Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 78

سورة آل عمران

وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۸﴾

And indeed, there is among them a party who alter the Scripture with their tongues so you may think it is from the Scripture, but it is not from the Scripture. And they say, "This is from Allah ," but it is not from Allah . And they speak untruth about Allah while they know.

یقیناً ان میں ایسا گروہ بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں وہ تو دانستہ اللہ تعالٰی پر جُھوٹ بولتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Jews Alter Allah's Words Allah says; وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ ... And verily, among them is a party who distort the Book with their tongues, so that you may think it is from the Book, but it is not from...  the Book, and they say: This is from Allah, but it is not from Allah, Allah states that some Jews, may Allah's curses descend on them, distort Allah's Words with their tongues, change them from their appropriate places, and alter their intended meanings. They do this to deceive the ignorant people by making it appear that their words are in the Book of Allah. They attribute their own lies to Allah, even though they know that they have lied and invented falsehood. Therefore, Allah said, .. وَيَقُولُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ and they speak a lie against Allah while they know it. Mujahid, Ash-Sha`bi, Al-Hasan, Qatadah and Ar-Rabi bin Anas said that, يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ (who distort the Book with their tongues), means, "They alter them (Allah's Words)." Al-Bukhari reported that Ibn Abbas said that; the Ayah means they alter and add although none among Allah's creation can remove the Words of Allah from His Books, they alter and distort their apparent meanings. Wahb bin Munabbih said, "The Tawrah and the Injil remain as Allah revealed them, and no letter in them was removed. However, the people misguide others by addition and false interpretation, relying on books that they wrote themselves. Then, وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ (they say: "This is from Allah," but it is not from Allah;). As for Allah's Books, they are still preserved and cannot be changed." Ibn Abi Hatim recorded this statement. However, if Wahb meant the books that are currently in the hands of the People of the Book, then we should state that there is no doubt that they altered, distorted, added to and deleted from them. For instance, the Arabic versions of these books contain tremendous error, many additions and deletions and enormous misinterpretation. Those who rendered these translations have incorrect comprehension in most, rather, all of these translations. If Wahb meant the Books of Allah that He has with Him, then indeed, these Books are preserved and were never changed.   Show more

غلط تاویل اور تحریف کرنے والے لوگ یہاں بھی انہی ملعون یہودیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کا ایک گروہ یہ بھی کرتا ہے کہ عبارت کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دیتا ہے ، یعنی اللہ کی کتاب بدل دیتا ہے ، اصل مطلب اور صحیح معنی خبط کر دیتا ہے اور جاہلوں کو اس چکر میں ڈال دیتا ہے کہ کتاب اللہ یہی ہے پھر یہ خود اپن... ی زبان سے بھی اسے کتاب اللہ کہہ کر جاہلوں کے اس خیال کو اور مضبوط کردیتا ہے اور جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر افترا کرتا ہے اور جھوٹ بکتا ہے ، زبان موڑنے سے مطلب یہاں تحریف کرنا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ یہ لوگ تحریف اور ازالہ کر دیتے تھے مخلوق میں ایسا تو کوئی نہیں جو کسی اللہ کی کتاب کا لفظ بدل دے مگر یہ لوگ تحریف اور بےجا تاویل کرتے تھے ، وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ توراۃ و انجیل اسی طرح ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اتاریں ایک حرف بھی ان میں سے اللہ نے نہیں بدلا لیکن یہ لوگ تحریف اور تاویل سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جو کتابیں انہوں نے اپنی طرف سے لکھ لی ہیں اور جسے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشہور کر رہے ہیں اور لوگوں کو بہکاتے ہیں حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں اللہ کی اصلی کتابیں تو محفوظ ہیں جو بدلتی نہیں ( ابن ابی حاتم ) حضرت وہب کے اس فرمان کا اگر یہ مطلب ہو کہ ان کے پاس اب جو کتاب ہے تو ہم بالیقین کہتے ہیں کہ وہ بدلی ہوئی ہے اور محرف ہے اور زیادتی اور نقصان سے ہرگز پاک نہیں اور پھر جو عربی زبان میں ہمارے ہاتھوں میں ہے اس میں تو بڑی غلطیاں ہیں کہیں مضمون کو کم کر دیا گیا ہے کہیں بڑھا دیا گیا ہے اور صاف صاف غلطیاں موجود ہیں بلکہ دراصل اسے ترجمہ کہنا زیبا ہی نہیں وہ تو تفسیر اور وہ بھی بے اعتبار