Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 16

سورة السجدة

تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾

They arise from [their] beds; they supplicate their Lord in fear and aspiration, and from what We have provided them, they spend.

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ... Their sides forsake their beds, meaning, they pray the voluntary night prayer and forego sleep and resting on a comfortable bed. Mujahid and Al-Hasan said that the Ayah تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (Their sides forsake their beds),refers to voluntary night prayer. Ad-Dahhak said, "It refers to Salat Al-`Isha'...  in congregation and Salat Al-Fajr in congregation." ... يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا ... to invoke their Lord in fear and hope, means, in fear of His punishment and in hope of His reward. ... وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ and they spend out of what We have bestowed on them. means, they do both obligatory and supererogatory acts of worship. Their leader in this world and the Hereafter is the Messenger of Allah. Imam Ahmad recorded that Mu`adh bin Jabal said, "I was with the Messenger of Allah on a journey one morning, walking near him. I said, `O Prophet of Allah, tell me of a deed that will grant me admittance to Paradise and keep me away from Hell.' He said: لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّهَ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللهُ عَلَيْهِ تَعْبُدُ اللهَ وَلاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْيًا وَتُقِيمُ الصَّلَةَ وَتُوْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَيْت You have asked about something great, and it is easy for the one for whom Allah makes it easy. - Worship Allah and do not associate anything with Him, - establish regular prayer, - pay Zakah, - fast Ramadan and - perform pilgrimage to the House. Then he said: أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ الصَّومُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِىءُ الْخَطِييَةَ وَصَلَةُ الرَّجُلِ فِي جَوْفِ اللَّيْل Shall I not tell you of the gates of goodness? Fasting is a shield, charity wipes out sin, and the prayer of a man in the depths of the night. Then he recited: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِع (Their sides forsake their beds), until he reached جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (as a reward for what they used to do). Then he said: أَلاَ أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الاَْمْرِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ Shall I not tell you of the greatest of all things and its pillars and pinnacle? I said, `Of course, O Messenger of Allah.' He said: رَأْسُ الاْأَمْرِ الاْأسْلَأمُ وَعَمُودُهُ الصَّلَأةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله The greatest of all things is Islam, its pillars are the prayers and its pinnacle is Jihad for the sake of Allah. Then he said: أَلاَ أُخْبِرُكَ بِمَلَكِ ذلِكَ كُلِّهِ Shall I not tell you the factor on which all of that depends? I said, `Of course, O Messenger of Allah.' He took hold of his tongue and said, كُفَّ عَلَيْكَ هذَا Restrain this. I said, `O Messenger of Allah, will we be accountable for what we say?' He said, ثَكِلَتْكَ أُمُّكُ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ أَوْ قَالَ عَلى مَنَاخِرِهِمْ إِلاَّ حَصَايِدُ أَلْسِنَتهِم May your mother be bereft of you, O Mu`adh! Will the people be thrown into Hell -- (or he said) on their faces -- except because of what their tongues say. It was also recorded by At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Ibn Majah in their Sunans. At-Tirmidhi said, "It is Hasan Sahih."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل (تہجد) پڑھتے توبہ استغفار، تسبیح تحمید اور دعا الحاح وزاری کرتے ہیں۔ 162یعنی اس کی رحمت اور فضل و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب و غضب اور مؤاخذہ و عذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔ محض امید ہی امید نہیں رکھتے کہ عمل سے بےپرواہ ہوجائیں جیسے بےعمل اور بدعمل لوگوں کا شیوہ ... ہے اور نہ عذاب کا اتنا خوف طاری کرلیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے ہی مایوس ہوجائیں کہ یہ مایوسی بھی کفر و ضلالت ہے۔ 163یعنی انفاق میں صدقات واجبہ (زکوٰۃ) اور عام صدقہ و خیرات دونوں شامل ہیں، اہل ایمان دونوں کا حسب استطاعت اہتمام کرتے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٨] اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار لوگ دن بھر محنت کرکے رات کو دادعیش دیتے ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں قائم کرتے ہیں۔ شراب نوشی کے دور چلتے ہیں۔ سینما اور کلب گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹیوی پر ہی اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ اللہ کے بندے ان کے بر... عکس اپنا وقت اللہ کی یاد میں گزارتے ہیں۔ یہی ان کی تفریح طبع ہوتی ہے۔ وہ راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور جتنا وقت دنیا دار اللہ کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں اللہ کے بندے اس کی فرمانبرداری اور عبادت میں گزارتے ہیں۔ وہ عذاب جہنم سے ڈر کر اور جنت کی امید رکھ کر اللہ کو پکارتے ہیں یا عبادت تو اللہ کی رحمت اور مہربانی کی امید رکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کے اس عمل میں کچھ تقصیر نہ رہ جائے۔ اور وہ اللہ کے ہاں مقبول ہی نہ ہو۔ تاہم ان میں اللہ سے حسن ظن یا اس کی رحمت اور مہربانی کا پہلا ہی غالب رہتا ہے۔ اور یہ پہلو زندگی بھر غالب رہتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ && تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ عزوجل سے حسن ظن نہ رکھتا ہو && (مسلم۔ کتاب الجنۃ۔ باب الامر بحسن ظن باللہ تعالیٰ عند الموت) اگرچہ اس آیت سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس آیت میں بستروں سے الگ رہنے اور اللہ کو پکارنے سے مراد نماز تہجد ہے۔ جس کی احادیث میں بہت فضیلت مذکور ہے۔ تاہم بعض علماء نے اس سے صبح کی نماز مراد لی ہے۔ بعض نے عشاء کی اور بعض نے نماز مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل کی۔ تاہم راجح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو اولاً مذکور ہوئی۔ [ ١٩] اس سے مراد صرف مال حلال ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام مال کی نسبت کبھی اپنی طرف نہیں کی۔ نہ ہی ایسے مال سے صدقہ قبول کرتا ہے۔ اور خرچ کرنے بھی مراد عیاشیوں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ جائز طریقوں سے خرچ کرنا ہے خواہ وہ اپنی ذات پر وہ، اہل و عیال پر ہو، قرابتداروں اور دوسرے محتاجوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے پر ہو۔ اور اگر حلال مال سے دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق میسر نہیں ہوتی تو بھی حرام کمائی سے بہرحال بچنا چاہئے اس پر قناعت اور اللہ کا شکر کرنا چاہئے۔ اور اس میں سے خواہ بہت تھوڑا ہی سہی، کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کرنا چاہئے۔ کیونکہ غریبوں کو بھی تزکیہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بخل کے مرض سے ان کا بھی دل پاک ہونا چاہئے اسی لئے رسول اللہ نے فرمایا : آگ سے اپنا بچاؤ کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کرو && (بخاری۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب اتقوالنار۔۔ تمرۃ)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ۔۔ : یعنی وہ نماز اور ذکر الٰہی کی خاطر اپنے آرام دہ بستر اور لذیذ نیند چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اعلیٰ درجہ تہجد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ اٰخِذِيْنَ مَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰ... لِكَ مُحْسِنِيْنَ كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) [ الذاریات : ١٥ تا ١٨ ] ” بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انھیں دے گا، یقیناً وہ اس سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔ وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔ اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے۔ “ اس کے علاوہ بھی قیام اللیل کی فضیلت میں بہت سی آیات و احادیث آئی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا ہے ؂ یَبِیْتُ یُجَافِيْ جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بالْمُشْرِکِیْنَ الْمَضَاجِعُ ” وہ رات اس حال میں گزارتا ہے کہ اپنا پہلو اپنے بستر سے الگ رکھتا ہے، جب مشرکین کے بستر انھیں نہایت بوجھل کیے ہوتے ہیں۔ “ [ بخاري، التھجد، باب فضل من تعار من اللیل فصلّی : ١١٥٥ ] مگر یہاں ایک سوال ہے کہ یہ جو فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان صرف وہی لوگ لاتے ہیں جن میں یہ صفات پائی جائیں، تو کیا جو شخص تہجد نہ پڑھے اس کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بیشک ایمان کا اعلیٰ مرتبہ انھی لوگوں کا ہے جو فرائض کے علاوہ نفل قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ جو شخص مغرب کے بعد عشاء کے انتظار میں نہیں سوتا بلکہ عشاء جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے، پھر فجر کے وقت آرام دہ بستر اور میٹھی نیند چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے، وہ بھی اس فضیلت سے محروم نہیں رہتا۔ کیونکہ اس کا پہلو بھی نماز کی خاطر بستر سے جدا رہا ہے اور وہ سویا ہے تب بھی اس کے انتظار میں سویا ہے۔ عبدالرحمن بن ابی عمرہ کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان (رض) مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور اکیلے بیٹھ گئے، میں ان کے پاس جا بیٹھا تو انھوں نے کہا، بھتیجے ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے : ( مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیْلَ کُلَّہُ ) [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشاء و الصبح في جماعۃ : ٦٥٦ ] ” جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔ “ انس بن مالک (رض) زیر تفسیر آیت : (۞تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) کے بارے میں فرماتے ہیں : ( نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ الَّتِيْ تُدْعَی الْعَتَمَۃَ ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة السجدۃ : ٣١٩٦، و صححہ الألباني ]” یہ آیت اس نماز کے بارے میں اتری جسے عتمہ (عشاء) کہا جاتا ہے۔ “ اور ابو برزہ (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِیْثَ بَعْدَھَا ) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء : ٥٦٨ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ “ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا : یعنی وہ اپنے رب کی گرفت کے خوف اور اس کی رحمت کی امید کے ساتھ اسے پکارتے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ ان کے اعمال رد نہ کردیے جائیں اور امید بھی کہ وہ قبولیت کا شرف حاصل کرلیں گے۔ (دیکھیے مومنون : ٥٧ تا ٦١) نہ بےجا امید، جو بےعمل یا بد عمل بنا دیتی ہے اور نہ اتنا خوف جو اللہ کی رحمت سے مایوس کر دے اور آدمی کو کفر تک پہنچا دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض صوفیوں نے جو کہا : ” میرا دل چاہتا ہے کہ میں جہنم کو بجھادوں اور جنت کو جلا دوں، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کسی ڈر یا لالچ سے نہ کریں بلکہ محض اس کی رضا کے لیے کریں۔ “ اور بعض نے کہا : ” میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہوجائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے خواہ جہنم میں پھینک دے۔ “ یہ فضول باتیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفت ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، پھر یہ بھی ان لوگوں کی جہالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو جنت اور جہنم سے الگ کردیا، حالانکہ جنت اسے ملے گی جس پر وہ راضی ہوگا اور جہنم میں وہ جائے گا جس پر وہ ناراض ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی سے کہا : ( کَیْفَ تَقُوْلُ فِي الصَّلاَۃِ ؟ ) ” تم نماز میں کیا کہتے ہو ؟ “ اس نے کہا : ( أَ تَشَھَّدُ وَ أَقُوْلُ ، أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ ، أَمَا إِنِّيْ لَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَکَ وَلَا دَنْدَنَۃَ مُعَاذٍ ) ” میں تشہد پڑھتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ہاں ! میں آپ جیسی اچھی گنگناہٹ نہیں کرسکتا اور نہ معاذ جیسی گنگناہٹ کرسکتا ہوں۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( حَوْلَھَا نُدَنْدِنُ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب تخفیف الصلاۃ : ٧٩٢، و صححہ الألباني ] ” ہم بھی اسی کے گرد گنگنا رہے ہیں۔ “ تو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کی ساری تگ و دو جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے ہے، تو پھر ان سے بڑھ کر اللہ کی رضا چاہنے والا کون ہوگا۔ ہمارے ایک شاعر نے جو کہا ہے ؂ واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے او بیخبر ، جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے تو یہ اسی تصوف سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جس کی تعلیمات بنیادی طور پر اسلام ہی کے خلاف ہیں۔ اسلام نے تو ” رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ “ کہنے کی تعلیم دی ہے۔ مسلمانوں نے جہاد چھوڑ کر دنیا کفار کے سپرد کردی اور غلامی پر قانع ہوگئے، پھر عیش و عشرت میں پڑ کر عقبیٰ سے بھی گئے اور کچھ بےچارے راہبوں کی طرح رب کو راضی کرنے کے لیے دنیا کو چھوڑ کر خانقاہوں، جنگلوں اور کٹیاؤں میں ہُو، حق کے ورد کرتے رہے اور کفر کی یلغار اسلام اور مسلمانوں کو محکوم بناتی چلی گئی۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٣) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Before approaching verse 16: تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (Their sides remain apart from their beds. They call their Lord with fear and hope - 16), it should be borne in mind that disbelievers, Mushriks and the deniers of the day of Qiyamah were warned in the verses previous to it. After that, starting from: اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا ! (Onl... y those people believe in Our verses - 15) mentioned there are special attributes of sincere believers and the high ranks reserved for them. Pointed to in the cited verse is one such attribute of these believers: They leave the comfort of their beds, rise and get busy with the remembrance of Allah in submission and supplication - because, they are apprehensive of His displeasure and punishment while remaining hopeful of His mercy and reward. This very combination of fear and hope keeps them returning to Dhikr and Du&a& repeatedly, anxiously and animated at the same time. The Salah of Tahajjud The majority of commentators takes the expression denoting the leaving of beds and getting busy with Dhikr and Du&a& to mean the Salah of Tahajjud and Nawafil that are offered after rising from sleep (which is the saying of al-Hasan, Mujahid, Malik and al-Awza&i رحمۃ اللہ علیہم). And it is supported by narrations of Hadith as well. According to a report in the Musnad of Ahmad, at-Tirmidhi, an-Nasa&i and others, Sayyidna Mu` adh Ibn Jabal v narrates: &Once I was in the company of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on a journey. One morning during the course of the journey when I was near him, I requested: |"Y Rasulallah, tell me to do something which helps me enter Paradise and keeps me away from Hell.|" He said, |"You asked for something very difficult. But, for whomsoever Allah Ta’ ala makes it easy, for him it becomes easy.|" Then he said, |"This is what you should do: Worship Allah and associate no one with Him, and establish Salah, and pay Zakah, and keep the fasts of Ramadan, and perform the Hajj of Baytullah.|" And then he said, |"Here, now let me tell you about the gateways of righteousness: Fasting is a shield (that saves you from punishment). Sadaqah puts off the fire of one&s sins - so does one&s Salah in the middle of the night.|" And after having said that, he recited the cited verse of the Holy Qur&an: تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (Their sides remain apart from their beds - 16). Sayyidna Abu ad-Darda&, Qatadah and Dahhak (رض) have said that this attribute of sides remaining apart from beds also applies to those who make their Salah of ` Isha& with Jama` ah and then go on to make their Salah of Fajr with Jama` ah. And according to a narration of Sayyidna Anas (رض) appearing in Tirmidhi with sound chains of authority, this verse: تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ (Their sides remain apart) was revealed about people who do not sleep before the Salah of &Isha& and keep waiting for the Jama’ ah of ` Isha&. And according to some other reports, this verse is about people who offer nawafil between Maghrib and ` Isha& (reported by Muhammad Ibn Nasr). And about this verse, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said: People who would, on waking up, remember Allah - lying, sitting and on sides - are also included therein. Ibn Kathir and other Tafsir authorities have said that there is no contradiction in all these sayings. It is correct to say that this verse is inclusive of all - while the late night Salah remains the superior most. Bayan ul-Qur&an has also opted for this approach. And Sayyidah Asma& bint Yazid (رض) narrates: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &when Allah Ta’ ala will gather everyone from the first to the last, a proclaimer whose call will be heard by the entire creation will call: &This day everyone on the plains of Resurrection will find out as to who is really deserving of honor and compliment.& Then, the proclaiming angel will proclaim: &0 people assembled on the plains of Resurrection, let those rise from among you, those whose attribute was: تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ (Their sides remain apart from their beds - 16) &. At this call, these people will stand up, though their number will be small. (Ibn Kathir) And some words of the same narration say that these people will be sent to Paradise without reckoning. After that, all others will stand and face reckoning. (Mazhari)   Show more

