Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 14

سورة السجدة

فَذُوۡقُوۡا بِمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ۚ اِنَّا نَسِیۡنٰکُمۡ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡخُلۡدِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴﴾

So taste [punishment] because you forgot the meeting of this, your Day; indeed, We have [accordingly] forgotten you. And taste the punishment of eternity for what you used to do."

اب تم اپنے اس دن کی ملاقات کے فراموش کر دینے کا مزہ چکھوِ ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا اور اپنے کئے ہوئے اعمال ( کی شامت ) سے ابدی عذاب کا مزہ چکھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا ... Then taste because of your forgetting the meeting of this Day of yours. means, it will be said to the people of Hell by way of rebuke: `taste this punishment because you denied it and believed that it would never happen; you tried to forget about it and acted as if you had forgotten it.' ... إِنَّا نَسِينَاكُمْ ... Surely, We too will forget you, means, `We will deal with you as if We have forgotten you,' but nothing escapes Allah's attention, and He makes the punishment fit the crime, as He says: الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَأءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا This Day We will forget you as you forgot the meeting of this Day of yours. (45:34) ... وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ so taste you the abiding torment for what you used to do. i.e., because of your disbelief and rejection, as Allah says in other Ayat: لااَّ يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْداً وَلااَ شَرَاباً إِلاَّ حَمِيماً وَغَسَّاقاً Nothing cool shall they taste therein, nor any drink. Except Hamim, and Ghassaq) until: فَلَن نَّزِيدَكُمْ إِلاَّ عَذَاباً No increase shall We give you, except in torment. (78:24-30)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141یعنی جس طرح تم ہمیں دنیا میں بھلائے رہے، آج ہم بھی تم سے ایسا ہی معاملہ کریں گے ورنہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تو بھولنے والا نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٦] یعنی تم دنیا کی دلفریبیوں میں اس قدر منہمک ہوئے کہ ہمیں کبھی بھولے سے بھی یاد نہ کیا۔ اور ساری عمر اللہ کی نافرمانیوں اور سرکشی میں گسار دی۔ اب جہنم میں پڑے رہو اور اپنے اعمال کی سزا بھگتو۔ ہماری طرف سے کسی طرح کے رحم اور مہربانی کی توقع نہ رکھو۔ ہم بھی تمہیں ابدالاباء تک یہیں جہنم میں پڑا رہنے دیں گے اور اسی طرح تمہیں بھلا دیں گے جیسے دنیا میں تم نے ہمیں بھلا رکھا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا : یعنی ان مجرموں سے کہا جائے گا کہ دنیا کے عیش میں گم ہو کر تم نے اس بات کو بالکل بھلا دیا کہ کبھی اپنے رب سے ملاقات بھی ہونی ہے، اب اس بھولنے کا مزا چکھو۔ آیت کے آخر میں اس مزے کی صراحت فرما دی کہ اپنے عمل کی وجہ سے ہمیشگی کا عذاب چکھو۔ اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ : یعنی جس طرح تم نے ہمیں بھلائے رکھا، آج ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا۔ انھیں ہمیشہ عذاب میں چھوڑے رکھنے کو نسیان کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بھولنا ممکن ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا : (لا یضل ربی ولا ینسی) [ طٰہٰ : ٥٢ ] ” میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ “ اور دیکھیے سورة طٰہٰ (١٢٤ تا ١٢٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۝ ٠ۚ اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٤ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اپنی اس بھول کا مزہ چکھو جس کی وجہ سے تم نے اقرار و عمل سب کو چھوڑ دیا تھا۔ ہم نے اب تمہیں دوزخ میں ڈال دیا اب اپنے کفر کی وجہ سے دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا ج) ۔ نظر انداز کرنے کی اس کیفیت کا یبان سورة المؤمنون میں اس طرح ہوا ہے : (قَالَ اخْسَءُوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ ) اللہ فرمائے گا : اب تم ذلیل و خوار ہو کر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 That is, "You became so absorbed in pleasure-seeking in the world that you totally forgot that you had to meet your Lord on this Day."

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :25 یعنی دنیا کے عیش میں گم ہو کر تم نے اس بات کو بالکل بھلا دیا کہ کبھی اپنے رب کے سامنے بھی جانا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:14) ذوقوا (ای یقول لہم اللہ۔ اللہ تعالیٰ سن سے کہیگا) ۔ فعل امر۔ جمع مذکر حاضر۔ ذوق مصدر (باب نصر) چکھنا۔ العذاب۔ عذاب بھگتنا۔ فذوقوا۔ پس (اب) چکھو (سزا) ۔ بما نسیتم لقاء یومکم ھذا۔ میں ب سببیہ ہے ما مصدریہ ہے ھذا یوم کی صفت ہے ذوقوا کا مفعول (العذاب) محذوف ای فذوقوا العذاب بسبب نسیانکم لقاء ھذا الیوم۔ یعنی آج کے دن کی ملاقات بھلا کر سبب سے عذاب کا مزہ چکھو۔ نسینکم۔ ماضی جمع متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ نسیان بھلا دینا۔ فراموش کردینا۔ یا ترک کردینا اور نظر انداز کردینا۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو ترک کرنے اور نظر انداز کرنے کے معنہ میں آئیگا کیونکہ بھولنا ایک انسانی عیب ہے اور ذات باری تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ انا نسینکم تحقیق ہم نے تمہیں نظر انداز کردیا ہے اور اپنی رحمتوں سے محروم کردیا ہے۔ عذاب الخلد۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمیشہ کا عذاب۔ بما۔ ب سببیہ ہے اور ما موصولہ ۔ بسبب ان (اعمال) کے (جو تم کرتے تھے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی رحمت سے محروم کردیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ فذوقوا الخ۔ چونکہ تم نے قیامت کے دن کو اور اس کے حساب کتاب اور جزا وسزا کو بھلا دیا تھا اور توحید اور اعمال صالحہ سے اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ اس لیے آج ہم نے بھی تمہیں عذاب میں چھوڑ دیا ہے۔ لہذا اب اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے دائمی عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14۔ سو جس طرح تم اپنے اس دن کے آنے کو بھولے رہے آج اس بھولنے کا مزہ چکھو ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا اور اپنے ان اعمال کی بدولت جو تم کیا کرتے تھے ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔ یعنی تم نے اس دن کی ملاقات اور قیامت کے دن کی پیشی کو بالکل فراموش کر رکھا تھا لہٰذا اب تم اس بھلانے کا مزہ چکھو ہم نے تم کو اپنی رحمت سے دورکر دیا اور ہم تم سے ایسا برتائوں کرینگے جسے کوئی بھولے ہوئے شخص کے ساتھ کرتا ہے۔ انا نسینکم بطور مجاز فرمایا ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت حق نسیاں سے پاک ہیں اور جو اعمال اور بدکرداریاں کرتے رہے ہو اس کے سبب سے عذاب دائم اور ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔ آگے مومنین کا ذکر اور ان کے نیک انجام کا ذکر فرمایا۔