Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 23

سورة لقمان

وَ مَنۡ کَفَرَ فَلَا یَحۡزُنۡکَ کُفۡرُہٗ ؕ اِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ فَنُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۲۳﴾

And whoever has disbelieved - let not his disbelief grieve you. To Us is their return, and We will inform them of what they did. Indeed, Allah is Knowing of that within the breasts.

کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا ، بیشک اللہ سینوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن كَفَرَ فَلَ يَحْزُنكَ كُفْرُهُ ... And whoever disbelieves, let not his disbelief grieve you. means, `do not grieve over them, O Muhammad, because they disbelieve in Allah and in the Message you have brought, for their return will be to Allah and He will tell them what they used to do,' i.e., He will punish them for it. ... إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّيُهُم بِمَا عَمِلُوا ... ... To Us is their return, and We shall inform them what they have done. ... إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ Verily, Allah is the All-Knower of what is in the breasts. and nothing whatsoever is hidden from Him. Then Allah says:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔ 232یعنی ان کے عملوں کی جزا دے گا۔ 233پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] یعنی جو شخص آپ کی دعوت کی انکار کرتا ہے وہ سمجھتا کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا انکار کرکے تمہیں اور اسلام زک پہنچائی ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ دراصل اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس معاملہ میں افسردہ خاطر نہ ہونا چاہئے۔ آپ (صلی اللہ...  علیہ وآلہ وسلم) اللہ پر توکل کرکے اپنا دعوت کا کام کرتے جائیں۔ ان منکروں سے ہم نبٹ لیں گے۔ چند دن یہ اپنی سرکشی دکھا لیں اور مزے اڑا لیں۔ آخر انھیں ہمارے ہاں ہی آنا ہے۔ یہ ہماری گرفت سے بچ نہیں سکتے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهٗ ۔۔ : اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد اسلام کے ہر داعی کو تسلی دی ہے کہ جو شخص ہماری دعوت اور پیغام پہنچنے کے باوجود کفر پر اصرار کرتا ہے، آپ اس کے کفر کی وجہ سے غم زدہ نہ ہوں، آپ کا کام پیغام پہنچانا تھا، وہ آپ نے پہنچا دیا، اب انھوں ن... ے ہمارے پاس واپس آنا ہے تو ہم انھیں وہ سب کچھ بتائیں گے جو انھوں نے کیا۔ اس میں کفار کے لیے زبردست وعید ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ : کفار کا کفر کچھ علانیہ تھا کچھ دلوں میں پوشیدہ تھا، فرمایا، اللہ تعالیٰ کو سینوں کی بات کا پوری طرح علم ہے، وہ ان کی بھی جزا دے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا ہے مگر دل میں کفر رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا بھی خوب علم ہے، وہ خود ہی اس سے نمٹ لے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُہٗ۝ ٠ ۭ اِلَيْنَا مَرْجِعُہُمْ فَنُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ٢٣ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشر... یعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شخص قریش یا غیر قریش میں سے کفر کرے تو اے نبی کریم آپ کے لیے اس کا کفر باعث غم نہیں ہونا چاہیے اس کی ہلاکت اسی کے کفر میں ہے مرنے کے بعد ان سب کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے۔ سو ہم ان کو وہ سب جتائیں گے جو وہ دنیا میں کفر کی حالت میں کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ تو دلوں کی نیکی و برائی کا ذرہ تک جانتا...  ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43 This means to say, "O Prophet, the one who refuses to listen to you, thinks that by rejecting Islam and insisting on unbelief he has harmed you, but in fact he has not harmed you but harmed only himself. If he does not listen to you, you need not bother yourself about him at all. "

