Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 92

سورة آل عمران

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۹۲﴾

Never will you attain the good [reward] until you spend [in the way of Allah ] from that which you love. And whatever you spend - indeed, Allah is Knowing of it.

جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے ، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Al-Birr is Spending from the Best of One's Wealth Allah says, لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ By no means shall you attain Al-Birr, unless you spend of that which you love; and whatever of good you spend, Allah knows it well. In his Tafsir, Waki reported, that `Amr bin Maymun said that لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ (By no means shall you attain Al-Birr), is in reference to attaining Paradise. Imam Ahmad reported that Anas bin Malik said, "Abu Talhah had more property than any other among the Ansar in Al-Madinah, and the most beloved of his property to him was Bayruha' garden, which was in front of the (Messenger's) Masjid. Sometimes, Allah's Messenger used to go to the garden and drink its fresh water." Anas added, "When these verses were revealed, لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (By no means shall you attain Al-Birr unless You spend of that which you love), Abu Talhah said, `O Allah's Messenger! Allah says, لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (By no means shall you attain Al-Birr, unless you spend of that which you love). No doubt, Bayruha' garden is the most beloved of all my property to me. So I want to give it in charity in Allah's cause, and I expect its reward and compensation from Allah. O Allah's Messenger! Spend it where Allah makes you think is feasible.' On that, Allah's Messenger said, بَخٍ بَخٍ ذَاكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَاكَ مَالٌ رَابِحٌ وَقَدْ سَمِعْتُ وَأَنَا أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الاَْقْرَبِين Well-done! It is profitable property, it is profitable property. I have heard what you have said, and I think it would be proper if you gave it to your kith and kin. Abu Talhah said, `I will do so, O Allah's Messenger.' Then Abu Talhah distributed that garden among his relatives and cousins." This Hadith was recorded in the Two Sahihs. They also recorded that Umar said, "O Messenger of Allah! I never gained possession of a piece of property more precious to me than my share in Khyber. Therefore, what do you command me to do with it" The Prophet said, حَبِّسِ الاَْصْلَ وَسَبِّلِ الثَّمَرَة Retain the land to give its fruits in Allah's cause.

سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں بر سے مراد جنت ہے ، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحا نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لئے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کر دیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو چنانچہ حضرت ابو طلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا ، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیاد مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کر دو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کر دو ۔ مسند بزاز میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی ۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کر دیا ، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پر دے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کر لیتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 بر (نیکی بھلائی) سے مراد عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) جو مدینہ کے اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیرحا کا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو ' چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کردیا، اچھی چیز صدقہ کی جائے، یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جاسکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعث اجر ہے گو کمال و افضلیت محبوب چیز کے خرچ کرنے میں ہے۔ 92۔ 2 تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] اگرچہ سابقہ مضمون یہود سے سے متعلق چل رہا ہے۔ تاہم اس آیت کا خطاب یہود، نصاریٰ ، مسلمانوں اور سب بنی نوع انسان سے ہے اور مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کے دل میں گھٹن سی پیدا ہونے لگتی ہے اور اگر کسی کے کہنے کہلانے پر مال خرچ کرنا ہی پڑے تو اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ تھوڑا سا مال یا کوئی حقیر قسم کا مال دے کر چھوٹ جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ جب تم اللہ کی راہ میں ایسا مال خرچ نہ کرو گے جو تمہیں محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اس وقت تک تم نیکی کی وسعتوں کو پا نہیں سکتے۔ اس آیت کا صحابہ کرام (رض) نے بہت اچھا اثر قبول کیا۔ چناچہ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ : انصار میں حضرت ابو طلحہ (رض) کے سب سے زیادہ باغ تھے۔ ان میں سے بیرحاء کا باغ آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ آپ اس باغ میں جایا کرتے تھے اور وہاں عمدہ اور شیریں پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ (رض) نے رسول اکرم سے عرض کیا : && میری کل جائداد سے بیرحاء کا باغ مجھے بہت پیارا ہے۔ میں اس باغ کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس سے ثواب اور اللہ کے ہاں ذخیرہ کی امید رکھتا ہوں && آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں && آپ نے فرمایا : && بہت خوب ! یہ مال تو بالآخر فنا ہونے والا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال تو بہت نفع دینے والا ہے) اب تم ایسا کرو کہ اپنے غریب رشتہ داروں میں بانٹ دو ۔ && ابو طلحہ (رض) کہنے لگے ! بہت خوب ! یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسے ہی کرتا ہوں۔ چناچہ یہ باغ حضرت ابو طلحہ (رض) نے اپنے اقارب اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الاقارب) اور بالخصوص اس آیت کے مخاطب یہود ہیں۔ کیونکہ اس آیت سے پہلے اور بعد والی آیات میں انہیں سے خطاب کیا جارہا ہے۔ سود خوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل ان کی طبیعتوں میں رچ بس گیا تھا۔ مذہبی تقدس اور پہچان کے لیے انہوں نے چند ظاہری علامت کو ہی معیار بنا رکھا تھا اسی تقدس کے پردہ میں ان کی تمام تر قباحتیں چھپ جاتی تھیں۔ جن میں سے ایک قباحت بخل اور مال سے شدید محبت تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ ۔۔ : ” الْبِرَّ “ ” کامل نیکی “ ، ” مِمَّا تُحِبُّوْنَ “ (اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو) عام ہے، یعنی جان و مال، اولاد و اقارب، جاہ و عزت، غرض ہر چیز کو شامل ہے۔ یہ خطاب مسلمانوں کو بھی ہے اور یہود کو بھی۔ مسلمانوں سے خطاب کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ پچھلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کو خرچ کرنے سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا۔ اب اس آیت میں مومنوں کو خرچ کرنے کی کیفیت بتلائی، جس سے آخرت میں انھیں نفع ہوگا۔ 2 ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ ۔۔ : مقصد یہ کہ انسان جو کچھ بھی فی سبیل اللہ خرچ کرتا ہے، تھوڑا ہو یا زیادہ، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو (بشرطیکہ مسلمان ہو اور اخلاص سے خرچ کرے) اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ اس لیے معمولی چیز خرچ کرنے کو بھی عار نہ سمجھے۔ مگر نیکی میں کامل درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ یہ آیت سن کر اس پر صحابہ کرام (رض) کے اس پر عمل کی ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ انصاری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : ” یا رسول اللہ ! میری جائداد میں سے مجھے سب سے محبوب ” بَیْرُحَاء “ باغ ہے (جو عین مسجد نبوی کے سامنے تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا نفیس پانی پیا کرتے تھے) اور اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) سو میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں، آپ اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرما دیں۔ “ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الأقارب ۔۔ : ١٤٦١، مختصرًا ] عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! مجھے خیبر میں سے جو حصہ ملا ہے اس سے بڑھ کر نفیس مال مجھے آج تک حاصل نہیں ہوا، میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے صدقہ کر دوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اصل اپنے پاس رکھو اور اس کے پھل کو اللہ کے راستے میں تقسیم کر دو ۔ “ چناچہ عمر (رض) نے اسے وقف کردیا۔ [ ابن ماجہ، الصدقات، باب من وقف : ٢٣٩٦، ٢٣٩٧ ] 3 یہود سے خطاب کی صورت میں شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے ذکر فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی، جس کے تھامنے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع نہ ہوتے تھے، تو جب وہی نہ چھوڑیں تو اللہ کی راہ میں درجۂ ایمان نہ پائیں۔ “ (موضح) 4 مِمَّا تُحِبُّوْنَ : اللہ کا کرم دیکھیے، بندوں سے ان کی محبوب چیزیں ساری نہیں مانگیں، بلکہ اس میں سے کچھ خرچ کرنے ہی کو کامل نیکی قرار دے دیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence of Verses In the previous verse (91), it was said that charity from disbelievers and deniers was not acceptable with Allah. In this verse, believers have been told about acceptable charity and the etiquette governing it. Commentary Let us first understand what بِرّ. : birr means and what it really signifies so that the whole sense of the verse becomes clear in our minds. The literal and real meaning of the word birr is the perfect fulfillment of someone&s rights. It is also used in the sense of charity, per¬formance of good deeds and nice conduct. The word: barr and barr بار is used for a person who fulfills, fully and totally, all rights due on him. The expression وَبَرًّ‌ا بِوَالِدَتِي (good to my mother - 19:32) and وَبَرًّ‌ا بِوَالِدَيْهِ (good to his father and mother - 19:14) has been used in the Qur&an in this very sense. It has been used there as a personal attribute of prophets who fulfilled the rights of their parents fully and perfectly. Theplural form of this very word برّ : barr is ابرار : abrar which has been used frequently in the Qur&an. It has been said: إِنَّ الْأَبْرَ‌ارَ‌ يَشْرَ‌بُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورً‌ا ﴿٥﴾ Surely the righteous shall drink of a cup the mixture of which is camphor - 76:5. Again at another place it is said: إِنَّ الْأَبْرَ‌ارَ‌ لَفِي نَعِيمٍ ﴿٢٢﴾ عَلَى الْأَرَ‌ائِكِ يَنظُرُ‌ونَ ﴿٢٣﴾ Surely the righteous shall be in bliss, upon furnished thrones gazing 83:22, 23. Yet again there is: وَإِنَّ الْفُجَّارَ‌ لَفِي جَحِيمٍ ﴿١٤﴾ And surely, the sinners shall be in hell ablaze - 82:14. The last verse above also tells us that the antonym of بِرّ :birr is فجور :fujur (disobedience, sinfulness). In al-Adab al-Mufrad of Imam al- Bukhari (رح) and in Ibn Majah and Musnad of Ahmad, it has been reported from Sayydna Abu Bakr (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Stick to speaking the truth because truth is a companion of بِرّ : birr (righteousness) and both these are in Paradise; and abstain from lying because that is a companion of fujur (sin) and both these are in Hell.& The verse 177 of Surah al-Baqarah (2) says: لَّيْسَ الْبِرَّ‌ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ Righteousness is not that you turn your faces to the East and the West; but righteousness is that one believes in Allah and the last Day... 2:177. After giving a list of good deeds in this verse, all of them have been classed as بِرّ birr (righteousness). The subject verse also tells us that, of the wide range of righteous deeds, the most preferred form of right¬eousness is to spend the most cherished things in the way of Allah. The verse further tells us &you can never claim to have righteousness unless you spend out of what you hold dear.& Thus the meaning is that the perfect fulfillment of the rights of Allah Almighty and a total - self-unburdening from it cannot come to pass unless we spend in the way of Allah what we hold dear to our hearts. This very perfect fulfill¬ment of due rights has also been translated as &perfect good& or &excellence in doing good& or &the great merit&. To sum up, the sense here is that entering the ranks of the &abrar& (the righteous) depends on sacrificing in the way of Allah that which one holds dear. The enthusiastic obedience of ha-bah The noble Companions (رض) ، who were the first address¬ees of the Qur&anic injunctions and the direct disciples of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) really loved to carry out the injunctions of the Qur&an in letter and spirit. When this verse was revealed, each one of them surveyed as to what they loved most out of what they had. Con¬sequently, requests started coming before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that these be spent in the way of Allah. Sayyidna Abu Talhah (رض) was the richest person among the انصار Ansar (the helping residents) of Madi¬nah. He was the owner of a fruit farm located right across the mosque of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It had a well called بیر حاء Bi&r Ha&. Now, in place of this farm, there is, in front of Bab al-Majidi, a building known as Istifa Manzil where pilgrims to Madinah stay. But, in a corner north-east from it, this Bi&r Ha& still exhists by the same name.l The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to visit this farm once in a while and drink water drawn from Bi&r Ha&. He liked the water from this well. This farm belonging to Sayyidna Talhah (رض) was very precious, fertile, and the dearest of all that he owned. After the revelation of this verse, he presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said: &I hold Bi&r Ha& the dearest of all that I own. I wish to &spend& it in the way of Allah. I request you to use it for whatever purpose you like.& He (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &That farm is a high-yield property. I think it is appropriate that you distribute it among your kith and kin.& Sayyidna Abu Talhah (رض) ، accept¬ing the suggestion made by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) distributed it among his relatives and cousins (al-Bukhri and Muslim). This hadith also tells us that charity is not restricted to spending on the poor and the needy, but it is equally charitable and meritorious to give it to one&s own family and relatives. 1. This building and.well have now been demolished due to the extension of the Mosque. (Translator) Sayyidna Zayd ibn Haritha (رض) came with a horse and said that he loved it more than anything else he owned and that he wanted to &spend& it in the way of Allah. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) accepted it. But, after having taken it from him, he gave it to his son Sayyidna Usamah (رض) . Zayd ibn Haritha was somewhat disappointed about that thinking that his charity has found its way back into his own home. But, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) comforted him by say¬ing: &Allah Almighty has accepted this charity of yours&. (Tafsir Mazhari vide Ibn Jarir, and others) Sayyidna ` Umar (رض) also, had a bond-maid he liked most. He freed her for the sake of Allah. Similarly, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) had a bond-maid he loved. He freed her in the name of Allah. In short, the gist of the verse under reference is that the complete fulfillment of the rights of Allah, the perfect good and excellence in do¬ing good can be achieved only when a person spends something out of his dearest belongings in the way of Allah. Worthy of our attention and retention are some of the following aspects highlighted in this verse: The word birr in this verses is inclusive of all charity, obligatory, or voluntary: 1. First of all, this verse motivates spending in the way of Allah. Some commentators take this to mean obligatory charity such as zakah while others take this to be voluntary (Nafl: supererogatory) chari¬ty. But, according to a consensus of respected researchers in the field, it has been established that its sense is general and includes both obligatory and voluntary charities. Then there are the recorded actions of the noble Companions, as cited above, which bear witness that these charitable initiatives taken by them were voluntary. Therefore, the sense of the verse is that you give in the way of Allah whatever it may be, the obligatory zakah or the voluntary charity, but that perfect excellence and merit will blossom out from them only-when you spend in the way of Allah what you like and love. Not, that you pick out the spare, the useless or worthless things as if you were trying to get rid of the burden of charity and as if it was some sort of punitive_ tax on you. This subject has been taken up more clearly in an-other verse of the Qur&an which is as follows: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَ‌جْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ 0 those who believe, spend of the the good things you have earned and of what We have brought forth for you from the earth and do not opt for a bad thing spending only from there while you are not going to accept it at all unless you close your eyes to it... - 2:267. So, the outcome is that picking out the bad and the useless to give in charity is unacceptable; contrary to that is the acceptable charity which earns full merit and which is nothing but what is spent out of one&s dear belongings. Moderation in charity: 2. The second ruling comes out of the hint made in the word t:,. (from what) in the verse. That is, the purpose is not to spend away everything one likes and loves en masse in the way of Allah. Instead, the purpose is to spend whatever has to be spent from the good things. Spending in this way will bring the full reward of charity. In charity, what counts is sincerity: 3. The third ruling is that spending the cherished is not tied to spending something of high value. Instead, by spending what one likes and holds dear, no matter how small it may be in quantity or cost, one would still become deserving of this &birr& or righteousness. Hasan al-Basri (رح) says, &Whoever spends sincerely for the good pleasure of Allah, even if that be a single date-fruit alone, that too is good enough to make one deserving of the great merit and perfect righteousness promised in the verse.& Alternative for those who have nothing to spend: 4. On the outside, it appears from the verse that poor people who do not have much to spend will remain deprived of the great good and righteousness mentioned here. It is because it has been said in the verse that this great good cannot be achieved without spending one&s cherished belonging while the poor and the needy just do not have anything through which they could reach the station of righteousness. But, a little deliberation would show that the verse does not mean that those who wish to have the great good and the great merit cannot achieve that by any means other than that of spending out of their cherished possessions. Contrary to that, the fact is that this great good can be achieved by some other means as well, such as, ` Ibadah, Dhikr, Tilawah of the Qur&an and abundance of nawafil. Therefore, the poor and the needy can also become the recipients of this great good through other means as it has been clearly explained in Hadith narrations. What is meant by things you love? 5. This is the fifth question. Another verse of the Qur&an tells us that something liked and loved means that the thing is working for him and that he needs it, not that it be spare and useless. The Holy Qur&an says: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا &which means that |"the favoured servants of Allah feed the poor although they need it themselves.|" (76:08) Similarly, in yet another verse, this subject has been further clarified as follows: وَيُؤْثِرُ‌ونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ They (the favoured servants of Allah) prefer others over their ownselves even though they themselves are in need. (59:09) Spending the extra and the spare too is not devoid of merit: 6. The sixth ruling given in this verse is that entry into the fold of perfect good, great merit and ranks of the righteous depends on spend¬ing one&s cherished possessions in the way of Allah. But, it does not necessarily follow that there is just no merit in store for one who does spend out of what is extra to his needs. On the contrary, as it is said towards the end of the verse:`) وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ that is, And what¬soever you spend, Allah is fully aware of it,& the sense of the text in the verse is that while the achievement of the perfect good and entry into the ranks of the righteous, no doubt, depends on spending cherished possessions specially; however, no charity is devoid of merit irrespec¬tive of whether one spends the cherished or the extra. But, what is cer¬tainly undesirable and prohibited is getting into the habit of always picking out the extra and the bad to spend in the way of Allah. But, a person who not only spends good things he likes in charity but also gives away things which are extra to his needs; e.g., left-over food or used clothing, defective utensils or articles in use, does commit no sin by including these in his acts of charity. He would definitely earn a re-ward for those too. As far as spending of cherished possessions is con¬cerned, he would thereupon achieve the great good and find his entry into the ranks of the righteous as well. Also stated in this last sentence of the verse is that Allah is fully aware of the real quality of what man spends and knows whether or not it is dear to him, and if he is spending it for the good pleasure of Allah, or for pretense and publicity. The mere verbal claim by some-body that he is spending what he cherishes in the way of Allah is not enough for this purpose. Keeping vigil over him is the One, the all-Knowing, the all-Aware who is cognizant of the secrets of the heart - He is watching and knows what is the true worth of the spending in His way.