تفسیر ہے اور پھر ان سمجھداروں کی لکھی ہوئی تفسیر ہے جن میں اکثر بلکہ کل کے کل دراصل محض الٹی سمجھ والے ہیں اور اگر حضرت وہب کے فرمان کا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب جو درحقیقت اللہ کی کتاب ہے پس وہ بیشک محفوظ و سالم ہے اس میں کمی زیادتی ناممکن ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 یہ یہود کے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے کتاب الٰہی (تورات) میں نہ صرف بددیانتی و تبدیلی کی بلکہ دو جرم بھی کئے ایک تو زبان کو مروڑ کر کتاب کے الفاظ پڑھتے جس سے عوام کو خلاف واقعہ تاثر دینے میں وہ کامیاب رہتے دوسرا وہ اپنی خود ساختہ باتوں میں عند اللہ باور کراتے بدقسمتی امت محمدیہ کے مذہبی پیش... واؤں میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشن گوئی (تم اپنے سے پہلی امتوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے) کے مطابق بکثرت ایسے لوگ ہیں جو دینوی اغراض یا جماعتی تعصب یا فقہی جمود کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں پڑھتے قرآن کی آیت ہیں اور مسئلہ اپنا خود ساختہ بیان کرتے ہیں عوام سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے مسئلہ قرآن سے بیان کیا ہے حالانکہ اس مسئلے کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر آیات میں معنوی تبدیلی و طمع سازی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ باور یہی کرایا جائے کہ یہ من عند اللہ ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] اس آیت میں یہود کی ایک اور چالبازی مذکور ہے۔ خطیبوں اور واعظوں کی عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ کی آیات کو تو خوش آوازی اور لے کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس کے معانی اور تشریح عام گفتگو کے لہجہ میں کرتے ہیں۔ اب اگر وہ معانی اور تشریح کے الفاظ کی ادائیگی بھی اسی لب و لہجہ میں کریں جس میں وہ...  کتاب اللہ کی کرتے ہیں تو سننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان لفظوں کے معانی بھی کتاب اللہ ہی کا حصہ ہیں۔ لوگوں کو فریب دینے اور اپنے خیالات کو اللہ کی طرف منسوب کردینے کی یہ ایک بدترین صورت ہے اور اس طرح وہ ہر جھوٹی سچی بات اللہ کے ذمہ لگا کر اس سے مختلف قسم کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہود کی جس عادت بد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے۔ دوسرے اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا منکر ہے وہ جب یہ آیت ( قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا ١١٠؀ ) 18 ۔ الكهف :110) پڑھتے ہیں تو ( انما) کے لفظ میں معمولی سی تحریف کرکے اس ایک لفظ کے دو الفاظ بنا کر ( ان ما) پڑھتے ہیں۔ پھر اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ && اے نبی ! کہہ دو کہ تحقیق نہیں ہوں میں بشر تم جیسا && اس طرح جو آیت ان کے عقیدہ کو باطل قرار دیتی تھی۔ اسے اپنے عقیدہ کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ صرف تحریف لفظی کے ہی مرتکب نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیروکاروں کو اس مزعومہ عقیدہ پر مضبوط رکھنے اور باہمی تفرقہ بازی کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یہ سب کچھ زبان کی لے اور لہجہ میں موڑ توڑ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَھُمْ بالْكِتٰبِ ۔۔ : اس کا عطف پہلی آیت پر ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی آیت بھی یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے (اگرچہ لفظ عام ہونے کی وجہ سے ایسے تمام لوگ اس میں داخل ہیں) ۔ (رازی) اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ تورات و انجیل میں تحریف کرتے ہیں اور ا... س میں (خصوصاً ان آیات میں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت مذکور ہے) کچھ چیزیں اپنی طرف سے بڑھا کر اس انداز اور لہجہ سے پڑھتے ہیں کہ سننے والا ان کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ سمجھ لیتا ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوئیں، پھر یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان کی بےخوفی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کے اللہ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں اور جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس، امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی بہت سے لوگ اسی راہ پر چل رہے ہیں اور وہ اپنی دنیاوی اغراض یا مذہبی فرقہ پرستی کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ یہ معاملہ کبھی لفظی اور کبھی معنوی تحریف کے ساتھ کرتے ہیں، عوام بےچارے اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ مولوی صاحب یا ان کے کسی پیشوا کی بات ہوتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا : ” یقیناً تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چل پڑو گے۔ “ [ بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لتتبعن سنن ۔۔ : ٧٣٢٠ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was during the presence of the deputation from Najran that some Jews and Christians had said: &0 Muhammad, do you want us to worship you the way Christians worship Jesus, son of Mary?& He said: &I seek refuge with Allah that we worship someone other than Allah or call on others to do so. Allah Almighty has not sent us to do that.& Thereupon, this verse was revealed.

خلاصہ تفسیر : اور بیشک ان میں سے بعضے ایسے ہیں کہ کج کرتے ہیں اپنی زبانوں کو کتاب (پڑھنے) میں (یعنی ان میں کوئی لفظ یا کوئی تفسیر غلط ملا دیتے ہیں اور غلط پڑھنا کج زبان کہلاتا ہے) تاکہ تم لوگ ( جو اس کو سنو تو) اس (ملائی ہوئی چیز) کو (بھی) کتاب کا جزو سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا جزو نہیں اور (صرف دھ... وکہ دینے کے لئے اس عملی طریق پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ زبان سے بھی) کہتے ہیں کہ یہ (لفظ یا مطلب) اللہ تعالیٰ کے پاس سے (جو الفاظ یا قواعد نازل ہوئے ہیں ان سے ثابت) ہے حالانکہ وہ (کسی طرح) اللہ تعالیٰ کے پاس سے نہیں (پس ان کا جھوٹا ہونا لازم آگیا، آگے تاکید کے لئے اس کی پھر تصریح ہے) اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور (اپنا جھوٹا ہونا دل میں خود بھی) وہ جانتے ہیں، کسی بشر سے یہ بات نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ (تو) اس کو کتاب اور (دین کی) فہم اور نبوت عطا فرمادیں ( جن میں ہر ایک کا مقتضا ہے کفر و شرک سے ممانعت اور) پھر وہ لوگوں سے (یوں) کہنے لگے کہ میرے بندے (یعنی عبادت کرنے والے) بن جاؤ، اللہ تعالیٰ (کی توحید) کو چھوڑ کر (یعنی نبوت اور امر بالشرک جمع نہیں ہوسکتے) لیکن (وہ نبی یہ تو) کہے گا کہ تم لوگ اللہ والے بن جاؤ (یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو) بوجہ اس کے کہ تم کتاب (الہی اوروں کو بھی) سکھاتے ہو اور بوجہ اس کے کہ (خود بھی اس کو) پڑھتے ہو ( اور اس کتاب میں تعلیم ہے توحید کی) اور نہ ( وہ بشر موصوف بالنبوۃ) یہ بات بتلائے گا کہ تم فرشتوں کو اور (یادوسرے) نبیوں کو رب قرار دے لو کیا (بھلا) وہ تم کو کفر کی بات بتلادے گا بعد اس کے کہ تم (اس عقیدہ خاص میں خواہ فی الواقع یا بزعم خود) مسلمان ہو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَـتَھُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا ھُوَمِنَ الْكِتٰبِ۝ ٠ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ وَمَا ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ۝ ٠ ۚ وَيَـقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٧٨ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آ... خرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ لوی اللَّيُّ : فتل الحبل، يقال : لَوَيْتُهُ أَلْوِيهِ لَيّاً ، ولَوَى يدَهُ ، قال : لوی يده اللہ الذي هو غالبه ولَوَى رأسَهُ ، وبرأسه أماله، قال تعالی: لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] : أمالوها، ولَوَى لسانه بکذا : كناية عن الکذب وتخرّص الحدیث . قال تعالی: يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ، وقال : لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] ، ويقال فلان لا يلْوِي علی أحد : إذا أمعن في الهزيمة . قال تعالی:إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] وذلک کما قال الشاعر : ترک الأحبّة أن تقاتل دونه ... ونجا برأس طمرّة وثّاب واللِّوَاءُ : الراية سمّيت لِالْتِوَائِهَا بالرّيح، واللَّوِيَّةُ : ما يلوی فيدّخر من الطّعام، ولَوَى مدینَهُ ، أي : ماطله، وأَلْوَى: بلغ لوی الرّمل، وهو منعطفه . ( ل و ی ) لویٰ ( ض ) الجبل یلویہ لیا کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ لوی یدہ : اس کے ہاتھ کو موڑ الویراسہ وبراسہ وبراسہ اس نے اپنا سر پھیرلیا یعنی اعراض کیا ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] تو سر پھیر لیتے ہیں لو یٰ لسانہ بکذا : کنایہ ہوتا ہے جھوٹ بولنے اور اٹکل بچوں کی باتیں بنانے سے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] کتاب ( تو راۃ) کو زبان موڑ موڑ کر پڑھتے ہیں لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] زبان کو موڑ کر محاورہ ہے : ۔ فلان لا یلون علیٰ احد ۔ وہ کسی کی طرف گردن موڑ کر بھی نہیں دیکھتا ۔ یہ سخت ہزیمت کھا کر بھاگ اٹھنے کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور بھاگ جاتے تھے ۔ اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چناچہ شاعر نے اس معنی کو یوں ادا کیا ہے ( 401 ) ترک الاحبۃ ان تقاتل دو نۃ ونجا بر اس طمرۃ وثاب اور اس نے دوستوں کے درے لڑنا چھوڑ دیا اور چھلا نگیں بھر کر دوڑے والی گھوڑی پر سوار ہو کر بھاگ گیا ۔ اللواء ۔ جھنڈے کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہوا سے لہراتا رہتا ہے ۔ اللویۃ وہ کھانا جو لپیٹ کر توشہ کے طور پر رکھ دیا جائے ۔ لوی مدینہ ۔ اپنے مقروض کو ڈھیل دینا الویٰ ۔ ٹیلے کے لوی یعنی موڑ پر پہنچنا ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

معاصی خدا کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ انسانوں کا اپنا فعل ہوتا ہے۔ قول باری ہے (وان منھم لفریقایلووں السنتھم بالکتاب لتحسبوہ من الکتب وماھومن الکتاب ویقولون ھومن عنداللہ وماھم من عند اللہ، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھ جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ...  کتاب ہی کی عبارت ہے۔ حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے۔ حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا) آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ معاصی خدا کی طرف سے نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ اللہ تعالیٰ نے عمومی طورپر ا س کی نفی کردی ہے۔ اگر یہ اللہ کے فعل میں سے ہوتے توموکد ترین وجہ کی بناپریہ اس کی طرف سے ہوتے اس صورت میں نفی کو مطلق رکھ کر یہ کہنا جائز نہ ہوتا کہ یہ اس کی طرف سے نہیں ہیں۔ اگریہ اعتراض کیا جائے کہ یہ کہاجاتا ہے کہ ایمان اللہ کی جانب سے ہے لیکن یہ نہیں کہاجاتا کہ ایمان من کل الوجوہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اسی طرح کفر اور معاصی کے متعلق بھی کہاسکتا ہے اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ نفی کا اطلاق عموم کو واجب کردیتا ہے لیکن اثبات کا اطلاق عموم کو واجب نہیں کرتا دیکھیئے اگر آپ کہیں کہ، ماعند زیدطعام، (زید کے پاس کوئی طعام نہیں ہے۔ ) اس سے زید کے پاس قلیل وکثیر طعام دونوں کی نفی ہوجائے گی لیکن اگر آپ یہ کہیں : عند زیدطعام، (زید کے پاس کھانا ہے) تو اس میں یہ عموم نہیں ہوگا کہ اس کے پاس تمام کھانا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) اور اسن میں کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں کی جماعت ہے جو توریت میں تبدیلی کرکے اپنی زبانوں کو کج (ٹیڑھی) کرلیتے ہیں تاکہ بیوقوف اس کو توریت سمجھیں حالانکہ کہ یہ خود جانتے ہیں کہ یہ تحریف اصل توریت میں نہیں ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت یہود کے دو عالموں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے توریت...  میں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت موجود تھی، اس میں انہوں نے تبدیلی کردی تھی ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (وَاِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَہُمْ بالْکِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَمَا ہُوَ مِنَ الْکِتٰبِ ج) ۔ علماء یہود الفاظ کو ذرا سا ادھر سے ادھر مروڑ کر اور معنی پیدا کرلیتے تھے۔ ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ یہود سے کہا گیا حِطَّۃٌکہو تو حِنْطَۃٌکہنے لگے۔ یعنی بجائ... ے اس کے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے انہوں نے کہنا شروع کردیا ہمیں گیہوں دے۔ انہیں تلقین کی گئی کہ تم کہو : سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا مگر انہوں نے کہا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ اسی طرح کا معاملہ وہ تورات کو پڑھتے ہوئے بھی کرتے تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ جو سائل فتویٰ مانگنے آیا ہے اس کی پسند کچھ اور ہے جبکہ تورات کا حکم کچھ اور ہے تو وہ الفاظ کو توڑ مروڑ کر پڑھ دیتے کہ دیکھو یہ کتاب کے اندر موجود ہے ‘ اور اس طرح سائل کو خوش کر کے اس سے کچھ رقم حاصل کرلیتے۔ (وَیَقُوْلُوْنَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج) ہم یہ مضمون سورة البقرۃ (آیت ٧٩) میں بھی پڑھ چکے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66. This could mean that they either distort the meaning of the Scriptures or twist the words of the text in order to misinterpret it. Its real meaning, however, seems to be that when, during their reading of the Scriptures, they encounter any word or sentence which goes against their interests, and the beliefs and notions which they cherish, they distort the meaning of it by deliberately twisting...  their tongues. Instances of such tongue-twisting are not altogether wanting among those who, despite their belief in the Qur'an, share some of these people's characteristics. For instance, some people who stress the superhuman character of the Prophet (peace be on him) misread the following verse: innama ana basharun mithlukum (Qur'an 18: 110) (I am nothing but a human being like you), replacing innama by inna ma ana and translate it: '(O Prophet), say to them: "I am not a human being like you."  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :66 “اس کا مطلب اگرچہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کتاب الٰہی کے معانی میں تحریف کرتے ہیں ، یا الفاظ کا الٹ پھیر کر کے کچھ سے کچھ مطلب نکالتے ہیں ، لیکن اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب کو پڑھتے ہوئے کسی خاص لفظ یا فقرے کو ، جو ان کے مفاد یا ان کے خود ساختہ عقائد و نظریات ... کے خلاف پڑتا ہو ، زبان کی گردش سے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں ۔ اس کی نظیریں قرآن کو ماننے والے اہل کتاب میں بھی مفقود نہیں ہیں ۔ مثلاً بعض لوگ جو نبی کی بشریت کے منکر ہیں آیت قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ میں اِنَّمَا کو اِنَّ مَا پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ”اے نبی!کہہ دو کہ تحقیق نہیں ہوں میں بشر تم جیسا“ ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوں نے تورات اور انجیل میں اپنی طرف سے جو باتیں ملا دی تھی اس تحریف کو مسلمانوں پر ظاہر کردینے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١۔۔ اور فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے لفظ جو ان دونوں آسمانی کتابوں میں ہیں ان اصلی لفظوں ... سے زبان بدل کر اور موڑ کر ان لفظوں کو اے مسلمانوں تمہارے سامنے اس ڈھنگ سے یہ اہل کتاب پڑھتے ہیں کہ تم اس کو اللہ کا کلام خیال کرتے ہو حالانکہ وہ اللہ کا کلام نہیں (رح) ہے اور خود ان کا دل جانتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ مگر جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ مدینہ منورہ کے قریب و جوار میں اکثر یہود رہتے تھے اور مسلمانوں کے اور ان کی بات چیت اور ملاقات ہوئی رہتی تھی اور یہود لوگ اپنی بدلی ہوئی آیات تورات میں سے اس قسم کے احکام تورات کے مسلمانوں کے رو برو بیان کرتے تھے کہ جس سے مسلمانوں کے جی میں کچھ شبہات پیدا ہوں اس آیت کے حکم سے اور اس آیت کے حکم کے موافق چند احادیث سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مسلمانوں کو اہل کتاب کے اس طرح کے میل جول سے روکا تو مسلمانوں نے پھر اس طرح کا میل جول اہل کتاب سے چھوڑ دیا اور دین محمدی میں اہل کتاب کے سبب سے ایک رخنہ جو پڑتا تھا وہ مٹ گیا وہ حدیثیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اہل کتاب کے اس طرح کے میل جول سے دین میں رخنہ نہ پڑنے کی غرض سے روکا ہے یہ ہیں امام احمد بن حنبل (رح) نے عبد اللہ بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت عمر (رض) اپنے ایک دوست یہودی سے چند باتیں تورات کی سن کر آئے انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں تورات کی چند باتیں سن کر آیا ہوں جو مجھ کو اچھی معلوم ہوتی ہیں اگر آپ فرمائیں تو میں ان باتوں کو آپ کے سامنے بیان کروں آپ کو یہ بات حضرت عمر (رض) سے سن کر غصہ آگیا فرمایا کہ اگر آج تک تاریخ میں تم میں خود حضرت موسیٰ زندہ ہوئے ١۔ اور تم مجھ کو چھوڑ کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی فرماں برداری کرتے بلا شک تم لوگ گمراہ ہوجاتے ٢ دوسری روایت ابو یعلیٰ موصلی کی مسند میں حضرت جابر (رض) سے ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اہل کتاب سے دین کی بات چیت مت کیا کرو اہل کتاب اپنی کتابوں میں تحریف کرنے سے خود راہ پر نہیں رہے ہوہ تم کو کیا ہدایت کرسکتے ہیں آج حضرت موسیٰ ٣ اور بعض روایتوں میں یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ ٤ دونوں زندہ ہوتے تو وہ بھی میری فرماں برداری قبول کرتے ٥۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں لفظی معنوی طرح طرح کا تصرف کیا ہے اور پھر اسی پر جمے ہوئے ہیں۔ مرض الٰٓہی کے موافق آخری شریعت شرع محمدی کو نہیں مانتے حالانکہ جس طرح ہر حاکم وقت ایک قانون بنا کر مصلحت ملکی کے لحاظ سے ایک مدت تک اس قانون کا رواج اور عمل جائز رکھتا ہے اور جب مصلحت ملکی اس قانون نافذ الوقت کے موافق اس حاکم کو نظر نہیں آتی تو اس پہلے قانون کو منسوخ کر کے بجائے اس کے دوسرا قانون نافذ کردیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے پیدا کرنے سے ہزارہا برس پہلے دنیا کی ہر ایک دور کی مصلحت کے موافق ایک قانون قرار دیا ہے۔ جس کو اس دور کی شریعت ٹھہرایا ہے اور یوم المیثاق میں اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء سے سے اور سب انبیاء نے اپنی اپنی امتوں سے یہ مضبوط عہد لیا ہے کہ دنیا کے ہر دور میں اسی شریعت کا عمل ہوگا۔ جو شریعت اس دورہ کے لئے ٹھہرائی گئی ہے اور ہر نبی وقت اور امت وقت کو اس معاہدہ میں تاکید ہے کو جو کوئی پچھلے دور کا نبی یا امت اگلے دورہ کی شرعیت اور نبی کو پائے تو فورا پچھلے دورہ کی شریعت کو چھوڑ کر نافذ الوقت شریعت کا پورا فرماں بردار ہوجائے اور کوئی کتاب آسمانی ایسی نہیں ہے جس میں اس معاہدہ کا ذکر نہ ہو۔ لیکن اہل کتاب نے اس معاہدہ کی آیات کو کتب آسمانی میں بدل ڈالا تھا۔ جس سے اللہ کے انتظام میں ایک رخنہ پڑتا تھا۔ اس رخنے کے روکنے کی اکثر آیات قرآن شریف میں مثل اس آیت کی ہیں اور رسول وقت نے اللہ کی مرضی کے موافق اکثر احادیث میں اس رخنہ کو روکا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیتوں کے بعد جس میں اس رخنہ کے روکنے کا ذکر ہے اس معاہدہ کا ذکر فرما کر اہل کتاب کو وہ معاہدہ یاد دلا یا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:78) یلون مضارع جمع مذکر غائب لی مصدر۔ باب نصر۔ وہ گھماتے ہیں ۔ وہ پھراتے ہیں۔ لی۔ موڑنا۔ مروڑنا۔ پھیرنا۔ گھمانا۔ لوی یلوی (ضرب) لوی لسانہ یا لوی بلسانہ اس نے زبان پھیرلی یعنی جھوٹ کہا۔ خود اپنی طرف سے بات گھڑلی۔ مطلب یہ کہ زبان مروڑ کر الفاظ بگاڑ کر ادا کرتے ہیں۔ مثال۔ قل انما انا بشر مثلکم کو قل...  ان ما انا بشر مثلکم پڑھنا۔ اگر لوی کے اول مفعول پر علی ہو تو متوجہ ہونے اور منہ پھیر کر دیکھنے کے ہیں لایلوی علی احد وہ ایسا بھاگا کہ کسی طرف منہ پھیر کر نہ دیکھا  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اس کا عطف پہلی آیت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی آیت بھی یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے (کبیر) آیت کے معنی یہ ہیں کہ تورات وانجیل میں تحریف کرتے ہیں اور اس میں خصوصا ان آیات میں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعمت مذکور ہے) کچھ چیزیں اپنی طرف سے بڑھا کر اس انداز اور لہجہ سے پڑھتے ہیں ... کہ سننے والا ان کو منزل من اللہ سمجھ لیتا ہے حالا ن کہ وہ منزل نہیں ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ ان کی خدا سے بےخوفی اور ڈھٹائی کی حد ہے ان چیزوں کے خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجود تورات وانجیل محرف ہیں اور اپنی آصلی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ علما نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ (روح المعانی۔ ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ممکن ہے کہ تحریف لفظی کرتے ہوں اور ممکن ہے کہ تفسیر غلط بیان کرتے ہوں تحریف لفظی میں تو دعوی ہوتا ہے کہ یہ لفظ منزّل من اللہ ہے اور غلط تفسیر میں یہ تو نہیں ہوتا لیکن یہ دعوی ہوتا ہے کہ یہ تفسیر قواعد شرعیہ سے ثابت ہے اور قواعد شرعیہ کا من جانب اللہ ہونا ظاہر ہے ایک صورت میں جزو ہونے کا دعوی ہوگا...  ایک صورت میں معنی جزو کتاب ہونے کا دعوی ہوگا بایں معنی کہ جزو ثابت بالشرع ہے اور ہر ثابت بالشرع حقیقتا ثابت بالکتاب ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے کردار کی مزید وضاحت کہ تاریخی حقائق بدلنے اور ان کا انکار کرنے کے ساتھ لسانی کرتب کے ذریعے باطل کو حق بنا کر پیش کر کے اس کو اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں۔ اہل کتاب نے اپنی طرف سے شریعت بنانا، حق و باطل کو خلط ملط کرنا، دنیا کی خاطر دین و ایمان فروخت کرنا اور حق چھ... پانا اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان میں سے ایک گروہ تورات اور انجیل کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے دعو ٰی کرتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے تاکہ سننے والا اس پر ایمان لے آئے۔ انہوں نے اس میں بیشمار ترامیم و اضافے کیے اور لوگوں کو باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تورات اور انجیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ اس طرح جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس ! آج امت محمدیہ کے بیشتر علماء اور فرقوں کا بھی یہی طرز عمل ہے کہ وہ اپنے گروہی نظریات، ذاتی خیالات اور فقہی مسائل کو متبادل دین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اپنے خطبات اور فتاویٰ میں قرآن وسنت کا حوالہ دینے کے بجائے فقہ کی کتب کا حوالہ دیتے ہیں۔ حتی کہ مدارس میں زیادہ وقت قرآن و حدیث پڑھانے کے بجائے کئی کئی سال اپنے فرقہ کی فقہ ہی پڑھائی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ اہل کتاب گروہی خیالات کو کتاب اللہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ١۔ اہل کتاب زبان کے ہیر پھیر سے کتاب کو بدلتے ہیں۔ (آل عمران : ٧٨) ٢۔ زبان کے ہیر پھیر سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ١٠٤) ٣۔ اہل کتاب الفاظ کے ادل بدل سے کلام اللہ کا مفہوم بدلتے ہیں۔ (النساء : ٤٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب اہل دین اخلاقی فساد میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ دینی حقائق میں ملاوٹ کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ کام وہ علمائے دین کے لباس میں کرتے ہیں ۔ قرآن کریم یہاں اہل کتاب میں ایک گروہ کے جو حالات بیان کررہا ہے ‘ ان سے ہم اپنے زمانے میں اچھی طرح واقف ہیں ‘ اہل کتاب نصوص کتاب میں تاویلات کرتے تھے ۔ زبان کے ہیر ... پھیر سے مفہوم تبدیل کرتے تھے ۔ اور اس طرح وہ طے شدہ نتائج اخذ کرتے تھے ۔ اور ان کا یقین یہ ہوتا تھا کہ کتاب اللہ کا مفہوم یہی ہے ۔ اور یہی مفہوم ارادہ الٰہی کا اظہار ہے ۔ حالانکہ جو نتائج وہ اخذ کرتے تھے وہ اصول دین سے متصادم تھے ۔ ان کو یہ اعتماد تھا اکثر سامعین ان پڑھ اور بےعلم ہیں اور وہ ان کے خودساختہ نتائج اور آیات کے حقیقی مفہوم کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں کرسکتے ۔ حالانکہ ان کے نتائج جعلی اور جھوٹے تھے اور ان نتائج تک وہ آیات کو زبردستی کھینچ کر لاتے تھے ۔ اہل کتاب کا یہ نمونہ ہمارے دور میں بعض دینی راہنماؤں میں پوری طرح پایا جاتا ہے ‘ جو بطور ظلم اپنے آپ کو دین کے حوالے سے پیش کرتے ہیں ۔ جو دین میں تحریف کرتے ہیں ۔ اور جو اپنی خواہشات نفسانیہ میں سے مزاح بناتے ہیں ۔ وہ اپنے کاندھوں پر آیات الٰہی کو اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں اور جہاں بھی انہیں کوئی مفاد نظرآئے اسی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ‘ جہاں بھی اس دنیا کے مفادات میں سے کوئی بھی مفاد ملتا ہے ۔ ان آیات کے ذریعہ وہ اسے حاصل کرتے ہیں ۔ غرض آیات الٰہی کو اٹھائے یہ لوگ اغراض دنیاوی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں ۔ اور پھر ان آیات کی گردن توڑ کر اور انہیں خوب مروڑ کر ان مفادات پر فٹ کرتے ہیں ۔ وہ الفاظ کے مفہوم میں ایسی تبدیلی کرتے ہیں کہ وہ ان کے مقاصد اور رجحانات سے موافق ہوجائیں ۔ اگرچہ یہ رجحانات دین کے اساسی تصورات اور اصول دین کے ساتھ متصادم ہوں ۔ وہ اس میدان میں سہ گانہ جدوجہد کرتے ہیں اور ہر قسم کی بہتان تراشی کا ارتکاب کرتے ہیں اور ہر وقت اسی گھات میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کسی طرح قرآن مجید کے کسی لفظ کا وہ مفہوم نکال لیں جو ان کی خواہشات نفسانیہ کے مطابق ہو ‘ اور جس سے یہ رائج اور صاید خواہشات ثابت ہوجائیں ۔ وَیَقُولُونَ ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَمَا ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَھُم یَعلَمُونَ ” وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ وہ جان بوجھ کر بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ “ قرآن کریم نے اہل کتاب کے ایک گروہ کا جو حال بیان کیا ہے ‘ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ اس میں ہر وہ قوم مبتلا ہوجاتی ہے جو دین کا کام ایسے لوگوں کے سپرد کردیتی ہے جو نام نہاد دیندار ہوتے ہیں اور جن کے نزدیک دین اس قدر ارزاں ہوجاتا ہے کہ اس کی قدر و قیمت ان کی اغراض دنیاوی میں سے ادنی کے غرض کے برابر بھی نہیں ہوتی ۔ اور ان کی ذمہ داری کی حس اس قدر مانگ پڑجاتی ہے کہ ان کا دل اللہ پر جھوٹ باندھنے سے بھی نہیں چوکتا۔ وہ لوگوں اور بندوں کی چاپلوسی کی خاطر آیات الٰہی میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ اور اپنی غیر صحت مندخواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ اللہ کے دین میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو اس خطرناک مقام سے آگاہ کرتے ہیں جہاں قدم پھسل جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے بنی اسرائیل نے اپنے مقام قیادت کو کھودیا۔ ان آیات کے مجموعی تاثر کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ گروہ کتاب اللہ میں سے مجازی تعبیرات پر مشتمل بعض جملے تلاش کرلیتا تھا اور پھر ان آیات کو توڑ مروڑ کر ان سے ایسے معانی نکال لیتا تھا ‘ جن کی متحمل وہ آیات نہ تھیں ۔ یوں وہ اپنی تاویلات کے ذریعہ عجیب معانی نکالتے اور ان پڑھ لوگوں کو یہ تاثر دیتے کہ یہ مفاہم کتاب اللہ کے مدلولات ہیں ۔ حالانکہ وہ خود ان کے ایجاد کردہ تھے ۔ وہ لوگوں سے کہتے یہ ہے وہ بات جو اللہ نے کہی ہے ۔ حالانکہ اللہ نے تعالیٰ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہوتی ۔ ان تاویلات کا مقصد اور ہدف یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کردیں ‘۔ یعنی تین اقنوم باپ ‘ بیٹا اور روح القدس ‘ تین بھی اور ایک بھی اور وہ ایک اللہ ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے تصور سے پاک ہے ۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایسے کلمات روایت کرتے تھے جو ان کے مزعومات کی تائید کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان تحریفات اور تاویلات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنے بندے کو نبوت کے لئے چن لے اور اس کو یہ عظیم منصب عطاکردے اور وہ بندہ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اسے الٰہ بنالیں ۔ فرشتوں کو الٰہ بنالیں ۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بعض اہل کتاب، کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہے یہ آیت بھی یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی یہ لوگ تورات شریف میں تحریف اور تغیر کرتے تھے۔ بیان کرتے ہوئے اس انداز سے زبان موڑ کر بات کر جاتے تھے کہ سننے والا یہ سمجھ لے کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ اللہ کی کتاب میں سے ہے رسول ال... لہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات جو تورات شریف میں پائی تھیں ان کو بدل دیا اور آیت رجم کو چھپالیا۔ تحریف کرتے ہوئے جو بات کہتے تھے اس کو ایسے انداز میں پیش کرتے تھے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ بات خود تراشیدہ ہوتی تھی۔ اَلْسِنَتَھُمْ کا جو مطلب اوپر عرض کیا گیا اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخض سے مدعی نے کہا کہ تو کعبہ کی قسم کھا اس نے زبان دبا کر کا بک کی قسم کھالی دوسرے کاف کی طرف مدعی اور دوسرے سننے والوں کا ذہن بھی نہ گیا انہوں نے سمجھا کہ اس نے واقعی کعبہ کی قسم کھالی۔ پھر جب مجلس سے جدا ہوا تو اس کے متعلقین نے کہا کہ تو نے جھوٹی قسم کھائی تو کہنے لگا کہ میں نے تو کا بک کی قسم کھائی ہے۔ کابک بعض علاقوں میں کبوتر بند کرنے کے پنجرے کو کہتے ہیں۔ کعبہ کی قسم کھانا بھی جائز نہیں ہے ایک مثال ذہن میں آئی تھی عرض کردی اس طرح کے اور بھی واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ صاحب معالم التنزیل فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ لوی لسانہ عن کذا سے ماخوذ ہے اور یہ غیر کے معنی میں ہے۔ حافظ ابن کثیر اس کا معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : یحرفون الکلم عن مواضعہ و یبدلون کلام اللّٰہ و یزیلونہ عن المراد بہ لیو ھموا الجھلۃ انہ فی کتاب اللّٰہ کذلک و ینسبونہ الی اللّٰہ ھو کذب علی اللّٰہ و ھم یعلمون من انفسھم انھم قد کذبوا و افتروا فی ذلک کلہ۔ حافظ بغوی اور حافظ ابن کثیر نے زبان موڑ کر بیان کرنے کا معنی یہی لیا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں یعنی اس کا مطلب غلط بتاتے ہیں اور لوگوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی کتاب کا مطلب تمہارے سامنے صحیح بیان کیا ہے وہ لوگ تحریف کرتے تھے اور اپنے ہاتھ سے لکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے اور جان بوجھ کر یہ گناہ کرتے تھے۔ سورة بقرہ میں فرمایا : (فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ ) چونکہ اللہ کی کتاب کی تعلیم ان کے ہاں عام نہیں تھی اور چند علماء ہی ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے اس لیے اپنے عوام کو جو چاہتے تھے سمجھا دیتے تھے۔ امت محمدیہ میں بھی بعض فرقے جو اہل ہویٰ ہیں حقیر دنیا کے لیے اہل کتاب کی نقل اتارتے ہیں ایک واعظ صاحب جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کے منکر تھے اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے (قُل اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ) کا ترجمہ کرتے ہوئے ماکو نافیہ بتا گئے اور اس سے بشریت کی نفی ثابت کر گئے اہل ہویً کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ خواہ کافر ہی ہوجائیں لیکن ان کے عوام ناراض نہ ہوں۔ اور عوام سے جو ملتا ہے وہ ملتا رہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