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :43 خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی ، جو شخص تمہاری بات ماننے سے انکار کرتا ہے وہ اپنے نزدیک تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام کو رد کر کے اور کفر پر اصرار کر کے تمہیں زک پہنچائی ہے ، لیکن دراصل اس نے اپنے آپ کو پہنچائی ہے ۔ اس نے تمہارا کچ... ھ نہیں بگاڑا ، اپنا کچھ بگاڑا ہے ۔ اگر وہ نہیں مانتا تمہیں پروا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:23) لایحزنک۔ فعل نہی واحد مذکر غائب ک ضمیر واحد مذکر حاضر ۔ حزن سے باب نصر۔ وہ تجھے رنج نہ پہنچائے۔ وہ تجھے غمگین نہ کرے۔ مرجعہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا لوٹنا۔ رجوع کرنا۔ فننبئہم۔ فاء ترتیب کا ہے۔ ننبی مضارع جمع متکلم ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ سو ہم ان کو ضرور بتلادیں گے۔ علیم بڑا دانا۔ ... خوب جاننے والا۔ علم سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ ذات الصدور۔ ایسی بات۔ امر جس کا تعلق سینوں سے ہو ، بمعنی راز۔ بھید۔ فکر ۔ علیم بذات الصدور۔ سینے کے اندر چھپی ہوئی باتوں کو جاننے والا۔ ذات ، ذو کا مؤنث ہے ہمیشہ بطور مضاف استعمال ہوتا ہے۔ نمتعھم۔ مضارع جمع متکلم تمتیع (تفعیل) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ۔ ہم ان کو فائدہ پہنچاتے ہیں (دنیاوی زندگی میں) متع مادہ اس سے متاع ہے۔ یعنی وہ سامان جو کام میں آتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ قلیلا۔ صفت مشبہ۔ کم (مدت کے لئے) تھوڑے (دنوں کے لئے) نضطرہم۔ مضارع جمع متکلم ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اضطرار (افتعال) مصدر۔ ضرر مادہ۔ باب افتعال میں کلمہ کی ت کو ط سے بدلا گیا ہے۔ الاضطرار کے اصل معنی کسی کو نقصان دہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں۔ ثم نضطرہم الی عذاب غلیظ پھر ہم ان کو عذاب شدید کی طرف مجبور کرکے لے جائیں گے۔ یا ان کو عذاب شدید بھگتنیکے لئے مجبور کردیں گے۔ نا چار کردیں گے۔ عذاب غلیظ۔ غلیظ غلظۃ سے صفت مشبہ ہے۔ سخت۔ شدید۔ الغلظۃ کے اصل معنی موٹاپا یا گاڑھا پن کے ہیں لیکن استعارہ کے طور پر بمونی سخت یا شدید میں استعمال ہوتا ہے مثلاً جاھد الکفار والمنفقین واغلظ علیہم (9:73) کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس نے کتاب اللہ کے ساتھ تمسّک کرنے سے انکار کردیا اس کا انجام بدترین ہوگا۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام اس فکر اور کوشش میں رہتے تھے کہ لوگ ہدایت پر گامزن ہو کر جہنم کی ہولناکیوں سے اپنے آپ کو بچالیں۔ لیکن لوگ ہدایت کی طرف آنے کی بجائے گمراہی کی طرف سرپٹ دوڑے...  جاتے تھے۔ جس پر آپ دل گرفتہ ہوجاتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور ڈھارس دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ ان کے کفرو شرک پر جمے رہنے سے آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ آپ کا کام حق بات پہنچانا ہے جس کا آپ حق ادا کر رہے ہیں منوانا آپ کا کام نہیں۔ جو لوگ حق کا انکار کرتے ہیں بالآخر انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے دنیا میں ہم ان کو قلیل فائدہ دیں گے اور پھر انہیں شدید عذاب کی طرف مجبور کردیں گے۔ دنیا کا فائدہ ہے آخرت کے مقابلے مدّت اور حیثیت کے اعتبار سے بالکل ہی قلیل ہے۔ جہنم کی طرف مجبور کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جہنمی جہنم کو دیکھ کر آہ وزاریاں کریں گے مگر ملائکہ ان کو ہانک کر اور کسی کو چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیں گے۔ مسائل ١۔ داعی کو لوگوں کے کفرو شرک پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ ٢۔ ہر کسی نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال ہی نہیں بلکہ ان کے دلوں کی حالت بھی جانتا ہیں۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن کفر فلا ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (23 – 24) ” ۔ “۔ وہ تو تھا انجام ان لوگوں کا جو اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے سپرد کردیں اور یہ ہے انجام ان لوگوں کا جو کفر اختیار ہی نہ دیں گے۔ ومن کفر فلا یحزنک کفرہ (31: 23) ” اور جو کفر کرتا ہے ، اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے “۔ ان کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ آپ جو سر... ور کونین ہیں ان کیلئے پریشان ہوں ۔ یہ تو بہت ہی حقیر و صغیر ہیں اور آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی زیادہ حقارت آمیز ہونے والا ہے۔ یہ اللہ کے قبضے میں ہیں۔ یہ اللہ سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ اللہ ان کو ان کے اعمال کے بدلے پکڑے گا ، وہ ہر شخص کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے ، خواہ ظاہر ہو یا خفیہ ہو ، یا اس کے سینے میں ہو یا اس کی نیت میں ہو۔ الینا مرجعھم ۔۔۔۔۔ بذات الصدور (31: 23) ” انہیں پلٹ کر آنا تو ہمارے ہی طرف ہے۔ پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ یقیناً اللہ سینوں میں چھپے ہوئے راز جانتا ہے “۔ زندگی کا سازوسامان جو انسان کو فریب دیتا ہے ایک مختصر عرصے کے لیے ہے اور نہایت ہی کم قیمت ہے۔ نمتعھم قلیلا ۔۔۔۔۔ عذاب غلیظ (31: 24) ” ہم انہیں تھوڑی مدت اس دنیا میں مزے کرنے کا موقعہ دے رہے ہیں ، پھر ان کو بےبس کرکے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے “۔ تھوڑے دن تو مزے کریں گے ، پھر خوفناک عذاب سے دو چار ہوں گے اور انہیں اس عذاب کی طرف دھکیل کرلے جایا جائے گا۔ عذاب کی تعریف میں غلیظ کا لفظ آیا ہے اور اس کے ذریعے عذاب کو مجسم کردیا گیا ہے۔ اور اضطرار کے معنی میں کفار کی بےبسی کا اظہار کیا گیا یعنی وہ اس عذاب سے اپنے آپ کو بچانہ سکیں گی اور نہ لیت و لعل کرسکیں گے۔ یہ تو تھا کافروں کا حال لیکن جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلے اور اپنے رخ کو اللہ کے سپرد کر دے اور سنجیدہ اور مطمئن ہوکر رب تعالیٰ کی طرف چل پڑے وہ نہایت ہی اعلیٰ مقام پر ہوگا بمقابلہ کافر کے۔ اب ان کو خود ان کی فطرت کی منطقی دلیل سے دو چار کردیا جاتا ہے ، جب ان کے سامنے یہ عظیم کائنات رکھ دی جاتی ہے اور سوال یہ ہے کہ آیا اس کا کوئی خالق ہے یا نہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہے کیونکہ ذات باری تو انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس کے سوا اس کائنات کی اور کوئی تعبیر ہی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ لوگ فطرت کی اس سادہ منطق سے بھی کجی اختیار کرتے ہیں اور اسے بھی بھلا دیتے ہیں حالانکہ اس سے اور کوئی قوی اور درست دلیل نہیں ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے ارشاد فرمایا کہ (وَ مَنْ کَفَرَ فَلَا یَحْزُنْکَ کُفْرُہٗ ) (جو شخص کفر کرے اس کا کفر آپ کو رنجیدہ نہ کرے) آپ اپنا کام کرتے رہیں اور واضح طور پر حق کو واضح فرماتے رہیں آپ کی اتنی ہی ذمہ داری ہے پھر آپ کسی کے کفر سے رنجیدہ کیوں ہوں ؟ ج... و شخص کفر پر رہے گا اپنا ہی برا کرے گا۔ (اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ فَنُنَبِّءُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا) (ہماری ہی طرف سب کو لوٹنا ہے سو وہ جو اعمال کرتے تھے ہم ان کو بتادیں گے) ہر ایک کا عمل سامنے آجائے گا پھر اس کے مطابق جزا سزا پائے گا۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) (بلاشبہ اللہ کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں) اسے اہل ایمان کے ایمان اور اہل کفر کے کفر کا پتہ ہے کسی کا کوئی عمل اور عقیدہ اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ومن کفر الخ، یہ معاندین کے لیے تخویف اخروی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ یعنی اگر مشرکین ضد وعناد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں تو اس سے آپ غمگین نہ ہوں قیام تکے دن یہ سب میرے سامنے حاضر ہوں گے تو میں ان کے تمام اعمال ان کے سامنے رکھوں گا میں تو ان کے دلوں کی باتیں بھی جانتا ہ... وں۔ تمتعہم قلیلا الخ۔ دنیا میں ان کو جو میں نے زندگی دے رکھی ہے یہ تو صرف چند روزہ ہے اس کے بعد انہیں چار و ناچار شدید ترین عذاب میں مبتلا ہونا ہے وہاں اپنے تمام کرتوتوں کی پوری پوری سزا پائیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23۔ اور جو شخص کفر و انکار کرتا ہے تو اس کا کفر اے پیغمبر آپ کو رنجیدہ نہ کرے ان سب کی بازگشت ہماری ہی طرف ہے اور ہماری ہی طرف ان سب کو لوٹنا ہے پھر ہم ان کو ان تمام اعمال کی حقیقت سے آگاہ کردیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں بیشک اللہ تعالیٰ سینوں کی تمام باتوں سے خوب واقف ہے اور جو شخص باوجود ان دلائل واضح... ہ اور ثابتہ کے پھر بھی کفر پر قائم ہے اور جما ہوا ہے تو آپ ایسے لوگوں پر غمگین نہ ہوں اور آپ کو ان کا کفر رنجیدہ نہ کرے چونکہ ان سب کو ہماری ہی سرکار میں واپس آنا ہے تو ہم ان کو وہ تمام باتیں بتادیں گے اور جتا دیں گے یہ جو دنیا میں کرتے رہے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں تک کی باتوں سے خوب واقف ہے اور جب کوئی بات حتیٰ کہ دلوں تک کی باتیں اس پر مخفی نہیں ہیں تو کوئی عمل خواہ کیسا ہی پوشیدہ یا ظاہر کیوں نہ ہو سب کا حساب ہوجائیگا اور اس کی سزا دی جائیگی اس لئے آپ کو کسی کا کفر رنجیدہ اور غمگین نہ کرے۔  Show more