ربط آیات مع تشریح : اس سے پہلی آیت میں کفار و منکرین کے صدقات و خیرات کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر مقبول ہونا بیان کیا گیا تھا، اس آیت میں مومنین کو صدقہ مقبولہ اور اس کے آداب بتلائے گئے ہیں، اس آیت کے الفاظ میں سب سے پہلے لفظ بر کے معنی اور اس کی حقیقت کو سمجھئے، تاکہ آیت کا پورا مفہوم صحیح طور پر ذہن نشین ہوسکے۔ لفظ بر کے لفظی اور حقیقی معنی ہیں کسی شخص کے حق کی پوری ادائیگی اور اس سے کامل سبکدوشی اور احسان اور حسن سلوک کے معنی میں بھی آتا ہے، بر بالفتح اور بار اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اپنے ذمہ عائد ہونے والے حقوق کو پوری طرح ادا کردے۔ قرآن کریم میں برا بوالدتی۔ ١٩: ٣٢) اور برا بوالدیہ۔ ١٩: ١٤) اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، ان حضرات کے لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے والدین کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنے والے تھے۔ اسی لفظ بر بالفتح کی جمع ابرار ہے، جو قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوئی ہے، ارشاد ہے ( ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا۔ ٧٦: ٥) اور دوسری جگہ ارشاد ہے (ان الابرار لفی نعیم علی الارائک ینظرون۔ ٨٣: ٢٢، ٢٣) اور ایک جگہ ارشاد ہے (ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم۔ ٨٢: ١٣، ١٤) اس آخری آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ |" بر |" کا مقابل اور ضد |" فجور |" ہے۔ امام بخاری (رح) کے ادب المفرد میں اور ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت صدیق اکبر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سچ بولنے کو لازم پکڑو، کیونکہ |" صدق |"، |" بر |" کا ساتھی ہے، اور وہ دونوں جنت میں ہیں، اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ وہ فجور کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں دوزخ میں ہیں۔ اور سورة بقرہ کی آیت میں مذکور ہے کہ (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر۔ ٢: ١٧٧) اس آیت میں نیک اعمال کی ایک فہرست دے کر ان سب کو |" بر |" فرمایا گیا ہے، مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ اعمال بر میں افضل ترین بر یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ کی جائے، آیت مذکورہ میں ارشاد ہے کہ تم ہرگز |" بر |" کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو، تو معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کی مکمل ادائیگی اور اس سے پوری سبکدوشی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اپنی محبوب اور پیاری چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کریں، اسی مکمل ادائیگی کو خیرکامل یا نیکی میں کمال ثواب عظیم سے ترجمہ کیا گیا ہے، اور مراد یہ ہے کہ ابرار کی صفت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیزیں اللہ کی راہ میں قربان کی جائیں۔ خلاصہ تفسیر : (اے مسلمانو) تم خیر کامل (یعنی اعظم ثواب) کو کبھی حاصل نہ کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی (بہت) پیاری چیز کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے اور (یوں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے (گو غیر محبوب چیز ہو) اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتے ہیں (مطلق ثواب اس پر بھی دیدیں گے، لیکن کمال ثواب حاصل کرنے کا وہی طریقہ ہے) معارف و مسائل : آیت مذکورہ اور صحابہ کرام (رض) کا جذبہ عمل : صحابہ کرام (رض) جو قرآنی احکام کے اولین مخاطب اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلا واسطہ شاگرد اور احکام قرآنی کی تعمیل کے عاشق تھے، اس آیت کے نازل ہونے پر ایک ایک نے اپنی محبوب چیزوں پر نظر ڈالی، اور ان کو اللہ کی راہ میں خڑچ کرنے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے درخواستیں ہونے لگیں، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار حضرت ابو طلحہ (رض) تھے، مسجد نبوی کے بالکل مقابل اور متصل ان کا باغ تھا، جس میں ایک کنواں بیر حاء کے نام سے موسوم تھا، اب اس باغ کی جگہ تو باب مجیدی کے سامنے اصطفا منزل کے نام سے ایک عمارت بنی ہوئی ہے جس میں زائرین مدینہ قیام کرتے ہیں، مگر اس کے شمال مشرق کے گوشے میں یہ بیر حاء اسی نام سے اب تک موجود ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیرحاء کا پانی پیتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کنویں کا پانی پسند تھا، حضرت طلحہ (رض) کا یہ باغ بڑا قیمتی اور زرخیز اور ان کو اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا، اس آیت کے نازل ہونے پر وہ حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے تمام اموال میں بیر حاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو صرف فرماویں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ تو عظیم الشان منافع کا باغ ہے، میں مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ اپنے اقرباء میں تقسیم کردیں، حضرت ابو طلحہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مشورہ کو قبول فرماکر اپنے اقرباء اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم فرمادیا۔ (یہ حدیث بخاری و مسلم کی ہے) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات صرف وہ نہیں جو عام فقراء اور مساکین پر صرف کی جائے، اپنے اہل و عیال اور عزیز و رشتہ داروں کو دینا بھی بڑی خیرات اور موجب ثواب ہے۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) اپنا ایک گھوڑا لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ مجھے اپنی املاک میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول فرمالیا، لیکن ان سے لے کر انہی کے صاحبزادے اسامہ (رض) کو دیدیا، زید بن حارثہ (رض) اس پر کچھ دلگیر ہوئے کہ میرا صدقہ میرے ہی گھر میں واپس آگیا، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ صدقہ قبول کرلیا ہے۔ (تفسیر مظہری، بحوالہ ابن جریر و طبری وغیرہ) حضرت فاروق اعظم (رض) کے پاس ایک کنیز سب سے زیادہ محبوب تھی، آپ نے اس کو لوجہ اللہ آزاد کردیا۔ الغرض آیت متذکرہ کا حاصل یہ ہے کہ حق اللہ کی مکمل ادائیگی اور خیر کامل اور نیکی کا کمال جب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، آیت مذکورہ میں چند مسائل قابل نظر اور یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ اس آیت میں لفظ بر تمام صدقات واجبہ اور نفلیہ کو شامل ہے : اول یہ کہ اس آیت میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے اس سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک صدقات واجبہ زکوٰۃ وغیرہ ہیں، اور بعض کے نزدیک صدقات نافلہ ہیں، لیکن جمہور محققین نے اس کے مفہوم کو صدقات واجبہ اور نفلیہ دونوں میں عام قرار دیا ہے، اور صحابہ کرام (رض) کے واقعات متذکرہ بالا اس پر شاہد ہیں کہ ان کے یہ صدقات، صدقات نفلیہ تھے۔ اس لئے مفہوم آیت کا یہ ہوگیا کہ اللہ کی راہ میں جو صدقہ بھی ادا کرو خواہ زکوٰۃ فرض ہو یا کوئی نفلی صدقہ و خیرات ان سب میں مکمل فضیلت اور ثواب جب ہے کہ اپنی محبوب اور پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، یہ نہیں کہ صدقہ کو تاوان کی طرح سر سے ٹالنے کے لئے فالتو، بیکار، یا خراب چیزوں کا انتخاب کرو۔ قرآن کریم کی دوسری ایک آیت میں اس مضمون کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : ( یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض و لا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ ٢: ٢٦٨) |" یعنی اے ایمان والو اپنی کمائی میں سے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ چیزوں کو چھانٹ کر اس میں سے خرچ کرو اور ردی چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے خرچ کردو حالانکہ دو چیزیں اگر تمہارے حق کے بدلے میں تمہیں دی جائیں تو تم ہرگز قبول نہ کرو گے، بجز اس کے کہ کسی وجہ سے چشم پوشی کر جاؤ |"۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ خراب اور بےکار چیزوں کا انتخاب کر کے صدقہ کرنا مقبول نہیں، بلکہ صدقہ مقبولہ جس پر مکمل ثواب ملتا ہے وہی ہے جو محبوب اور پیاری چیزوں میں سے خرچ کیا جائے۔ صدقہ کرنے میں اعتدال چاہئے : دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آیت میں لفظ مما سے اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ مقصود نہیں ہے کہ جتنی چیزیں اپنے نزدیک محبوب اور پیاری ہیں ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ جتنا بھی خرچ کرنا ہے اس میں اچھی اور پیاری چیز دیکھ کر خرچ کریں تو مکمل ثواب کے مستحق ہوں گے۔ تیسرا مسئلہ یہ کہ محبوب چیز خرچ کرنا صرف اسی کا نام نہیں کہ کوئی بڑی قیمت کی چیز خرچ کی جائے، بلکہ جو چیز کسی کے نزدیک عزیز اور محبوب ہے، خواہ کتنی ہی قلیل اور قیمت کے اعتبار سے کم ہو، اس کے خرچ کرنے سے بھی اس |" بر |" کا مستحق ہوجائے گا، حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ جو چیز آدمی اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرے وہ اگرچہ کھجور کا ایک دانہ بھی ہو اس سے بھی انسان اس ثواب عظیم اور بر کامل کا مستحق ہوجاتا ہے جس کا آیت میں وعدہ کیا گیا ہے۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جس خیر عظیم اور بر کا ذکر ہے اس سے وہ غریب لوگ محروم رہیں گے جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے مال نہیں، کیونکہ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ خیر عظیم بغیر محبوب مال خرچ کئے حاصل نہیں کی جاسکتی، اور فقراء و مساکین کے پاس مال ہی نہیں جس کے ذریعہ ان کی یہاں تک رسائی ہو، لیکن غور کیا جائے تو آیت کا یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا، بلکہ بات یہ ہے کہ یہ خیر عظیم کسی دوسرے ذریعہ سے مثلا عبادت، ذکر اللہ، تلاوت قرآن، کثرت نوافل سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لئے فقراء و غرباء کو بھی یہ خیر عظیم دوسرے ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہے، جیسا کہ بعض روایات حدیث میں صراحۃ بھی یہ مضمون آیا ہے۔ مال محبوب سے کیا مراد ہے : پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ مال کے محبوب ہونے سے کیا مراد ہے ؟ قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز اس کے کام میں آرہی ہو اور اس کو اس چیز کی حاجت ہو، فالتو اور بیکار نہ ہو، قرآن کریم کا ارشاد ہے : (ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا۔ ٧٦: ٨) |" یعنی اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، باوجود اس کے کہ اس کھانے کی خود ان کو بھی ضرورت ہے |"۔ اسی طرح دوسری آیت میں اسی مضمون کی اور زیادہ وضاحت اس طرح فرمائی : (ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ۔ ٥٩: ٩) |" یعنی اللہ کے مقبول بندے اپنے اوپر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود بھی حاجت مند ہوں |"۔ فالتو سامان اور حاجت سے زائد چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ثواب سے خالی نہیں : چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خیر کامل اور ثواب عظیم اور وصف ابرار میں داخلہ اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ کریں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرورت سے زائد فالتو مال خرچ کرنے والے کو کوئی ثواب ہی نہ ملے، بلکہ آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے (وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم) |" یعنی تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے |"۔ آیت کے اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ خیر کامل اور صف ابرار میں داخلہ خاص محبوب چیز خرچ کرنے پر موقوف ہے، لیکن مطلق ثواب سے کوئی صدقہ خالی نہیں، خواہ محبوب چیز خرچ کریں یا زائد اور فالتو اشیاء۔ ہاں مگر وہ اور ممنوع یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرلے کہ جب خرچ کرے فالتو اور خراب چیز ہی کا انتخاب کر کے خرچ کیا کرے، لیکن جو شخص صدقہ خیرات میں اپنی محبوب اور عمدہ چیزیں بھی خرچ کرتا ہے، اور اپنی ضرورت سے زائد چیزیں، بچا ہوا کھانا یا پرانے کپڑے، عیب دار برتن یا استعمالی چیزیں بھی خیرات میں دیدیتا ہے، وہ ان چیزوں کا صدقہ کرنے سے کسی گناہ کا مرتکب نہیں بلکہ اس کو ان پر بھی ضرور ثواب ملے گا، اور محبوب چیزوں کے خرچ کرنے پر اس کو خیر عظیم بھی حاصل ہوگی، اور صف ابرار میں اس کا داخلہ بھی ہوگا۔ آیت کے اس آخری جملہ میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کی اصلی حقیقت اللہ پر روشن ہے کہ وہ اس کے نزدیک محبوب ہے یا نہیں۔ اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کر رہا ہے یا ریا وشہرت کے لئے، محض کسی کا زبانی دعوے اس کے لئے کافی نہیں کہ میں اپنی محبوب چیز کو اللہ کے لئے خرچ کر رہا ہوں، بلکہ علیم وخبیر جو دل کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے، دیکھ رہا ہے کہ واقع میں اس کے لئے خرچ کا کیا درجہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝ ٠ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝ ٩٢ نيل النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج/ 37] . ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔ برَّ ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ( ب رر) البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بر کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