108 ۔ پانچواں شکوہ۔ ان خائنین اہل کتاب میں ایک جماعت یعنی ان کے علماء کی جماعت ایسی بھی تھی جو اللہ کی کتاب میں تحریف کرتی تھی اور اپنی گھڑی ہوئی عبارت کو تورات سے ملا کر اس طرح پڑھتی تھی کہ سننے والے سمجھیں کہ یہ سب کچھ خدا کی کتاب ہی سے پڑھ رہے ہیں۔ من اھل الکتاب الخائنین لجماعۃ یلون السنتہم بالکت... ب ای یحرفونہ قالہ مجاھد (روح ج 3 ص 204) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ علماء اہل کتاب نے خود ساختہ اعتقادی مسائل اپنی طرف سے اللہ کی کتاب میں درج کردئیے تاکہ سننے والا سمجھے کہ یہ مسئلہ اللہ کی کتاب کا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ آجکل کے شرک پسند مولوی شرکیہ عقائد کے ساتھ قرآن مجید کی آیتیں اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ سننے والے سمجھیں کہ یہ سب کچھ قرآن میں لکھا ہے۔ 109 علماء یہود ونصاریٰ کبھی تو اپنی بنائی ہوئی عبارتوں کو تورات وانجیل کی آیتوں سے اس طرح خلط ملط کر کے پڑھتے کہ سننے والا سمجھے کہ یہ سب اللہ کی کتاب آیتیں ہیں جس کا پہلے ذکر فرمایا اور کبھی اپنی من گھڑت عبارتوں اور خود ساختہ شرکیہ عقیدوں کے متعلق صاف صاف کہہ دیتے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں اسی کو یہاں بیان فرمایا۔ ویقولون مع ماذکر من اللی والتحریف علی طریقۃ التصریح لا بالتوریۃ والتعریض الخ (ابو السعود ج 2 ص 721، روح ج 3 ص 205) جیسا کہ آجکل مشرک لوگ قُلْ لَّا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَداً میں اور قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللہُ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ میں بالذات کی قید لگا کر کر کہتے ہیں کہ یہاں ذاتی اختیار اور ذاتی علم غیب کی نفی ہے۔ 110 یہ تحریف اور کذب وافتراء کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں بلکہ وہ عمداً قصداً یہ کارروائی کر رہے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہودونصاریٰ نے تورات وانجیل کو بدل دیا تھا اور ان میں اپنی طرف سے بہت کچھ شامل کردیا تھا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ عن ابن عباس ان الایۃ نزلت فی الیہود والنصاریٰ جمیعا وذالک انھم حرفوا التوراۃ والانجیل والحقوا بکتاب اللہ ما لیس منہ (معالم و خازن ج 1 ص 312) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ اور بلا شبہ ان اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایسے چالاک ہو شیار ہیں کہ وہ کتاب پڑھنے میں اپنی زبانوں کو کچھ ایسا الٹ پھیر دے کر پڑھتے ہیں تا کہ تم لوگ اس بناوٹی اور ملاوٹی ہوئی چیز کو بھی کتاب ہی کا ایک حصہ سمجھو حالانکہ جو کچھ انہوں نے زبان کو پھیر دے کر پڑھا ہے وہ کتاب کا حصہ نہیں پھر یہی نہیں کہ ا... تنی ہی تحریف پر بس کریں ۔ اس کے بعد زبان سے بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ناز ل شدہ ہے ، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ بات منسوب کرتے ہیں۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ تحریف لفظی کرتے ہیں کہ غیر کتاب کو کتاب کہہ کر پڑھ جاتے ہیں اور پڑھتے بھی کچھ اس طرح زبان کو دبا کر اور پھیر دے کر پڑھتے ہیں کہ سننے والے کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت بھی کتاب کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تحریف معنوی کی طرف اشارہ ہو کہ کتاب کا مطلب کچھ اس طرح چکر دے کر بیان کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی کتاب کا مطلب یہی ہوگا حالانکہ مطلب وہ نہیں ہوتا۔ پھر زبان سے ان الفاظ کی یا اس مضمون کی توثیق بھی کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے یا جو کچھ ہم نے بیان کیا وہی اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے اور یا یہی الفاظ خدا کی جانب سے آئے ہیں حالانکہ نہ وہ خدا کا منشا ہے نہ وہ الفاظ خدا کے نازل کردہ ہیں ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنے مطب کے لئے جان بوجھ کر خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یعنی بن پڑھوں کو دغا دیتے ہیں اپنی عبارت بنا کر قرآن کی طرح پڑھنے لگے کہ اللہ نے یوں فرمایا ہے۔ ( موضح القرآن) لی کے معنی بٹنے کے ہیں یہاں مراد یہ ہے کہ زبان کو پیچ دے کر اور مروڑ کر ایسی بات کہی جائے جس سے حق کے ساتھ باطل مخلوط اور ملتبس ہوجائے اس امت میں اگرچہ تحریف لفظی کا موقع اہل باطل کو میسر نہیں آسکا لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ تحریف معنوی میں اس امت کے اہل باطل اور علماء سوء نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق یہود و نصاریٰ دونوں سے ہے۔ اسی لئے ہم نے ترجمہ میں اہل کتاب کا لفظ اختیار کیا ہے ہوسکتا ہے کہ فقط یہود یا فقط نصاریٰ مراد ہوں اگرچہ ظاہری ہے کہ دونوں مراد ہیں ۔ اب آگے ابو رافع قرظی کے الزام کا رد ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)  Show more