Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 0

سورة الروم

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الرُّوْم نام : پہلی ہی آیت کے لفظ غُلِبَتِ الرُّوم سے ماخوذ ہے ۔ زمانہ نزول : آغاز ہی میں جس تاریخی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانہ نزول قطعی طور پر متعین ہو جاتا ہے ۔ اس میں ارشاد ہوا ہے کہ ” قریب کی سر زمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ۔ “ اس زمانے میں عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن ، شام اور فلسطین تھے اور ان علاقوں میں رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ ٦١۵ء میں مکمل ہوا تھا ۔ اس لئے پوری صحت کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سورة اسی سال نازل ہوئی تھی ، اور یہ وہی سال تھا جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی ۔ تاریخی پس منظر : جو پیش گوئی اس سورة کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے وہ قرآن مجید کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے ۔ اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تاریخی واقعات پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی جائے جو ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے ۸ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصر روم ماریس ( Maurice ) کے خلاف بغاوت ہوئی اور ایک شخص فوکاس ( Phocas ) تخت سلطنت پر قابض ہوگیا ۔ اس شخص نے پہلے تو قیصر کی آنکھوں کے سامنے اس کے پانچ بیٹوں کو قتل کرایا ، پھر خود قیصر کو قتل کرا کے باپ بیٹوں کے سر قسطنطنیہ میں بر سر عام لٹکوا دیے ، اور اس کے چند روز بعد اس کی بیوی اور تین لڑکیوں کو بھی مروا ڈالا ۔ اس واقعہ سے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کو روم پر حملہ آور ہونے کے لئے بہترین اخلاقی بہانہ مل گیا ۔ قیصر ماریس اس کا محسن تھا ۔ اسی کی مدد سے پرویز کو ایران کا تخت نصیب ہوا تھا ۔ اس بنا پر اس نے اعلان کیا کہ میں غاصب فوکاس سے اس ظلم کا بدلہ لوں گا جو اس نے میرے مجازی باپ اور اس کی اولاد پر ڈھایا ہے ۔ ٦۰۳ء میں اس نے سلطنت روم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور چند سال کے اندر وہ فوکاس کی فوجوں کو پے در پے شکستیں دیتا ہوا ایک طرف ایشیائے کوچک میں ایڈیسا ﴿موجودہ اُورفا﴾ تک اور دوسری طرف شام میں حَلَب اور انطاکیہ تک پہنچ گیا ۔ روم کے اعیان سلطنت یہ دیکھ کر کہ فوکاس ملک کو نہیں بچا سکتا ، افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے ۔ اس نے بیٹے ہرقل ( Heracllus ) کو ایک طاقتور بیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا ۔ اس کے پہنچتے ہی فوکاس معزول کردیا گیا ، اس کی جگہ ہرقل قیصر بنایا گیا ، اور اس نے برسر اقتدار آکر فوکاس کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا ۔ یہ ٦١۰ء کا واقعہ ہے ، اور وہی سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر سرفراز ہوئے ۔ خسرو پرویز نے جس اخلاقی بہانے کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی تھی ، فوکاس کا عزل اور قتل کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا ۔ اگر واقعی اس کی جنگ کا مقصد غاصب فوکاس سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہوتا تو اس کے مارے جانے پر اسے نئے قیصر سے صلح کر لینی چاہیےتھی ۔ مگر اس نے پھر بھی جنگ جاری رکھی ، اور اب اس جنگ کو اس نے مجوسیت اور مسیحیت کی مذہبی جنگ کا رنگ دے دیا ۔ عیسائیوں کے جن فرقوں کو رومی سلطنت کے سرکاری کلیسا نے ملحد قرار دے کر سالہا سال سے تختہ مشق ستم بنا رکھا تھا ﴿یعنی نسطوری اور یعقوبی وغیرہ ان کی ساری ہمدردیاں بھی مجوسی حملہ آوروں کے ساتھ ہوگئیں ۔ اور یہودیوں نے بھی مجوسیوں کا ساتھ دیا ، حتیٰ کہ خسرو پرویز کی فوج میں بھرتی ہونے والے یہوویوں کی تعداد ۲٦ ہزار تک پہنچ گئی ۔ ہرقل آکر اس سیلاب کو نہ روک سکا ۔ تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جو اسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی ۔ اس کے بعد ۲١۳ء میں دمشق فتح ہوا ۔ پھر ٦١٤ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے ایرانیوں نے مسیحی دنیا پر قیامت ڈھادی ۔ ۹۰ ہزار عیسائی اس شہر میں قتل کیے گئے ۔ ان کا سب سے زیادہ مقدس کلیسا ، کینستہ القیامہ ( Holy Sepulchre ) برباد کردیا گیا ۔ اصلی صلیب ، جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اسی پر مسیح نے جان دی تھی ، مجوسیوں نے چھین کر مدائن پہنچا دی ۔ لاٹ پادری زکریاہ کو بھی پکڑ لے گئے اور شہر کے تمام بڑے بڑے گرجوں کو انہوں نے مسمار کر دیا ۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسرو پرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل کو لکھا تھا ۔ اس میں وہ کہتا ہے : ” سب خداؤں سے بڑے خدا ، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام ، تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے ۔ کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا ؟ “ اس فتح کے بعد ایک سال کے اندر اندر ایرانی فوجیں اردن ، فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقے پر قابض ہوکر حدود مصر تک پہنچ گئیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ معظمہ میں ایک اور اس سے بدرجہا زیادہ تاریخی اہمیت رکھنے والی جنگ برپا تھی ۔ یہاں توحید کے علم بردار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ، اور شرک کے پیرو کار سرداران قریش کی رہنمائی میں ایک دوسرے سے برسر جنگ تھے ، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ٦١۵ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبش کی عیسائی سلطنت میں ﴿جو روم کی حلیف تھی﴾ پناہ لینی پڑی ۔ اس وقت سلطنت روم پر ایران کے غلبے کا چرچا ہر زبان پر تھا ۔ مکے کے مشرکین اس پر بغلیں بجا رہے تھے اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ دیکھو ایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں اور وحی اور رسالت کو ماننے والے عیسائی شکست پر شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں ۔ اسی طرح ہم عرب کے بت پرست بھی تمہیں اور تمہارے دین کو مٹا کر رکھ دیں گے ۔ ان حالات میں قرآن مجید کی یہ سورة نازل ہوئی اور اس میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ ” قریب کی سر زمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ، مگر اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر اندر ہی وہ غالب آجائیں گے ، اور وہ دن وہ ہوگا جبکہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہو رہے ہونگے ۔ “ اس میں ایک کے بجائے دو پیشین گوئیاں تھیں ۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہوگا ۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں فتح حاصل ہوگی ۔ بظاہر دور دور تک کہیں اس کے آثار موجود نہ تھے کہ ان میں سے کوئی ایک پیشین گوئی بھی چند سال کے اندر پوری ہوجائے گی ۔ ایک طرف مٹھی بھر مسلمان تھے جو مکے میں مارے اور کھدیڑے جارہے تھے ۔ اور اس پیشین گوئی کے بعد بھی آٹھ سال تک ان کے لئے غلبہ و فتح کا کوئی امکان کسی کو نظر نہ آتا تھا ۔ دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔ سن ٦١۹ء تک پورا مصر ایران کے قبضہ میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ ایشیائے کوچک میں ایرانی فوجیں رومیوں کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئیں اور سن ٦١۷ء میں انہوں نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقدون ﴿Chalcedon ، موجودہ قاضی کوئی ﴾ پر قبضہ کر لیا ۔ قیصر نے خسرو کے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ مگر اس نے جواب دیا کہ ” اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دونگا جب تک وہ پابز بخیر میرے سامنے حاضر نہ ہو اور اپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوند آتش کی بندگی نہ اختیار کر لے ۔ “آخر کار قیصر اس حد تک شکست خوردہ ہوگیا کہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ ﴿Carthage ، موجودہ ٹیونس﴾ منتقل ہوجانے کا ارادہ کر لیا ۔ غرض انگریز مؤرخ گبن کے بقول ، قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے بعد بھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ رومی سلطنت ایران پر غالب آجائے گی ، بلکہ غلبہ تو درکنار اس وقت تو کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی ۔ ﴿Gibboon, Decline and fall of the Roman Empire, Vol. II, p, 788. Modern Library, New York.﴾ قرآن کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو کفار مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور ابی بن خلف نے حضرت ابو بکر سے شرط بدی کہ اگر تین سال کے اندر رومی غالب آگئے تو دس اونٹ میں دوں گا ورنہ دس اونٹ تم کو دینے ہوں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن میں فِی بِضعِ سِنِین کے الفاظ آئے ہیں ، اور عربی زبان میں بِضع کا اطلاق دس سال سے کم پر ہوتا ہے ، اس لئے دس سال کے اندر کی شرط کرو اور اونٹوں کی تعداد بڑھا کر سو ﴿١۰۰﴾کردو ۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے اُبَیّ سے پھر بات کی اور نئے سرے سے یہ شرط طے ہوئی کہ دس سال کے اندر فریقین میں سے جس کی بات غلط ثابت ہوگی وہ سو﴿١۰۰﴾ اونٹ دے گا ۔ سن ٦۲٤ء میں ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے ، اور ادھر قیصر ہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحر اسود کے راستے طرابزون کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے ایران پر پشت کی طرف سے حملہ کرنے کی تیاری کی ۔ اس جوابی حملے کی تیاری کے لئے قیصر نے کلیسا سے روپیہ مانگا اور مسیحی کلیسا کے اُسقُف اعظم سر جیس ( Sergius ) نے مسیحیت کی مجو سیت سے بچانے کے لئے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی ۔ ہرقل نے اپنا حملہ سن ٦۲۳ء میں ارمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال سن ٦۲٤ء میں اس نے آذربیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ ( Clorumia ) کو تباہ کر دیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی ۔ اس طرح وہ دونوں پیشین گوئیاں جو سورة روم میں کی گئی تھیں ، دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہوگئیں ۔ پھر روم کی فوجیں ایرانیوں کو مسلسل دباتی چلی گئیں ۔ نینویٰ کی فیصلہ کن لڑائی ﴿سن ٦۲۷ء﴾ میں انہوں نے سلطنت ایران کی کمر توڑدی ۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد ﴿دَسکرة الملک﴾ کو تباہ کر دیا اور آگے بڑھ کر ہرقل کے لشکر طیسفون ( Ctesiphon ) کے سامنے پہنچ گئے جو اس وقت ایران کا دار السلطنت تھا ۔ سن ٦۲۸ء میں خسرو پرویز کے خلاف گھر میں بغاوت رونما ہوئی ، وہ قید کر لیا گیا ، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ١۸ بیٹے قتل کردیے گئے ، اور چند روز بعد وہ خود قید کی سختیوں سے ہلاک ہوگیا ۔ یہی سال تھا جس میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی جسے قرآن ” فتح عظیم “ کے نام سے تعبیر کرتا ہے ، اور یہی سال تھا جس میں خسرو کے بیٹے قباد ثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دست بردار ہو کر اور اصلی صلیب واپس کر کے روم سے صلح کر لی ۔ سن ٦۲۹ء میں قیصر ”مقدس صلیب “ کو اس کی جگہ رکھنے کے لئے خود بیت المقدس گیا ، اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم عُمرة القضا ادا کرنے کے لئے ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد کسی کے لئے بھی اس امر میں شبہہ کی گنجائش باقی نہ رہی کہ قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچی تھی ۔ عرب کے بکثرت مشرکین اس پر ایمان لے آئے ۔ اُبَیّ بن خَلف کے وارثوں کو ہار مان کر شرط کے اونٹ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کرنے پڑے ۔ وہ انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں صدقہ کر دیا جائے ۔ کیونکہ شرط اس وقت ہوئی تھی جب شریعت میں جوئے کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، مگر اب حرمت کا حکم آچکا تھا ، اس لئے حربی کافروں سے شرط کا مال لے لینے کی اجازت تو دے دی گئی مگر ہدایت کی گئی کہ اسے خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کر دیا جائے ۔ موضوع اور مضمون : اس سورة میں کلام کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ آج رومی مغلوب ہوگئے ہیں اور ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ اس سلطنت کا خاتمہ قریب ہے ، مگر چند سال نہ گزرنے پائیں گے کہ پانسہ پلٹ جائے گا اور جو مغلوب ہے وہ غالب ہوجائے گا ۔ اس تمہید سے یہ مضمون نکل آیا کہ انسان اپنی سطح بینی کی وجہ سے وہی کچھ دیکھتا ہے ، جو بظاہر اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ، مگر اس ظاہر کے پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اس کی اسے خبر نہیں ہوتی ۔ یہ ظاہر بینی جب دنیا کے ذرا ذرا سے معاملات میں غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کی موجب ہوتی ہے ، اور جبکہ محض اتنی سی بات نہ جاننے کی وجہ سے کہ ” کل کیا ہونے والا ہے “ آدمی غلط تخمینے لگا بیٹھتا ہے ، تو پھر بحیثیت مجموعی پوری زندگی کے معاملے میں ظاہر حیات دنیا پر اعتماد کر بیٹھنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے پورے سرمایہ حیات کو داؤ پر لگا دینا کتنی بڑی غلطی ہے ۔ اس طرح روم اور ایران کے معاملے سے تقریر کا رخ آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے ۔ اور مسلسل تین رکوعوں تک طریقے طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آخرت ممکن بھی ہے ، معقول بھی ہے ، اس کی ضرورت بھی ہے ، اور انسانی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آدمی آخرت کا یقین رکھ کر اپنی موجودہ زندگی کا پروگرام اختیار کرے ، ورنہ وہی غلط ہوگی جو ظاہر پر اعتماد کرلینے سے واقع ہوا کرتی ہے ۔ اس سلسلے میں آخرت پر استدلال کرتے ہوئے کائنات کے جن آثار کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے وہ بعینہ وہی آثار ہیں جو توحید پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔ اس لئے چوتھے رکوع کے آغاز سے تقریر کا رخ توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی طرف پھر جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کے لئے فطری دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ بالکل یکسو ہو کر خدائے واحد کی بندگی کرے ۔ شرک فطرت کائنات اور فطرت انسان کے خلاف ہے ، اسی لئے جہاں بھی انسان نے اس گمراہی کو اختیار کیا ہے وہاں فساد رونما ہوا ہے ۔ اس موقع پر پھر اس فساد عظیم کی طرف ، جو اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ کی بدولت برپا تھا ، اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ فساد شرک کے نتائج میں سے ہے اور پچھلی انسانی تاریخ میں بھی جتنی قومیں مبتلائے فساد ہوئی ہیں وہ سب بھی مشرک ہی تھیں ۔ خاتمہ کلام پر تمثیل کے پیرایہ میں لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین خدا کی بھیجی ہوئی بارش سے یکایک جی اٹھتی ہے اور زندگی و بہار کے خزانے اگلنے شروع کردیتی ہے ، اسی طرح خدا کی بھیجی ہوئی وحی اور نبوت بھی مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے حق میں ایک باران رحمت ہے جس کانزول اس کے لئے زندگی اور نشو ونما اور خیر و فلاح کا موجب ہوتا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ گے تو یہی عرب کی سونی زمین رحمت الہٰی سے لہلہا اٹھے گی اور ساری بھلائی تمہارے اپنے لئے ہی ہوگی ۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے ، پھر پچھتانے کا کچھ حاصل نہ ہوگا اور تلافی کا کوئی موقع تمہیں میسر نہ آئے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الروم اس سورت کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کرتا ہے، جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلئے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے ڈھکیلتی جارہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا، ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انہیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے، اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشنگوئیاں کی گئیں، ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے، یہ دونوں پیشینگوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشینگوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشینگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشینگوئی کی گئی اس وقت کسی بھی پیشینگوئی کا پورا ہونا اس سے زیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ قیصر ہرقل کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے : Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Epaire,chapter 46,Volume 2,P.125,Great Books,V.38,University of Chicago,1990 چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشینگوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے یہ شرط لگالی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آگئے تو وہ حضرت ابوبکر کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا)، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انہوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا لیکن اسکے فوراً بعد حالات نے عجیب وغریب پلٹا کھایا، ہر قل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشینگوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشینگوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی، اس وقت ابی بن خلف جس نے حضرت ابوبکر (رض) سے شرط لگائی تھی مرچکا تھا، لیکن اس کے بیٹوں نے شرط کے مطابق سو اونٹ حضرت ابوبکر (رض) کو ادا کئے، اور چونکہ اس وقت جوے کی حرمت آچکی تھی اور دو طرفہ شرط جوے ہی کی ایک شکل ہے، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو حکم دیا کے وہ یہ اونٹ خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کردیں۔ اس پیشینگوئی کے علاوہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد تو حید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور مخالفین کی تردید کی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi