Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 49

سورة الروم

وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمُبۡلِسِیۡنَ ﴿۴۹﴾

Although they were, before it was sent down upon them - before that, in despair.

یقین ماننا کہ بارش ان پر برسنے سے پہلے پہلے تو وہ نا امید ہو رہے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, before that -- just before it was sent down upon them -- they were in despair! The people to whom this rain came were in despair, thinking that it rain would never fall, just before it came to them. When it came to them, it came at the time of greatest need, so it was a tremendous event for them. What this means is that they were in need of it before it fell, and there had been no rainfall for a long time, so they were waiting for it at the time when it was due, but it did not come to them at that time. The rain was late, and a long time passed. Then the rain came to them suddenly, after they began to despair, and after their land became dry and barren, it was stirred to life, and it swelled and produced every lovely kind of growth. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ ۔۔ : واؤ حالیہ ہے اور ” اِنْ کَانُوا “ اصل میں ”إِنَّھُمْ کَانُوْا “ ہے۔” لَمُبْلِسِیْن “ پر آنے والے لام کی وجہ سے ”إِنَّ “ کو ” اِن “ سے بدل دیا اور ” ھُمْ “ کو حذف کردیا۔” مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ “ کے بعد ” مِنْ قَبْلِهٖ “ دوبارہ لانے کا مطلب تاکید ہے، یعنی وہ بارش اترنے سے پہلے، اس کے عین پہلے تک بالکل ناامید تھے۔ اس میں لمبی ناامیدی کا نہایت تیزی کے ساتھ فوری خوشی میں بدلنے کا بیان ہے، یعنی وہ بالکل ناامید تھے، بارش اترتے ہی خوشیاں منانے لگے۔ اس سے اللہ کی قدرت معلوم ہوتی ہے کہ لمحہ بھر میں دنیا کی حالت بدل جاتی ہے، کچھ دیر پہلے سب کے چہرے اترے ہوئے تھے اور اب بارش کے بعد ہر طرف خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْہِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِيْنَ۝ ٤٩ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ بلست الناقۃ فھی مبلاس آواز نہ کرو ناقہ زغایت خواہش کش اور کلاس بمعنی ٹاٹ فارسی پل اس سے معرب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ بارش کے برسنے سے پہلے بارش سے بالکل ہی ناامید ہورہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْہِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِیْنَ ) ” جس انسانی نفسیاتی کیفیت کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے اس کا تجربہ مصنوعی آب پاشی کے علاقوں کے لوگوں کو کم ہوتا ہے جبکہ بارانی علاقوں میں اس کے مظاہر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اکثر اوقات جب کسانوں کی مایوسی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اچانک موسم کروٹ لیتا ہے ‘ ہوائیں اپنا رخ بدلتی ہیں ‘ فضا میں گھٹائیں نمودار ہوتی ہیں ‘ دیکھتے ہی دیکھتے خشک زمین سیراب ہوجاتی ہے اور کسان ‘ مزدور ‘ چرند ‘ پرند ‘ حشرات الارض وغیرہ سب نہال ہوجاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:49) وان کانوا من قبل ان ینزل علیہم من قبلہ لمبلسین واؤ حالیہ ہے اور جملہ حالیہ ہے ان ان سے مخففہ ہے ان ینزل علیہم میں ان مصدریہ ہے۔ قبلہ میں ضمیر ہ کا مرجع المطر ہے۔ لام تاکید کے لئے ہے اور مبلسین ۔۔ کانوا کی خبر ہے۔ وہ پیشترازیں بارش برستے سے قبل مایوس ہو رہے تھے۔ من قبل کا تکرار تاکید کے لئے ہے۔ من قبل ان ینزل علیہم : ای من قبل تنزل المطر۔ بارش برسنے سے قبل۔ مبلسین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب۔ مبلس واحد۔ ناامید۔ مایوس غمگین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اوپر رسولوں کے بھیجنے کا ذکر کیا یا تھا اور یہاں بارش بھیجنے کا اس میں اشارہ ہے کہ رسول کی آمد بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کے لئے ویسی ہی رحمت ہے جیسی اس کی مادی و معاشی زندگی کے لئے بارش کی آمد، بارش سے اگر زمین زندہ ہوتی ہے اہر طرف کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں نوروں کی آمد سے انسان کے دلوں کی کھیتیاں سرسبز ہوتی ہیں اور اس میں نبوت کی ضرورت پر دلیل بھی ہے کہ جس نے اس زمین کی اصلاح کا بندوبست کیا ہے وہ تمہارے دلوں اور روحوں کی زمین کو زندہ اور سرسبز کرنے کا انتظام کیوں نہ کرے گا۔ آیت کریمہ میں انظر کا کلمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ پر تنبیہ کے لئے ہے۔ (کبیر روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ابھی ابھی ناامید تھے اور ابھی ابھی خوش ہوگئے، اور ایسا ہی مشاہدہ بھی ہے کہ انسان کی کیفیت ایسی حالت میں بہت ہی جلدی بدل جاتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49۔ باوجود یکہ وہ لوگ قتل اس خوش ہونے سے پہلے ان پر برسے بالکل ہی ناامید ہورہے تھے۔ من قبلہ میں کئی قول تھے ہم نے دونوں ترکیبوں کے خیال سے ترجمے اور تیسیر میں رعایت کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارش برسنے سے جو خوشی حاصل ہوئی اس خوش سے پہلے کہ ان پر بارش برسے اور یہ خوش ہوں یہ لوگ بارش سے بالکل مایوس تھے بارش کے ہوتے ہی نا امیدی خوشی سے بدل گئی اور بارش کے آنے سے ذرا پہلے تک بھی مایوس تھے لیکن بارش آتے ہی خوش ہوگئے۔ بہر حال ! انسانی حالت کی بےثباتی کا اظہار ہے تھوڑی دیر میں مایوس اور تھوڑی دیر میں خوش۔