راہ خدا میں محبوب چیز قربان کرنا قول باری ہے (لن تنالوالبرحتی تنفقوامما تحبون، تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیزرکھتے ہو) البر کے معنی دواقوال ہیں اول جنت عمروبن میمون اور سدی سے یہی منقول ہے۔ دوم نیکی کا کام جس کی بناپربندے اجر کے مستحق قرارپاتے ہیں نفقہ سے مراد اللہ کی راہ میں صدقہ وغیرہ کی صورت میں پسند یدہ چیزیں دے دینا ہے۔ یزیدبن ہارون نے حمید سے، انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب درج بالاآیت نازل ہوئی نیزیہ آیت (من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا، کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے) تو حضرت ابوطلحہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ، میراباغ جو فلاں جگہ ہے اسے میں اللہ کے لیے دیتا ہوں، اگر میں اس بات کو پوشیدہ رکھ سکتا تو ہرگزا سے ظاہرنہ کرتا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ یہ باغ اپنے رشتہ داروں یا قرابت داروں کودے دو ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اعلی مثال یزیدبن ہارون نے محمد بن عمرو سے انہوں نے ابوعمروبن حماس سے انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ، میری نظر سے یہ آیت گذری ہیں نے ان تمام چیزوں کے متعلق غور کیا جو اللہ نے مجھے عطاکی تھیں۔ ان میں میرے لیے سب سے زیادہ پیاری چیزمیری لونڈی امیمہ تھی، میں نے فوراکہا کہ یہ لوجہ اللہ آزاد ہے۔ اگر اللہ کی راہ میں دی ہوئی چیز کو واپس لینا میرے لیئے ممکن ہوتاتو میں ضرور اس سے نکاح کرلیتا۔ لیکن چونکہ یہ ممکن نہ تھا اس لیئے میں نے نافع سے اس کا نکاح کردیا۔ اب وہ اس کے بیٹے کی ماں ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی انہیں حسن بن ابی الربیع نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمرنے ایوب اور دوسرے راویوں سے کہ جب آیت (لن تنا لوا البرحتی تنفقوامما تحبون) نازل ہوئی تو حضرت زیدبن حارثہ (رض) اپنا ایک پسندیدہ گھوڑاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ، یہ گھوڑا اللہ کے راستے میں دیتا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے اسامہ بن زید کو سواری کے لیے دے دیاحضرت زید کے چہرے پر اس کی وجہ سے کچھ کبیدگی کے آثارنمودارہوگئے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا ہے حسن بصری سے مروی ہے کہ البر سے مراد زکوۃ نیز مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکردہ فرائض ہیں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرکا آیت کی تاویل کے بموجب لونڈی کو آزاد کردینا اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی رائے میں ہر وہ چیزجو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کی خاطر اس کے راستے میں دے دی جائے اس کا تعلق اس نفقہ سے ہوتا ہے جو آیت میں مراد ہے نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے نزدیک اس نفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم عموم کی حیثیت رکھتا تھا یعنی اس کا تعلق فرض سے بھی ہوسکتا تھا اور نفل سے بھی۔ اسی طرح حضرت ابوطلحہ (رض) اور حضرت زیدبن حارثہ (رض) کے اقداماتاس پر دلالت کررہے ہیں۔ کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف فرض تک محدود نہیں تھا کہ نفل اس میں داخل نہ ہو۔ اس صورت میں قول باری (لن تنالوا البر) کا مفہوم یہ ہوگا کہ ، تم اس نیکی کو حاصل نہیں کرسکتے جو تقرب الی اللہ کی اعلی ترین منزل ہے۔ جب تک تم اپنی عزیز چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے، اس لیئے قول باری (حتی تنفقوامماتحبون) ترغیب انفاق کے سلسلے میں بطورمبالغہ ذکرہوا ہے اس لیئے پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خود اس کی صدق نیت پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے (لن ینال اللہ لحومھا ولادماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم، ان قربانیوں کا گوشت اور نہ ہی ان کا خون اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ تک پہنچے والی جو چیز ہے وہ تمھاراتقوی ہے) لغت میں اس کا اطلاق درست ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں سرے سے اس فعل کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نفی کمال مراد ہے۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لیس المسکین الذین تردہ اللقمۃ واللقمتان والتمرۃ والتمرتان ولکنالمسکین الذی لایجدماینفقولایفطن لہ فیتصدق علیہ، مسکین وہ نہیں ہے جو ایک یادولقمے یا ایک یادرکھجوریں لے کر واپس چلاجائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔ لوگوں کو اس کی حالت کا علم بھی نہ ہوسکے کہ بطورصدقہ ہی اسے کچھ مل جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مسکنت کے وصف سے بطورمبالغہ موصوف کرنے کی خاطر اس پر اس لفظ کا اطلاق کیا اس سے مقصدیہ نہیں تھا کہ دوسروں سے فی الحقیقت مسکنت کی نفی کردی جائے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو راہ اللہ میں اپنے اموال خرچ کرنے کی ترغیب دلا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ثواب و بزرگی اور جنت نہیں حاصل کرسکو گے جب تک کہ اپنی بہت پیاری چیز کو راہ اللہ میں نہ خرچ کرو اور ایک معنی یہ بھی بیان کیے گئے کہ توکل اور تقوی اس کے بغیر ہرگز نہیں حاصل ہوسکتا اور جو بھی اموال خرچ کرتے ہو وہ ذات اس میں تمہاری نیتوں سے بخوبی واقف ہے کہ حق تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے خرچ کیا ہے یا لوگوں کی تعریف کے لیے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط) ۔ آیۃ البر (البقرۃ : ١٧٧) کے ضمن میں اس آیت کا حوالہ بھی آیا تھا کہ نیکی کے مظاہر میں سے سب سے بڑی اور سب سے مقدم شے انسانی ہمدردی ہے ‘ اور انسانی ہمدردی میں اپنا وہ مال خرچ کرنا مطلوب ہے جو خود اپنے آپ کو محبوب ہو۔ ایسا مال جو ردّی ہو ‘ دل سے اتر گیا ہو ‘ بوسیدہ ہوگیا ہو وہ کسی کو دے کر سمجھا جائے کہ ہم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے تو یہ بجائے خود حماقت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75. The purpose of this verse is to remove the misconception of the Jews concerning 'righteousness'. The Jews had inherited an elaborate legal code which had accumulated as a result of the casuistry and hair-splitting legalism of their jurists. Their notion of 'righteousness' consisted of outward, formal conformity to that code and they evaluated all day-to-day actions, especially the trivial ones, in terms of conformity to that code. Narrow-mindedness, greed, covetousness, meanness, concealment of the Truth and readiness to barter with it lay beneath this veneer of formal piety. They were, nevertheless, considered pious in the minds of the people; Jewish public opinion condoned their conduct because it conformed to its concept of 'righteousness'. In order to remove this misconception they are told that the things they considered fundamental to righteous conduct are of little consequence. The real spirit of righteousness consists in the love of God - a love which makes man value the good pleasure of God above all worldly acquisitions. If the love of anything seizes a man's mind to such an extent that he is unable to sacrifice it for the sake of the love of God, then that thing has virtually become an idol, and until he smashes it the door to righteousness will remain closed to him. If a man lacks this spirit, then his excessively formal and legalistic approach in religious matters can be considered no more than glossy paint over a piece of hollow, worm-eaten wood. It may be possible to deceive human beings by the sheer lustre of the outer paint, but not God.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :75 اس سے مقصود ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے ۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصور بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے ۔ اس تشرُّع کی اوپری سطح سے نیچے بالعموم یہودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی ، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیوب چھپائے ہوئے تھے اور رائے عام ان کو نیک سمجھتی تھی ۔ اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام ان چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے ۔ نیکی کی اصل روح خدا کی محبت ہے ، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو ۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بت ہے اور جب تک اس بت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اس پر بند ہیں ۔ اس روح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو ۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں ، مگر خدا نہیں کھا سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: پیچھے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 267 میں یہ حکم گذرا ہے کہ صرف خراب اور ردی قسم کی چیزیں صدقے میں نہ دیا کرو، بلکہ اچھی چیزوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرول۔ اب اس آیت میں مزید آگے بڑھ کر یہ کہا جارہا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ اچھی چیزیں اللہ کی خوشنودی کے لیے دو، بلکہ جن چیزوں سے تمہیں زیادہ محبت ہے، ان کو اس راہ میں نکالو تاکہ صحیح معنی میں اللہ کے لیے قربانی کا مظاہرہ ہو سکے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیزیں صدقہ کرنی شروع کردیں جس کے بہت سے واقعات حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ملاحظہ معارف القرآن جلد دوم ص :107 و 108،

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر ذکر تھا کہ عقبیٰ میں زمین بھر کے سونا بھی عذاب الٰہی سے نہیں چھوڑا سکتا اس لئے دنیا میں صدقہ کی رغبت دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نہ یہ آیت نازل فرمائی اور جب یہ آیت اتری۔ تو اس سے صحابہ کرام (رض) کو نفلی صدقہ کی حرص اور رغبت بھی بہت کچھ پیدا ہوئی چناچہ مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ (رض) کا ایک باغ جو مسجد نبوی کے پاس تھا اس میں ایک کنواں میٹھے پانی کا تھا جس کا پانی بہت اچھا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اس باغ میں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور اس کنوئیں کا پانی پیا کرتے تھے انہوں نے وہ باغ اپنے سب مال سے عمدہ اور نفیس جانا اور اللہ کی راہ میں اس باغ کو خیرات کردیا ١۔ اور صحیحین میں روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) اپنے اس غنیمت کے حصہ کو جو ان کو خیبر کی لڑائی میں ملا تھا اپنا بڑا عمدہ مال سمجھتے تھے اس کو انہوں نے اللہ کی راہ میں خیرات کردیا ٢۔ اور ابوبکر بزار نے اپنی مسند میں روایت کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ جب یہ آیت اتری تو میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ جو کچھ میرے پاس مال ہے اس سب میں زیادہ عزیز مجھ کو کیا چیز ہے میرے دل نے گواہی دی کہ روم کی ایک لونڈی جو میرے پاس ہے اس سے زیادہ کوئی چیز مجھ کو دنیا میں عزیز نہیں اس لئے میں نے اللہ کی راہ میں اس لونڈی کو آزاد کردیا ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:92) لن تنالوا۔ مضارع نفی تاکید بلن۔ صیضہ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں لن تنالون تھا۔ لن کے آنے سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ صیغہ جمع کو ظاہر کرنے کے لئے اخیر میں الف زائد کردیا گیا۔ تم ہرگز نہیں پاؤ گے۔ تم ہرگز نہیں پہنچو گے۔ بیل سے (باب سمع) البر۔ مصدر۔ مفعول بہٖ ہے فعل لن تنالوا کا۔ نیکو کاری۔ نیکی کرنا۔ بھلائی کرنا۔ اطاعت ، صلاحیت۔ سچائی۔ نیک برتاؤ۔ بر۔ میں اعتقادی وعملی دونوں قسم کی نیکیاں شامل ہیں۔ مثال ۔ لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ۔۔ (2:177) تنفقوا۔ انفاق (افعال) سے جمع مذکر حاضر فعل مضارع معروف۔ نون اعرابی عامل کی وجہ سے حذف ہوگیا ہے۔ تم خرچ کرو۔ تم خرچ کرو گے۔ تم خرچ کرتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 پہلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کا انفاق سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا اب اس آیت میں مومنین کو انفاق کی کیفیت بتلائی جس سے وہ آخرت میں منتفع ہوں گے۔ (کبیر) یہاں ما تحبون عام ہے یعنی مال و دولت اور جاہ و عزت سب کو شامل ہے خطاب یہود سے ہو تو ان کو تنبیہ ہوگی کہ جب تک کہ اپنی جاہ و ریاست کو خیر باد کہہ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اختیار نہیں کرو گے تم ابرار اور مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ہوسکتے (موضح) اور اگر خطاب مومنین سے ہو جیسا کہ عموما تفاسیر میں مذکور ہے تو مقصد یہ ہوگا جو کچھ بھی فی سبیل اللہ صرف کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو بشرطیکہ مسلمان ہو اخلاص سے خرچ کرے) اس کے بدلہ ضرور ملے گا مگر نیکی میں کامل جو درجہ حاصل کرنے کے لیے ضرور ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ انصاری (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری محبوب ترین جائداد بیرحا (باغ) ہے جو عین مسجد نبوی کے سامنے ہے سو یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے بھی اس آیت سے متا ثر ہو کر خیبر میں اپنا حصہ وقف کردیا تھا۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 92 101 اسرارومعارف لن تنالو البر……………فان اللہ بہ علیم۔ بر سے مراد نیکی ہے اور نیکی کی اصل قرب رسول ہے کہ نبوت ایک ایسی نعمت ہے جس کی وجہ سے نبی معصوم ہوتا ہے یعنی مکالمہ باری کی برکات میں سے عصمت بھی ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کو نصیب ہوتی ہے۔ حصول بر قرب رسالت کا نام ہے : اسی طرح نبی کے قرب سے ایک خاص وصف ، جو مومن میں پیدا ہوتا ہے وہ گناہ سے نفرت اور نیکی کی محبت ہے جس کے باعث مومن گناہ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی درجے کو حصول بر کہہ سکتے ہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کسی طرح کا مال یا منافع اتنا عزیز ہو کہ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے تو وہ اسلام کو کیسے پاسکتا ہے ؟ یا مال وجاہ اتنے عزیز ہوں کہ وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں رکاوٹ بنیں تو ایسا آدمی نیکی کو یعنی قرب رسالت کو نہیں پاسکتا۔ جس طرح یہود نے دنیا کمانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے دین کا ذریعہ بنارکھا تھا۔ ایمان لانے کی توفیق تو کیا نصیب ہوتی۔ الٹے بدترین دشمن ثابت ہوئے۔ اس لئے مومن کو چاہیے کہ جب ایمان لایا ہے تو سب سے محبوب اللہ کی ذات اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رکھے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی دے حتیٰ کہ جان بھی جائے اسے سعادت جانے اور صدقات واجبہ ہوں یا نافلہ ، یہ خیال رکھے کہ اللہ کی راہ میں اچھی اور محبوب چیز خرچ کرے۔ آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر شاہد ہیں کہ حضرت ابوطلحہ (رض) انصاری کو ان کا ایک باغ بہت محبوب تھا جسے ” بیئرحائ “ کہا جاتا تھا۔ نزول آیت پر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی ، ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں یہ باغ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں ، آپ جس طرح پسند فرمائیں اس میں تصرف فرمائیں ! “ تو ارشا ہوا کہ یہ تو بہت قیمتی اور منافع بخش باغ ہے مناسب یہ ہے کہ اسے اپنے اقرباء میں تقسیم کردیں۔ چناچہ انہوں نے اپنے اقرباء میں بانٹ دیا۔ اسی طرح حضرت زید بن حارثہ (رض) اپنا محبوب گھوڑا لے آئے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رض) کو عطا فرمادیا تھا حضر ت زید (رض) کچھ دلگیر ہوئے تو فرمایا اللہ نے تمہارا صدقہ قبول فرمالیا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم (رض) نے اپنی محبوب کنیز اللہ کی راہ میں آزاد فرمادی۔ اس کا مفہوم عام ہے ، کافر کے لئے تو اسے حب جاہ ایمان سے مانع ہے یا کوئی دنیوی منافع راہ کی رکاوٹ ہے تو اللہ کے لئے چھوڑ دے تب ایمان پاسکے گا اور مومن کے لئے یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں بہترین شے خرچ کرے صدقات کو تاوان سمجھ کر ادا نہ کرے کہ فالتو اور بےکار اشیاء دے کر جان چھڑا لے۔ نیز یہ مراد نہیں کہ گھر ہی لٹا دے بلکہ مقصد یہ ہے کہ جس قدر بھی خرچ کرنا چاہتا ہے۔ صدقات نافلہ میں اور جس قدر اس کے ذمہ بنتا ہے صدقات واجبہ میں اس کے لئے اچھی اور پیاری شے کا انتخاب کرے تاکہ مکمل ثواب اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرب حاصل کرسکے جو نیکی کی اصل ہے۔ غریب آدمی کا انفاق فی سبیل اللہ : یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ کمال مالدار ہی پاسکتے ہیں بلکہ انانیت وغیرہ تک کو یہ خرچ شامل ہے۔ غریب آدمی بھی اس خیر عظیم کو اصل کرسکتا ہے ، جذبات قربان کرکے ، اوقات قربان کرکے کہ اپنے اوقات کا ذکر اللہ میں لگا لے۔ عبادت کا خاص اہتمام کرے اور پورے خلوص کے ساتھ ایک ایک رکن ادا کرے۔ نیز یہ بھی مناسب نہیں کہ زائد اور فالتو شے سرے سے اللہ کی راہ میں خرچ ہی نہ کرے مثلاً بچا ہوا کھانا یا پرانا کپڑا وغیرہ اگر ایسی چیزیں ہوں تو ضرور دے ثواب حاصل کرلے گا۔ مگر یہ وطیرہ نہ بنالے کہ جب بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا وقت آئے تو بےکار اشیاء ہی دے کہ جو شے بھی وہ خرچ کرے گا اللہ اس سے خوب واقف ہے کہ کیسی چیز خرچ کررہا ہے کس جذبے سے کررہا ہے کس مقصد کے لئے کررہا ہے ؟ محض شہرت کا خواہاں ہے یا اللہ کی رضا کا طالب۔ یہ اصول سامنے آیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی پسندیدہ خواہشات ہیں اور اگر ایمان نصیب بھی ہو تو اس کے بعد وہی شخص فسق میں مبتلا ہوگا۔ جو اپنی پسند حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد پر قربان نہ کرسکا۔ اگر کسی کو یہ ہمت نصیب ہوئی تو اپنی حیثیت کے مطابق قرب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرور نوازا جائے گا (انشاء اللہ) ۔ کلا الطعام کان حلا……………وماکان من المشرکین۔ یہ خواہشات ہی اہل کتاب کو ایمان سے مانع تھیں تو ارشاد ہوا کہ انہیں قربان کرکے ہی فلاں پاسکتے ہو اور ساتھ ان کے اعتراضات کے جوابات بھی ارشاد ہوئے مثلاً انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نسخ احکام جائز نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ اللہ ایک حکم دے اور پھر اس کو تبدیل کرے۔ کیا پہلے جو ارشاد ہوا وہ صحیح نہیں تھا ؟ حالانکہ نسخ کی وجہ یہ نہیں بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ اسے کس وقت کون سا کام پسند ہے جب تک یہ حکم تھا درست تھا اور جب اس کی جگہ دوسرا حکم آیا تو وہ بھی درست ہے اور اس میں اس حکیم مطلق کی بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہود نے اعتراض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ کا گوشت اور بکری کا دودھ استعمال فرماتے ہیں اور ملت ابراہیمی کا دعویٰ رکھتے ہیں حالانکہ یہ تو ان پر حرام تھا۔ ہم تک یہ حکم ان ہی سے پہنچاتو ارشاد ہوا کہ تم درست نہیں کہتے بلکہ کھانے کی سب چیزیں تو بنی اسرائیل پر حلال تھیں۔ سوائے اس کے (یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ) جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور یہ نزول تورات سے پہلے کی بات ہے یعنی احکام کا نسخ تمہاری شریعت میں بھی ثابت ہے اور پیغمبر کی درخواست پہ ثابت ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عرق النساء کا مرض تھا۔ انہوں نے نذر مانی کہ اگر صحت نصیب ہو تو سب سے پسندیدہ غذا ترک کردوں گا۔ چناچہ صحت ہوگئی تو انہوں نے اونٹ کا گوشت کھانا اور دودھ پینا بند کردیا۔ ان کی درخواست پر ان کی اولاد پر بھی حرام کردیا گیا۔ اب اگر تمہیں یہ بات تسلیم نہیں تو تورات لے کر آئو اور پڑھو ! اگر تمہارا قول درست ہے تو ثابت کرو۔ یہود تورات نہ لائے اور ان کا جھوٹ ثابت ہوگیا۔ تو ارشاد ہوا کہ جو بھی شخص اس قدر قوی ثبوت کے بعد غلط بیانی کرے تو وہ ایسا ہے کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے جو بہت بڑا ظلم ہے اور ایسے لوگ بڑے بےانصاف ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرما دیجئے کہ اللہ نے سچ فرمایا اللہ کی طرف غلط بیانی یا جھوٹ کا گمان بھی ممکن نہیں۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے اس لئے یہ سراسر حق ہے اور اسی کی اطاعت ملت ابراہیمی ہے۔ ملت اس اتباع کا نام ہے جو خلوص کے ساتھ کیا جائے۔ اس لئے ملت کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ انبیاء کے ساتھ مختص ہے۔ ملت موسیٰ (علیہ السلام) ، ملت عیسیٰ (علیہ السلام) یا ملت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام الانبیاء ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی تابع نہ تھے۔ بلکہ خود اکمل ترین شریعت لائے جو ساری انسانیت کے لئے اور ہمیشہ کے لئے تھی اور ہے۔ ملت ابراہیمی : ملت ابراہیمی سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے تمام عمر خلوص دل سے اللہ کے احکام کی پابندی فرمائی اسی طرح تم بھی اطاعت کرو کہ وہ بھی اسلام تھا اور یہ بھی اسلام ہے اسی لئے ملت ابراہیمی کو اپنانے کا حکم ہے خود ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت کا حکم نہیں کہ اطاعت تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوگی۔ ہاں ! ملت ابراہیمی کیا شے ہے ؟ فرمایا حنیفا وہو ایک کے ہو کے رہے اور وہ زندگی بھر صرف اور صرف اللہ کی رضا طلب کرتے رہے اور وہ ہرگز ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے کہ کسی کو اللہ کے برابر جانتے یا ان کی پسند یا خواہش کبھی اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہ بنتی۔ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعلمین۔ سب سے پہلا گھر جو بیک وقت تمام انسانوں کے لئے تعمیر کیا گیا بیت اللہ شریف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک دنیا میں تعمیر ہونے والا پہلا مکان بھی یہی ہے حضرت آدم (علیہ السلام) جب زمین پر تشریف لائے تو ملائکہ کرام نے نشاندہی کی اور اس جگہ اللہ کا گھر تعمیر ہوا تاآنکہ طوفان نوح میں منہدم ہوا۔ پھر انہیں بنیادوں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اور ان کے بعد عمالقہ نے انہی بنیادوں پر تعمیر کیا۔ پھر عمارت مخدوش ہوئی تو قریش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کیا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرکت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حجراسود کو نصب فرما کر قریش میں جھگڑے کو ختم کرنا بڑا مشہور واقعہ ہے لیکن اس تعمیر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ، سب سے پہلی یہ کہ بناء ابراہیمی میں سے کچھ جگہ چھوڑ دی گئی جسے حطیمہ کہا جاتا ہے جس کا سبب یہ ہوا کہ قریش نے اعلان کیا تھا کہ تعمیر کعبہ پر جو رقم خرچ ہو اس کا خالص اور حلال ہونا ضروری ہے۔ چناچہ ان کے نزدیک سارے مکہ سے جو حلال رقم جمع ہوئی وہ جملہ تعمیر کے لئے کفالت نہ کرتی تھی۔ چناچہ طے یہ پایا کہ کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے۔ اے کاش ! آج کے مسلمان مساجد کی تعمیر میں ان لوگوں سے ہی سبق حاصل کرلیتے ۔ یہاں تو زنان بازاری تک سے چندہ لیا بھی جاتا ہے اور چندہ جمع بھی کرایا جاتا ہے۔ دوسری تبدیلی یہ کی گئی کہ بناء ابراہیمی میں دو دروازے تھے ایک داخلے کے لئے اور دوسرا اسی کے مقابل جانب پشت باہر جانے کے لئے ۔ پر یش نے دوسرا دروازہ بند کردیا اور تیسری تبدیلی یہ کی کہ دروازہ سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ لوگ آسانی سے داخل نہ ہوسکیں نیز جس کو چاہیں داخل ہونے کی اجازت دیں یا روک دیں۔ قریش کے بعد حضرت عبداللہ ابن زبیر (رض) نے جب ان کی حکومت مکہ مکرمہ پر تھی ، بیت اللہ کو بنا ابراہیمی پر تعمیر کروایا جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا تھا کہ ان کے پیش نظروہ حدیث مبارکہ تھی کہ جس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا ” میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے بنا ابراہیمی کے مطابق بنا دوں لیکن ناواقف اور نو مسلم لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ “ یہ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد جلدہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دار بقا تشریف فرما ہوئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن زبیر (رض) نے یہ تعمیر درست کردی۔ لیکن جب حجاج بن یوسف نے آل مروان کے زمانہ میں مکہ فتح کیا اور حضرت ابن زبیر (رض) شہید ہوئے تو اس نے آپ (رض) کی تعمیر کو شہید کرکے پھر سے اس طرز پر بنادیا جس طرز پر قریش کی تعمیر تھی جو آج تک موجود ہے حالانکہ خود والید بن عبدالملک بن مروان نے چاہا تھا کہ اسے بنا ابراہیمی پر ہی بنایا جائے ، حجاج نے غلطی کی ہے۔ مگر امام مالک بن انس (رض) نے فتویٰ دیا کہ بار بار منہدم کرنا اور بنانا جائز نہیں ، اس طرح تو آنے والے اکثر حکمران گراتے اور بناتے رہیں گے اب جس حال میں ہے اسی پہ چھوڑ دیا جائے اور یہ فتوے تمام امت نے قبول کرلیا۔ ابھی تک وہی تعمیر موجود ہے صرف مرمت وغیرہ کا کام جاری رہتا ہے اندر کے ستون اور چھت کی لکڑی وہی ہے جو قریش نے جدہ سے ایک بحری جہاز خرید کر اور اسے توڑ کر حاصل کی تھی جس کی تعمیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے بندہ کے پاس اس کا ایک ٹکڑا تبرک کے طور پر موجود ہے جو مرمت میں کاریگروں نے کاٹ کے پھینک دیا تو کسی دوست نے مجھے لادیا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مکان تو پہلے بھی تھے لیکن عبادت کے لئے سب سے پہلے جمیع مخلوق کے لئے بننے والا پہلا مکان خانہ کعبہ ہے اور یہ بھی موجود ہے کہ سب سے پہلے سطح آب پر جھاگ کی شکل میں جگہ رکھی گئی اور پھر ساری زمین یہاں سے پھیلائی گئی۔ وان الارض وحیث من مکۃ واول من طاف بالبیت الملائکۃ ۔ اوکماقال۔ اور یہ روایت بھی موجود ہے کہ حضرت ابوذر (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ سب سے پہلی مسجد کونسی ہے ؟ فرمایا ، ” مسجد حرام ! “ انہوں نے عرض کیا ، ” اس کے بعد کون سی ہے ؟ “ فرمایا ” بیت المقدس ! “ پھر عرض کیا ، ان کی تعمیر میں کتنی مدت کا فرق ہے ؟ ارشاد ہوا ، ” چالیس سال “۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ بیت المقدس بھی تعمیر ابراہیمی ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بناء ابراہیمی پر نئی مسجد تعمیر فرمائی۔ وضع للناس سے ظاہر ہے کہ دنیا میں ہمیشہ یہ مرجع خلائق رہا ہے اور اس گھر کی تعظیم و تکریم ہر قوم نے کی ہے علامہ سمہودی (رح) نے ” وفاء الوفائ “ میں عجب واقعات نقل فرمائے ہیں جن کی گنجائش یہاں نہیں ، ہاں ! اگر کوئی چاہے تو اس کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ اللہ نے اس کی تعمیر میں ایک ہیبت ودبدبہ بھی رکھا ہے اور دلوں کو جذب کرلینے کی صلاحیت بھی۔ اس کی برکات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا جو صوری بھی ہیں اور معنوی بھی۔ ایک لق ودق صحرا میں گھرا ہوا شہر ، بیشمار اور بےحساب مخلوق کو اپنے دامن میں سمولیتا ہے اس کی شفقت بھری گود سارا سال وارہتی ہے اور خصوصاً حج کے وقت کس قدر ہجوم بیک وقت جمع ہوتا ہے یہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر کیا مجال ، جو کوئی بھوکا رہ جائے یا کسی کو ٹھکانہ نہ ملے یا کوئی شے بازار میں دستیاب نہ ہو۔ حتیٰ کہ سبزی تر کاری ، پھل دودھ ، دہی اور لسی تک ہر وقت موجود۔ کبھی قربانی کے جانور تک نایات نہیں ہوئے حالانکہ بعض لوگ سو سو تک ذبح کرتے ہیں اور حاجی کم از کم ایک قربانی ضرور دیتا ہے۔ اس کے ساتھ برکات معنوی کا شمار بھی ممکن نہیں۔ یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کا درجہ رکھتی ہے اور ایک درہم کا صدقہ ایک لاکھ دراہم کا ثواب حاصل کرتا ہے۔ یہ بہت مشہور حدیث ہے کہ حج کرنے والا گناہوں سے اس پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ یہ دلوں کو نہ صرف سرور بلکہ نور عطا فرماتا ہے اور مومن کا دل اس کی طرف پروانہ وار آتا ہے۔ اگرچہ طوفان نوح (علیہ السلام) میں یہ عمارت منہدم ہوگئی مگر اس کے باوجود وہ انبیاء جن کی قومیں ہلاک ہوئیں ترک وطن کرکے یہیں تشریف فرما ہوتے یہیں رہتے فوت ہوتے اور ہوائیں خاک اڑا اڑا کر انہیں دفن کردیتی تھیں ، جیسے ارشاد ہے۔ مامن نبی ھرب من قومہ الی الکعبۃ یعبد اللہ فیھا حتیٰ یموت۔ او کما قال صلی اللہ والہ وسلم۔ (کشف الاسرار) حضرت قلزم فیوضات وبحرا العلوم ، استاذی المحترنے ” اسرار الحرمین “ میں تحریر فرمایا ہے کہ صرف مطاف کے نیچے انہوں نے ننانوے انبیائ (علیہ السلام) کی زیارت کی ہے جو اس عہد میں دفن ہوئے۔ مطاف سے باہر بھی تو ہوں گے ۔ نیز حج جیسی عبادات تو اسی کے ساتھ مختص بھی ہے۔ معنوی برکات کا تذکرہ بڑی حد تک اس عاجز نے دوسرے پارے کے شروع میں بھی کیا ہے وہاں سے بھی دیکھ لیا جائے۔ یہ مرکز فلاح ونجات ہے اور اس کی برکات عالمین کے لئے ہیں نہ صرف انسانوں کے لئے۔ کیونکہ ذاتی تجلی جو اس مکان سے متعلق ہے دراصل عرش عظیم سے نیچے ساری مخلوق کی بقا کا سبب ہے ، بلکہ عالم امر سے نیچے ہر طرح کی مخلوق اس کے طفیل باقی ہے۔ جب یہ ڈھا دیا جائے گا اور عبادت منقطع ہوگی تو وقت قیام قیامت کا ہوگا جس کی خبر حدیث پاک میں دی گئی ہے اور قیامت کا زلزلہ ہر شے کہ تہہ وبالا کردے گا۔ عالم امر سے نیچے اگر عرش باقی رہے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی مہبط تجلیات ذاتی ہے۔ اسی طرح جنت مظہر لطف وکرم ہے تو دوزخ مظہر غضب الٰہی ہے یہ مظاہر صفات باری ہیں اور روح کا تعلق براہ راست عالم امر سے ہے اس لئے یہ مراکز تجلیات یا متعلق عالم امر باقی رہیں گے ان میں وہ اجساد مبارکہ جو اللہ کی ذاتی تجلیات کو حاصل کرکے مراد کو پہنچے وہ بھی باقی رہیں گے۔ بقائے اجساد کا سبب : جیسے انبیاء (علیہ السلام) کے اجساد مبارکہ یا ان لوگوں کے اجساد جنہوں نے انبیائ (علیہ السلام) کے طفیل اپنے قلوب مہبط تجلیات بنا لئے۔ صحابہ شہداء اور اہل اللہ۔ برکت کا لغوی معنی وہ تالاب ہے جس کے گرد بہت سی وادیاں ہوں اور اس میں سب کا پانی جمع ہوتا ہو تو اس بارہ میں صاحب تفسیر کبیر کا ارشاد جو برکات کعبہ کے بارہ میں فرمایا ہے عجیب ہے کہ ذہن میں کعبۃ اللہ کو ایک نقطہ تصور کرلے اور اس کے گرد اس کی طرف متوجہ ہونے والے لوگوں کی صفوف کو اس کے نقطے کے گرد بصورت دائرہ خیال کرے تو یہ کس قدر دائرے بنیں گے جو ساری دنیا میں پھیلے ہوں گے اور حال یہ ہوگا کہ سب نماز میں مشغول ہوں گے اب یہ بات تو شبہ سے بالا تر ہے کہ اس بیشمار مخلوق میں کتنے ایسے عظیم انسان ہوں گے جن کی ارواح علوی یعنی اعلیٰ منازل کی حامل اور قلوب قدسی اسرارنورانی اور ضمائر ربانی ہوں گے۔ جب یہ ارواح صافیہ کعبہ معرفت کی طرف متوجہ ہوں گی اور ان کے اجسام کعبہ حسی کی طرف متوجہ ہوں گے تو جو لوگ کعبہ میں ہوں گے وہ انورات و تجلیات سے کس قدر دلوں میں نور حاصل کریں گے۔ جو ان کی ارواح و توجہ کے باعث نازل ہوگا۔ یقینا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سب لوگوں کے دل منور ہوں گے ایسے ہی دور والے بھی۔ نیز نماز باجماعت کے دیگر فوائد کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فرماتے ہیں ، ھذا بحر عظیم ومقام شریف۔ فیہ ایات بینت……………فان اللہ عنی عن العلمین۔ کو بیت اللہ میں کھلی اور واضح نشانیاں موجود ہیں۔ برکات کعبہ : جن میں خوف سے امن کہ جب سے بیت اللہ قائم ہوا ہے اللہ نے اسے اور اس کی برکت سے اہل مکہ کو مخالفین کے حملوں سے پناہ دی ہے ابرہہ کا واقعہ کس قدر معروف ہے کہ اللہ نے اس کے ہاتھیوں کو پرندوں سے تباہ کرادیا۔ ایسی ہی نشانی ہے کہ کوئی پرندہ اڑا کر اوپر سے نہیں گزرتا۔ یا رمی جمار ، کہ ارشاد ہے حاجیوں کی پھینکی ہوئی کنکریاں فرشتے اٹھا لیتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ کسی وجہ سے کسی کا حج قبول نہ ہو ، اسی لئے وہاں سے پڑی ہوئی کنکریاں اٹھا کر رمی کرنا منع ہے کہ وہ غیر مقبول ہوتی ہیں۔ یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ نہ حکومت اٹھواتی ہے نہ عوام مگر سوائے معمولی کنکریوں کے وہاں کچھ نہیں ہوتا اگر سب زمین پر جمع ہوتیں تو ایک دن میں پہاڑ بن جاتا۔ اب سنا ہے کہ حکومت اٹھوانے کا اہتمام کرتی ہے شاید اس لئے کہ لوگوں کی اکثریت حج کے نام پر پکنک مناتی ہے اور ارکان حج تک کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کی کنکریاں تو حکومت ہی اٹھائے گی۔ اسی طرح زمزم ، حلیم ، صفاومروہ غرض ہر ایک ذرہ اپنے اندر نشانیاں رکھتا ہے جو الوہیت وقدرت باری پر بھی دال ہیں اور صداقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہ بھی۔ ان میں ایک بہت بڑی نشانی مقام ابراہیم (علیہ السلام) ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نقوش پاثبت ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت ابراہیم (علیہ السلام) پتھر گارا دیتے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرماتے تھے تو اس پتھر پر آپ کے قدم مبارک ٹخنوں تک دھنس گئے۔ یہ بجائے خود بہت بڑی نشانی ہے کہ سخت اور مضبوط پتھر موم کی طرح نرم ہو کر قدمین شریف کا نقش مبارک لے لے اور پتھر اسی طرح کا سخت اور مضبوط ہوجائے۔ اور تاحال اسے اس جگہ قائم رکھنا بھی اللہ کی عظمت پر دال ہے کس قدر مشرکین و مخالفین کے زمانے گزرے یہود و نصاریٰ یا کوئی اور دشمن بھی اسے ضائع نہ کرسکا۔ آج بھی ایک شیشے کے خول میں زیارت کے لئے رکھا ہے نیز جو اس کے اندر داخل ہوا وہ امن پا گیا ، مامون ہوگیا ، اصل امن تو عذاب سے ہے جو وہاں حاصل ہوتا ہے مگر صوری اعتبار سے حرم کے اندر ہر شے مامون ہے حتیٰ کہ درندے شکار تک نہیں کرتے اگر بھاگتا ہو شکار حرم میں داخل ہوجائے تو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ہی تشریعی طور پر حکم ہے کہ نہ کسی کو قتل کیا جائے اور نہ ستایا جائے۔ حتیٰ کہ اگر مجرم اندر چلا جائے ، اسے خوراک وغیرہ بند کرکے باہر آنے پر مجبور کیا جائے اندر سزا نہ دی جائے نہ پکڑا جائے اور تکوینی طور پر اللہ نے ہر دور میں ، ہر قوم کے دلوں کے اندر اس کی عظمت ڈال دی ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جاہلیت کے کفار بھی حرم کی عزت بحال رکھتے تھے اور حرم میں جھگڑا یا قتل و غارت نہیں کرتے تھے یا اگر کسی سے کوئی فعل خلاف ادب سرزدہوجاتا تو بہت برا جانتے تھے حتیٰ کہ فتح مکہ کے موقع پر صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی چند گھنٹوں کے لئے قتال کی اجازت ہوئی کہ بیت اللہ کی تطہیر کردی گئی۔ پھر ہمیشہ کے لئے اس کی حرمت ویسی ہی ہے۔ یا اگر کسی نے اس کی حرمت کو پامال کیا سیاسی یا حکومتی مصالح کی غرض سے ، جیسے حجاج بن یوسف نے ، تو باجماع امت اس کے فعل کو حرام اور سخت گناہ قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ خود بھی اس کے حلال ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا۔ اس کی خصوصیات میں اس کے حج کا فرض ہونا بھی ہے کہ اللہ نے تمام انسانوں پر بشرط استطاعت حج فرض کردیا ہے۔ استطاعت سے مراد صحت کا ہونا یا اس قدر خرچ کہ آنے جانے ، وہاں قیام کرنے کے لئے کافی ہو اور واپسی تک ان افراد (بیوی بچوں) کو جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے خرچ کے لئے رقم دے سکے جو لوگ معذور ہوں آنکھوں وغیرہ یا ہاتھ یا ہاتھ پائوں سے تو وہ بھی عدم استطاعت کے زمرے میں آتے ہیں یا پھر اپنے خرچ پر کوئی ملازم وغیرہ ساتھ رکھ سکیں۔ اسی طرح وہ عورت جس کے ساتھ محرم نہ ہو معذور ہوگی۔ بغیر محرم کے عورت کے لئے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں۔ کوئی محرم اپنے خرچ پر جائے یا عورت خرچ ادا کرے۔ بہرحال ساتھ ضرور ہو ورنہ عدم استطاعت ثابت ہوگی حج کے معنی تو قصد کرنے کے ہیں مگر شرعی معنی کی تفصیل خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور تعلیمات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی۔ طواف اور وقوف ، عرفہ ومزدلفہ وغیرہ۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اگر کوئی اس کا انکار کرے ، جیسے کافر کرتے ہیں تو اللہ تمام جہانوں سے بےنیاز ہے ، اللہ کو احتیاج نہیں ہے بلکہ حج کرنے والوں کی اپنی بہتری اس میں ہے۔ اس کی فرضیت کا منکر تو کافر ہے ہی ، اگر کوئی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اس کا یہ فعل کافرانہ ہے۔ ہاں ! کوئی عذر ہو جیسے حکومت اجازت نہ دے یاراستے کا خطرہ یا صحت کی خرابی وغیرہ تو اور بات ہے ورنہ سیدنا فاروق اعظم (رض) کا قول اور در منشور میں ملتا ہے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی آدمی مقرر کروں جوان لوگوں کا پتہ کرے جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے تو ان پر جزیہ لگایا جائے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ حج بشرط استطاعت زندگی میں ایک بار فرض ہے یہ ہر سال تشریف لے جانے والے حضرات اگر وہی رقم احیاء دین پر خرچ کرتے یا معذور مسلمانوں کی مدد میں خرچ کرتے تو کس قدر بہتر ہوتا۔ قل یا اھل الکتاب ……………وما اللہ بغافل عما تعملون۔ چونکہ بات اہل کتاب سے چل رہی ہے اور یہ درمیان میں بیت اللہ کا ذکر ، اس کے فضائل ، حج اور اس کے ارکان و احکام اور برکات سب کا بیان بجائے خودایک بہت بڑی دلیل ہے کہ بیت اللہ کی عظمت وہیبت ضرورموجود تھی مگر کسی کو عبادت کا صحیح طریقہ تک معلوم نہ تھا اور نہ ہی برکات کعبہ کی خبر تھی۔ نیز حج کی رسم ضرور موجود تھی مگر یاجاد بندہ قسم کی۔ حتیٰ کہ برہنہ طواف ہوتے اور گرداگرد ناچتے اور سیٹیاں بجاتے۔ اس ظلمت میں احقاق حق اور فضائل وبرکات کے ساتھ جملہ احکام کا بیان ان دلائل کے ساتھ جو پہلے سے بھی ان کی کتابوں موجود تھے ایک بہت مضبوط دلیل بن گئی۔ ارشاد ہوا ان سے فرمائیے کہ اس قدر دلائل باہرہ کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ یادرکھو ! تمہارے ان اعمال کو خود اللہ جل شانہ دیکھ رہے ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ تم خود ایمان لاتے مگر تم ایسے بدبخت ہو کہ دوسروں کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہو اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی حیلہ جوئی اور بہانہ سازی کرتے ہو کہ لوگ گمراہ ہوجائیں مگر یادرکھو ! اللہ تمہارے کرتوتوں سے بیخبر نہیں ہے۔ یا ایھا الذین امنوا……………الی صراط مستقیم۔ ان اگلی دو آیات میں مسلمانوں سے خطاب ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی فطرت بد سے باز نہیں آتے تو تمہیں ہرگز ان کی بات پہ توجہ نہ دینی چاہیے کہ اگر تم ان کی باتوں میں آگئے تو یہ تمہیں ایمان کے بعد بھی کفر کی طرف لانے کی کوشش ہی کریں گے حالانکہ تمہارے پاس تو ایسے اسباب جو مانع کفر ہیں بدرجہ اتم موجود ہیں کہ تمہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، جو قاطع کفر وضلال ہے۔ دلائل حقہ میں وجود رسالت (علیہ السلام) بڑی دلیل ہے : پھر سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ تم میں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہے۔ گویا وجودرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابدالآباد کفر کو مٹانے والا اور حق کو پھیلانے والا ہے اور تلاوت آیات کا سبب بھی ذات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی تو ہے کہ آپ ہی کے قلب اطہر پر قرآن نازل ہوا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخلوق کو پہنچا۔ نیز نہ صرف الفاظ بلکہ مفاہیم بھی۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا مقام ہے کہ ارشاد ہوا لتبین للناس مانزل الیھم۔ کہ لوگوں کو قرآن کا مفہوم بھی ارشاد فرمائیں ، ان معنی ومفاہیم ہی کو حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب اس کو فرائض نبوت میں شمار کیا گیا تو کوئی دوسرا از خود معانی تعین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اگر ایسا ہو تو بعثت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تحصیل حاصل ٹھہرے گی جو باطل ہے۔ حفاظت حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): حفاظت الٰہیہ کا وعدہ صرف قرآنی الفاظ تک محدود نہیں بلکہ مقاہیم کو الفاظ سے زیادہ ضرورت حفاظت ہے اسی لئے حفاظت حدیث کا وہ عظیم الشان کام ہوا جو بجز توفیق باری ممکنات میں سے نظر نہیں آتا کہ کم وبیش سترہ فنون صرف حفاظت حدیث کے لئے مدون ہوئے۔ اور اسمائے رجال جیسا عظیم کارنامہ صرف مسلمان اکابر نے انجام دیا ، دنیا کی کوئی قوم اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی کہ ایک لفظ ارشاد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس نے نقل کیا وہ کون تھا ؟ کیسا تھا ؟ کس زمانے میں تھا ؟ حتیٰ کہ دودھ اور پانی علیحدہ کردیا جو کوشش کفر نے آمیزش کے لئے کی تھی ، مانند تلچھٹ نکال کر پھینک دی۔ علمائے ربانیین نے عمریں اسی سعادت کے حصول میں صرف فرمادیں۔ آج اگر کوئی کہے کہ حدیث پہ اعتبار نہیں تو اس کے پاس قرآن کی صداقت کے ذرائع بھی وہی ہیں جو حدیث کے ہیں۔ اس کی صداقت بھی مجروع ٹھہرے گی۔ نیز یہ سب برکات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق ہے۔ وفیکم رسولہ سے مراد نہ صرف جسم ہے اور نہ صرف روح مبارک بلکہ وہ ذات جو جسم وجان کو جامع ہے اور ہمیشہ اسی حال پر رہے گی۔ خواہ اس دنیا میں ہو یا برزخ میں حیات جسمانی تسلیم نہ کی جائے تو لازم آئے گا کہ جسم اطہر روح سے خالی ہے تو لامحالہ رسالت ونبوت جو اوصاف روح کے ہیں ان سے بھی خالی ہوگا جب ایسا ہے تو وہ برکات جو وجود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق ہیں ان سے خالی ہوگا۔ اگر یہ سب درست ہو تو پھر مانع کفر کوئی شے باقی نہ رہی اور دنیا پہ کسی شخص کا اسلام پہ قائم رہنا ممکن نہ رہا۔ منکرین حیات کو یہاں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ قرآن کریم کوئی فسانہ آزاد نہیں بلکہ اس کے ساتھ خاص کیفیات بھی نازل ہوئیں۔ جن کا امین وجود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا ، ہے اور رہے گا۔ حیات دنیا میں جو ایمان لایا قرب وجودی حاصل کرکے مرتبہ صحابیت پر فائز ہوا۔ اب اگر وجود اقدس روح اطہر سے خالی ہوتا تو ان برکات سے بھی خالی ہوتا اور ولایت خاصہ تو کجا ولایت عامہ یعنی صرف ایمان بھی کسی کو نصیب نہ ہوتا کہ کفر سے کوئی شے مانع نہ رہتی۔ اور جو کوئی بھی اللہ کو مضبوط پکڑے یعنی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسارابطہ اور ایسا تعلق جوڑے کہ کمال اطاعت کو پالے یعنی اس کی حرکت و سکون اللہ کے حکم کے مطابق ہوجائے۔ گویا اس کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اٹھاتا ہے تو اٹھتا ہے اور بٹھاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو جان لو کہ یہ شخص ہدایت کو پا گیا اور سیدھے راستے پر چلنا نصیب ہوگیا کہ یہی مقصد تخلیق ہے۔ اب اس سے اگلے رکوع میں مزید برکات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ہے یاد رہے کہ بعثت کے وقت بھی جو ایمان لایا اس نے ان ہی برکات کو پایا جو آج ایمان لانے والا حاصل کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کوئی صحابیت کو نہیں پاسکتا چونکہ عالم ایک نہیں رہا۔ یہ وجہ نہیں کہ معاذ اللہ حیات باقی نہیں رہی ، اگر ایسا ہوتا تو پھر کوئی ایمان بھی نہ پاسکتا کہ وفیکم رسول سے محروم ہوجاتا۔ سید عبدالعزیز دباغ (رح) فرماتے ہیں کہ ہر مومن کے دل سے ایک نور کی تار جڑی ہوتی ہے ، جو قلب اطہر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکلتی ہے اتباع سنت اس کو مضبوط کرتا چلا جاتا ہے کہ نہر اور دریا کی مثل بھی بن جاتی ہے اور عدم اطاعت سے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ ٹوٹ بھی سکتی ہے جس کی یہ تار ٹوٹ جائے وہ شخص اسلام پہ نہیں رہتا اور آج کل تو یہ کٹے ہوئے پتنگ ہر طرف نظر آتے ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 92 لن تنالوا (تم ہرگز نہ پہنچو گے) حتی تنفقوا (جب تک تم خرچ نہ کروگے) البر (سچی نیکی) تحبون (تم محبت کرتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 92 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اور اہل کتاب کی طرف آمادہ کیا ہے کہ سچی اور حقیقی نیکی حاصل کرنے کے لئے جب تک اپنی پسندیدہ اور محبوب کو اللہ کی محبت کی خاطر نہ چھوڑ دیا جائے اس وقت تک وہ حاصل نہیں ہوسکتی۔ اہل کتاب کو خطاب تو اس معنی میں ہے کہ دنیاوی لالچ نے ان کو اس بات سے روک رکھا تھا کہ وہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں ورنہ تمام تر نشانیوں سے وہ اچھی طرح پہچان چکے تھے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی وہ آخری نبی اور رسول ہیں جن کا اہل کتاب کو شدت سے انتظار تھا۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ مال و دولت اور جاہ ومنصب کے لالچ کو چھوڑ کر جب ایک شخص اللہ کا فرماں بردار نہ بن جائے اس وقت تک کسی کو سچی نیکی نصیب نہیں ہوسکتی ۔ اہل ایمان کو یہ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے کہ تم جب تک اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں قربان نہیں کرو گے اس وقت تک تم نیکی کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ (رض) نے اپنے دلوں کا جائزہ لینا شروع کیا اور ہر ایک نے ایک دوسرے سے اس آیت کی تعمیل میں آگے بڑھنے کی تمنا شروع کردی۔ حضرت ابوطلحہ (رض) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ وہ باغ پسند ہے جو مسجد نبی وی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہے جس کے کنویں کا میٹھا پانی آپ کو بھی بہت پسند ہے۔ میں اس امید پر کہ اللہ نے مجھے اپنی رحمتوں کے لئے خاص فرمالے یہ باغ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت خوش ہوئے۔ آپ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ تم اس باغ کو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں میں تقسیم کردو۔ حضرت ابوطلحہ (رض) نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت عمر (رض) حاضر ہوئے عرض کیا مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند خیبر کی زرخیز زمین ہے میں اس آیت کی تعمیل میں اس زمین کو اللہ کے لئے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اصل زمین کو اپنے پاس رکھو اس کی پیداوار کو اللہ کے لئے وقف کردو۔ یہ اور اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کے نزدیک محبوب چیز صرف اللہ ورسول کے حکم کی تعمیل تھی اور وہ اس تلاش میں رہتے تھے کی ہمیں نیکیوں اور پرہیزگاری کے کاموں میں آگے بڑھنے کا موقع ہاتھ لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہی جذبہ عطا فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ آیت سے معلوم ہوا کہ ثواب تو ہر خرچ کرنے سے ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جاوے مگر زیادہ ثواب محبوب چیز کے خرچ کرنے سے ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفر اللہ تعالیٰ سے دوری اور آخرت میں ذلّت کا باعث ہوگا۔ صدقہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ ” بِرّ “ ایسی نیکی کو کہتے ہیں جسے اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے۔ لہٰذاحکم ہوا ہے کہ اے لوگو ! تم اس وقت تک صدقے کے حق اور نیکی کی روح کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ نہ کرو جس کے ساتھ تم انتہائی محبت کرتے ہو۔ ” بِرّ “ کا معنی جنت بھی کیا گیا ہے۔ (تفسیر کبیر رازی) دوسرے الفاظ میں تم جنت کو نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کرو۔ یہاں لطیف پیرائے میں یہودیوں کے کھوکھلے دعو وں اور ان کے بخل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو عزیز ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جونہی یہ حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے اپنی اپنی متاع عزیز کو فی سبیل اللہ صدقہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی وفادار اور سلیقہ شعار کنیز کو آزاد کیا، حضرت زید بن حارثہ (رض) نے قیمتی گھوڑا بیت المال میں دینے کا اعلان کیا جسے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بیٹے اسامہ کو عنایت فرمایا جو الگ گھر والے تھے۔ جس پر جناب زید دل گرفتہ ہوئے کہ ہمارا صدقہ ہمیں ہی واپس لوٹا دیا گیا ہے۔ ان کی تسلی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔ [ ابن جریر و طبرانی ] (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی وَلَاتُمْھِلُ حَتّٰی إِذَابَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر پوچھنے لگا کہ کونسا صدقہ زیادہ اجر والا ہے ؟ فرمایا جب تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش ہوتے ہوئے محتاجی کے خوف اور مالدار بننے کی خواہش کے باوجود خیرات کرے۔ اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق تک آپہنچے اس وقت تو کہے کہ اتنا فلاں کو دو اتنا فلاں کو دو ۔ حالانکہ اب تو سارا ہی فلاں فلاں کا ہوچکا۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ کَانَ أَبُوْطَلْحَۃَ أَکْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بالْمَدِیْنَۃِ نَخْلًا وَکَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِہٖ إِلَیْہِ بَیْرُحَاءُ وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَۃَ الْمَسْجِدِ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْخُلُھَا وَیَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِیْھَا طَیِّبٍ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) قَامَ أَبُوْ طَلْحَۃَ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِيْ إِلَيَّ بَیْرُحَاءُ وَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ لِلّٰہِ أَرْجُوْبِرَّھَا وَذُخْرَھَا عِنْدَ اللّٰہِ فَضَعْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ حَیْثُ أَرَاک اللّٰہُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَخْ ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ذٰلِک مَالٌ رَابِحٌ وَقَدْ سَمِعْتُ مَاقُلْتَ وَإِنِّيْ أَرٰی أَنْ تَجْعَلَھَا فِي الْأَقْرَبِیْنَ قَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ أَفْعَلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَسَمَھَا أَبُوْ طَلْحَۃَ فِيْ أَقَارِبِہٖ وَفِيْ بَنِيْ عَمِّہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں والے تھے ان باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین مال تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینًامیرے پاس ” بیرحاء “ کا باغ ہے جو میری پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چناچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔ “ یاد رہے ! یہ وہی ابو طلحہ (رض) ہیں جنہوں نے مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ جونہی ہم کھانا شروع کریں تو دیا بجھا دیا جائے تاکہ مہمان کو کھانے کی کمی کا احساس نہ ہو۔ آیت کے آخر میں تمام صدقات کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ جو کچھ بھی تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور تمہاری نیت کو خوب جانتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں محبوب چیز خرچ کرنا چاہیے۔ ٢۔ آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکی کیا ہے ؟ ١۔ نیکی کے کام۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٢۔ نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ (المائدۃ : ٢) ٣۔ نیکی کے عوض برائیاں معاف ہوتی ہیں۔ (ھود : ١١٤) ٤۔ محبوب چیز خرچ کیے بغیر نیکی کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ (آل عمران : ٩٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ ابواسحاق ابن عبداللہ ابن ابی طلحہ سے روایت کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں انہوں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا انصار مدینہ میں ابوطلحہ بہت ہی مالدار تھے ۔ اور ان کو ان کی دولت سے محبوب ترین ایک کنواں تھا جسے ” حاء “ کہتے تھے ۔ یہ مسجد نبوی کے بالمقابل تھا ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کنویں پر جایا کرتے تھے ۔ اور اس کا پاک وصاف پانی پیا کرتے تھے ۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ……………” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ “ تو ابوطلحہ نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ “ اور میرا محبوب مال تو ” حاء “ کنواں ہے ۔ اور وہ میری طرف سے صدقہ ہے ۔ میں اس کا ثواب اور عنداللہ اس کی جزاء چاہتا ہوں ۔ اس پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : واہ واہ ! یہ تو بڑا نفع بخش اور قیمتی مال ہے۔ یہ تو نفع بخش مال ہے۔ میں نے سن لیا لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسے اقرباء کے درمیان تقسیم کردیں تو ابوطلحہ نے کہا : تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایسا ہی کردیں۔ تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس کے قرباء اور چچازادوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔ (روایت مسلم و بخاری) مسلم بخاری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر میں مجھے جو حصہ ملا ہے ‘ اس سے اچھی جائیداد مجھے کبھی نہیں ملی تو اس کے بارے میں آپ کیا مشورہ دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اصل جائیداد اپنے پاس رہنے دو پیداوار سبیل اللہ کردو۔ “ اسی راستے پر صحابہ کرام (رض) میں سے اکثر ایک دوسرے سے آگے بڑھے ‘ یوں وہ اپنے رب سے بھلائی کی تلاش میں اس آیت پر لبیک کہتے رہے ۔ اس دور میں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی طرف ہدایت دی ۔ اللہ کی آواز پر لبیک کہہ کر انہوں نے مال اور دولت کی غلامی سے اپنے آپ کو رہائی دلائی ۔ دلی بخل اور کنجوسی سے نجات پائی اور ذاتی لالچ سے پاک ہوئے ۔ اور یوں اس مقام بلند تک جاپہنچے جو نہایت بلند ‘ نہایت ہی روشن ‘ چمکدار تھا ‘ آزاد ‘ ہلکے پھلے ہر قید وبند سے نکلے ہوئے۔ پارہ چہارم ایک نظر میں یہ پارہ سورة آل عمران کے آخری حصہ اور سورة نساء کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ یعنی آیت وَالمُحصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ……………تک سورة آل عمران کا آخری حصہ چار اجزاء پر مشتمل ہے ‘ جو سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ‘ جن کے بارے میں ہم سورة آل عمران پر تبصرہ کرتے وقت بحث کر آئے ہیں ۔ یعنی پارہ سوئم میں ۔ یہاں اس بحث کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہاں تبصرہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں مختصراً یہ جان لینا چاہئے کہ سورة آل عمران کے ان چار اجزاء میں پہلا ان مکالمات پر مشتمل ہے جو مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں ‘ اہل کتاب اور اہل ایمان کے درمیان ہوئے ۔ یہ مکالمات اس تاریخی پس منظر میں ہوئے جس کے بارے میں ہم آغاز صورت میں وقت کا تعین کرچکے ہیں ۔ یہ مکالمات رمضان ٢ ھ کے بعد ماہ شوال ٣ ھ کے بعد تک کے دور میں ہوئے ۔ اس سے پہلے سورة آل عمران ‘ تقریباً اس عظیم الشان معرکہ پر تبصرہ ہے ۔ ان تبصروں کے ذریعہ اسلامی تصور حیات کی ماہیت ‘ دین کی حقیقت ‘ اسلام کی حقیقت اور اس نظام کی حقیقت بیان کی گئی ہے جو اسلام نے پیش کیا ‘ اور اسلام سے قبل تمام رسولوں نے اس نظام کو پیش کیا ۔ ان تبصروں میں اہل کتاب کی حقیقت اور ان کے موقف کو بھی واضح کیا گیا ‘ جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دینی امور میں مجادلہ کیا کرتے تھے ‘ اور آپ کے صحابہ کرام کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے ۔ یہ واضح کیا گیا کہ اہل کتاب دین اسلام سے کس قدر دور جاچکے ہیں ‘ اور یہ کہ مدینہ میں وہ جماعت مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کررہے تھے ‘ اس سورت میں اس کا بھی انکشاف کیا گیا ‘ اور یہ بتایا گیا کہ ان کی ان سازشوں کے پس پردہ کیا کیا خفیہ محرکات کام کررہے ہیں ۔ ان تمام امور پر روشنی ڈال کر اسلامی جماعت کو ان سب معاملات کے بارے میں خبردار کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک عظیم خطرے سے دوچار ہے ۔ اسے غفلت نہ کرنا چاہئے اور ان امور میں دشمن کی کوئی بات تسلیم نہیں کرنا چاہئے ۔ آیات کا دوسرا ٹکڑا جو اس سورت کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے ‘ وہ ایک دوسرے معرکے پر محیط ہے ۔ یہ معرکہ صرف مکر و فریب اور زبانی جدل و مباحثہ پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہ معرکہ تیر وسنان ہے اور ضرب وحرب پر مشتمل ہے ۔ یعنی غزوہ احد ‘ اس کے واقعات ‘ اس میں پیش آنے والے واقعات کے اسباب ونتائج ‘ غزوہ احد پر یہ تبصرہ اس مخصوص اسلوب میں ہے جو قرآن مجید کا شاہکار اور اس کا اعجاز ہے ‘ یہ آیات اس معرکہ کے اختتام پر نازل ہوئیں ‘ اس لئے ان میں بھی اسلامی تصور حیات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اس معرکے کے حوادث کے حوالے سے اسلامی جماعت کی تربیت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے نقطہ نظرت سے اس معرکے میں جو غلطیاں ہوئیں یعنی اسلامی صفوں میں جو انتشار پیدا ہوا اور بعض وہ اقدامات جو اضطراب اور پریشانی کا باعث ہوئے ۔ ان واقعات کی وجہ سے ان حالات میں قرآن کریم نے جماعت مسلمہ کو ہدایت دی کہ وہ اپنی راہ پر گامزن رہے ‘ اور اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انہیں انگیز کرے اور وہ مقام اور مرتبہ حاصل کرے جو اس امانت عظمیٰ کے شایان شان ہے ‘ جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے سپرد کی ہے اور اللہ نے اس امت کو یہ نظام دے کر جس اعزاز پر فائز کیا ہے اور جس عظیم فریضہ کے سر انجام دینے کے لئے منتخب کیا ہے ‘ اس پر وہ اللہ کا شکر بجالائے۔ تیسرے حصے میں روئے سخن پھر اہل کتاب کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اور اہل کتاب کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ معاہدات کو ایک ایک کرکے توڑ رہے ہیں ‘ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ مدینہ طیبہ میں تشریف لاتے ہی طے کئے تھے ۔ ان کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ انہوں نے صحیح اسلامی تصور حیات سے انحراف کرلیا ہے اور یہ کہ انہوں نے ‘ اپنی پوری تاریخ میں ‘ مختلف اوقات میں اپنے انبیاء کے مقابلے میں مسلسل جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے بعد امت مسلمہ کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فکر وعمل میں اہل کتاب کی پیروی نہ کریں اور راہ حق میں انہیں جو جانی اور مالی نقصانات پیش آرہے ہیں ‘ ان پر صبر کریں اور ہر حال میں اپنے دشمنوں سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔ حصہ چہارم میں بتایا گیا ہے کہ صحیح اہل ایمان کے نزدیک اپنے رب کے ساتھ تعلق کی کیا نوعیت ہوتی ہے ‘ جب وہ اس کائنات میں باری تعالیٰ کی آیات ونشانات پر غور کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں ایمان باللہ راسخ ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنے رب اور رب کائنات کی طرف بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور ان کا رب ان کی ایسی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں اجر عظیم عطا کرتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں اہل کفر کے حالات یہ ہیں کہ انہیں صرف اس دنیا کا متاع قلیل دیا گیا ۔ یعنی اس کرہ ارض پر اور یہ کہ آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو ان کے لئے تیار ہے اور نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔ اس سورت کا خاتمہ اس پکار پر ہوتا ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صبر کرنے ‘ مشکلات برداشت کرنے ‘ باہم متحد ہوکر دشمنوں کے مقابلے میں چوکنا ہونے ‘ اور ہر وقت اللہ کا خوف دل میں رکھنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ تاکہ وہ اس دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں۔ یہ چار اسباق جو باہم مربوط ہیں اور ایک ہی سلسلہ کلام میں پارہ سوئم میں بیان کئے ہوئے ہیں مضامین کا تکملہ ہیں اور انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں جن کے بارے میں ہم پارہ سوئم کے آغاز ہی میں تفصیلاً بحث کر آئے ہیں اور مزید تفصیلات اس وقت بیان ہوں گی جب ہم ان پر تفصیلاً بحث کریں گے اور آیات کی تفسیر بیان کریں گے ۔ اس پارے کا دوسرا حصہ سورة نساء کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ اس پر بحث سورٔ نساء کے ابتدائیہ میں ہوگی ‘ انشاء اللہ اور اللہ ہی ہے جو توفیق اور ہمت دینے والا ہے۔ سبق ٢٦ ایک نظر میں اس سبق میں ‘ اہل کتاب کے ساتھ ‘ جدل ومناظرے کا یہ معرکہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ یہ آیات وفد اہل نجران کے مباحثے کے ضمن میں نہیں آتیں جیسا کہ روایات میں بھی ذکر آتا ہے ‘ لیکن پنے مضمون اور مفہوم کے اعتبار سے یہ ان آیات کے ساتھ ملتی جلتی ہیں اور انہی کا تکملہ ہیں جو وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئیں ۔ موضوع وہی ہے ‘ اگرچہ روئے سخن خاص یہودیوں کی طرف ہے۔ اور بتادیا گیا کہ وہ مدینہ کے اہل ایمان کے خلاف کیا کیا خفیہ سازشیں ‘ کس کس طرح کررہے ہیں ۔ یہ مجادلہ مکمل بائیکاٹ اور مکمل علیحدگی پر منتہی ہوتا ہے اور پھر روئے سخن ‘ اس سبق میں تھوڑی دیر ہی میں اہل اسلام کی طرف پھرجاتا ہے اور صرف انہیں مخاطب کیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کا نظام زندگی کیا ہے ‘ اس کے فرائض کیا ہیں ‘ بعینہ اس طرح جس طرح سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کے ساتھ مکالمہ ختم کرنے کے بعد امت مسلمہ کو مخاطب کیا گیا تھا ۔ اس لحاظ سے ان دونوں سورتوں میں مکمل مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اس سبق کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ نبی اسرائیل پہ کھانے پینے کی ہر چیز حلال تھی ۔ ہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بعض اشیاء سے پرہیز کرتے ہوئے ‘ انہیں اپنے لئے ممنوع قرار دیا تھا ۔ یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے کہ جب توراۃ نازل ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں محرمات طعام کی جو فہرست مروج تھی ‘ اسلام نے ان اشیاء میں سے بعض کا استعمال چونکہ جائز قرار دے دیا تھا ‘ اس لئے یہودیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا ۔ حالانکہ یہ اشیاء صرف یہودیوں کے لئے حرام قرار دی گئی تھیں اور یہ بھی اس لئے کہ وہ نافرمانیاں کا ارتکاب کرتے تھے اور ان پر یہ چیزیں حرام کرکے انہیں سزا دی گئی تھی ۔ اس کے بعد تحویل قبلہ پر وہ جو اعتراضات کرتے تھے ‘ اس کا بھی جواب دیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے سورة بقرہ میں ایک طویل بحث ہوچکی تھی ۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ بیت ابراہیم (علیہ السلام) ہے ۔ اور یہ پہلا گھر ہے جو اس کرہ ارض پر صرف اللہ کی عبادت اور بندگی کے لئے بنایا گیا ۔ اس لئے جو لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہونے کے مدعی ہیں ‘ ان کی جانب سے بیت ابراہیم (علیہ السلام) کو قبلہ قرار دینے کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے ہیں ‘ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں ۔ وہ صحیح اور صراط مستقیم چھوڑ کر ٹیڑھے راستوں پر بھٹک رہے ہیں ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ گمراہی اسلامی نظام زندگی پر بھی چھاجائے ‘ حالانکہ وہ حق کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں ‘ اور وہ بیخبر نہیں ہیں ۔ ایسے حالات میں قرآن کریم اچانک اہل کتاب کو چھوڑ کر امت مسلمہ کو مخاطب کرتا ہے اور انہیں زور دار الفاظ میں متنبہ کرتا ہے کہ وہ اہل کتاب کی اطاعت نہ کریں کیونکہ ان کی اطاعت عین کفر ہے۔ اور اہل ایمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ عین اسی وقت کفر اختیار کریں جب نبی ان کے سامنے اللہ کی کتاب پیش کررہا ہو ‘ اور رسول اللہ ان میں موجود ہوں اور انہیں اس کتاب کی تعلیم بنفس نفیس دے رہے ہوں ‘ وہ ان کا تزکیہ کرتے ہوئے انہیں اللہ خوفی کی تعلیم دے رہے ہوں ‘ اور انہیں یہ تلقین کررہے ہوں کہ وہ اسلام پر اپنی زندگی میں جمے رہیں اور اسی حالت میں اسلام میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔ رسول اللہ اور کتاب اللہ انہیں یاد دلارہی ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو جوڑا ‘ یہ اس کی بڑی نعمت تھی کہ اس نے ‘ اسلام کے جھنڈے تلے ‘ ان کی صفوں کو یکجا کیا ۔ حالانکہ اس سے قبل ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے تھے ‘ اور باہم برسر پیکار تھے ۔ بلکہ وہ آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور اس میں گرنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بچایا اور یہ نجات انہیں اسلامی نظام زندگی کے سبب ملی۔ پھر یہ کتاب تمہیں کتاب تمہیں حکم دیتی ہے کہ تم ایک ایسی امت کی شکل اختیار کرو جس کا مشن اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی طرف بلانا اور برائی سے منع کرنا ہو ‘ اور نصب العین کے محافظ رہیں کہ تم نے اسلامی نظام زندگی کو بروئے کار لانا ہے ۔ پھر تمہیں ڈرایا جارہا ہے کہ تم اہل کتاب کی وسوسہ اندازیوں اور دسیسہ کاریوں پر کان ہی نہ دھرو کیونکہ یہ لوگ تمہاری صفوں کے اندر ہیں ‘ وہ تمہارے اندر اختلافات ڈال کر تمہیں بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح وہ خود ان ہی کے اختلافات کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں تباہی سے دوچار ہوئے ۔ روایات میں قرآن کریم کے اس انتباہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ اوس اور خزرج کے درمیان یہودیوں نے اختلاف پیدا کرکے ایک عظیم فتنے کے بیج بودئیے تھے ۔ اس کے بعد قرآن کریم امت مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر اس کا مقام ومنصب کیا ہے ؟ حضرت انسان کی زندگی کے ڈرامے میں امت مسلمہ نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ” تم تو وہ خیر امت ہو جسے تمام لوگوں کی خاطر برپا کیا گیا ہے ‘ تمہارا فرض یہ ہے کہ تم بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اللہ پر ایمان لاؤ۔ “ یوں اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرتا ہے کہ تمہارا مشن کیا ہے ؟ اور تمہاری سوسائٹی کا رنگ ڈھنگ کیا ہونا چاہئے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے دشمن کی ذرا خبر لی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اہل اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ‘ نہ ہی وہ مسلمانوں پر غلبہ پاسکتے ہیں ‘ ایسا غلبہ جو مکمل بھی ہو اور دائمی بھی ہو ‘ ہاں وہ یہ کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی جدوجہد کے دوران انہیں اذیت دے سکتے ہیں ‘ البتہ مسلمان اگر اسلامی نظام زندگی اور اپنے منہاج پر قائم رہے تو اللہ کی نصرت انہیں حاصل رہے گی ۔ ان دشمنان خدا پر اللہ تعالیٰ نے ذلت مسلط کردی ہے ۔ وہ ہمیشہ حالت مسکینی میں رہیں گے ۔ اللہ کا غضب ان کو گھیرے رہے گا ۔ اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہوگا کہ انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ معاصی کا ارتکاب کیا ۔ ناحق اپنے نبیوں تک کو قتل کیا ۔ اہل کتاب میں سے بہر حال ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ۔ ایمان لے آئے اور انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اہل اسلام کا منہاج اپنایا۔ اور نیکی اور بھلائی کے پھیلانے کا مشن ان کا نصب العین بن گیا۔ ایسے لوگ بہرحال صالحین میں سے ہیں ۔ ہاں جن لوگوں نے کفر کا راستہ اپنایا ‘ اسلام کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ‘ تو وہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے ماخوذ ہوں گے ‘ ان کی دولت انہیں کوئی نفع نہ دے گی ‘ ان کی اولاد انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گی ۔ اور انجام کار انہیں ایک عظیم تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سبق کا خاتمہ اہل ایمان کو اس بات کا خوف دلانے پر ہوتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے مقابلے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کوئی خفیہ دوستی قائم نہ کریں۔ اس لئے کہ یہ دوسرے لوگ اپنے دلوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف بغض وعداوت چھپائے ہوئے ہیں ۔ ان کی باتوں سے اہل اسلام کے خلاف بغض وعداوت ٹپکتی ہے ۔ اور ان کے دلوں کے اندر اہل اسلام کے خلاف جو لاوا پک رہا ہے وہ نہایت ہی خوفناک ہے ۔ انتہائی غصے اور نفرت کی وجہ سے وہ اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں اور اہل اسلام پر اگر کوئی آفت ومصیبت آتی ہے تو یہ نہایت ہی خوش ہوتے ہیں اور اگر اہل اسلام کے لئے کوئی کامیابی ظہور پذیر ہوتی ہے تو وہ بہت کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں ۔ ان توضیحات کے آخر میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ان کانگہبان اور محافظ ہے ۔ اگر وہ صبر سے کام لیں اور اللہ خوفی کا رویہ اختیار کریں تو اللہ ان کے دشمنوں کے تمام ہتھکنڈوں کو ناکام کردے گا ۔ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعمَلُونَ مُحِیطٌ……………” جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر حاوی ہے۔ “ یہ طویل توضیحات اور متنوع اشارے ‘ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس دور میں جماعت مسلمہ اور اہل ایمان کی صفوں میں اہل کتاب کس طرح گھسے ہوئے تھے اور کیا کیا سازشیں کررہے تھے ۔ اور بےچینیاں پھیلا رہے تھے ۔ اور یہ کہ اس سبق نے اس وقت بحرانی کیفیت پیدا کردی تھی ۔ نیز یہاں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تحریک اسلامی کو کس قدر مضبوط راہنمائی کی ضرورت تھی ‘ تاکہ وہ اپنے اور جاہلیت کے کامریڈوں کے درمیان پائے جانے والے تعلقات وروابط کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اسلامی نظریہ حیات اور جاہلیت کے درمیان ایک قطعی امتیاز پیدا کردیا جائے ۔ اور پہلی تحریک اسلامی کے بعد آئندہ نسلوں کے لئے بھی یہ ہدایت اور توضیح کام آئے ۔ اور آنے والی نسلوں کو متنبہ کردیا جائے کہ ان کے موروثی دشمن کون ہیں ؟ یہ ایسے دشمن ہیں کہ وہ نئے نئے روپ اور نئے نئے وسائل لے کر میدان میں آتے ہیں لیکن ہیں وہ ایک ہی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فی سبیل اللہ مجبوب مال خرچ کیا جائے اس آیت میں اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ خیر (کامل) تمہیں نہیں مل سکتی جب تک کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی رضا کے لیے خرچ نہ کرو، حضرات صحابہ کرام ایک ایک حکم پر عاشق تھے، جب آیت بالا نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی محبوبات پر نظر ڈالی کہ ہماری محبوب چیزیں کیا کیا ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ انصار مدینہ میں باغوں کی ملکیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ مالدار حضرت ابو طلحہ (رض) تھے، مسجد نبوی کے مقابل ان کا باغ تھا جس میں ایک کنواں بیر حاء کے نام سے موسوم تھا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیر حاء کا پانی پیتے تھے، حضرت ابو طلحہ (رض) کا یہ باغ ان کو اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے تمام اموال میں بیرحاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں اور اس کے ثواب کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کے یہاں اس کو ذخیرہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو اپنی صوابدید سے جیسے اللہ آپ کے دل میں ڈالے خرچ فرما دیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ عظیم منافع کا باغ ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنے اقرباء میں تقسیم کر دو ، حضرت ابو طلحہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور اپنے اقرباء اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم فرما دیا۔ (صحیح بخاری صفحہ ١٩٧: ج ١) حضرات صحابہ (رض) کے بعض واقعات : تفسیر درمنثور میں اس طرح کے اور بھی واقعات لکھے ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو اپنے مال میں ایک رومی لونڈی جس کا نام مرجانہ تھا سب سے زیادہ محبوب تھی۔ آیت شریفہ سن کر انہوں نے اسے آزاد کردیا۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ جلولاء کے قیدیوں میں سے ایک باندی میرے لیے خرید لو جب وہ باندی آگئی تو حضرت عمر (رض) نے آیت بالا پڑھی اور اسے آزاد فرمایا۔ حضرت محمد بن المکندر نے بیان فرمایا کہ جب آیت بالا نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ (رض) نے اپنا گھوڑا صدقہ میں دے دیا۔ کیونکہ وہ ان کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (صفحہ ٢٠: ج) ہر شخص کی محبوبات الگ الگ ہیں اور جس شخص کے پاس پیسہ کم ہو وہ اس میں سے اللہ کے لیے خرچ کر دے تو وہ بھی اس آیت کے مفہوم میں شامل ہے۔ کیونکہ کم مال ہونے کی وجہ سے پیسہ زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ آیت کے عموم سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ ہو یا صدقات واجبہ یا نافلہ ان میں سب سے اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے اور اپنی محبوب چیزیں مستحقین میں خرچ کی جائیں۔ اگر کوئی شخص ایسی چیز کو اللہ کی راہ میں دیدے جو اس کی ملکیت تو ہے لیکن ضرورت سے زائد ہے جیسے پرانے اتارے ہوئے کپڑے تو اس کا بھی اجر ہے۔ البتہ جس چیز سے محبت ہو اس کے خرچ کرنے میں زیادہ ثواب ہے اسی لیے بعض مفسرین نے الْبِرّ کی تفسیر الخیر الکامل سے کی ہے۔ یعنی کامل ثواب اسی میں ہے جبکہ محبوب چیز خرچ کی جائے۔ آیت کا مطلب یہ نہیں کہ جو چیزمحبوب نہیں اسے خرچ نہ کرو مطلب یہ ہے کہ محبوب چیز خرچ کرنے کی طرف رغبت کرو۔ آیت کے آخر میں جو فرمایا (وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ) اس کے عموم سے اس طرف اشارہ ملتا ہے۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یوں کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیَ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَ اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ (سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے کپڑا پہنایا جس کے ذریعہ اپنی شرم کی جگہ کو چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعہ جمال حاصل کرتا ہوں) پھر اس کے بعد اس کپڑے کو صدقہ کردیا جسے پرانا کیا تھا تو اللہ کی حفاظت میں اور اللہ کی طرف سے پردہ پوشی میں ہوگا۔ زندگی اور موت کے بعد۔ (رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٣٧٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

130 ۔ یہ خطاب بھی حسب سابق اہل کتاب ہی سے ہے اور اس سے انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی گئی ہے اور بِرّ سے ایمان وتقویٰ کا وہ درجہ مراد ہے جس کے حاصل ہونے پر آدمی ابرار کے زمرہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ جن کا اللہ تعالیٰ نے اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ میں ذکر فرمایا ہے۔ مَاتُحِبُّوْنَ سے دنیوی ریاست و دولت اور ظاہری شان و شوکت مراد ہے۔ اہل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تک تم اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب چیز کی قربانی نہیں دو گے۔ یعنی دنیوی شان و شوکت اور ریاست کو نہیں چھوڑو گے۔ اس وقت تک حقیقتِ خیر اور اصل تقویٰ نہیں پا سکو گے اس لیے ان دنیوی منافع کو چھوڑ کر حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرو۔ اور مسئلہ توحید کو مانو حضرت مولانا شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں، یعنی جس چیز سے دل بہت لگا ہو۔ اس کا خرچ کرنا بہت درجہ اور ثواب ہر چیز میں ہے۔ شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی جس کے تھامنے کو نبی کے تابع نہ ہوتے تھے۔ جب تک وہی نہ چھوڑیں اللہ کی راہ میں درجہ ایمان نہ پاویں۔ 131 ۔ اللہ کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کرو گے۔ خواہ وہ محبوب ہو یا غیر محبوب بہر حال اللہ کو اسکا علم ہے اور وہ اس کے مطابق اس کی جزا دیگا۔ باقی رہا خیر کامل کا اعلیٰ درجہ تو وہ صرف محبوب ترین چیز ہی کی قربانی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ والحاصل لئلا وصول الی المطلوب الا باخراج المحبوب (مدارک ج 1 ص 36)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ تم لوگ اس وقت تک حقیقی بھلائی اور کامل مکمل نیکی نہیں حاصل کرسکو گے جب تک تم اپنی محبوب اور عزیز ترین چیز میں سے کچھ خرچ نہ کرو اور بہر حال تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے خواہ وہ محبوب ہو یا غیر محبوب ، سو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے۔ ( تیسیرض بر کے معنی سورة بقرہ میں گزر چکے ہیں بر کی نسبت اگر بندے کی جانب ہو تو اس سے مراد طاعت ، صدق اور وسعت احسان لیا کرتے ہیں اور خدا کی طر یہ لفظ مضاف ہو تو اس کے معنی رضا رحمت جنت ہوا کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر وراق فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم لوگ میری بر کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنے بھائیوں کے ساتھ بر نہ کروحاصل یہ ہے کہ جب تک محبوب کو اپنے سے جدا نہ کرو گے مطلب تک نہ پہنچو گے۔ حضرت واسطی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ خرچ کرنا بر تک پہنچا دیتا ہے اور اگر کوئی شخص رب تک پہنچنا چاہے تو اس کو نین سے دست برداری کرنی چاہیے بر کا استعمال صدق اور حسن خلق کے لئے بھی آتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مرفوعا ً روایت ہے تم لوگ صدق کو لازم پکڑو صدق انسان کو بر تک پہنچاتا ہے اور بر انسان کو جنت میں لے جاتی ہے آدمی ہمیشہ سچ بولتا اور سچ کا خیال رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو صدیقین میں لکھ دیا جاتا ہے اور یہ دیکھو کذب سے بچو کذب انسان کو فسق و فجور تک لے جاتا ہے اور فجور آدمی کو آگ میں داخل کردیتا ہے آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ بولنے کی فکر میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے نو اس بن سمعان سے مرفوعاً روایت ہے کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بر کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا حسن خلق اس نے عرض کیا اثم کیا ہے آپ نے فرمایا جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس کو لوگوں کے علم میں لانا پسند نہ کرے۔ بہر حال بر کے معنی جو کچھ بھی ہوں یہاں مراد یہ ہے کہ تم حقیقت بر اور کمال خیر کو نہیں پہنچ سکتے جب تک پسندیدہ اور محبوب چیز سے کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو اور یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم ایسا ثواب جو تم کو جنت میں لے جائے ، نہیں حاصل کرسکتے جب تک پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں خیرات نہ کرو پھر فرمایا اس کا خیال رکھو جو بھی خرچ کرو گے اور جیسا بھی خرچ کرو گے اور جس وقت بھی خرچ کرو گے ان سب حالتوں سے اللہ تعالیٰ با خبر ہے خواہ اچھی چیز خیرات کرو اور دل سے خیرات کردیا بری چیز خیرات کرو اور دکھاوے کو خیرات کرو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس چیز سے دل بہت لگا ہو اس کا خرچ کرنا بڑا درجہ ہے اور ثواب ہر چیز میں ہے شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس لئے فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی جس کے تھامنے کو نبی کے تابع نہ ہوتے تھے تو جب وہی نہ چھوڑیں اللہ کی راہ میں درجہ ایمان نہ پاویں ۔ ( موضح القرآنض شاہ صاحب (رح) خوب بات فرمائی اور ربط کی تقریر بھی خوب فرمائی ۔ گویا محبوب ریاست و وجاہت کی محبت اور بر ایمان ۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ دونوں لفظوں میں اتنی گنجائش ہے کہ جو معنی چاہے کرلو خلاصہ یہ ہے کہ مقصود حقیقی جب حاصل ہوگا جب عزیز ترین چیز خدا کی راہ میں قربان کرو گے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام کی عزت اور اسلامی اقتدار مقصود ہے تو جان اور مال خدا کی راہ میں قربان کردو ( سبحان اللہ) کیا کلام ہے جس کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ حضرت حسن (رح) فرماتے ہیں آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم اس وقت تک ابرار میں شامل نہیں ہوسکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو ۔ اس آیت کو سن کر اکثر صحابہ نے اپنی بہترین اور پسندیدہ چیزیں خیرات کردیں ۔ حضرت ابو طلحہ (رض) کے باغ کا واقعہ تو سورة بقرہ میں گزرچکا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ایک لونڈی کو جوان کو پسندیدہ تھی آزاد کردیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) نے بھی ایسا ہی کیا ۔ زید بن حارث نے آیت کو سن کر اپنا گھوڑا جس کا نام سیل تھا اور جو ان کو بہت ہی محبوب تھا صدقہ کردیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بشارت دی کہ اے زید (رض) تمہارا وہ صدقہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا ۔ ابو ذر غفاری (رض) کا واقعہ ہے کہ ان کے ہاں ایک مہمان آگیا تو انہوں نے اپنے غلام سے کہا میری اونٹنیوں میں سے بہترین اونٹنی لا کر ذبح کر وہ ایک دبلی سی اونٹنی لے آیا حضرت ابو ذر (رض) نے فرمایا تو نے مجھ سے خیانت کی اس نے کہا یہی اونٹنی سب اونٹنیوں سے بہتر ہے چناچہ اس کو حلال کیا کسی نے حضرت ابو ذر (رض) سے کہا کہ ضرورت کا بھی خیال رکھیئے۔ آپ نے فرمایا میری ضرورت کا دن تو وہ ہوگا جس دن میں قبر میں رکھاجائوں گا ۔ حضرات صحابہ (رض) کے اقوال اس ۔۔۔ بارے میں مختلف ہیں کہ یہاں خرچ سے مراد صدقات واجبہ ہیں یا صدقات نافلہ۔ عام رائے یہ ہے کہ صدقات نافلہ مراد ہیں اس آیت کی تفسیر سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ثواب تو ہر قسم کی خیرات کرنے سے ملتا ہے لیکن زیادہ ثواب پسندیدہ چیز خیرات کرنے سے ملتا ہے اب آگے یہود کی ایک اور غلط دعوے کی تکذیب فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)