(آیت) تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفاً وطمعاً ، سابقہ آیات میں کفار و مشرکین و منکرین قیامت کو تنبہات تھیں۔ اس کے بعد (انما یومن بایتنا) سے مومنین مخلصین کی خاص صفات اور ان کے لئے درجات عظیمہ کا ذکر ہے۔ ان مومنین کی ایک صفت آیت مذکورہ میں یہ بتلائی گئی ہے کہ ان کے پہلو اپنے بستروں سے الگ ہ... وجاتے ہیں، اور بستروں سے اٹھ کر اللہ کے ذکر اور دعا میں مشغول ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ کی ناراضی اور عذاب سے ڈرتے ہیں، اور اس کی رحمت اور ثواب کے امیدوار رہتے ہیں۔ یہی امید وبیم کی ملی جلی حالت ان کو ذکر و دعاء کیلئے مضطرب رکھتی ہے۔ نماز تہجد : بستروں سے اٹھ کر دعاء میں مشغول ہوجانے سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک نماز تہجد اور نوافل ہیں جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جاتی ہیں (ہو قول الحسن و مجد ومالک وزاعی) اور روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ مسند احمد، ترمذی، نسائی وغیرہ میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھا۔ ایک روز میں دوران سفر میں صبح کے وقت آپ کے قریب ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے ایک بڑی چیز کا سوال کیا مگر جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان کر دے اس کو وہ آسان ہوجاتی ہے۔ اور فرمایا کہ وہ عمل یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ اور پھر فرمایا کہ لو اب میں تمہیں خیر یعنی نیکی کے ابواب بتلا دیتا ہوں (وہ یہ ہیں کہ) روزہ ڈھال ہے (جو عذاب سے بچاتا ہے) اور صدقہ آدمی کے گناہوں کی آگ بجھا دیتا ہے، اسی طرح آدمی کی نماز درمیان شب میں۔ اور یہ فرما کر قرآن مجید کی آیت مذکورہ تلاوت فرمائی۔ (آیت) تتجافی جنوبہم عن المضاجع۔ حضر ابو الدرداء اور قتادہ اور ضحاک نے فرمایا کہ پہلوؤں کے بستروں سے الگ ہوجانے کی یہ صفت ان لوگوں پر بھی صادق ہے جو عشاء کی نماز جماعت سے ادا کریں پھر صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ اور ترمذی میں بسند صحیح حضرت انس سے روایت ہے کہ یہ تتجافی جنوبہم عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور جماعت عشاء کا انتظار کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل پڑھتے ہیں۔ (رواہ محمد بن نصر) اور حضرت ابن عباس نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ جو لوگ جب آنکھ کھلے اللہ کا ذکر کریں لیٹے، بیٹھے اور کروٹ پر بھی وہ اس میں داخل ہیں۔ ابن کثیر اور دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی تضاد نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ان سب کو شامل ہے۔ اور آخر شب کی نماز ان سب میں اعلیٰ و افضل ہے۔ بیان القرآن میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اور حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو قیامت کے روز جمع فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی کھڑا ہوگا جس کی آواز تمام مخلوقات سنیں گی وہ ندا دے گا کہ اہل محشر آج جان لیں گے کہ اللہ کے نزدیک کون لوگ عزت و اکرام کے مستحق ہیں۔ پھر وہ فرشتہ ندا دے گا کہ اہل محشر میں سے وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں جن کی صفت یہ تھی (آیت) تتجافی جنوبہم عن المضاجع یعنی ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوجاتے ہیں، اس آواز پر یہ لوگ کھڑے ہوں گے جن کی تعداد قلیل ہوگی (ابن کثیر) اور اسی روایت کے بعض الفاظ میں ہے کہ یہ لوگ بغیر حساب کے جنت میں بھیج دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد اور تمام لوگ کھڑے ہوں گے، ان سے حساب لیا جائے گا۔ (مظہری)  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝ ٠ ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝ ١٦ تتجافی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ تجافی ( تفاعل) مصدر سے جس کے معنی جگہ سے دور ہونے کے ہیں ۔ جگہ سے علیحدہ ہونا۔ الگ ہونا۔ کہتے ہیں۔ تجافی السرج عن ظھر الفرس۔ زین گھوڑے کی پیٹ... ھ سے ہٹ گئی۔ تجافی جنبہ عن الفراش اس کا پہلو بستر ست دور رہا۔ جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ المضاجع ۔ اسم ظرف مکان جمع۔ المضجع واحد ۔ خوابگا ہیں۔ بستر۔ تتجافی جنوبھم عن المضاجع۔ ان کے پہلو اپنے بستروں سے دور رہتے ہیں۔ بمصداق ؎ بہ نیم سب کہ ہمہ مست خواب خوش باشد من و خیال تو و نالہ ہائے درد آلود دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ طمع الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ. قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] ، ( ط م ع ) الطمع کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مومن خواب غفلت میں نہیں ہوتا قول باری ہے : (تتجافی جنوبھم عن المضاجع ۔ ان کے پہلو خوابگاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں) ہمیں عبدالللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ربیع ج زبانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے عاصم بن ابی النجود سے، انہوں نے ابو وائل سے انہوں نے حضرت معاذ (رض) بن ... جہیل سے آیت کی تفسیر میں روایت کی۔ وہ کہتے ہیں : ” میں ایک سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا ۔ سفر کے دوران میں ایک دن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آگیا اور عرض کیا۔ اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے جنت میں لے جانے اور جہنم کی آگ سے دور کردے۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے، تاہم اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے یہ بات آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ “ پھر فرمایا : ” میں تمہیں بھلائی کے دروازوں کی نشاندہی نہ کروں ؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کی آگ کو بجھادیتا ہے، نیزوہ نماز جو رات کو اٹھ کر ایک انسان ادا کرتا ہے۔ “ پھر آپ نے درج بالا آیت (جزاء بما کانوا یعملون) تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا : میں تمہیں تمام بھلائیوں کی جڑ۔ ان کے ستون اور ان کے کوہان کی چوٹی کی خبر نہ دوں ؟ “ میں نے عرض کیا ” اللہ کے رسول ! ضرور بتائیے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمام بھلائیوں کی جڑ اسلام، ان کا ستون نماز اور ان کے کوہان کی چوٹی جہادفی سبیل اللہ ہے۔ “ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتادوں جوان تمام امور کا سرا ہے ؟ “ میں نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ضرور بتائیے۔ “ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا : ” اسے اپنے قابو میں رکھو۔ “ میں نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم جو کچھ اپنی زبان سے کہتے ہیں کیا اس پر بھی ہمار گرفت ہوگی ؟ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : معاذ ! تمہاری ماں تمہیں گم کردے ! جہنم میں جو لوگ اوندھے منہ (یا یہ فرمایا ” یا نتھنوں کے بل “ ) گرائے جائیں گے وہ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصل کی بنا پر ہی تو گرائے جائیں گے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمہ سے کہ قتادہ نے آیت (ولا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین۔ ) کسی کو علم نہیں جو جو (سامان) آنکھوں کی ٹھنڈک کا ان کے لئے (خزانہ غیب میں) مخفی ہے کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کررکھی ہیں جن کا کسی آنکھ نے مشاہدہ نہیں کیا، نہ کسی کان تک ان کی خبر گئی اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال تک گزرا۔ ابواسحاق نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں ” ان لوگوں کے لئے جن کے پہلو، ان کی خوابگاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں ایسی نعمتیں ہیں جن کا کسی آنکھ نے مشاہدہ نہیں کیا، نہ کسی کان تک ان کی خبر گئی اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال تک گزرا۔ “ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی (فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرۃ اعین) ۔ مجاہد اور عطاء سے قول باری (تتجانی جنوبھم عن المضاجع) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد عشاء کی نماز ہے ۔ حسن سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان نفلیں پڑھا کرتے تھے۔ ضحاک نے قول باری (یدعون ربھم خوفا وطمعنا۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے رہتے ہیں) کہ تفسیر میں کہا ہے کہ وہ لوگ دعائوں میں اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور اس کی تعظیم بجالاتے ہیں۔ قتادہ نے کہا ہے ” وہ لوگ اپنے رب کو اس کے عذاب کے خوف سے اور اس کی رحمت کی امید کی بنا پر پکارتے رہتے ہیں، نیز اللہ نے انہیں جو رزق عطا کیا ہے اسے وہ اس کی طاعت میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان کے پہلو رات میں سونے کے بعد تہجد کی نماز کے لیے خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار کی پانچوں نمازوں کے ذریعے عبادت کرتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید سے اور اس کے عذاب کے خوف سے یا یہ مطلب ہے کہ جب تک یہ حضرات عشاء کی نماز نہیں پڑھ لیتے ان کے پہلو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اور جو...  کچھ ہم نے ان کو مال دیا ہے اس میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ شان نزول : تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (الخ) بزاز نے بلال سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے اور کچھ صحابہ کرام مغرب کی نماز کے بعد سے عشاء تک نماز پڑھنے میں مصروف رہتے تھے تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اس روایت کی سند میں عبداللہ بن شبیب ضعیف راوی ہیں اور امام ترمذی نے تصحیح کے ساتھ حضرت انس سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت عشاء کی نماز کے انتظار کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) سورۃ الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کے اس خاص معمول کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : (وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ) اور وہ لوگ راتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کرتے ہوئے۔ یعنی ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو ساری...  ساری رات غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کے یہ بندے ہیں جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں ‘ کبھی اس کے حضور قیام کر کے اور کبھی سجدے میں گر کر۔ (یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًاز) ایک طرف تو وہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کے بارے میں پر امید ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی کوتاہیوں پر پکڑے جانے کا خوف بھی انہیں لاحق رہتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, "They worship their Lord instead of enjoying sensuous pleasures at night. They are not like the world-worshippers, who seek entertainments in music and dancing, drinking and merry-making, in the night in order to get relief from the day's fatigue and labour and toil. Instead, when they are free from their day's work and duties, they devote themselves to the adoration of their Lord, spe... nd their nights in His remembrance, tremble out of fear of Him, and pin all their hopes on Him." "Who forsake their beds" dces not mean that they do not sleep at all at night, but that they spend a part of the night in Allah's worship. 28 In the original, rizq: lawful provisions. Unlawful provisions have nowhere been called rizq by Allah. The verse therefore means: They spend from whatever little or much of pure provisions We have given them; they do not overspend and do not grab unlawful wealth in order to meet their expenses.  Show more

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :27 یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان کا حال ان دنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دن کی محنتوں کی کلفت دور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں ۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے ... کہ دن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں ۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :28 رزق سے مراد ہے رزق حلال ۔ مال حرام کو اللہ تعالیٰ اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا ۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی رات کے وقت وہ نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس میں عشاء کی نماز بھی داخل ہے جو فرض ہے اور تہجد کی نماز بھی جو سنت ہے۔ 8: وہ اس بات سے ڈرتے بھی ہیں کہ ان کی عبادت میں جو قصور ہوا ہے، کہیں وہ نامنظور نہ ہوجائے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ اسے قبول فرما کر اجر و ثواب عطا فرمائ... ے۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت تہجد کی نماز کی شان میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور اس قول کی تائید بھی حضرت معاذبن جبل کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کو امام احمد ترمذی نسائی ابن ماجہ حاکم بیہقی نے روایت کیا ہے ترمذی اور حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ٣ ؎ ہے (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٥٩ ج ... ٣ و تفسیر الدر النثور ص ١٧٥ ج ٥۔ ) حاصل اس روایت کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت (رض) معاذ بن جبل سے چند نیک کاموں کا ذکر فرما کر پھر فرمایا کہ تہجد کی نماز تو ایسی چیز ہے جس کے ثواب کا بیان نہیں ہوسکتا اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی تفسیر ابن مردو یہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت بھی حضرت معاذبن جبل (رض) کی روایت کے موافق ہے ترمذی کی دوسری روایت جو انس بن مالک (رض) سے ہے اور مسند بزار کی حضرت بلال کی روایت جن دونوں روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ عشا کی نماز کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ان دونوں روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تہجد کی نماز اکثر لوگوں پر شاق ہے اسی طرح کچھ لوگوں پر تہکان اور نیند کے سبب سے عشا کی نماز بھی شاق ہے اس لیے عشا کی نماز کی شان میں بھی اس آیت کا مطلب پایا جاتا ہے اوپر یہ بیان ہوچکا ہے کہ ایک آیت کا مطلب جہاں جہاں صادق آتا تھا تو صحابہ (رض) کا یہ دستور تھا کہ ان سب حالتوں اور شکلوں کو اس آیت کی شان نزول قرار دیا کرتے تھے حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی صحیح روایت کی وجہ سے قوی شان نزول تودہی ہے جو جمہور مفسرین نے بیان کیا ہے باقی روایتوں اوراقوال مفسرین کا مطلب یہ ہے کہ اور نمازوں پر بھی آیت کا مضمون صادق آتا ہے۔ اوپر جن ایماندار لوگوں کا ذکر تھا کہ وہ قرآن کی نصیحت کا کان لگا کر سننے ہیں اور احکام الٰہی کے تابع ہیں یہ انہی کا ذکر فرمایا کہ جب اور لوگ آرام سے سوتے ہیں تو یہ لوگ اپنے چھونے کو خالی چھوڑ کر غذاب عقبیٰ کے حوف اور راحت عقبیٰ کی امید سے تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:16) تتجافی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ تجافی (تفاعل) مصدر سے جس کے معنی جگہ سے دور ہونے کے ہیں ۔ جگہ سے علیحدہ ہونا۔ الگ ہونا۔ کہتے ہیں۔ تجافی السرج عن ظھر الفرس۔ زین گھوڑے کی پیٹھ سے ہٹ گئی۔ تجافی جنبہ عن الفراش اس کا پہلو بستر ست دور رہا۔ جنوبھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ جنوب، جنب کی جمع۔ ان کے پہلو۔ ال... مضاھع۔ اسم ظرف مکان جمع۔ المضجع واحد ۔ خوابگا ہیں۔ بستر۔ تتجافی جنوبھم عن المضاجع۔ ان کے پہلو اپنے بستروں سے دور رہتے ہیں۔ بمصداق ؎ بہ نیم سب کہ ہمہ مست خواب خوش باشد من و خیال تو و نالہ ہائے درد آلود یدعون۔ مضارع جمع مذکر غائب دعاء و دعوۃ مصدر۔ دعا یدعوا۔ باب نصر، وہ پکارتے ہیں۔ ضمیر جنوبھم سے حال ہے خوفا وطمعا۔ دونوں ضمیر یدعون سے حال ہیں۔ خائفین من عذابہ وسخطہ وعدم قبول عبادتھم وطمعا فی رحمتہ اس کے عذاب اور غضب سے ڈرتے ہوئے اور اپنی عبادت کے عدم قبولت کے ڈر سے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے۔ ینفقون۔ مضارع جمع مذکر غائب انفاق (افعال) مصدر۔ وہ خرچ کرتے ہیں (نیکی کے کاموں میں) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی رات کو بیدار ہو کر یا رہ کر وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے اس سے رات کا قیام مراد لیا ہے اور علمائے تفسیر (رح) نے اس سے نماز عشاء اور تہجد بھی مراد لی ہے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت نماز عشاء کے بارے میں نازل ہوئی اور ہم عشاء کی نماز سے پہلے لیٹنے سے پرہیز کرتے ہیں... ۔ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی عشاء سے پہلے لیٹے اور عشاء کے بعد باتیں کرتے نہیں دیکھا اور ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدھی رات کے قیام کو خیر کا دروازہ قرار دیا ہے۔ ( ابن کثیر، شوکانی) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ کہ ایمان لانے والوں کی یہ صفات ہیں جن میں بعض تو نفس ایمان کا موقوف علیہ ہے اور بعض کمال ایمان کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے لوگ رات کے وقت اٹھ کر بھی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ نیک لوگوں کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف ضرور شامل ہوتا ہے کہ وہ ساری رات خراٹے لے کر نہیں سوتے جونہی سحری کا وقت قریب ہوتا ہے وہ نیند سے اچاٹ ہوتے ہیں اور اپنے نرم ونازک اور آرام دہ بستروں سے ا... ٹھ کر اپنے رب کے حضور خوف وطمع کی حالت میں فریادیں کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا جس کا کسی کے دل میں خیال بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ہوگا یہاں مومن کے دل کی کیفیت کا ذکر خوف اور طمع کے حوالے سے کیا گیا ہے مومن کی یہی حالت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے اعمال کی طرف نگاہ کرتا ہے تو اسے ” اللہ “ کی پکڑ کا خیال آتا ہے جس پر لرزاں وترساں ہوتا ہے جب اس کا خیال اللہ تعالیٰ کی بےکراں رحمت کی طرف جاتا ہے تو اس کی امید اپنے رب پر مضبوط ہوجاتی ہے اس کیفیت کی وجہ وہ عسر، یسر میں اپنے عزیز و اقرباء اور مساکین پر خرچ کرتا ہے۔ (عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ اأنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض) ، اِشْتَکٰی فَدَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَعُوْدُہٗ فَقَالَ کَیْفَ تَجِدُکَ یَا عُمَرُ ؟ فَقَالَ اأرْجُوْ وَأَخَافُ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا اجْتَمَعَ الرَّجَاءُ وَالُخَوْفُ فِیْ قَلْبِ مَؤْمِنٍ إِلَّا اأعْطَاہ اللّٰہُ الرَّجَاءَ وَأَمِنَہُ الْخَوْفَ ) [ رواہ البیھقی : باب فی الرجاء من اللہ تعالیٰ ] ” سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) بیمار ہوگئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عمر ! اپنے آپ کو کیسے محسوس کررہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا مجھے امید بھی ہے اور خوف بھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کے دل میں امید اور خوف دونوں حالتیں نہیں جمع ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اس کی امید پوری کردیتے ہیں اور اسے خوف سے محفوظ فرمالیتے ہیں۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا اِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں ‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ان کے بارے میں کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔ “ نماز تہجد کی فضیلت : عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنیٰ ہوتا ہے ” زائد چیز “۔ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد “ سے نکلا ہے۔ جس سے مراد ” نیند کے بعد بیدار ہونا “ ظاہر ہے یہ کام ہمّت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے جہد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجد کچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے پیش نظر رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کہیں نیند کی غفلت میں پرنور لمحات گذر نہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقر و حاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے پانی سے اس طرح اپنی ردائے حیات کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع و سجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اگر وہ خوردو نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ تہجد گزار بندوں کی اس طرح تعریف فرماتا ہے۔ (تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلْنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرْنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ ) [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتا ہے : کون ہے جو مجھ سے طلب کرے کہ میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔ “ تفصیل کے لیے دیکھئے : (میری کتاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تہذیب و تمدن اور فہم القرآن جلد ٣ صفحہ نمبر : ٩٢٩۔ ٩٣٠) صدقہ کی فضیلت : (اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِےْتَۃَ السَّوْءِ ) (مشکوۃ : باب فضل الصدقۃ) ” صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] (مَامِنْ مُّسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَکَلَ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ دَآبَّۃٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب ] ” جس مسلمان کے کھیت سے کسی انسان یا جانورنے دانہ کھایا اسے بھی صدقہ کا ثواب ملے گا۔ “ (کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِيْ دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مََتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلٰوۃِ صَدَقَۃٌ وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر ] ” روزانہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے کسی آدمی کو سواری کے لیے سواری دے دینا یا کسی کے سامان کو سواری پر رکھ لینا صدقہ ہے اور اچھی بات کہناصدقہ ہے۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے ہر قدم کا بدلہ صدقہ ہے اور کسی کو راستہ بتلانا صدقہ ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے خوف اور اس کی رحمت کی طلب میں رات کے وقت اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کے حضور قیام کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے بھی ہیں اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔ ٣۔ اللہ کے بندے عسر، یسر میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جس کا خیال کسی کے دل میں نہیں آسکتا۔ تفسیر بالقرآن نماز تہجد اور صدقہ کی فضیلت : ١۔ نماز کی پابندی کیجئے دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بھی بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ( العنکبوت : ٤٥) ٢۔ صدقہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١) ٥۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٦۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٧۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٨۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نماز تہجد کی فضیلت (تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ ) سے نماز تہجد مراد ہے جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، صاحب معالم التنزیل (جلد ٣) فرماتے ہیں کہ یہ اشہر الاقوال ہے اور اس کی تائید میں حضرت معاذ بن جبل (رض) سے ایک روایت بھی نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سفر میں ساتھ چلتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول...  اللہ مجھے ایسا عمل بتائیے جس کے ذریعہ جنت میں داخل ہوجاؤں اور دوزخ سے دور رہ سکوں، سید دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم نے بہت بڑی چیز کا سوال کیا اور حقیقت میں کچھ بڑی بھی نہیں، جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان فرما دیں، اس کے لیے بیشک ضرور آسان ہے، اس کے بعد فرمایا کہ (وہ عمل یہ ہے کہ) تو اللہ کی عبادت کر اور کسی کو اس کا شریک نہ بنا اور نماز قائم کر اور زکوٰۃ ادا کر اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کر، پھر فرمایا کہ کیا تم کو خیر کے دروازے نہ بتادوں ؟ (سنو ! ) روزہ ڈھال ہے (جو نفس کی شہوتوں کو توڑ کر شیطان کے حملہ سے بچاتا ہے) اور صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے (یعنی گناہوں کی وجہ سے جو دوزخ کی آگ جلائی ہے اس سے محفوظ کردیتا ہے گویا کہ اس آگ کو بجھا دیتا ہے) اور انسان کا رات کے درمیان نماز پڑھنا (تہجد کے وقت) نیک بندوں کا امتیازی نشان ہے، اس کے بعد سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (جس میں تہجد پڑھنے والوں کی تعریف کی گئی ہے) (تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (ان کی کروٹیں (بستر سے چھوڑ کر) لیٹنے کی جگہوں سے جدا ہوتی ہیں، وہ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں سو کسی شخص کو خبر نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے لیے چھپا دیا گیا ہے یہ خزانہ ان کو ان کے اعمال کا صلہ ملا ہے) پھر فرمایا کہ تم کو احکام الٰہیہ کی جڑ اور اس کا ستون اور اس کی چوٹی کا عمل نہ بتادوں ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا احکام الٰہیہ کی جڑ فرمانبرداری ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور چوٹی کا عمل جہاد ہے۔ پھر فرمایا کیا تم کو ان سب کا جزو اصلی نہ بتادوں (جس کو عمل میں لانے سے ان سب چیزوں پر عمل کرسکو گے) میں نے عرض کیا یا نبی اللہ ضرور ارشاد فرمائیے ! آپ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا اسے قابو میں رکھ کر اپنی نجات کا سامان کرو میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! جو باتیں ہم بولتے ہیں کیا ان پر بھی پکڑ ہوگی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ ! تم بھی عجیب آدمی ہو ! دوزخ میں منہ کے بل اوندھے کرکے جو چیز لوگوں کو دوزخ میں گرائے گی وہ ان کی زبان کی باتیں ہی تو ہوں گی۔ پھر فرمایا تم جب تک خاموش رہتے ہو محفوظ رہتے ہو اور جب بولتے ہو تو تمہارا بول تمہارے لیے ثواب یا عذاب کا سبب بنا کر لکھ دیا جاتا ہے۔ صاحب معالم التنزیل نے یہ حدیث اپنی سند سے ذکر کی ہے اور صاحب مشکوٰۃ المصابیح نے ص ١٤ پر مسند احمد اور سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ سے نقل کی ہے، خوابگاہوں سے پہلو جدا ہوتے ہیں اس کا مصداق نماز تہجد بتا کر صاحب معالم التنزیل نے دیگر اقوال بھی نقل کیے ہیں، حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی، یہ حضرات مغرب کی نماز پڑھ کر ٹھہر جاتے تھے اور جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عشاء کی نماز نہ پڑھ لیتے تھے گھروں کو نہیں جاتے تھے حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت ان صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی جو مغرب کی نماز کے بعد عشاء تک برابر نماز پڑھتے رہتے تھے، اور حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابوذر اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت میں ان حضرات کی تعریف فرمائی ہے جو عشاء اور فجر جماعت سے پڑھتے ہیں۔ (معالم التنزیل جلد ٣ ص ٥٠٠) در حقیقت ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے البتہ صلوٰۃ اللیل یعنی نماز تہجد کا مصداق ہونا متبادر ہے اور حدیث شریف سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، البتہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب نماز تہجد کے لیے خوابگاہ چھوڑنے کی فضیلت ہے جو نفل نماز ہے تو نماز فجر کے لیے گرمی اور سردی میں بستر چھوڑ کر نماز فجر ادا کرنے کی فضیلت کیوں نہ ہوگی جو فرض نماز ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر میں نماز فجر جماعت سے پڑھ لوں تو یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے جو پوری رات نماز میں کھڑا رہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح) حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کو ایک ہی میدان میں جمع کیا جائے گا (اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ایک منادی پکار کر کہے گا کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو خوابگاہوں سے جدا ہوجاتے تھے، یہ سن کر کچھ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جن کی تعداد تھوڑی ہوگی یہ لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد باقی لوگوں کا حساب شروع کرنے کا حکم ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٨٧)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ تتجافی الخ۔ یہ بھی ان مومنین کاملین کی صفت ہے کہ وہ میٹھی اور پرسکون نیند پر اللہ کی عبادت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جمہور کے نزدیک اس سے نماز تہجد مراد ہے۔ التنفل باللیل قالہ الجمہور من المفسرین وعلیہ اکثر الناس (ایضا ص 100) ۔ یدعون ربھم الخ، ان کاملین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر اور...  اس کی رحمت کی امید میں دن رات اپنی حاجات و مشکلات میں صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16۔ ان کے پہلو اپنی خواب گاہوں سے اس طور پر علیحدہ رہتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار کو عذاب کے ڈر سے اور رحمت کی امید سے پکارتے رہتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خیرات کیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ مخلص مومن رات کے حصے میں اپنے بچھونوں اور خواب گاہوں کو چھوڑ کر عبادت میں مصروف ہوتے ہیں اور اللہ ... تعالیٰ کے خوف یعنی اس کے عذاب کے خوف سے اور اس کی رحمت اور ثواب کی امید اور لالچ سے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اس سے مراد عشاء اور صبح کی نماز ہے یا تہجد کی نماز ہے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے انفاق فی سبیل اللہ کیا کرتے ہیں ۔ سونے کی جگہ کو مضجع کہتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ نرم بچھونوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کو چھوڑ کر کھڑاہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لگ جاتا ہے اور اس کو کبھی خوف سے اور اس کے عذاب کے ڈر سے پکارتا ہے اور کبھی اس کی رحمت اور ثواب کی امید سے پکارتا ہے۔ ابن رواحہ کے قصیدے میں ہے جو اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں لکھا ہے۔ ؎ یبیت یجا فی جنبہ عن فراشہ اذا استثقلت بالکفافرین المضاجع یعنی جب رات کو کافر اپنے بچھونوں پر بھاری اور بوجھل بنے ہوئے پڑے رہتے ہیں تو یہ پیغمبر اس طرح رات گزارتا ہے اور اس کا پہلو اپنے بچھونے کو خالی کردیتا ہے گویا آپ شب بھر عبادت الٰہی میں گزارتے ہیں اور کافر پر سے سویا کرتے ہیں۔ ؎ بہ نیم شب کہ ہمہ مست خواب خوش باشند من و خیال نود نالہائے درد آلود حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک پکارنے والا ایسی آواز سے پکارے گا جس کو تمام خلائق سنے گی وہ کہے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں جن کے پہلو اپنے بچھونوں سے علیحدہ رہتے تھے یعنی شب میں نماز پڑھنے والے وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے وہ تھوڑے ہوں گے، پھر آواز دے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جو مصیبت اور درد میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کیا کرتے تھے اس پر کچھ اور تھوڑے لوگ کھڑے ہوجائیں گے ان دونوں گروہوں کو اکٹھا کر کے جنت میں بھیج دیا جائے گا اس کے بعد لوگوں کا حساب شروع ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ سے لالچ بری نہیں نہ اس سے ڈر اور اس واسطے بندگی کرتے تو قبول ہے لالچ اور ڈر دنیا کا ہو یا آخرت کا اور اگر کسی اور کے خوف ورجا سے بندگی کرلے تو ریا ہے کچھ قبول نہیں ۔ 12  Show more