Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 26

سورة السجدة

اَوَ لَمۡ یَہۡدِ لَہُمۡ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ یَمۡشُوۡنَ فِیۡ مَسٰکِنِہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ ؕ اَفَلَا یَسۡمَعُوۡنَ ﴿۲۶﴾

Has it not become clear to them how many generations We destroyed before them, [as] they walk among their dwellings? Indeed in that are signs; then do they not hear?

کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کےمکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں اس میں تو ( بڑی ) بڑی نشانیاں ہیں ، کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Learning the Lessons of the Past Allah says; أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْقُرُونِ ... Is it not guidance for them: how many generations We have destroyed before them Allah says: will these people who deny the Messengers not learn from the nations who came before them, whom Allah destroyed for their rejection of His Messengers and their opposition to what the Messengers brought them of the straight path. No trace is left of them whatsoever. هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً Can you find a single one of them or hear even a whisper of them. (19:98) Allah says: ... يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ... in whose dwellings they do walk about, meaning, these disbelievers walk about in the places where those disbelievers used to live, but they do not see any of those who used to live there, for they have gone -- كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَأ As if they had never lived there. (11:68) This is like the Ayat: فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُواْ These are their houses in utter ruin, for they did wrong. (27:52) فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَبِيْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ And many a township did We destroy while they were given to wrongdoing, so that it lie in ruins, and (many) a deserted well and lofty castle! Have they not traveled through the land! until: وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ but it is the hearts which are in the breasts that grow blind. (22:45-46) Allah says here: ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ ... Verily, therein indeed are signs. meaning, in the fact that these people are gone and have been destroyed, and in what happened to them because they disbelieved the Messengers, and how those who believed in them were saved, there are many signs, proofs and important lessons. ... أَفَلَ يَسْمَعُونَ Would they not then listen! means, to the stories of those who came before and what happened to them. The Revival of the Earth with Water is Proof of the Resurrection to come Allah says;

دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ کا خط کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ وبالا کردیا ہے ۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے ۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بےپرواہی کی ۔ اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں ۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے ۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لئے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں ۔ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا ؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے ناآشنا ہیں ۔ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف وکرم کو احسان وانعام کو بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے ۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے ۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے ۔ گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے ۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہوگئے ہوں زمین یبوست ( خشکی ) کے مارے پھٹنے لگی ہو ۔ بیشک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے ۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتاجاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہرسال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے ۔ اس حکیم وکریم منان ورحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں ۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا ۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلاکر رضامند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اسکا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں ۔ سپہ سلار اسلام حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر نے جواب دیا کہ یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کرسکتے ۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہنیہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا ۔ لوگ تنگ آکر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں ۔ یہاں کی بود وباش ترک کردیں اب فاتح مصر کو خیال گذرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں ۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے بندے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف ۔ بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد وقہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کردے ۔ یہ پرچہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا ۔ ابھی ایک رات بھی گذرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی ۔ خط کے ساتھ ہی خطہ کا خطہ سرسبز ہوگیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا ۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا ۔ ( کتاب السنہ للحافظ ابو القاسم اللالکائی ) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے ( فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ 24؀ۙ ) 80-عبس:24 ) یعنی انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جرز وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ زمین یمن میں ہے حسن فرماتے ہیں ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں ۔ ابن زید وغیرہ کا قول ہے یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو ۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ 33؀ ) 36-يس:33 ) ان کے لئے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کردیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261یعنی پچھلی امتیں جو جھٹلانے اور عدم ایمان کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ آج ان کا وجود دنیا میں نہیں، البتہ ان کے مکانات ہیں جن کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں۔ مطلب اس سے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی یہی ہوسکتا ہے، اگر ایمان نہ لائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٨] قوم عاد، قوم ثمود اور قوم شعیب عرب سے ہی تعلق رکھنے والی قومیں تھیں۔ یہ سب تباہ ہوئیں اور اہل عرب ان کے کھنڈرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی تھے اور ان اقوام کے حالات زندگی اپنے بزرگوں سے سنتے بھی تھے۔ پھر بھی ان سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ ۔۔ : یہ بات مشرکین عرب کے متعلق فرمائی کہ کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا، جن کے تباہ شدہ کھنڈرات اب بھی باقی ہیں، جن میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں اور ان کی ویرانی ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ مراد عرب میں آنے والے پیغمبروں کی امتیں ہیں، یعنی قوم عاد، ثمود اور اہل مدین وغیرہ۔ اہل عرب ان کے کھنڈرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور ان اقوام کے حالات زندگی اپنے بزرگوں سے سنتے بھی تھے، پھر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے تھے، اس لیے فرمایا : (اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ ) تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں کہ پیغمبروں کی نافرمانی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ۝ ٠ ۭ اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ۝ ٢٦ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ كم كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن/ 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة . کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ کے سامنے اس چیز سے بھی وضاحت نہیں ہوئی کہ ہم ان سے پہلے کتنی امتوں کو عذاب نازل کر کے ہلاک کرچکے ہیں۔ مثلا قوم شعیب، قوم صالح اور قوم ہود، جن کے رہنے کے مقامات میں لوگ آتے جاتے ہیں۔ یہ جو ہم نے ان قوموں کے ساتھ معاملہ کیا اس میں بعد والوں کے لیے صاف صاف نشانیاں ہیں۔ کیا یہ لوگ پھر بھی اس ذات کی اطاعت نہیں کرتے جو ان کے ساتھ یہ معاملہ کرنے پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِہِمْ ط) ۔ قریش کے قافلے اپنے سفر شام کے دوران میں قوم ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتے تھے اور یہاں یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِہِمْ کے الفاظ میں دراصل اسی طرف اشارہ ہے۔ یعنی یہ لوگ ان بستیوں کی تباہی کی خود تصدیق کرچکے ہیں۔ حال ہی میں کچھ برطانوی محققین نے بحر مردار (Dead Sea) کے ساحل کے ساتھ پانی کے نیچے قوم لوط کی بستیوں کے آثار کی نشان دہی کر کے اس بارے میں تورات اور قرآن کے بیانات کی تصدیق کی ہے۔ ان بستیوں کے بارے میں میرا خیال یہی تھا کہ وہ سمندر کے اندر آچکی ہیں اور متعلقہ سمندر کو شاید Dead Sea کا نام بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ اس کے نیچے ان شہروں کے باسیوں کی اجتماعی قبریں ہیں۔ مستقبل میں سائنس کی ترقی کے باعث قرآن میں دی گئی اس نوعیت کی بہت سی معلومات کے حوالے سے مزید انکشافات کی بھی امید ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 That is, "Have they not learnt any lesson froth this continuous experience of history that to whichever nation a Messenger came, the decision of its destiny became dependent upon the attitude it adopted with regard to him? If it rejected its Messenger, it could not escape its doom. The only people to escape were those who believed in the Messenger. Those who disbelieved became an object of warning for ever and ever."

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :39 یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا ۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے ۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے ۔ انکار کر دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامان عبرت بن کر رہ گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: مثلاً قوم ثمود کی بستیوں سے عرب کے لوگ بکثرت گذرا کرتے تھے، اور ان کے مکانوں کے کھنڈرات میں چلتے پھرتے بھی نہ تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦ تا ٢٨۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ یہ مشرک اللہ کے رسول کو جھٹلانے والے اتنا نہیں سمجھتے کہ رسولوں کے جھٹلانے کے جرم میں ان سے پہلے کتنی قو میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئیں ملک شام اور یمن کے سفر میں جن کی اجڑی ہوئی بستیاں یہ لوگ دیکھ چکے ہیں جس میں ان کے لیے ان رسولوں کے جھٹلانے والوں کے ہلاک ہونے اور ایمان والوں کے نجات پانے میں بہت سی نشانیاں اور نصیحتیں ہیں کیا یہ لوگ ان اجڑی ہوئی قوموں کا انجام نہیں سنتے اور عبرت نہیں پکڑتے پھر فرمایا کیا یہ نہیں دیکھا ان لوگوں نے کہ ہم ہانک لے جاتے ہیں پانی کی خشک زمین پر اور نکالتے ہیں بہ سبب اس پانی کے چارا اور غلہ اور پھل کہ ان کے جانور اور یہ خود کھاتے ہیں تو کیا وہ ان نعمتوں کا شکر نہیں کرتے اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے کیوں کہ وہ پروردگار ان سب چیزوں کے پیدا کرنے میں اکیلا ہے کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہے اس لیے اس کی عبادت میں بھی شریک ٹھہرانے کسی کو حق نہیں ہے پھر فرمایا کہ وہ مشرک مسلمانوں سے کہتے ہیں کب ہے یہ فتح تم کو ہم پر سچے ہو تو بتلاؤ۔ اس فتح سے مقصد قیامت کا دن ہے چناچہ اس کا ذکر آگے آتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ شرک اور حشر کا انکار اللہ کے رسول کو جھٹلانا غرض جو جو عادتیں اہل مکہ میں تھیں قوم نوح سے لے کر قوم فرعون تک ان ہی عادتوں کی وہ قومیں گزری ہیں جو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئیں اس لیے قرآن شریف میں ان اجڑی ہوئی قوموں کے قصے جگہ جگہ ذکر کئے گئے ہیں تاکہ اللہ مکہ کو عبرہو اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت ان مشرکوں میں کے بڑے بڑے سرکشوں پر دنیا اور دین کے عذاب کی مفت جو آئی اس کا قصہ انس بن مالک (رض) کی صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث کے حوالہ سے اور مکہ کے قحط کا قصہ صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث کے حوالہ سے سے یہ بھی گزر چکا ہے کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مہینہ برسے گا جس سے سب مرے ہوئے لوگوں کے جسم تیار ہوجاویں گے پھر ان میں روحیں پھونک دی جاویں گی اور حشر قائم ہوجاوے گا۔ قرآن شریف میں کھیتی کی مثال سے ایک تو مشرکوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت جتلائی گئی ہے جس کا ذکر اوپر گذرا دوسرے ان کے حشر کے انکار کو بےاصل ٹھہرایا گیا ہے کہ جس طرح اب مینہ کے پانی کے اثر سے ہر سال طرح طرح کی پیدا وار زمین سے نکل آتی ہے اسی طرح ایک مینہ کے پانی کے اثر سے ان منکرین حشر کے جسم زمین میں سے حشر کے دن نکل آویں گے اور ان میں روحیں پھونک دی جاویں گی خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح زمین میں سے ہر ایک طرح کی پیدا وار کے نکلنے میں انسان کی عقل کو کچھ دخل نہیں ہے یہی حال حشر کا ہے پھر زمین کی پیدا وار کا حال آنکھوں سے دیکھ کر حشر کا انکار کرنا اور اس میں عقلی حجتوں کو دخل دنیا بڑی نادانی ہے :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:26) اولم یہد۔ الف استفہامیہ واؤ عاطفہ لم یھد نفی جحد بلم اس میں فاعل اللہ کی طرف راجع ہے جس کا ذکر آیہ ماسبق ان ربک میں ہے اور جس کی تائید زید کی قرأت ولہم نھد لہم (کیا ہم نے ان کو راہ ہدایت نہ دکھائی) سے بھی ہوتی ہے۔ بعض نے ضمیر فاعل کا مرجع جملہ مابعد کم اہلکنا من قبلہم من القرون کو لیا ہے۔ تقدیر کلام ہوگی اولم یھدلہم کثرۃ اہلاکنا القرون الماضیۃ کیا متعدد گزشتہ قوموں کی ہلاکت ان کی ہدایت کا باعث نہ بن سکی۔ یا کیا متعدد گذشتہ قوموں کی ہلاکت نے ان کو راہ ہدایت نہ دکھائی۔ لہم۔ اس میں ضمیر جمع مذکر غائب اہل مکہ کی طرف راجع ہے۔ کم ۔۔ من القران : کم استفہام کے لئے آتا ہے کتنی تعداد۔ کتنی مقدار ۔ کتنی دیر۔ اس کی تمیز ہمیشہ مفرد منصوب ہوتی ہے مثلا کم درھما کتنے درہم۔ لیکن یہاں کم خبر یہ آیا ہے جو مقدار کی بیشی اور تعداد کی کثرت کا ظاہر کرتا ہے اس کی تمیز مجرور آتی ہے ۔ کم قریۃ۔ کتنی ہی بستوں کو۔ یعنی بہت بستیوں کو۔ کبھی تمیز سے پہلے من آتا ہے جیسے کم من فئۃ کتنے ہی گروہ۔ یعنی بہت سے گروہ۔ کم من القرون۔ کتنی ہی قومیں۔ یعنی بہت سی قومیں۔ القرون جمع ہے القرن کی بمعنی قوم جو ایک خاص زمانہ کے متعلق ہو۔ القرون وہ قومیں جن میں سے ہر ایک کا زمانہ دوسری سے جدا ہو۔ یمشون مضارع جمع مذکر غائب مشی مصدر۔ وہ چلتے ہیں۔ ضمیر فاعل کا مرجع لہم کی ضمیر کے مطابق اہل مکہ ہی ہیں۔ مسکنہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کے مکان۔ ان کے مسکن۔ ان کی سکونت کے مقامات ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع القرون ہے۔ یعنی ان ہلاک شدہ قوموں کے دیار۔ (جو برباد پڑے ہیں۔ اور یہ اہل مکہ شام و یمن آتے جاتے ہوئے ان میں سے گزرتے ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اپنے سفروں میں آتے جاتے ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اور ان میں پائے جانے والے عذاب دیکھتے ہو مگر ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’ یمشون “ میں ھم کی ضمیر ہلاک ہونے والوں کے لیے ہو یعنی ان کو ہلاک کیا اس حال میں کہ وہ اپنے گھروں میں چل پھر رہے تھے۔ ( شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی نشانیاں مبغوضیت کفر کی موجود ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق اور انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کرنے والوں کا انجام۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کرنے والے فرعون، ہامان، قارون اور ان کے ساتھیوں کا کیا انجام ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ جن لوگوں نے اختلاف کیا ان کا حشر دیکھنا چاہو تو دنیا کی تاریخ پڑھو اور چل پھر کر ان کے مقامات دیکھو۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن کے اقتدار کا پھریرا چار سو لہرا رہا تھا۔ رب ذوالجلال کا حکم نازل ہوا تو ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا۔ قوم عاد، قوم صالح اور قوم مدین عرب کے علاقہ میں شامل تھیں۔ مکہ والے تجارت کے لیے سفر کرتے تو ان کے کھنڈرات سے گزرتے تھے۔ ان کے واقعات میں عبرت کے بہت سے اسباق ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے اور نصیحت پانے کے لیے سنتے ہیں۔ قرن سے مراد کسی قوم کے اقتدار کا دورانیہ، ایک نسل یا ایک صدی شمار کیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ تباہ ہونے والی اقوام اپنے سے بعد والی اقوام کے لیے نشان عبرت ہیں۔ ٢۔ قوموں کے انجام میں عبرت پنہاں ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اقوام کی تباہی : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ : ٥) ٥۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ : ٦) ٦۔ (آل فرعون کو سمند میں ڈبو دیا گیا۔ ( ٍیونس : ٩٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یھد لھم ۔۔۔۔۔ افلا یسمعون (26) تاریخ کی ہلاک شدہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ تمام بعد کے جھٹلانے والوں کے لیے عبرت ہے۔ اللہ کی سنت تو اس جہان میں جاری وساری ہے اور وہ کسی کی رو رعایت نہیں کرتی۔ یہ انسانیت ترقی اور زوال کے لیے الٰہی قوانین فطرت کے تابع ہے۔ اس کی کمزوری اور اس کی قوت کا راز الٰہی قوانین کے اتباع و انکار میں ہے۔ قرآن کریم بار بار اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اقوام کے عروج وزوال کے لیے اللہ نے خصوصی قوانین جاری کر رکھے ہیں اور یہ قوانین مسلسل جاری ہیں اور ماضی کے واقعات اور اقوام ہلاک شدہ کے آثار میں بڑی عبرت ہے۔ اس موضوع پر آزادانہ مطالعہ ہونا چاہئے تاکہ باقی آثار سے لوگوں کے دل بیدار ہوں ، ان کے اندر احساس پیدا ہو ، اور لوگ اللہ کی پکڑ اور انتقام سے ڈریں کیونکہ اللہ نے بڑے بڑے جباروں کو پکڑا ہے۔ پھر تاریخی مطالعہ ضروری ہے کیونکہ کوئی قوم زمان و مکان کے کسی گوشے میں گوشہ نشین نہیں ہوسکتی۔ نہ وہ اس نظام کو نظر انداز کرسکتی ہے جس کے مطابق انسانیت کی زندگی کا قافلہ آگے بڑھ رہا ہے اور صدیوں سے تسلسل کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ چونکہ اکثر اقوام نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ، اس لیے وہ نیست و نابود ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلاک شدہ اقوام کے آثار میں بہت ہی گہرا سبق ہوتا ہے اور یہ سبق بہت ہی خوفناک ہوتا ہے۔ بشرطیکہ دل شعور رکھتا ہو ، احساس و بصیرت موجود ہو۔ اگر کوئی اس سبق کو پڑھے تو پڑھنے والے پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ ضمیر کانپ اٹھتا ہے اور دل دہل جاتے ہیں۔ عرب جن کو ان آیات میں پہلی بار خطاب کیا گیا تھا وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اقوام عاد ، ثمود ، لوط کے آثار دیکھتے رہتے تھے۔ قرآن کریم ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے کہ ان اقوام کے آثار تمہارے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ تم رات اور دن ان پر سے گزرتے ہو ، لیکن تمہارے دلوں میں پھر بھی خدا کا خوف پیدا نہیں ہوتا۔ تمہارا شعور بیدار نہیں ہوتا۔ تمہارے احساسات کے اندر روشنی کی چمک پیدا نہیں ہوتی۔ اور تم اس قسم کے انجام سے بچنے کی کوئی تدبیر نہیں کرتے ہو۔ تم ہدایت اخذ نہیں کرتے اور احتیاطی اور انسدادی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ ان فی ذلک لایت افلا یسمعون (32: 26) ” اس میں بڑی نشانیاں ہیں کیا یہ سنتے نہیں “۔ ان کو چاہئے کہ ان لوگوں کے جو قصے قرآن کریم پیش کرتا ہے ان کو سنیں اور پھر ان کے انجام پر غور کریں۔ جبکہ رات اور دن ان لوگوں کے مساکن اور کھنڈرات سے یہ گزرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ ڈرانے والے کی بات سچی ہوجائے اور یہ بھی ہلاک ہوجائیں انہیں ہوش میں آجانا چاہیے۔ اس ہلاکت اور تباہی کے منظر کے بعد فکر و احساس کی اس بیداری اور خوف خدا پر ابھارنے اور ڈرانے کے بعد اور ان کے دلوں پر کپکپی طاری کرنے کے بعد ان کو ایک دوسری نشانی کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جو اس خوفناک فضا کے بعد بہت ہی خوشگوار منظر بتاتی ہے۔ دیکھو ایک مردہ زمین تمہارے سامنے پڑی ہوتی ہے ، خشک سالی سے سوختہ اور ہم اس کی طرف پانی چلانے ہیں۔ اس کے اندر زندگی حرکت کرنے لگتی ہے۔ جبکہ اقوام سابقہ کے حالات میں ہم نے پڑھا کہ اس طرح کی سرسبز اور شاداب اراضی کو اللہ بنجر بھی کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہلاک شدہ اقوام کے مساکن سے عبرت حاصل کرنے کی تاکید، کھیتیاں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں جن سے بنی آدم اور مویشی کھاتے ہیں جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے تھے اور اس تکذیب پر عذاب آجانے کی وعید سنتے تھے وہ عذاب آنے کی بھی تکذیب کرتے تھے اور یوں سمجھتے تھے کہ عذاب آنے والا نہیں یہ یوں ہی باتیں ہیں، ایسے لوگوں کو تنبیہ کے لیے فرمایا کہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی امتیں ہلاک کردی ہیں، یہ خبریں ان تک پہنچائی ہوئی ہیں اور ان لوگوں کی ہلاکت کے واقعات انہوں نے سن رکھے ہیں اور صرف سنے ہی نہیں آنکھوں سے بھی ان کی تباہیوں کے آثار دیکھتے ہیں، جب اپنی تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں (خصوصاً اہل مکہ جو تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے) تو یہ لوگ بربادشدہ اقوام کے کھنڈرات پر گزرتے ہیں تو ان کے قلعے گرے ہوئے اور مکانات ٹوٹے ہوئے اور بیکار پڑے ہوئے کنویں نظروں سے دیکھتے ہیں، کیا یہ بات ان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے، اگر فکر کریں اور تھوڑا سا بھی سوچیں تو یہ نشانیاں ہدایت کا سبب بن سکتی ہیں، جب یہ چیزیں نظر کے سامنے ہیں تو کیوں ہدایت حاصل نہیں کرتے، سورة الحج میں فرمایا (فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا وَھِیَ ظَالِمَۃٌ فَھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا وَبِءْرٍ مُّعَطَّلَۃِ وَّقَصْرٍ مَّشَیْدٍ ) (سو کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا اور حال یہ ہے کہ ان کے رہنے والے ظلم کرنے والے تھے، سو وہ اپنی ہی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے ہی بےکار کنوئیں ہیں اور پختہ بنائے ہوئے محل ہیں جو ویران پڑے ہیں۔ ) پھر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی جو قیامت کے منکر تھے اور یوں کہتے تھے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آتا ان کے بارے میں فرمایا کیا یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ زمین خشک پڑی رہتی ہے، اس میں ذرا بھی ایک سبز پتہ کا نشان بھی نہیں ہوتا ہم اس زمین کی طرف پانی روانہ کرتے ہیں جو بادلوں سے برستا ہے اور نہروں اور کنوؤں سے بھی حاصل کیا جاتا ہے جب یہ پانی زمین میں اترتا ہے تو ہم اس سے کھیتی نکال دیتے ہیں، یہ کھیتی ان کے کام آتی ہے اس سے ان کے جانوروں کا چارہ بھی بنتا ہے اور خود بھی یہ لوگ اس میں سے کھاتے ہیں، یہ مردہ زمین کو زندہ کرنا انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی زندہ مثال ہے اگر سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں یہ سب کچھ نظروں کے سامنے ہے کیوں نہیں دیکھتے ؟ سورة روم میں فرمایا (فَانْظُرْ الآی اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰہِ کَیْفَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰی وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (سو اے مخاطب اللہ کی رحمت کے آثار کو دیکھ لے وہ زمین کو اس کی موت کے بعد کیسے زندہ فرماتا ہے، بلاشبہ وہ ضرور مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ چیز پر قادر ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ اولم یھدلم الخ، یہ تخویف دنیوی ہے۔ کیا یہ چیز ان کی ہدایت کا باعث نہ ہوئی کہ ان سے پہلے ہم نے توحید کا انکار کرنے والوں کے قرنوں کے قرن تباہ وبرباد کردئیے۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے تجارتی سفروں میں ان تباہ شدہ قوموں کے ویران شہروں کے کھنڈروں پر اکثر گذرتے ہیں اور ان کی تباہی وہلاکت کے آثار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں ان اقوام متمردہ کی تباہی و بربادی میں عبرت و نصیحت کے بیشمار نشان موجود ہیں۔ بشرطیکہ ان میں فکر و تدبر سے کام لیا جائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26۔ کیا ان کفارم کہ کیلئے یہ امر سبق آموز نہیں ہوا اور ان کے لئے یہ امر موجب رہنمائی نہیں ہوا کہ ہم ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کے برباد شدہ مکانوں کے پاس سے یہ گزرتے اور آتے جاتے ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ اس انقلاب اور ہلاکت میں بڑی نشانیاں ہیں کیا یہ لوگ سنتے نہیں ۔ یعنی پیغمبروں کی نافرمانی اور ایذا رسانی کی بدولت عاد وثمود اور قوم لوط کی بستیاں ہلاک و تباہ ہوچکی ہیں تو کیا ان تباہ شدہ بستیوں کی تباہی جن کو ہم ان کی نافرمانی کے باعث تباہ کرچکے ہیں ان کفار مکہ کے لئے موجب رہنمائی نہیں ہیں اور یہ ان کی تباہی سے سبق حاصل نہیں کرتے حالانکہ یہ سفر میں جاتے آتے ان بستیوں کے پاس سے گزرتے بھی ہیں ان بستیوں کی ہلاکت و تباہی میں بلا شبہ بڑی عبرت آموز نشانیاں ہیں کیا یہ ان لوگوں کے واقعات اور گزشتہ امم کے قصے سنتے نہیں اب آگے قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے پر یقین لانے کی بات فرمائی۔