علیہ السلام) کے جو واقعات بیان کیے ہیں، یہ غیب کی ان خبروں میں سے ہیں کہ جن کو اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر بواسطہ جبرائیل امین وحی بھیجتے رہتے ہیں ورنہ آپ ان لوگوں کے پاس نہ اس وقت موجود تھے جب کہ وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی تریبت کے بارے میں قرعہ اندازی کے لیے پانی میں اپنے قلموں کو ڈال رہے تھے اور نہ آپ اس وقت ہی ان کے لوگوں کے پاس موجود تھے جب کہ وہ قرعہ اندازی سے پہلے وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی تربیت کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے، (یعنی کہ یہ سینکڑوں برس پہلے واقعات کی یہ وہ غیب کی خبریں ہیں جو آپ کی صداقت نبوت کی واضح علامت ہیں) ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ط) (وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلاَمَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ) جب حضرت مریم ( علیہ السلام) کو ان کی والدہ نے ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کیا تو ہیکل کے کاہنوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ یہ بچی میری تحویل میں ہو ‘ اس کی تربیت اور پرورش کی سعادت مجھے حاصل ہوجائے جسے اللہ کے نام پر وقف کردیا گیا ہے۔ چناچہ اس کے لیے وہ اپنے قلم پھینک کر کسی طرح قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس میں اللہ نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) کا نام نکال دیا۔ یہاں اثنائے کلام میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس وقت وہاں نہیں تھے جب وہ قرعہ اندازی سے یہ معاملہ طے کر رہے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. They drew lots to decide who should be the guardian of Mary, whose mother had consecrated her to the service of God in the Temple. Since she was a girl, it was a delicate matter as to who from among the priests of the Temple would be the appropriate person to take care of her.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :43 یعنی قرعہ اندازی کر رہے تھے ۔ اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ نے ان کو خدا کے کام کے لیے ہیکل کی نذر کر دیا تھا ۔ اور وہ چونکہ لڑکی تھیں اس لیے یہ ایک نازک مسئلہ بن گیا تھا کہ ہیکل کے مجاوروں میں سے کس کی سرپرستی میں وہ رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: جیسا کے اوپر آیت نمبر : ٣٤ میں ذکر کیا گیا، حضرت مریم (رض) کے والد کی وفات کے بعد ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوا تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا، اس زمانے میں قرعہ قلموں کے ذریعے ڈالا جاتا تھا اس لئے یہاں قلم ڈالنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:44) ابنائ۔ بنا کی جمع ۔ خبریں۔ حقیقتیں۔ جس سے بڑا فائدہ اور یقین یا ظن غالب حاصل ہو اسے بنا کہتے ہیں۔ کوئی خبر بنا نہیں کہلاتی جب تک کہ وہ شائبہ کذب سے پاک نہ ہو۔ لدیہم۔ لدی مضاف۔ ہم مضاف الیہ ۔ ان کے پاس۔ لدی۔ ظرف مکان غیر متمکن۔ پاس۔ طرف۔ ضمیر کی طرف اضافت کے وقت لذی کی وہی حالت ہوتی ہے جو علیٰ حرف جر کی ہوتی ہے۔ مثلاً لدینا۔ علینا۔ لدیہ۔ علیہ۔ یلقون۔ مضارع جمع مذکر غائب القاء (افعال) مصدر۔ وہ ڈال رہے تھے۔ الالقاء (افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈالنا کہ وہ دوسرے کو سامنے سے نظر آئے۔ پھر عرف میں مطلق کسی چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ قال القھا یاموسی فالقھا (20:19) (اللہ نے) فرمایا کہ اسے موسیٰ (علیہ السلام) اسے ڈال دو (نیچے پھینک دو ) تو اس نے اس کو ڈال دیا۔ اذ یلقون ۔۔ مریم۔ جب وہ (مجاور) اپنی قلمیں (یہ فیصلہ کرنے کے لئے) پھینک رہے تھے کہ ان میں سے مریم کی سرپرستی کون کرے۔ یعنی قرعہ اندازی کی خاطر قلمیں پھینک رہے تھے کہ کس کے نام قرعہ پڑتا ہے۔ یہاں اقلام سے مراد تیر بھی ہوسکتا ہے۔ تیروں کے ذریعہ قرعہ اندازی کا ان لوگوں میں دستور تھا۔ یختصمون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ جھگڑ رہے تھے۔ (مریم کی کفالت کے سلسہ میں)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں جن کا علم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتا تھا لہذا ان باتوں کا صحیح صحیح بیان کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول ہونے کے صریح دلیل ہے۔ (ابن کثیر۔ کبیر)4 اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمراب کی بیٹی تھیں۔ جن ان کی والدہ نے انہیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے مجاوروں میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آ خر کار انہوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے نام نکلا۔ (ابن کثیر، قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ شریعت محمدیہ میں حنفیہ کے مسلک پر قرعہ کا یہ حکم ہے کہ جن حقوق کے اسباب شرع میں معلوم و متعین ہیں ان میں قرعہ ناجائز و داخل قمار ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جب ہیکل کے خدام کے درمیان یہ تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ ان میں سے کون اس کا سرپرست ہو ‘ جب اس کی ماں اسے لیکر ہیکل میں آئیں۔ وہ اسی وقت چھوٹی بچی تھی ۔ ماں اس لئے لائی تھی کہ وہ اپنی نذر پوری کرے اور جو عہد اس نے اپنے رب کے ساتھ کیا ہے۔ اسے پورا کرے ۔ اس آیت میں ایسے واقعہ کا ذکر ہے جو عہد قدیم میں مذکور نہیں ہے اور نہ عہد جدید میں مذکور ہے یعنی ان نسخوں میں جو آج کل مروج ہیں ‘ لیکن یہ بات ایسی تھی جو احبار اور رہبان کے درمیان معروف تھی ۔ یعنی خدام کا قلمیں پھینکنے کا واقعہ اس دور میں مشہور واقعہ تھا۔ اور یہ اس لئے تھا کہ کون اس کی کفالت کرے ۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کی تفصیلات نہیں دی ہیں ۔ اور شاید اس لئے کہ سامعین قرآن کے نزدیک یہ واقعہ مشہور ومعروف ہوگا۔ یا یہ کہ قرآن کریم نے واقعہ بتادیا اور اس سے زیادہ تفصیلات بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ واقعہ ہی یہ اسی قدر ہوگا۔ مثلاً انہوں نے کفالت کے لئے کوئی ایسا طریقہ طے کرلیا ہوگا۔ یعنی قلمیں پھینک کر یہ معلوم کرتے ہوں گے کہ کفالت کس کے حصے میں آئے۔ جیسا کہ آج کل قرعہ اندازی میں ہوتا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی قلمیں نہر اردن میں پھینکیں ‘ تو سب قلمیں موجوں کے ساتھ بہہ گئیں مگر زکریا کی قلم اپنی جگہ ٹھہری رہی اور یہ ان کے درمیان علامت تھی کہ کفالت کس کے حصے میں آئے ۔ بہرحال یہ سب واقعات پردہ غیب میں تھے ۔ اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر نہ تھے ۔ نیز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم تک بھی یہ بات نہ پہنچی تھی ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات اہل ہیکل کے خفیہ رازوں میں سے ہو جسے عوام کے لئے شائع کرنا منع ہو ‘ اور قرآن نے اس کا افشا کرکے ‘ اس وقت کے علمائے اہل کتاب کو بتایا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول صادق ہیں اور قرآن کریم وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔ کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اہل کتاب آئے بھی مناظرہ کے لئے تھے ۔ اگر ان کے ہاں یہ واقعہ نہ ہوتا تو کہتے کہ ایسا کوئی واقعہ ہی سرے سے نہیں ہوا۔ اب یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا واقعہ شروع ہوتا ہے ۔ لوگوں کے معمولات کے مطابق یہ عظیم اعجوبہ ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی معمول کے مطابق مشیئت کی جو شان ہوتی ہے وہ اس کے خلاف ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نبوت محمدیہ پر واضح دلیل ابھی حضرت مریم [ سے متعلق بعض چیزوں کا بیان باقی ہے۔ جو اس آیت کے بعد آنے والا ہے۔ درمیان میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلا دی اس میں بظاہر خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن مضمون یہودیوں کی یاد دہانی سے متعلق ہے یہودیوں کے سامنے بار بار ایسی چیزیں تھیں جن سے یہ یقین ہوجاتا تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی آخر الزمان آپ ہی ہیں جن کی خوشخبری ان کی کتاب میں دی گئی تھی لیکن وہ ضد وعناد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے تھے خود ان کے اپنے آباؤ اجداد سے متعلق واقعات جو وہ جانتے تھے قرآن مجید میں وہ بھی بیان کیے گئے اور سب کو یہ بھی معلوم تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی ہیں کتابیں نہیں پڑھیں۔ اور علماء یہود کے پاس رہنا بھی نہیں ہوا۔ لامحالہ یہودیوں کے آباؤ اجداد سے متعلق واقعات ضرور وحی کے ذریعہ پہنچے ہیں۔ لیکن جسے ہدایت پر آنا ہی نہ ہو وہ کسی بھی بات سے ہدایت و عبرت حاصل نہیں کرسکتا۔ حضرت مریم کی والدہ کا نذر ماننا پھر حضرت مریم کا پیدا ہونا پھر حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں نشوونما ہونا ان کے پاس غیب سے رزق آنا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا دعا کرنا اور ان کے ہاں بیٹا پیدا ہونا۔ حضرت مریم کو فرشتوں کا خطاب کرنا یہ سب امور غیب کی باتیں ہیں جنہیں سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نزول قرآن سے پہلے نہیں جانتے تھے ان چیزوں کا علم آپ کو صرف وحی کے ذریعہ ہوا۔ اور یہ آپ کے معجزات واضحہ میں سے ہے آیت بالا میں یہودیوں کو توجہ دلائی کہ دیکھو یہ خبریں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہاں سے معلوم ہوئیں جو تمہارے آباؤ اجداد سے متعلق ہیں اور جنہیں تم جانتے اور پہچانتے ہو۔ ظاہر ہے کہ ان کا ذریعہ صرف وحی ہے لہٰذا حق قبول کرو۔ حضرت مریم کی کفالت کے لیے قرعہ اندازی : مذکورہ خبروں کے تذکرہ کے علاوہ ایک اور بات کا بھی تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ جب حضرت مریم [ کی والدہ ان کو بیت المقدس میں لے کر آئیں تو ان کی کفالت کے سلسلے میں وہاں کے حاضرین و عابدین آپس میں جھگڑنے لگے ہر ایک کہتا تھا کہ مجھے ان کی کفالت کی سعادت نصیب ہو۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنا استحقاق ظاہر فرمایا کہ اس بچی کی خالہ میرے گھر میں ہے اس کی تربیت کا حق مجھے زیادہ پہنچتا ہے لیکن وہ لوگ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہم قرعہ ڈالیں گے جس کا نام نکلے گا اسی کو استحقاق کفالت ہوگا۔ معالم التنزیل صفحہ ٢٩٦: ج ١ میں لکھا ہے کہ یہ حضرت ١٢٩ افراد تھے انہوں نے آپس میں طے کیا کہ سب لوگ پانی میں قلم ڈالیں جس کا قلم چڑھ جائے وہ زیادہ مستحق ہوگا یہ لوگ نہراردن پر پہنچے اور اس میں اپنے اپنے قلم ڈالے ہر ایک قلم پر صاحب قلم کا نام لکھا ہوا تھا سب کے قلم پانی میں بیٹھ گئے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ پانی میں بہہ گئے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کا قلم پانی پر اس طرح کھڑا ہوگیا جیسا کہ مٹی میں کھڑا ہو۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ نہیں گیا بلکہ پانی کے اوپر الٹا ادھر ہی کو چلا گیا جس طرف سے پانی آ رہا تھا۔ بہر حال حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام قرعہ نکل آیا اور مجبوراً سب کو ان کا استحقاق ماننا پڑا۔ قرآن کریم نے اس کا اجمالی تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَ مَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ ) (کہ آپ ان کے پاس نہیں تھے جبکہ وہ اپنے قلموں کو ڈال رہے تھے) (وَ مَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ ) (اور آپ ان کے سامنے نہیں تھے جبکہ وہ جھگڑ رہے تھے) اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعہ یہ واقعہ بتایا یہ بھی آپ کے معجزات میں سے ہے۔ مخاطبین بصیرت سے کام لیں اور ضد وعناد اختیار نہ کریں تو یہ بھی ان کی ہدایت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ قال صاحب الروح ص ١٥٨: ج ٣ قولہ تعالیٰ من انباء الغیب ای من اخبار ماغاب عنک و عن قومک ممالا یعرف الا بالوحی علی مایشیر الیہ المقام و قال القرطبی ص ٨٥: ج ٤ فیہ دلالۃ علی نبوۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیث اخبر عن قصۃ زکریا و مریم و لم یکن قرأ الکتب و اخبر عن ذلک و صدقہ اھل الکتاب بذلک۔ فائدہ : قرعہ ڈالنا امت محمدیہ میں بھی مشروع ہے اس کے مواقع کتب فقہ میں مذکور ہیں کتاب القسمۃ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر کا ارادہ فرماتے تھے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈال لیتے تھے جس کا نام نکل آتا تھا اسے ساتھ لے جاتے تھے۔ (رواہ البخاری و مسلم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63 یہ جملہ معترضہ ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر دلالت کرتا ہے یہ واقعات جو آپ بیان کر رہے ہیں۔ یہ سب سینکڑوں برس پہلے کے ہیں۔ ان واقعات میں آپ موجود نہیں تھے لیکن اس کے باوجود آپ ان کی صحیح صحیح تفصیلات بیان فرما رہے ہیں۔ لہذا یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ غیب کی خبریں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی بتائی ہیں اور آپ اللہ کے سچے نبی ہیں۔ فیہ دلالۃ علی نبوۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیث اخبر عن قصۃ زکریا ومریم ولم یکن قرا الکتب واخبر عن ذالک و صدقہ اھل الکتاب بذالک (قرطبی ج 4 ص 85) حضرت مریم کے والد چونکہ پہلے ہی فوت ہوچکے تھے اس لیے ان کی پرورش کا سوال پیدا ہوا تو ہیکل سلیمانی کے تمام خدام باہم جھگڑنے لگے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ حضرت مریم کی کفالت اس کے سپرد ہو۔ چناچہ اس جھگڑے کو قرعہ کے ذریعے طے کیا گیا۔ قرعہ ڈالنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ہر مدعی اپنا اپنا قلم لائے ان سب قلموں کو بہتے ہوئے پانی میں ڈالا جائے۔ جس کا قلم ٹھہرا رہے اور پانی کے ساتھ بہ نہ جائے اسے کفالت کا حقدار قرار دیا جائے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس طرح قرعہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام پڑا (قرطبی ج 4 ص 86) بعض نے لکھا ہے کہ جو حقدار ہوگا اس کا قلم پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت کو حرکت کرے گا (کبیر ج 2 ص 672) بہرحال یہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ایک معجزہ تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب فرشتوں نے حضرت مریم سے کہا کہ اے مریم ! بلا شبہ تجھ کو اللہ تعالیٰ نے منتخب اور مقبول فرمایا اور تجھ کو ہر قسم کے برے افعال و اخلاق کی آلودگی سے پاک کیا اور اس زمانہ کی تمام عورتوں کے مقابلہ میں تجھ کو برگزیدہ اور منتخب کیا ۔ اے مریم ! اپنے رب کی فرمانبردار اور اطاعت گزار رہیو اور سجدہ یعنی نماز ادا کرتی رہیو اور نماز میں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بھی کیا کیجئو۔ یہ واقعات مذکورہ اے پیغمبر منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم آپ کے پاس وحی کرتے ہیں اور وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچاتے ہیں، حالانکہ آپ ہیکل کے ان احبار کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جب وہ مریم کی نگرانی اور کفالت کے بارے میں کون شخص ان کا سرپرست مقرر ہو اپنی اپنی قلمیں قرعہ کی غرض سے پانی میں ڈال رہے تھے اور نہ آپ ان احبار کے پاس اس وقت موجود تھے جب کہ یہ لوگ آپس میں اختلاف اور جھگڑا کر رہے تھے یعنی ہر راہب یہ چاہتا تھا کہ عمران کی بیٹی مریم پرورش کے لئے میرے سپرد کی جائے۔ ( تیسیر) فرشتوں سے مراد یہاں بھی چند فرشتے ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت جبرئیل مراد ہوں ، بہر حال اصطفا کا مطلب یہ ہے کہ تجھ کو مقبول فرمایا اور تیری ماں نے جو نذر مانی تھی وہ قبول ہوئی۔ پھر زکریا کو تیرا کفیل بنایا اور بےفصل کے پھل تجھ کو پہنچائے اور کرامت کا تجھ سے ظہور ہوا ۔ تطہیر کا مطلب یہ کہ شیطان کے اثر سے تجھ کو محفوظ رکھا ۔ گناہوں سے بچایا کسی غیر مرد کے ہاتھ لگانے سے محفوظ رکھا۔ یہ باتیں ہر عورت کو کہاں نصیب ہوتی ہیں اس لئے مکرر فرمایا کہ تجھ کو اپنے زمانے کی تمام اہل جہاں کی عورتوں پر برگزیدہ عنایت کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے دو دفعہ خطاب کیا ہو ۔ ایک دفعہ اس انتخاب کا ذکر کیا ہو جس کا اثر بچنے میں نمایاں ہوا اور دوسرا خطاب حضرت مریم کو جوان ہونے کے بعد کیا ہو اور اس برگزیدگی کا اظہار کیا ہو کہ تجھ کو لڑکا عنایت فرمایا اور تجھ کو اور تیرے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بچنے میں تیری برأ ت کرائی۔ بہر حال تو ایک ہی خطاب میں مکرران کی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یا خطاب ہی دو دفعہ کیا اور دونوں دفعہ ان کی برگزیدگی کا اظہار فرمایا اور یہ جو فرمایا کہ تمام اہل عالم کی عورتوں پر فضلیت عطا فرمائی ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے زمانے میں جو دنیا جہان کی عورتیں ہیں ان کے مقابلہ میں تم کو پسند فرمایا۔ حضرت فاطمہ ، حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ اور فرعون کی بیوی آسیہ کے متعلق جو اہل عالم کی عورتوں پر فضلیت کے الفاظ آئے ہیں اول تو ان میں اپنا مسلک توقف ہے ، نیز جو معنی ہم نے کئے ہیں اس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، خدیجہ اور آسیہ کی فضلیت کے متعلق تمام روایات صاحب تفسیر مظہری نے اس آیت کے تحت جمع کردی ہیں اگر ملاحظہ کرنی ہوں تو وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ، چونکہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے تین احسانات ذکر کئے تھے ۔ ایک برگزیدہ اور پسند فرمانا ۔ دوسرے تظہیر جو ہر قسم کے برے اعمال اور ناپسندیدہ اخلاق سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ ماہواری ایام سے بھی پاک ہونے کو شامل ہو جیسا کہ بعض کا قول ہے ۔ تیسرے تمام دنیا جہان کے لوگوں پر فضلیت ان تین احسانوں کا ذکر کرنے کے بعد فرشتوں نے حضرت حق کا شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ قنوت کے معنی ہم عرض کرچکے ہیں اگر یہاں اطاعت و فرمانبردار کیا جائے تو واسجدی کے معنی نماز کیے جائیں جیسا کہ ہم نے کیا اور اگر قنوت کے معنی قیام کئے جائیں اور نماز میں تطویل قیام مراد ہو تو پھر سجدے کے معنی نماز کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب مطلب یہ ہوگا کہ اے مریم خدا کے روبرو نماز میں طویل قیام کیا کر اور سجدہ کیا کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کر ، سجدہ اگرچہ رکوع کے بعد ہوتا ہے لیکن ارکان صلوٰۃ میں چونکہ خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے اس کو مقدم فرما دیا اور ہوسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں سجدہ رکوع سے پہلے ہوتا ہو۔ بہر حال یہاں ذکر میں ترتیب کی رعایت نہیں ہے بلکہ ارکان صلوٰۃ کی ادائیگی پر متوجہ کرنا ہے اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض یہود نے نماز میں رکوع ترک کردیا تھا اور بعض رکو ع کرتے تھے اس لئے فرمایا کہ جو لوگ رکوع کے پابند ہیں ان کی طرح نماز پڑھنا ، یہ مطلب نہیں کہ رکوع کرنے والوں کی ہر نماز میں ان کے ساتھ رکوع کر بلکہ صرف یہ منشا ہے کہ تمہاری نماز میں رکوع بھی ہونا چاہئے یہ معیت ایسی ہی ہے ۔ جیسے فرمایا کہ کو نوامع الصادقین یعنی سچوں کا طریقہ اختیار کرو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رکوع میں عام لوگ کوتاہی کرتے ہیں ذرا جھکے اور کھڑے ہو کر سجدے میں چلے گئے اور کبھی سیدھے کھڑے بھی نہیں ہوتے اور سجدے میں چلے جاتے ہیں جیسا کہ ہم آج کل دیکھتے ہیں اس لئے رکوع کی تاکید فرمائی کہ رکو ع رکوع کرنے والوں کی طرح کیا کرو۔ آخری آیت میں ان واقعات مذکورہ کے بیان کرنے پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر استدلال ہے کہ بدون کسی سے سنے ہوئے اور بغیر کسی کتاب میں پڑھے ہوئے اور بغیر آنکھوں سے دیکھے ہوئے آپ کا ان واقعات کو بیان کرنا یہ خرق عادت ہے اور یہ آپ کا اعجاز ہے کہ آپ ہزاروں برس پہلے کے واقعات اس طرح تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح بتاتے ہیں سوائے اسکے کہ یہ خبریں ہم آپ پر وحی کرتے ہیں اور کیا ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہی آپ کے نبی ہونے کی کھلی ہوئی دلیل ہے کیونکہ آپ تو نہ بیت المقدس کے مجاوروں کی قرعہ اندازی کے وقت موجود تھے اور نہ جب ان میں جھگڑا ہو رہا تھا اس وقت آپ وہاں موجود تھے۔ لہٰذا ہم ہی آپ کو بتانے والے ہیں یہ مضمون بھی وفد نجران سے تعلق رکھتا ہے کہ اس واضح دلیل کے بعد بھی تم لوگوں کو اس نبی پر ایمان لانے میں کیوں تامل ہوتا ہے قلموں کا ذکر اس لئے ہوا کہ شاید ان لوگوں میں قرعہ اندازی کا یہی طریقہ ہوگا کہ ہر شخص اپنی قلم پانی پر ڈالتا ہوگا جس کی قلم پانی کے بہائو کے خلاف الٹی بہنے لگتی ہوگی یا پانی میں کھڑ ی ہوجاتی ہوگی اس کا حق سمجھا جاتا ہوگا ۔ اسی قرعہ کے قلموں کی طرف اشارہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہیکل کے ان سب احبار نے پانی میں قلمیں ڈالیں تو حضرت زکریا کی قلم بجائے بہائو پر بہنے کے الٹی بہنے لگی یا پانی پر کھڑی ہوگئی اور حضرت زکریاہی مریم کے کفیل قرار پائے ۔ لفظ وحی قرآن میں بہت سے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یہاں وہ وحی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیاء کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ قرعہ کا دستور اس آخری شریعت میں بھی ہے لیکن جن حقوق کے اسباب شریعت سے معلوم ہوں ان میں ناجائز ہے۔ مثلاً شریعت نے بتادیا ہے کہ قاری اور غیر قاری میں امامت کا مستحق قاری ہے اب اگر کوئی قاری غیر قاری میں قرعہ اندازی کرے تو یہ قرعہ اندازی ناجائز ہوگی ۔ البتہ جن حقوق کے اسباب شریعت نے ذکر نہیں کئے وہاں قرعہ اندازی ہوسکتی ہے ۔ حضرت مریم سے فرشتوں کا خطاب کرنا نبوت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بالا تفاق حضرت مریم نبی نہیں تھیں ، اگرچہ صدیقیت کا مرتبہ ان کو حاصل تھا اور صرف فرشتوں کا ہم کلام ہونا نبوت کی دلیل بھی نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) ارشاد فرماتے ہیں مسجد کے بزرگوں نے جب حضرت مریم کی ماں کا خواب سنا تو سب لگے چاہنے کہ ہم پالیں مریم کو فیصل اس بات پر ہوا کہ ہر ایک نے اپنا قلم جس سے تورات لکھتے تھے پانی بہتے میں ڈالا ۔ سب قلم بہائو پر ہے اور حضرت زکریا کا قلم الٹا اوپر کو بہا تب ان ہی طرف اس کا پالنا ٹھہرا ۔ ( موضح القرآن) اب آگے حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے کی بشارت اور ان کے اوصاف مذکور ہیں تا کہ وفد نجران کو حضرت عیسیٰ کی صحیح حقیقت اور ان کے متعلق قرآن کا نظریہ معلوم ہوجائے ، چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)